Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

نسخ القرآن و نسخ کتاب مقدس |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1222

Pages

97-114

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/109/98

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/109

Subjects

Qur’an Sunnah Bible Naskh Bada’

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

نسخ کا مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذفرماتاہے، پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکےاس کی جگہ کوئی نیا حکم فرمادیتا ہے۔اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کو منسوخ اور نئے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔اہل کتاب کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کےاحکام میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ ان کے خیال میں اگر نسخ کو تسلیم کرلیا جائے تو (نعوذ باللہ)اللہ تعالیٰ  کے کلام میں تبدیلی ہوتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک حکم کو مناسب سمجھا تھا لیکن بعد میں اپنی غلطی واضح ہونے پر اس حکم کو واپس لے لیا جسے اصطلاح میں بداء کہتے ہیں[1]۔

نسخ کی لغوی تعریف: النسخ في اللغة عبارة عن التبديل والرفع والإزالة يقال نسخت الشمس الظل إذا أزالته۔

’’نسخ لغت میں تبدیلی، رفع اور ازلہ ہونے سے عبارت ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے: سورج  کا سایہ زائل ہوگیا‘‘۔

نسخ کی اصطلاحی تعریف:هو أن يرد دليل شرعي متراخيا عن دليل شرعي مقتضيا خلاف حكمه فهو تبديل بالنظر إلى علمنا وبيان لمدة الحكم بالنظر إلى علم الله تعالى[2]۔

’’نسخ سے مراد یہ ہے کہ ایک دلیل شرعی دوسری دلیل شرعی کے بعد لایا جائے جوکہ پہلے دلیل سے حکم میں مختلف ہوتا ہے اور یہی ہمارے علم میں تبدیلی ہے لیکن اللہ کے علم میں ایک حکم کی مدت کا بیان ہے‘‘۔

نسخ کے دو مفہوم: دراصل نسخ کی اصطلاح میں متقدمین اور متاخرین فقہاء کا اختلاف ہے کہ متقدمین علماء اس کو وسیع مفہوم میں مراد لیتے ہیں جب کہ متاخرین علماء نے اس کو محدود کردیا ہے۔

۱: کسی پہلے حکم کو کسی نئے حکم کی بناء پر سرےسے ختم کرنا۔

۲: پہلے سے موجود عام یا مطلق حکم کو کسی دوسرے نص کے ذریعے خاص یا مقید کردینا۔

یہ دوسری قسم متقدمین فقہاء کے اس وسیع مفہوم کی وجہ سے ہے جس میں کسی عام حکم کو خاص کردینے کو بھی وہ نسخ میں شمار کرتے ہیں۔اور ان دونوں طرح کےاطلاقات کی وجہ منسوخ آیات کی تعداد میں اچھا خاصا اختلاف ہوگیا ہے[3]۔اسی اختلاف کے پیش نظر یہاں پر دونوں کی امثلہ علیحدہ بیان کی جاتی ہیں۔

کسی حکم کے سرے سے ختم ہونے کی مثالیں:

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ[4]۔

’’تم پر فرض کردیا گیا کہ جب تم میں کسی پرموت (کا وقت)آجائےتو وہ وصیت کرے اگر وہ مال چھوڑرہا ہے اپنے والدین کے لئے اور دوسرے رشتہ داروں کےلئے جانےپہچانے طریقے سے، یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں کے لئے‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والے کےلئے وصیت کرنا فرض ہے لیکن جب آیت میراث اتری جس میں وارثوں کے حصّے مقرر ہیں تو آیت وصیت اس آیت کی رو سے منسوخ ہوگئی اور یہ آیت ناسخ۔وصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ۔الخ۔’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے اولاد کے بارے  میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کا حق دولڑکیوں کے برابر ہے‘‘۔

دوسری مثال: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ[5]۔

’’اےنبیﷺ!لوگوں کو جہاد کا شوق دلاو، اگرہوں تم میں بیس مرد صبر کرنے والےوہ غالب آئیں گے دو سو پر، اور اگر ہوئے تم سو تو غالب آئیں گے ہزار کافروں پر اس لئے کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں نرمی فرمائی اور پہلے خطاب کو تبدیل کردیا اور فرمایا:

الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ[6]۔

’’اب اللہ تعالیٰ نے بوجھ ہلکا کردیا ہے تم پر اور اس نے جانا کہ تم میں سستی ہے ، سو اگر ہو تم میں سے سو شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب آئیں گے دو سو پر اللہ کے حکم سےاور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْکے الفاظ پہلے آیت کےمنسوخ ہونے پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔

تیسری مثال: فإن جاءوك فاحكم بينهم أو أعرض عنهم[7]۔’’اگر آئے تمہارے پاس توفیصلہ کر ان کے درمیان یا ان سے اعراض فرما‘‘۔اس آیت کو اس آیت کے ساتھ منسوخ کیا گیا ہے۔وأن احكم بينهم بما أنزل الله[8]۔’’تو ان کے درمیان فیصلہ کر اس پر جو نازل کیا ہے اللہ نے‘‘[9]۔

کسی حکم کے عموم کی نسخ:

پہلا مثال: جو شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائیں اور پھر اس الزام کو ثابت نہ کرسکے تو قرآن پاک میں اس کی سزا اسیّ کوڑے ٹھہرائی گئی ہے۔ارشاد ہے: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ[10]۔’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور (اس پر)چار گواہ نہ لاسکیں تو انہیں اسیّ کوڑے (قذف کی حد)لگاو اورپھر آئندہ ان کی گواہی کہیں قبول نہ کرو وہ اللہ کے ہاں فاسق ہوچکے ہیں‘‘۔

یہ حکم ہر تہمت لگانے والے کے لئے عام تھا وہ کسی اور نکاح والی عورت پر الزام لگائے یا اپنی بیوی پر ۔مگر قرآن کی اگلی آیت نے اس تہمت لگانے والے کو جو اپنی بیوی پر تہمت لگاتا ہے اس آیت کی عموم سے نکال دیا لہٰذا یہ دوسری آیت پہلے آیت کی عموم کا نسخ ہوگا۔ارشاد ہے: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ() وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ[11]۔

’’اور وہ جو اپنی بیوی پر (زنا کی)تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہ ہوتو ان میں سے ایک کی گواہی کہ وہ سچا ہے (چار دفعہ دینے سے)چار شہادتیں شمار ہوگی اور پانچویں دفعہ وہ یہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت آئے‘‘۔

اس سے پتہ چلا کہ بعض عموم قرآن کی دوسری آیات سے منسوخ ہوتے ہیں۔

دوسری مثال: مسلمانوں کو جن چیزوں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے اس میں خون بھی شامل ہے ۔ارشاد باری ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِه[12]الخ۔’’تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اوروہ(حلال)جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، یہ سب حرام کئے گئے ہیں‘‘۔

قرآن کریم یہی حکم دوسری جگہ پر ارشاد ہوا اور خون کے ساتھ بہتے ہوئے کی قید لگادی جس سے مطلق خون کے حرام ہونے کا قید ختم ہوگیا۔ارشاد باری ہے: قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ[13]۔’’آپ کہہ دیں میں اس وحی میں جو مجھ پر آئی ہے کسی چیز کو کسی کھانے والے پر حرام نہیں پایا مگریہ کہ وہ چیز مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر پکارا گیا ہو غیر اللہ کانام‘‘۔

پہلی آیت میں مطلق خون کوحرام بتلایا جب کہ دوسری آیت میں اس کے ساتھ بہتےہوئے کا قید لگایا جس سے پہلے والا اطلاق جاتا  رہا اور یہ بھی ایک قسم کی نسخ ہے[14]۔

تخصیص اور نسخ کے درمیان فرق:

علامہ ابن حزم اندلسی نے تخصیص اور نسخ کے درمیان چند وجوہ سے فرق بیان کیا ہے۔وہ کہتےہیں کہ اگر چہ تخصیص اور نسخ ایک جہت سے دونوں کسی حکم کےخاص کرنے میں مشترک ہیں اور وہ بھی لغوی اعتبار سے کہ ایک لفظ لغۃً کسی حکم کو شامل ہوگا لیکن یہ دونوں چندوجوہ سے ایک دوسرےسے جدا ہیں۔

۱:تخصیص یہ واضح کرتی ہے کہ عموم سے جو چیز خارج ہوئی ہے تو متکلم کا اس لفظ سےاس پر دلالت مراد نہیں تھاجب کہ نسخ یہ واضح کرتی ہے کہ جو چیز خارج ہوئی ہے اس سے مکلف کرنے کا ارادہ نہیں تھا اگرچہ اس کے لفظ سے دلالت کا ارادہ کیا گیا تھا۔

۲:تخصیص کبھی بھی امر کو مامور واحد پر وارد نہیں کرتا جب کہ نسخ امر کو ایک مامور پر وارد کرتا ہے۔

۳:نسخ نفس الامر میں نہیں ہوتا مگر شارع کی طرف سے اس کا خطاب ہوتا ہےبخلاف تخصیص کےکہ اس میں قیاس بھی جائز ہے۔

