Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

فقہاء کی نظر میں عبادات میں اوقات مکروہہ اور ان کے اسباب و اثرات کا علمی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1019

Pages

137-153

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/111/101

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/111

Subjects

Prayer’s timings Jurists Qura’n Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ہرفرض عبادت کے لئے اللہ تعالی نےایک خاص  وقت  مقرر کیا ہےاسی وقت کے اندر اندر عبادت ادا کرنا ضروری ہے ، مثلا روزہ رمضان میں فرض ہے،جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاتصومواقبل رمضان صوموالرؤيته وأفطروالرؤيته فإن حالت دونه غيايةفأكملواثلاثين يوما([1])یعنی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  کہ تم روزے رکھو جب چاند نظر آئے اور افطار کرو جب چاند نظر آئے اگر بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس پورے کرو ۔

اسی طرح  حج  کا معاملہ ہے کہ حج مخصوص  ایام (آٹھ ،نو ،دس ،گیارہ اور بارہ ذی الحجہ)میں فرض ہے۔اسی طرح نماز کے لئے بھی وقت مقررہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،إِنّ الصَّلَاةَكَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًامَوْقُوتًا([2])یعنی (بیشک نماز مؤمنین پر  فرض ہے مقر ر وقتوں میں  )لہذا کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں عبادات شرعا مکروہ  ہیں ۔

عبادات  میں سے نماز کے اوقات مکروہہ :

نماز کے اوقات مکروہہ کی دو قسمیں  ہیں ،(۱) اوقات ثلاثہ (۲)نماز عصرا ور نماز فجر کے بعد کے اوقات

۱۔اوقات ثلاثہ :اوقات ثلاثہ سے مراد  طلوع الشمس ، نصف النہار(استو اء) اور غروب الشمس ہیں ۔ائمہ ثلاثہ کے ہاں ان اوقات میں فرائض پڑھنا تو جائز ہے لیکن نوافل پڑھنا  ناجائز ہے ،ائمہ ثلاثہ کے پاس اپنے مسلک پر  دلیل حضرت  انس بن مالک ؒ کی  حدیث ہے ،

«حدثناجبارةبن المغلس قال: حدثناأبوعوانة،عن قتادة،عن أنس بن مالك،قال: قال رسول الله صلى الله علي هوسلم: من نسي صلاة،فليصلهاإذاذكرها»([3])

ترجمہ ۔انس بن مالک ؓ  سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص نماز بھو ل جائےتو جس وقت بھی یاد آئے اس کو پڑھ  لے ۔اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ اوقات ثلاثہ میں فرض نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ حدیث میں إذاذكرها  کے الفاظ ہے یعنی جس وقت نماز یاد آئے تو نماز پڑھ لیناچاہے اوقات ثلاثہ ہی کیوں نہ ہو ۔ امام شافعی ؒ کے ہاں ان اوقات میں  نوافل  ذوات الاسباب([4]) پڑھنا  بھی جائز ہے ۔امام شافعی ؒ کے ہاں ان اوقات میں مکۃ المکرمہ میں نوافل مطلقا جائز ہے ۔جیسا صاحب العنایہ نے نقل کیا ہے ۔

عِنْدَالشَّافِعِي يَجُوزُالْفَرْضُ فِي هَذِهِ الْأَوْقَاتِ فِي جَمِيع الْبُلْدَانِ،وَتَجُوزُالنَّوَافِلُ عِنْدَهُ فِيهَابِمَكَّة۔([5])

امام شافعی ؒ مکۃ المکرمہ میں نماز مطلقا (چاہے فرض ہو یا نفل )جائز ہونے پر دلیل  جبیر بن مطعم ؓ کی حدیث ہے ،

«عن جبيربن مطعم:أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يابني عبدمناف ! لاتمنعواأحداطاف وصلى أيةساعةشاءمن ليل أونهار»([6])

یعنی جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے بنو عبد مناف !تم کسی کو بھی طواف کرنے سے اور نماز پڑ ھنے سے منع مت کرو نہ دن میں رات میں ،اس سے معلو م ہو ا کہ مکہ مکرمہ میں ہر وقت نماز پڑھنا جائز ہے چاہے دن کو یا رات کو ۔

احناف میں سے امام ابو یوسف ؒ کا مسلک یہ ہے کہ ان اوقات میں   سے نصف النہار کے وقت جمعہ والے دن نفل پڑھنا جائز ہے ان کی دلیل ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے ،

«وعن أبي هريرة : أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاةنصف النهارحتى تزول الشمس إلايومالجمعة»([7])

ترجمہ ۔نبی کریم ﷺ نے نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا اس وقت تک کہ سورج ڈھل جائے سوائے جمعہ کے دن کے (یعنی جمعہ کو استواء کے وقت نماز پڑھنا جائز ہے ) امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ نبی کریم ﷺ نے جمعہ کے دن کو مستثنی ٰ کیاہے لہذا جمعہ کو زوال کےوقت نماز پڑھنا جائز ہے ۔حدیث مذکو ر  ہ کے بارے میں احناف کا کہنا یہ ہے  کہ الا یوم الجمعہ سے مراد ولا یوم الجمعہ ہے اب حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نصف النہار کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور جمعہ والے دن بھی نصف النہار کے  وقت نماز پڑھنا   سےبھی منع فرمایا  ۔

