Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 2 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

پختون معاشرے کے مروجہ نجی فیصلوں میں تعزیر بالمال کی عملی صورتوں کا شرعی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060029336_1256

Pages

1-20

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/92/82

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/92

Subjects

Pakhtun Cults Killing wounds Arbitrary

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

سزا کے لئے فقہی طورپر"تعزیر" کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ذیل میں تعزیرکے متعلق بنیادی امورذکرکیے جاتےہیں۔

تعزیر کی لغوی تحقیق

تعزیرکالغوی معنیٰ ہےروکنا،دفع کرنا،حدسےکم سزادینا(1)۔سزا کے ذریعے بھی چونکہ انسان گناہ اور معصیت سے رُک جاتاہے او ر معاشرہ جرائم پیشہ عناصر کی دست درازیوں سے پاک ہوجاتاہے اس لئے سزا کو تعزیر کا نام دیا گیا ہے۔تاج العروس میں تعزیر کی تعریف یوں لکھی گئی ہے:التَّعْزِيرُ لُغَةً من أَسْمَاءِ الأَضْداد، لأَنَّه يُطْلَقُ على التَّفْخِيمِ والتَّعْظِيمِ، وعَلى أَشدِّ الضَّرْبِ، وعَلى ضرْبٍ دُونَ الحَدِّ  (2) "تعزیر لغوی طورپر متضاد معنیٰ رکھنے والے اسماء میں سے ہے اس کا اطلاق اردو لفظ تفخیم وتعظیم پر بھی ہوتاہے او ر سخت مارنے پر بھی اور حد سے کم مارنے پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے"۔ تاہم حد سے کم مارنے کامعنیٰ لغوی نہیں بلکہ شرعی ہے اس لئے کہ "حد" کی اصطلاح شرعی ہے اور اس سے کم مارنے پر تعزیر کا اطلاق بھی شرعی ہی ہے(3)۔

تعزیر کی اصطلاحی تعریف

    فقہ حنفی کےمشہور عالم اور فقیہ علامہ ابن نجیم المصریؒ(م:970ھ)نے تعزیر کی اصطلاحی تعریف یوں کی ہے:هُوَ تَأْدِيبٌ دُونَ الْحَدِّ وَأَصْلُهُ مِنْ الْعَزْرِ بِمَعْنَى الرَّدِّ وَالرَّدْعِ كَذَا فِي الْمُغْرِب (4) "تعزیر حد سے کم تادیبی سزا کو کہاجاتاہے اور یہ عزر سے (بمعنی ردکرنا اور دفع کرنا) مشتق ہے اسی طرح مُغرب میں لکھا گیاہے"۔

تاج العروس میں مُغرب (مشہورعربی ڈکشنری) کی تعریف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے :وَمَا فِی المُغرَبِ مَعنَاہ الشَرعِیِّ(5) "مُغرب میں تعزیر کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اس کا شرعی(اصطلاحی) معنیٰ ہے"۔چنانچہ ایسے جرائم جن میں شریعت کی طرف سے حد کی سزا یا کفارہ مقرر نہ ہو وہاں مرتکب جرم کو سزا دینا اور اس کی سززنش کرنے کو تعزیر کہاجائے گا(6)لیکن تعزیر میں ضروری ہے کہ وہ سزا حد سے کم ہو اس لئے کہ سبب حد کے بغیر حد کی سزا جاری کرنا حدیث کی روسے ممنوع ہے چنانچہ نبی کریم ﷺکا ارشاد مبارک ہے :مَن بَلَغَ حَدًّا فِیغَیرِ حَدٍّ فَهُوَ مِنَ المُعتَدِینَ(7)" جو حد کی سبب کے بغیر حد والی سزا جاری کرے تو وہ زیادتی کرنے والوں میں سے ہے"۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان اور سرکش بیوی کو فرمان بردار بنانے کے لئے مناسب سرزنش کی اجازت دے رکھی ہے چنانچہ ارشاد ہے:وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا(8)

"اورجن عورتوں کی بدخوئی کاتمہیں ڈرہوتوان کوسمجھاؤ(نہ مانیں تو) سونے میں جداکردو (پھر بھی نہ مانیں)تو مارو(لیکن ایسا کہ جسم پر نشان باقی نہ رہےاورہڈی وغیرہ بھی نہ ٹوٹے)پھراگر تمہاری بات مان لیں تودوسرے راستےکو تلاش مت کرو"۔

ابو بکر  جصاصؒ(9) نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ وعظ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے رہو ، اگر وعظ ونصیحت سے بات بن جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دوسرا حکم"ہجر " کا ہےہجر کا مطلب چھوڑنا ہے۔ ابن عباسؓ(م:86ھ)،حضرت عکرمہؒ،ضحاکؒ اور سدیؒ کے ہاں اس سے مراد باتوں کا چھوڑدينا ہے ۔ حضرت سعید بن جبیرؒ کے ہاں جماع کا چھوڑنا مراد ہے اور حضرت مجاھدؒ،امام شعبیؒ اور ابراہیمؒ کے ہاں اس سے مراد بستروں سے الگ کرنا ہے اگر اس سے بھی کام نہ بنے تو تیسرا حکم مارنے کا ہے لیکن مارنے کے حدود ایسے ہیں کہ زخم نہ آئے اور نہ ہی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے بلکہ غیر مبرح مارنے کی اجازت ہے جب کہ حضرت عطاءؒکا قول ہے کہ مسواک وغیرہ سے مارنے کی اجازت ہے۔ اس کےبعد اصلاح نہ ہونے کی صورت میں ثالثین کو اختیار دے کر صلح کرائی جائے۔(10)اس طرح احادیث مبارکہ میں بھی آتاہے کہ جس بچے کی عمر دس سال ہو اس کو نمازنہ پڑھنے پر تادیباً مارا جائے۔ چنانچہ ارشاد گرامی ہے:

مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِع (11)" بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں ( نہ پڑھنے پر) ان کو مارو اور ان کے بستر الگ کرادو"۔

اس طرح کسی مسلمان کو یہودی یا مخنث وغیرہ کہنے سے بھی سزا دینے کا ذکر احادیث مبارکہ میں موجود ہے چنانچہ نبی کریمﷺ نےفرمایاہے:

اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجِلِ:یَایَهُودِیًّ، فَاضرِبُوهُ عِشرِینَ، وَاِذَا قَالَ یَامُحَنَّثُ فَاضرِبُوهُ عِشرِینَ(12)" جب ایک آدمی دوسرے کو "یہودی"یا" محنث" کہہ دے تو اس کو بیس  کوڑے مارو"۔

لہٰذا جن کاموں (گناہوں)کے متعلق شرعی طورپر کوئی مقرر ہ سزا یا کفارہ نازل نہ ہو ایسے کام کرنے پر

قرآن وحدیث کی رو سے تعزیری سزا دینا جائز ہے ۔تعزیر کے ساتھ حد  کی ملتی جلتی اصطلاح استعمال ہوتی ہیں لہٰذادونوں کوسمجھنااورفرق کرناضروری ہے۔ذیل کے سطورمیں  حد کی تعریف کرکے ان دونوں میں فرق کو بیان کیا جاتاہے ۔

حد کی تعریف

حد کا لغوی معنیٰ ہے منع کرنا،جب کہ شرعی اصطلاح میں حد سے مراد وہ مقررہ سزا ئیں ہیں جو بطورزجر حقوق اللہ کے لئے واجب کی گئی ہیں۔ چنانچہ علامہ حصکفیؒ(13) (م:1088ھ)نے فرمایا ہے: الْحَدّ ُلُغَةً الْمَنْعُ وَشَرْعًا عُقُوبَةٌ مُقَدَّرَةٌ وَجَبَتْ حَقًّا لِلَّهِ تَعَالَى زَجْرًا (14)" حد کا لغوی معنیٰ منع کرنا ہے اور شرعی طورپر وہ مقررہ سزا جو بطور زجر اللہ تعالیٰ کے کسی حق کے لئے واجب ہو"۔

