Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 6 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

میڈیکل ٹیسٹ سے گواہی کی شرعی حیثیت: ایک تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029336_1177

Pages

55-69

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/162/152

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/162

Subjects

Investigation Crimes endeavors culprit clinical laboratory Islamic issues Medical test witness

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے جرائم کا صدور ہوتا آرہا ہے۔ کوئی معاشرہ ان سے محفوظ نہیں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور ان کی نوعیت میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جوں ہی اس کے تحقیق اور جرم کو معلوم کرنے میں ترقی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور نت نئے طریقوں سے واردات سامنے آتے ہیں۔ دوسری طرف انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کی روک تام کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ بادشاہِ وقت مختلف قسم کے قوانین وضع کرکے ان کو ختم کرنے یا اس میں کمی کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ساری دنیا کے خالق ومالک نے ہمیں شریعتِ محمدی ﷺ کی صورت میں جن قوانین سے نوازا ہے ان میں جرائم پر قابو پانے کے حقیقی گُر موجود ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں دوسری آسائشوں اور سہولیات سے نوازا ہے وہاں کسی مجرم کو معلوم کرنے یا اس کے ثبوت میں آسانیاں پیدا کی ہیں جو جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو پکڑنے میں امداد فراہم کرتی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے جہاں واردات اور جرائم میں خوش آئند کمی واقع ہو تی ہے وہاں چند شرعی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انہی مسائل میں سے ایک میڈیکل ٹیسٹ کی گواہی میں شرعی حیثیت بھی ہے کہ کیا کلینیکل لیبارٹری ٹیسٹ کو ہم گواہ کا قائم مقام بنا سکتے ہیں؟ بالفاظِ دیگر کسی میڈیکل ٹیسٹ سے گواہی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟

ذیل کے مضمون میں اس بات کا شریعت کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا کہ کیا میڈیکل ٹیسٹ شرعی گواہ کی حیثیت رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور کس حد تک یہ ہمارے لیے جرائم کے ثبوت میں شرعا معاون ہو سکتا ہے؟

واضح رہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کی گواہی سے صرف ان کلینکل ٹیسٹ کی گواہی مراد نہ ہو گی جو میڈیکل لیبارٹریز یا مائیکروبیالوجیکل لیبارٹریز میں ہوتے ہیں بلکہ اس سے ایک عام اصطلاح مراد ہے کہ وہ رپورٹ جو ہمیں جدید طب نے فراہم کی ہوں جو جرم کو معلوم کرنے کے لیے فائدہ مند ہوں یا جس سے جرم کے متعلق معلومات حاصل کرنےمیں آسانی پیدا ہو۔

ابتدا میں ایک تعارفی مقدمہ اور میڈیکل لیب ٹیکنالوجی کا تعارف ذکر کرنے کے بعد چند میڈیکل ٹیسٹ کا تعارف اور جن احکامات میں یہ مؤثر ہو سکتے ہیں ان کا تذکرہ ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد مؤثرہ احکامات میں سے ہر ایک کے لیے شرعی گواہی میں کردار پر دلائل سے بحث کی جائے گی اور ان میں تاثیر کی کیفیت بیان کی جائے گی اور آخر میں نتائج ذکر کیے جائیں گے۔

میڈیکل لیب ٹیکنالوجی کا تعارف

میڈیکل لیب ٹیکنالوجی جسے کلینکل لیب ٹیکنالوجی بھی کہا جاتا ہے اور عرف عام میں اسے میڈیکل ٹیسٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ درحقیقت جسم کے اندرونی وبیرونی ساخت اور عام انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی کیفیات کے مطالعہ کا نام ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ

Medical laboratory technology is one of the most rapidly expanding health care fields. As a medical laboratory technician, you will play an increasingly important role in health care delivery.[1]

ترجمہ: میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی کا سب سے تیزی سے صحت کی دیکھ بھال والے شعبوں میں سے ایک ہے۔ طبی لیبارٹری ٹیکنیشنر کے طور پر، آپ صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی میں تیزی سے اہم کردار ادا کریں گے۔

فقہی ذخیرہ میں جدید ٹیکنالوجی کا تصور

جدید ٹیکنالوجی سے مدد لینا دورِ حاضر کی ایجاد نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم سے ہی شریعتِ مطہرہ نے اسے استعمال کیا ہے اور شرعی احکام اس سے متاثر ہوئے ہیں چنانچہ عہد اسلامی کے آغاز میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جس کے حل میں اس وقت موجود جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے چنانچہ روایات میں مذکور ہے کہ ایک عورت نے اپنے جسم اور کپڑوں پر انڈے کی سفیدی لگا ئی اور اس کو دلیل بناکر سیدنا عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک نوجوان کے خلاف شکایت کی کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے اور یہ اس کی زیادتی کے آثار ہیں ۔ سیدنا عمرؓ نے عورتوں سے ان کے بدن پر آثار کے بارے میں پوچھا تو عورتوں نے تصدیق کی۔ نوجوان نے اس عورت کےدعویٰ کو جھوٹا قرار دیا۔ اس بارے میں سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ سے مشورہ کیا۔ سیدنا علیؓ نے گرم پانی منگوا کر ان آثار پرڈالوایا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ انڈے کی سفیدی تھی۔[2]