احناف کے ہاں ان اوقات ثلاثہ میں  نہ فرض نماز پڑھنا جائز ہے اور نہ ہی نوافل پڑھنا جائز ہے یعنی کسی قسم کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔احناف کی دلیل عامر بن عقبہ ؓ کی حدیث ہے ،

« عن موسى بن علي بن رباح، قال: سمعت أبي يقول: سمعت عقبة بن عامر الجهني، يقول: " ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا أن نصلي فيهن أو نقبر فيهن موتانا: حين تطلع الشمس بازغة، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس، وحين تضيف للغروب حتى تغرب»([8])

یعنی عامر بن عقبہ جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہم کو تین اوقات میں نماز پڑھنے ،اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے وہ تین اوقات یہ ہیں ۔جس وقت سورج طلوع ہو رہا ہو ،استواء کے وقت اور سورج کے غروب ہو نے کے وقت ۔اس حدیث  میں مطلق نماز سے منع کیا گیا  ہے چاہے نماز فرض ہو یا نفل اور اسی طرح نقبر فيهن موتانا سے مراد نماز جنازہ ہے ۔احناف اپنے مسلک پر دوسری دلیل واقعہ تعریس پیش کرتے ہیں ،

«عَن أَبِي هُرَيْرَةَقَالَ: عَرَّسْنَامَعَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَت الشَّمْسُ،فَقَالَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِيَأْخُذْكُلّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ؛فَإِنّ هَذَامَنْزِلٌ حَضَرَنَافِيهِ الشَّيْطَانُ. قَالَ: فَفَعَلْنَا،فَدَعَابِالْمَاءِفَتَوَضَّأَ،ثُمَّ صَلّ ىسَجْدَتَيْنِ،ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُفَصَلَّى الْغَدَاةَ»([9])

اس مسئلہ میں لیلۃ التعریس بنیاد ہے اور اس واقعہ میں آپ ﷺ نے  لیلۃ التعریس میں وہی  پرنماز پڑھنے کے بجائے وہا ں سے چلنے کا حکم دیا اور جب سورج بلند ہو گیا تو نماز پڑھی ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے طلوع الشمس کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔

احنا ف کا کہنا یہ ہے  کہ انس بن مالک ؓ کی حدیث سے اوقات ثلاثہ میں نماز کی اباحت معلوم ہو تی ہے جبکہ عقبہ بن عامر ؓ کی حدیث سے اوقات ثلاثہ میں نماز کی حرمت معلوم ہو تی ہے یعنی احادیث میں تعارض ہوگیا ۔اور جب حرمت اور حلت جمع ہوتی ہے تو حرمت کو ترجیح  دی جاتی ہے ، اس لئے عقبہ بن عامر ؓ کی حدیث کو ترجیح دی جائیگی اور ان اوقات میں نماز پڑھنا درست نہ ہو گا ۔

اوقات ثلاثہ میں نمازِ جنازہ اور سجدہِ تلاوت کا حکم :

ان اوقات  ثلاثہ میں نماز جنازہ اور سجدہ تلاوۃ کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ ۔دراصل کراہت کی دو صورتیں  ہیں ،پہلی صورت کراہت مع الجواز دوسری صورت کراہت مع  عدم الجواز ۔جنازہ اور سجدہ کے باب میں  کراہت مع الجواز  ہو گا ۔

الْمُرَادُبِالنَّفْيِ الْمَذْكُورِفِي صَلَاةِالْجِنَازَةِ) يَعْنِي أَنّ الْمُرَادَبِالنَّفْيِ الْمَذْكُورِفِي صَلَاةِالْجِنَازَةِوَسَجْدَةِالتِّلَاوَةِبِقَوْلِه وَلَاصَلَاةِجِنَازَةٍوَلَاسَجْدَةِتِلَاوَةٍهُوَالْكَرَاهِيَةُ۔([10])

اسکی وجہ یہ ہے کہ چونکہ نمازجنازہ کا سبب وجوب جنازے کا حاضر ہو نا ہے  اور سجدہ تلاوت کا  سبب وجوب آیۃ سجدہ کا تلاوت کرنا ہے ،اور جنازے کا حاضر ہو نا اور آیۃ سجدہ کا تلاوت کرنایہ ناقص وقت میں پائے گئے لہذا ان دونوں کے سبب وجوب ناقص ہیں تو ان دونوں کی اداء بھی ناقص ہو گی ۔

۲۔ نماز عصرا ور نماز فجر کے بعد کے اوقات:

نماز عصر کے بعد وقت سے مراد نماز عصر سے لیکر غروب آفتاب تک اونماز فجر کے بعد سے مراد  طلوع فجر سے لیکر طلوع آفتاب تک کا وقت ہے ،ان اوقات میں امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ ان اوقات میں فرض نماز اورنفل نمازپڑھنا جائز نہیں  ہے،البتہ صرف نوافل غیر ذوات الاسباب ان دو وقتوں میں مکروہ ہیںغیر ذوات الاسباب پر امام شافعی ؒکی دلیل  وہ احادیث ہیں جن میں تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوء کا ذکر ہے اور یہ احادیث عام ہیں جیسا کہ ابو قتادہ اسلمی ؓ کی روایت ہے  ،