حد اور تعزیر میں فرق

حداورتعزیرمیں بنیادی طورپرفرق پایاجاتاہے۔ ذیل کے سطورمیں اس فرق کوبیان کیاجاتاہے۔

1.              حد کے ثابت ہونے کے بعد قاضی کے لئے شریعت کی طرف سے مقرر کردہ سزا کا جاری کرنا واجب ہوجاتاہے ،اس میں قاضی کو کمی بیشی کا اختیار نہیں رہتا جب کہ تعزیر میں قاضی حالات اور افراد کو دیکھ کر سزا میں کمی بیشی کرنے کا اختیاررکھتاہے۔

2.              حد ثابت ہونے کےبعد  اس میں معافی،سفارش یا اسقاط مؤثر نہیں ہوتا جب کہ تعزیر میں یہ تینوں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

3.              حدود شبہات سے ساقط ہوجاتے ہیں جب کہ تعزیر شبہات کے باوجود ختم نہیں ہوتا۔

4.              حد نابالغ بچے پر جاری نہیں ہوسکتا جب کہ تعزیر کے لئے صرف عقل ضروری ہے نہ کہ بلوغت۔

5.              حدود صرف اقرار یا مستند گواہی سے ثابت ہوتے ہیں جب کہ تعزیر شہادت ِسماعی،قسم اور عورتوں کی گواہی سے بھی ثابت ہوسکتاہے۔(15)

تعزیر کے مقاصد

تعزیر درج ذیل مقاصد کی وجہ سے مشروع ہے:

1:مجرم کو دوبارہ جرم سے منع کرنا:

تعزیر کےمقصدکے متعلق الموسوعۃ الفقہیہ میں لکھا  گیاہے: وَالزَّجْرُ مَعْنَاهُ: مَنْعُ الْجَانِي مِنْ مُعَاوَدَةِ الْجَرِيمَةِ (16)"زجر کا مطلب مجرم کو دوبارہ جرم کرنے سے باز رکھنا ہے"۔

2:جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی اور تنبیہ کرنا تاکہ عوام الناس ان کے ضرر سے بچ جائیں۔

اس بارے میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب "ہدایہ"میں لکھا ہے:اَلمَقصَدُ الاَصلِی مِن شَرعِهِ الاِنزِجاَرِ عَما یَتَضَررُ بِهِ العِبَادُ (17)"تعزیر کے جائز ہونے کا اصلی مقصد لوگوں کو ضررپہنچانے والے عناصر کی توبیخ اور زجر ہے"۔

3:مجرم کا اصلا ح حال اور تادیب وتطہیر: تعزیر سے مقصود یہ ہے کہ مجرم کی اصلاح ہوجائے اور کچھ آداب سیکھ کر گناہ سے پاک ہوجائے ، محض عذاب دینے یا آدمی کو بے عزت کرنے کے لئے تعزیر مشروع نہیں ہے۔ (18)چنانچہ علامہ زیلعیؒ  (19)فرماتے ہیں:شَرَعَ فِي الزَّوَاجِرِ غَيْرِ الْمُقَدَّرَةِ إذْ هُوَ مُحْتَاجٌ إلَيْهِ لِدَفْعِ الْفَسَادِ كَالْحُدُودِ وَهُوَ تَأْدِيبٌ دُونَ الْحَدِّ وَأَصْلُهُ مِنْ الْعَزْرِ بِمَعْنَى الرَّدِّ وَالرَّدْع (20)

" تعزیر(غیر معین سزاؤں)کویہاں سےبیان کیاکہ فسادکوختم کرنے کے لئے حدودکی طرح اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس کامقصدحد سے کم درجے میں تادیب کرناہے اوراس کااصل" عزر"سے ہے جس کامعنیٰ دفع کرنےاورمنع کرنے کے ہیں"۔

تعزیر بالمال کاتعارف اوراس کی شرعی حیثیت:

تعزیر بالمال کا مطلب"مالی جرمانہ"ہے کہ مجرم کو مالی طورپر جرمانہ کیا جائے۔ تعزیر کے باب میں یہ مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔تعزیربالمال کے مسئلہ میں علامہ ابن عابدین الشامیؒ(21)نے امام ابویوسفؒ (م182ھ) کے علاوہ تمام ائمہ کرام کا قول عدم جواز کا نقل کیا ہے اور امام ابویوسفؒ کے جواز والے قول کو ضعیف اور غیر مفتیٰ بہ قرار دیا ہے تاہم بزازیہ کے حوالے سے علامہ شامیؒ نے نقل کیا ہے کہ امام  کسی مجرم سےتعزیر میں مال لے سکتاہے لیکن خود استعمال نہیں کرسکتا بلکہ مجرم کی توبہ اور اصلاح کے بعد اس کو واپس کرے گااور اگر مجرم کی اصلاح سے ناامید ہو تو رفاہی کاموں میں اس کو خرچ کرسکتاہے اور  بڑی تفصیل کے بعدانہوں نے خلاصہ کلام  یہ نقل کیا ہے:وَالحَاصِلُ أَنَّ المذهَبَ عَدمُ التَّعزِیرِ بِأَخذِ المَالِ (22)  "خلاصہ یہ کہ صحیح مذہب تعزیر میں مال لینے کے عدم جواز کا ہے"۔البتہ علاء الدین طرابلسیؒ (23)نے معین الحکام میں اس مسئلہ پر بحث کی ہے وہ کہتے ہیں:

يَجُوزُ التَّعْزِيرُ بِأَخْذِ الْمَالِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَبِي يُوسُفَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ، وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْعُقُوبَةَ الْمَالِيَّةَ مَنْسُوخَةٌ فَقَدْ غَلطَ عَلَى مَذَاهِبِ الْأَئِمَّةِ نَقْلًا وَاسْتِدْلَالًا(24)"مالی جرمانہ جائز ہے اور امام ابویوسف ؒاور امام مالک (م:179ھ)کا یہی مذہب ہے اور جو کہتے ہیں کہ مالی سزا منسوخ ہے تو انہوں نے ائمہ کے مذاہب کو نقل کرنے اور دلیل پکڑنے میں غلطی کی ہے"۔

یہی مؤقف علامہ خالد سیف اللہ رحمانی(معاصر فقیہ جن کی فقہی تحقیقات کافی زیادہ ہیں)نے قاموس الفقہ میں اختیار کیا ہے، وہ لکھتے  ہیں:

"اِس وقت اسلام کے قانون حدود وتعزیرات کے فقدان کی وجہ سے بہت سے مسائل جو سماجی طورپر حل کئے جاتے ہیں اور          چھوٹی وحدتیں بعض منکرات کا مقابلہ کررہی ہے ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مالی جرمانوں کے ذریعے وہاں جرائم کی روک تھام کی سعی کرلیں۔ یوں بھی عملاً اس زمانے میں مالی تعزیرات کی بڑی کثرت ہوگئی ہے اور ریلوے ،بس اور ٹریفک وغیرہ میں کثرت سے اس کا تعامل ہے"۔(25)

نجی سطح پرفیصلہ کرنے کاشرعی دائرہ کار:

نجی سطح پر فیصلے کرناشرعی طورپرتحکیم کے ضمن میں آتاہے،  اس کے دائرہ کار کے متعلق فقہ حنفی کی مشہور متن ہدایہ میں لکھا گیا ہے:

وَلَا يَجُوزُ التَحكِيمُ فِى الحُدُودِ لآنَهُ لاَ وِلَايَة لَهُمَا عَلٰى دَمِهِمَا وَلِهٰذَا لَايَملِكَانِ الآبَاحَةَ فَلَا يُستَبَاحُ

بِرَضَاهُمَا قَالُوا: وَتخصِيصُ الحُدُودِ وَالقِصَاصِ يَدُلُ عَلٰى جَوَازِ التَحكِيمِ فِى سَائِرِ المُجتَهَدَاتِ كَالطَلَاقِ وَالنِكَاحِ وَغَيرِهِمَا وَهُوَ الصَحِيحُ إِلَا أَنَهُ لَایُفتٰی بِهِ (26)

" حدود اورقصاص میں تحکیم(ثالث بنانا) جائز نہیں اس لئے کہ ان دونوں کو اپنے خون پر خود ولایت حاصل نہیں  اس وجہ سے ان کے لئےاپنے خون کا مباح کرنا بھی جائز نہیں اورنہ ان  کی رضامندی سے مباح ہوسکتا ہے"۔

فقہائے کرام نے فرمایا ہےکہ حدود اورقصاص کی تخصیص ا س بات پر دلالت کرتی ہے کہ دوسرے مسائل جیسے طلاق، نکاح وغیرہ میں تحکیم جائز ہےاور یہی بات صحیح ہےلیکن اس پر فتوی نہیں دیاجاتا۔

اس کی تفصیل میں صاحب عنا یہ(م:786ھ)لکھتے ہیں :

لَا يَجُوزُ التَّحْكِيمُ فِي الْحُدُودِ الْوَاجِبَةِ حَقًّا لِلَّهِ تَعَالَى بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ؛ لِأَنَّ الْإِمَامَ هُوَ الْمُتَعَيِّنُ

لِاسْتِيفَائِهَا، وَأَمَّا فِي حَدِّ الْقَذْفِ وَالْقِصَاصِ فَقَدْ اخْتَلَفَتْ الْمَشَايِخُ، قَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ مِنْ أَصْحَابِنَا مَنْ قَالَ التَّحْكِيمُ فِي حَدِّ الْقَذْفِ وَالْقِصَاصِ جَائِزٌ. وَذَكَرَ فِي الذَّخِيرَةِ عَنْ صُلْحِ الْأَصْلِ أَنَّ التَّحْكِيمَ فِي الْقِصَاصِ جَائِزٌ؛ لِأَنَّ الِاسْتِيفَاءَ إلَيْهِمَا وَهُمَا مِنْ حُقُوقِ الْعِبَادِ فَيَجُوزُ التَّحْكِيمُ كَمَا فِي الْأَمْوَالِ، وَذَكَرَ الْخَصَّافُ أَنَّ التَّحْكِيمَ لَا يَجُوزُ فِي الْحُدُودِ وَالْقِصَاصِ، وَاخْتَارَهُ الْمُصَنِّفُ (27)  ۔"وہ حدود جو اللہ تعالی کے حق کے طور پر واجب ہوں ، اُن میں روایات کے اتفاق کے ساتھ تحکیم جائز نہیں اس لئے کہ اُن کے حصول کےلئے امام (حاکم وقت) متعین ہے اور حدقذف اور قصاص میں مشائخ عظام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے، شمس الائمہ نے فرمایاہے: کہ احناف میں سے بعض حضرات نے حدقذف اور قصاص میں تحکیم کو جائز کہاہے اورذخیرہ (نامی کتاب) میں اصل (مبسوط) کے صلح سے نقل کیاگیا ہے کہ قصاص میں تحکیم جائز ہےاس لئے کہ اس کی وصولی ان ہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہیں۔ لہذا ان میں دوسرے اموال کی طرح تحکیم جائز ہے۔ امام خصاف ؒ نے فرمایا ہے : کہ حدود اور قصاص میں تحکیم جائز نہیں اوراسی قول کو صاحب ہدایہ ؒ نے بھی اختیار کیا ہے"۔

خلاصہ یہ کہ نجی سطح پرحدودوقصاص کے فیصلے کرنادرست نہیں البتہ حدودوقصاص کے علاوہ دوسرے معاملات میں نجی سطح پرفیصلے کرنا شرعاََدرست ہیں۔

پختون معاشرے میں مالی سزاکی عملی صورتیں

پختون معاشرے  کے اندرمختلف قسم کے مسائل حل کرنے میں درج ذیل مروجہ فیصلے سزا پر مبنی ہوتےہیں۔نیچے سطورمیں ان فیصلوں کاذکرکیاجاتاہے اوران کی شرعی حیثیت کی بھی وضاحت کی جاتی ہے ۔ 

۱:ایک فریق کےذمے رقم کی ادائیگی لازم کرنا

۲:جارح کا زخمی فریق کو تاوان ،مرہم پٹی ،ڈاکٹر فیس یعنی اخراجات اداکرنا

۳:فریقین میں صلح کرکے ارد گرد کے علاقے والے اور فریقین کے رشتہ داروں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا

۴:زخمی کرنے میں جو اسلحہ وغیرہ استعمال ہوا ہے وہ مجروح فریق کو دے دینا

۵: فصل کو نقصان پہچانے اور چوری کافیصلہ کرنا

مذکورہ فیصلوں کی شرعی حیثیت

۱:ایک فریق کےذمے رقم کی ادائیگی لازم کرنا

عام طورپر پختون معاشرے میں دیکھا جاتاہے کہ جرگہ فریقین کے مابین صلح کرکےایک  فریق کےذمےکچھ رقم لازم کردیتاہے جس کوعموما "بدلِ صلح" کانام دیاجاتاہے ۔کسی ایک فریق کے ذمے مال کی ادائیگی لازم کرکے فیصلہ کرناعموماًقتل،زخم  اورزمین کے شفعہ کے معاملات میں کیاجاتاہے۔ذیل میں ان تینوں معاملات کے اندر کسی ایک فریق کورقم دینے کا پابندکرنے کی شرعی طورپروضاحت کی جاتی ہے ۔

قتل کی صورت  میں رقم کے ذریعے فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت:

شرعی طورپرقتل  کی صورت میں فریقین کی رضامندی سے  ثالثین کے لئے مال پر صلح کرانا جائز ہے عموماً وہ مال "بدلِ صلح" یا "تعزیربالمال"کے ضمن میں آتاہے اور اسی کو عرف عام میں دیت کا نام دیا جاتاہے حالانکہ وہ شرعی دیت نہیں ہوتی،اس لیے کہ اس مال میں  شرعی دیت کے وجوب کے تقاضے اورشرائط پورے نہیں ہوتے،چنانچہ دنیوی سزا کے طورپر قتل عمد کے قاتل کو بطور قصاص(بدلے کے طور پر)قتل کیا جائے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى(28) "اے ایمان والو! قتل کی صورت میں تم پر قصاص(بدلہ لینا) فرض کیا گیا ہے۔ شریعت مطہرہ نے تمام ورثائے مقتول کو"قصاص"کے حق میں شریک کیاہےجیسا کہ میراث کے مال میں سب شریک ہوتے ہیں۔(29) یعنی اگر مقتول کا کوئی وارث ہو تو قصاص لینے کاحق اسی کا ہوگاکہ چاہے تو قصاص لےلے یامعاف کرلےچونکہ قصاص کا حق سب ورثائے مقتول کو حاصل ہوتاہے ،اس لئے اگر ورثائے مقتول میں سے بعض ورثاء قاتل کو معاف کرلیں تو ایسی صورت میں قصاص کاحکم تمام ورثاء کے حق میں ساقط ہو جائے گا یعنی اگر اولیائے مقتول دویا زیادہ ہوں اور ان میں سے ایک قاتل کو معاف کردیں تو قاتل سے قصاص ساقط ہوجائے گا اس لئے کہ معاف کرنے والے کا حصہ معاف کرنے سے ساقط ہوگا اور باقی شرکاء کا حصہ مجبوراً ساقط ہوگا کہ قصاص کو ایک ہونے کی وجہ سے تقسیم نہیں کیا جا سکتا کہ بعض کےلئے تو قصاص لیاجائے اور بعض کے لئے چھوڑا جائے لہٰذا صحابہ کرام کے اجماع کے ساتھ دوسروں کا حق ِقصاص "مال" میں تبدیل ہوجائے گا۔(30)