کچھ فقہی احکام ایسے ہیں کہ جن میں جدید ٹیکنالوجی اور کلینیکل ٹیسٹ کی طرف احتیاج پائی جاتی ہے اور ان کے بغیر اسے حل نہیں کیا جا سکتا ۔[3] ایسے مسائل جن کا تعلق علم طب سے ہو فقہائے کرام فتویٰ دیتے وقت ان میں ڈاکٹروں کے قول کو معتبر مانتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی اور ڈاکٹروں کے اقوال کا لحاظ کیے بغیر ان کا حل ممکن نہیں ہوتا یعنی ایسے مسائل میں صرف فقہ سے فتویٰ دینا اور علمِ طب کے ماہرین کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا جیسا کہ علم فقہ میں مریض کے لیے پانی استعمال کرنے یا نہ کرنے کے متعلق تب حکم لگایا جاتا ہے کہ جب ماہر طبیب اسے مشورہ دے دیں۔ صاحب ہدایہ احلیل میں قطرے ڈالنے سے روزے کے حکم کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ وَهَذَا لَيْسَ مِنْ بَابِ الْفِقْهِ[4] کہ اس مسئلہ کا تعلق فقہ سے نہیں ہے یعنی اسے ماہر اطبا کے مشورے کے بعد ہی حل کیا جا سکتا ہے اسی طرح ابن قدامہ ؒ بیان فرماتے ہیں کہ زخم چاہے انسانوں کے ہوں یا جانوروں کے، ان میں ڈاکٹروں کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔[5]

میڈیکل ٹیسٹ سے جرم کو ثابت کیا جا سکتا ہے یا نہیں اگر جرم ثابت ہو جائے تو صرف میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے کیا مجرم پر حد جاری ہو گا یا نہیں؟ ذیل کے صفحات میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا۔

مختلف میڈیکل ٹیسٹوں کا تعارف

ذیل میں مختلف ٹیسٹوں کا تعارف اور جن جرائم کو معلوم کرنے میں یہ معاون ہیں ان کا تذکرہ کیا جائے گا۔مزید یہ کہ اگر

کہیں ایک جرم دوسرے کسی عام مفہوم میں شامل ہو تو اس عام مفہوم کو بین القوسین ذکر کیا جائے گا۔

1: ڈی ۔ این ۔ اے (D.N.A.)ٹیسٹ

تعارف

دنیا میں موجود ہر دو انسانوں کے درمیان کئی اعتبار سے امتیاز پایا جاتا ہے جیسا کہ انگوٹھے کے نشانوں میں، آنکھوں کی رنگت( آئی پرنٹ) اور آواز وغیرہ میں ۔ان اعتبارات میں سے ایک ڈی این اے بھی ہے ۔ یہ ایک تیزابی خصوصیت والا پولی مر (زنجیر) ہوتا ہے جو ہر زندہ سر کے خلیاتی مرکزے میں موجود ہوتا ہے جس پر جینیاتی اکائیاں یعنی جینز موجود ہوتے ہیں۔ اس کی مدد سے وہ کسی جاندار کے تمام خصوصیات کو کنٹرول کرتا ہے۔

DNAکا لفظ بنیادی طور پر Deoxyribo Nucleic Acidکا مخفف ہے ۔

عربی میں اسے البصمۃ الوراثیۃ کہا جاتا ہے۔ البصمۃ کا معنیٰ ہے علامت اور الوراثیۃ کا معنیٰ ہے موروثی یا پیدائشی یعنی کسی انسان میں پیدائشی طور پر موجود علامت ۔[6]

اصطلاحی تعریف

DNA or deoxyribonucleic acid is a long molecule that contains our unique genetic code. Like a recipe book it holds the instructions for making all the proteins in our bodies.[7]

ترجمہ:ڈی این اے یا ڈی آکسی رائیو نیوکلیک ایسڈ ایک لمبا سالمہ( مالیکیول) ہوتا ہے جو ہمارے مخصوص جنسی کوڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک نسخہ والی کتاب کی طرح یہ ہمارے جسم کے تمام لحمیات( پروٹین) بنانے کے لیے معلومات اور ہدایات رکھتے ہیں۔

شرعی گواہی میں ڈی این اے کا کردار

ڈی این اے سے تین چیزیں ثابت ہونا ممکن ہے:

۱: حدود

۲: نسب کا ثبوت

۳: گواہی کی جانچ پڑتال

2: پوسٹ مارٹم

تعارف

کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کے موت کے سبب کو جاننے کے لیے جوٹیسٹ کیے جاتے ہیں اسے پوسٹ مارٹم کہا جاتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ

Post mortem is a highly specialized surgical procedure that consists of a thorough examination of a corpse by dissection to determine the cause and manner of death or to evaluate any disease or  injury that may be present for research or educational purposes.[8]