۴: نسخ کے لیے ضروری ہے کہ یہ منسوخ سےموخر ہو جب کہ تخصیص میں یہ جائز ہے کہ یہ مخصص سے مقدم ہو۔

۵: تخصیص کی وجہ سے عام کی حجیت ختم نہیں ہوتی زمانہ مستقبل میں بھی اور عام پھر بھی معمول بہ رہتا ہے جب کہ نسخ منسوخ کے حکم کو بالکلیۃ ختم کرتا ہے کہ اس سے زمانہ مستقبل میں دلیل نہیں پکڑا جاسکتا۔لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب نسخ ماموربہ واحد پر وارد ہو۔

۶: نسخ جب ثابت ہوتا ہے تو یہ پہلے حکم کو رفع کردیتا ہے جب کہ تخصیص اس طرح سے نہیں ہے۔

۷: کسی ایک شریعت کو دوسری شریعت کےذریعے منسوخ کیا جاسکتا ہے جب کہ ایک شریعت میں دوسری کےذریعےتخصیص نہیں کی جاسکتی۔

۸: یہ جائز ہے کہ عام کے حکم کو بالکلیۃ منسوخ کیا جائے جب کہ تخصیص میں ایسا نہیں ہوتا[15]۔

نسخ کی ان دو مفاہیم کی وجہ سے منسوخ آیات کی تعداد میں اختلاف ہوگیا ہے جو لوگ تخصیص کےقائل ہیں ان کےہاں تو منسوخ آیات کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن جو تخصیص کے قائل نہیں ان کے ہاں منسوخ آیات کی تعداد کم ہے۔علامہ زرکشی نے اپنی کتاب میں قرآن کی تمام سورتوں کو تین طرح سے تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ قسم ہے جس میں نہ توناسخ ہے اور نہ منسوخ اوران سور کی تعداد ۴۳ بتائی ہے۔دوسری قسم وہ ہے جس میں ناسخ ہیں لیکن منسوخ نہیں ہیں اور ۶ سورتیں ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جس میں منسوخ آیات ہیں لیکن ناسخ نہیں ہیں اور ۴۰سور ہیں۔چوتھی قسم وہ ہے جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں ہیں وہ ۳۱ سور ہیں۔[16]

نسخ کی اقسام

۱: نسخ القرآن بالقرآن:                                                                                                                                  

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن  کا ایک مدت تک ایک حکم تھا لیکن اس مدت کے ختم ہونے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی تو نیا حکم آگیا کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا[17]۔’’جو منسوخ کرتےہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر‘‘۔دوسری جگہ پر ارشاد ہے: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ[18]۔"مٹاتا ہے اللہ جوچاہے اور باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب"۔

اس کے امثلہ اوپر گزر چکے ہیں۔

۲: نسخ السنۃ بالسنۃ:

جس طرح قرآن میں نسخ ہوتا ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کی احادیث میں بھی نسخ واقع ہوتا ہے۔ارشاد نبوی ہے: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلاَءِ بْنُ الشِّخِّيرِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْسَخُ حَدِيثُهُ بَعْضُهُ بَعْضًا كَمَا يَنْسَخُ الْقُرْآنُ بَعْضُهُ بَعْضًا[19]۔’’علاء بن شخیرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ بعض احادیث سے بعض احادیث  کو ایسے منسوخ کرتے تھےجس طرح قرآن کا بعض بعض کو منسوخ کرتا ہے‘‘۔

نسخ السنۃ بالسنۃ میں یہ تفصیل بھی ملحوظ نظر رکھنی چاہئے کہ متواتر کو متواتر منسوخ کرتا ہے اور احاد کو احاد کو اور متواتر سے احاد کو منسوخ کیا جاسکتا ہےجب کہ احاد سے متواتر کو منسوخ نہیں کیا جاسکتاکیونکہ اس پر اجماع واقع ہوا ہے اور حضرت عمرؓ کا قول بھی اس پر شاہد ہے[20]۔

عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ كُنْتُ فِى الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ مَعَ الأَسْوَدِ فَقَالَ أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - فَقَالَ مَا كُنَّا لِنَدَعَ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا -صلى الله عليه وسلم- لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لاَ نَدْرِى أَحَفِظَتْ ذَلِكَ أَمْ لا[21]۔’’ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود کے ساتھ مسجد جامع میں تھا کہ فاطمۃ بن قیس عمر ؓبن الخطاب کے پاس آئی تو عمرؓ نے فرمایا: ہم اپنے رب کے کتاب اور سنت رسولﷺ کو ایک عورت کے قول کےلئے نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ہمیں نہیں پتہ کہ اس کو یاد بھی ہے یا نہیں‘‘۔

