Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

مقاصد شریعت اور حقوق کی ادائیگی کا باہمی ربط: ایک تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1173

Pages

71-96

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/108/99

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/108

Subjects

Maqase-ud-Sharia Qura’n Sunnah Reights

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام کے ذریعے اپنے بندوں کی راہنمائی کا اہتمام کیا جنہوں نے اپنی بھر پور معاشرتی ،مذہبی اور معاشی و سیاسی زندگی کے ذریعے لوگوں کو زندگی گذارنے کا طریقہ سکھایا ،چونکہ ان تمام شعبہ ہائے زندگی سے انسانوں کو ہر صورت واسطہ پڑتا ہے اس لیے حقوق و فرائض کی ادائیگی پُر امن معاشرہ کے لیے ضروری ہے ۔مقاصد شریعت کا حصول حقوق و فرائض کی ادائیگی سے وابستہ ہے ۔اگر حقوق و فرائض میں خلل واقع ہو جائے تو مقاصدِ شریعت مفقود ہو جاتے ہیں ۔ اگر احکام الہٰیہ پر غور و فکر کیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان احکام کی بجاآوری سے خود بخود حقوق و فرائض کی ادائیگی ہو جاتی ہے ۔اس تحقیقی مقالہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خالق کے حقوق کون سے ہیں جو بندوں نے ادا کرنے ہیں اور بندوں کے حقوق کون سے ہیں جو خالق نے ادا کرنے ہیں اسی طرح بندوں کے آپس میں حقوق اور ان کی ادائیگی ،اور حیوانات کے حقوق کون سے ہیں اور انہیں کیسے ادا کیا جائے اور یہ کہ مقاصدِ شریعت اور حقوق آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔

احکام الٰہی کا بنیادی مقصد لوگوں کو گمراہی اور ضلالت سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لانا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

( ویُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنْه وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔) ۱؂

ترجمہ: وہ (اللہ تعالیٰ) اپنے حکم سے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔

عزالدین بن عبد السلام لکھتے ہیں کہ: یہ آیت کفار کے متعلق ہے اور ظلمات سے مراد کفر اور نور سے مراد ایمان ہے اور صراط مستقیم سے مراد دنیاوی لحاظ سے حق اور دین کا راستہ یا پھر آخرت کے لحاظ سے جنت کا راستہ ہے۔ ۲؂

کفر سے نکالنا اور ایمان کی دولت عطا کرنا گویا افسد المفاسد سے نکال کر اصلح المصالح عطا کرنا ہے اور دوزخ کی ابدی زندگی جو افسد المفاسد ہے‘ سے بچانا اور جنت کی ابدی زندگی جو اصلح المصالح ہے‘ عطا کرنا یقیناًاللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ انبیاء کرام کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی بعثت کو اہل ایمان کیلئے احسان عظیم قرار دیا:

( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ آیَاتِه وَیُزَکِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ اْلکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔) ۳؂

ترجمہ: یقیناًاللہ تعالیٰ کا مؤمنین پر احسان ہے کہ اس نے ان میں انہی میں سےایک عظیم الشان رسول مبعوث کیا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوتکر کے سناتا ہے۔ انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ یہ اس سے پہلے یقیناًواضح گمراہی میں تھے۔عزالدین ’’یُزَکِّیْھِمْ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اَوْ یَدْعُوْهُمْ اِلٰی مَایَتَزَکَّوْنَ بِه۔۔۔‘‘ ۴؂

ترجمہ:۔۔۔ وہ (نبی کریم ﷺ)انہیں تزکیہ کرنے والے امور کی طرف دعوت دیتے ہیں۔۔۔

نبی کریمﷺ یقیناًایسے اوامرونواہی کی دعوت دیتے تھے جو ان کیلئے دنیا وآخرت میں جلب مصلحت اور درء مفسدت کا باعث تھے اور آپﷺ ان کے ذریعے ان کے احوال کی اصلاح کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی امت کو اپنی دعوت کا بنیادی مقصد ان کی اصلاح بتایا۔ قرآن یوں کہتا ہے:

( وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَا لِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْهَاکُمْ عَنْه اِنْ اُرِیْدُ اِلاَّ الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰهِ عَلَیْهِ تَوَ کَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ۔) ۵؂

ترجمہ: جن کاموں سے میں تمہیں روکتا ہوں‘ میں ان کی مخالفت کا کبھی بھی ارادہ نہیں کرتا۔ امکانی حد تک میں تمہاری اصلاح کا خواہاں ہوں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ میں نے اسی پر توکل کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

     توفیق کا معنی اچھے مقصد کے حصول کیلئے تمام اسباب کا مہیا کر دینا ہے۔ ۶؂ زمخشری لکھتے ہیں کہ میرے وعظ ونصیحت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بنیادی مقصد صرف اور صرف تمہاری اصلاح ہے جہاں تک ممکن ہو سکا ‘ میں اس مقصد کی تکمیل کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرونگا۔ ۷؂ حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا:

( سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّالِحِیْنَ۔) ۸؂

ترجمہ: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ مجھے عنقریب صالحین میں سے پائیں گے۔

زمخشری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صلاح سے مراد حسن معاملہ اور عاجزی وانکساری ہے۔۔۔ اور مشیت الٰہی کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ اصلاح صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور معاونت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ ۹؂

اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء ورسل کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے دین ودنیا اور آخرت کی مصالح کا حصول اور ان سے مفاسد کو دور کرنا ہے۔ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ مصالح کا حصول دین اور دنیا دونوں میں ہوتا ہے دین کی مصالح معارف‘ عبادت‘ زہد‘ احوال۱۰؂ اور عبادات ہیں جبکہ دنیا کی مصالح وہ معاملات اور اعمال ہیں جن میں مخلوق کیلئے مصلحت ہوتی ہے۔۱۱؂

عزالدین لکھتے ہیں کہ احسان حصول نفع یا دفع ضرر یا دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے ان میں سے بعض کا تعلق دنیا سے اور بعض کا تعلق آخرت سے ہوتا ہے دنیوی احسان‘ دنیاوی معاملات میں نرمی برتنا‘ لوگوں سے دنیوی نقصانات کو دور کرنا‘ اپنے حقوق سے دستبردار ہونا اور مظالم سے درگزر کرنا وغیرہ ہیں جبکہ اخروی اعتبار سے احسان‘ علم وفتاوی کی تعلیم دینا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے متعلقہ تمام امور میں تعاون اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق عدم تعاون وغیرہ ہیں۔ ۱۲؂ عزالدین نے جلب مصالح اور درء مفاسد کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ وہ جن کا تعلق خالق کے حقوق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا‘ اس کی اطاعت کرنا اور کفر وعصیان سے بچنا۔ اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کی تین قسمیں ہیں:

i۔ وہ حقوق جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے معارف واحوال‘ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور ان پر ایمان لانا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا باعث بنیں۔ جیسے ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتب ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی‘ حشر‘ نشر اور جزا وسزا پر ایمان لانا۔

ii۔ وہ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے مرکب ہوں جیسے زکوٰۃ‘ صدقات وکفارات وغیرہ۔

iii۔ وہ جو حقوق اللہ‘ حقوق رسول اللہ‘ حقوق المکلف والعباد سے مرکب ہوں۔۱۳؂

۲۔ وہ جلب مصالح اور درء مفاسد جن کا تعلق مخلوق کے حقوق سے ہو‘اس کی عزالدین نے تین قسمیں ذکر

کی ہیں:

i۔ مکلف کی اپنی ذات کے حقوق مثلاً لباس‘ مکان‘ نان ونفقہ‘ آرام کرنا‘ افطار کرنا اور ترک رہبانیت وغیرہ۔

ii۔ بعض مکلفین کے حقوق دوسروں پر۔۱۴؂

iii۔ بہائم اور حیوانات کے انسان پر حقوق۔ ۱۵؂

چونکہ حقوق کا تعلق انسان کی زندگی سے انتہائی گہرا ہے اس لئے ذیل میں حقوق کا مفہوم، اس کی اقسام، مقاصد شریعت اور حقوق کا آپس میں باہمی ربط بیان کیا جاتا ہے۔

