Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

علم الجنین و تخلیق جنین کے مختلف ادوار و مراحل قرآن کریم اور سائنس کے تناظر میں |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_968

Pages

121-145

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/183/171

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/183

Subjects

Embryology stages of creation Qura’n Hadith.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآنِ کریم ہمارے تمام دینی وشرعی تمدنی افکار ونظریات کا اساسی منبع وسرچشمہ ہے کیونکہ قرآنِ حکیم ایک زندہ جاوید معجزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر کتابی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک رہے گا اور ہمارے موجودہ تمام مسائل میں ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ قرآن کے عجائبات نہ کبھی ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی ختم ہوسکیں گے۔ خواہ دنیا کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائے مگر یہ واحد کلام عربی ہے کہ ہر قسم کے اذہان کو مطمئن کرنے کے لیے معارف ودلائل پوری طرح رکھ دئیے گئے ہیں۔ جس کی بنیاد پر یہ مجال نہیں رہتی کہ اس کتاب کی خداوندی ہونے میں کوئی شک یا انکار کرسکے۔ سوائے بعض مریض القلب ، فاتر العقل ، فاسد الفکر کے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے ہر آنے والے زمانہ کی رعایت بھی محفوظ رکھی ہے۔ مولانا شہاب الدین ندوی رقمطراز ہیں کہ ایک زمانہ تھا جس میں اعلیٰ درجہ زبان دانی، فصاحت وبلاغت کا دور دورہ تھا قرآنِ کریم نے ایسا ادب پیش کیا کہ سب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ "والله ما هو قول البشر" [1]کہنے پر مجبور ہوگئے۔

قرآن بطور چیلنج ابھی تک موجود ہے جب ادب اور زبان دانی کا معیار برقرار نہ رہ سکا تو قرآنِ کریم کی دوسری صفات ، خصوصیات منظرِ عام پر آنے لگیں اورا س عقلی ، نقلی اور منطقی استدلالات اور مسحور کن قطعی ومسکت دلائل نے لوگوں کو مبہوت کرنا شروع کردیا۔

پھر ایک زمانہ آیا کہ قرآن کریم کی عقلی وفطری تعلیمات کے ڈنکے بجنے لگے اور ان تعلیمات کی ہمہ گیری نے نوعِ انسانی کو حیران وششدر کردیا۔ آج کل چونکہ سائنس کا دور دورہ ہے اور لوگوں کے ذہنوں پر سائنس اور سائنٹفک مسائل چھائے ہوئے ہیں بلکہ ہر بات کو سائنس ہی کی عینک سے دیکھنے کا رجحان عام ہوگیا ہے۔ تو قرآن کریم بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہ جاتا اگرچہ قرآنِ کریم سائنس کی کتاب نہیں بلکہ رشدوہدایت کی کتاب ہے پھر بھی ایسا فطری علوم سے لبریز ہے کہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے کا پورا پورا سامان وتریاق بھی اس کے خزانہ عامرہ میں موجود ہے۔([2])

اس سلسلہ میں ایک اہم مسئلہ علم الجنین Embryology کو دنیا سائنس نے بیسویں صدی میں معلوم کیا جبکہ سترہویں تک ریسرچ یہ تھی کہ صرف مرد ہی کا نطفہ مکمل انسانی شکل کی عکاسی کرتا ہے لیکن اٹھارہویں صدی میں حالت اس وقت بدل گئی جب ان کو عورت کے سیل کا انکشاف ہوا کہ یہ سب سے بڑی اہم بنیادہے بچہ کی خلقت میں مرد کا نطفہ صرف افزائش کا کردار ادا کرتا ہے اور جب بیسویں صدی میں ریسرچ آخری مراحل میں داخل ہوگئی، معلوم ہوا کہ یہ کام مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور ماں کا پیٹ لیبارٹری کی طرح ہے جبکہ قرآن کریم اس مسئلہ کی باریک تصویر پیش کرکے حقائق کو بیان کیا جو پندرہ صدی قبل یہی حقائق سائنس والوں کے دماغ سے اوجھل تھے، لہٰذا سائنس کی دنیا نے الٰہی کتاب کے اس پوشیدہ اور دقیق ادوار کے تذکرہ نے ششدر کردیا اور اس اعتراف پر مجبور کیا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا اور اس علم کے سرخیل ڈاکٹر کیتھ مور جو علم الجنین کے ماہر اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو کینیڈا میں اناٹومی، ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین تھے۔ 1981ء میں دمام سعودی عرب میں منعقدہ ساتویں میڈیکل کانفرنس کے دوران ڈاکٹر مور نے کہا کہ انسانی ارتقاء سے متعلق قرآنی بیانات سمجھنے میں مدد کرنا میرے لیے نہایت مسرت کا باعث رہا ہے۔ اور قرآن وحدیث میں بیان شدہ معلومات علم الجنین کے جدید ترین انکشافات سے مکمل طور پر متفق ہیں۔ پروفیسر کیتھ مور نے 80 سوالات کے جوابات دئیے اور کہا کہ اگر تیس سال قبل یہ سوالات مجھ سے پوچھے گئے ہوتے تو سائنسی معلومات کی کمی کی وجہ سے میں ان سے آدھے سوالات کا جواب دینے کے قابل نہ ہوتا۔([3])