«عَنْ أَبِي قَتَادَةَالسَّلَمِيِّ: أَنّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَادَخَل أَحَدُكُمُ المَسْجِدَفَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْل أَنْ يَجْلِسَ»([11])

یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے  سے پہلے دو رکعات پڑھے ۔اس حدیث میں مکروہ او رغیر مکروہ  وقت کی تعین نہیں ہے ۔

امام شافعی ؒ کے ہاں مکہ مکرمہ میں نوافل غیر ذوات الاسباب بھی جائز ہے اسکی دلیل جبیر بن مطعم ؓکی حدیث ہے ،

عن جبير بن مطعم : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال يا بني عبد مناف ! لا تمنعوا أحدا طاف وصلى أية ساعة شاء من ليل أو نهار ([12])

یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے بنو عبد مناف تم کسی کو طواف اور نمازسے نہ روکو کسی بھی وقت دن میں اور نہ ہی رات میں ۔

احناف کامسلک یہ ہےکہ ان اوقات میں سجدہ تلاوت،نماز جنازہ ا ورفرض قضاء نماز پڑھنا تو جائز ہے لیکن    نوافل چاہے ذوات الاسباب ہو یا غیر ذوات الاسباب مکہ مکرمہ میں ہو یا کسی اور جگہ نوافل  پڑھناجائز  نہیں ہے ۔قضاءفرائض کو اس لئےجائز قرار دیا کہ اس وقت بذاتہ کوئی کراہت نہیں ،جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی دن کی فجر اور عصر اس میں پڑھنا  بلاکراہت جائز ہے ،لہذا کراہتِ نماز کی کوئی وجہ بجز اس کے نہیں ہےکہ اس وقت کو مشغول بالفرائض قرار دیا گیا ہے اس وجہ سے فرائض کی قضاء جائز ہے ۔نوافل کی ممانعت پر احناف کی دلیل ابن عباس ؓ کی حدیث ہے ۔عن ابن عباس قال : سمعت غير واحد من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم منهم عمر بن الخطاب وكان من أحبهم إلي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس وعن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ([13])

یعنی نبی کریم ﷺ نے   فجر کے بعد طلوع الشمس تک اور عصر کے بعد غرو ب الشمس تک نماز  پڑھنے سے منع فرمایا۔

جبیر بن مطعم  ؓ کی حدیث کے بارے میں احنا ف کا کہنا یہ ہے  کہ اول تو یہ حدیث مضطرب  الاسنادہےاگر حدیث صحیح بھی ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ محافظین کو  نبی کریم ﷺ نے یہ ہدایت کی  ہے کہ وہ حرم شریف کو کھلا رکھیں اور نماز پر پابندی عائد نہ کرے اس کا مقصد یہ نہیں کہ کوئی وقت حرم شریف کے لئے مکروہ نہیں ہے اس کی تائیدابن حبان کی روایت سے ہو تی ہے ،

«عَنْ جُبَيْرِبْنِ مُطْعِمٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ: "يَابَنِي عَبْدِالْمُطَّلِب إِنْ كَانَ لكم من الْأَمرشَيْءفَلَاأَعرفن أحدامِنْكُم أَن يَمْنَعَ مَنْ يُصَلِّي عِنْدَالْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةشَاءَمن اللَّيْل أ وْنَهَارٍ»([14])

اس حدیث میں محافظین کو یہ ہدایت ہے کہ وہ حرم شریف کو کھلا رکھیں اور نماز پر پابندی عائد نہ کرےچاہے کو ئی دن کو نماز پڑھے یا رات کو نماز پڑھے ۔ نوافل ذوات الاسباب  کے جواز پر امام شافعی ؒ  نےابوقتادہ ؓ کی حدیث پیش کی اس حدیث کے  بارے میں احناف کا کہنا یہ ہے کہ بخاری میں تعلیقا مروی ہےکہ ان اوقات میں نوافل ذوات الاسباب جائز نہیں ،

«كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ وَطَافَ عُمَرُ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ، فَرَكِبَ حَتَّى صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ بِذِي طُوًى»([15])

عمر ؓ نے نماز فجر کے بعد طواف کیا تو آپ ؓ نے دو رکعات ذی طوی میں ادا کی ۔

عصر کے بعد دو رکعات کی حیثیت :بعض روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی کریمﷺ نے عصر کے بعد دورکعات صرف ایک بار پڑھی جیسا کہ عائشہ ؓ کی روایت ہے  ،

وعن عائشةقالت : فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتان قبل العصرفلماانصرف صلاهماثم لم يصل همابعد.([16])

یعنی عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے عصر سے پہلے دو رکعات فوت ہو گئی تو آپ ﷺ نے اس  کی قضاء فرمائی پھر ان دو رکعات کو کھبی نہیں پڑھی ، اس حدیث سے معلوم ہو اکہ نبی کریم ﷺ نے زندگی  میں صرف ایک دفعہ یہ دو رکعات پڑھی  ،جبکہ دوسری حدیث جو   عائشہؓ ہی  سے مروی ہے  اس  روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پوری زندگی عصر کے بعد دو رکعات کو نہیں چھوڑا ہے،

