Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

قطعی عقائد (مختلف فیہ) میں اتفاق کی صورتیں: اقوال علماء برصغیر کی روشنی میں |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1068

Pages

115-136

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/110/100

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/110

Subjects

Beliefs Definite Beliefs Allah’s Entity Possibility of Prevaricate for Allah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قوموں اور ملتوں کے عروج و زوال میں باہمی اتفاق و افتراق کا اہم کردار رہا ہے یعنی اندر سے یکجان قومیں فاتح اور طوائف الملوکی و انتشار کا شکار قومیں ہی مفتوح ٹھہریں ۔بد رو احد کے میدان اور سقوط بغداد و ڈھاکہ آج بھی اسی امر کی سمت دعوت دے رہے ہیں ۔اسی لیے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوا

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ (۱)شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا۔

اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا ا س نے تمہارے دلوں میں ملاپ کر دیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہو گئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا دیا

اس وقت نہ صرف وطن عزیز پاکستان بلکہ پوری مسلم امہ اسی افتراق و انتشار کا شکار ہونے کی وجہ سے روئے زمین پر عالم کفر کے ہاتھوں رسوا ہو رہی ہے ۔''تقسیم کرو اور حکومت کرو''کا نظریہ آج بھی پورے زور و شور سے معمول بہا ہے ایسے گھمبیر حالات میں امت کے بکھرے شیرازہ کو مجتمع کرنے کا اقدام بلا شبہ امت کے بدن دریدہ کے لیے مرہم ثابت ہو سکتا ہے ۔مسالک کے اتفاقات کو سامنے لا کرنا چاکیوں کو کم کرنے کی کاوش اس زوال کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں حصول عروج کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ افتراق کمزوری اور اتحاد قوت ہے ۔

مذاہب عالم میں محض اسلام ہی اپنے پیروکاروں کو سب سے زیادہ اتحا د و اتفاق کی دعوت دیتا ہے۔لیکن شؤمیء قسمت کہ آج اس کے پیروکار ہی سب سے زیادہ انتشار و افتراق کا شکار ہیں ۔اسلام کی اسی عظیم دعوت کی ایک خوبصور ت کڑی ،''موضوع قطعی عقائد (مختلف فیہ )میں اتفاق کی صورتیں :اقوال علماء برصغیر کی روشنی میں''ہے۔یوں بنیادی امور کی یکسانیت کو سامنے رکھ کر اخوت و یگانگت کی دعوت دی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو دعوت دی۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے

قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اﷲَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اﷲِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُون ( ۲)

تم فرماؤ اے کتابیو ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنا لے اللہ کے سوا پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

اس آیت کے پیش نظر اگر بعض بنیادی عقائد کے اتفاق کی بنیاد پر اہل کتاب کو دعوت اتحاد دی جاسکتی ہے تو کلمہ گو افراد تو اس دعوت کے زیادہ مستحق ہیں ۔

دین اسلام کی بنیاد عقائد ہیں ۔البتہ تمام عقائد کی حیثیت ایک جیسی نہیں بلکہ بعض عقائد، قطعی دلائل سے قطعی الثبوت ہونے کی وجہ سے قطعی عقائد کا مقام رکھتے ہیں جبکہ بعض دیگر عقائد، قطعی دلائل کے عدم وجود یا قطعی دلائل سے ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے ظنی عقائد کا مقام رکھتے ہیں۔علماء اسلام عقائد کی تقسیم ان دو اقسام میں بیان کرتے رہے ہیں ۔چنانچہ محمد عبد العزیز پرہاروی ملائکہ کی باہمی افضلیت کے مسئلہ کی تشریح میں لکھتے ہیں.

و حاصل الجواب ان المسألۃ الاعتقادیۃ قسمان احدہما ما یکون المطلوب فیہ الیقین کوحدۃ الواجب و صدق النبی ﷺو ثانیہما ما یکتفی فیہا بالظن کہذہ المسئلۃ و الاکتفاء بالدلیل الظنی انما لا یجوز فی الاول بخلاف الثانی(۳)

اور جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ مسائل اعتقادیہ کی دو اقسام ہیں ۔ایک وہ کہ جس میں یقین مطلوب ہو جیسا کہ اللہ کی واحدانیت اور نبی ﷺ کی تصدیق اور دوسری قسم وہ ہے کہ جس میں صرف ظن ہی کافی ہوتا ہے جیسا کہ اس مسئلہ میں۔ اور دلیل ظنی پہلی قسم میں کافی نہیں بخلاف دوسری قسم کے ۔

