Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 6 Issue 1 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

وصیت واجبہ سے متعلق مسلمان ممالک کے قوانین، مسلم فیملی لاز آرڈیننس ۱۹۶۱ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

6

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029336_1237

Pages

01-21

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/159/149

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/159

Subjects

Wasiyat wajiba Muslim Personal Law Section 4 Orphan Grand-Children

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.


مسلم ممالک کی غالب اکثریت میں عائلی قوانین قانونی دفعات کی شکل میں ہیں۔یہ قوانین در حقیقت وہ فقہی احکام ہیں جن کی ضابطہ بندی کر کے ملکی قانون کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔ان میں سب سے موضوع بحث بننے والا قانون یہ ہے کہ یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کو وصیت واجبہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔وہ فقہا جو وصیت واجبہ کے قائل ہیں ان کی آراء سے استفادہ کرتے ہوئے بعض مسلم ممالک نے یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کو وصیت واجبہ کا درجہ دیا ہے۔ اس نوع کی قانون سازی سب سے پہلے مصر میں ۱۹۴۶ءمیں ہوئی، اس کے بعد ۱۹۵۳ءمیں شام کے عائلی قوانین کا اسے حصہ بنایا گیا۔ دیگر ممالک مثلاً تیونس کے عائلی قوانین میں ۱۹۵۶ء میں، مراکش ۱۹۵۸ء، فلسطین ۱۹۶۲ء، کویت ۱۹۷۱ءاور اردن کے عائلی قوانین میں ۱۹۷۶ءسے وصیت واجبہ کا قانون نافذ العمل ہے۔اس حوالے سے پاکستان کے عائلی قوانین کی متنازعہ دفعات میں سب سے زیادہ متنازعہ دفعہ ۴ ہے، اس میں متنازعہ حصہ یتیم پوتے کی میراث سے متعلق ہے۔ جب وفاقی شرعی عدالت میں مذکورہ دفعہ کو قرآن وسنت سے متصادم ہونے کی بنیاد پر چیلنچ کیا گیا تو عدالت نے اس قانون کو قرآن وسنت کے منافی قرار دیتے ہوئے علماء سے یہ سوال پوچھا کہ آیا پوتوں، پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کے لیے وصیت کرنافرض ہے؟ تفصیلی بحث کے بعدعدالت نے قرار دیا کہ یتیم پوتوں کو آیت میراث میں داخل قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم وہ اولاد کے بہت قریب ہوتے ہیں اس لیے عدالت کی رائے میں وہ ایک تہائی حصے میں وصیت کے حق دار ہوں گے۔

مسلم فیملی لاز آرڈیننس ۱۹۶۱ء ایک اہم قانون ہے کیوں کہ ہماری زندگی کا نہایت اہم حصہ عائلی زندگی اس کا موضوع ہے ۔ اس آرڈیننس کا پس منظر ،عنوان اور اس کے مندرجات نصف صدی سے اہل علم ودانش کےہاں دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔یہ شروع دن سے متنازعہ ہے، بالخصوص اس کی دفعہ ۴ اور دفعہ ۷ نے جہاں کئی قلم تھکائے ہیں وہاں ایک فائدہ بھی دیا ہے وہ یہ کہ اس دفعہ کےقانون کو سمجھنے کے لیے اسلامی قانون میراث کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

زیر نظر مقالہ میں دفعہ ۴ کے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا جو ۱۹۵۳ءسے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور اس بات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی کہ وصیت واجبہ کس حد تک اس مسئلہ کاحل ہے؟ مزید یہ کہ وصیت واجبہ سے متعلق بعض مسلم ممالک نے جوقانون سازی کی ہے اس کی نوعیت اور شرعی حیثیت کیا ہے ، قدیم اورمعاصر فقہاء کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کی اعلی عدالتوں کے فیصلوں پر ایک ناقدانہ نگاہ بھی ڈالی جائے گی۔

پس منظر

مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی دفعہ ۴ کی تاریخ ۱۹۵۳ء سے شروع ہوتی ہے جب کہ باقی دفعات ۱۹۵۵ء میں متعارف کرا ئی گئی تھیں۔ ۳ دسمبر ۱۹۵۳ء کو جناب چوہدری محمد اقبال چیمہ نے ویسٹ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں میں ترمیم کے لیے حسب ذیل پیش کیا؛

West Punjab Muslim Personal Law (Shariat Application Act 1948) (Act IX of 1948)

"یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ اسلامی قانون وراثت کے لیے اصول نیابت بالکل اجنبی ہے۔ اس وقت مورث کی وفات سے پہلے مرنے والے بیٹے یا بیٹی اور بھائی یا بہن کی اولاد کو اس مورث کی جائیداد سے کچھ حصہ نہیں ملتا۔ شریعت میں کوئی ایسی واضح ممانعت موجود نہیں ہے کہ یہ اشخاص بھی مورث کی دوسری اولاد کی موجودگی میں محجوب الارث ہی ٹھہریں گے۔ قانون (وراثت) کا مروجہ نظریہ یتیم پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بھتیجوں بھانجوں وغیرہ کی زندگی بڑی اندوہ ناک بنا دیتا ہے۔ پس قانون کو اسلامی روح سے سازگار بنانے کے لیے یہ ترمیم تجویز کی جاتی ہے۔

جب کوئی بیٹا بیٹی یا بھائی بہن اپنے مورث سے وراثت پانے سے پہلے فوت ہو جائے تو ان کا حق وراثت بوقت تقسیم وراثت مورث ان (فوت شدہ) کے اپنے جانشینوں اور وارثوں کی طرف منتقل کیا جائے گا (اور یہ سمجھ لیا جائے گا) کہ گویا اشخاص متذکرہ بالا اپنے مورث (آخری مالک) کی وفات کے فوراً بعد مرے"۔[1]

بل کا محرک کچھ بھی ہو، جذبۂ ہمدردی یا جرأت اجتہاد، بہر حال بل پررد عمل ہوا ۔ مولانا داؤد غزنوی، رکن اسمبلی نے بل کی مخالفت کی کہ مجوزہ ترمیم اجماع کے خلاف ہے۔ اسمبلی سے باہر علماء اسلام کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اس بل کی مخالفت میں آواز اٹھائی۔ اس پر حکومت نے یہ بل استصواب رائے کے لیے مختلف جہات میں متداول کر دیا۔ مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی کے بیان کے مطابق یہ بل جسٹس صاحبان ، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ، سیکرٹری محکمہ مہاجرین و آباد کاری ، سپرنٹنڈنٹ گورنمنٹ پرنٹنگ پنجاب،ڈائریکٹر آف انڈسٹریز پنجاب، بار ایسوسی ایشنز اور بعض علماء اسلام کو بھی ارسال کیا گیا۔[2]

ادارہ طلوع اسلام نے پوتے کے محجوب الارث نہ ہونے پر مضامین اور کتابچے شائع کیے اور بل کی جزوی حمایت کی۔ مفتی محمد شفیع، مفتی جمیل احمد تھانوی، سید غلام احمد بی اے پلیڈرا اور دیگر اہل علم نے طلوع اسلام کے پیش کردہ موقف کی تردید اور بل کی مخالفت میں تحریریں شائع کیں۔ پنجاب اسمبلی کو مجوزہ بل کے بارے میں مختلف آراء موافقت اور مخالفت میں موصول ہوئیں۔