کیتھ مور کے اعتراف نے ثابت کیا کہ قرآنِ کریم کلامِ الٰہی معجز اور حق ہے جسے ہمیں بسروچشم تسلیم کرنا چاہیے۔ جبکہ علم الٰہی اور علم انسانی کسی مسئلہ میں ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں تو یہ نور علیٰ نور ہے ۔ "يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ "[4] کا مصداق ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حقائق اور انسانی یقینی علم وتجارب کے درمیان کوئی ٹکراؤ اور تضاد نہیں کیونکہ دونوں کا منبع اور سرچشمہ ایک ہے۔

علم الأجنة کو Embryology کہا جاتاہے.

علم تخلیقِ انسانی کی قرآنِ کریم نے اس اہم کائناتی عنصر کی خلقت کے مراحل کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ فرمایا:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ ، ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"([5])

ترجمہ: اور یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنایا پھر ہم نے نطفہ کو جو نکیلا بنایا۔ پھر ہم نے جونکیلے کو ایک لوتھڑا بنایا ، پھر ہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنایا ، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک بناوٹ دی، برکتوں والا وہ اللہ جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔

تقریباً 14 صدیاں گزر گئیں کہ قرآنِ کریم نے اور احادیث شریفہ نے انسان کو ولادیت سے ماں کے رحم میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ حقیقت آشکارہ کی ہے اور یہ حقیقت سائنسدانوں کو انیسویں صدی میں معلوم ہوئی۔ جب دوربین ایجاد ہوئی۔ سترہ صدی میں تو سائنسدانوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مرد کے مادہ منوی ہی انسان صغیر کے کامل خلقت کے حامل ہیں۔ یہ بات مشہور علم الجنین کے ماہر کیتھ مور نے ذکر کی۔

اس تصور نے عورت کے کردار کو جو جنین کی تخلیق سے وابستہ ہے یکسر نظرانداز کیا ۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے کچھ علماء نے یہ ثابت کردیا کہ یہ چھوٹا انسان تو عورت کے مادہ معنوی کے اندر موجود ہوتاہے ۔ بناء بریں مرد کے کردار کو نظرانداز کردیا ہے۔

اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ نشوونما پانے والے کامل انسان حمل کی ابتداء سے موجود ہے۔ لیکن مسلسل تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آگئی کہ رحم کے اندر جنین کی نشوونما مختلف مراحل سے گزر کر ہے ان مراحل کے تعین ، ماہرین کے لیے مشکل تھا اس لیے کہ ان مراحل کی حقیقی پہچان ان کے بس میں نہیں تھی صرف وصفی بیان پر مبنی معلومات تھیں۔

لیکن جب قرآنِ کریم نے ان مراحل کا ذکر کیا اور ہر مرحلہ کی نشوونما کے لیے خاص نام اور وقت محدود کیا اور مصطلحات وضع کیں۔ مثلاً* پہلا مرحلہ: نطفہ، قرار مکین ۔ رحم مادر،

  • دوسرا مرحلہ: العلقہ
  • تیسرا مرحلہ: المضغفہ
  • چوتھا مرحلہ: العظام
  • پانچواں مرحلہ: اللحم
  • چھٹا مرحلہ: انشاء الجنین

یہی مصطلحات علماء سائنس کے لیے مقبول ہیں چاہے جنین کی ظاہری یا باطنی ۔ قرآن حکیم نے رحم کو قرار مکین قرار دیا۔ جدید سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا کہ مذکورہ دونوں صفتیں رحم کے لیے خاص ہے اور رحم کے جملہ ایکٹیویٹ کے حامل ہیں۔

قرآنی مفاہیم ہماری اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ نطفہ ، علقہ اور مضغہ جنین کے چھوٹے نشوونما کی حالت کی عکاسی ہے۔ نطفہ کا قطرہ شائد آپ خوردبین کے ذریعہ سے دیکھ لیں .یہ حالات پہلے کسی کو معلوم نہیں تھے جب انیسویں صدی کی آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی زمانہ آیا تو ان تفصیلات تک رسائی ممکن ہوسکی جس کو قرآن نے 14 سو سال پہلے بتلایا تھا۔

