Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 4 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

عہد نبوی میں حفاظت قرآن سے متعلق مستشرقین کے اعتراضات کا علمی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029336_971

Pages

64-75

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/118/107

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/118

Subjects

Criticism Preservation Qurā’n Hadith Orientalists

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

استشراق کی لغوی تحقیق

استشراق عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کا مادہ [ شرق]باب نصر ینصر سے ہے جس کامطلب ہے روشنی اور چمک۔ جیسے کہا جاتا ہے ۔ شرقت الشمس أی طلعت ۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا [1]عربی میں کہا جاتا ہے أ شرق وجه الرجل أی أضاء و تلألأ حسنا [2]۔ اس کو مجازا سورج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

اسی سے اسم ظرف کا صیغہ [مشرق] ہے بمعنی سورج طلوع ہونے کی جگہ ۔ اور اگر یہ لفظ [الشرق] بکسر الشین مستعمل ہو تو اس کا مطلب ہوگا : الضوء الذی یدخل من شق الباب [3]۔

لفظ [شرق] کو جب باب استفعال سے استعمال کیا جائے تو اس کا مصدر [استشراق] آتا ہے ۔اور باب استفعال کی وجہ سے اس کے معنی میں طلب کا معنی پیدا ہوجاتا ہے تو گویا [استشراق] سے مراد مشرق کو طلب کرنا ہے۔ اور اس سے اسم فاعل [مستشرق] بکسر الراء بمعنی مشرق کو طلب کرنے والا آتا ہے۔

استشراق کی اصطلاحی تعریف

محققین استشراق کی اصطلاحی تعریف کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ۔ ذیل میں چند تعریفات ذکر کی جاتی ہیں ۔

۱۔ عمر فروخ (متوفی:۱۹۸۷م،۱۴۰۸ھ)کہتے ہیں کہالمراد بالمستشرق هو شخص غربي غير مسلم (من أوربا و أمريكه) يدرس اللغة العربية و بعض وجوه الثقافة الإسلامية [4]۔

مستشرق سے مراد اہل مغرب کا وہ شخص جو کہ عربی اور اسلامی ثقافت اور علوم کو سیکھے ۔

2۔ صاحب منجد نے اس کی تعریف یوں کی ہے ۔ هو العالم باللغات و الأداب و العلوم الشرقية [5].

مشرقی علوم ، آداب اور لغات کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے ۔

علی بن ابراہیم النملہ کہتے ہیں کہ مستشرقین سے مراد وہ غیر مسلم دانشور ہیں جو کہ مسلمانوں کے اعتقادات اور آداب و رسم و رواج کے بارے میں تحقیق کریں [6]۔

ان تمام تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی علوم و ثقافت اور ادب کے مطالعہ کا نام استشراق ہے۔ اور بظاہر مستشرقین اس سے مشرقی علوم کا مطالعہ اور تحقیق ہی مراد لیتے ہیں ، جیسا کہ ایڈورڈ سعید اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں:

“Anyone who teaches, writes about, or researches the orient and this applies whether the person is an anthropologist, sociologist, historian, or philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalist, and what he or she does is Orientalism[7]

’’جو کوئی بھی مشرق کے بارے میں پڑھاتا،لکھتا یا اس پر تحقیق کرتا ہے تو یہ پڑھنے لکھنے اور تحقیق کرنے والے ماہر بشریات، ماہر عمرانیات،مورخین اور ماہر لسانیات پر منطبق ہوتا ہے۔خواہ یہ لوگ اپنی خاص موضوع یا اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کررہے ہوں ’’ مستشرق‘‘ کہلاتے ہیں اور ان کا کیا جانے والا کام ’’استشراق‘‘ کہلاتا ہے‘‘ ۔

لیکن اگر اس تعریفات سے حاصل مفہوم کو مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے ۔