جسٹس آرچسن (Ortcheson) بھی لکھتےہیں؛

"In my opinion if the principal laid down in this bill is in accordance with the Shar┘ʻat, it is unnecessary, or if it is against the Shar┘ʻat, it is invalid"[3]

عائلی کمشن کا قیام؛

، عائلی قوانین میں اصلاحات کی سفارشات تیار کرنے کے لیے۴ اگست ۱۹۵۵ءکوایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔یہ کمیشن سات ارکان پر مشتمل تھا۔ خلیفہ ڈاکٹر شجاع الدین اس کے صدر اورڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس کے رکن اور سیکرٹری تھے۔ ان کے علاوہ مسٹر عنایت الرحمن ،مولانا احتشام الحق تھانوی، بیگم شاہنواز، بیگم انور جی احمد اور بیگم شمس النہار محمود اس کمیشن کے ارکان تھے؛

“The commission was composed of three men three women and one religious scholar (to represent the ʻulama)”[4]

خلیفہ شجاع الدین کی وفات کے بعد ۲۷ اکتوبر کو جسٹس عبدالرشید، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس، اس کے سربراہ مقرر ہوئےاور ان ہی کی سربراہی میں اس کمیشن کی سفارشات مرتب ہوئیں،یہی وجہ ہے کہ اس کمیشن کو بالعموم رشید کمیشن کہا جاتا ہے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی نے اپنا الگ اختلافی نوٹ لکھ دیا۔

۱۱ جون ۱۹۵۶ء کو کمیشن کی سفارشات گزٹ میں اور پھر اخبارات میں شائع ہوئیں۔ شائع شدہ رپورٹ پر جناب جسٹس عبدالرشید کے بطور صدر کمشن دستخط ہیں اور جناب ایڈوارڈ نیلسن کے بطور سیکرٹری۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:

“It may be stated that all the decisions of the commission in respect of these questions were unanimous except that Maulāna Eḥtishāmul-Haq Sahib has dissented from opinion of the remaining members of the commission on three or four points. The opinion of the Maulāna is embodied in his note of dissent which is appended to this report.”[5]

۱۹۶۱ء میں ر شید کمشن کی بعض سفارشات کو مسلم عائلی قانون مجریہ ۱۹۶۱ میں شامل کر کےنافذ کر دیا گیا۔ دینی حلقوں اور علماء کرام نے اس آرڈیننس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور اسے قرآن وسنت کے منافی قرار دیا۔

مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی دفعہ ۴ کی شرعی حیثیت پر اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی وزارت قانون اور عدلیہ کا مئوقف؛

آئین کے تحت قائم کردہ اسلامی نظریاتی کونسل(اس وقت کی اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل )نے ۱۹۶۷ء میں اس کی دفعہ ۴ کو خلاف اسلام قرار دیا؛[6]

"تمام اراکین کونسل بشمول چیئر مین بہ استثناء ڈاکٹر فضل الرحمان ااور جناب ابو الہاشم صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بچے بروئے شریعت وارث نہیں ہیں اور نہ جبری وصیت کے ذریعہ اس کا انتظام کیا جائے گا۔ ان کے حالات کو جانچنے کے بعد ورثاء سے حسب تقاضائے شریعت ان کے نان و نفقہ کا انتظام بذریعہ عدالت کرایا جائے"۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا از سر نو غور: ۱۰ فروری ۱۹۷۹کو کونسل نے آرڈیننس پر جسٹس محمد افضل چیمہ کی زیر صدارت از سر نو غور کیا اور حسب ذیل سفارش کی؛

" موجودہ دفعہ چار حذف کرکے اس کی جگہ یہ دفعہ لکھی جائے ؛

اگر مورث کی زندگی میں اس کا کوئی لڑکا یا لڑکی فوت ہو جائے جب کہ مورث کا کوئی اور بیٹا یا بیٹے مورث کی وفات کے وقت زندہ ہوں، تو اس لڑکےیا لڑکی کی اولاد اپنے دادا یا نانا کے ترکہ میں اتنا حصہ پائے گی جتنے حصہ کی وصیت ان کے نانا یا دادا نے ان کے حق میں کی ہو، بشرطے کہ وہ وصیت مجموعی طور سے میت کےترکہ ابتدائی واجبات ادا کرنے کے بعد کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد نہ ہو۔البتہ اگر دادا یا نانا نے مذکورہ اولاد کے حق میں کوئی وصیت نہ کی ہو تو دادا یا نانا کے ورثاء پر لازم ہو گا کہ وہ مذکورہ اولاد کو اتنا نفقہ ادا کریں جتنا کہ عائلی عدالت متعلقہ امور پر غور کرنے کےبعد اسلامی شریعت کے مطابق ان کے لیے تجویز کرے"۔

وفاقی وزارت قانون کا موقف

۱۹۸۰ء میں وفاقی وزارت قانون نے اس قانون کو اسلام کے روشن چہرے پر ایک بدنما سیاہ دھبہ اور ارتداد کی حد تک ملحدانہ قانون قرار دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نام وفاقی وزارت قانون کے مراسلہ نمبر 2282/79 جاری کردہ ۱۵ جنوری ۱۹۸۰ کا متن حسب ذیل ہے:

“The Muslim Family Laws Ordinance, 1961, is utterly un-Islamic. It is against the Holy Quran and Sunnah. It has dared to aimed the Qur᾽anic law to the extent of irtidād and its existence is a shur, a blot on the glorious name of Islam and our Islamic country. Such a legislation or even its name need not be protected. Let us clean the blot altogether by its total repeal”.[7]

وزارت قانون نے کہاکہ یہ قانون تو کیا، اس کا یہ نام بھی نہ رہنا چاہیے۔ مگر اس کے باوجود یہ مسلم فیملی لاء ہی کہلواتا رہا۔ ۲۰۰۰ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس کی دفعہ ۴ کو خلاف اسلام اور دفعہ ۷ کی شق (۳) و (۷) کو ضمناً اسلام کی خلاف ورزی قرار دیا۔[8]

پشاور ہائی کورٹ اور ر فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے

۱۹۷۹ء میں پشاور ہائی کورٹ نے مقدمہ بعنوان فرشتہ بنام سرکار میں اس کی دفعہ ۴ کو خلاف اسلام قرار د یا اور اسے منسوخ کرنے کا بھی حکم دیا[9]؛

To sum up we are of the considered opinion that section 4 of Muslim Family Laws Ordinance is against the injunctions of Islam and it should be repealed…

حکومت نےپشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو اس کے دائرہ اختیار سے متجاوز قرار دیتے ہوئے شریعت اپیلنٹ بنچ کے سامنے اپیل کر کے چیلنچ کر دیا۔شریعت اپیلنٹ بنچ نے اسےدائرہ اختیار سے متجاوز قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ؛

۱۹۸۰ میں وفاقی شرعی عدالت کے قیام کی بعد ایک مرتبہ پھر مسلم شخصی قوانین کی تعبیر وتشریح کا مسئلہ اٹھایا گیا تو وفاقی شرعی عدالت نے اسے اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا۔اس کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل کی گئی تو عدالت عظمی نے اپنے سابقہ فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے مسلم شخصی قوانین کی تعبیر وتشریح کو وفاقی شرعی عدالت کےدائرہ اختیار کے اندرقرار دیا۔اس طرح وفاقی شرعی عدالت نے عائلی قوانین کا جائزہ لینا شروع کیا تو اس کا آغاز دفعہ ۴ سے کیا۔

وفاقی شرعی عدالت میں ڈاکٹر اسلم خاکی، عاصمہ جہانگیر، سعدیہ بخاری اور راشدہپٹیل نے موقف اختیار کیا کہ کوئی قرآنی حکم یتیم پوتے کو وراثت سے محروم نہیں کرتا۔ لفظ ولد میں یتیم پوتےبھی شامل ہیں اور اجماع میں حالات کے مطابق تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ عدالت نے فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد درج ذیل فیصلہ دیا ؛

In view of the fore going discussion we hold that the provision contained in section 4 of the of Muslim Family Laws Ordinance, 1961, as presently in force, is repugnant to the injunctions of Islam and direct the President of Pakistan to take steps to amend the law so as to bring the said provision in conformity with the injunctions of Islam. We further direct that the said provision which has been held is repugnant to the injunctions of Islam shall cease to have effect from 31st day of March 2000.