«عن عائشةقالت : ماترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعدالعصرعندي قط»([17])

یعنی عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ میرے پاس نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی عصر کے بعد دو رکعات کو نہیں چھوڑا ۔

اس مسئلہ  میں سب سے بہترین  تطبیق مفتی تقی عثمانی  نے دی ہے وہ یہ کہ یہ واقعہ سب سے پہلے حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس پیش آیاجیسا کہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں، لَيْسَ عِنْدِي صَلَّاهُمَاوَلَكِنَّ أُمّ سَلَمَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهَاحَدَّثَتْنِي أَنَّهُ صَلَّاهُمَاعِنْدَهَا،اور آپ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی عمل شروع فرماتے تو اس پر اسقامت اور دوام اختیار کرتے ،اس لئے آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ یہ دو رکعات تو ام سلمہ ؓ کے پاس  پڑھی لیکن مداومت کا  علم  ام سلمہ ؓ کو نہ ہو سکااور مداومت اور استقامت کا علم صرف  حضر ت عائشہ ؓ کو ہواجیسا کہ عائشہ ؓ کا فرمان ہے، عن عائشةقالت : ماترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعدالعصر

عندي قطاس سے معلوم ہوا کہ دوام اور استقامت کا علم صر ف حضرت عائشہ ؓ کو ہوا ۔([18])

امت کےحق میں عصر کے بعد دو رکعات کی حیثیت :اس مسئلہ میں تھوڑا سا اختلاف ہے ۔امام شافعی ؓ کا مسلک یہ ہے کہ امت کے حق  میں یہ جائز ہے استدلال حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے ،

« عن عائشةقالت : ماترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعدالعصر

عندي قط »([19])

احناف حدیث مذکور  کے بارے میں کہتے  ہیں کہ یہ نبی کریم ﷺکی خصوصیت ہےامت کے حق میں یہ حکم نہیں  ہے جیساکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہو تا ہے ،

«عن ذكوان مولى عائشةأنهاحدثته:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعدالعصروينهى عنهاويواصل وينهى عن الوصال»([20])

بیشک رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد دو رکعا ت پڑھتے تھے اور دوسروں کو آپ ﷺ اس سے منع فرماتے تھے اور آپ ﷺ خود وصال فرماتے تھے اور دوسروں  کووصال سے منع فرماتے تھے ،اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ یہ عصر کے بعد دو رکعات آپ ﷺ کی خصوصیت تھی امت کے حق میں یہ ثابت نہیں ہے ۔

احناف کا مسلک یہ ہے کہ  امت کے حق  میں عصر کے بعد دو رکعات ممنوع ہے احناف کا استدلال ام سلمہ ؓ  کی روایت ہے ،

« عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ بَيْتِي فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّيْتَ صَلاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا قَالَ: "قَدِمَ عَلَيَّ مَالٌ فَشَغَلَنِي عَنْ رَكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا قَبْلَ الْعَصْرِ فَصَلَّيْتُهُمَا الآنَ" فَقُلْتُ يَا رَسُول الله أفنصليهما إِذا فاتتا قَالَ: "لَا" »([21])

یعنی ام سلمہ ؓ نے فرمایاکہ حضور ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی پھر گھر میں داخل ہو گئے اور دو رکعات پڑھی تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ نے ایسی نماز پڑھی جو اس سے پہلے آپ نے نہیں پڑھی تو آپ ﷺ نے فرمایا میں عصر سے پہلے دو رکعت پڑھتا تھا ایک دن صدقہ کےمال میں مشغو لیت کی وجہ سے وہ رہ گئی وہ دو رکعات اب میں نے پڑھ لی ،ام سلمہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ہم بھی یہ دو رکعات  پڑھ لیا کریں اگر فوت ہوجائے؟ تو آپ ﷺ نےفرمایانہیں۔ا س حدیث میں صاف صاف نبی کریم ﷺ نے ان دو رکعات سے منع فرمایا ہے

مغرب سے پہلے نماز کی حیثیت اور حکم :

صلوۃ قبل المغرب کےبارے میں فقہاء کا اختلاف ہے،احناف اور مالکیہ کا مسلک یہ ہے کہ مغرب سے پہلے  دو رکعات پڑھنا مکروہ ہے ۔ان حضرات کی دلیل دار قطنی کی  روایت ہے ،

«قَالَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنّ عِنْدَكُل أَذَانَيْنِ رَكْعَتَيْنِ مَاخَلَاصَلَاةَالْمَغْرِبِ»([22])

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیا ن دو رکعات ہیں سوائے مغرب کے نماز کے ، اس  حدیث سے ثابت ہو اکہ مغرب سے پہلے دو رکعات  ثابت نہیں  ہے ۔

جبکہ امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ  سے اس بارے میں دو اقوال ہیں ۔پہلا قول یہ ہے کہ مغرب سے پہلے نماز مستحب ہے ۔دوسرا قول امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کا یہ ہےکہ مغرب سے پہلے دو رکعات نماز پڑھنا جائز ہےان حضرات کی پہلی دلیل  عبد اللہ المزنی ؓکی روایت   ہے ،