حق کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم: حق کا لغوی معنی کسی چیز کو پختہ اور درست کرناہے۔ یہ باطل کا متضاد ہے۔ ’’حَقُّ الشَّیْءِ‘‘ کا مطلب کسی شئ کا لازم اور واجب ہونا ہے۔ ۱۶؂ ’’اِحْقَاقُ الشَّیْءِ‘‘ اور ’’اِسْتِحْقَاقُ الشَّیْءِ‘‘ کا معنی ضروری اور واجب ٹھہرانا ہے۔ ۱۷؂ حق کا معنی نصیب اور ثابت شدہ حصہ بھی ہوتا ہے۔ ۱۸؂ متقدمین اصولیین نے حق کے واضح اور عام فہم ہونے کی وجہ سے اس کی تعریف باقاعدہ طور پر نہیں کی۔ متاخرین میں سے ڈاکٹر یوسف حامد عالم لکھتے ہیں:

’’ الْحُقُوْقُ وَهِیَ کُلُّ مَصْلَحَةٍ ثَبَتَتْ لِلْاِنْسَانِ بِاعْتِبَارِ الشَّرْعِ وَهِیَ قَدْتَکُوْنُ مُتَعَلَّقَةً بِمَالٍ کَحَقِّ الشُّرْبِ وَالْمُرُوْرِ وَالتَّعَلِّیْ وَقَدْ لَاتَکُوْنُ مُتَعَلَّقَةً کَحَقِّ الْحَضَانَةِ لِلْاُمِّ عَلَی الصَّغِیْرَ وَحَقُّ الزَّوْجِ عَلَی زوجَتِه۔‘‘ ۱۹؂

ترجمہ: حقوق ہر وہ مصلحت ہے جو شریعت کے اعتبار سے سے انسان کیلئے ثابت ہو۔ اس مصلحت کا تعلق کبھی مال سے ہوتا ہے جیسے پینے‘ گزرگاہ اور صحتیابی کا حق اور کبھی اس کا تعلق مال سے نہیں ہوتا جیسے چھوٹے بچے کو گود

لینے کا ماں کا حق اور خاوند کا اپنی بیوی پر حقوق وغیرہ۔

حق کی یہ تعریف جامع اور درست نہیں کیونکہ حق مصلحت نہیں بلکہ حصول مصلحت کا وسیلہ اور ذریعہ ہوتا ہے اور یہ تعریف حقوق اللہ اور حقوق الحیون کو بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ڈاکٹر یوسف حامد نے فقہاء کے ہاں حق کی تعریف نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ وَالْحَقُّ فِیْ عُرْفِ الْفُقَهَاءِ مَاثَبَتَ لِاِنْسَانٍ بِمُقْتَضَی الشَّرْعِ مِنْ اَجَلِ صَالِحِه۔‘‘ ۲۰؂

ترجمہ: فقہاء کی اصطلاح میں حق کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ اچھی بات جو شریعت کے مطابق انسان کیلئے ثابت ہو۔

یہ تعریف بھی جامع نہیں ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اور حیوان کے حقوق شامل نہیں ہیں۔ سید سلیمان ندوی ۲۱؂ نے بھی حق کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نفع مند اشیاء پیدا کی ہیں ان سے نفع اٹھانا اور انہیں مواقع پر صَرف کرنا جہاں اس نے انہیں صَرف کرنے کا حکم دیا ہے اور ان اشیاء کے نفع رسانی کے پہلو کو نقصان سے بچایا جائے تو اس ذمہ داری کا نام حق ہے۔ ۲۲؂

یہ حق کی تعریف نہیں بلکہ اس میں فرائض کی تعریف کی گئی ہے کیونکہ حق اور فرض لازم وملزوم ہیں ایک کا حق دوسرے کا فرض ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا انسان کا فرض ہے جبکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ ۲۳؂ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا:

’’ هلْ تَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰهِ عَلَی الْعِبَادِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰهِ؟ قَالَ قُلْتُ ’’الَلّٰهُ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ‘‘ قَالَ: فَاِنَّ حَقَّ اللّٰهِ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یَعْبُدُوْه وَلَایُشْرِکُوْا بِه شَیْءًا و حَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰهِ اَنْ لَّا یُعَذِّبَ مَنْ لاَّ یُشْرِکُ بِه۔۔۔‘‘ ۲۴؂

ترجمہ: کیا آپؓ جانتے ہیں کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو اسے عذاب نہ دے۔۔۔

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دوسروں کیلئے ادا کی جانے والی ذمہ داریوں کو حقوق کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق کیا ہے؟ بندوں کے حقوق کیا ہیں؟ اور اسی طرح حیوانات کے حقوق کیا ہیں؟ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں حقوق کی یہ تعریف کی جاسکتی ہے کہ حقوق وہ ذمہ داریاں ہیں جو خالق اور مخلوق ایک دوسرے کیلئے ادا کرتے ہیں ہر ایک کی یہ ذمہ داریاں دوسروں کیلئے حقوق کہلاتی ہیں۔ یاد رہے مخلوق میں انسان اور حیوان دونوں شامل ہیں۔

حقوق اللہ تعالیٰ: قرآن کہتا ہے:

( اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔) ۲۵؂

ترجمہ: اللہ تعالیٰ سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔

’’اَلصَّمَدُ‘‘کے بارے میں عزالدین لکھتے ہیں:

’’ اَلَّذِیْ لَا یَاْکُلُ وَلَایَشْرَبُ اَوِ الْبَاقِی الَّذِیْ لَایَفْنِیْ اَوِالدَّائِمُ الَّذِی لَمْ یَزَلْ وَلَا یَزَالُ۔۔۔ اَوِالَّذِیْ یَصْمَدُ اِلَیْهِ النَّاسُ فِیْ حَوَاءِجِهِمْ۔۔۔ اَلْمُسْتَغْنِیْ عَنْ کُلِّ اَحَدٍ‘ اَلْمُحْتَاجُ اِلَیْهِ کُلُّ اَحَدٍ۔۔۔‘‘ ۲۶؂

ترجمہ: جو کھانے اور پینے سے بے نیاز ہو یا ایسا باقی جسے کبھی فنا نہ ہو یا وہ ذات اقدس جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہنے والی ہو۔۔۔ یا وہ ذات اقدس جس کے تمام لوگ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے محتاج ہو ں اور وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔

حتیٰ کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کا اس طرح ذکر کرتا ہے:

( اِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ۔) ۲۷؂

ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ صفاتی اسم سترہ مرتبہ استعمال ہوا ہے جو اس موقف کو تقویت دیتا ہے کہ اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز‘ اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی اور گناہگاروں کے گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ لہٰذا جلب مصلحت اور درء مفسدت کا تعلق اس کی ذات سے کیسے ہوسکتا ہے؟

جہاں بھی حقوق اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو حقیقت میں ان حقوق سے وابستہ جلب مصلحت اور درء مفسدت کا فائدہ اصل میں مکلفین کو پہنچتا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو کیونکہ وہ ذات اقدس ان سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ناشکری سے بے نیازی کا یوں تذکرہ کرتا ہے:

( اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَایَرْضٰی لِعِبَادِهِ الْکُفْرَ وَ اِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَه لَکُمْ۔) ۲۸؂

ترجمہ: اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا ہے اگر تم اس کا شکر بجالاؤ گے تو وہ اس عمل سے تم پر خوش ہوگا۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری ناشکری سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے اگر ہم اس کے شکر گزار بندے بن جائیں تو ہمیں اس کی خوشنودی حاصل ہوگی گویا اعمال صالحہ کا فائدہ صرف مکلفین اور اعمال سۂ کا نقصان بھی صرف مکلفین کو ہوگا۔ اسی طرح احکام الٰہی کی بجا آوری سے جلب مصلحت اور درء مفسدت کا فائدہ بھی اہل ایمان کو ہوگا۔

حدیث قدسی۲۹؂ میں آیا ہے:

’’۔۔۔ یَا عِبَادِیْ ! اِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضُرِّیْ فَتَضُرُّوْنِیْ‘ وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ۔ یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَ اٰ خِرَ کُمْ وَاِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ‘ مَا زَادَ ذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئا وَ یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّ لَکُمْ وَ اٰ خِرَ کُمْ وَ اِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئا۔۔۔‘‘ ۳۰؂

ترجمہ ۔۔۔ اے میرے بندو! تم مجھے کوئی نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور آخری‘ تمہارے انسان اور جن سب مل کر تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح بھی ہو جائیں تو میرے ملک میں کسی شے کا اضافہ نہیں کرسکتے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور آخری‘ تمہارے انسان اور جن سب مل کر تم میں سے سب سے زیادہ بد کار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کوئی کمی نہیں کرسکتے۔

لہٰذا قرآن وحدیث کے ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام عالمین کے خیر وشر سے بے نیاز ہے لیکن مکلفین احکام الٰہیہ کی پیروی کرنے سے خود فیضیاب ہو کر دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی ہی حقوق اللہ ہیں جن کی بجا آوری سے بندگان خدا کو ہی فائدہ ہوتا ہے اور نافرمانی کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ۔) ۳۱؂

ترجمہ: میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔

عزالدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حقوق تین قسم کے ہیں:

۱۔ وہ حقوق جو صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے معرفت حاصل کرنا‘ اس پر ایمان لانا‘ صرف اسی کی غیر مشروط اطاعت کرنا‘ ان امور پر بھی ایمان لانا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا باعث ہوں جیسے انبیاء ورسل اور کتب سماویہ پر ایمان وغیرہ۔

۲۔ وہ حقوق جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے مرکب ہیں۔ جیسے زکوٰۃ‘ صدقات ‘ کفارات‘ قربانی وغیرہ

اللہ تعالیٰ کی قربت کے باعث بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کیلئے جلب منفعت اور دفع ضرر کا باعث

بھی ہیں۔

۳۔ وہ حقوق جو اللہ تعالیٰ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ اور مکلفین کے حقوق سے مرکب ہوں جیسے اذان ہے۔

اس میں تینوں کے حقوق ہیں مثلاً اذان میں تکبیرات اور اللہ کی وحدانیت کی گواہی اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی رسول اللہﷺ کا حق ہے اور عورتوں اور بغیر جماعت کے نماز پڑھنے والوں کو نماز کے وقت سے آگاہی میں اور باجماعت نماز ادا کرنے والوں کو جماعت کےساتھ نماز پڑھنے کی دعوت دینے میں بندوں کا حق ہے۔ ۳۲؂

قرافی اور شاطبی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حق وہ ہے جسے بندے کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ ۳۳؂

حقوق اللہ کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بندوں کو پہنچتا ہے۔ عزالدین لکھتے ہیں کہ جس طرح نماز میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے حقوق ہیں اس طرح اس میں مکلف اور عام بندوں کے بھی حقوق ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ وَاَمَّا حَقُّ الْمُکَلَّفِ عَلٰی نَفْسِه: کَدُعَاءِه فِی الْفَاتِحَةِ بِالْهِدَایَةِ وَالْاِعَانَةِ عَلَی الْعِبَادَةِ وَکَدُعَاءِ الْقُنُوْتِ۔۔۔ وَ دُعَاءٌ فِیْ اٰخِرِ الصَّلٰوةِ وَالْاِسْتِعَاذَةُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالتَّسْیِلْمُ عَلٰی نَفْسِه فِیْ قَوْلِه ’’سَلَامٌ عَلَیْنَا‘‘ وَ اَمَّا حَقُّ الْعِبَادِ: فَکَالدُّ عَاءِ بِالهِدَایَةِ وَالْاِعَانَةِ عَلَی الْعِبَادَةِ فِی الْفَاتِحَةِ وَ دُعَاءِ الْقُنُوْتِ وَ التَّسْلِیْمِ عَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ وَالصَّلٰوةِ عَلٰی آلِ الرَّسُوْلِﷺ وَالتَّسْلِیْمَتَانِ الْاُخَرَیَانِ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ وَلَمَّا اشْتَمَلتِ الصَّلٰوةُ عَلٰی هٰذِهِ الْحُقُوْقِ کَانَتْ مِنْ اَفْضَلِ اَعْمَالِ الْعَامِلِیْنَ۔‘‘ ۳۴؂

ترجمہ: نماز پڑھنے کے دوران نماز ی کے لئے اپنے حق یہ ہیں :سورۃ الفاتحہ پڑھتے وقت اپنی ہدایت‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی کیلئے اللہ تعالیٰ سے معاونت کی دعا‘ دعائے قنوت۔۔۔ شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے

پناہ مانگنا اور ’’السلام علینا‘‘ میں اپنے لئے سلامتی مانگنا ہے۔ نماز میں عام بندوں کے حقوق یہ ہیں: سورۃ فاتحہ میں بندوں کی ہدایت اور عبادت پر معاونت کی دعا کرنا‘ دعاء قنوت‘ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر سلام بھیجنا‘

آل رسولﷺ پر درود بھیجنا اور حاضرین پر آخری دوسلام بھیجنا۔ چونکہ نماز متعدد حقوق پر مشتمل ہے اسی لئے یہ سب سے افضل عمل ہے۔

اسی نماز کے ذریعے جسم اور بدن کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔ ۳۵؂ اعمال جلب منفعت اور درء مفسدت میں متفاوت ہونے کی وجہ سے اہمیت اور فضیلت میں بھی متفاوت ہوتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت اور اس پر ایمان لانا افضل عمل ہے کیونکہ ان دونوں کی مصلحت سب سے کامل مصلحت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ناواقفیت اور اس پر ایمان نہ لانا سب سے بڑا گناہ اور مفسدت ہے کیونکہ ان کا نقصان سب سے زیادہ ہے۔۳۶؂

اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کی ادائیگی میں جلب مصالح کو بنیاد بنایا ہے اور احسان کو تمام جلب مصالح اور درء مفاسد کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ عزالدین لکھتے ہیں:

’’ اَلْاِحْسَانُ اِمَّا جَلْبُ مَصْلَحَةٍ اَوَ دَرْءُ مَفْسَدَةٍ۔‘‘ ۳۷؂

ترجمہ: احسان جلب مصلحت یا درء مفسدت کا نام ہے۔

اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادات اور اس کے حقوق میں احسان کو لازم قرار دیا گیا ہے۔نبی کریمﷺ نے ارشاد

فرمایا:

’’ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ کَاَنَّکَ تَرَاه فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاه فَاِنَّه یَرَاکَ۔‘‘ ۳۸؂

ترجمہ: (احسان یہ ہے) کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اگر یہ کیفیت آپ کے اندر پیدا نہیں ہوتی تو یہ یقین کرلے کہ وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے۔

نماز میں خشوع وخضوع‘ جہاد میں رضائے الٰہی کا حصول‘ انفاق فی سبیل اللہ میں تثبیت بالقلب(دل کی مضبوطی) وغیرہ احسان کی مختلف صورتیں ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں احسان کا ذکر کرتے ہوئے عزالدین لکھتے ہیں:

’’ اَلْاِحْسَانُ بِوَصْفِ الزَّکٰوةِ بِالْمُسَارَعَةِ اِلٰی اِخْرَاجِهَا عِنْدَ وُجُوْبِهَا اِلٰی اَهْلِ بَلَدِهَا مِنْ اَنْفَسِ الْاَمْوَالِ وَخِیَارِهَا‘ خَلِیَّةً مِنَ الْعُیُوْبِ وَالشُبْهَاتِ وَمِنَ الْمَنِّ وَالْاَذٰی‘ مُقَدِّمًا بِهَا الْاَوْلٰی فَالْاَوْلٰی۔۔۔ وَهٰکَذَا حُکْمُ کُلِّ مَالٍ مَبْذُوْلٍ لِلتَّقَرُّبِ اِلَی اللّٰهِ۔‘‘ ۳۹؂