دفعہ ۴ کا حل وصیت واجبہ

اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ دونوں نے یتیم پوتے اور پوتی کے لیے وصیت کو لازم قرار دینے کی تجویز دی ہے۔

وصیت واجبہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سالانہ رپورٹ ۹۲-۱۹۹۱ میں وصیت واجبہ کے حق میں درج ذیل سفارشات پیش کی تھیں: "کونسل نے طے کیا کہ وصیت کرنے کے لیے موصی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ کسی عمر میں مرنے سے برسوں پہلے یا وقت مرگ کرے، البتہ وصیت کرنا مستحب ہے، وصیت کا ثبوت قرآن مجید اور حدیث شریف سے ملتا ہے۔ آئمہ اربعہ نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق وصیت کو حسن سلوک پر محمول کرتے ہوئے اس کو مستحب قرار دیا ہے، اس لیے یہ لازمی اور ضروری نہیں کہ عمر کے کسی حصے میں کسی کو وصیت کے لیے مجبور کیا جائے۔ شریعت کی اصطلاح میں مستحب کی تعریف یہ ہے کہ وہ کام شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہو مگر اس کے ترک پر ناپسندیدگی کا اظہار نہ ہو۔ اس صورت حال میں کسی شخص کو اس امر کا پابند کرنا کہ وہ جائیداد کے بارے میں وصیت کرے ،درست نہ ہوگا۔ دادا/ دادی، نانا/ نانی کے لیے یہ لازمی قرار دیا جائے کہ وہ اپنے فوت شدہ بیٹے/ بیٹی کے بچے/ بچوں کے بارے میں لازماً وصیت لکھوائیں اور اس کی مقدار کل ترکے کی تہائی تک ہو"۔

کونسل نے اس سفارش پر اپنے اجلاس نہم منعقدہ اسلام آباد بتاریخ ۲۵ اگست ۱۹۹۱ء (مطابق ۱۴ تا ۱۷ صفر ۱۴۱۲ھ) غور کیا۔ اور جناب جسٹس شجاعت علی قادری ممبر کونسل کا مرتبہ اختلافی نوٹ جس پر مولانا ارشاد الحق تھانوی اور مولانا محمد اطہر نعیمی کے بھی دستخط تھے بطور فیصلہ منظور کر لیا جو حسب ذیل ہے۔

مجھے اس امر سے کلیۃً اختلاف ہے کہ عمر کے کسی حصہ میں بھی لوگوں پر حکومت کی جانب سے یہ امر لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے یتیم پوتوں پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کے لیے وصیت کریں، بلکہ بعض حضرات کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے وصیت نہ بھی کرسکے تو حکومت از خود ہی یہ فرض کر لے کہ اس شخص نے وصیت کی ہے۔ وصیت کے لازمی ہونے پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔

﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ﴾[البقرۃ۲: ۱۸۰] (جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے، اگر وہ مال چھوڑے تو اس پر لازم ہے وصیت کرنا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے انصاف کے ساتھ، پرہیزگاروں پر لازم ہے)۔اس آیت کے علاوہ بعض احادیث بھی ہیں جن سے وصیت کا تاکیدی امر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن قرآن و سنت سے استدلال کرتے وقت ان اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جو ان کے سمجھنے کے لیے امت مسلمہ میں طے شدہ ہیں، یہ قرآن و سنت سے بھی ثابت ہیں اور فطری و عقلی ادلہ بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان میں سے ایک قاعدہ نسخ کا بھی ہے، اس کو تمام امت نے تسلیم کیا ہے۔ یہ الگ امر ہے کہ اس کی تفصیلات میں اختلاف ہوتو ہو، اور خود قرآن کریم میں بھی قرآن فہمی کے اس اصول کو بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے، قرآن کریم میں ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾ [البقرۃ۲: ۱۰۶] (اور ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں یا تو ہم اس سے بہتر لاتے ہیں اور یا اس کی مثل لاتے ہیں)۔ قرآن کریم میں نسخ کی متعدد مثالیں موجود ہیں، جو لوگ آئین و قانون سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے اس کا سمجھنا آسان ہے۔ آیت وصیت کے بارےمیں مفسرین امت نے فرمایا ہے۔ابتدائے اسلام میں رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا فرض تھا، پھر جب آیت میراث نازل ہوئی تو اس نے اس آیت کو منسوخ کردیا، آیت میراث میں بتایا گیا ہے، اللہ تم کو تمہاری اولاد کی بابت وصیت کرتا ہے گویا یہ بتایا جا رہا ہے کہ پہلے وصیت کرنا تمہاری ذمہ داری تھی اب یہ کام اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے، اور اس کی وجہ خود قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے آباء و ابناء میں نفع کے اعتبار سے تم سے زائد قریبی کون ہے؟ آیت وصیت کے نسخ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: ان الله قد اعطى کل ذی حق حقه ألآ لا وصیة لوارث[10](بےشک اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، آگاہ ہوجاؤ اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں)۔ نیز آئمہ اربعہ کا اجماع ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا واجب نہیں، اور جب ائمہ اربعہ کا اجماع ہو جائے تو اس کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ تمام امت مسلمہ کا اجماع ہے کیونکہ ہر دور کے اعداد و شمار سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ امت مسلمہ کا سواد اعظم ان چاروں ائمہ کے متبعین پر ہی مشتمل ہے اور اجماع بلا دلیل نہیں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حضرات تک ایسے قطعی نصوص پہنچے ہوں گے جن کی بنا پر ان حضرات نے اجماع کیا ہے اور کچھ نصوص ہم نے بھی بیان کیے، اب جن احادیث میں وصیت کا ذکر ہے تو وہ محض استحبابی ہے اور غیر ورثہ کے لیے ہے، کسی حکومت کو اتنا زائد اختیار دینا کہ وہ دین میں مداخلت کرنے لگ جائے اور مباح کو واجب قرار دے شرعاً جائز نہیں، نظریہ ضرورت ایسا عام نہیں کہ اب جو جی میں آئے اس نظریہ کے بہانے سے کرتے چلے جائیں، اگر ایسا ہوگا تو یہ قانون اور لاقانونیت کو اکٹھا کرنے کے مترادف ہوگا، یا یوں کہہ لیجیے کہ قانون صرف کتابوں کی زینت ہوگا اور عملی زندگی لاقانونیت کے قانون کے تحت چلائی جائے گی، یہ واقعہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ یہ ارادہ فرمایا کہ قانونی طور پر مہر کی رقم کم کر دی جائے، اب رقم کا کم مقرر کرنا ایک مباح امر تھا جس کو وہ مصلحت وقت کے پیش نظر واجب و لازم کرنا چاہتے تھے، مگر ایک عورت نے کھڑے ہو کر ان پر اعتراض کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی قد غن نہیں لگائی ہے، تو آپ کیوں لگاتے ہیں، اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے اسی وقت اپنے قول سے رجوع فرما لیا۔ محض مصلحت کی خاطر اجماع امت کو قربان کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس کے لیے ضرورت مُلجئة کا ہونا ضروری ہے، اگر کوئی مصلحت ہے تو اس کی تکمیل اقربا کے نفقہ کے قانون سے ہوسکتی ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رپورٹ ۷۸- ۱۹۷۷ء میں پیش کیا ہے۔