مثال: عن أبي هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : توضؤوا مما مست النار[22]۔

’’‘حضرت ابو ہریرۃؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا ہے کہہ آپﷺ نے فرمایا: جس چیز کو آگ نے چھوا ہو تو (اس کے کھانےسے)وضو کرو‘‘۔

لیکن دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے گوشت تناول فرمایا اور وضو نہ کیا۔ارشاد ہے: عن ابن عباس قال : شهدت رسول الله صلى الله عليه و سلم أكل خبزا ولحما ثم قام إلى الصلاة ولم يتوضأ[23]۔’’حضرت عبدا للہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس موجود تھا ، آپ نے روٹی اور گوشت کھایا پھر نماز کے لئے آئے اور (تازہ)وضو نہ کیا‘‘۔

دوسری مثال: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا[24]۔’’میں تمہیں پہلے قبروں پر جانے سے روکتا تھا اب یہ نہیں رہی اب جاسکتے ہو‘‘۔

فَزُورُوهَاکے لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے قبروں پر جانے سے کسی حکمت کی بناءپر منع کیا گیا تھا[25]۔

۳:نسخ السنۃ بالقرآن:

اگر چہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا سنت کو قرآن کے ذریعے منسوخ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟تو اس بارے میں امام شافعیؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ نسخ السنۃ بالقرآن جائز نہیں ہےالبتہ جمہور اشاعرہ، معتزلہ اور فقہاء عقلاً وشرعاً اس کے جواز کے قائل ہیں۔

عقلی دلیل یہ ہے کہ قرآن اور سنت دونوں اللہ کی طرف سے وحی ہیں کیونکہ ارشاد باری ہے: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى[26]۔

یہ الگ بات ہے کہ ایک وحی متلو ہے اور دوسری غیر متلو۔

شرعی دلیل: صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے اس بات پر مصالحت کی کہ اگر کوئی مسلمان ہمارے پاس آیا تو ہم اس کو واپس کریں گے لہٰذا ابو جندل ؓ اور بہت سے مردصحابہؓ کو واپس کیا گیا لیکن جب ایک عورت آئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّار[27]۔

تو اس سے پتہ چلاکہ قرآن نے سنت کو نسخ کیا ہے۔

۴: نسخ القرآن بالسنۃ:

امام شافعیؒ، اکثر اہل الظواہراور امام احمدؒ کا ایک قول یہ ہے کہ نسخ القرآن بالسنۃ جائز نہیں ہےکیونکہ یہ حضرات دارقطنی کی ایک حدیث دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ارشاد ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضى الله عنهما قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: كَلاَمِى لاَ يَنْسَخُ كَلاَمَ اللَّهِ وَكَلاَمُ اللَّهِ يَنْسَخُ كَلاَمِى وَكَلاَمُ اللَّهِ يَنْسَخُ بَعْضُهُ بَعْضًا[28]۔’’حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرسکتا اور اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرسکتا ہے اور کلام اللہ میں ناسخ ومنسوخ دونوں ہیں‘‘۔

جب کہ اشاعرہ میں سے جمہور متکلمین، معتزلہ، فقہاء مالک وابو حنیفہؒ اور ابن سریج اس کے جواز کے قائل ہیں البتہ اس کے وقوع میں اختلاف ہےجو کہ ایک طویل بحث ہے[29]۔

نسخ کتاب مقدس

اگر چہ کہنے کو تو یہ نسخ ہے لیکن درحقیقت یہ نسخ نہیں بلکہ تحریف کی وجہ سے بائبل میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں۔

۱: انجیل متی میں ایک جگہ وارد ہے:’’ جو کوئی داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ تم سن چکےہو کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں  سے محبت رکھو[30]‘‘۔

اسی متی میں اس کے متضاد بیان آیا ہے: یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں ۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں ۔ کہ آدمی  کو اس کے بیٹے سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کروں[31]‘‘۔

اگرمندرجہ بالا عبارت کو دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ نسخ ہے ورنہ یہ تضاد ہے جو کہ کلام الہٰی میں ناممکن ہے۔