«عن عبدالله المزني قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " صلواقبل المغرب ركعتين " ثم قال " صلواقبل المغرب ركعتين لمن شاء " خشيةأن يتخذهاالناس سنة»([23])

یعنی عبداللہ المزنیؓ  سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم مغرب سے پہلے دو رکعات نماز پڑھو پھر  فرمایا کہ تم مغرب سے پہلے دو رکعات نماز پڑھو جو چاہے ,لیکن انصاف کی بات  یہ ہے کہ مغرب سے پہلے  دورکعات سے متعلق ممانعت کی احادیث سےزیادہ سے زیادہ سُنیت کی نفی  ہو جاتی لیکن عدم جواز ان احادیث سے ثابت نہیں ہو تا اس لئے کہ ان روایات میں پڑھنے کی نفی ہے ، نہی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ متأخرین احناف میں سے شیخ ابن ہمام ؒ بھی ان دو رکعات کے جواز کے قائل ہوئے ،اسی طرح انور شاہ کشمیری ؒ بھی فرماتے ہیں کہ ان دو رکعات کو مکروہ یا بدعت کہنا درست نہیں زیاد ہ سے زیادہ استحباب کی نفی کی جا سکتی ہے ۔اس لئے اگر کوئی پڑھے تو وہ قابل ملامت نہیں لیکن ا ن کا ترک اولی اور افضل ہے دو وجہوں سے ،

وجہ اول ۔ مغرب سے پہلے دو رکعات کا ترک کرنا افضل اس لئے  ہے کہ مغرب کی نما ز کے بارے میں تعجیل کی بڑی تاکید آئی ہےجیسا کہ ابو ایوبؓ کی روایت ہے ،

«عن مرثدبن عبدالله قال: لماقدم عليناأبوأيوب غازياوعقبةبن عامريومئذعلى مصرف أخرالمغرب فقام إليه أبوأيوب فقال لهماهذه الصلاةياعقبة؟فقال له شغلناقال أماسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " لاتزال أمتي بخيرأوقال على الفطرةمالم يؤخرواالمغرب إلى أن تشتبك النجوم»([24])

یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر ہی  ہوگی جب تک مغرب کی نماز  مؤخر نہ کرے۔اس سے ثابت ہو ا کہ نماز مغرب میں تعجیل کرنا چاہیے ۔یعنی مغر ب کی نماز  جلدی پڑھنی چاہیے ۔ اور یہ دورکعات  قبل المغرب  پڑھنا اس تعجیل کے منافی ہیں ۔

وجہ دوم ۔مغرب سے پہلے دو رکعات ترک کرنا اس لئے بھی افضل کہ اکثر صحابہ نے ان کو ترک کیا جیساکہ ابن عمر ؓ کی روایت ہے ،

«عن طاوس قال سئل ابن عمرعن الركعتين قبل المغرب فقال : مارأيت أحداعلى عهدرسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهماورخص في الركعتين بعدالعصر»([25])

یعنی ابن عمر ؓ سے مغرب سے پہلے دو رکعات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کسی کو نہیں دیکھا جو ان دو رکعات کو پڑھتے ہوں اور کسی کو نہیں دیکھا جو عصر کے بعد دو رکعات کی اجازت دیتا ہو ۔اس سے معلوم ہو اکہ  صحابہ کا تعامل ان کا ترک کرنا ہے اس لئے ان کا ترک کرنا افضل ہے ۔

عبادات میں سے روزے  کے اوقات ممنوعہ  :

روزے سے مندرجہ ذیل مواقع پر منع کیا گیا ہے ۔

(۱)عیدین کے موقع پر(۲)ایام تشریق میں (۳)یوم شک میں(۴)صوم وصال  سے

عیدین کے دن روزہ :یوم  عید الفطر اور یوم عید الاضحیٰ کو  روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ،اس لئے کہ یہ دونوں دن اللہ تعالی کی طرف سے ضیا فت کے دن ہیں ،اگر کوئی ان دو دِنوں میں روزہ رکھے گا تواس  سے  اللہ تعالیٰ کی ضیافت کا ٹکرانا لازم آئے گاجو کہ نا شکری ، بے ادبی اور بد نصیبی ہے ۔جیسا کہ حدیث میں  آتا ہے۔

«عن عمروبن يحيى عن أبيه عن أبي سعيدالخدري : قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامين يوم الأضحى ويوم الفطر»[26])

یعنی رسول اللہ ﷺ نے دو دِن (عید الفطر وعید الاضحیٰ ) روزہ رکھنے سے منع  کیا گیا  ہے ۔

ایام تشریق میں روزے کا حکم:ایام تشریق سے مراد گیارہ ،بارہ اور تیرہ ذو الحجہ ہیں ،ان ایام میں روزہ   رکھنے کے بارے میں مندرجہ ذیل  تین مشہور اقوال ہیں ۔

(۱)ابو ااسحاق مروزی ؒ ،زبیر بن العوام ؓ اور حضر ابو طلحہ ؓ کا مسلک یہ ہے کہ ان ایام   میں روزہ مطلقا جا ئز ہے۔ان حضرات کی دلیل حضرت عائشہ ؓ کا عمل ہے ۔«عَن هِشَام قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي،كَانَتْ عَائِشَةُرَضِي اللَّهُ عَنْهَا: تَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ بِمِنًى،وَكَانَ أَبُوهَايَصُومُهَا»([27])