کونسل کی مجوزہ ترامیم

اگر مورث کی زندگی میں اس کا کوئی لڑکا یا لڑکی فوت ہوجائے جب کہ مورث کا کوئی اور بیٹا یا بیٹے مورث کی وفات کے وقت زندہ ہوں تو اس لڑکے یا لڑکی کی اولاد اپنے دادا یا نانا کے ترکہ میں اتنا حصہ پائے گی جتنے حصے کی وصیت ان کے نانا یا دادا نے ان کے حق میں کی ہو بشرطیکہ وہ وصیت مجموعی طور پر میت کے ترکہ سے ابتدائی واجبات ادا کرنے کے بعد کل ترکے کے ایک تہائی سے زائد نہ ہو۔ البتہ اگر دادا یا نانا نے مذکورہ اولاد کے حق میں کوئی وصیت نہ کی ہو تو اس دادا یا نانا کے ورثا پر لازم ہوگا کہ وہ مذکورہ اولاد کو اتنا نفقہ ادا کریں جتنا کہ عائلی عدالت متعلقہ امور پر غور کرنے کے بعد اسلامی شریعت کے مطابق ان کے لیے تجویز کرے۔[11]

وصیت واجبہ اور وفاقی شرعی عدالت

عدالت نے وصیت واجبہ سے متعلق دلائل کا تفصیلی جائزہ لیا،اسلامی کونسل کی سفارشات کو بھی پیش نظر رکھا اور دیگر اسلامی ممالک مثلا مصر، سوڈان شام،اردن وغیرہ کے مدون قوانین سے بھی استفادہ کیا۔ عدالت کی نظرمیں سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جب کسی کی موت قریب آجائے تو وہ اپنے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرے ۔یہ الزامی نوعیت کا حکم ہے۔ اس لیے عدالت نے وصیت واجبہ کے اصولوں کے مطابق قانون سازی کے لیے احکامات صادر کیئے۔

وصیت واجبہ سے متعلق فقہا کی آراء اور جدید قانون سازی: ایک جائزہ

وصیت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وصیت مستحب ہے۔ تاہم بعض حالات میں وصیت مباح، مکروہ، حرام یا واجب بھی ہوجاتی ہے۔ معروف حنفی فقیہ علامہ کاسانی لکھتے ہیں: فالقیاس یأبى جواز الوصیة[12](قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ وصیت جائز بھی نہ ہوکیونکہ وصیت میں مرنے کے بعد کسی کو مالک بنایا جاتا ہے، جب کہ مرنے کے بعد اس مال پر اس شخص کی ملکیت باقی نہیں رہتی لیکن قیاس کے برخلاف اس کا جواز قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے: الا انهم استحسنوا جوازها بالکتاب العزیز والسنة الکریمة والاجماع (یعنی علما وصیت کو کتاب اللہ، سنت رسول اور اجماع کی بنیاد پر مستحسن [مستحب] سمجھتے ہیں) اس کے بعد وصیت کے واجب ہونے کے قائل علما کا نقطہ نظر ذکر کرتے ہیں:

وبعض الناس یقول الوصیة واجبة لما رُوی عنه علیه الصلوة والسلام أنه قال: لا یحل لرجل یؤمن بالله والیوم الآخر له مال یرید أن یوصى فیه یبیت لیلتین الا ووصیة عند رأسه[13] (بعض لوگ کہتے ہیں کہ وصیت واجب ہے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے اور اس کے پاس مال ہو اور وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی نہ ہو)۔

علامہ کاسانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث وصیت کے واجب ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ تو وصیت کے واجب ہونے کی نفی کر رہی ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص وصیت کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لیے وصیت نہ کرنا درست نہیں ہے: لان فیه تحریم ترك الایصاء عند ارادة الایصاء والواجب لا یقف وجوبه على ارادة من علیه کسائر الواجبات[14](یعنی اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ترک وصیت اس شخص کے لیے حرام ہے جو وصیت کا ارادہ رکھتا ہو، حالانکہ جس پر کوئی حکم واجب ہو وہ اس کے ارادہ اور چاہنے پر موقوف نہیں ہوتا جیسا کہ دیگر واجب عبادات کا حکم ہے کہ ان میں یہ اختیار نہیں کہ چاہے تو بجا لائے اور چاہے تو ترک کردے بلکہ اس کا کرنا ضروری ہے)۔

حنفی فقہا کے نزدیک واجب وصیت کی صورتیں

اگر کسی شخص سے فرائض میں سے کوئی فرض عبادت چھوٹ گئی ہو مثلاً حج، زکوٰۃ یا کفارات وغیرہ تو ان صورتوں میں اس شخص کے لیے وصیت واجب ہے یعنی اسے لازماً وصیت کرنا چاہیے کہ کوئی شخص اس کی طرف سے فریضہ حج ادا کر دے یا جو زکوٰۃ وہ خود ادا نہیں کرسکا وہ اس کی طرف سے ادا کر دی جائے۔[15]

حنبلی فقہ میں واجب وصیت کی صورتیں

ابن قدامہ لکھتے ہیں: ولا تجب الوصیة الامن علیه دین، أو عنده ودیعة أو علیه واجب یوصى بالخروج منه فان الله تعالىٰ فرض أداء الامانات وطریقه في هذا الباب الوصیة فتکون مفروضة علیه، فأما الوصیة بجزء من ماله فلیست بواجبة على أحد في قول الجمهور وبذالك قال الشعبي والنخعي والثوري ومالك والشافعي و اصحاب الرائ وغیرهم[16](وصیت صرف اس شخص پر واجب ہے جس پر قرض ہو یا اس کے پاس کسی کا مال بطور امانت ہو یا اس پر کوئی اور چیز واجب ہو جسے وصیت کرکے پورا کرنا چاہتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا ہے، اس لیے ان کی ادائیگی فرض ہے، البتہ کسی شخص پر اپنے مال کے کسی حصے کی وصیت کرنا واجب نہیں، یہی جمہور علما کا مؤقف ہے۔ امام شافعی، امام نخعی، امام ثوری، امام مالک، امام شافعی، اصحاب الرائےوغیرہ کا یہی مسلک ہے)۔