۲: حضرت یعقوبؑ کی شریعت میں دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز تھا اور خود حضرت یعقو بؑ کی نکاح میں دو بیویاں لیّٓاہ اور راحیٓل آپس میں بہنیں تھیں[32]۔لیکن حضرت موسیٰؑ کی شریعت میں اسے ناجائز قرار دیا گیا:’’ جب تک تمہاری بیوی زندہ ہے  تمہیں اس کی بہن کو دُوسری بیوی نہیں بنا نا چاہئے۔ یہ بہنوں کو ایک دوسرے  کا دُشمن بنا دے  گا۔ تمہیں اپنی بیوی کی بہن کے  ساتھ جنسی تعلقات نہیں کرنا چاہئے‘‘[33]۔

۳:حضرت نوحؑ کی شریعت میں ہر چلتا پھرتا جانور حلال تھا جیسے کہ ’’پہلے پہل تمہاری غذا کے  لئے  میں نے سبزی و نباتات کو دیا ہے۔ اور تمہارے لئے  تمام جانور کو بطور غذا دیا ہے۔ بلکہ روئے  زمین کی ہر چیز کو میں نے  تمہاری خاطر ہی بنا یا ہے‘‘[34]۔لیکن حضرت موسیٰؑ کی شریعت میں بہت سے جانوروں کو حرام کردیا گیا: جیسے کہ’’ جو جانور جُگالی کرتے  ہیں لیکن اُن کے  کھُر پھٹے نہ ہو تو ایسے  جانور کا گوشت مت کھاؤ۔ جیسے  اُونٹ، سمندری چٹان کا بجّو اور خرگوش تمہارے  لئے  ناپاک ہے۔ دوسرے  جانوروں کے کھُر جو دو حصوں میں بٹے  ہوئے  ہیں لیکن وہ جُگالی نہیں کرتے  اس لئے ان جانوروں کو مت کھاؤ۔ سُوّر ویسا ہی ہے اس لئے  وہ تمہارے  لئے ناپاک ہے‘‘[35]۔

۴: حضرت موسیٰؑ کی شریعت میں طلاق کی عام اجازت تھی : ہو سکتا ہے  کوئی آدمی  کسی عورت سے  شادی کرے اور کچھ خفیہ باتیں اس کے بارے  میں جان لے  جسے  کہ وہ پسند نہیں کرتا ہے۔ اگر وہ آدمی  اس عورت سے  خوش نہیں ہے  تو اسے طلاق نامہ لکھ کر اس عورت کو دینا چاہئے تب اپنے  گھر سے  اس کو بھیج دینا چاہئے۔ جب اس نے  اس کا گھر چھوڑ دیا ہے  تو وہ دوسرے آدمی  کے  پاس جا کر اس کی بیوی ہو سکتی ہے۔ لیکن مان لو۔ کہ نیا شوہر بھی اسے  پسند نہیں کرتا ہے  اور اسے  وِداع کر دیتا ہے  اور اگر وہ آدمی  اسے طلاق دے  دیتا ہے۔ تو بھی پہلا شوہر اسے  پھر سے  بیوی کی طرح نہیں رکھ سکتا ہے  یا اگر نیا شوہر مر جاتا ہے  تو پہلا شو ہر اسے  پھر سے بیوی کی طرح نہیں رکھ سکتا ہے  وہ اس کے  لئے  نجس ہو چکی ہے۔ اگر وہ اس سے  پھر شادی کرتا ہے  تو وہ ایسا کام کرے  گا جس سے خداوند نفرت کرتا ہے  تمہیں اس ملک میں ایسا نہیں کرنا چاہئے  جسے  خداوند تمہارا خدا رہنے  کے  لئے  دے  رہا ہے[36]۔لیکن حضرت عیسیٰؑ کی شریعت میں عورت کے زنا کار ہونے کے سوا اُسے طلاق دینے کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دی گئی۔جیسےکہ: اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی  اپنی بیوی  کو حرام کاری کے سوا  کسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی  چھوڑی ہوئی سے بیاہ کر لے اور بھی زنا کرتا ہے[37]۔

مندرجہ بالا بحث سے واضح ہوا کہ بائبل میں بھی نسخ واقع ہوا ہے ۔اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

بدا ءکی تعریف:

بدا کی تین طرح کی تعریف اور پھر اس میں آپس کا تلازم اور اس کے نقصانات کو مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنی کتاب ھدیۃ الشیعۃ میں تفصیل کے ساتھ نقل کئے لیکن یہاں پر اختصار کے ساتھ اس سے کچھ اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں ۔

’’نظام الدین جیلانی(جس کو آج کل کے شیعہ منافق کہتے ہیں)نے رسالہ علم الہدی فی تحقیق البداء میں یہ تعریف کی ہے:یقال بدا لہ إذا ظھر لہ رای مخالف للرّایِ الاوّلِ۔’’کہاجاتا ہے کہ فلانے کو بدا واقع ہوا جب اس کو پہلی رائے کے مخالف کوئی دوسری رائے سوجھے‘‘[38]۔