قرآنی اصطلاحات کے قواعد اور اعجاز علمی

قرآنِ کریم نے جنین کے ہر ایک مرحلہ میں صفات اور خواص کا ذکر کیا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ "([6])

مفسرین نے فرمایا کہ خلقاً بعد خلق سے مراد نطفہ، علقہ اور مضغہ ہی ہے۔

قرآنِ حکیم نے ایک مرحلہ کو نام دیا ہے: " ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً " يعني علقمہ کی شکل دی، "فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً " یعنی علقہ سے مادہ والی شکل ممضوغہ بنایا۔ "فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا" یعنی ہیکل عظامی پھر "فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا" یعنی ہم نے ہیکل عظامی کو عضلات پہنایا۔

ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ" "فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ" یعنی شکل انسانی([7])

اس سے معلوم ہوا کہ یہ مختلف حالات ومراحل ان تغییرات کا نتیجہ ہے جو اس کے اندر بالترتیب کا رونا ہے۔ قرآنِ کریم نے انسانی خلقت رحم مادر کے اندر کے مختلف اطوار کو چھ مرحلوں میں ذکر کیا ہے۔

پہلا مرحلہ : نطفہ

نطفہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔

1۔ بمعنیٰ قطرہ: یہ حضرت أسامة بن زيد عن عبد الله بن يزيد کی حدیث سے واضح ہوجاتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ "

خرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَكَبَّرَ ، ثُمَّ أَشَارَ إِلَيْهِمْ ، فَمَكَثُوا ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَاغْتَسَلَ ، وَكَانَ رَأْسُهُ يَقْطُرُ مَاءً ، فَصَلَّى بِهِمْ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : إِنِّي خَرَجْتُ إِلَيْكُمْ جُنُبًا ، وَإِنِّي نَسِيتُ حَتَّى قُمْتُ فِي الصَّلَاةِ "[8] یعنی اس نے غسل کیا بال سے قطرے گر رہے تھے۔

2۔ دوسرا معنیٰ پانی کی معمولی مقدار جس کی طرف امام قرطبی اور امام رازی نے اشارہ کیا ہے کہ نطفہ سے مراد تھوڑا سا پانی ہے۔([9]) قرآنِ کریم نطفہ کا لفظ جنین کے پہلے مرحلہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ اور یہ مرحلہ مرد کے تھوڑے سے پانی نطفہ اور کچھ والدہ کے سیال مادہ بیضہ پر مشتمل ہوتاہے۔

قرآن پاک کی زبان میں نطفة أمشاج کے لیے ہیں اور یہی مخلوط مادہ نشوونما پاکر قرار مکین میں جگہ لے لیتا ہے۔ قرآنِ کریم نے اس مرحلہ اول کو خاص نام دیا تاکہ انسانی تکوین کے لیے اہم بنیاد ثابت ہوسکے۔ جبکہ علماء تشریع غیر مسلم ہے یہی تصور اپنائے ہوئے تھے کہ جنین حیض کے خون سے بنتا ہے۔ اور یہ عقیدہ رائج رہا یہاں تک کہ سولہویں صدی میں دوربین میکروسکوپ کی ایجاد ہوئی جس سے مرد کے سپرم اور مادہ کے بویضہ کا انکشاف ہوا۔ دونوں حمل ٹھہرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ([10])

لہٰذا علم وسائنس نے قرآن کے علم اور علماء مفسرین کی تفسیروں کو قبول کرلیا اور قرآنی حقائق کو معجزہ تسلیم کرلیا۔

القرار (محل استقرار اور تمکین)