یہ بات تو متعین ہے کہ قصاص کے ساقط ہونےسے مال لازم ہوگا لیکن وضاحت طلب امر یہ ہے کہ قصاص کے ساقط ہونے کی صورت میں دیت (31)لازم ہے یا وہ مال جس پر صلح ہوجائے؟ تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اولیائے مقتول قاتل کے ساتھ صلح نہ کریں اور ان میں سے ایک یا زیادہ نے قاتل کو معاف کیا ہے تو ایسی صورت میں قاتل کو قتل کرنا جائز نہیں اور قاتل کے ذمے دیت کی ادائیگی لازم ہے اس میں معاف کرنے والوں کا حصہ نہیں ہوگا اور باقی ورثاء کو میراث کے حصے کے بقدر دیت میں حصہ مل جائے گا۔(32) اس طرح فریقین اگر صلح پر راضی ہوجائیں اور مال کے بدلے صلح کرلیں تو بھی جائز ہے اور اگر دیت پر صلح کرلیں تو ایسا کرنا بھی ان کے لئے جائز ہے(33) کہ وہ کسی عوض پر حق قصاص سے دست بردار ہوجائیں ۔

البتہ"بدلِ صلح" یامالی جرمانے پر فیصلہ کرنے کی صورت میں ثالثین  کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ "بدل صلح" یا مالی جرمانہ مقررہ شرعی دیت سے زائد مقدار میں نہ ہو اگرچہ ایسا کرنا جائزہے لیکن معاشرے میں عرف بن جانے سے لوگوں کے لئے شریعت کی طرف سےمقررہ تخفیف کا مقصد فوت ہوجائے گا۔قصاص کے بدلے میں جو مال لیا جارہاہو اس میں تمام ورثاء کا حق ہوتاہے اس لئے ہر وارث کو اس کے مقررہ شرعی حصے کے بقدر دینا واجب ہے (34)۔

اس طرح قتل عمدکے علاوہ صورتوں  میں اگر قاتل کے ساتھ مال کے بدلے اولیائے مقتول کی رضامندی سے صلح ہوجائے تو ایسی صلح جائز ہے لیکن شریعت نے اس میں ایک شرط رکھی ہے کہ  یہ صلح اگر دیت کی مذکورہ مقداروں میں سے کسی ایک پر ہو تو اس میں دیت پر زیادتی کرنا جائز نہیں البتہ اگر جنس الگ ہو تو اس میں زیادتی کی گنجائش ہے چنانچہ فتاویٰ ھندیہ میں ہے: لَوْ صَالَحَ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ الدِّيَةِ لَا يَجُوزُ، وَهَذَا إذَا صَالَحَ عَلَى أَحَدِ مَقَادِيرِ الدِّيَةِ أَمَّا إذَا صَالَحَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ جَازَتْ الزِّيَادَةُ  (35)

"اگر دیت سے زیادہ مال پر صلح کرلیں تو یہ جائز نہیں اور یہ اس وقت ہے جب صلح دیت کی متعینہ مقداروں میں سےکسی ایک مقدار پر ہو،  ہاں اگر دوسری جنس پر ہو تو اس میں زیادتی جائز ہے"۔

لہٰذا اس بات کاخیال رکھنا چاہیے کہ قتل "شبہ عمد یاخطا"میں دیت کےلیےشرعی طورپر متعینہ اشیاء (اونٹ، سونااورچاندی) یا اس کی قیمت پرزیادتی کرکے صلح کرنا جائز نہیں البتہ اگر بدل صلح میں ان اشیاءِدیت کے بجائے زمین وغیرہ دے دی جائےچاہے وہ زمین دیت کی مقررہ اجناس سےزیادہ قیمتی ہو تو بھی ایسی صلح جائز ہے۔ اس قسم کی صلح کا جواز اس وقت ہے جب قتل قاتل کے اقرار سے ثابت ہو اور قاتل بدل ِصلح اپنے مال  سے اداکرتاہو اور اگر عین دیت(دیت کی مقررہ اشیاء) پر فیصلہ ہوا ہو تو نجی سطح  کا وہ فیصلہ شرعاً جائز نہیں اس لئے کہ نجی فیصلہ  کی شرعی حیثیت تحکیم کی ہے اور تحکیم میں حکم کا فیصلہ ان افراد پر نافذہوتاہے جنہوں نے حکموں(ثالثین) کو فیصلہ کا اختیار دیا ہو۔چونکہ شریعت نے دیت کی ادائیگی میں قاتل کے ساتھ اس کے عاقلہ(36) کو بھی شریک کیاہے جب کہ دیت کے فیصلے میں ثالثین  کو عاقلہ نے اختیار نہیں دیااس وجہ سے ان پروہ فیصلہ جاری نہیں ہوگا اور اگر عاقلہ کے  بجائےدیت کا فیصلہ صرف قاتل کےحق میں ہو کہ وہی اپنے مال سے دیت کو اداکرے گا تویہ فیصلہ بھی جائز نہیں کہ وہ شرعی احکامات کے خلاف ہے کہ شریعت نے دیت کی ادائیگی صرف قاتل پر نہیں رکھی بلکہ عاقلہ کو اس میں شریک کیا ہے۔جیسےہدایہ میں لکھا ہے:

وَاِن حَکَّمَا فِی دَمٍ خَطَأٍ فَقَضیٰ بِالدِّیَة عَلیٰ العَاقِلَةِ لَم یَنفَذ حُکمُه لِأَنَّهُ لَا وِلَایَةَ لَه عَلَیهِم اِذ لاَ تَحکِیمَ مِن جِهَتِهِم وَلَو حَکَّمَ عَلیٰ القَاتِلِ بِالدِّیَةِ فِی مَالِهِ رَدَّهُ القَاضِی وَیَقضِی بِالدِّیَةِ عَلیٰ العَاقِلَةِ لِأَنَّهُ مُخَالِفٌ لِرَأیِهِ وَمُخَالِفٌ لِلنَّصِّ أَیضًاً اِلَّا اِذَا ثَبَتَ القَتل بِأِقرَارِهِ لِأَنَّ العَاقِلَةَ لاَ تَعقِلُهُ(37)

"  اگرقتل خطا میں (ثالثوں نے) عاقلہ پر دیت کا فیصلہ کیا تو وہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا اس لئے کہ عاقلہ پر ان کو ولایت حاصل نہیں کیونکہ عاقلہ نے ان کو ثالث نہیں بنایا اور اگر قاتل پر ہی دیت کی ادائیگی کا فیصلہ ہو تو قاضی ایسے فیصلے کو رد کرے گا اور عاقلہ پر دیت کی ادائیگی کا فیصلہ کرے گا اس لئے کہ یہ قاضی کی رائے اور شرعی نصوص کے خلاف ہے ۔ہاں اگر قتل، قاتل کے اقرار سے ثابت ہو (تو وہ فیصلہ درست ہے) اس لئے کہ عاقلہ اقرار کے  ذمہ دار نہیں ہے"۔