عقائد کی دونوں اقسام کی کثیر تعداد کے اصول میں مسالکِ اربعہ (اہل تشیع اثنا عشریہ ،اہل حدیث ،اہل سنت بریلوی اور اہل سنت دیوبندی )کے علماء میں اتفاق پایا جاتا ہے ۔بعض قطعی عقائد مثلاً اللہ کو اس کی ذات و صفات میں ایک ماننے ،تمام انبیاء و رسولوں کو بر حق تسلیم کرنے ،تمام آسمانی کتابوں کو انبیاء پر اترنے اور اس حالت میں ان کے درست و قابل عمل ہونے ،تمام ملائکہ کے اللہ کے خاص بندے ہونے،قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں تمام انسانوں کے حاضر ہونے اور پھر اعمال کے مطابق حساب و کتاب اور فیصلہ ہونے ،تمام اچھی اور بری چیزوں کا اللہ کی طرف سے ہونے اور انسان کے مختار مطلق و مجبور محض کے بین بین معاملہ ہونے ،رسول اللہ ﷺ کے تمام انبیاء سے آخری نبی ہونے ،کسی بھی نبی کی توہین کے نا جائز ہونے ،اللہ کی نعمتوں کے گھر جنت کے موجود ہونے اوراللہ کے جلال کے مظہر جہنم کے موجود ہونے میں مسالک اربعہ میں اصولاً کوئی اختلاف نہیں ۔

البتہ عقائد کی دونوں اقسام میں عالم اسلام میں اختلاف کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے ۔یہی حقیقت بعض اوقات گھمبیر صورتحال پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔سقوط بغداد وغیرہ جیسے المناک حادثات کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے بعض کا تعلق اسی حقیقت سے تھا۔برصغیرپاک و ہند میں بھی اسی حقیقت نے بسا اوقات ایسی صورت حال پیدا کی۔اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن بعض عقائد میں اختلاف ہے ان میں اتفاق کی صورتیں بھی ممکن ہیں ۔علماء برصغیر کے اقوال کی روشنی میں بعض مختلف فیہ قطعی عقائد مثلاً تجسیم باری تعالیٰ،امکان کذب باری تعالیٰ ،خلق قرآن ،تحریف قرآن اور خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں مندرجہ ذیل صورت میں اتفاق ممکن ہو سکتا ہے ۔

(اس اختلاف کا ذکر نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو ایسی صورت میں ذکر کیا جائے گا جو صورت تمام مسالک کے علماء نے مناسب قرار دی ہو گی ۔)

تجسیم باری تعالیٰ

وجود باری تعالیٰ بنیادی قطعی عقائد میں شامل ہے اور ہر کلمہ گو مسلمان اللہ کے وجود پر یقین کامل رکھتا ہے ۔یوں اللہ کے موجود ہونے کے بارے میں مسالک اربعہ کے علماء میں باہمی نزاع نہیں ہے ۔البتہ وجود باری تعالیٰ کی نوعیت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔یہ مسئلہ یوں ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا جسم ہے ؟یا وہ جسم اور جسمانیات سے پاک ہے ؟کیا اس کی ذات جسم رکھتی ہے یا نہیں ؟یا جسم کے جو تقاضے ہیں کیا وہ ذات باری تعالیٰ سے متعلق ہیں یا نہیں ؟

اقوال علماء مسالک اربعہ

مسالک اربعہ کے علماء کی کتب سے یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔ اور قرآن میں جو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ یا چہرہ وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد ہماری طرح کے جسمانی اعضا نہیں ہیں بلکہ ان کی حقیقی مراد کو اللہ ہی جانتا ہے۔

اہل تشیع

اہل تشیع مسلک کے علماء کی کتب سے یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی چیز سے نہیں بنی ہوئی ۔وہ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔

سید ظفر حسن لکھتے ہیں

اس کے جسم ہے نہ صورت نہ اعضاء نہ جوارح نہ ہماری طرح عناصر اربعہ سے بنا ہے نہ جنوں کی طرح آگ سے نہ ملائکہ کی طرح نور سے نہ اس کا جسم لطیف ہے نہ کثیف ۔نہ اس کی ذات میں تغیر ہے نہ تبدل ۔وہ جسم و جسمانیات اور زمان و زمانیات سے مبرا ہے۔(۴)

سید منظور حسین لکھتے ہیں

یعنی خدا کسی چیز سے مل کر نہیں بنا جیسا کہ انسان چار عناصر سے مل کر بنا ہے کیونکہ ہر مرکب اجزا ء کا محتاج ہے لیکن خدا جسم و جسمانیا ت کا محتاج نہیں ہے اور نہ وہ عرض و طول و عمق رکھتا ہے ( ۵)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔اس کی ذات کسی چیز کا مرکب نہیں ۔ نہ اس میں طول و عرض اور عمق وغیرہ ہیں ۔وہ ان سے سے بے نیاز اور بلند ہے۔

اہل حدیث

اہل حدیث علماء کی تحریروں سے یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جسم نہیں ہے ۔

وحید الزمان اہل حدیث کے نزدیک ثابت شدہ صفات باری تعالیٰ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وکذلک الید والوجہ والعین والاصابع و غیرہا من الصفات التی وردت فی الشرع و مع ذلک ہم لا یقولون کالکرامیۃ والمشبہۃ انہ جسم(۶)