ترجمہ: زکوٰۃ کی ادائیگی میں احسان یہ ہے کہ زکوٰۃ کے وجوب کے ساتھ ہی عمدہ اور اچھا مال بطور زکوٰۃ نکال کر اپنے شہر کے مستحقین کو دینے میں جلدی کرنا اور وہ مال عیوب وشبہات‘ احسان جتلانے اور اذیت پہنچانے سے خالی ہو اور درجہ بدرجہ زیادہ مستحق کو پہلے دی جائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے خرچ کئے جانے والے ہر مال کیلئے یہی حکم ہے۔اسی طرح حقوق اللہ کو مفاسد سے بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے:

( وَاللّٰهُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَ۔) ۴۰؂

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

عزالدین نے فساد کے بارے میں لکھا ہے:

’’ فَاِنَّ الْفَسَادَ اِخْرَاجُ الشَّیْءِ عَمَّا یَنْبَغِیْ اَنْ یَکُوْنَ عَلَیْهِ۔‘‘ ۴۱؂

ترجمہ: جس چیز کا ہونا ضروری ہو‘ اس کا خاتمہ کرنایا اس کو نکالنا فساد ہوتا ہے۔

اسی لئے حقوق اللہ کی ادائیگی کو مفاسد سے محفوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اخروی مفاسد کے حصول پر سزا ملتی ہے اور ثواب چھن جاتا ہے۔۴۲؂ عبادت میں فساد عبادات کو ضائع کر دیتا ہے اور معاملات میں احکام مقصودہ کا فائدہ نہیں دیتا جیسے ہم مثل چیز کی نقد کی صورت میں زیادہ کے ساتھ بیع کرنا۔ ۴۳؂

چونکہ فساد کا تعلق کبھی دل سے اور کبھی بدن سے ہوتا ہے اس لئے فساد دل اور بدن دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اس نقصان سے بچنے کیلئے عزالدین نے فساد قلب اور فساد بدن کی دو دو قسمیں ذکر کی ہیں:

فساد قلب کی دو قسمیں مندرجہ ذیل ہیں:

i۔ فساد قاصر جیسے شک اور شرک وغیرہ۔ ii۔ فساد متعدی جیسے بغاوت اور سرکشی کا ارادہ۔

فساد بدن کی دو قسمیں مند رجہ ذیل ہیں:

i۔ فساد قاصر جیسے عبادات قاصرہ کا ترک کرنا۔ ii۔ فساد متعدی جیسے چغل خوری اور بہتان وغیرہ۔ ۴۴؂

حقوق اللہ کی ادائیگی اصل میں احکام الٰہی کی پیروی کا نام ہے۔ ان کی ادائیگی سے جہاں حقوق اللہ کی بجا آوری ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے دوسرے بندوں کیلئے بھی نفع رسانی کا سامان وافر موجود ہوتا ہے۔ حقوق اللہ کی کما حقہ ادائیگی سے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے جس سے رضائے الٰہی کا حصول یقینی ہو جاتا ہے اور ایک بندہ کو رضائے الٰہی کے علاوہ اور کیا چاہئے جو دنیا ومافیھا سے بڑھ کر ہوتی ہے۔

( وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَکْبَرُ۔) ۴۵؂

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی تھوڑی سی بھی رضاحاصل ہو جانا سب سے بڑی چیز ہے۔

حقوق العباد: حقوق العباد سے مراد وہ امور ہیں جن سے بندوں کی مصلحتیں وابستہ ہیں اور وہ امور بھی حقوق العباد میں شامل ہیں جو انہیں مفاسد سے محفوظ رکھتے ہیں۔ بندوں کے حقوق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھے ہیں جیسے رزق کا حصول انسانی اور حیوانی ضرورت ہے اور یہ ان دونوں کا بنیادی حق ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰهِ رِزْقُهَا۔) ۴۶؂

ترجمہ: زمیں پر بسنے والی ہر مخلوق کا رزق اللہ پر لازم ہے۔

قرافی لکھتے ہیں کہ بندے کا حق اس کی مصالح ہیں۔۴۷؂ اگر وہ اپنے حق کو ساقط کر دے گا تو اس کا یہ حق ساقط ہو جائیگا۔ ۴۸؂ انسان کیلئے دوسروں پر ثابت ہونے والے حقوق کو حقوق العباد کہا جاسکتا ہے۔

طاہر بن عاشور نے حقوق العباد کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے:

’’ وَحُقُوْقُ النَّاسِ هِیَ کَیْفِیَّاتُ اِنْتِفَاعِهِمْ بِمَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی الْاَرْضِ الَّتِیْ اَوْجَدَهُمْ عَلَیْهَا‘ کَمَا أنْبَأَ بِذٰلِکَ قَوْلُه تَعَالٰی (هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمُ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۔)۴۹ ؂ فَهٰذَا نَصُّ الْقُرْاٰنِ قَدْ جَعَلَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا لِّلنَّاسِ عَلٰی وَجْهِ الْاِجْمَالِ الْمُحْتَاجِ اِلَی التَّفْصِیْلِ وَالْبَیَانِ۔‘‘ ۵۰؂

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی زمین میں پیدا کردہ اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کا نام حقوق العباد ہے اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے’’ وہی ذات ہے جس نے زمین کی تمام اشیاء کو تمہارے لئے بنایا ہے‘‘ اس قرآنی نص نے زمین کی تمام اشیاء کو اجمالی طور پر لوگوں کا حق قرار دیا ہے جس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔

عزالدین اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء سے استفادہ کرنے کو اللہ تعالیٰ کا احسان قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ تَمَنَّنَ الرَّبُّ بِنِعَمِه‘ اَنْ کَانَتْ تِلْکَ النِّعَمُ مِنْ اَفْعَالِهِ الَّتِیْ لَااکْتِسَابَ لَنَا فِیْهَا کَانَ التَّمَنَّنُ بِهَا تَرْغِیْبًا لَّنَا فِیْ شُکْرِهَا بِعُرْفِ الْاِسْتِعْمَالِ وَاِنْ کَانَتْ بِمَا خَلَقَ فِی الْأَعْیَانِ مِنَ الْمَنَافِعِ‘ کَانَ ذٰلِکَ اِذْنًا فِی الْاِنْتِفَاعِ وَتَرْغِیْبًا فِی الشُّکْرِ۔‘‘ ۵۱؂

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے ذریعے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ کے ان افعال میں سے ہے جن میں ہمارے کسب کا کوئی عمل دخل نہیں تو ان نعمتوں کے استعمال کے ذریعے شکر گزاری کی ترغیب دی ہے۔

اگر یہ اشیاء براہ راست ہمارے فوائد سے متعلق ہیں تو یہ احسان فائدہ اٹھانے کی اجازت اور شکر گزاری کی ترغیب کیلئے ہے۔لیکن اگر ان تمام اشیاء سے تمام افراد کو فائدہ اٹھانے کی کھلی اجازت دے دی جائے تو اَنار کی پھیل جائیگی اور قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا اس لئے شرع کے مقررہ کردہ اصول وضوابط کی روشنی میں ان سے استفادہ کی اجازت ہے‘ اس لئے شریعت اسلامیہ نے حقوق اور مستحقین کی تعیین کر دی ہے۔ لہٰذا شرع کے بغیر نہ کسی کا کوئی حق ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو کسی حق کا مستحق ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

۱۔ حقوق العباد کی حقیقت ونوعیت:

حقوق العباد اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ حقوق اللہ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتے ہیں اسی لئے عزالدین لکھتے ہیں:

’’ مَا مِنْ حَقٍّ لِّلْعِبَادِ یَسْقُطُ بِاِسْقَاطِهِمْ اَوْ لَایَسْقُطُ بِاِسْقَاطِهِمْ اِلاَّ وَ فِیْهِ حَقٌّ لِّلّٰهِ وَهُوَ حَقُّ الْاِجَابَةِ وَالطَّاعَةِ‘ سَوَاءٌ أکَانَ الْحَقُّ مِمَّایُبَاحُ بِالْاِبَاحَةِ اَمْ لَایُبَاحُ بِهَا وَ اِذَا سَقَطَ حَقُّ الْآدَمِیِّ بِالْعَفْوِ فَهَلْ یُعَزَّرُ مَنْ عَلَیْهِ الْحَقُّ لِانْتِهَاکِ الْحُرْمَةِ؟ فِیْهِ اِخْتِلَافٌ۔ وَالْمُخْتَارُ اَنَّه لَایَسْقُطُ‘ اِغْلَاقًا لِبَابِ الْجُرْأَةِ عَلَی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ۔‘‘ ۵۲؂