جمہور علما کا نقطہ نظر ذکر کرنے کے بعد ابن عبد البر کے حوالے سے نقل کیا کہ وصیت واجب نہیں ہے: وقال ابن عبد البر: أجمعوا على أن الوصیة غیر واجبة.... الا طائفة شذتها فأوجبتها[17](ابن عبد البر نے کہا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے، ہاں اگر کسی کے پاس گواہ نہ ہوں اور اس پر کسی کے حقوق ہوں، یا اس کے پاس امانت ہو لیکن اس کے گواہ نہ ہوں تو اس صورت میں وصیت واجب ہے۔ باقی صورتوں میں وصیت کے واجب ہونے کے قائل کچھ لوگ ہی ہیں)۔

شافعی نقطہ نظر

امام نووی المجموع شرح المھذب میں لکھتے ہیں: والوصیة ثلاثة اقسام: قسم لا یجوز وقسم یجوز ولا یجب وقسم مختلف في وجوبه(وصیت کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ جو جائز نہیں ہے، دوسری قسم جو صرف جائز ہے لیکن واجب نہیں ہے، تیسری جس کے وجوب میں اختلاف ہے)۔

ان تینوں کی وضاحت کرتے ہیں کہ پہلی قسم کی وصیت یہ ہے کہ وارث کے حق میں وصیت کی گئی ہو تو یہ ناجائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا حق دے دیا ہے اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ دوسری قسم کی وصیت جائز ہے لیکن واجب نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ کسی اجنبی کے لیے وصیت کردی جائے، یہ بالاتفاق جائز ہے۔ تیسری قسم جس کے واجب ہونے میں اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ قرابت داروں کے حق میں وصیت واجب ہے یا نہیں؟

وذهب اهل الظاهر...الىٰ وجوبها للأقارب (اہل ظواہر کے نزدیک قرابت داروں کے حق میں وصیت واجب ہے )۔ ان کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے: الوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف حقاً على المتقین[18] اور یہ حدیث: انه قال علیه السلام من مات من غیر وصیة مات میتة جاهلیة(جو شخص بغیر وصیت کے فوت ہوجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے)۔

امام نووی کہتے ہیں کہ قرابت داروں یا اجنبی کے حق میں وصیت واجب نہیں ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے وصیت فرمائی، اس طرح حدیث سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اگر وصیت قرابت داروں کے لیے واجب ہوتی تو نبیﷺ حضرت سعد کو مجبور کرتے کہ وہ ان کے حق میں وصیت کریں۔[19]

وصیت واجبہ کے بارے میں اہل ظواہر کا مؤقف

ابن حزم اندلسی ظاہری مسلک کے نمائندہ امام ہیں، وہ لکھتے ہیں: الوصیة فرض على کل من ترك مالاً لما روینا من طریق مالك عن نافع عن ابن عمر قال قال رسول اللهﷺ: ما حق امری مسلم له شئی یوصي منه یبیت لیلتین الا و وصیته عنده مکتوبة(ہر وہ شخص جس کا ترکہ میں مال ہو اس پر وصیت فرض ہے، کیونکہ امام مالک نافع سے، اور وہ ابن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جس شحص کے پاس کچھ مال ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں وصیت کرے اور دو راتیں بھی ایسی نہ گزاریں جن میں اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی نہ ہو)۔

اس کے علاوہ وصیت کے واجب ہونے پر بعض صحابہ کرامؓ اور تابعین کے اقوال بھی نقل کیے اور وہ فقہا جو وصیت کے وجوب کے قائل نہیں ان کا بھی رد کیا ہے کہ جس روایت میںیرید من یوصىکے الفاظ کا اضافہ ہے وہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ امام مالک کی وہ روایت جو نافع کے واسطہ سے ہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں، اس لیے وصیت واجب ہے۔[20]

وصیت واجبہ کے حوالے سے فقہا کی آرا کا جائزہ

ائمہ اربعہ کے نزدیک وصیت مستحب ہے البتہ داؤد ظاہری اور بعض تابعین کے نزدیک وصیت واجب ہے۔ موجودہ دور میں یہ مسئلہ خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ وصیت مستحب ہے یا واجب بعض مسلمان ممالک نے اس حوالہ سے جدید قانون سازی کی ہے اور ان مسلمان ممالک نے وصیت کو دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے اور پوتیوں کے حق میں وصیت واجبہ کا درجہ دے دیا ہے۔ اس حوالے سے مصر نے ۱۹۴۶ء میں قانون سازی کرتے ہوئے پہل کی ہے اور اس کے بعد دیگر ممالک مثلاً عراق، شام، تیونس، الجزائر، اردن، سوڈان اور متحدہ عرب امارات وغیرہ نے بھی اس نوع کی قانون سازی کی ہے۔ آئندہ صفحات میں ان ممالک کی قانون سازی پر تفصیل سے بحث کی جائے گی۔

وصیت واجبہ

مسلمان ممالک کے مدون قوانین، عدالتی فیصلوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں جمہور فقہاء کے نزدیک وصیت کا عمومی حکم یہ ہے کہ یہ مستحب ہے، البتہ بعض صورتوں میں وصیت مباح ہے، بعض صورتوں میں مکروہ یا حرام ہے اور کچھ صورتوں میں واجب ہے۔ وصیت واجبہ کے حوالے سے فقہاء میں اختلاف رہا ہے۔ وہ فقہاء جو وصیت واجبہ کے قائل ہیں ان میں طاؤوسؒ، قتادہؒ، سعید ابن مسیبؒ، حسن بصریؒ، داؤد ظاہریؒ، ابن حزم اندلسیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ (ایک روایت کے مطابق) شامل ہیں۔ معاصر فقہاء میں یوسف القرضاوی اور بدران ابو العینین کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔[21]

پاکستان کےمعروف علم دین مولانا گوہر رحمان وفاقی شرعی عدالت کے استفسار پر اس مسئلہ پر اپنا مئوقف ان الفاظ میں دیتے ہیں : جمہور کے نزدیک وصیت کی فرضیت ہر ایک کے لیے منسوخ ہوچکی ہے اور غیر وارثوں کے لیے استحباب باقی ہے مگر بعض اہل سنت کے نزدیک غیر وارث اقربا ءکے لیے فرضیت کا حکم باقی ہے۔[22]

"میں خود تو ائمہ اربعہ اور جمہور کی رائے کو راجح اور اقوی قرار دیتا ہوں لیکن میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے بلکہ اختلافی ہے اور اختلافی مسائل میں مصلحت عامہ کی بنا پر کسی ایک رائے کے مطابق قانون بنانا اور فیصلہ کرنا ممنوع نہیں ہے، اگرچہ وہ رائے جمہور کی رائے کے خلاف ہو۔ اس لیے کہ اجماع امت کے خلاف دوسری رائے اختیار کرنا تو جائز نہیں مگر جمہور کی رائے کے خلاف دوسری رائے اختیار کرنا جائز ہے بشرطیکہ مصلحت پر مبنی ہو۔ نفسانی خواہشات اور شخصی اغراض پر مبنی نہ ہو"۔