اور اسی طرح ہاتھ ،چہرہ ،آنکھ اور انگلیا ں وغیرہ وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے ۔ اس کے باوجود وہ کرامیہ اور مشبہہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ جسم والا ہے۔

مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔

اہل سنت بریلوی

اہل سنت بریلوی علماء کی تصانیف میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔اللہ کی تجسیم کا قائل ہونا کفر ہے ۔

احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں،تجسیم کفر ضلال عظیم ہے(۷)

امجد علی اعظمی لکھتے ہیں

حیات ،قدرت ،سننا ،دیکھنا،کلام ،علم ،ارادہ اس کے صٖفات ذاتیہ ہیں مگر کان ،آنکھ ،زبان سے اس کا سننا دیکھنا کلام کرنا نہیں کہ یہ سب اجسام ہیں اور اجسام سے وہ پاک(۸)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جسم والی نہیں ہے ۔اور اللہ کی تجسیم کا عقیدہ کفر ہے ۔

اہل سنت دیوبندی

اہل سنت دیوبندی علماء کی عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم ہونے سے پاک ہے ۔

محمد شفیع تجسیم باری تعالیٰ کے بارے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں

حق تعالیٰ اعضا ء سے پاک ہیں

سوال:اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ جس طرح ہمارے ہاتھ پیر ہیں اسی طرح اللہ پاک کے بھی ہیں۔ تو ایسے شخص پر کیا حکم ہے؟

الجواب:یہ شخص گمراہ ہے ۔اہل سنت والجماعت سے خارج ہے لیکن تکفیر سے کف لسان کی جاوے توبہتر ہے بعض نے کافر بھی کہا ہے (۹)

اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں

اور دوسرا طریقہ خلف کا ہے کہ اس میں مناسب تاویل کر لیتے ہیں تاکہ گمراہ فرقے مشبہہ و مجسمہ ان کو غلطی میں واقع نہ کر سکیں ۔جیسے عرش پر مستقر ہوناتو ثابت ہے لیکن کیسے مستقر ہے اس کی کنہ نا معلوم ہے ایسا مستقر ہونا نہیں کہ جس سے جسم ہونا لازم آئے ۔قرآن میں ید،وجہہ کے الفاظ موجود ہیں ان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جیسے ہمارے ہاتھ اور منہ ہے ایسے ہی معاذ اللہ ،اللہ کا بھی ہے لیکن عوام کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے اور عوام کو عقیدہ تجسیم و تشبیہ سے بچانا بھی واجب تو اس لیے خلف علما ء نے اس کی ایسی تاویل کر دی کہ نہ قرآن و حدیث متروک ہوں اور نہ ہی عوام تشبیہ و تجسیم کے عقیدہ میں مبتلا ہوں(۱۰)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جسم نہیں ہے ۔جو الفاظ ہاتھ ،چہرہ وغیرہ کے اللہ کی ذات کے بارے میں قرآن و حدیث میں آئے ہیں ان سے مراد ہماری طرح کے ہاتھ ،چہرہ نہیں ہیں ۔مسالک اربعہ کے علماء کے مندرجہ بالا اقوال سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جسم وجسمانیات سے پاک ہے۔ یہی صورت تمام مسالک کے لیے قابل اتفاق ہو سکتی ہے ۔

امکان کذب باری تعالیٰ

اس مسئلہ کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ کیا جھوٹ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو سکتا ہے یا نہیں ؟کیا جھوٹ بولنا اللہ کی قدرت میں شامل ہے یا نہیں ؟

اقوال علماء مسالک اربعہ

مسالک اربعہ کے علماء کی تحریروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جھوٹ ایک قبیح فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بلند ہے کہ وہ جھوٹ کی صفت سے متصف ہو سکے ۔

اہل تشیع

اہل تشیع مسلک کے علماء کی تصانیف میں یہ بات ملتی ہے کہ کذب بری چیز ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے کہ کوئی بری چیز اس سے صادر ہو۔

سید ظفر حسن لکھتے ہیں

وہ صادق ہے کذب سے اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ کذب بری چیز ہے اور بری چیز کا صدور اس سے قبیح ہے(۱۱)

سید منظور حسین نقوی لکھتے ہیں

یعنی خدا سچا ہے کبھی جھوٹ نہیں کہتا اس کا ہر قول و فعل درست و صحیح ہے اور مطابق واقعہ ہے(۱۲)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ صادق ہے ۔جھوٹ سے اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔کیونکہ وہ تو اپنی مخلوق کے جھوٹ پر راضی نہیں وہ خود کیسے یہ کام کرے گا۔

اہل حدیث

اہل حدیث مسلک کے علما ء کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے جھوٹ صادر نہیں ہو سکتا۔

وحید الزمان صفات باری تعالیٰ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

و لا قبیح منہ و لا کذب و لا شر(۱۳)