کہ اس وقت دنیا میں اسلام کے علاوہ ں دو بڑ ے آسمانی مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہیں۔ اور ان دونوں کے انبیاء حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسیؑ کا تعلق بھی مشرق سے تھا ور ان کے ابتدائی پیروکاروں کا تعلق بھی مشرق ہی سے تھا ۔اور تورات و انجیل میں بیان کیے گئے تمام حالات و واقعات اور مقامات کا تعلق بھی مشرق سے ہی ہے۔ لیکن پھر بھی توریت اور انجیل یا عیسائیت اور یہودیت کے عالمانہ مطالعے کو کوئی بھی استشراق کا نام نہیں دیتا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق کے مقاصد سراسر منفی ہیں اور بد نیتی پر مشتمل ہیں ۔ مستشرقین اپنے ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ نہیں ، بلکہ ایک تو مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا ، مسلمانوں کو گم راہ کرنا اور دوسرا غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔

استشراق کی ابتداء

استشراق کی ابتداء کے بارے میں یقینی اور قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم آسانی کے لئے اس کو چار ادور میں تقسیم کیا جاتا ہے [8]۔

۱۔پہلا دور ساتویں صدی عیسوی سے لے کرچودہویں صدی عیسوی تک ۔

۲۔دوسرا دور پندرہویں صدی عیسوی کی ابتداء سے اٹھارویں صدی کے اختتام تک۔

۳۔تیسرا دور انسیویں صدی کی ابتداء سے ۱۹۲۵ء تک۔

۴۔چوتھا دور ۱۹۲۶ ء سے آج تک۔

۱۔پہلا دور: یہ دور اندلس میں اسلام کے عروج کا دور تھا۔ یورپ کے لوگوں نے اندلس کے مدارس کا رخ کیا۔ اس دور میں مسلمانوں کی حیثیت استادوں اور یورپ کی حیثیت شاگردوں کی سی تھی۔یہ دور تقریبا آٹھ سو سال پر مشتمل ہے۔ اس دور میں علم اور تمدن کے مالک مسلمان تھے، ان ہی کی تہذیب ، تہذیب تھی اور ان ہی کے علوم ، علوم سمجھے جاتے تھے۔

اس دور کے مستشرقین نے قرآن پاک اور عربی کتابوں کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا۔ ان میں سب سے مشہور Jerbert تھے جو کہ برسوں اندلس کے مدارس میں رہا اور واپسی پر جا کر اپنی قابلیت کی وجہ سے ۹۹۹ء میں پاپائے اعظم کے منصب پر فائز ہوا [9]۔اس کے علاوہ پطرس(متوفی ۱۰۹۲ء) اور Gerard de Gremone (۱۱۸۷ء) بھی مشہور مستشرقین میں شامل ہیں ۔

۲۔دوسر ا دور : اس دور میں یورپ کے مستشرقین نے ترک اور عربوں کے درمیاں خلیج اور نفرت پید ا کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ اس وقت سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی عظیم قو ت تھی، اس لئے مستشرقین نے اس کا شیرازہ بکھرنے کے لئے عربوں کو قومی وطنیت پر ابھارا۔ اس دور کے مشہور مستشرقین میں مسٹر جی پوسٹل (۱۸۵۱ء) کا نام آتا ہے ۔ اس نے ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے اسفار کئےاور بہت سی مخطوطات اور نادر کتابیں خریدیں اور یورپ کی لائبریریوں میں منتقل کئے۔ اس دور میں تقریبا پچیس ہزار مخطوطات یورپ کی لائبریریوں میں منتقل ہویئں[10]۔

۳۔تیسرا دور: یہ دور انیسویں صدی کی ابتداء سے ۱۹۲۵ء تک ہے ۔ اس دور میں اسلامی تحقیق کے نام سے اندرونی اختلافات اور اسلامی فرقوں پر مستشرقین نے بہت تصانیف لکھی۔ اس دور قرآنی الفاظ کی فہرستیں اور لغات القرآن بکثرت تیار کئے گئے۔اس دور کے مشہور مستشرقین میں مسٹر جی فلوگل (متوفی :۱۸۷۰ء) شامل تھے[11]۔