’’بدا کی دوسری تعریف: شریف مرتضی ذریعہ میں تحقیق کرکے لکھتے ہیں معنی قولنا بدا لہ تعالیٰ انّہ ظھر لہ من الامرِ مالم یکن ظاھراً۔’’ہم جو کہتے ہیں کہ خدا کو بدا ہوا توا س کےمعنی یہ ہے کہ خدا کوکوئی ایسی بات معلوم ہوئی جوپہلے نہ تھی‘‘۔

’’بدا کی تیسری تعریف: متاخرین امامیہ کہتے ہیں کہ بدا فقط اس خاص علم میں ہوتی ہے جس کی کسی کو خبرنہیں کرتے اور جو علوم انبیاءکو بھیجے جاتے ہیں اس میں خدا جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔

’’بدا کی ان تمام تعریفات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدا کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک بدا فی العلم یعنی خدا نے پہلے سے کچھ جان رکھا تھا مگر بعد میں حقیقت الامر کچھ اور معلوم ہوئی ۔دوسری قسم بدا فی الارادہ ہے یعنی پہلے کچھ ارادہ تھا پھر یوں معلوم ہوا کہ یہ ارادہ ٹھیک نہیں ۔ تیسری قسم بدا فی الامر ہے یعنی پہلے ایک حکم دیا پھر بعد ازاں یوں معلوم ہوا کہ پہلے حکم میں کچھ غلطی تھی تو اس حکم کو بدل کر دوسرا ایساحکم جس میں نقصان نہ ہو بلکہ مصلحت وقت معلوم ہوتی ہو وہ صادر فرمائیں‘‘۔

بداءکی تینوں قسمیں ایک دوسرے کو لازم ہیں:

اس کی صورت یہ ہوگی کہ بدا فی التکلیف کے واقع ہونے کے بدا فی الارادہ بھی جسے بدا فی التکوین بھی کہتے ہیں ، لازم ہوگا کیونکہ بدا فی الارادہ تو اسے ہی کہتے ہیں کہ بسبب کسی مصلحت تازہ کے پہلے ارادہ سے پلٹ جائیں تو جب مصلحت کے لحاظ سے حکم بدلا گیا تو پہلا ارادہ  جو اس حکم کی ہمیشگی کا تھا وہ اپنے آپ بدلا گیا ۔ اسی طرح بدا فی الارادہ کوبدا فی العلم جسے بدا فی الاختیار بھی کہتے ہیں، لازم ہے اس لئے کہ ارادہ تو نئی مصلحت کے معلوم ہونے پر بدلتا ہے پھر جب مصلحت تازہ معلوم ہوئی تو لازماً یہ بات صحیح ہوئی کہ جو علم اب حاصل ہوا وہ پہلے نہ تھا اور جو پہلے تھا وہ اب غلط معلوم ہو ا، اسی کو بدا فی العلم کہتے ہیں[39]۔

بداء کا عقیدہ رکھنے والوں کے لیے حضرت جعفر کی بددعا:

کلینی کی ایک روایت ہے:

فی الکافی عن منصور بن حازم عن ابی عبدالله قال منصور سالته هل یکون شی لم یکن فی علم الله قال: لامن قال هذا فاخزاه الله. قلتُ ارئیتَ ما کا ن و ما هو کائنُ إلیٰ یوم القیامة لیس فی علم الله؟ قال بلیٰ قبل ان یخلق الخلق[40]۔

’’کلینی کافی میں منصور بن حازم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؒ سے پوچھا کوئی چیز ایسی بھی ہوئی کہ کل خدا کو معلوم نہ تھی اور آج ہوگئی ہو؟ آپ نے فرمایا کوئی نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ تو بتایئے کہ جو ہوایا ہونے والا ہے قیامت تک کیا خدا کو معلوم نہ تھا؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے معلوم تھا‘‘۔

عقیدہ بدا ءکےنتائج:

۱:          اگر عقیدہ بدا کو مان لیا جائے تو یہ لازم آتا ہے کہ اللہ نے ائمہ سے جو مغفرت کا وعدہ کیا ہے تو اگر بعد ازبداللہ اس مغفرت سے پھر جائے تو ائمہ کا اللہ پر کیا دباو ہے۔

۲:         اگر بدا کو مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ امام مہدی جو قیامت کےنزدیک نکلیں گے تو کیا پتہ اللہ بعد از بدا اس کو نکالےہی نا۔