خلاصہ کے طورپریہ بات ملحوظ نظر رہے کہ شریعت نے یہاں تین باتوں کو بیان کیا ہے:

1:اگر شبہ عمدیاخطا میں اثباتِ قتل، قاتل کے اقرار سے  ہوا ہو اور اس کی بنیادپر صلح کرکے"بدل صلح" کا فیصلہ کیاجائے چاہے "بدل صلح" دیت ہو یا اور کوئی چیز تو اس کی ادائیگی صرف قاتل پر ہے اور پختون معاشرے کاایسا مروجہ فیصلہ شرعاََجائزرہےگا۔(38)

2: اگرشبہ عمدیاخطا میں صلح ہوجائے اور صلح کے بدلے میں کچھ مال یا دیت واجب ہوجائے تو بدل صلح کی ادائیگی قاتل اور صلح کرنے والوں کے ذمے ہے اس میں عاقلہ پر کچھ نہیں (39)

3: اگر شبہ عمد یاخطامیں فیصلہ قاتل کے اقرار یا صلح کی بنیادپر نہ ہو تو اس صورت میں پختون معاشرے کا

مروجہ فیصلہ شرعاً نافذ نہیں ہوگا۔  (40)

۲۔جارح کا زخمی فریق کو تاوان ،مرہم پٹی ،ڈاکٹر فیس یعنی اخراجات اداکرنا،شرعی تناظرمیں

پختون معاشرےکےاندرزخم کےمعاملےمیں جارح فریق کوکچھ رقم کی ادائیگی کا پابند بنایا جاتا ہےجس کے ضمن میں جارح کا زخمی فریق کو تاوان دینا، جارح کا زخمی فریق کومرہم پٹی ،ڈاکٹر فیس یعنی اخراجات اداکرناوغیرہ فیصلے کئے جاتےہیں ایسے فیصلوں کی شرعی حیثیت ذیل کے سطورمیں بیان کی جاتی ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں ایسے مقدمات جوانسانی اعضاء کو نقصان پہنچانے کی ضمن میں  آتے ہیں،ان کو "جنایۃ علیٰ مادون النفس"(قتل سے کم درجہ کاجرم)سے تعبیر کیا جاتاہے۔ ایسے جرائم چار قسم کے ہو سکتے ہیں:

۱:اعضاء کا کاٹنا                       ۲: اعضاء کی منفعت کا فوت ہوجانا اگر چہ  عضو باقی ہو

۳: سر اور چہرے کے زخم           ۴: باقی اعضاء کےزخم

شریعت مطہرہ نے مذکورہ جرائم کے لئے چار قسم کی سزائیں بیان کی ہیں جن کی تنفیذ کے لئے اپنے اپنے شرائط ہیں،  وہ سزائیں درج ذیل ہیں:

۱:قصاص(یعنی بدلہ لینا)                         ۲: دیت کالازم ہونا

۳:وہ ارش(تاوان)جس کی مقدارشرعاً مقرر ہو

۴:وہ ارش(تاوان) جس کی مقدار شرعاً مقرر نہ ہو بلکہ مناسب فیصلہ کے بعد اس تاوان کا تعین کیا جاتاہو۔

کن کن جرائم میں قصاص لیا جاتاہے ؟ دیت اور ارش کہاں کہاں لازم ہوتی ہے؟اس تفصیل کے بجائے ہم اس مضمون میں صرف یہ ذکرکرناچاہتے ہیں کہ شرعی طورپران چار قسم سزاؤں کی جگہ صرف مالی تاوان پرفیصلہ کرناجائز ہے یانہیں؟جیساکہ پختون معاشرے میں عموماََکیاجاتاہےکہ جارح فریق کوپابندکیاجاتاہے کہ وہ مجروح فریق کوکچھ رقم بطورتاوان یاجرمانہ کے اداکریں گے۔ 

چنانچہ شریعت مطہرہ نے جن جنایات کا موجب قصاص مقرر کیا ہے کہ ایسے جنایات کے وقوع میں جارح سے قصاص لیاجائے گا وہاں مجروح اور زخمی فریق کو معاف کر نے اور صلح کرنے کا اختیار بھی دیا ہے اور اگر وہ قصاص کے  بجائے جارح کو بغیر عوض کے معاف کرنا چاہے تو یہ بہت اولیٰ اور فضیلت کی بات ہے البتہ عوض لے کر صلح کرنا بھی زخمی فریق کے لئے جائز ہے۔

اس صورت میں پختون معاشرےمیں رائج  زخموں کے متعلق وہ فیصلے جن میں قصاص واجب ہو ،جارح فریق پر تاوان مقرر کرکے مجروح فریق کی رضامندی سے صلح کرانا جائز رہے گا چنانچہ انسان کے شخصی حقوق کے متعلق لکھاگیا ہے:

أَلأَصلُ أَنَّ جَمِیعَ الحُقُوقِ الشَّخصِیَّةِ تُقبَلُ الأِسقَاطَ بِخِلاَفِ الَأعیَانِ کَحَقِّ القِصَاصِ وَحَقُّ الشُّفعَةِ وَحَقُّ الخِیَارِ، وَاِسقَاطُ الحَقِّ اِمَّا أَن یَّکُونَ بِعِوَضٍ أَوبِغَیرِعِوَضٍ (41)

"صحیح قول یہ ہے کہ اعیان کے علاوہ انسان کی شخصی حقوق کو اس کی مرضی سے ساقط کیا جاسکتاہے ،جیساکہ قصاص،شفعہ اور خیارکے حق کو ساقط کرنا اس کی مرضی سےجائز ہے چاہے عوض کے بدلے ہو یا بغیر عوض کے۔اس طرح زخموں کے صلح کے متعلق لکھا گیاہے:

وَیَجُوزُ الصُّلحُ بِاِتِّفَاقِ المَذَاهِبِ الأَربَعَةِ عَنِ القِصاَصِ فِی النَّفسِ وَمَادُونَ النَّفسِ مِنَ الأَعضَاءِ لِأَنَّ القِصَاصَ حَقٌ لِلأِنسَانِ، فَالصُّلحُ یَجُوزُ حِینَئِذٍ، سَوَاءٌ کَانَ بَدَلُ الصُلحِ عَیناً أَم دَینًا (42)

" قصاص فی النفس(قتل) اور اس سے کم یعنی اعضاءکےزخموں میں صلح کرنا مذاہب اربعہ کی رو سے جائز ہے اس لئے کہ قصاص انسان کاحق ہے اس وجہ سے صلح کرنا بھی جائز ہے چاہے بدل صلح کچھ بھی ہو"۔

ان دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح  ہوجاتی ہے کہ پختون معاشرےمیں رائج  زخموں کے متعلق وہ فیصلے جن میں  قصاص کے بدلے جارح فریق پر صلح کے طورپرتاوان اداکرنے کولازم کیاگیاہو، جائزرہیں گے  بشرط یہ کہ زخمی فریق راضی ہو ۔

خلاصہ یہ کہ زخموں کے جنایات میں اگر قصاص کے شرائط پورے ہوسکتے ہیں تو وہاں قصاص واجب ہوتاہے البتہ قصاص لینا فریق ثانی کاشرعی حق ہے اور وہ اس حق کو معاف کرنے یا اس کے بدلے صلح کرکے عوض لینے کااختیار رکھتے ہیں تاہم قصاص کاجاری کرنا حاکم اور قاضی کا کام ہے۔ جرگہ یاکمیٹی وغیرہ کے اراکین کے لئے قصاص کے فیصلے کرنا درست نہیں کہ وہ جارح فریق سے قصاص لینے کا فیصلہ کرلیں۔