ترجمہ: پوسٹ مارٹم ایک اعلیٰ سطح کا خصوصی جراحتی عمل ہے جو موت کی وجہ اور طریقہ کار معلوم کرنے کے لیے لاش کو چیر پھاڑنے والے ذریعے سے مکمل معائنے پر مشتمل ہوتی ہے یا جو ممکنہ بیماری یا زخم کو تعلیمی یا تحقیقی مقصد کے لیے معلوم کیا جائے۔

مزید یہ کہ اس کی مدد سے مقتول کو زہر کے ذریعے مارے جانے کے بارےمیں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں جس میں اس کے بدن کے سارے اجزا کا معائنہ اورٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

شرعی گواہی میں پوسٹ مارٹم کا کردار* گواہی کی جانچ پڑتال

  • حدود وقصاص

3: الٹراساؤنڈ اور ایکسرے

تعارف

شعاعوں کے ذریعے جسم کے اندرونی ساخت اور اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے الٹرا ساونڈ اور ایکسرے استعمال ہوتا ہے۔ اندرونی جسم میں موجود کسی بیماری، عیب یا خرابی کا علم بھی اسی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کام ایم آر ائی اور سی ٹی سکین سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ ہر ایک کا کام الگ الگ اور مختلف ہوتا ہے۔ ایکسرے اور الٹراساؤنڈ سے معلومات ایم آر آئی اور سی ٹی سکین کے مقابلے میں کم حاصل ہوتی ہیں تاہم اس کے ذریعے معلومات حاصل کرنے پر رقم کم خرچ ہوتی ہے اور ہر جگہ آسانی سے دستیاب بھی ہیں۔

شرعی گواہی میں الٹراساؤنڈ اور ایکسرے کا کردار

یہ درج ذیل جرائم معلوم ہو سکنے میں کار آمد ہیں:

۱:رحمِ مادر میں بچے کا زندہ یا مردہ ہونےکی نشان دہی( حدود یا گواہی کی جانچ پڑتال)

۲: زخم یا ہڈی ٹوٹنے کے جرم کے متعلق معلومات( قصاص یا تعزیر)

4: فنگر پرنٹ

تعارف

کسی بھی جگہ پر ہاتھ لگنے کی وجہ سے انگلیوں میں موجود لکیروں کے جو نشانات وہاں رہ جاتے ہیں فنگر پرنٹ کہلاتے ہیں۔

An impression of the markings of the inner surface of the last joint of the thumb or other finger.[9]

ترجمہ: انگوٹھے یا دوسری انگلی کے آخری مشترکہ سطح کی نشاندہی کی ایک تاثر کو فنگر پرنٹ کہا جاتا ہے۔

شیشہ ، ٹھوس چیز یا کسی بھی انسانی بدن کے ساتھ جب انگلیاں لگ جاتی ہیں تو وہاں پر نشانات چھوڑ جاتےہیں جس کی مدد سے کسی انسان کو پہچاننا آسان ہوجاتا ہے۔اسی وجہ سے قومی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ یا کسی بھی پورے تعارف رکھنے والے دستاویزات میں ہاتھ کے سارے انگلیوں یا انگوٹھوں کے نشانات محفوظ کیے جاتے ہیں۔

انسان کی پہچان کروانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے ان کی مدد سے جرائم کو بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔مواضع جرم سے جیسے مجرم کا خلیہ ملنےسے ڈی این اےٹیسٹ کے ذریعے مجرم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسی طرح فنگر پرنٹ کے ذریعے بھی مجرم کی شناخت ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں دو انسانوں کے فنگر پرنٹ ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔

فنگر پرنٹ کی شرعی گواہی میں کردار

اس کے ذریعے درج ذیل جرائم کا ثبوت ممکن ہے:

۱: چوری، قتل ، زنا اور راہ زنی ( حدود )

۲: غصب ( تعزیر)

مذکورہ تمام مؤثَّر احکام کا تفصیلی تذکرہ

مذکورہ بالا میڈیکل ٹیسٹ کے شرعی گواہی پر اثرات میں سے بعض ایک دوسرے میں داخل ہیں جن کی طرف بین القوسین اشارہ کیا گیا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ حدود میں شامل ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ایک ایسا عام لفظ استعما ل کیا گیا ہے جس میں باقی تمام داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ حدود میں یہ سب شامل ہیں۔ تفصیل حسبِ ذیل ہے:

1: حدود وقصاص کا ثبوت

پہلی دلیل

حدود وقصاص کا ثبوت گواہی یا اقرار کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔گواہی کا نصاب کبھی چار ہوتا ہے جیسا کہ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ[10] ترجمہ: (زنا ) پر چار گواہ ان سے طلب کرو۔

کبھی دو گواہ لانا لازمی ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ[11]

ترجمہ: اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لوہاں اگر دو مرد موجود نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہو جائیں۔

ان دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ حدود وقصاص گواہوں سے ثابت ہوتی ہیں اور مزید کہ یہ شبہ سے ساقط ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں صرف مردوں کی گواہی قابلِ قبول ہوتی ہےکیونکہ عورتوں کی گواہی میں شبہ ہوتا ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی بیان فرماتےہیں:

وفی سائر الحدود الاخرٰی والقصاص اتفق الجمهور علی انها تثبت برجلین لقوله تعالیٰ واستشهدوا شهیدین من رجالکم ... ولا تقبل شهادة النسا ولا مع رجل ولا مفردات.[12]

ترجمہ: سارے حدود اور قصاص میں جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ اس آیت کی وجہ سے دو مردوں کے ذریعے ثابت ہوتی ہے اور عورتوں کی گواہی نہ اکیلے اور نہ ہی مردوں کے ساتھ قابل ِ قبول ہو گی۔

اور ایک فقہی قاعدہ بھی ہے: الحدود تدرء بالشبهات[13]

جب کہ میڈیکل ٹیسٹ میں غلطی کا احتمال پایا جا تا ہے جس کی وجہ سے اس میں شبہ پیدا ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے یہ شرعی گواہی میں معتبر نہیں۔ ان میں پائے جانے والے شبہات درج ذیل ہیں:

۱: مشینری میں غلطی کا احتمال( اگر چہ کئی مشینوں پر یہ عمل دہرانے سے اس غلطی کے احتمال کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی ۱۰۰ فی صد صحیح نتیجہ دینے سے قاصر ہے۔)

۲: جو خلیہ جائے واردات سے ملا ہے اسٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہی قاتل ہے ۔ شاید قاتل کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا کوئی خلیہ وہاں پر موجود ہو اور وہ مل جائے تو غیر قاتل مفت میں قاتل کے لسٹ میں شامل ہو جائے گا۔

۳: اجتماعی قتل اور اجتماعی آبرو ریزی کی صورت میں اگر کسی ایک کا خلیہ مل جائے اور اس کامیڈیکل ٹیسٹ ہو جائے وہی ایک مجرم تو مل جائے گا لیکن اس کے علاوہ دوسرے مجرموں کا معلوم کرنا اس ٹیسٹ کے ذریعے ممکن نہیں ۔

۴: اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ مجرم زبردستی کسی غیر مجرم کے خلیے کو لا کر جائے وقوعہ پر ڈال دیں۔

۵: کسی مرد کا مادہ منویہ زبردستی یا کسی بھی طریقہ سے حاصل ہو گیا اور اسےٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے انجیکٹ کیا گیا تو ڈی این اے کے ذریعے جس شخص کی نشان دہی کی جائے گی وہ زانی نہیں ہو گا۔

۶: انگوٹھے کے نشانوں کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔

۷:کسی غیر مجرم کے ہاتھ قتل کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے بھی لگ سکتے ہیں۔

۸: کسی غیر مجرم کے ہاتھوں کو زبردستی بھی لگایا جا سکتا ہے۔

دوسری دلیل

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

ولا يثبت الزنا بغير ذلك من الوسائل الحديثة، كالفحص الطبي أو التصوير بآلات التصوير والتسجيل، ولا يثبت بالفحص الكيميائي ولا غيره؛ لأن تلك الوسائل أمور محتملة، والإِسلام قد جعل مبدأ درء الحدود بالشبهات كما جاء في الحديث: "ادرؤوا الحدود بالشبهات"[14]

ترجمہ: زنا (گواہوں) کے علاوہ جدید وسائل سے ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ طبی معائنہ ، ڈیجٹیل ذریعے سے تصویر یا رجسٹریشن کے ذریعے۔ اسی طرح کیمیائی معائنہ ( لیبارٹری ٹیسٹ) اور نہ اس کے علاوہ سے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان وسائل میں احتمالات پائے جاتے ہیں اور اسلام نے حدود کو شبہات سے ساقط کیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ادرؤوا الحدود بالشبهات (حدود کو شبہات سے ساقط کرو)

تیسری دلیل

الفقہ المیسر میں ہے:

لا يصح إثبات جريمة الزنا بالتقرير للفاحص الكيميائي وتقرير إخصائي في بصمات الأصابع والشهادة الظرفية[15]

ترجمہ: زنا کےجرم کا ثبوت میڈیکل لیب رپورٹ ، فنگر پرنٹ رپورٹ اورشہادۃ ظرفیہ ( کسی شخص کو زانیہ کے گھر میں دیکھنے یا اس سےنکلتے دیکھنے) پر نہیں ہوتا۔

فنگر پرنٹ کے بارے میں لکھتے ہیں:

لا يعتمد على بصمات الأصابع في القصاص أو الحدود لما ورد من درء الحدود بالشبهات، ولكن يمكن الاستفادة من البصمات كأداة وقرينة لدى القاضي لدفع الجاني للاعتراف، فإن لم يعترف فإنه يمكن التعزير بناء على تلك القرينة بما يراه القاضي مناسبًا.[16]