ترجمہ: بندوں کا کوئی ایسا حق نہیں ہے جو ان کے ساقط کرنے سے ساقط ہو جائے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی حق موجود ہوتا ہے اور وہ قبولیت اور اطاعت کا حق ہے چاہے اس حق کو مباح ہونے کی وجہ سے مباح قرار دیا جائے یا مباح قرار نہ دیا جائے۔ جب معاف کردینے سے آدمی کا حق ساقط ہو جائے تو کیاحرمت کو پامال کرنے والے پر تعزیر ہوگی یا نہیں؟ تو یہ اختلافی مسئلہ ہے لیکن درست یہ ہے کہ اس پر تعزیر لگائی جائے تاکہ آئندہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی حرمت کی پامالی کا دروازہ بند ہو جائے۔

عزالدین نے اس کیلئے مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مسلمان اپنی موت کے بعد کے حقوق کو ساقط کرتے ہوئے وصیت کرے: ’’ اَنْ لَا یُغْسَلَ وَلَایُکَفَّنَ وَلَا یُصَلّٰی عَلَیْہِ وَلَایُدْفَنَ۔‘‘ ۵۳؂ (ترجمہ:کہ اسے نہ غسل دیا جائے‘ نہ اسے کفن دیا جائے‘ نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ ہی اسے دفن کیا جائے) تو اس کی اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایسے حقوق ساقط نہیں ہوتے جن میں اللہ تعالیٰ کا بھی حق ہو۔

اسی طرح اگر کسی نے مسلمان کو ضرب کے ذریعے اذیت پہنچائی تو اس نے گویا دو کام کئے ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور دوسرا مسلمان کی حرمت کی پامالی۔تو کیا بندے کے اپنے حق کو ساقط کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا حق ساقط ہو جائیگا یا نہیں‘تو اس میں بھی اختلاف ہے وہ علماء جو اسے بندے کا حق شمار کرتے ہیں تو وہ اس سزا کو ساقط قرار دیتے ہیں اور بعض علماء کے نزدیک محرمات الٰہیہ سے دست درازی کو ختم کرنے کیلئے اسے سزا دی جائے۔ ۵۴؂

۲۔ حقوق العباد کی اقسام: اگرچہ بندوں کے خالص حقوق تو بے شمار ہیں لیکن عزالدین نے ان حقوق کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

i۔ مکلف کے اپنی ذات کے حقوق :

یہ وہ حقوق ہیں جن کا تعلق مکلفین کی اپنی ذات سے ہے جیسے لباس‘ مکان‘ نان ونفقہ‘ سونا‘ افطار کرنا اور ترک ترہّب وغیرہ۔ ۵۵؂ مکلف کا اپنی ذات کا سب سے اہم حق اس کی جان کا تحفظ ہے جس پر قرآن کریم شاہد ہے:

( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ۔) ۵۶؂

ترجمہ: تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔

عزالدین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ نُهُوْا عَنْ قَتْلِ اَنْفُسِهِمْ فِیْ حَالِ الضَّجْرِ وَالْغَضَبِ۔‘‘ ۵۷؂

ترجمہ: انتہائی تنگی اور غصہ کے عالم میں انہیں اپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

لہٰذا کوئی انسان ایسا کام نہ کرے جس سے اس کی ذات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

حدیث کے مطابق ہر انسان کا خود اپنے اوپر بھی حق ہے اور اس کے ایک ایک عضو کا بھی اس کے اوپر حق ہے۔ فرمان رسولﷺ ہے:

’’ فَاِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا۔۵۸ ؂ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا۔‘‘۵۹؂

ترجمہ: بے شک تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے‘ بے شک تیرے جسم اور تیری

آنکھ کا تجھ پر حق ہے۔

ii۔ مکلفین کے ایک دوسرے پر حقوق:

یہ وہ حقوق ہیں جو مکلفین کو ایک دوسرے کیلئے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ عزالدین نے ان حقوق کی ادائیگی کا ایک ضابطہ ذکر کیا ہے:

’’ ضَابِطُهَا جَلْبُ کُلِّ مَصْلَحَةٍ وَاجِبَةٍ اَوْ مَنْدُوْبَةٍ وَدَرْءُ کُلِّ مَفْسَدَةٍ مُحَرَّمَةٍ اَوْ مَکْرُوْههٍ۔‘‘ ۶۰؂

ترجمہ: ان حقوق کا ضابطہ یہ ہے کہ ہر مصلحت واجبہ اور مندوبہ کو حاصل کیا جائے اور ہر مفسدت محرمہ اور مکروہہ سے بچایا جائے۔اسی لئے عزالدین نے لوگوں پر احسان کرنے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے دوسرے بندوں کو فائدہ پہنچانے کو سب سے افضل خوبی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’ مِنْ اَفْضَلِ التَّخَلُّقَاتِ اَنْ تُحْسِنَ اِلٰی عِبَادِ اللّٰهِ بِمِثْلِ مَا اَحْسَنَ بِه اِلَیْکَ وَ اَنْ تُنْعِمَ عَلَیْهِمْ بِمِثْلِ مَا اَنْعَمَ بِه عَلَیْکَ۔‘‘ ۶۱؂

ترجمہ: سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ اسی طرح احسان کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اور تو لوگوں پر اسی طرح انعام واکرام کرے جیسے اس نے تم پر کیا ہے۔قارون ۶۲؂ کی قوم نے اس کی اصلاح کیلئے اسے چند نصیحتیں کیں جن میں سے ایک یہ تھی:

( وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْکَ۔) ۶۳؂

ترجمہ: تو لوگوں کے ساتھ اسی طرح بھلائی کر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے۔

عزالدین نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ( وَتَعَانُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی۔)۶۴؂ (اور تم نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو) سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت میں مصالح کے حصول کیلئے سبب بننے کا حکم موجود ہے اور ( وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔)۶۵؂ (اور تم گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں تعاون نہ کرو) میں مفاسد کے سبب بننے کی نہی موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان ( اِنَّ اللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحَسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی۔)۶۶؂ (بے شک اللہ تعالیٰ‘ عدل‘ احسان اور رشتے داروں کی مالی امداد کا حکم دیتا ہے) میں مصالح اور ان کے اسباب کا حکم ہے اور ( وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ۔)۶۷؂ (اور وہ فحاشی‘ برائی اور بغاوت سے روکتا ہے) میں مفاسد اور ان کے اسباب کے نہی ہے۔ ۶۸؂

عزالدین لکھتے ہیں:

’’ وَالْاٰیَاتُ الْاٰمِرَةُ بِالْاِصْلَاحِ وَالزَّاجِرَةُ عَنِ الْاِفْسَادِ کَثِیْرَةٌ وَهِیَ مُشْتَمِلَةٌ عَلَی الْاَمْرِ بِالْاِصْلَاحِ الْمُتَعَلَّقِ بِحُقُوْقِ اللّٰهِ وَ حُقُوْقِ عِبَادِه وَعَلَی النَّهْیِ عَنِ الْاِفْسَادِ الْمُتَعَلَّقِ بِحُقُوْقِ اللّٰهِ وَ حُقُوْقِ عِبَادِه۔‘‘ ۶۹؂

ترجمہ: مصالح کے حصول کا حکم دینے اور مفاسد سے روکنے کے متعلق آیات بے شمار ہیں اور یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلقہ مصالح کے حصول کا حکم دیتی ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق مفاسد سے روکتی ہیں۔

ان میں سے صرف دو آیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ۷۰؂

اول: فرمان الٰہی ہے:

( اِنَّهُمْ کَانُوْایُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ۔) ۷۱؂