یعنی حضرت عائشہ ؓ  منی میں ایام تشریق میں روزے سے تھیں اور ان کے والد بھی روزے سے تھے ۔

(۲)امام  مالک ؒ،امام اوزاعی ؒ،اسحاق بن راہویہؒ ،امام حمد ؒ اور حضرت عائشہ ؓ کا مسلک یہ ہے کہ دم ِتمتع کے روزے رکھنا صر ف  ان ایام جائز ہے ۔ان حضرات کی دلیل یہ ہے ۔

«عَن عَائِشَةَ،وَعَن سَالِمٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ،قَالاَ: لَمْ يُرَخَّصْ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَن يُصَمْنَ،إِلَّالِمَنْ لَمْ يَجِدِالهَدْيَ»([28])

یعنی ابن عمر ؓاور عائشہ ؓ  سے مروی ہے  کہ صر ف اس آدمی کے لئے ان ایام  میں روزے  کی اجازت ہے جوقربانی کی جانو ر نہ پائے ۔ باقی کسی کو اجازت نہیں کہ وہ ان ایام میں روزہ رکھے ۔

(۳)امام  ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ کا قول جدید ،حسن بصری ؒ،عطارؒ ،لیث بن سعدؒ ،حضرت علی ؓ اور حضر ت عبد اللہ بن عمر ؓ کا  مسلک یہ ہے کہ ان ایام  میں روزہ رکھنا مطلقا ممنوع ہے ۔ان حضرات کی دلیل ترمذی کی حدیث ہے ،

«عن عقبة بن عامر : قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام وهي أيام أكل وشرب»([29])

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عرفہ کا دن ،قربانی کا دن اور ایام تشریق ہماری عید ہے اور یہ  سب د ن کھانے اور پینے کے ہیں ۔

یوم شک کا روزہ:یوم شک سے مراد  تیس  شعبان کا دن ہے ،اگر کوئی آدمی اس خیال سے روزہ رکھے  کہ ہو سکتا ہےکہ کل رمضان ہو اور ہم نے چاند نہ دیکھا ہو تو اس خیا ل سے روزہ رکھنا بلاتفاق مکروہ تحریمی ہے ۔جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے ،

« عن صلة بن زفر : قال كنا عند عمار بن ياسر فأتى بشاة مصلية فقال كلوا فتنحى بعض القوم فقال إني صائم فقال عمار من صام اليوم الذي يشك به الناس فقد عصى أبا القاسم صلى الله عليه و سلم »([30])

یعنی جس نے یو م شک میں روزہ رکھا تو گویا اس نے ابو القاسم (محمد ﷺ ) کی نا فرمانی کی ۔

صوم وصا ل : دو یا زیادہ  دن تک افطار کئےبغیر روزہ رکھنے کو صوم وصال کہا جاتا ہے ،صوم وصال کے بارے میں مندرجہ ذیل تین   مسالک مشہور ہیں ۔

(۱)اسحاق بن راہویہ ؒ اور ابن وضاح ؒکا مسلک یہ ہے کہ جو شخص وصا ل پر قدرت رکھتا ہو اس کےلئے صوم وصا ل جا ئز ہے ورنہ حرام ہے ۔(۲)امام شافعی ؒ ،ابن عربی ؒ اور اہل ظاہر کا مسلک یہ ہے کہ صوم وصا ل ممنوع اور حرام ہے ۔

(۳)امام ابو حنیفہ ؒ ،امام مالک ؒ،امام حمد ؒ ،حضر ت علیؒ ،حضرت ابو ہریرہ ؓ ،ابو سعید ؓ اور حضر ت عائشہ ؓ کا مسلک یہ ہے کہ صوم وصال مکروہ ہیں ،ٍٍ

صوم وصال کے نہی پر دلیل انس ؓ کی حدیث ہے ۔

«عن أنس : قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاتصومواقالوافإنك تواصل يارسول الله ! قال إني لست كأحدكم إن ربي يطعمني ويسقيني»([31])

یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب وصال سے صحابہ کرام کو منع کیا تو صحابہ ؓ  نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ تو وصا ل کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہو ں بلکہ مجھے اللہ  کھلاتا اورپلاتا ہے  

خلاصہ بحث :

اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ نماز کےلئے اوقات مکروہہ دو ہیں ۔ اول اوقات ثلاثہ(طلوع الشمس ، نصف النہار(استو اء) اور غروب الشمس) دوم بعد العصر اور بعد الفجر کا وقت اول قسم کے بارے میں احناف کا مسلک یہ ہے کہ ان اوقات میں فرائض اور نوافل پڑھنا جائز نہیں جبکہ ائمہ ثلاثہ کے ہاں ان اوقات میں فرائض جائز ہیں لیکن نوافل پڑھنا جائز نہیں البتہ امام شافعی ؒ کے ہاں  ان اوقات میں  نوافل ذوات الاسبا ب بھی جائز ہیں ، جبکہ ان اوقات میں نماز جنا زہ اور سجدہ تلاوت مکروہ ہیں ۔