۳:         یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اللہ نے امام آخر الزمان کے لئے غار سر من رای کو منتخب کیا ہے لیکن بعد از بدا ممکن ہے کہ (نعوذ باللہ) اللہ سے اس انتخاب میں غلطی واقع ہوئی ہو۔

۴:         یہ بھی ممکن ہے کہ بعداز بدا اللہ نے امام آخر الزمان کو معزول کردیا ہو۔

۵:         ایک اور بہت بڑی خرابی جو لازم آتی ہے اور وہ یہ کہ  ائمہ تو معصوم ہیں اور ان سے کوئی خطا بھی نہیں ہوسکتی لیکن اللہ کو بدا واقع ہوتی ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہےکہ (نعوذ باللہ) اللہ معصوم نہیں ہے۔

بدا کی بحث بہت طویل ہے جو کہ مختصر سے مقالہ میں نہیں سما سکتا ۔ مزید مطالعہ کے لئے ھدیۃ الشیعۃ ملاحظہ ہو۔(نانوتوی، محمد قاسم ، ھدیۃ الشیعۃ: ص، ۱۰۹تا۱۵۱، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، چوک فوارہ ملتان)۔

بداء کا صحیح مفہوم:

بداء کامعنی ہے ظہور بعد الخفاء۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے: بدا لنا سور المدينة بعد خفائه وبدا لنا الأمر الفلاني أي ظهر بعد خفائه۔’’ُُُُہم کو مدینہ(شہر)کی دیوار پوشیدہ ہونے کے بعد ظاہر ہوگئی یا فلان کی بات پوشیدگی کے بعد ظاہر ہوگئی‘‘۔

اور اس پر کلام باری تعالیٰ شاہد ہے ۔ارشاد ہے: وبدا لهم من الله ما لم يكونوا يحتسبون[41]۔’’اورنظرآئے ان کو اللہ کی طرف سے جو خیال بھی نہ رکھتے تھے‘‘۔اور جیسے کہ ارشاد ہے: بل بدا لهم ما كانوا يخفون من قبل[42]۔’’کوئی نہیں بلکہ ظاہر ہوگیا جوچھپاتے تھے پہلے‘‘۔ اور جیسے کہ ارشاد ہے: وبدا لهم سيئات ما عملوا[43]۔’’اور کھل جائیں ان پر برائیاں ان کاموں کی جو کئے تھے‘‘۔

فرق صرف اتنا ہے کہ اہل کتاب پر بداء اور نسخ کے درمیان فرق واضح ہوگیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حق میں نسخ سے انکار کردیا کہ اللہ کے کلام میں نسخ واقع نہیں ہوسکتا اور یہ بداء ہے جب کہ روافض بداء کے قائل ہوگئے کیونکہ ان کے ہاں اللہ کے کلام میں نسخ ہوسکتا ہےلیکن بداء اور نسخ میں فرق کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا اور اس کے لئے طرح طرح کی تاویلیں کرنے لگے[44]۔

عقیدہ بداء قرآن کےخلاف ہے:

اگر بداء کو مان لیا جائے تو پھر قرآن کے بہت سے آیات کا انکار لازم آئے گا جیسے کہ:(۱) وهو بكل شيء عليم[45]۔ (۲)عالم الغيب والشهادة[46]۔(۳)وما تسقط من ورقة إلا يعلمها ولا حبة في ظلمات الأرض ولا رطب ولا يابس إلا في كتاب مبين[47]۔(۴)ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها[48]۔

اسی طرح اگر غور کیا جائے تو کئی ایک آیا ت ایسی ہیں جوکہ عقیدہ بداء کی وجہ سے اس کا انکار لازم آتا ہے لیکن اگر یہ آیات سچ ہیں (اور یقیناً ہیں بھی)تو پھر عقیدہ بداء باطل ہے۔

حواشی و حوالہ جات


[1] : السیوطیؒ، عبدا لرحمن بن الکمال، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن: ۲، ص، ۵۶، النوع السابع والاربعون فی ناسخہ ومنسوخہ۔طبع نامعلوم۔

[2] :الجرجانی، علی بن محمد بن علی، التعریفات: ج۱، ص،۳۰۹،باب النون، دار الکتاب العربی۔بیروت، طبع، ۱۴۰۵۔