۴۔ چوتھا دور: ۱۹۲۶ء سے آج تک : اس دور میں مستشرقین نے تحقیق کا دائرہ فقہ و اصول فقہ اور تصوف کی طرف بڑھا دیا۔ اگرچہ اس پہلے بھی ان موضوعات پر کچھ نہ کچھ کام ہوا تھا تاہم ان موضوعات کی طرف زیادہ توجہ اس دور میں دی گئی۔ اس زمانے میں ایک اہم مسئلہ جو عیسائیوں کے لئے بھی باعث فکر تھا وہ الحاد کی بنیادوں پر حکومتیں قائم کرنا تھا۔اس وجہ سے چند مستشرقین کے علاوہ باقی کا لب و لہجہ اسلام کے لئے نسبتا نرم ہوگیا ۔ اس دور میں اس خطرہ کی پیش نظر مذاہب کی کانفرنسوں کے مقالات میں صلح و آتشی کا اضافہ ہوگیا[12] ۔ آج کل کے بین المذہب کانفرنسز اسی خطرہ کے پیش نظر ہو رہی ہے ۔

اس دور میں تحقیقات اسلامی کا کام جن مستشرقین نے کیا ان میں نولدیکے اور ان کے شاگرد علامہ بروکلمان اور پروفیسر سخاؤ کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اسی طرح تھامس آرنلڈ، مسٹر جیکس، مونٹ گمری واٹ، پروفیسر گویام ، لی اسٹونج، مسٹر لیمب، مسٹر لوکارٹ بھی اس دور کے چند مشہور مستشرقین میں شامل ہیں ۔

مستشرقین کے اہداف و مقاصد

اگر مستشرقین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین کے اصل اہداف اور مقاصد درج ذیل ہیں:

۱۔ دینی ہدف

مستشرقین کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف یہ تھا ۔ جب عیساییوں اور یہودیوں نے اسلام کی نشر و اشاعت کو دیکھا تو وہ اپنے دین کے بارے میں خوف میں مبتلا ہوگئے ۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے دین کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اسلام سے بد ظن کرنے کے لئے اسلام کے بارے میں سوالات اٹھائے، جس کا ا قرار خود مستشرقین بھی کرتے ہیں ۔

اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے قرآن اور احادیث مبارکہ اور نبیﷺ کی ذات کو ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے طرح طرح کے سوالات اٹھائے ، مثلا یہ کہ احادیث پہلی تین صدیوں کے درمیان وضع کی گئی ہے [13]۔

۲۔ علمی ہدف

مستشرقین کا ایک گروہ صرف علمی ہدف رکھتے تھے انہوں نےصرف اپنی علمی اطلاعات کے افزایش کیلئے اس شرق شناسی کو اپنا پیشہ قرار دیا تھا، اور ان کی اسلام سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں تھی بلکہ وہ اپنی اطلاعات کیلئے مسلمانوں کے مختلف ممالک کے علمی مراکز میں جا کر علمی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے اور قرآن پر ریسرچ کرتے تھے اس قسم کے دانشمند حضرات اپنی علمی تحقیق کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں بطور یادگار چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ان دانشمندون کے مطالعہ کا اصلی محور قرآن پاک تھا اور یہ کتابیں ہمارے لئے بھی بہت مفید ہیں ان کتابون میں سے ایک اہم کتاب ((المعجم المفہرس لاٴلفاظ القرآن)) ہے یہ کتاب اصل میں ((گوستاؤ فلوگل)) نے لکھی ہے عبدالباقی الفواد نے جامعة الازہر کے عمائدین کی درخواست پر عربی میں ترجمہ کیا ہے۔