دوسرے قسم کے اوقات میں احنا ف کے ہاں فرائض   کی قضاء،سجدہ ِ تلاوت اور نمازجنازہ پڑھنا   جائز ہیں نوافل چاہے مکہ میں ہو یا غیر مکہ میں ،ذوات الاسباب ہو یا غیر ذوات الاسبا ب  ناجائز ہیں جبکہ امام شافعی ؒ کے ہاں ان اوقات میں  فرائض اورنوافل ذوات الاسباب ناجائز ہیں  اور نوافل غیر ذوات الاسباب مکروہ ہیں جبکہ مکہ میں  نوافل  ذوات الاسباب جائز ہیں ۔عصر کے بعد دو رکعات نفل امام شافعیؒ کے ہا ں جائز جبکہ احنا ف کے ہاں ممنوع ہے ۔مغرب سے پہلے دو رکعات احنا ف  اور مالکیہ کے ہاں مکروہ جبکہ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے ہاں جائز یا مستحب ہیں ۔

ا سی طرح  چار  مواقع پر شریعت نے روزے سے منع کیا ہے ۔(اول )عیدین کے موقع پر،(دوم )ایام تشریق میں ،(سوم )یوم شک میں اور(چہارم )صوم وصال  سے ۔عیدین اور ایا م تشریق میں اس لئے روزے سے منع ہے کہ یہ ایام  اللہ کی جانب سے ضیا فت کے ہیں ، یوم  شک میں روزہ اس لئے منع ہے کہ  اس میں حضور ﷺ کی مخالفت لازم آتی ہے اور صوم  وصال اگرچہ حضور ﷺ خود رکھتے تھے لیکن  ہمارے لئے منع ہے اس لئے کہ آپﷺ کو اللہ کی جانب سے کھلایا پلایا جاتا تھا ۔


 

 

حواشی وحوالہ جات

(۱)الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى السلمي،الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي ، باب ما جاء أن الصوم لرؤية الهلال والإفطار له،الناشر : دار إحياء التراث العربي – بيروت تحقيق : أحمد محمد شاكر وآخرون ،ج۳،ص۷۱۔

(۲)القرآن ،سورۃ النساء ،۱۰۳/۴

(۳)القزويني ، ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد ، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)،الكتاب: سنن ابن ماجه: تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقيالناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي ،باب من نام عن الصلاة أو نسيها،ج۱،ص۲۲۷۔

(۴)نوافل ذوات الاسباب سے مراد وہ نوافل ہیں جن نوافل کا سبب بندے کے اختیار کے علاوہ کوئی سبب ہو ،مثلا تحیۃ الوضو ء ،تحیۃ المسجد ،نماز شکر،نماز عید اور نماز کسوف وغیرہ یہ ایسے نوافل ہیں جن کا سبب بندے کے اختیار کے علاوہ ہے ۔

(۵)الرومي البابرتي ، محمد بن محمد بن محمود، أكمل الدين أبو عبد الله ابن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين (المتوفى: 786هـ)،الكتاب: العناية شرح الهدايةالناشر: دار الفكرالطبعة: بدون طبعة وبدون تاريخ،ج۱،ص۲۳۱۔

(۶)الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى السلمي ،الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي ،الناشر : دار إحياء التراث العربي – بيروتتحقيق : أحمد محمد شاكر وآخرون ،باب ما جاء في الصلاة بعد العصر وبعد الصبح لمن يطوف ،ج۳،ص۲۲۰۔

(۷)الخطيب التبريزي، محمد بن عبد الله ،الكتاب : مشكاة المصابيح ،الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت الطبعة : الثالثة - 1405 - 1985باب أوقات النهي - الفصل الأول ،ج۱،ص۲۳۰۔

(۸)القزويني ، ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد ، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)،الكتاب: سنن ابن ماجه،تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقيالناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبيباب ما جاء في الأوقات التي لا يصلى فيها على الميت ولا يدفن،ج۱،ص۴۶۸۔

(۹)النسائي ، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، (المتوفى: 303هـ)،الكتاب: المجتبى من السنن = السنن الصغرى للنسائي  ،تحقيق: عبد الفتاح أبو غدةالناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية – حلبالطبعة: الثانية، 1406 - 1986،باب کَيْفَ يُقْضَى الْفَائِتُ مِنَ الصَّلَاةِ  ،كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ،ج۱،ص۲۹۸۔

(۱۰)الرومي البابرتي ، محمد بن محمد بن محمود، أكمل الدين أبو عبد الله ابن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين (المتوفى: 786هـ)،الكتاب: العناية شرح الهداية،حوالہ سابق ،ج۱،ص۲۳۶،۲۳۵۔

(۱۱)البخاري، محمدبنإسماعيلأبوعبداللهالجعفي ،الكتاب: الجامعالمسندالصحيحالمختصرمنأموررسولاللهصلىاللهعليهوسلموسننهوأيامه =   صحيحالبخاري ،المحقق: محمدزهيربنناصرالناصرالناشر: دارطوقالنجاة (مصورةعنالسلطانيةبإضافةترقيمترقيممحمدفؤادعبدالباقي)الطبعة: الأولى، 1422ه ،کتا ب الصلوۃ ،بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ،ج۱،ص۹۷۔

(۱۲)الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى السلمي،الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي ، باب ما جاء في الصلاة بعد العصر وبعد الصبح لمن يطوف ،ج۳،ص۲۲۰۔