[3] :السیوطیؒ،الاتقان فی علوم القرآن: ۲، ص، ۵۶۔

[4] :البقرۃ:۱۸۱۔

[5] :الانفال: ۶۵۔

[6] :الانفال:۶۶۔

[7] :المائدۃ: ۴۲۔

[8] :المائدۃ:۴۸۔

[9] :السیوطیؒ، الاتقان فی علوم القرآن: ۲، ص، ۶۱۔

[10] :النور: ۴۔

[11] :النور: ۶، ۷۔

[12] : المائدۃ؛۳۔

[13] : الانعام: ۱۴۵۔

[14] : خالد محمود، ڈاکٹر، آثار التنزیل: ج۱، ص، ۴۴۲، دار المعارف، الفضل مارکیٹ اردو بازار۔لاہور۔

[15] :الاندلسی، علی بن احمد بن سعید بن حزم، الاحکام فی اصول القرآن: ج، ۱، ص، ۲۸۴، باب: فی اثبات علی منکریہ۔طبع نامعلوم۔

[16] :بدرالدین، محمد بن عبداللہ، الزرکشی، البرہان فی علوم القرآن: ج، ۲، ص، ۳۳، باب: معرفۃ ناسخہ من منسوخہ، دار المعرفۃ۔ بیروت، طبع، ۱۳۷۶ھ ۔ ۱۹۵۷م۔

[17] : البقرہ؛۱۰۶۔

[18] :سورۃ الرعد: 39۔

[19] : مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم: ج۱، ص، ۱۸۵، رقم، ۸۰۳، باب: انما الماء من الماء۔

[20] : ابن حزم، الاحکام فی اصول القرآن:ج، ۱، ص، ۲۹۷، باب: فی اثبات علی منکریہ۔

[21] : ابوداود، سلیمان بن الاشعث، السجستانی، سنن ابو داود: ج،۲، ص، ۲۵۶، رقم، ۲۲۹۳، باب: من انکر ذلک علی فاطمۃ۔ دارالکتاب العربی۔بیروت۔

[22] : النسائی، احمد بن شعیب، ابو عبدالرحمن، سنن النسائی: ج، ۱، ص، ۱۰۵، رقم، ۱۷۱، باب: الوضوء مما غیرت النار۔ مکتب المطبوعات الاسلامیۃ۔حلب، طبع، ۱۴۰۶ھ۔۱۹۸۶م۔

[23] : نسائی، سنن النسائی: ج، ۱، ص، ۱۰۸، رقم، ۱۸۴، باب: ترک الوضوء مما غیرت النار۔

[24] : القشیری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم: ج، ۳، ص، ۶۵، رقم، ۲۳۰۵، باب: اسْتِئْذَانِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِى زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّه۔

[25] : ابن حزم، الاحکام فی علوم القرآن: ج، ۱، ص، ۲۹۷، باب: فی اثبات علی منکریہ۔

[26] :النجم:۳۔

[27] :الممتحنۃ:۱۰۔

[28] : دارقطنی، علی بن عمر بن احمد، ابو الحسن، سنن دارقطنی: ج، ۱۰، ص، ۱۰۲، رقم، ۴۳۲۲، طبع نامعلوم۔

[29] : ابن حزم، الاحکام فی اصول القرآن: ج، ۱،ص، ۲۹۹۔باب: فی اثبات علی منکریہ۔

[30] : متی۵: ۳۹، ۴۳، ۴۴۔

[31] : متی ۱۰: ۱۳۴،۱۳۵۔

[32] :پیدائش۲۹: ۲۳تا۳۰۔

[33] : احبار۱۸: ۱۸۔

[34] : پیدائش۳:۹۔

[35] : احبار۱۱: ۷تا۴۷اور استثناء۷:۱۴۔

[36] :استثناء۲۴: ۱۔۴۔

[37] :متی۱۹: ۹۔

[38] : نانوتوی، محمد قاسم، ھدیۃ الشیعۃ: ص، ۱۰۹، ادارہ تالیفات اشرفیہ۔چوک فوارہ ملتان۔

[39] : ایضاً۔ص، ۱۱۵۔۱۲۰۔

[40] :کلینی، الشیخ بن محمد یعقوب، اصول کافی مترجم ج۱، ص، ۲۷۶ باب نمبر۲۴: البداء۔ظفیر شمیم پبلی کیشنزٹرسٹ ناظم آبادنمبر۲۔کراچی۔

[41] : الزمر: ۴۷۔

[42] : الانعام:۲۸۔

[43] : الجاثیۃ:۳۳۔

[44] : ابن حزم، الاحکام فی علوم القرآن: ج، ۱، ص، ۲۸۳، باب: الفرق بين النسخ والبداء۔

[45] : البقرۃ؛۲۹۔

[46] : المومنون:۲۹۔

[47] : الانعام:۵۹۔

[48] :الحدید:۲۲۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...