قرار کا معنی بھی محل دستور ہی ہے۔([11])اس سے جنین کا رحم سے تعلق کا معنی فہم کیا جاتا ہے۔ امام زبیدی کے بقول کہ قرار کا معنی استقرار ہے۔([12]) اس کا معنی یہ بھی ہے کہ کسی جگہ پانی رکھ دیا جائے تو اس کو قرار کہا جاتا ہے۔([13]) اور محل سے مراد وہ ہے کہ نطفہ رحم ہی میں جائے استقرار حاصل کرے اس کو قرآن نے قرار کہا ہے۔ اور یہی رحم نطفہ کا محل استقرار ہے جس میں نو مہینہ رہ جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی جسم جو اجنبی چیز کو قبول نہیں کرتا لیکن جنین کو رحم میں بطور مہمان پالتا ہے اور پرورش کرتا ہے۔ اور یہی رحم اپنے بے شمار عضلاتی نظام سے جنین کے تدریجی نشوونما کے لیے ٹھکانہ فراہم کرتا ہے۔ تاکہ یہ برابر بڑھتے رہیں۔ یہی رحم جنین کو ایک سائل مادہ اور مضبوط عضلاتی دیوار کے اندر مناسب نشوونما کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے جس کو قرآنِ کریم نے قرار مکین سے تعبیر کیا ہے۔ مکین کا معنی ثابت اور مضبوط کا ہے جو رحم اور مادہ کے جسم کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ البتہ رحم جسم کے وسط حوض کے درمیان جس کے ارد گرد ہڈی اور عضلات اور مٹی احاطہ کرکے محفوظ بنایا ہے اور یہی رحم اپنے ذمہ داری پوری احتیاط سے ادا کررہا ہے۔

دوسرا مرحلہ: العلقہ

کلمہ علقۃ سے علماء مفسرین نے کئی معانی اخذ کیے ہیں:

علقہ کا معنی ہے۔ جما ہوا خون۔ جیسا کہ امام قرطبی نے اشارہ کیا ہے۔ لغت کے مراجع نے بھی خوں یابستہ خون سے تعبیر کیا ہے۔ البتہ امام قرطبی نے اور ابن جوزی نے کہا کہ علقہ خون منجمد مگر اس میں رطوبت موجود ہو ورنہ خون نہیں ہوگا۔([14])

مفسرین نے علق سے مراد حیوان کیڑہ جو کالے رنگ کے پانی میں بسنے والا ہو آدمی کے جسم سے چمٹ کر خون چوس رہا ہے۔ تو علق تعلق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی الضاق والتعلق بالشیء قرآن ِ کریم نے علق کے متعدد معانی بیان کیے ہیں ان ہی میں سے علق کا معنی انسان کی نشوونما کا دوسرا مرحلہ بھی ہے۔ اب اس بارے میں سائنس کا موقف معلوم کرنا ضروری ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ جو نطفہ چھٹی دن میں رحم کے ساتھ پیوست ہوجاتا ہے تو فوراً نشوونما شروع ہوجاتی ہے اور رحم کے دیوار کو کُرکنا کو کرنا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ لگ جاتے ہیں۔ یہ کاروائی ایک ہفتہ یا کچھ زیادہ دنوں میں ہوتی ہے تاکہ نطفہ پوشیدہ تکوینی عمل سے گزرتا جائے۔ اس سے قرآن نے اس کو علقہ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی التصاق امتزاج علقہ کا ایک اور معنی کیڑا ہے جو جنین اپنی کردی شکل کو کھو جاتے ہیں بلکہ وہ لمبا ہوکر علقہ کیڑے کی طرح اپنی غذا ماں کے خون سے حاصل کرتے ہیں جیسا کہ دیگر چمٹنے والے کیڑے کرتے ہیں۔([15]) اگر ہم علقمہ کا پہلا معنی لیں یعنی لوتھڑا تو ہم کو جنین کی خارجی منظر یہی نظر آتا ہے۔ کہ وہ خون کے کسی حوض میں ہے جو جنین کے جسم میں تیسرے ہفتہ میں پھیل جاتے ہیں۔ اور درحقیقت اس کا دل اور گردش کے نظام بھی وجود میں آجاتا ہے۔ اور دل خون کے محور پن کو گردش کرتی ہے۔ قرآنی تعبیر انسانی نشوونما کے دوسرے مرحلہ کی عکاسی کرتا ہے جس کے خارجی منظر کیڑے کی طرح اور داخلی خونی لوتھڑا کی طرح منظر پیش کرتا ہے۔

تیسرا مرحلہ: مضغفہ

اس کے کئی معانی ہیں:

پہلا: کوئی چیز جس کو دانت نے چبایا ہو، یہ معنی زبیدی اور ابن فارس نے لیا ہے۔ اس سے مراد مضغ الطعام بھی ہے۔

دوسرا معنی : گوشت کا ٹکڑا جسے چبایا جائے۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اتنا حجم میں جیسے چبایا جاسکے۔