ترجمہ: حدودو اور قصاص میں فنگر پرنٹ پر اعتماد نہیں کیا جائے گا کیو نکہ حدیث مبارک میں ہے کہ حدود شبہات سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن فنگر پرنٹ سے آلے اور قرینے کا کام لیا جا سکتا ہےکہ قاضی مجرم سے اعترافِ جرم کرا لے گا اس لیے کہ تعزیر اس بنا پر ممکن ہے اگر قاضی مناسب سمجھے۔

چوتھی دلیل

اسلامک فقہ اکیڈیمی انڈیا میں ڈی این اے کے متعلق سیمنار کا خلاصہ ذکر کرتے ہو لکھتے ہیں کہ جو جرائم موجب حد وقصاص ہیں ان کے ثبوت کے لیے منصوص طریقوں کی بجائے ڈی این اے ٹیسٹ کا اعتبار نہیں ہو گا۔ حدود وقصاص کے علاوہ دوسرے جرائم کی تفتیش میں ڈی این اے ٹیسٹ سے مدد لی جاسکتی ہے اور قاضی ضرورت محسوس کرے تو اس پر مجبور بھی کر سکتا ہے۔[17]

درج بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی میڈیکل رپورٹ کے ذریعے حدود وقصاص کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

2: نسب کاثبوت

پہلی دلیل ( قیافہ پر قیاس)

میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے سے جن امور کو معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے ان میں سے ایک نسب کا ثبوت بھی ہے۔اور یہ صرف ڈی این اےٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ثبوتِ نسب درست اس لیے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قیافہ سے مدد لے کر نسب کو ثابت کیا گیا چنانچہ بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث ہے:

إن هذه الأقدام بعضها من بعض"[18] ترجمہ:یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں۔

جب قیافہ کے بارے میں حکم یہی ہے تو ڈی این اےٹیسٹ اس مقابلے میں زیادہ واضح اور قوی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے تا ہم مشینی آلے سے ہونے کی وجہ سے غلطی کا احتمال بھی رکھتی ہے۔ اس لیے ثبوت ِ نسب کے لیے ڈی این اے سے انہی صورتوں میں مدد لی جا سکتی ہے جن صورتوں میں قیافہ سے مدد لی جاتی تھی چنانچہ قیافہ کے بارےمیں ہے کہ :

اگرایسے بچے کے بارے میں دو بندوں کا اختلاف پایا جائے جو بڑا اور عاقل ہو تو ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ایک عاقل انسان اپنا نسب خود بیان کر سکتا ہے کسی دوسرے کے بیان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر شرعی گواہ موجود ہوں تو بھی کسی قیافہ یا میڈیکل رپورٹ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا البتہ اگر چھوٹا یا مجنون ہو اور شرعی گواہ بھی موجود نہ ہو ں تو تین شرائط پر چونکہ قیافہ سے حکم لگایا گیا ہے اس لیے انہی شرائط سے میڈیکل رپورٹ کے ذریعے ثبوتِ نسب کا حکم لگایا جائے گا۔ وہ تین شرائط درج ذیل ہیں:

۱: فراش دونوں آدمیوں میں مشترک ہو۔ کیونکہ اگر ایک کے لیے فراش ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو تو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ۔[19]

۲: ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی زانی نہ ہو کیونکہ زانی کا قول اس مسئلے میں معتبر نہیں ہوتا۔

۳: دونوں کے لیے فراش ثابت بھی ہو۔[20]

دوسری دلیل

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فقہی سیمنار میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اس میں بھی لکھتے ہیں کہ جس بچے کا نسب شرعی اصول کے مطابق ثابت ہو اس کے بارےمیں ڈی این اےٹیسٹ کے ذریعے اشتباہ پیدا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

اگر کسی بچے کے بارے میں چند دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس واضح شرعی ثبوت نہ ہو تو ایسے بچے کا نسب ڈی این اےٹیسٹ کے ذریعے متعین کیا جا سکتا ہے۔[21]

3: گواہی کی جانچ پڑتال

میڈیکلٹیسٹ کے ذریعے گواہی کی جانچ ہو سکتی ہے بایں طور کہ مدعی دعویٰ کرے کہ فلاں شخص نے میری ہڈی توڑی ہے یا کسی عورت کے پیٹ میں موجود بچے کو مارا ہے اور ایکسرے یا الٹراساونڈ سے معلوم ہو جائے کہ اس کی ہڈی صحیح سلامت ہے یا ماں کے پیٹ میں بچہ زندہ ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ گواہوں کی گواہی ظاہر کے خلاف ہے ۔ اسی طرح گواہوں نے گواہی دی کہ فلاں شخص نے مقتول کو گولی سے مارا ہے جب کہ پوسٹ مارٹم سے معلوم ہو جائے کہ وہ تو ہرٹ اٹیک سے مرا ہے گولی کا کوئی نشان نہیں تو یہ گواہی بھی ظاہر کے خلاف ہوئی اور جب گواہی ظاہر کے خلاف ہو تو وہ رد کی جاتی ہے۔[22]

4: تعزیر

تعزیر لغوی اعتبار سے تادیب، تعظیم، منع اور نصرت کے معانی میں استعمال ہوتی ہے۔[23] جس جرم کی سزا میں حد یا کفارہ نہ ہو اسے جو سزا دی جاتی ہے اسے تعزیر کہا جاتا ہے۔[24]