اور نہ کسی برے کام کا اس سے صدور ممکن ہے نہ ہی جھوٹ کا اور نہ ہی برائی کا

مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جھوٹ صادر ہو ہی نہیں سکتا۔

اہل سنت بریلوی

علماء اہل سنت بریلوی کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کذ ب قطعا محا ل ہے ۔اس کا قائل اللہ کامنکر ہے ۔

احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں

اللہ تعالیٰ کا کذب قطعا اجماعا محال بالذات ہے (۱۴)

امجد علی اعظمی لکھتے ہیں

جھوٹ ،دغا ،خیانت ،ظلم ،جہل ،بے حیائی و غیر ہم اس پر قطعا محال ہیں اور یہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنیٰ کہ وہ خود جھوٹ بول سکتا ہے محال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے(۱۵)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جھوٹ سے متصف نہیں ہو سکتی ۔ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولے ۔ اس کا قائل ایسے ہی ہے جیسے خدا کی ذات کا انکار کرنے والاہوتا ہے ۔

اہل سنت دیوبندی

علماء اہل سنت دیوبندی کی تصانیف میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بلند ہے کہ صفت کذب سے متصف ہو سکے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جھوٹ بولنے کا قائل ہو وہ کافر ہے ۔

رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں

ذات پاک حق تعالیٰ جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بصفت کذب کیا جاوے معاذاللہ تعالیٰ اس کے کلام میں ہر گز ہر گز شائبہ کذب کا نہیں قا ل اﷲ تعالیٰ (مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اﷲِ قِیْلاً) (۱۶) جو شخص حق تعالیٰ کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ کذب بولتا ہے وہ قطعا کافر ہے اور مخالف قرآن اور حدیث کا اور اجماع امت کا ہے وہ ہر گز مؤمن نہیں( ۱۷)

خلیل احمد سہارنپوری ،کذب باری تعالیٰ کے قو ل کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ہم اور ہمارے مشائخ اس کا یقین رکھتے ہیں کہ جو کلام بھی حق تعالیٰ سے صادرہوایا آئندہ ہو گا وہ یقیناًسچا اور بلا شبہ واقع کے مطابق ہے اس کے کسی کلام میں کذب کا شائبہ اور خلاف کا واہمہ بھی بالکل نہیں اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے یا اس کے کسی کلام میں کذب کا وہم کرے وہ کافر ،ملحد ، زندیق ہے ۔اس میں ایمان کا شائبہ بھی نہیں( ۱۸)

مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے کذب ممکن نہیں ۔اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کا قائل قرآن ،حدیث اور اجماع امت کا منکر ہے اور کافر ہے ۔مسالک اربعہ کے علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے جھوٹ وغیرہ قبیح امور کا تعلق نہیں ہو سکتا۔اللہ کا جھوٹ سے متصف ہو نا محا ل ہے ۔یہی صورت تمام مسالک کے لیے قابل اتفاق ہو سکتی ہے۔

خلق قرآن

قرآن اللہ کا کلام ہے اس میں کلمہ گو مسلمانوں میں باہمی نزاع مفقود ہے ۔البتہ قرآن من حیث کلام اللہ کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے میں باہمی نزاع پایا جاتا ہے ۔یہ مسئلہ یوں ہے کہ قرآن جو کہ اللہ کا کلام ہے کیا وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ؟یا وہ اللہ تعالیٰ کی قدیمی صفت ہے ؟اور مخلوق نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے چند عشرے بعد ہی اس مسئلہ کا آغاز ہو گیا تھا۔اور آج بھی ان مسالک میں یہ مسئلہ بڑی گرما گرم بحثوں کا موجب بنتا ہے ۔

اقوال علماء مسالک اربعہ

مسالک اربعہ کے علماء کے ہاں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن من حیث کلام اللہ، اللہ کی صفت ہے ۔اور اللہ کی صفت کلام مخلوق نہیں ۔گویا کہ قرآن بطور خدائی کلام مخلوق نہیں۔اور یہی ممکنہ اتفاقی صورت ہو سکتی ہے ۔

اہل تشیع

اہل تشیع مسلک کے علماء کے ہاں بھی یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام قدیم ہے حادث نہیں ۔چونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے لہٰذا یہ بھی قدیم ہوا۔

سید ظفر حسن لکھتے ہیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی صفات عین ذات ہیں یعنی اس کی ذات سے الگ نہیں کہ پہلے اس کی ذات ہو پھر اس میں صفات کا الحاق ہوتا گیا ہو ۔۔۔ہم صفات باری تعالیٰ کو الگ سمجھ کر ان کے قدیم ہو نے کے قائل نہیں ورنہ تعدد قدماً لازم آئے گا اور یہ محال ہے کئی قدیم عقلاً ہو ہی نہیں سکتے(۱۹)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔کلام، اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ۔اور یہ صفت باری تعالیٰ مخلوق یا حادث نہیں بلکہ قدیم ہے ۔لہٰذا قرآن، کلام اللہ قدیم ہے مخلوق نہیں ۔