ترجمہ: وہ لوگ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے تھے۔

عزالدین نے اس آیت کی وضاحت میں لکھا ہے کہ وہ اعمال صالحہ کو بجالانے میں جلدی کرتے تھے اور مستثنیات کے علاوہ یہ تمام طاعات کے کاموں کیلئے عموم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۷۲؂

دوم: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَلَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا۔) ۷۳؂

ترجمہ: اور تم زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔

عزالدین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی وجہ سے اصلاح پیدا ہوتی ہے لہٰذا اس اصلاح کے بعد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ ۷۴؂ حتیٰ کہ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کے مارنے کو بھی ظلم اور فساد قرار دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۵؂ حقوق العباد کا تعلق عام طور پر جان ‘مال اور عزت سے ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کے احترام کی خصوصی تاکید کی۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’ فَاِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَ اَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ هٰذَا‘ فِیْ بَلَدِکُمْ هٰذَا‘ فِیْ شَهْرِکُمْ هٰذَا۔‘‘ ۷۶؂

ترجمہ: بے شک تمہارے خون‘ مال اور عزتیں تمہارے لئے اسی طرح محترم ہیں جس طرح تمہارے لئے یہ دن‘ اس شہر میں اور اس مہینے میں محترم ہے۔

عزالدین نے والدین‘ اولاد‘ زوجین‘ ہمسائے‘ مہمان‘ حکام اور رعایا کے باہم حقوق کا تذکرہ کیا ہے۔ ۷۷؂

یہ سارے حقوق انسان کو معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں ہی میسر آسکتے ہیں کیونکہ ان کو دین اور اخلاق کی تایید حاصل ہوتی ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی پر اس طرح زور دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی بھی کرے تو آپ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔اسی لئے عزالدین لکھتے ہیں:

’’ وَمِنْ اَکْمَلِ الْبِرِّ اَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَ تُعْطِیَ مَنْ مَنَعَکَ وَ تَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَ تُحْسِنَ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ۔‘‘ ۷۸؂

ترجمہ: سب سے کامل نیکی یہ ہے کہ تو اس سے تعلقات جوڑے جو تجھ سے قطع تعلقی کرے‘ تو ضرور اسے عطاء کرے جو تجھے ضرورت کے وقت نہ دے‘ جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر ے اور تو اس کے ساتھ احسان کرے جو تیرے ساتھ بُرا سلوک کرے۔

لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اقوال اور اعمال ظاہرہ اور باطنہ کے ذریعے مصالح عاجلہ یا آجلہ کے حصول یا مفاسد عاجلہ یا آجلہ سے بچاؤ کا اہتمام کرے اور اس سلسلے میں اِفراط وتفریط سے اجتناب کرے۔ عاقل کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے قول وعمل سے جلب مصلحت اور درء مفسدت کیلئے کوشاں رہتا ہے اور حقوق کی ادائیگی اصل میں اعمال صالحہ بجالانے اور اعمال سیّۂ سے اجتناب کرنے میں ہے۔

حقوق الحیوان: شریعت اسلامیہ کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ اس نے حیوانات کے حقوق کی بھی پاسداری کی ہے۔ اگرچہ اس کائنات کی تمام اشیاء انسان کی خاطر پیدا کی گئی ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اپنے حقوق رکھے ہیں جن کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ دوسری مخلوق سے انسان وہی کام لے جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا ہے اور ان کی قدرتی نشوونما ‘ترقی اور پرورش میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ ان کیلئے مناسب اسباب‘ غذا‘ سیرابی اور آرام کا اہتمام کرے ورنہ ان سے قدرتی فوائد کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ ۷۹؂

اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس رؤف اور رحیم بھی ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت ورافت کے ساتھ معاملہ کرتی ہے حتیٰ کہ اس کی رحمت ورافت کا دائرہ مکھی اور چیونٹی جیسی بظاہر کمزور مخلوق تک وسیع ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

’’ فِیْ کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَةٍ اَجْرٌ۔‘‘ ۸۰؂

ترجمہ: ہر تر جگر والی مخلوق کے ساتھ نیکی کرنے میں اجروثواب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کی وجہ سے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کی پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے بخشش ہوگئی تھی۔ ۸۱؂ اسی طرح جانوروں کے ساتھ برا سلوک کرنے سے دوزخ کا عذاب لازم ہو جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک عورت نے بلی کو باندھے رکھا‘ نہ اسے کھانا دیتی‘ نہ اسے پانی دیتی حتیٰ کہ وہ یونہی بھوکی پیاسی مرگئی تو اس عورت کو دوزخ میں داخل کر دیا گیا۔۸۲؂

ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے مفید جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اجروثواب ملتا ہے جبکہ انہیں اذیت پہنچانے کی وجہ سے گناہ اور سزا ملے گی۔ حیوانات کے لئے جلب مصالح اور درء مفاسد یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کا دائرہ حیوانات تک بڑھائے‘ ان کی ضروریات کو پورا کرے حتیٰ کہ جانوروں ۸۳؂ ‘ کتوں ۸۴؂ ا ور چیونٹیوں کا بھی خیال رکھے۔ ۸۵؂ عزالدین لکھتے ہیں کہ جلب مصالح اور درء مفاسد کیلئے بہائم اور حیوانات کے یہ حقوق انسان کے ذمہ ہیں:

’’ وَ ذٰلِکَ اَنْ یُنْفِقَ عَلَیْهَا نَفَقَةَ مِثْلِهَا‘ وَلَوْ زَمَنَتْ اَوْ مَرِضَتْ بِحَیْثُ لَا یُنْتَفَعُ بِهَاوَ اَنْ لاَّ یُحَمِّلَهَا مَالَا تُطِیْقُ وَلَا یَجْمَعُ بَیْنَهَا وَ بَیْنَ مَا یُؤْذِیْهَا مِنْ جِنْسِهَا اَوْ مِنْ غَیْرِ جِنْسِهَا بِکَسْرٍ اَوْ نَطْحٍ اَوْ جُرْحٍ وَاَنْ یُحْسِنَ ذِبْحَهَا اِذَا ذَبَحَهَا‘ وَلَا یُمَزِّقَ جِلْدَهَا وَلَایُکَسِّرَ عَظْمَهَا حَتّٰی تَبَرَّدَ وَ تَزُوْلَ حَیَاتُهَا وَ اَنْ لاَّ یَذْبَحَ اَوْلَا دَهَا بِمَرْأَی مِنْهَا وَاَنْ یُقَرِّدَهَا وَیُحْسِنَ مَبَارَکَهَا وَ أَعْطَانَهَا وَاَنْ یَجْمَعَ بَیْنَ ذُکُوْرِهَا وَاِنَاثِهَا فِیْ اِبَّانِ اِتْیَانِهَا وَ اَنْ لَایَخْذِفَ صَیْدَهَا وَلَا یَرْمِیْهِ بِمَایُکْسِرُ عَظْمَه اَوْ یُؤْذِیْهِ بِمَالَا یُحَلِّلُ لَحْمَه۔‘‘ ۸۶؂

ترجمہ: جانوروں کے حقوق یہ ہیں کہ :

i۔ انسان انہیں ان کی ضروریات کے مطابق کھانا اور چارہ مہیا کرے۔ اگرچہ وہ عمر رسیدہ ہوجائیں یا

بیماری کی وجہ سے ان سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ رہے۔

ii۔ ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ لادے۔

iii۔ انہیں اپنے جیسے یا دوسرے ایسے جانوروں کے ساتھ اکٹھا نہ کرے جو ان کو کوئی عضو توڑ کریا سینگ مار کر یا زخمی کر کے تکلیف پہنچائے۔

iv۔ انہیں ذبح کرتے وقت نہایت عمدگی سے ذبح کرے۔

v۔ ان کی جلد کو نہ پھاڑے اور نہ ان کی ہڈی کو توڑے یہاں تک کہ ان کا جسم ٹھنڈا ہو جائے اور جان چلی جائے۔

vi۔ ان کے بچوں کو ان کے سامنے ذبح نہ کیا جائے۔

vii۔ ان کے جسموں پر اگر چچڑیاں لگ جائیں تو انہیں ان سے دور کیا جائے۔

viii۔ ان کے بیٹھنے کی جگہوں کو صاف اور ستھر ابنایا جائے۔

ix۔ جانوروں کے جنسی ملاپ کے اوقات میں مادہ اور نر جانوروں کو ملاپ کا موقع فراہم کیا جائے۔

x۔ ان سے شکار چھیننے کیلئے انہیں کوئی پتھر وغیرہ نہ ماریں اور نہ ہی کوئی ایسی چیز ماریں جو ان کی ہڈی کو توڑدے یا انہیں کوئی ایسی اذیت پہنچائے جس سے ان کا گوشت حلال نہ رہے۔