اب جنین کی یہ صفت داخلی پر دلالت کرتی ہے۔ علم وسائنس کی رو سے یہ وہ مرحلہ ہے جس میں جنین اپنے لیے غذا کرتا ہے اور اس کی نشوونما تیزی سے ہورہی ہے۔ اور جسمانی اعضاء کی ترکیب ہڈی اور پھر تکوینی مراحل طے کرتے ہیں۔ موجودہ علم تخلیق انسانی نے مضغہ کا صحیح مفہوم استعمال کرکے اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اس مرحلہ میں جنین اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عام جنین کے مظہر کو تبدیل کرکے جسمانی شکل اختیار کرتا ہے البتہ جسم غیر متوازن ، غیر متساوی منظر سے دوچار ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے دادا سے ذکرکیا جو وقفہ تاخیر کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ نتائج وتتواصل کا مفہوم رکھتا ہے۔ البتہ تیسر امفہوم کہ جنین مضغہ کی شکل میں جسے چبایا جاسکتا ہے تو یہ جنین کی چھوٹی شکل کی نشاندہی کررہے ہیں۔

چوتھا مرحلہ: العظام

انسانی نشوونما کے مراحل میں اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جنین کی شکل بمع مجموعہ صفات تدریجی طورپر آگے بڑھ رہے ہیں تو اگلا مرحلہ عظام کا ہے جس کو قرآنِ کریم نے ذکر کیا ہے۔ کہ اس مضغہ نے ہیکل عظمیٰ کا روپ اختیار کیا ہے۔

یہ بات علم الاجنہ کے ماہرین نے بھی ذکر کی ہے کہ جنین مرحلہ مضغہ میں مکمل تبدیلی کا مظہر ہوتا ہے۔ لیکن یہ تب ہوگا جب اس کے ساتھ مرحلہ رابعہ جو ہیکل عظمیٰ ہڈیوں کا ڈھانچہ مکمل ساتھ دیدے اور انسانی شکل کے نشوونما داخلی اعضاء کی تقویت عملاً شروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً مرحلہ مضغہ چھٹا ہفتہ سے شروع ہوتا ہے تو مرحلہ ہیکل عظمیٰ ساتویں ہفتہ کے بعد اللہ پاک ان کی طرف فرشتہ بھیج دیتا ہے۔ تو اس کی صورتِ تکوینی سمع وبصر ، جلدوگوشت اور ہڈی کی افزائش کا عمل لایا جاتا ہے۔ ([16])

پانچواں مرحلہ: اللحم گوشت پوست

انسان کی خلقت تکوینی کے پہلے مرحلہ میں کوئی ہڈی یا عضلات نہیں ہوتے۔ آہستہ آہستہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ہڈیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ دیگر عضلات سے پہلے جب بھی ہڈی کی نشوونما شروع ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ عضلات اور رگوں کا جال بھی بننا شروع ہوجاتا ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے: " فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا " جدید علم الاجنہ نے بھی اس ظاہری تطورات کی تائید کی ہے کہ عضلات ہڈی اس کے بعد گوشت بنایا جاتا ہے، " فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا " اس وقت سے انسانی شکل جنین کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔

البتہ گوشت کا مرحلہ آخری ہوگا اس لیے کہ مضغہ ہی خلقت وتولد کی صفات سے آراستہ ہوجاتے ہیں جو تکمیل کے مراحل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ اہم کام آٹھویں ہفتے کے آخر تک پورا ہوجاتا ہے۔ اور نواں ہفتے میں انسانی شکل کے نشوونما میں آخری کڑی آپہنچے(اللہ نے فرمایا " ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ " اس میں قرآن واوکے ذریعہ معمولہ فاصلہ کی حد طے کیا اور کلمہ ثمّ کے ذریعہ طویل مدت کی نشاندہی کی ہے۔

چھٹا مرحلہ: نشأ ۔ مرحلہ الجینیہ

نشأۃ کا معنی نشوونما ترقی یا اعلیٰ طرف حرکت نمو۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا "

ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ" "فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"[17]

مفسرین نے یہ معنی ذکر کیا ہے کہ جنین ہی روح کا حلول یا جنین کو مزید ترقی دیکر اسکو مخلوق ناطق سامع بصیر بنایا۔

جب یہ کلمہ انسان کے بارے میں استعمال ہو تو اس سے مراد پہلا معنی ہوگا یعنی نشوونما ترقی جدید سائنسی معلومات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ رحم میں جنین کی نشوونما کے لیے یہ معنی ہی مناسب ہے۔ ماہرین نے کہا کہ جنین آٹھویں ہفتہ (گوشت کی نمو) ایسے اعضاء کو مکمل کرکے نئے مرحلہ میں داخل ہوجاتاہے اور جب نواں ہفتہ میں داخل ہوجائے تو بچہ نئی زندگی ، نئی صفات کا حامل بن جاتا ہے۔مثلاً