مستشرقین اور تدوین قرآن

اسلام کو مشکوک بنانے کے لئے مستشرقین کا آپ ﷺ کی ذات گرامی کے بعد سب سے بڑ ا ہدف قرآن مجید ہے۔چونکہ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جب تک مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ تعلق قائم رہے گا تب تک ان کو اسلام کے بارے میں بدظن کرنا نا ممکن ہے۔ ولیم جیفورڈ بالگراف نے اس کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

’’جب قرآن اور مکہ کا شہر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے تو پھر ممکن ہے کہ ہم عربوں کو اس تہذیب میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے دیکھ سکیں جس تہذیب سے ان کو محمد( ﷺ)اور ان کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز نہیں روک سکتی[14] ‘‘۔

اس سلسلے میں مستشرقین نے قرآن کے بارے میں شکوک و شبہات پید ا کرنے کے لئے قرآن پر دو قسم کے اعتراضات کئے ہیں ۔ پہلی قسم قرآن کے جمع و تدوین سے متعلق ہے جبکہ دوسری قسم کا تعلق قرآت کے اختلافات سے ہے ۔

مستشرقین کا دعوی ہے کہ ابو بکر صدیق کے دور میں زید بن ثابت کی نگرانی میں قرآن مجید کو ایک مصحف میں جمع کرنے اور حضرت عثمان کے دور میں لغت قریش کے مطابق قرآن کے سات نسخے بنوا کر مختلف شہروں میں بھیجنے کی جو کوشش ہوئی ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ کے دور میں قرآن تحریر نہیں ہوا بلکہ یہ آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے کیا ہے ۔ ذیل میں ہم مستشرقین کے اس اعتراض کا علمی جائزہ لیتے ہیں ۔

مشہور مستشرق ارتھر جیفری (Arthur Jeffery) قرآن مجید کی حفاظت کو مشکوک بنانے کے لئے لکھتا ہے :

‘‘The Quran is the scripture of Islam. It is called the Noble Quran, the Glorious Quran, the Mighty Quran, but never the Holy Quran save by modern, Western educated Muslims who are imitating the title Holy Bible. It contains the substance of Muhammad’s deliverances during the twenty odd years of his public ministry. It is clear that he had been preparing a book for his community which would be for them what the old testament was for the Jews and the new testament for the Christians but he died before his book was ready, and what we have in the Quran is what his followers were able to gather after his death and issue as the corpus of his a revelations [15]’’.

’’ قرآن اسلامی صحیفہ ہے ۔ اسے قرآن مجید اور قرآن عظیم وغیرہ ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن اسے ’’Holy Quran‘‘ قرآن پاک نہیں کہا جاتا ۔ کچھ جدید دور کے مغرب کے تعلیم یافتہ مسلمان ’’Holy Bible ‘‘ کے لقب کی نقل کر کے ’’Holy Quran ‘‘ کہتے ہیں ۔یہ کتاب محمد کے بیس سالہ دور نبوت کے بیانات کے مجموعے پر مشتمل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اپنی امت کے لئے ایک کتاب تیار کر رہے تھے جس کی آپ کی امت کے نزدیک وہی حیثیت ہوگی جو یہودیوں کے نزدیک عہد نامہ قدیم کی اور عیسائیوں کے نزدیک عہد نامہ جدید کی ہے ، لیکن کتاب کی تکمیل سے پہلے آپ کا انتقال ہوگیا اور آج قرآن میں جو کچھ ہے یہ وہ ہے جس کو آپ کے پیروکار آپ کے انتقال کے بعد جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور انہیں آپ کے الہامات کے مجموعے کے طور پر جمع کر دیا‘‘ ۔

H.A.R.Gibb نے بھی اسی بات کو وضاحت سے لکھا کہ قرآن کی کتابت کا کام حضور کے زمانے میں مکمل نہیں ہوا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے :

“It seems possible that the work of compilation was begun in his lifetime, but it was completed only some years after his death[16]”.