عزالدین نے جانوروں کے جو مندرجہ بالا حقوق بیان کئے ہیں اگر ان پر پوری طرح عمل ہوگا تو ان کیلئے جلب مصالح اور درء مفاسد ممکن ہو سکے گا۔اس فصل میں بیان کئے گئے حقوق سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کیلئے مصالح کا حصول اور مفاسد سے بچاؤ اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد ہے اسی مقصد کی تکمیل کیلئے حقوق وفرائض کا ایک ایسا باقاعدہ نظام دیا ہے جس پر مستحق کو اس کا حق خود بخود حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر سکون بن جاتی ہے انسان کی عزت وشرف میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ان حقوق کی پاسداری مفقود ہو جائے تو انسان کی زندگی کا ہر شعبہ نقصان وخسران سے دو چار ہو جاتا ہے اور شرعی مصالح کا حصول ناپید ہو جاتا ہے۔

حقوق کی اقسام کا مقاصد شریعت کے ساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ مقاصد شریعت جلب مصالح اور درء مفاسد ہے اور حقوق اللہ مصالح عامہ اور حقوق العباد مصالح خاصہ کی مثالیں ہیں۔

خلا صۃ البحث

خلاصہ بحث یہ ہے کہ انبیاء ورسل کی بعثت کا بنیادی مقصد بندوں کی اصلاح‘ ان کیلئے دین ودنیا اور آخرت کی مصالح کا حصول اور انہیں دنیا وآخرت کے مفاسد سے بچانا ہے۔ جلب مصالح اور درء مفاسد کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے ہے۔ حق کا لغوی معنی کسی شے کو پختہ اور درست کرنا‘ کسی شے کو لازم اور واجب ٹھہرانا وغیرہ ہے جبکہ اصطلاح میں دوسروں کیلئے ادا کی جانے والی ذمہ داری کو ان کا حق کہا جاتا ہے۔ حقوق کو حقوق اللہ تعالیٰ‘ حقوق العباد اور حقوق الحیوان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت اور اس پر ایمان لانا‘ اس کی غیر مشروط اطاعت وغیرہ اور انبیاء ورسل اور کتب پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص‘ حقوق ہیں۔ بعض حقوق‘ حقوق اللہ تعالیٰ اور حقوق العباد سے مرکب ہوتے ہیں جیسے زکوٰۃ‘ صدقات اور کفارات وغیر ہ۔ بعض حقوق ‘ اللہ تعالیٰ‘ رسول اللہ ﷺ اور مکلَّفین کے حقوق سے مرکب ہوتے ہیں جیسے اذان۔ اللہ تعالیٰ کی عبادات اور اس کے حقوق میں احسان ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات حقوق سے بے نیاز ہے۔ حقوق اللہ کو مفاسد سے بچانا ضروری ہے جیسے شرک‘ بغاوت اور احکام کی نافرمانی وغیرہ۔ حقوق العباد سے مراد وہ امور ہیں جو بندوں کیلئے جلب مصالح اور درء مفاسد کا باعث بنتے ہیں۔ تمام حقوق العباد میں حقوق اللہ بھی ہوتے ہیں۔ کچھ حقوق مکلَّفین کی ذات سے وابستہ ہوتے ہیں جیسے لباس‘ مکان‘ نان ونفقہ‘ ترک ترہُّب اور اپنی جان کا تحفظ وغیرہ ۔ مکلَّفین اور حقوق العباد کا تعلق عام طور پر جان‘ مال اور عزت سے ہوتا ہے جن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے فساد فی الارض سے منع کیا گیا ہے۔ مکلَّفین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے ہر مصلحت واجبہ یا مباحہ کا حصول اور مفسدت محرمہ یا مکروہہ سے بچاؤ ضروری ہے۔ حقوق الحیوان یہ ہیں کہ ان کی مصالح کا خیال رکھا جائے اور انہیں مفاسد سے بچایا جائے۔الغرض مقاصد شریعت اور حقوق کی ادائیگی آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔

 

حواشی و حوالہ جات

۱۔ سورۃ المائدہ: ۵/۱۶

۲۔ عز الدین بن عبد السلام، تفسیر القرآن، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، ۲۰۰۲، ۱۲۶

۳۔ سورۃ آل عمران: ۳/۱۶۴

۴۔ تفسیر القرآن، ۹۲

۵۔ سورۃ ھود: ۱۱/۸۸

۶۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۱۳۹۹ ہجری، ۲/۳۸۷

۷۔ زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض القرآن، دار الکتاب العربی، بیروت لبنان، ۲/۴۲۰‘ ۴۲۱

۸۔ سورۃ القصص: ۲۸/۲۷

۹۔ الکشاف: ۳/۴۰۵

۱۰۔ عز الدین بن عبد السلام، قواعد الاحکام فی اصلاح الانام، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، ۲۰۰۳، ۱۵۲

۱۱۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، مجموع الفتاوی، سعودی عرب، ۱۱/۳۴۳

۱۲۔ قواعد الاحکام: ۴۶۴

۱۳۔ قواعد الاحکام: ۱۵۲‘۱۵۳

۱۴۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵

۱۵۔ قواعد الاحکام: ۱۶۵

۱۶۔ معجم مقاییس اللغۃ: ۲/۱۵

۱۷۔ ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، دار صادر، بیروت، ۱۰/۵۲‘۵۳

۱۸۔ لسان العرب: ۱۰/۵۱

۱۹۔ یوسف حامد عالم، المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلا، المعہد العالمی للفکر الاسلامی، ۱۹۹۱ء، ۴۷۲

۲۰۔ المدخل فی تعریف الفقہ الاسلامی لمصطفیٰ شلبی: ۲۳۸ ‘ بحوالہ المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ: ۴۷۳

۲۱۔ سید سلیمان ندوی (۱۹۵۳ء م ) برصغیر کے جید اور نقاد عالم دین تھے۔ حدیث اور تاریخ اسلام میں آپ کو کافی درک حاصل تھا ’’دار الندوہ‘‘ کی طرف نسبت کی وجہ سے ندوی کہلائے آپ بھوپال کے قاضی بھی رہے۔ آپ ہندوستان سے ۱۳۷۰ھ کو کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں ’’المعارف‘‘ مجلہ کا اجراء کیا آپ کی تالیفات میں سیرت النبیﷺ‘ ارض القرآن‘ سیرت عائشہؓ اور خطبات مدراس شامل ہیں۔ (الاعلام: ۳/۱۳۷

۲۲۔ سید سلیمان ندوی، سیرت النبیﷺ، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۶/۱۸۴

۲۳۔ معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس انصاری خزرجی: (۲۰ق ھ۔۱۸ھ) تھے۔ آپ ایک جلیل القدر صحابی اور حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم تھے آپ نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ تمام غزوات میں شرکت کی۔ نبی کریمﷺ نے انہیں یمن کاقاضی بنا کر بھیجا ۔ حضرت عمرؓ ان کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔ آپؓ سے ۱۵۷ احادیث مروی ہیں۔ (الاعلام: ۷/۲۵۷

۲۴۔ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ‘ حدیث نمبر: ۵۲‘ ۱/۴۰۲

۲۵۔ سورۃ الاخلاص: ۱۱۲/۲

۲۶۔ تفسیر القرآن للعز: ۶۷۴

۲۷۔ سورۃ آل عمران: ۳/۹۷

۲۸۔ سورۃ الزمر: ۳۹/۷

۲۹۔ وہ حدیث جس کی نسبت نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائیں۔ قرآن کا معنی ومفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ حدیث قدسی کا معنی اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے الفاظ نبی کریمﷺ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ قرآن کی نماز میں تلاوت کی جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی تلاوت نماز میں جائز نہیں۔ قرآن کا ثبوت تواتر سے ہے جبکہ حدیث قدسی میں تواتر کی شرط نہیں۔ (محمود طحان، تیسیر مصطلح الحدیث، مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ۱۲۶