1۔ تیزی سے نشوونما پاتا ہے

2۔ جنین کی طبیعت میں تبدیلی اور اعضاء میں نمو پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جسم انسانی کے نرم عضلاتی نظام میں مضبوطی اور روز افزوں نشوونما آجاتی ہے۔ اور ان کے سر کا حجم جسم کے دیگر اعضاء میں بھی توازن آجاتا ہے۔ جسم پر بال اور بڑہوتی آجاتی ہے۔ وزن میں بھی زیادتی اور تناسلی اعضاء ، خارجی میں نمو ظاہر ہوجاتی ہے تاکہ جنس کا تعین بآسانی ١٢ ہفتہ میں نمایاں تبدیلی کا مظہر ہے۔ جیسا کہ قرآن نے خلق آخر سے تعبیر کیا۔

3- اعضاء اور نظام جہاز کے نشوونما میں تیزی:

بہت تیزی سے جسم کے مختلف نظام اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ اور جنین مخلوق آخر کا مصداق ناطق سمیع وبصیر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

4۔ سائنسی تجارب نے اس بات کی تحدید نہیں کی کہ جنین میں روح کب حلول کرجائے گی۔ کیونکہ روح علوم تجربی کے دائرہ فہم سے باہر ہے لہٰذا یہ مرحلہ ان کے نزدیک مجہول ہے۔ جیسا اللہ نے فرمایا: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ "([18])

یہی وہ راز ہے کہ تیزی سے انسانی جسم اور دیگر قوتوں میں نشوونما تدریجاً رونما ہوتی ہے۔"فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ" ([19])

ایک مشہور انگریز "ڈاکٹر کیتھ مور" نے ایک کتاب لکھی ہے ڈی ڈیویلپنگ ہیومن یعنی نشوونما پاتا انسان-

اس نے کہا ہے کہ انسانی ارتقاء سے متعلق قرآنی بیانات سمجھنے میں مدد حاصل کرنا میرے لیے باعث مسرت رہا ہے اور مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ بیانات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضرور خدا یا اللہ کی طرف سے آئے ہوں گے کیونکہ یہ علم کئی صدیوں بعد تک دریافت نہیں ہوا تھا۔ یہ بات مجھے اس بات ثبوت دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور خدا یا اللہ کے پیغمبر رہے ہوں گے۔ ([20])

الاعجاز القرآنی جنین کی نشوونما قرآن اور سائنس کے تناظر میں

قرآن ِ کریم نے جنین کی نشوونما کے مراحل کا تذکرہ بہت دقیق انداز میں کیا ہے جس کو اب جا کر سائنس ثابت کرسکی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔

علم جنین اور علم تشریح کے مشہور ماہر کیتھ مور جو ٹرنٹو کینیڈا میں ہیں جس نے جینیٹکس میں اعلی مہارت حاصل کی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں گواہ ہوں کہ اللہ نے جو معجزہ خلقت انسان کے مراحل کا ذکر قرآن میں کیا ہے۔ یہ حضرت محمد اور نہ کسی اور شخص کی دسترس میں یہ معلومات ہے جو کچھ مادررحم میں نشوونما تبدیلی رونما ہوجاتی ہے کیونکہ یہ تفصیلات حال ہی میں بیسویں صدی میں دریافت ہوئی ہیں۔ جبکہ قرآن نے وہ دقیق معلومات جنین کے مختلف جسمانی ساخت ترقی کے مراحل کا ذکر کیا ہے۔ جو عام ماہر اس سے قاصر ہے۔ جو کچھ میں نے پڑھا مکمل قرآن کے اندر بے شمار آیات اس پر دلیل ہیں۔ ([21])

نیز احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا وہ سچا ہے : "إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوماً نطفة ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يرسل إليه الملك فينفخ فيه الروح ويؤمر باربع كلمات"([22])

ایک اور حديث میں ہے کہ:

"فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها ثم قال يا رب أذكر أم أنثى ".([23])

نطفہ 42 راتوں یعنی 6 ہفتوں کے بعد اس میں تصویر کشی شروع ہوکر انسانی شکل کی نشوونما کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ مگر ہر ایک مرحلہ دوسرے سے مختلف ہے۔ جبکہ لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ بچہ کامل مکمل پیدا ہوتا ہے پھر اس کی بڑھوتی شروع ہوتی ہے۔ اور خلیہ تکاثر کا انکشاف اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا تقریباً پیغمبر اسلام کی بعثت کے بارہ صدیوں کے بعد جس نبي كو اُمى کا لقب ملا ہے ان کو ان جملہ تفصیلات کی کیا خبر یہ علم یہ دقیق معلومات کہاں سے حاصل کیں جو اب ایک حقيقت ہے کہ یہ سب کچھ وحی کے ذریعہ معلوم کیا گیا ہے۔ جبکہ سائنس نے ان حقائق کو اس طرح معلوم کیا کہ جنین مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مثلاً:

جنین کی تشکیل چھٹے ہفتہ سے شروع ہوتی ہے مگر اس كا عظمی ڈھانچہ تب شروع ہوتا ہے جب مضغتی مرحلہ کی تکمیل پاکر جنین کی ہیکل عظمی انسانی جو ساتویں ہفتے سے شروع ہوتا ہے اور اس مرحلہ میں ہیکل عظمیٰ کے ذریعہ سے جنین انسانی مظہر پاتا ہے۔

قرآنِ کریم کی روشنی میں:

عظام کی جو اصطلاح قرآنِ کریم نے ذکر کی ہے درحقیقت بظاہر جنین کی نشوونما کے مراحل اور زندگی کی ابتداء سے دقیق تعبیر ہے اس سے جنین کے جسم کے مختلف مراحل داخلی نشوونما کی عکاسی ہوتی ہے۔ جس کا ابتدائی مرحلہ مضغہ سے ہے۔

" فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"([24])

اس مرحلہ کی نشوونما میں عظام کی تشکیل کا اہم کردار ہے اس لیے یہ مرحلہ شکل مضغوی سے جس میں انسانی کے کوئی نمایاں آثار نظر نہیں آتے بلکہ اس مرحلہ کے آخیر میں ایک اہم مرحلہ مظہر آدمیت کے پیش خیمہ ضرورہے۔ جو اگلے مرحلہ عظام میں تیزی کے ساتھ تکمیل پاتا ہے اور اس مرحلہ کو ساتویں ہفتہ ہی میں جنین انسانی شکل وصورت میں ظاہر ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے حرفِ عطف فاء کو استعمال کیا ہے جو فوری تسلسل کی علامت ہے۔ اورا س مرحلہ میں ہی گوشت پوست اور دیگر اعضاء جیسے آنکھیں، ناک، ہونٹ اور سر کے ظہور ہوتا ہے اس مرحلہ میں نطفہ پر ٤٢ دن گزرے ہیں جس میں اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ مامور کیا جاتا ہے تاکہ جسم سے تمام اعضاء کو الگ الگ شکل وصورت دی جائے۔ بعینہ یہی مرحلہ وار تکوینی اطوار کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک کے ذریعہ بیان فرمایا کہ جب جنین تکوینی مراحل کے 42 رات پوری کرجائے (اور کان آنکھ جلد گوشت ہڈیاں مکمل ہوکر) تو اللہ تعالي سے فرشتہ عرض کرے گا اے اللہ اس کو نر یا مادہ بنائے۔ یہ روایت صحیح مسلم میں ذکر ہے۔

مرحلہ گوشت پوست سائنس کی نظر میں

سائنس اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ جب ہیکل عظمیٰ اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو تب گوشت اور پوست کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے تاکہ انسانی شکل وصورت ظہور پائے اور تمام اعضاء کا جسم کے ساتھ رابطہ منظم طریقہ سے جوڑ دیا جائے اور تب جنین حرکت کرسکے گا اور یہ تکوین مرحلہ آٹھویں ہفتہ کے اختتام تک جاری رہے گا۔

گوشت پوست کا مرحلہ قرآن کی نظر میں

قرآنِ کریم نے واضح طور پر اس مرحلہ کا ذکر کیا ہے اور حدیث نے وضاحت کرکے ساتویں ہفتہ سے شروع ہوکر آٹھویں ہفتہ کے اختتام تک یہ جاری رہتا ہے۔ قرآن اس سے تعبير كسونا العظام لحما سے کیا ہے۔ کسا کا مطلب ہے مکمل عضلاتی نظام کا جال بچھانا اور یہ مرحلہ عضلات پوشی ، گوشت پوشی کے ساتھ ساتھ مکمل ہوجائے تب جسم کے اعضاء کا مکمل دقیق نظم نسق سے جوڑ دیا جاتا ہے اور جنین انسانی شکل وصورت کے مظہر پاتا ہے اور اس کے بعد جسم انسانی کے دیگر ضروری عناصر تکمیل پاتے ہیں۔ اور حرکت کرنے لگ جاتا ہے۔ اور یہ مرحلہ تین ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے اس مرحلہ کو قرآن نے مرحلہ نشأ اخریٰ سے تعبیر کیا ہے جس کو سائنس نے Embryo سے تعبیر کیا ہے۔ جس میں انسانی اعضاء کا ظہور خارجی انگلیاں تناسلی اعضاء جس کو Fetus سے تعبیر کیا تکمیل پاتا ہے اور نمایاں شکل پذیر ہوجاتے ہیں۔