’’ یہ بات ممکن معلوم ہوتی ہے کہ تالیف قرآن کا کام آپ کی زندگی میں شروع ہوگیا تھا ، لیکن اس کی تکمیل آپ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہوئی ‘‘۔

اس کے بعد تمام مستشرقین کے اعتراضات کا اصل منبع یہی اعتراض ہے ۔

مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ رسول کریم پر جو قرآن کریم نازل ہوا تھا وہ حرف بحرف محفوظ ہے اور آج تک اسی طرح پڑھا جاتا ہے جس طرح آپ ﷺ کی زندگی میں پڑھا جاتا تھا۔

اس زمانے میں کسی بات کو محفوظ کرنے کے لئے دو طریقے حفظ اور کتابت استعمال ہوتے تھے،اور قرآن کو دونوں طریقوں سے محفوظ بنایا گیا ہے ۔

۱۔ حفاظت قرآن بذریعہ حفظ

ا۔ نزول وحی کے ابتدائی ایام میں آپ ﷺ کا طریقہ یہ تھا جبرئیل امین آپ کے پاس چند آیتیں لے کر آتے تو آپ ﷺ جبرائیل امین کی تلاوت کے ساتھ جلدی جلدی تلاوت فرماتے تاکہ آپ ﷺ پر جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ حفظ ہو جائے ۔ اس سے بھی آپ ﷺ کی قرآن کی حفظ کی سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔

ب۔ احادیث میں ایسے صحابہ کا ذکر موجود ہے جن کو پورا قرآن حفظ تھا۔ ان میں عبد الله بن مسعود، سالم بن معقل ، معاذ بن جبل، أُبَيُّ بن كعب، زيد بن ثابت، أبو زيد بن السكن، اور أبو الدرداء کے نام امام بخاری کے صحیح میں تین روایت میں مذکور ہیں [17]۔

ج۔ بعض صحابہ کے حافظہ پر آپ ﷺ کو خاص اعتماد تھا ، چنانچہ ان کو آپﷺ قرآن کا مستند استاد قرار فرماتے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں :

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خُذُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَسَالِمٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ [18]»۔

’’میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ، قرآن مجید چار اشخاص سے حاصل کرو، عبداللہ بن مسعود،سالم، معاذاور ابی بن کعب ‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے : قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ[19] ۔

’’ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ آپ نے فرمایا ۔ چار نے جو سب کے سب انصار تھے، ابی بن کعب،معاذبن جبل،زید بن ثابت اور ابو زیدنے ‘‘۔

احادیث میں جن سات حفاظ صحابہ کا ذکر ہیں ۔ یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے قرآن یاد کر کے آپﷺ کو سنایا بھی تھا ۔ ورنہ حفاظ کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔سترحفاظ صحابہ تو صرف جنگ یمامہ میں شہید ہوئے تھے [20]۔

۲۔ حفاظت قرآن بذریعہ کتابت

ا۔حفاظت قرآن کا دوسرا طریقہ کتابت قرآن تھا۔حضور ﷺ نے کتابت قرآن کے لئے کاتبین وحی کی ایک جماعت تیار کی تھی۔جن میں حضرت علی، حضرت معاویہ ، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔جب نبی ﷺ پر کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کاتبین وحی میں سے کسی کو بلاتے اور وہ وحی لکھواتے[21]۔

ب۔ ان کاتبین کے علاوہ کچھ صحابہ ذاتی طور پر بھی قرآن لکھتے تھے۔چنانچہ حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے :

كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ القُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ[22]‘‘

’’ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اورٹکڑوں کی مدد سے قرآن مجید جمع کر رہے تھے‘‘۔

ج۔بعض صحابہ کے پاس اپنے طور پر پورا قرآن لکھا ہوا تھا۔ان میں حضرت علی ، معاذ بن جبل ، ابی بن کعب ، زید بن ثابت، عبداللہ بن مسعود اور ابو زید خاص طور پر قابل ذکر ہیں[23] ۔

د۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ العَدُوِّ [24]"

عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قرآن پاک کو دشمن کے علاقوں میں لے جانے سے منع کیا۔

درج بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک نبی ﷺ کے زمانے میں سینوں میں بھی محفوظ کر لیا گیا تھا اور کتابت میں بھی محفوظ کرلیا گیا تھا۔

خلا صۃ البحث

۱۔ مستشرقین کے اہم مقاصد میں سے ایک اسلام کی عمارت کو کمزور کرنا ہے ۔

۲۔ انہوں نے علم اور تحقیق کے نام پر اللہ ، رسول اور مسلمانوں سے عداوت کی ۔

۳۔ مستشرقین کے اعتراضات وہی ہیں جو کہ اس وقت ابو جہل اور اور ابو لھب کرتے تھے۔

۴۔ مستشرقین کا یہ دعوی کہ قرآن محمد کا اپنا بنایا ہوا ہے ، دلائل کی رو سے یہ دعوی باطل ہے ۔

 

حوالہ جات

  1. القرآن،الزمر :۶۹
  2. الصحاح تاج اللغة ، الجوهری الفارابی ، ابو نصر اسمعیل بن حماد، دار العلم للملایین، بیروت، ط۴/۱۴۰۷ہ۔ ۔۱۹۸۷م، ج ۴/۱۵۰۱۔
  3. تهذيب اللغة، ابو منصور محمد بن احمد الأزهري، الهروی، دار احیاء التراث العربی ، بیروت، ط۱/۲۰۰۱م ، ج۸/۲۵۳۔
  4. مصادر الإستشراق و المستشرقين و مصدريتهم, علي بن إبراهيم النملة, ط2/1432ه . 2011م, بيسان للنشر و التوزيع دار الأعلام, ص :۱۶.
  5. المنجد في اللغة , لويس معلوف, مادة .
  6. مصادر الإستشراق و المستشرقين و مصدريتهم, ص: 15-25.
  7. Said , Edward , Orientalism , 1977, London, P: 19.
  8. قرآن اور مستشرقین ، ڈاکٹر ثناءاللہ، اشاعت اکیڈمی ، پشاور، سن طبع،۲۰۱۳ء، ص:۱۱۔۔۔۱۷ ۔
  9. الإستشراق و المستشرقون , الدكتور مصطفى السباعي, دار النشر و التوزيع, ص: 17 _19.
  10. ایضا۔
  11. قرآن اور مستشرقین، ص: ۱۶
  12. ایضا: ص: ۱۷
  13. الاستشراق و المستشرقون،ص: ۱۵۔۱۷۔
  14. ضیاء النبئ، پیر محمد کرم شاہ الازہری، طبع :۴، ۱۴۲۰ھ، ج۶ ص ۲۵۳
  15. ایضا ، ص:۲۶۲-
  16. قرآن اور مستشرقین، ص:۱۸۱
  17. الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه = صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، دار طوق النجاة ،الطبعة: ۱، 1422هـ، رقم الحدیث:۳۰۰۸، ۵۰۰۳ اور ۵۰۰۴۔
  18. الصحیح البخاری، رقم:۴۹۹۹۔
  19. الصحیح البخاری، رقم: ۵۰۰۳۔
  20. قرٓن اور مستشرقین،ص:۱۸۶۔
  21. مناهل العرفان في علوم القرآن، محمد عبد العظيم الزُّرْقاني ، مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه،ط:۳، ج۱ ص۳۶۷۔
  22. سنن الترمذيِ محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر ، ط:۲، 1395 هـ - 1975 م ، رقم :۳۹۵۴۔
  23. مباحث في علوم القرآن، مناع بن خليل القطان ، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع ، ط:۳، 1421هـ- 2000م۔ص:۱۲۴
  24. صحیح البخاریِ ، رقم:۲۹۹۰
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...