اس کے علاوہ ایسے جنایات جن میں شریعت نے دیت یاکسی قسم کاتاوان چاہےمقررکیاہویانہیں ،ان جنایات میں مال کے ذریعے  صلح کرناجائزہے کہ شریعت نے اس بندے کودیت وتاوان لینےیامعاف کرنےکااختیاردیاہے۔ اس طرح صلح کرکے بدلِ صلح لینے کابھی اختیارہےجس کی واضح مثال قتلِ عمداورخطامیں اوپربیان کی گئی ہےکہ جب قتلِ عمدکے قصاص اورقتلِ خطاءکی دیت میں صلح کرکے مال لینا

جائزہےتواعضاءکے قصاص اوردیت میں بطریقِ اولیٰ جائزرہےگا۔

پختون معاشرے میں زخموں کی صورت میں عام طورپر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ جارح فریق زخمی کے علاج معالجے کے تمام اخراجات برداشت کرے گا  ، اس کو پختون معاشرے میں "پٹی" کہتے ہیں۔زخم کے علاج پر اٹھنےوالے مالی اخراجات (جن میں ادویات ،ڈاکٹروں کی فیس،ہسپتال کے خرچے اور دوسرے تمام مصارف داخل ہیں) کو بطور تاوان واجب قراردیا جائے تویہ بھی جائزہےاور اس طریقے کی تائید علامہ وہبۃ الزحیلی(جوموجودہ زمانے کے بہت بڑے فقیہ تھے حال ہی میں ان کی وفات ہوئی ہے)نے بھی کی ہے کہ ہمارے زمانے کے لحاظ سے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

رُبَمَا كَانَت أَنسَبُ الطُّرُقِ فِي عَصرِنَا، وَهِيَ أَن تَقدِرَ الجِنَايَةَ بِمِقدَارِ مَا يَحتَاجُ إِلَيهِ المجني عَلَيهِ مِنَ النَّفَقَةِ وَأُجرَةُ الطَّبِيبِ وَالأَدوِيَةِ إِلى أَن يَبرَأَ (43)"ہمارے زمانے میں زیادہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ زخمی شخص کے صحت مند ہونے تک کے اخراجات ،ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی فیسیں اور ادویات کی قیمت لگاکر جنایت کرنے والے سے لے لی جائیں"۔

۳:فریقین میں صلح کرکےارد گردکےعلاقے والے اور فریقین کے رشتہ داروں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا

پختون معاشرے میں مختلف قسم کےمسائل کوحل کرنےکےلئے"جرگہ" اپنی پختون روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عمومی طورپرفیصلہ کےدن جارح فریق کوپابند کرتا ہے کہ وہ گاؤں،علاقے کے لوگوں کے لئے اورفریقین کے رشتہ داروں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرےگا اس کے لئے عام طورپر چاول اور گوشت یا بھیڑ دنبوں کی مقداروتعدادمتعین کی جاتی ہے اور ایک خاص متعین کردہ دن کو لوگ اس کھانے میں شریک ہوتے ہیں۔شرعی اعتبارسے جرگہ(ثالثین) اگر فریقین کی رضامندی سے ایسا فیصلہ کرلیں تویہ بھی صلح کا حصہ ہو کر جائز رہے گا کہ  صلح میں گنجائش زیادہ ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض صورتوں میں  دیت سے زیادہ مقدارپر بھی صلح کیا جاسکتاہے۔اس طرح اس کھانے وغیرہ کو تعزیربالمال کے ضمن میں بھی لیا جاسکتاہے اور تعزیربالمال(مالی جرمانے)کےمتعلق بحث ابتداء میں گذر چکی ہے کہ تعزیر بالمال(مالی جرمانہ) لگا کر فریقین میں صلح کرنا جائز ہے۔(44)

۴: زخمی کرنے میں استعمال شدہ اسلحہ زخمی فریق کو دے دینا

پختون معاشرے میں "جرگہ"بسااوقات یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ زخمی کرنے میں جارح فریق جو اسلحہ استعمال کرچکاہے وہ زخمی فریق کے حوالے کرے گا ، یہ فیصلہ بھی تعزیر بالمال اور بدل صلح کے تحت جائز قراد دیا جاسکتاہے کہ یا تو اسلحہ حوالے کرنا تعزیراً ہوگا تو تعزیر بالمال کے جواز کی وجہ سے جائز رہے گا اور اگر زخمی فریق صلح کے لئے یہ شرط لگالے اور جارح فریق راضی ہوجائے تو اس صورت میں بدل صلح ہوکر بھی جائز رہے گا۔

۵:جرمانہ لگاکرمالی نقصان پہچانے اور چوری کافیصلہ کرنا

                شریعت مطہرہ نےمسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت کرنے کاحکم  دیا ہےلہٰذا کسی کےمال ، کھیت یافصل  وغیرہ کونقصان پہنچانا یاکسی کےمال ،فصل وغیرہ کوچوری کرنا شرعی اوراخلاقی طور پر جرم تصور کیاجاتا ہے۔ چوری کی صورت میں شریعت نے چور کی سزا بطور "حد" ہاتھ کاٹنے کی بیان کی ہے۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ (45)

"چوری کرنے والے مرداورچوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ ڈالویہ ان کے عمل کی سزااوراللہ کی طرف سےتنبیہ ہے"۔

مذکورہ مسئلے میں نجی فیصلے کا اختیاراورمروجہ فیصلے

            جیسا کہ پہلے ذکر کیاگیا ہے کہ حد جاری کرنے کا اختیار عوام الناس کونہیں ہے۔ اس کے اجراء لئے قاضی یاامام کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ پختون معاشرے میں نقصان کرنے اور چوری کرنے کامعاملہ "جرگہ سسٹم" کے ذریعے حل کیاجاتا ہے ۔ جس کی صورت یہ  ہوتی ہے کہ جرگہ مالی نقصان دینے والے پر نقصان کی تلافی لازم کرتی ہےاور چوری کرنے والے پر چوری کاسامان یامتبادل کی واپسی اور ننواتے (معافی مانگنا) کرنا لازم کرتی ہے کہ وہ مسروقہ خاندان کی چاردیواری  کی ہتک کامرتکب ہوا ہے۔اس لئے وہ معافی مانگنے کے ساتھ بطور جرمانہ بھی کچھ ادا کرے گا۔

مذکورہ فیصلوں کی شرعی حیثیت

شریعت مطہرہ میں کسی کامالی نقصان کرنے والے کے ذمے اس کی تلافی ضروری ہوتی ہے۔ نقصان اور

چوری کرنے والے پر "جرگہ"  کچھ تاوان بطورتلافی لازم کرتی ہے۔ اس کے متعلق شرعی تعلیمات یہ ہیں کہ نقصان کی صورت میں تو صلح کرکے تاوان لینا جائز ہےجب کہ چوری کی صورت میں اگر چوری شدہ مال  چور کے پاس موجود ہو تو مالکان کی اجازت کے بغیر جرگہ کے لئے صلح کرکے دوسری چیز لینا جائز نہیں اوراگر چور کے پاس چوری شدہ مال  موجود نہ ہو ، بلکہ وہ اس کوضائع کرچکا ہو تو ایسی صورت میں صلح کرکے بدل لینا جائز ہے البتہ اراکین جرگہ کے لئے ضروری ہے کہ چور پر چوری کردہ مال  کے مناسب قیمت لازم  کرے۔  مال مسروقہ سے کمی نہیں کرنی چاہیے اور ہتک چاردیواری کے طور پر بھی صلح کی صورت میں جرگہ کےلئے  چورپرکچھ لازم کرنا جائز ہے۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