اگر گواہوں کا نصاب پورا نہ ہو اور کوئی قرینہ یا دلیل میڈیکل رپورٹ کی صورت میں موجود ہو تو قاضی اپنے صواب دید اختیارات سے تعزیر کرا سکتا ہے چنانچہ الفقہ المیسر میں ہے:

ولكن يمكن الاستفادة من البصمات كأداة وقرينة لدى القاضي لدفع الجاني للاعتراف، فإن لم يعترف فإنه يمكن التعزير بناء على تلك القرينة بما يراه القاضي مناسبًا.[25]

لیکن اس سے قرینے اور آلے کا کام لیا جا سکتا ہےکہ قاضی مجرم سے اعترافِ جرم کرا لے ۔ اگر مجرم اعتراف نہ کرے تو قاضی اگر مناسب سمجھے تو تعزیر کرا سکتا ہے۔

اسی طرح جدید فقہی مباحث میں ہےکہ قاضی مدعیٰ علیہ کو قید بھی کر سکتا ہے۔[26]اور قید کرنا بھی تعزیر ہے۔

تمام مؤثَّر احکام کے لیے مشترکہ دلیل (عمل بالقرائن)

درج بالا سارے میڈیکل رپورٹ کی شرعی گواہی میں حیثیت کے لیے مشترکہ دلیل عمل بالقرائن کا مسئلہ ہے۔

فقہائے کرام کی کتابوں میں صراحۃً قرائن کے بارے میں ابواب موجود نہیں ہیں تاہم ان کی کتابوں کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ قرائن کو دلیل بنا کر اس سے شرعی گواہی ثابت کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں اس کا تعارف ذکر کرنے کے بعدچند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:

قرینہ کی تعریف

قرینہ لغت میں قَرَنَ سے ماخوذ ہے فعیلۃ کا وزن ہے جو کہ مفعولۃ کے معنیٰ میں ہے یعنی ملا ہوا جیسا کہ حج اور عمرے ایک ساتھ کرنے کو قِران کہا جاتا ہے۔[27]

اصطلاح میں قرینہ اس امر کو کہا جاتا ہے جو صریح نہ ہو نے کے باوجود مقصود پر دلالت کرے۔[28]

قرینہ کی قسمیں

قرینہ کی دو قسمیں ہیں:

۱: قرینہ قاطعہ۲: قرینہ غیر قاطعہ

جو قرینہ قطعی اور یقینی ہو اسے قرینہ قاطعہ اور جو غیر قطعی اور ظنی ہو اسے قرینہ غیر قاطعہ کہا جاتا ہے۔ [29]

حجیت قرینہ از قرآن

قرآن مجید میں قرینہ کو دلیل بنا کر مسائل کو ثابت کیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا[30]

ترجمہ: اور وہ یوسفؑ کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر آئےان کے والد نے کہا( حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے۔

یعقوبؑ نے جب قمیص کو دیکھا تو اس میں کوئی پھٹن نہ تھی اور نہ ہی بھیڑیئے کے چیر پھاڑ کے کچھ آثار تھے۔ اس لیے فرمانے لگے کہ بھیڑیا کب سے اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ کسی کو کھاتا ہے اور اس کے قمیص کو چیرنے نہیں دیتا۔ گویا کہ یعقوب ؑ نے قرائن سے استدلال کرتے ہوئے ان کی بات کو سچ نہیں مانا۔[31] گویا کہ ان کی گواہی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان کے دعوے کو رد کیا۔

یوسفؑ کے مقدمے میں بھی جو فیصلہ ہوا وہ قرائن کو مدنظر رکھ کر ہوا چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ[32] ترجمہ:اگر یوسفؑ کی قمیص سامنے سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے۔

قمیص کے پیچھے یا آگے سے پھٹنا جرم کرنے والے کے لیے قرینہ بنایا گیا ہے۔

احادیث مبارکہ سے دلیل

اس باب میں ایک روایت صفحہ نمبر ۲ پر گزر چکی ہے۔

ابو جہل کے باقی ماندہ چیزوں کو قاتل کے حوالے کرنا تھا اور اس کے لیے قاتل کی پہچان لازمی تھی جس کے لیے قرینہ رسول اللہ ﷺ نے اختیار کیا کہ جس کے تلوار پر خون لگا ہو اس نے قتل کیا ہو گا۔[33]

رسول اللہ ﷺ نے بالغہ سے نکاح کی اجازت کو صراحتاً مقرر کیا ہے جب کہ باکرہ کی اجازت کو قرینہ یعنی سکوت مقرر کیا ہے[34] چنانچہ رسول اللہ کا ارشاد ہے: وَإِذْنُهَا سُكُوتُهَا[35] باکرہ لڑکی کا سکوت (نکاح میں)اجازت ہے۔