اہل حدیث

علماء اہل حدیث کی تحریروں میں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔کلام اللہ کی صفت ہے ۔اور یہ صفت قدیم ہے مخلوق نہیں۔ اور جو قرآن کو مخلوق مانے وہ کافر ہے ۔

ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں

’’مسئلہ خلق قرآن کے متعلق میرے عنایت فرما کچھ کہتے رہتے ہیں ۔لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ مسئلہ ہذا میں ،میں وہی عقیدہ رکھتا ہوں جو امام بخاری کا ہے۔ (امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا اس کی تشریح کرتے ہوئے ظفر عالم میرٹھی لکھتے ہیں :)بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات جس طرح غیر مخلوق ہے اسی طرح اس کی جملہ صفات بھی غیر مخلوق ہیں اور قرآن مجید بھی اس کی صفات میں سے ہے ۔ لہٰذا یہ غیر مخلوق ہے ۔یہ ہے عقیدہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا جس کی طرف مولانا مرحوم نے اشارہ فرمایا ہے(۲۰)

سید نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں

سو یہ بات صحابہ اور تابعین اور جمیع آئمہ مجتہدین سے ثابت ہو چکی ہے کہ قرآن شریف اللہ کا کلام ہے ۔اور کلام اس کی صفت قدیمہ ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اورغیر مخلوق ہے اور جو شخص اس کو مخلوق کہے سو وہ کافر ہے (۲۱)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ،مخلوق نہیں ہے۔اور جو اس کو مخلوق مانے وہ کافر ہے ۔سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے ۔

اہل سنت بریلوی

مسلک اہل سنت بریلوی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن ،اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی حیثیت سے مخلوق نہیں ہے ۔

احمد رضا خان لکھتے ہیں

والقرآن کلام اﷲ غیر مخلوق ولا فی اقتدار(۲۲)

قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو مخلوق نہیں اور تحت قدرت نہیں۔

امجد علی اعظمی لکھتے ہیں

مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے حادث و مخلوق نہیں ۔جو قرآن عظیم کو مخلوق مانے ہمارے امام اعظم اور دیگر ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے کافر کہا بلکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اس کی تکفیر ثابت ہے(۲۳)

معلوم ہوا کہ قرآن جو کلام اللہ ہے مخلوق نہیں ہے جو اس کو مخلوق مانے وہ کافر ہے ۔کیونکہ کلام اللہ کی صفت ہے جو کہ قدیم ہے تو قرآن بھی اسی صفت سے متعلق ہے تو یہ کیسے مخلوق ہو سکتا ہے ۔

اہل سنت دیوبندی

اہل سنت دیوبندی علماء کی کتب سے یہ بات ملتی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہونے کی حیثیت سے قدیم ہے ۔مخلوق نہیں ہے جو اس کو مخلوق مانے وہ کافر ہے ۔

انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

اللہ تعالیٰ کے کلام کو مخلوق ماننا موجب کفر ہے (۲۴)

عبد الحق لکھتے ہیں

اہلسنت والجماعت حدوث اور خلقِ قرآن کے قائل کو کافر اور اور معتقد کو مرتد سمجھتے ہیں(۲۵)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی حیثیت سے مخلوق نہیں ہے ۔جو اس کو مخلوق مانے وہ کافر ہے یہی سلف صالحین کا نظریہ ہے ۔یہی صورت تمام مسالک کے لیے قابل اتفاق ہو سکتی ہے ۔

حفاظت قرآن اس مسئلہ کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ وہ قرآن جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اور جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیا کیا آج امت مسلمہ کے پاس وہی قرآن موجود ہے؟ یا اس میں کچھ کمی یا زیادتی کر دی گئی ہے ؟کیا قرآن آج تک اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے ؟یا اس میں کچھ ردو بدل کر دیا گیا ہے ؟اس میں بعض مسالک بعض کو متہم کرتے ہیں ۔

اقوال علماء مسالک اربعہ

مسالک اربعہ کے علماء کی تحریروں میں یہ بات ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جو قرآن اترا تھا آج بھی وہ اسی صورت میں موجود ہے ۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں ہو ئی ۔اور یہی صورت اس مسئلہ میں اتفاقی صورت ہو سکتی ہے ۔

اہل تشیع

علماء اہل تشیع کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ موجودہ قرآن ہی اللہ کا کلام ہے اور تحریف سے پاک ہے ۔

سید ظفر حسن لکھتے ہیں

قرآن کے متعلق ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے حرف بحرف خدا کا کلام ہے(۲۶)

حسین بخش جاڑاقرآن میں تحریف کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں

اور شیعہ علمائے متکلمین قرآن مجید کو تحریف کی کتر بیونت سے بالا تر مانتے ہیں(۲۷)

مندرجہ بالا اقوال سے بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اہل تشیع کے علماء متکلمین قرآن کو تحریف سے بالا تر مانتے ہیں ۔