فَإِنْ كَانَ الْمَسْرُوقُ قَائِمًا بِعَيْنِهِ لَمْ يَجُزْ الصُّلْحُ إلَّا بِإِجَازَةِ أَرْبَابِهَا وَإِنْ كَانَ مُسْتَهْلَكًا جَازَ مِنْ غَيْرِ إجَازَةِ أَرْبَابِهَا بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الصُّلْحُ عَلَى دَرَاهِمَ وَأَنْ لَا يَكُونَ فِيهِ طَرْحُ كَثِيرٍ مِنْ الْقِيمَة" (46)

"اگر مال مسروقہ چور کے پاس بعینہ موجود ہو تو مالکان کی اجازت کے بغیر اُس پر صلح کرنا جائز نہیں اور اگر مال مسروقہ ہلاک ہوچکا ہو تو مالکان کی اجازت کے بغیر بھی صلح کرنا جائز ہے جب کہ صلح دراہم پر ہو اور مال مسروقہ کی قیمت سے زیادہ متفاوت نہ ہو"۔

خلاصہ یہ کہ" جرگہ" کے لئے نقصان یاچوری کی صورت میں صلح کرکے بطور بدل صلح یاجرمانہ کےمتاثرہ فریق کو رقم وغیرہ دلوانا جائز ہے۔

خلاصہ بحث:

اس تحقیق کاخلاصہ یہ ہے کہ شرعی اعتبارسے مالی جرمانےکی سزاکوجاری کرناجائزہے جس کو فقہی زبان میں تعزیربالمال سےتعبیرکیاجاتاہے۔اس طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نجی سطح پر بھی "تعزیر بالمال" کے فیصلے کرکے مسئلے کوختم کرناشرعاًجائزہے گویا ثالثین کوقتل،زخم،  چوری اورآبرویزی کے مسائل میں تعزیر بالمال کےفیصلے کرکے معاملےکودفن کرناشرعاََ جوازکے زمرے میں آتاہے۔چنانچہ قتل عمدکی صورت میں فریقین کی رضامندی سے  ثالثین کے لئے مال پر صلح کرانا جائز ہے۔قصاص کے بدلے میں جو مال لیا جارہاہو اس میں تمام ورثاء کا حق ہوتاہے اس لئے ہر وارث کو اس کے مقررہ شرعی حصے کے بقدر دینا واجب ہے۔ اس طرح قتل عمدکے علاوہ صورتوں  میں اگر قاتل کے ساتھ مال کے بدلے اولیائے مقتول کی رضامندی سے صلح ہوجائے تو ایسی صلح  بھی جائز ہے لیکن شریعتِ اسلامی نے اس میں ایک شرط رکھی ہے کہ  یہ صلح اگر دیت کی مقررہ اجناس میں سے کسی ایک جنس پر ہو تو اس میں مقررہ دیت پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔البتہ جنس الگ ہو تو اس میں زیادتی کی گنجائش ہے۔

اس طرح زخم کے علاج پر اٹھنےوالے مالی اخراجات (جن میں ادویات ،ڈاکٹروں کی فیس،ہسپتال کے خرچے اور دوسرے تمام مصارف داخل ہیں) کو اگرجارح فریق پربطور تاوان واجب قراردیا جائے تویہ بھی شرعاََ جائزہے۔ثالثین اگر فریقین کی رضامندی سے کسی ایک فریق پرکھاناکھلانےکافیصلہ کرکےصلح کرلیں تویہ بھی صلح کا حصہ ہو کر جائز رہے گا کہ  صلح میں گنجائش زیادہ ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض صورتوں میں دیت سے زیادہ مقدارپر بھی صلح کیا جاسکتاہے۔اس طرح اس کھانے وغیرہ کو تعزیر بالمال کے ضمن میں بھی لیا جاسکتاہے۔

مالی نقصان کی صورت میں "تعزیر بالمال" پر صلح کرکے تاوان لینا  بھی شرعاََجائز ہے۔البتہ چوری کی صورت میں اگر چوری شدہ مال  چور کے پاس موجود ہو تو مالکان کی اجازت کے بغیر ثالثین کے لئے صلح کرکے دوسری چیزدلوانا جائز نہیں اوراگر چور کے پاس چوری شدہ مال  موجود نہ ہو بلکہ وہ اس کوضائع کرچکا ہو تو ایسی صورت میں صلح کرکے بدل لینا جائز ہے البتہ ثالثین  کے لئے ضروری ہے کہ چور پر چوری کردہ مال  کے مناسب قیمت لازم  کرے۔ مال مسروقہ سے کمی نہیں کرنی چاہیے اور ہتک چاردیواری کے طور پر بھی صلح کی صورت میں ثالثین  کےلئے  چورپرمالی سزاکالازم کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات

1: وحید الزمان کیرانوی،القاموس الوحید: ص1076،مادہ عزر،طبع اول،جون 2001ءادارہ اسلامیات لاہور۔

2: الزَّبيدی،محمّدبن محمّدبن عبدالرزّاق الحسينی،أبوالفيض، تاج العروس من جواہرالقاموس، دار الہدايہ، بیروت  ج13،مادہ ع،ز،ر،ص21۔

3: ایضاً۔

4: ابن نجیم مصری، البحرالرائق، دارلکتاب الاسلامی، بیروت،فصل فی التعزیر،ج5،ص44۔

5: المرجع السابق۔

6: علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاسانی لحنفی ، بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع: طبع دوم،1986ء ،دار الكتب العلميۃ بیروت، ج9،ص270۔

7: أبوبكرالبيہقی، احمدبن الحسین بن علی الخراسانی، السنن الکبریٰ طبع سوم،2003ءدارالكتب العلميہ، بيروت، لبنان باب ماجاء فی التعزیر،ج13،ص146۔

8: سورۃالنساء:34۔

9: امام جصاص:ابوبکر،احمدبن علی الرازی،المشہوربجصاص۔ بغدادمیں 305ھ کوپیداہوئے،اپنے دورکےامام الاحناف تھے،ان کے اساتذہ میں ابوسہل زجاج ؒ، ابوالحسن کرخیؒ وغیرہ فقہاءعصرمشہورہیں،ان کی تصانیف میں سے مشہورکتب احکام القرآن، شرح مختصرکرخی،شرح مختصرطحاوی،شرح الجامع الکبیراوركتاب أُصول الفقہ ہیں۔ 370ھ کوان کی وفات ہوئی۔(التفسير والمفسرون: ڈاکٹرمحمدسيدحسين ذہبی،طبع وسن ندارد مكتبہ وهبۃ، القاہرہ، ج2،ص323)۔

10: احمد بن علی ابوبکر رازی جصاص ،  احکام القرآن للجصاص:طبع 1405ھ، داراحیاء التراث العربی بیروت، ج3، ص، 150، 151۔

11: أبو داود سليمان بن الأشعث  سجستانی(المتوفى:275ھ)،  سنن ابی داؤد،  المكتبۃالعصریۃ، صيدا،  بيروت،باب متیٰ یؤمر الغلام بالصلوٰۃ،حدیث نمبر 495،ج1،ص133۔

12: أبوعبدالله الحاكم محمدبن عبدالله بن محمدالطهمانی النيشاپوری المعروف بابن البيع،  المستدرك على الصحيحين،  طبع اول،1990ء،دارالكتب العلميہ،بيروت ،کتاب الصلوٰۃ،باب مواقیت الصلوٰۃ،ج1،ص312۔