اکابر کے اقوال

علامہ ابن القیم [36]بیان فرماتے ہیں کہ جو قاضی قرائن کا علم نہ رکھتا ہو تو وہ عوام کے بہت سارے حقوق کو ضائع کر دے گا۔لوگ اس کے پاس شکایت لے کر نہیں آئیں گے کیونکہ لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ ظاہر کو جانتا ہے باطن اور قرائن کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔[37]

معین الحکام میں طرابلسی [38]نے24فقہی مسائل ایسے ذکر کیے ہیں جن پر فقہائے کرام متفقہ طور پر فیصلہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے لیے قرائن کے علاوہ کوئی اور دلیل موجود نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرائن فقہائے کرام کے ہاں معتبر ہیں۔ جیسا کہ بچے کے ہاتھ ہدیہ قبول کرنا اور اسے مرسل الیہ کی طرف سے ماننا حالانکہ بچے کے قول کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح شبِ زفاف کو کسی نے گواہی نہیں دی ہوئی ہوتی کہ یہ فلانہ آپ کی بیوی ہے۔ پھر بھی وہ قرائن سے یقین کر لیتا ہے کہ یہ اس کی بیوی ہے اور اسی سے اس کی نکاح ہوئی ہے۔ [39]گویا کہ قرینہ قاطعہ حکم کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔[40]

میڈیکلٹیسٹ سےحدود اور قصاص میں گواہی دینا فقط قرائن کے ذریعے گواہی دینا ہے جب کہ حدود میں قرائن کے ذریعے گواہی نہیں دی جا سکتی چنانچہ وحبۃ الزحیلی اس بارے میں لکھتے ہیں:

ولا یحکم عند جمهور الفقهاء بالقرائن فی الحدود لانها تدرا بالشبهات ولا فی القصاص۔[41]

ترجمہ: جمہور فقہاء کے نزدیک حدود اور قصاص میں قرائن کے ذریعے حکم نہیں لگایا جائے گا کیونکہ حدود شبہات سے ساقط ہو جاتے ہیں۔

درج بالا دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرائن جب قطعی ہوں تو ان سے حدود وقصاص بھی ثابت ہو جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور قرائن ہیں تاہم اگر قرائن قطعی نہ ہو تو اس سے حدود وقصاص ثابت نہیں ہوتے البتہ قاضی اگر مناسب سمجھے تو تعزیر کرواتے ہوئے مجرم سے اقرار کروا سکتا ہے اور اقرارِ جرم کی وجہ سے پھر اسے حدود اور سارے سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اسی سےقاضی کے لیے صرف تعزیر کی سزا بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

نتائج

۱: کسی بھی میڈیکل رپورٹ سے حدود وقصاص ثابت نہیں ہوسکتے۔

۲: جب شرعی گواہ نہ ہو تو مجنون یا بچے کے نسب کو میڈیکل رپورٹ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