اہل حدیث

اہل حدیث علماء کے ہاں بھی یہ بات ملتی ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اللہ تعالیٰ قرآن کی حفاظت کر رہا ہے ۔

ثنا اللہ امرتسری لکھتے ہیں

رہی یہ بات کہ اگر یہ لوگ نہ مانیں گے تو قرآن کی اشاعت اور حفاظت نہ ہو گی بالکل غلط ہے کیونکہ ہم ہی نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں مجال نہیں کہ کوئی ذرہ بھر بھی اس میں ہیر پھیر کر سکے(۲۸)

معلوم ہوا کہ اہل حدیث مسلک میں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن میں تبدیلی یا تحریف ممکن نہیں ۔لہٰذا جو قرآن ہمارے سامنے موجود ہے وہ بالکل صحیح اور محفوظ ہے ۔کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے ۔

اہل سنت بریلوی

اہل سنت بریلوی علماء کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے ۔لہٰذا اس میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی ممکن نہیں۔جو اس میں کمی بیشی کا قائل ہو وہ کافر ہے ۔

امجد علی اعظمی لکھتے ہیں

چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہے لہٰذا قرآن عظیم کی حفاظت اللہ عز وجل نے اپنے ذمہ رکھی ۔ فرماتا ہے ( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ)(۲۹)ے شک ہم نے قرآن اتارا اور بے شک ہم اس کے ضرور نگہبان ہیں ۔لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا یا بڑھا دیا یا بدل دیا ،قطعا کافر ہے کہ اس نے اس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی(۳۰)

سید نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں

قرآن شریف کا اللہ تعالیٰ خود نگہبان ہے اس لیے وہ جیسا اترا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ویسا ہی رہے گا سارا زمانہ چاہے تو بھی اس میں ایک حرف کا فرق نہیں آسکتا(۳۱)

معلوم ہوا کہ قرآن میں تبدیلی محال ہے اگر ساری دنیا بھی اس میں تبدیلی کرنا چاہے تو نہیں کر سکتی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے ۔اس میں تبدیلی کا قائل اسلام سے خارج ہے ۔

اہل سنت دیوبندی

علماء اہل سنت دیوبندی کے ہاں یہ بات ملتی ہے کہ قرآن کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے ۔اب اگر اس کے دشمن ہزار کوشش بھی کرلیں اس میں تبدیلی نہیں کر سکتے ۔

شبیر احمد عثمانی آیت کی تفسیر و وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

یا د رکھو اس قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں اور ہم ہی نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔جس شان اور ہیئت سے وہ اترا ہے بدون ایک شوشہ یا زیر زبر کی تبدیلی کے چار دانگ عالم میں پہنچ کر رہے گا اور قیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی و معنوی سے محفوظ و مضمون رکھا جائے گا۔ ۔۔ ۔حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدہ الٰہی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوں کے سر نیچے ہو گئے(۳۲)

محمد شفیع لکھتے ہیں

بخلاف قرآن کریم کے کہ اس کے متعلق حق تعالیٰ نے فرمایا(إِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ)(۳۳)یعنی ہم اس کے محافظ ہیں،اس لیے اس کی حفاظت حق تعالیٰ نے خود فرمائی تو دشمنوں کی ہزار کوششوں کے باوجود اس کے ایک نقطہ اور ایک زیر و زبر میں فرق نہ آسکا(۳۴)

مندرجہ بالا اقوال سے بات واضح ہوتی ہے کہ قر آن میں تبدیلی یا تحریف ناممکن ہے ۔اللہ تعالیٰ خود قرآن کی حفاظت کررہا ہے ۔ لوگوں کی ہزار کوششوں سے بھی اس میں تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہی صورت اس مسئلہ میں قابل اتفاق ہے ۔

خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ

اس مسئلہ کی حقیقت یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کا جانشین کون تھا؟کیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے جانشین تھے یا نہیں؟کیا آپ پہلے خلیفہ تھے یا نہیں ؟رسول اللہ ﷺ کے بعد بطور خلیفہ سب سے پہلے کس کی بیعت کی گئی ؟

اقوال علما ء مسالک اربعہ

مسالک اربعہ کے علماء کی تحریروں میں یہ بات ملتی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کے بعد پہلے خلیفہ حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوئے ۔ تاریخی طور پر بھی یہی حقیقت ہے ۔

اہل تشیع

مسلک اہل تشیع کے علماء کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ۔ حضرت ابوبکر کے پہلے خلیفہ بننے کاعلم خود رسو ل اللہ ﷺ کو بھی تھا اور آپ نے اس کی خبر بھی دی تھی ۔