خلا صۃ البحث

ان تمام قرآنی اور سائنسی حقائق کے علمی موازنہ کا ذکر دقیق انداز میں پیش کیا جو موجودہ سائنس کے علمی حقائق اور تجارب کے عین مطابق ہے یہ قرآنی اعجاز کی بڑی دلیل ہے۔ پروفیسر کیتھ مور نے واضح اعتراف کیا کہ اٹھارہویں صدی نے میکروسکوپ کے ترقی سے اس نتیجہ پر پہنچ گیا ہوں کہ وہ نظریہ غلط تھا کہ انسان مکمل ہی نطفہ کے ذریعہ رحم مادر میں پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ اب معلوم ہوا کہ نطفہ اور بویضہ دونوں ملا کر حمل کے لیے ابتدائی بیج کا ذریعہ فراہم کرتا ہے اور یہ کام مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے مکمل ہوجاتا ہے۔ قرآن نے جو دقیق حقائق کا انکشاف کیا تھا وہ سچ اور قرآنی اعجاز اور وحی الٰہی کا مظہر ہے۔ ([25])

"سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ"([26])

عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہرچیزکودیکھرہاہے.

 

حوالہ جات

  1. حواشی و حوالہ جات
    ألباني،ناصر الدين، صحيح السيرة النبوية ، مكتبه اسلامية ، عمان ،2001م ،ص:159
  2. - ندوی ، شہاب الدین ،اسلام اور جدید سائنس ،مطبوع مجلس نشریات اسلام کراچی، ص: 67
  3. - نائیک، ڈاکٹر ذاکر ،بائبل اورقرآن جدید سائنس کی روشني میں ، دار النوادر،لاہور،ص:46
  4. - القرآن: النور24 :35
  5. - القرآن : المومنون 23 :12-14
  6. - القرآن: الزمر 39 :6
  7. - القرآن : المومنون23 :12-14
  8. : "السنن ابن ماجه " (1220) ، والدارقطني (1/361) ، والبيهقي "السنن الكبرى" (2/397)
  9. - ، رازی ،فخر الدين ، (مفاتيح الغيب) تفسیر کبیر ، ج9 ص12،دار الفكر،1981م ، ج9 ص12مزيد تفصيل کے لیے ديكھیں: تفسیر ابن کثیر، ج3 ص251 ، الشوکانی، تفسير فتح القدير، ج3 ص4838، الآلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی ج10 ص21
  10. - مورکیٹ، تطور الانسان، 1982ء ط3سانڈر ویلاد ویربا۔ ص10
  11. - ابن منظور،لسان العرب، دار إحياء التراث العربي-بيروت،1999م، ج5 ص 82
  12. - الزبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس،طبعه الكويت، ص:28 ص877
  13. - ابن منظور،لسان العرب، ج5 ص84
  14. - الآلوسي،روح المعانی ، دارالفکر بیروت، ج10 ص172 ،ابن کثیر، ج4 ص483
  15. - ابن کثیر ،تفسیر القرآن العظيم ، ج3 ص251
  16. - رواہ مسلم ، حديث نمبر:2645 ( كتاب القدر- باب كيفية خلق الآدمي في بطن أمه و كتابة رزقه)
  17. : القرآن : المومنون 23:12-14
  18. - القرآن : الاسراء 18 :85
  19. - القرآن : المومنون 23:12-14
  20. - نائیک، ڈاکٹر ذاکر ،بائبل اورقرآن جدید سائنس کی روشني میں ،ص:46
  21. - وصف الخلق البشری ، یہ علمی مقالہ ڈاکٹر کیتھ مور اور عبدالمجید زندانی اور ڈاکٹر مصطفی احمد نے پہلی عالمی کانفرنس ، اعجاز القرآن والسنہ میں 1987ء میں پیش کیا اور علم الاجنہ فی ضوء القرآن والسنہ کے نام سے کتابی شکل میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے شائع كيا
  22. - رواہ بخاری ومسلم، انظر فتح الباري شرح البخاري كتاب بدأ الخلق باب ذكر الملائكة 6/10303
  23. - ر واہ مسلم ، حديث نمبر:2645 ( كتاب القدر- باب كيفية خلق الآدمي في بطن أمه و كتابة رزقه)
  24. - القرآن : المومنون23 :14
  25. - كريم ، د. صالح عبدالعزيز ،المدخل إلى علم الاجنة الوصفى والتجريبي ، ط دار المجتمع جدة
  26. - القرآن : فصلت 41:53
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...