(۱۳)ایضا،باب ما جاء في كراهية الصلاة بعد العصر وبعد الفجر،ج۱،ص۳۴۱،حوالہ سابق ۔

(۱۴)الهيثمي ، أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان (المتوفى: 807هـ)،الكتاب: موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبانالمحقق: محمد عبد الرزاق حمزةالناشر: دار الكتب العلمية ،کتاب المواقیت ،بَاب الصَّلَاة بِمَكَّة،ج۱،ص۱۶۵۔

(۱۵)البخاري، محمدبنإسماعيلأبوعبداللهالجعفي ،الكتاب: الجامعالمسندالصحيحالمختصرمنأموررسولاللهصلىاللهعليهوسلموسننهوأيامه = صحيحالبخاري ،المحقق: محمدزهيربنناصرالناصرالناشر: دارطوقالنجاة (مصورةعنالسلطانيةبإضافةترقيمترقيممحمدفؤادعبدالباقي)الطبعة: الأولى، 1422هـ،بَابُ الطَّوَافِ بَعْدَ الصُّبْحِ وَالعَصْرِ،کتاب الحج،ج۲،ص۱۵۵۔

(۱۶)نور الدين ، علي بن أبي بكر الهيثمي ،الكتاب : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،الناشر : دار الفكر، بيروت - 1412 هـ،کتاب الصلوۃ، باب الصلاةبعدالعصر،ج۲،ص۴۷۱۔

(۱۷)مسلم ،مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري ،الكتاب: صحيح مسلم ،الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت ،کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا،باب معرفة الركعتين اللتين كان يصليهما النبي صلى الله عليه و سلم بعد العصر،ج۱،ص۵۷۲۔

(۱۸)عثمانی ، شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی ،درس ترمذی ،ترتیب و تحقیق مولانا رشید اشرف ،مکتبہ دارالعلوم ،ج ۱،ص ۴۲۸۔

(۱۹)مسلم ،مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري ،الكتاب: صحيح مسلم ،حوالہ سابق ،کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا،باب معرفة الركعتين اللتين كان يصليهما النبي صلى الله عليه و سلم بعد العصر،ج۱،ص۵۷۲۔

(۲۰)أبو داود السجستاني ، سليمان بن الأشعث الأزدي ،الكتاب : سنن أبي داود، الناشر : دار الفكر  ، تحقيق : محمد محيي الدين عبد الحميد ،کتاب الصلوۃ،باب من رخص فيهما إذا كانت الشمس مرتفعة،ج۱،ص۴۰۹۔

(۲۱)الهيثمي ، أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان (المتوفى: 807هـ)،الكتاب: موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان ،حوالہ سابق ،کتاب المواقیت،بَاب الْأَوْقَات الَّتِي تكره فِيهَا الصَّلاةِ،ج۱،ص۱۶۴۔

(۲۲)قطني، أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي الدار (المتوفى: 385هـ)،الكتاب: سنن الدارقطني،حققه وضبط نصه وعلق عليه: شعيب الارنؤوط، حسن عبد المنعم شلبي، عبد اللطيف حرز الله، أحمد برهومالناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت – لبنانالطبعة: الأولى، 1424 هـ - 2004 م،کتابالصلوۃ، باب الْحَثِّ عَلَى الرُّكُوعِ بَيْنَ الْأَذَانَيْنِ فِي كُلِّ صَلَاةٍ وَالرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ وَالِاخْتِلَافِ فِيهِ،ج۱،ص۴۹۷۔

(۲۳)ایضا ،کتاب الصلوۃ،باب الصلاة قبل المغرب،ج۱،ص۴۱۰۔

(۲۴)أبو داود السجستاني ، سليمان بن الأشعث الأزدي ،الكتاب : سنن أبي داود، حوالہ سابق،کتاب الصلوۃ ،باب في وقت المغرب، ج ۱،ص ۱۶۷۔

(۲۵)ایضا،کتاب الصلوۃ ،باب الصلاة قبل المغرب،ج۱،ص۴۱۰۔

(۲۶)الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى السلمي،الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي ،حوالہ سابق ،باب ما جاء في كراهية الصوم يوم الفطر والنحر،ج۱،ٍٍٍص۱۴۰۔

(۲۷)البخاري،محمدبنإسماعيلأبوعبداللهالجعفي ،الكتاب: الجامعالمسندالصحيحالمختصرمنأموررسولاللهصلىاللهعليهوسلموسننهوأيامه = صحيحالبخاري ،المحقق: محمدزهيربنناصرالناصرالناشر، حوالہ سابق ،بَابُ صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ،ج۳،ص۴۳۔

(۲۸)ایضا

(۲۹)الترمذي ، محمد بن عيسى أبو عيسى السلمي،الكتاب : الجامع الصحيح سنن الترمذي ،حوالہ سابق ،باب ما جاء في كراهية الصوم في أيام التشريق،ج۳،ص۱۴۲۔

(۳۰)ایضا،باب ما جاء في كراهية صوم يوم الشك،ج۳،ص ۶۹۔

(۳۱)ایضا ،باب ما جاء في كراهية الوصال للصائم ،ج۳،ص۱۴۸۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...