مسلم ممالک میں وصیت واجبہ کے حوالے سے جدید قوانین کی تاریخ

وہ فقہا جو وصیت واجبہ کے قائل ہیں ان کی آراء سے استفادہ کرتے ہوئے بعض مسلم ممالک نے یتیم پوتے پوتیوں کے حق میں وصیت کو وصیت واجبہ کا درجہ دیا ہے۔ اس نوع کی قانون سازی سب سے پہلے مصر میں ۱۹۴۶ء میں ہوئی، اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں شام کے عائلی قوانین کا اسے حصہ بنایا گیا۔ دیگر ممالک مثلاً تیونس کے عائلی قوانین میں ۱۹۵۶ءمیں، مراکش ۱۹۵۸ء، فلسطین ۱۹۶۲ء، کویت ۱۹۷۱ءاور اردن کے عائلی قوانین میں ۱۹۷۶ءسے وصیت واجبہ کا قانون نافذ العمل ہے۔

وصیت واجبہ سے متعلق مصر کا مدون قانون

اس قانون کا عنوان قانون الوصیۃ رقم ۷۱ لسنۃ ۱۹۴۶ یعنی قانون وصیت (نمبر ۷۱) ۱۹۴۶ءہے۔ وصیت واجبہ سے متعلق دفعہ ۷۶ کے الفاظ یہ ہیں:

مادۃ ۷۶: اذا لم یوص المیت لفرع ولده، الذی مات في حیاته أو مات معه ولو حکما، بمثل ما کان یستحقه هذا الولد میراثا في ترکته أو کان [23]حیا عند موته وجبت للفرع في التركة وصیة بقدر هذا النصیب في حدود الثلث(اگر مرنے والے نے اپنی زندگی میں اپنے اس بیٹے کی اولاد کے حق میں وصیت نہ کی جو اس کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا ہو یا اس کے ساتھ ہی بیٹے کی موت واقع ہوئی ہو خواہ حکماً ہی ہو، تو اب اس فوت شدہ بیٹے کی اولاد کو اتنا ہی حصہ میراث سے ملے گا جتنا زندہ ہونے کی صورت میں فوت شدہ بیٹے کو ملتا، البتہ یہ حصہ ایک تہائی کی حد تک ہوگا)۔

اس وصیت واجبہ کے نفاذ کے لیے اس دفعہ میں دو شرائط ذکر کی گئی ہیں:

بشرط ان یکون غیر وارث (شرط یہ ہے کہ یہ (یتیم پوتا) وارث نہ ہو)۔

ولا یکون المیت قد أعطاه بغیر عوض من طریق تصرف آخر قدر ما یجب له

دوسری شرط یہ ہے کہ مرنے والے نے اپنی زندگی میں بلا معاوضہ اتنا مال اسے نہ دیا ہو جتنا کہ اس کا وراثت میں حصہ بنتا ہے۔

اس دفعہ کے تحت اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ وصیت واجبہ فوت ہونے والے شخص کے بیٹوں اور بیٹیوں کی صلبی اولاد کے لیے ہوگی۔

مادہ ۷۷: اذا أوصیٰ المیت لمن وجبت له الوصیة بأکثر من نصیبه کانت الزیاده وصیة اختیاریة

"اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں اس (یتیم پوتے/ پوتی) کے حصے سے زیادہ وصیت کردی، تو یہ اضافی حصہ واجب نہیں ہوگا بلکہ اختیاری ہے اور اگر حصے سے کم کی وصیت کی تو بقیہ حصہ بطور وصیت واجبہ ادا کرکے اسے مکمل کیا جائے گا"۔

الوصیة الواجبة مقدمة على غیرها من الوصایا

دفعہ ۷۸: وصیت واجبہ دیگر تمام وصیتوں پر مقدم ہے۔

اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں ان قرابت داروں (یتیم پوتے/ پوتی) کے حق میں وصیت نہیں کی جن کے حق وصیت کرنا واجب تھا، اور دیگر لوگوں کے حق میں وصیت کی، تو اس صورت میں بھی ان لوگوں کو پورا حصہ ملے گا جن کے حق میں وصیت ضروری تھی، ان کو ایک تہائی ترکہ سے دیا جائے گا اگر ایک تہائی سے انہیں پورا حصہ مل سکتا ہو، اگر تہائی ترکہ ان کے حقوق کے لیے ناکافی ہے تو اس مقدار سے پورا کیا جائے گا جو دوسروں کی وصیت میں شامل رہے۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ جن کے حق میں قانونی طور پر وصیت واجب تھی، ان کے لیے وصیت نہ بھی کی ہو تو تب بھی انہیں مکمل حصہ ملے گا خواہ کسی اور کے حق میں وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ مصری قانون میں وصیت واجبہ یتیم پوتے اور پوتی تک محدود ہے۔

اردن کا مدون قانون

اردن کے قانون الاحوال الشخصیۃ (نمبر ۳۶) ۲۰۱۰ کے آٹھویں باب کی پانچویں فصل وصیت واجبہ کے بارےمیں ہے۔

دفعہ ۲۷۹: اذا توفى شخص وله اولاد ابن وقد مات ذلك الابن قبله أو معه وجب لأحفاده هولاء في ثلث ترکته وصیة بالمقدار و الشروط التالیة(اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے بیٹے کی اولاد ہو، اور وہ بیٹا باپ سے پہلے یا اس کے ساتھ فوت ہوگیا تھا، تو اس کے پوتوں کو ایک تہائی ترکہ سے درج ذیل شرائط کے مطابق حصہ دینا ضروری ہے:

  1. وصیت واجبہ کے قانون کے مطابق پوتوں کو اس قدر حصہ ملے گا جتنا ان کے باپ کو ملتا، اگر وہ زندہ ہوتے، اور یہ ایک تہائی ترکہ سے متجاوز نہیں ہوگا۔
  2. پوتے اس صورت میں وصیت واجبہ کے مطابق حصے کے حق دار نہیں ہوں گے جب وہ خود وہ اپنے دادا یا دادی سے وارث بن رہے ہوں۔
  3. اگر دادا نے زندگی میں یتیم پوتوں کے حق میں ان کے استحقاق کے مطابق وصیت کردی ہو یا زندگی میں ہی اتنا مال دے دیا ہو، تو اس صورت میں وصیت واجبہ کے قانون کے مطابق وہ حق دار نہیں ہوں گے۔ اگر حصہ سے کم کی وصیت کی تو پورا حصہ دینا ضروری ہوگا اور اگر حصہ سے زیادہ کی وصیت کی تو مقررہ حصہ سے زائد وصیت اختیاری شمار کی جائے گی۔
  4. یہ وصیت واجبہ بیٹے کی اولاد یعنی یتیم پوتے/ پوتیوں اور یتیم پرپوتے/ پرپوتیوں کے لیے کی جائے گی: تکون الوصیة لاولاد الابن ولاولاد ابن الابن وان نزل واحداً أو اکثر للذکر مثل حظ الانثین یحجب کل أصل فرعه دون فرع غیره ویأخذ کل فرع نصیب أصله فقط (وصیت واجبہ میں یتیم پوتے/ پوتیاں، پرپوتے/ پرپوتیاں سب شامل ہیں، ایک ہو یا ایک سے زائد ہوں، مرد ہوں یا عورتیں، مرد کو عورت کے حصوں کے برابر ملے گا۔ بیٹے کی حیات میں اس کی اپنی اولاد تو محروم رہے گی لیکن وہ کسی دوسرے فوت شدہ بیٹے کی اولاد کو محروم کرنے کا باعث نہیں ہوگا، اولاد اپنے اصول یعنی صرف اپنے والدین کے حصے کے حق دار ہوں گے۔

وصیت واجبہ سے متعلق عراق کا مدون قانون

قانون الاحوال الشخصیۃ (۱۸۸) ۱۹۵۹ کی دفعہ نمبر ۷۴ کے الفاظ یہ ہیں:

  1. اذا مات الولد ذکرا کان أم انثی قبل وفاة ابیه أو امه فانه یعتبر بحکم الحی عند وفاة أی منهما وینتقل استحقاقه من الارث الى اولاده ذکوراً کانوا أم اناثا حسب الأحکام الشرعیه باعتباره وصیة واجبه على ان لا تتجاوز ثلث الترکة(اگر بیٹا یا بیٹی اپنے باپ یا ماں کی وفات سے پہلے فوت ہوجائے تو اسے باپ یا ماں کی وفات کے وقت زندہ تصور کیا جائے گا اور وصیت واجبہ کی رو سے احکام شریعت کے مطابق میراث کی مستحق اس کی اولاد قرار پائے گی، خواہ اولاد نرینہ ہو یا غیر نرینہ، یہ وصیت واجبہ ایک تہائی سے زائد سے متجاوز نہیں ہوگی۔
  2. تقدم الوصیة الواجبة بموجب الفقره من هذه الماده على غیرها من الوصایا الاخری وفي الاستیفاء من ثلث الترکة(وصیت واجبہ دیگر اختیاری وصیتوں پر مقدم ہوگی اور پہلے اسے ایک تہائی ترکہ سے ادا کیا جائے گا یعنی ایک تہائی سے وصیت واجبہ ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچ جائے، اسے وصیت اختیاری میں دیا جائے گا)۔

الجزائر کا مدون قانون

قانون الاسرۃ الجزائری میں وصیت واجبہ کا قانون درج ذیل ہے:

الوصیة واجبة لفرع الولد الذی مات موتا حقیقتاً في حیاة أبیه أو أمه(وہ بیٹا جو اپنے باپ یا ماں کی زندگی میں حقیقتاً فوت ہوگیا ہو اس کی اولاد کے لیے وصیت کرنا واجب ہے)۔

یہی قانون حکمی موت کی صورت میں بھی ہے: مثلاً اگر ماں باپ کی زندگی میں بیٹا لاپتہ ہوگیا یا عدالت نے تحقیق کے بعد اس کے فوت ہونے کا فیصلہ صادر کر دیا، تو اس صورت میں بھی وصیت واجب ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا اپنے باپ یا ماں کے ساتھ کسی حادثہ کا شکار ہوگیا اور ایک ساتھ ہی سب پانی میں ڈوب گئے یا جل گئے تو اس صورت میں بھی اس (حادثہ کا شکار ہونے والے) کی اولاد وصیت واجبہ کے مطابق میراث کی حق دار ہوگی۔[24]

سوڈان کا مدون قانون

قانون الاحوال الشخصیۃ السودانی ۱۹۹۱ (۳۳) کے پانچویں باب کی دفعہ نمبر ۳۱۵ درج ذیل ہے:

الوصیة بالتنزمل

التنزیل هو وصیة بالحاق شخص غیر وارث بمیراث الموصي و بنصیب معین في المیراث

"تنزیل یا قائم مقام قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ غیر وارث شخص کے حق میں وصیت کنندہ وصیت کرکے اپنی میراث میں شامل کرلے اور میراث میں ایک متعین حصہ کی وصیت کرے"۔

دفعہ ۳۱۶: یستحق المنزل مثل نصیب المنزل منزلته، ذکراً کان أو انثى في حدود ثلث الترکة(وہ شخص جسے قائم مقام قرار دیا گیا ہے وہ اس شخص کے حصے کا حق دار ہوگا جس کا اسے قائم مقام ٹھہرایا گیا ہے، خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، البتہ یہ وصیت صرف ایک تہائی ترکہ کے دائرہ میں ہوگی)۔[25]

یمن کا مدون قانون

قانون الاحوال الشخصیۃ الیمنی ۱۹۹۶ کی پانچویں فصل میں دفعہ نمبر ۲۵۹ حسب ذیل ہے: اذا توفى أی من الجد أو الجدة عن ولده أو أولاده الوارثین وعن أولاد أبن أو ابناء الابناء ما نزلو، وکانو فقراء وغیر وارثین لوفاة أباءهم في حیاته وقد خلف خیراً من المال ولم یقعدهم فیرضح لهم مما خلفه بعد الدین (اگر دادا یا دادی کی وارث اولاد فوت ہوجائے، وارث پوتے پرپوتے فوت ہوجائیں اور ان کی اولاد جو اپنے ماں باپ کی وفات کی وجہ سے وارث نہیں بنتی، وہ محتاج ہوں اور ترکہ میں مال بھی ہو تو قرض کی ادائیگی کے بعد درج ذیل طریقہ سے وصیت واجبہ پر عمل درآمد ہوگا: * فوت شدہ بیٹے کی ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں اس کا وہی حصہ ہے جو وراثت پانے والی پوتی کا ہوتا ہے جب کہ دادا کی حقیقی بیٹی (پھوپھی)بھی موجود ہو تو اس صورت میں اسے چھٹا حصہ ملتا ہے۔

  • فوت شدہ بیٹے کی اولاد میں ایک ہی بیٹا ہو یا بیٹے اور بیٹیاں بھی ہوں تو اس کا حصہ اتنا ہی ہوگا جتنا اس کے باپ کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا جوکہ پانچویں حصہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
  • اگر ایک سے زیادہ فوت شدہ بیٹے ہوں اور ان کی اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں ہوں، تو ہر ایک کو وہی حصہ ملے گا جتنا باپ کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا اور یہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہوگا۔

متحدہ عرب امارات کا مدون قانون

من توفى ولو حکماً وله اولاد ابن أو بنت وقد مات ذالك الابن أو تلك البنت قبله أو معه وجب لأحفاده هٰؤُلاءِ في ثلث ترکته(اگر کوئی شخص فوت ہوجائے، خواہ حکمی موت ہی ہو، اور اس کے اس بیٹے یا بیٹی کی اولاد (بیٹا یا بیٹی) بھی ہو جو باپ کی زندگی میں یا اس کے ساتھ فوت ہوگیا ہو، تو اس شخص کے پوتوں کو ایک تہائی ترکہ سے حصہ ملے گا)۔

مسلمان ممالک میں جدید قانون سازی کا جائزہ

مصر، اردن، سوڈان، عراق، الجزائر، متحدہ عرب امارات میں مدون قانون یہ ہے کہ وصیت کو دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے اور پوتیوں کے حق میں وصیت واجبہ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ تیونس، شام اور بعض دیگر مسلمان ممالک میں کم و بیش یہی قانون نافذ ہے۔ وصیت واجبہ کے حوالے سے قانون سازی میں پہل مصر نے کی اور ۱۹۴۶ءمیں یہ قانون وضع کیا، دیگر عرب اور بعض دیگر مسلمان ممالک نے اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک میں وصیت واجبہ کا قانون بنایا۔ ان تمام ممالک کی قانونی دفعات کم و بیش یکساں ہیں جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔

جدید قانون سازی میں مشترک نکات

  1. دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے اور پوتی کا حصہ ہے۔
  2. یہ حصہ اس فوت شدہ اولاد کے اس حصہ کے مساوی ہوگا، جو اگر وہ زندہ ہوتا تو اپنے باپ (مورث) سے اسے ملتا۔
  3. یہ وصیت واجبہ صرف ایک تہائی کی حد تک نافذ العمل ہوسکے گی، ایک تہائی سے زائد وصیت اختیاری تصور کی جائے گی۔
  4. وصیت واجبہ وصیت اختیاریہ پر مقدم ہوگی۔
  5. حکمی موت مثلاً لاپتہ (مفقود الخبر) ہونے یا عدالت کے مردہ قرار دینے کی صورت میں وہی احکام ہیں جو حقیقی موت کی صورت میں ہیں۔
  6. کسی حادثہ وغیرہ کی شکل میں دادا کے ساتھ ہی باپ کی موت واقع ہوگئی ہو تو تب بھی یہی احکام نافذ ہوں گے۔
  7. دادا نے یتیم پوتے اور پوتی کے حق میں وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، دونوں صورتوں میں وصیت واجبہ کا قانون جبراً نافذ ہوگا، خواہ مورث راضی ہو یا راضی نہ ہو۔
  8. درج ذیل صورتوں میں جدید قانون کے مطابق وصیت واجبہ کا قانون نافذ نہیں ہوگا۔
  9. جن صورتوں میں پوتے یا پوتیاں وارث قرار پاتے ہیں، ان صورتوں میں ان کے حق میں وصیت واجبہ نہیں ہوگی۔
  10. اگر مورث نے اپنی زندگی میں پوتے یا پوتی کو اتنی مقدار بلا عوض دے دی ہو جس کا وہ وراثت کے ذریعہ حق دار پاتا ہے، تو اب وہ وصیت واجبہ کے ذریعہ ترکہ میں حق دار نہیں ہوگا۔
  11. اگر اس (پوتے) نے مورث کو قتل کر دیا ہو تو تب بھی وصیت واجبہ کے ذریعہ حصہ کا حق دار نہیں ہوگا۔

نتائج وسفارشات

تمام آئینی اداروں اور اعلی عدلیہ نے بالاتفاق دفعہ ۴ کو قرآن وسنت اور شریعت کے منافی قرار دیا اور اسے منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ایک طویل عرصہ سے یہ قانون عدالت عظمی میں زیر التواء ہے۔اس جمود کو ختم کرنے کے لیے اہل علم ودانش اور ماہرین شریعت کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
  • شمس الائمہ سرخسی اور علامہ کاشانی نے اور فقہاے حنابلہ میں سے ابن قدامہ نے بھی یہ اختلاف نقل کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک وصیت کی فرضیت ہر ایک کے لیے منسوخ ہوچکی ہے اور غیر وارثوں کے لیے استحباب باقی ہے مگر بعض اہل سنت کے نزدیک غیر وارث اقربا کے لیے فرضیت کا حکم باقی ہے۔[26] اس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے بلکہ اختلافی ہے اور اختلافی مسائل میں مصلحت عامہ کی بنا پر کسی ایک رائے کے مطابق قانون بنانا اور فیصلہ کرنا ممنوع نہیں ہے، اگرچہ وہ رائے جمہور کی رائے کے خلاف ہو۔ اس لیے کہ اجماع امت کے خلاف دوسری رائے اختیار کرنا تو جائز نہیں مگر جمہور کی رائے کے خلاف دوسری رائے اختیار کرنا جائز ہے بشرطیکہ مصلحت پر مبنی ہو۔ نفسانی خواہشات اور شخصی اغراض پر مبنی نہ ہو۔
  • بعض علماءغیر وارثوں کے لیے وصیت کو صرف ایک سفارشی اور استحبابی حکم نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک حق واجب قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے یہ ہے کہ بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہو کر رہ گیا حالاں کہ قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے (غیر وارثوں کے لیے) ۔
  • اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے تو بہت سے سوالات خود ہی حل ہو جائیں جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔
  • اس حوالے سے مسلمان ممالک کے مدون عائلی قوانین سے مزید استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے

 

حوالہ جات

  1. ۔حافظ احمد یار، یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ: ایک علمی اور فقہی جائزہ، ادارہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور، طبع اول مارچ ۱۹۹۳ء، ص ۱۰۸-۱۰۹:مولانا جمیل احمد تھانوی مفتی جامعہ اشرفیہ لاہور، پوتے کی میراث، ایم ثناء اللہ خان، لاہورطبع سوم ۱۹۶۱ء، ص ۲۳۳ :نیز ملاحظہ ہو ڈاکٹر تنزیل الرحمن، مجموعہ قوانین اسلام
  2. ۔مفتی جمیل احمد تھانوی، حوالہ سابق، ص ۲۲۶-۲۲۵
  3. ۔پنجاب اسمبلی کی طبع کردہ پبلک آراء، ص ۲ بحوالہ حافظ احمد یار، حوالہ سابق، ص ۱۰۹
  4. ۔حوالہ بالا
  5. ۔Report of the Commission on Marriage and Family Laws, p.10
  6. ۔اسلامی نظریاتی کونسل، دسویں رپورٹ: مسلم عائلی قوانین، اپریل، ۱۹۸۳، ص ص ۱-29
  7. ۔اسلامی نظریاتی کونسل، دسویں رپورٹ: مسلم عائلی قوانین، اپریل، ۱۹۸۳، ص ۳۵
  8. ۔حوالا بالا
  9. ۔PLD 1980 Peshawar 47
  10. ۔ ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید القزوینی، سنن ابن ماجہ، دارالسلام، الریاض، طباعت اول ۱۹۹۹ء، ص ۳۹۱، حدیث ۲۷۱۴
  11. ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ، ۷۹- ۱۹۷۸
  12. ۔ کاسانی، ابوبکر بن مسعود، دارالمعرفۃ، بیروت، طباعت اول ۲۰۰۰ء، ۸: ۲۱۹
  13. ۔ حوالہ بالا
  14. ۔ بدائع الصنائع ۸: ۲۲۰
  15. ۔ حوالہ بالا ۸: ۳۱۳
  16. ۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداللہ بن أحمد، المغنی، ھجر، القاہرہ ۸: ۳۹۰
  17. ۔ المغنی ۸: ۳۹۱
  18. ۔ مکمل آیت یہ ہے:﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ﴾[البقرۃ۲:]
  19. ۔ المجموع شرح المھذب، محی الدین یحییٰ بن شرف النووی، دارالفکر ۱۵: ۳۹۹
  20. ۔ ابو محمد علی بن احمد بن حزم الاندلسی الظاہری، المحلی، دارالفکر ۹: ۳۱۲
  21. ۔ شیخ عمر عبد اللہ، احکام المواریث فی الشریعۃ الاسلامیۃ، ص ۳۱۹
  22. ۔ مبسوط ۲۷: ۱۴۲؛ بدائع الصنائع ۷: ۳۳۰؛ المغنی لابن قدامہ ۶: ۱۳۷- ۱۳۸
  23. ۔ المغنی لابن قدامہ ۶: ۱۳۷- ۱۳۸
  24. ۔ التنزیل فی قانون الاسرۃ الجزائری، د۔ دغیش احمد، دار ھرامۃ، الجزائر (۲۰۰۹)، ص ۱۴۳
  25. ۔ www.google.come الوصیۃ الواجبۃ فی القانون السودانی
  26. ۔ مبسوط ۲۷: ۱۴۲؛ بدائع الصنائع ۷: ۳۳۰؛ المغنی لابن قدامہ ۶: ۱۳۷- ۱۳۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...