سید ریاض حسین نجفی ،وصال نبی ﷺ کے فوراً بعد خلافت کے بارے کہتے ہیں

تفصیلات میں اختلافات کے باوجود اس پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ قریشی مہاجرین کی بعض نمایاں شخصیات نے نبی کریم ﷺ کے غسل و کفن کوچھوڑ کر سقیفہ کا رخ کیا وہاں پر آنحضرت کی سیاسی جانشینی کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا ۔اس سلسلے میں موجود افراد کے مابین شدید اختلاف پیدا ہوا۔ لیکن بالآخر ہنگامی طور پر حضرت عمر کی تجویز پر حضرت ابو بکرکی بطور خلیفہ بیعت ہوگئی(۳۵)

سید مقبول احمد دہلوی لکھتے ہیں

حضور ﷺ نے حضرت حفصہ کو بتایا تھا کہ میرے بعد حضرت ابو بکرخلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد آپ کے والد حضرت عمر خلیفہ ہوں گے ۔حضرت حفصہ نے عرض کیا کہ آپ کو کس نے بتایا تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر یعنی اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ‘‘ملخصاً (۳۶)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے پہلے جس شخص کی بیعت ہوئی اور جو رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ بنے وہ حضرت ابو بکر تھے ۔اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے وصال سے قبل اس بات کی خبر بھی دی تھی کے میرے بعد ابو بکر خلیفہ ہوں گے ۔

اہل حدیث

علماء اہل حدیث کی کتب میں یہ بات ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔

فتاویٰ ثنائیہ میں ہے

ہم خلافت کو آپ کے خاندان قریش میں مختص مانتے ہیں ۔قیامت تک ان کے سوا کوئی خلیفہ نہ ہو گا آپ کی تمام امت میں سب سے زیادہ افضل اور بزرگ خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں آپ کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ کے بعد خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔امام مہدی علیہ السلام کی امامت برحق ہے(۳۷)

وحید الزمان لکھتے ہیں

والامام الحق بعد رسول اﷲ ﷺ ابو بکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی ثم الحسن بن علی(۳۸)

رسول اللہ ﷺ کے بعد امام بر حق ابو بکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور پھر حسن بن علی ہیں

معلوم ہوا کہ اہل حدیث مسلک میں رسو ل اللہ ﷺ کے بعد پہلے خلیفہ بر حق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔

اہل سنت بریلوی

علماء اہل سنت بریلوی کی تصانیف میں یہ بات ملتی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ برحق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور اس کا منکر کافر ہے ۔

احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں

ثانیاً حضرت افضل الاولیاء المحدبین امیر المؤمنین امام المتقین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امامت برحق سے انکار کرنا فقہائے کرام فرماتے ہیں :صحیح مذہب پراس کا منکر کافر ہے(۳۹)

امجد علی اعظمی لکھتے ہیں

نبی ﷺ کے بعد خلیفہ بر حق و امام مطلق حضرت سیدنا ابو بکر صدیق پھرحضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوئے۔ان حضرات کو خلفائے راشدین اور ان کی خلافت کو خلافت راشدہ کہتے ہیں(۴۰)

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے پہلے برحق خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔اس کا منکر کافر ہے ۔

اہل سنت دیوبندی

علماء اہل سنت دیوبندی کی کتب سے یہ بات ملتی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ تھے ۔ان کی خلافت کا منکر کافر ہے ،انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

خلافت شیخین کا منکر کافر ہے(۴۱)

رشید احمد گنگوہی حضرت علی کا حضرت ابوبکر کی بیعت کرنے کو خلافت ابو بکر کی حقانیت کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں

بیعت امام خلافت صدیق کی حقانیت ہے (۴۲)

مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہو ا کہ رسو ل اللہ کے پہلے حقیقی خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ کی خلافت کا انکار کفر ہے ۔ آپ کی خلافت کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کی ۔یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے جس کو قطعاً جھٹلایا نہیں جا سکتا۔اور یہی صورت تمام مسالک کے لیے قابل اتفاق ہے ۔

خلا صۃ البحث

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ اسلام عقائد پر بہت زور دیتا ہے ۔ اور  اسلام عقائد کی حیثیت دین اسلام میں ایسے ہی ہے جیسے جسم میں روح کی حیثیت ہے۔نیز   اتحاد امت کے لیے عقائد کااتفاقی صورت میں  مطالعہ ناگزیر ہے ۔

معاشرے میں اسلام کے قطعی عقائد کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے جسے دور یا کم سے کم کرنا ممکنات میں سےہے ۔اسلامی عقائد کی دو اقسام ہیں ۔قطعی عقائد اور ظنی عقائد۔

٭قطعی عقائد کی کثیر تعداد میں علماء برصغیر میں اصولاً کوئی اختلاف نہیں ۔

٭بعض قطعی عقائد میں بعض اہل مسالک دیگر کو متہم کرتے ہیں لیکن ان میں بھی اتفاق کی صورتیں ممکن ہیں ۔

٭مختلف فیہ قطعی عقائد میں عموما لفظی نزاع پایا جاتا ہے ۔مراد میں تقریبا یکسانیت ہے ۔ اتحاد امت کے لیے اس اختلاف کو مٹانا مشکل نہیں ۔