۳۰۔ صحیح مسلم ‘ کتاب البر والصلۃ والادب‘ باب تحریم الظلم ‘ حدیث نمبر: ۶۴۴۹ ‘ ۷ /۱۵۴‘۱۵۵

۳۱۔ سورۃ الذاریات: ۵۱/۵۶

۳۲۔ قواعد الاحکام: ۱۵۲‘۳۵۳

۳۳۔ قرافی، احمد بن ادریس، عالم الکتب، بیروت، لبنان، ۱/۱۴۱‘ شاطبء، ابراہیم موسی، الموافقات فی اصول الشریعۃ، دار الفکر العربی، مصر، ۲/۳۱۸

۳۴۔ قواعد الاحکام: ۱۵۴ ؛ عز الدین بن عبد السلام، شجرۃ المعارف والاحوال و صالح الاقوال و الاعمال، بیت الافکار الدولیۃ، ریاض، سعودی عرب، ۱۴۳

۳۵۔ قواعد الاحکام: ۲۴۱

۳۶۔ شجرۃ المعارف: ۱۳۶

۳۷۔ قواعد الاحکام: ۴۶۴ ؛ شجرۃ المعارف: ۱۶۶ ؛ عز الدین بن عبد السلام، الفوائد فی اختصار المقاصد، دار الفکر المعاصر، دار الفکر دمشق، ۱۴۱۶ ہجری، ۳۲

۳۸۔ صحیح بخاری‘ کتاب الایمان‘ باب سوال جبرائیل النبیﷺ عن الایمان۔۔۔‘ حدیث نمبر:۵۰‘ ۱/۲۷ ؛ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘

حدیث نمبر:۱‘ ۱/۲۷۲ ؛ الفوائد فی اختصار المقاصد:۳۴

۳۹۔ شجرۃ المعارف: ۱۴۲‘ ۱۴۳

۴۰۔ سورۃ البقرہ: ۲/۲۰۵

۴۱۔ شجرۃ المعارف: ۱۶۷

۴۲۔ قواعد الاحکام: ۳۴۳

۴۳۔ بدخشی، محمد بن حسن، شرح البدخشی (مناہج العقول) دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۸۴ء، ۲/۶۸

۴۴۔ شجرۃ المعارف: ۱۲

۴۵۔ سورۃ التوبہ: ۹/۷۲

۴۶۔ سورۃ ھود: ۱۱/۶

۴۷۔ الفروق: ۱/۱۴۰ ؛ قراقی، احمد بن ادریس، شرح تنقیح الفصول فی الاصول، المطبعۃ الخیریۃ، مصر، ۱۳۰۶ ہجری، ۴۵

۴۸۔ الفروق: ۱/۱۴۱ ؛ شرح تنقیح الفصول: ۴۵

۴۹۔ سورۃ البقرہ: ۲/۲۹

۵۰۔ مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ لابن عاشور: ۴۲۱

۵۱۔ عز الدین بن عبد السلام، الامام فی بیان ادلۃ الاحکام، دار البشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۸۷ء، ۱۷۲‘ ۱۷۳

۵۲۔ قواعد الاحکام: ۱۶۵

۵۳۔ قواعد الاحکام: ۱۶۵

۵۴۔ قواعد الاحکام: ۲۰۲

۵۵۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵

۵۶۔ سورۃ النساء: ۴/۲۹ ؛ جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو اسے اس چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ (شجرۃ المعارف: ۳۳۲

۵۷۔ تفسیر القرآن للعز: ۱۰۳

۵۸۔ مسند احمد‘ حدیث نمبر: ۲۶۳۵۱‘ ۶/۲۶۸ ؛ سنن ترمذی‘ کتاب الزہد‘ باب نمبر: ۶۳‘ حدیث نمبر: ۲۴۱۳‘ ۴/۶۰۸ ؛ صحیح ابن حبان‘ کتاب الصوم‘ باب صوم التطوع‘ حدیث نمبر: ۳۶۳۸‘ ۸/۴۰۰

۵۹۔ صحیح بخاری ‘ کتاب الصوم‘ باب فی حق الجسم فی الصوم ‘ حدیث نمبر: ۱۸۷۴‘ ۲/۶۹۷

۶۰۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵

۶۱۔ شجرۃ المعارف: ۵۱

۶۲۔ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سمندر عبور کیا۔ انتہائی غریب تھا اللہ تعالیٰ نے اسے مالا مال کر دیا لیکن فرائض کی ادائیگی سے منہ موڑ لیا اور سامری کی طرح منافقت اختیار کی۔ (تفسیر القرآن للعز: ۴۰۸ ؛ تفسیر القرآن العظیم: ۳/۲۳

۶۳۔ سورۃ القصص: ۲۸/۷۷

۶۴۔ سورۃ المائدہ: ۵/۲

۶۵۔ سورۃ المائدہ: ۵/۲

۶۶۔ سورۃ النحل: ۱۶/۹۰

۶۷۔ سورۃ النحل: ۱۶/۹۰

۶۸۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵

۶۹۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵

۷۰۔ قواعد الاحکام: ۱۵۵‘۱۵۶

۷۱۔ سورۃ الانبیاء: ۲۱/۹۰

۷۲۔ تفسیر القرآن للعز: ۳۴۲ ؛ شجرۃ المعارف: ۳۰۳

۷۳۔ سورۃ الاعراف: ۷/۵۶

۷۴۔ تفسیر القرآن للعز: ۱۷۲

۷۵۔ شجرۃ المعارف : ۲۸۴

۷۶۔ مسند احمد‘ حدیث نمبر: ۱۵۰۳۲‘ ۳/۳۷۱ ؛ صحیح ابن خزیمہ‘ کتاب الحج‘ باب خطبہ الایام لوسطہ الایام التشریق‘ حدیث نمبر: ۲۹۷۳‘

۴/۳۱۸ ؛ مصنف ابن ابی شیبہ‘ کتاب الفتن‘ باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ ‘ حدیث نمبر: ۳۷۱۶۲‘ ۷/۴۵۳

۷۷۔ قواعد الاحکام: ۱۵۷۔۱۷۱ ؛ شجرۃ المعارف: ۱۴۲۔۲۶۱

۷۸۔ شجرۃ المعارف: ۴۱‘۱۷۲

۷۹۔ سیرت النبی : ۶/۱۸۶‘ ۱۸۷

۸۰۔ صحیح مسلم‘ کتاب قتل الحیات وغیرہا‘ باب فضل ساقی البہائم واطعامہا‘ حدیث نمبر: ۵۷۴۳‘ ۶/۶۲۲

۸۱۔ صحیح مسلم‘ کتاب قتل الحیات وغیرہا‘ باب فضل ساقی البہائم واطعامہا‘ حدیث نمبر: ۵۷۴۳‘ ۶/۶۲۲ ؛ شجرۃ المعارف: ۱۳۶‘۱۸۵

۸۲۔ صحیح مسلم‘ کتاب قتل الحیات وغیرہا‘ باب تحریم قتل الھرۃ‘ حدیث نمبر: ۵۷۳۶‘ ۶/۶۲۰

۸۳۔ جس نے جانوروں کو باندھ کر رکھا ہے تو وہ ان کے چارہ‘ پانی اور آرام وراحت کا ذمہ ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا توجانوروں کو چھوڑ دیا جائے تو پھر وہ خود اپنے ذمہ دار ہیں۔

۸۴۔ فصلوں ‘ کھیتوں ‘ گھر کی حفاظت اور شکار کیلئے کتا پالنا جائز ہے۔

۸۵۔ شجرۃ المعارف: ۴۸۴۰

۸۶۔ قواعد الاحکام: ۱۶۵‘ ۱۶۶ ؛ شجرۃ المعارف: ۱۶۱

 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...