۳: میڈیکل رپورٹ سے تعزیر دی جا سکتی ہے۔

۴: قرینہ سے فقہی احکام اور شرعی گواہی تعزیر اور ثبوتِ نسب میں معتبر ہے۔

۵: گواہی کی جانچ پڑتال بھی میڈیکل رپورٹ سے ہو سکتی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. https://www.pcc.edu/programs/medical-lab/ ماخوذ، ۲۳ جولائی ۲۰۱۸ء
  2. الطرق الحكمية في السياسة الشرعية، أبو عبد الله محمد بن أبي بكر بن أيوب ابن قيم الجوزي، ۱: ۱۲۰، دار عالم الفوائد، مكة المكرمة، الطبعة الأولى، 1428 ه
  3. مستجدات العلوم الطبیة واثرھا فی الاختلاف الفقهیة،محمد نعمان محمد علی البعدانی، ص ۸، وزارۃ التعلیم ، جمہوریۃ السودان، ۲۰۱۲ء
  4. الہدایۃ، کتاب الصوم ،علی بن ابی بكر بن عبد الجليل الفرغانی، ابو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593ھ) ، باب ما یوجب القضا ء والکفارۃ، ۱: ۱۲۳، دار احياء التراث العربی، بيروت ، س۔ن
  5. المغنی لابن قدامۃ،أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620ه) ، کتاب الاقضیۃ، مسئلة شهادۃ الطبیب فی الموضحة ، ۱۰: ۲۴۰، مكتبة القاهرة، بیروت،1968ء
  6. مصباح اللغات، ص ۶۲ ، مادہ بصم، میر محمد کتب خانہ ، کراچی، س ن
  7. https://www.yourgenome.org/facts/what-is-dna ماخوذ ۲۰ جون ۲۰۱۸ء
  8. https://en.wikipedia.org/wiki/Autopsy ماخوذ ۲۰ جولائی، ۲۰۱۸ء
  9. https://www.dictionary.com/browse/fingerprintماخوذ ۲۰ جولائی، ۲۰۱۸ء
  10. النساء، ۴: ۱۵
  11. البقرۃ، ۲: ۲۸۲
  12. الفقہ الاسلامی وادلتہ،الدکتور وھبۃ الزحیلی، ۶: ۵۷۱، مکتبہ الرشیدیہ ، کوئٹہ ، س۔ن
  13. قواعد الفقه، محمد عميم الإحسان المجددي البركتي، ص ۷۶، قاعدۃ: ۱۱۱، الصدف پبلشرز، کراچی، ۱۹۸۶ء
  14. الفِقهُ الميَسَّر، عَبد الله بن محمد الطيّار، أ. د. عبد الله بن محمّد المطلق، د. محمَّد بن إبراهيم الموسَى، ۱۳: ۷۳، مَدَارُ الوَطن للنَّشر، الرياض، المملكة العربية السعودية،۲۰۱۱ء
  15. الفقہ المیسر، ۱۳: ۷۳
  16. الفقہ المیسر، ۱۳: ۸۷
  17. جدید فقہی مباحث ، بحث وتحقیق اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، ۲۰: ۱۵، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، گلشن اقبال کراچی، ۲۰۰۹ء
  18. صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الفرائض، باب القائف، حدیث: 6771،۸: ۱۵۷،دار طوق النجاة، الطبعة الأولى، 1422ه
  19. صحيح البخاري، کتاب الفرائض، باب الولد للفراش، حدیث: 6749، ۸: ۱۵۳
  20. القيافة تعريفها ومشروعيتها وشروط العمل بها،سعيد أحمد صالح ، ص ۲۴، جامعة المدينة العالمية ماليزيا، س۔ن
  21. جدید فقہی مباحث ، ۲۰: ۱۵
  22. فتح القدیر ،کمال الدین محمد بن عبد الواحد المعروف بابن ہمام، کتاب الحدود، باب الشہادۃ علی الزنا والرجوع عنہا، ۵: ۲۸۸، دار الفکر ، بیروت
  23. المصباح المنیر، أحمد بن محمد بن علي الفيومي ثم الحموي، أبو العباس (المتوفى: نحو 770هـ)، ۲: ۴۰۷، مادہ عزر، المكتبة العلمية، بيروت، س۔ن
  24. الموسوعۃ الفقہیۃ وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ، ۱۰: ۱۹،دار السلاسل ، کویت، ۱۴۲۷ھ
  25. الفقہ المیسر، ۱۳: ۸۷
  26. جدید فقہی مباحث ، ۲۰: ۱۵
  27. لسان العرب، ابن منظورمحمد بن مکرم بن علی (۷۱۱ھ)، ۱۳ : ۳۳۶، دار صادر بیروت، طبعہ ثالثہ ۱۴۱۴ھ
  28. الموسوعة الفقهية الكويتية،۳۳: ۱۵۶
  29. نفسِ مصدر
  30. یوسف، ۱۲: ۱۸
  31. تفسیر القرآن العظیم(تفسیر ابن کثیر)،ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیرالقرشی البصری ثم الدمشقی، ۴: ۳۷۵، دار الطیبہ للنشر والتوزیع، ۱۴۲۰ھ
  32. یوسف، ۱۲: ۲۶
  33. صحیح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261ه)، کتاب الجهاد والسیر، ۳: ۱۳۷۲، حدیث: ۱۷۵۲، دار إحياء التراث العربي، بيروت
  34. الموسوعة الفقهية الكويتية، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،۳۳: ۱۵۷، دار السلاسل، الكويت،1427 ه
  35. صحیح مسلم، ۲: ۱۰۳۷، حدیث: ۱۴۲۱
  36. محمد بن ابی بکر بن ایوب (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) اصلاحِ اسلامی کے ارکان اور بڑے علماء میں سے ہیں۔ ابن تیمیہ کے شاگرد اور آپ کے اکثر کتابوں کی تشریح کرنے والے ہیں۔مدارج السالکین، احکام اہل ِ ذمہ، اعلام الموقعین، الطرق الحکمیہ اور کئی دوسری کتب کے مصنف ہیں۔ دمشق میں پیدا ہوئے اور وہی وفات پائی۔( الاعلام ، خیر الدین بن محمود الزرکلی،۶: ۵۶، دار الملایین ، بیروت،۲۰۰۲ء)
  37. الطرق الحکمیۃ، ص۶
  38. ابو الحسن علاء الدین علی بن خلیل الطرابلسی( متوفیٰ : ۸۴۴ھ) حنفی فقیہ ہیں، قدس میں قاضی تھے۔فقہ حنفی میں معین الحکام فی ما یتردد بین الخصمین من الاحکام نامی کتاب لکھی ہے۔( الاعلام ، ۴: ۲۸۶)
  39. معین الحکام فی ما یتردد من الخصمین فی الاحکام،علاء الدین ابو الحسن علی بن خلیل الطرابلسی، ص۱۶۶، دار الفکر ، بیروت، س۔ن
  40. مجلۃ الاحکام العدلیۃ،لجنۃ مكونۃ من عدة علماء وفقهاء فی الخلافۃ العثمانيۃ،۱: ۳۵۳، نور محمد، كارخانہ تجارتِ كتب، آرام باغ، کراچی، س۔ن
  41. الفقہ الاسلامی وادلتہ، ۶: ۶۴۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...