اقوال علماء برصغیر کی روشنی میں مندرجہ ذیل عقائد میں یہ قابل اتفاق صورتیں ہو سکتی ہیں

٭اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔

٭کذب کا صدور اللہ تعالیٰ کی ذات سے ممکن نہیں ہے ۔

٭قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی حیثیت سے غیر مخلوق ہے ۔

٭قرآن کسی قسم کے تحریف و تبدل سے محفوظ و مامون ہے ۔

٭رسول اللہ ﷺ کے بعد بطور خلیفہ سب سے پہلے بیعت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی گئی ۔

 

حوالہ جات

آل عمران (۳)،۱۰۳۔(۱)

آل عمران(۳)،۶۴۔(۲)

پرہاروی ،النبراس ،۵۹۸۔(۳)

سید ظفر حسن ،عقائد الشیعہ ،۱۳۔(۴)

نقوی ،نماز جعفریہ ،۷۔(۵)

نواب، ہدیۃ المہدی ،۱۱۷۔(۶)

بریلوی ،فتاویٰ رضویہ ،۲۴/۶۹۹۔(۷)

اعظمی ،بہار شریعت ،۱/۴۔(۸)

محمد شفیع ،فتاویٰ دارالعلوم دیوبند(دارالا شاعت ،کراچی،اشاعت اول،س،ن) ،۲/۱۱۰۔(۹)

تھانوی ،اشرف علی ،امداد الفتاویٰ (مکتبہ دار العلوم کراچی،جولائی ۲۰۱۰ء ؁) ،۶/۳۱۔(۱۰)

سید ظفر حسن ،عقائد الشیعہ ،۱۲۔(۱۱)

نقوی ،نماز جعفریہ ، ۷۔(۱۲)

نواب، نزل الابرار من فقہ النبی المختار ،۵۔(۱۳)

بریلوی ،فتاویٰ رضویہ،۲۹/۶۱۶۔(۱۴)

اعظمی ،بہار شریعت ،۱/۴۔(۱۵)

النساء (۴)،۱۲۲۔(۱۶)

گنگوہی ،فتاویٰ رشیدیہ ،۲۳۴۔(۱۷)

سہارنپوری ،عقائد علماء اہل سنت دیوبند ،۷۲۔(۱۸)

سید ظفر حسن ،عقائد الشیعہ ،۸۔(۱۹)

امرتسری ،فتاویٰ ثنائیہ ،۱/۲۱۰،۲۰۹۔(۲۰)

دہلوی ،فتاویٰ نذیریہ ،۱/۱۵۹۔(۲۱)

بریلوی ، فتاویٰ رضویہ ۱۵/۳۴۵۔(۲۲)

اعظمی ، بہار شریعت ،۱/۴۔(۲۳)

کشمیری ،اکفار الملحدین ،۱۸۴،۱۸۳۔(۲۴)

عبد الحق ، فتاویٰ حقانیہ (جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ،نوشہرہ، ۲۰۰۹ء ؁) ،۱/۱۶۸۔(۲۵)

سید ظفر حسن ،عقائد الشیعہ ،۳۸۔(۲۶)

جاڑا، انوار النجف فی اسرار المصحف ،۱۱/۱۵۵۔(۲۷)

امرتسری،ثنا ء اللہ ،تفسیر ثنائی (مکتبہ اصحاب الحدیث ،لاہور،فروری ،۲۰۰۷ء ؁)،۲/۷۵۴۔(۲۸)

الحجر(۱۵)،۹۔(۲۹)

اعظمی ، بہار شریعت ،۱/۷۔(۳۰)

مراد آبادی ،کتاب العقائد ،۲۰۔(۳۱)

عثمانی ،تفسیر عثمانی ،۳۴۷۔(۳۲)

الحجر(۱۵)،۹۔(۳۳)

محمد شفیع ،معارف القرآن ، ۵/۲۸۳۔(۳۴)

بحوالہ ثاقب اکبر ، پاکستان کے دینی مسالک ،۲۵۰۔(۳۵)

تفسیری مقبول ترجمہ قرآن مجید (حمیدی کتب خانہ ،بمبئی ،انڈیا،س،ن)،۸۹۴۔ (۳۶)

امرتسری ،فتاویٰ ثنائیہ ،۱/۸۹۔(۳۷)

نواب ،نزل الابرار من فقہ النبی المختار ،۷۔(۳۸)

بریلوی ،فتاویٰ رضویہ ،۲۶/۷۹۔(۳۹)

اعظمی ،بہار شریعت ،۱/۳۸۔(۴۰)

کشمیری ،اکفار الملحدین ،۱۷۸۔(۴۱)

گنگوہی ،رشید احمد ،تالیفات رشیدیہ (ہدایۃ الشیعہ )،(ادارہ اسلامیات ،لاہور،س،ن)۔۵۵۶۔ (۴۲)

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...