13: علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا اپنا نام محمد بن علی بن محمد بن علی ہے، علاءالدین ان کا لقب ہے الحصنی،الاثری اور الخصکفی سے مشہور ہیں،فقہ حنفی کے بہت بڑے عالم ہیں، ان کی مشہور تصانیف میں الدرالمختار،شرح الملتقیٰ،شرح المنار،شرح القطر،صحیح بخاری پر تعلیقات اور تفسیر بیضاوی پر تحقیقات  وغیرہ مشہور ہیں ۔10شوال 1088ہجری کو 63 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔( ردالمحتارعلى الدرالمختار :ابن عابدين، محمدأمين بن عمربن عبدالعزيز عابدين الدمشقی ، طبع دوم،1992ء، ج1،دارالفكربيروت،ص15)  ۔

14: امام خصکفی،الدرالمختار،  طبع دوم،1992ء دارالفكربيروت،کتاب الحدود،ج4،ص3۔

15: ایضاً۔

16: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ،طبع دوم، سن 1427ھ ،وزارة الأوقاف والشئون الإسلاميۃ ،الكويت ج12،ص256۔

17: علی بن أبی بكر بن عبد الجليل الفرغانی المرغينانی،أبو الحسن برهان الدين،  الہدایہ فی شرح بدايۃ المبتدی،  داراحياء التراث العرب، بيروت، لبنان ، کتاب الحدود،ج2،ص339۔

18: المرجع السابق،ج12،ص257۔

19: علامہ زیلعی:عثمان بن علی بن محجن بن موسر، فخر الدين، أبو عمر الزيلعی، الصوفی، البارعی ہیں۔705 ہجری کو قاہرہ میں درس اورفتویٰ کے خدمات انجام دینےتشریف لائے،بڑے فقیہ تھے۔743ہجری کووفات پائی۔(تاج التراجم،أبو الفداء زين الدين أبو العدل قاسم بن قُطلُوبغا السودونی الجمالی الحنفی ،تحقیق: محمد خير رمضان يوسف ،طبع اول، 1413ھ،1992ء،ج1،دار القلم  دمشق،ص204)۔

20: عثمان بن علی بن محجن البارعی، فخر الدين الزيلعی الحنفی،  تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: طبع اول، 1413ھ، المطبعۃ الكبرىٰ الأميريۃ بولاق،القاہرہ،ج3،ص210۔

21: ابن عابدین شامی کااپنانام محمدامین، والدکانام عمربن عبدالعزیز دمشقی ہے۔فقہ حنفی کے مشہورفقیہ ہیں، الدرالمختار علی شرح تنویرالابصار پران کی شرح ردالمختار بڑی مشہور ہے جو کہ علمی حلقوں میں "شامی"کے نام سے جانی جاتی ہے،1252ھ کودمشق میں وفات پاگئے۔(الأعلام:ج7،ص75)۔

22: الدرالمختار،ج6،ص105،106۔

23: علاءالدین الطرابلسی:علاء الدين، أبی الحسن: علی بن خليل الطرابلسی، الحنفی، القدس کےقاضی تھے۔844ھ کووفات پائی(كشف الظنون عن أسامی الكتب والفنون: مصطفى بن عبد الله كاتب جلبی القسطنطينی المشہور باسم حاجی خليفۃأو الحاج خليفۃ، ج1،1941ء مكتبۃ المثنى ، بغداد،ص1745۔

24: علاء الدین الطرابلسی ،  معین الحکام،  طبع دوم ، 1206ھ، امیر حمزہ کتب خانہ ، کوئٹہ،ص231۔

25: خالد سیف اللہ رحمانی،  قاموس الفقہ،  مادہ تعزیر،ج2،ص479،زمزم پبلشرز،کراچی۔

26: الہدایہ:ج3،ص 108۔

27: محمد بن محمد بن محمود اکمل الدین الرومی البابرتی، العنایہ شرح الھدایہ، ج7،دارالفکر ،بیروت،ص318۔

28: سورۃ البقرہ:178۔

29: بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،ج7،ص242۔

30: ایضاً،ج7،ص247۔

31: وہ مال جو پورےنفس  یااعضاءکے بدلے مقرر ہو اس کو دیت کہتے ہیں،فقہ حنفی کی مشہور شرح فتح القدیر میں دیت کی تعریف یہ لکھی گئی ہے:أَلدِیَةُ اِسمٌ لِضَمَانٍ یَجِبُ بِمُقَابِلَةِ الآدَمِیِّ أَو عُضوٌ مِنهُ (فتح القدیر:كمال الدين محمدبن عبدالواحدالمعروف بابن الہمام، دارالفكر، بیروت، کتاب الدیات،ج9،ص205)یعنی دیت اس ضمان کا نام ہے جو آدمی یا اس کے عضو کے بدلے واجب ہوجائے۔دیت کے لئے حضرات فقہائے کرام نےدرج ذیل چیزوں کو متعین کیا ہے کہ قاتل ان میں سے کوئی ایک اولیائے مقتول کو ادا کرے گا۔

1: اونٹوں میں سے دیت کی مقدار سو (100) اونٹ 2:سونے میں ایک ہزار دینار (1000) یا اس کے بقدر سونا

3:چاندی میں سے دس (10)ہزار دراہم یا اس کے بقدر چاندی(بدائع الصنائع:ج2ص309)دیت کی مزید تفصیل آگے صفحات میں قتل شبہ عمد کے تحت آئے گی۔

32: مفتی محمد شفیع ،  معارف القرآن، مارچ2001ء، ادارۃ المعارف ،  دارالعلوم کراچی،ج1ص437۔

33: فتاویٰ ہندیہ جو فقہ حنفی کی ایک مشہور فتاویٰ ہے،  اس میں لکھا ہے: يَجُوزُ الصُّلْحُ عَنْ جِنَايَةِ الْعَمْدِ وَالْخَطَأِ فِي النَّفْسِ وَمَا دُونَهَا إلَّا أَنَّهُ لَوْ صَالَحَ فِي الْعَمْدِ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ الدِّيَةِ جَازَ، وَيَكُونُ الْمَالُ حَالًّا عَلَى الْجَانِي فِي مَالِه(الفتاویٰ الہندیہ: لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی،ج4ص260،طبع دوم ، 1310ھ دالفکر بیروت)۔

"قتل عمد اور خطا میں جان کے بدلے یا اس سے کم میں صلح کرنا جائز ہے ہاں اگر قتل عمد میں دیت سے زائد مال پر صلح کرلیں تو جائز ہے اور قاتل کے ذمے مال کا فوراً اداکرنا ضروری ہے"۔

34: بدائع الصنائع:ج7ص242۔

35: فتاویٰ ہندیہ،ج4،ص260۔

36: عاقلہ :عاقل کی جمع ہے اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو قاتل کی طرف سے دیت (خون بہا) اداکرنے والے ہوتے ہیں ، یہ ذمہ داری شریعت نے قاتل کے ناصرین اورپشت پناہی کرنے والوں پر ڈال دی ہے کہ وہ قاتل کے ساتھ خون بہا کی ادائیگی میں تعاون کرکے اس کو مزید جرائم سے روک دے ۔عاقلہ میں  دوقسم کے لوگ آتے ہیں:

1:اھل الدیوان:جس کا اطلاق موجودہ دور میں ہم پیشہ یا ایک محکمہ کے ملازمین پر ہوتاہے۔

2: قاتل کے رشتہ دار اور عصبات یعنی جتنے رشتہ دار ہیں والد کی طرف سے یعنی اس کے خاندان والے ،چچا اور ان کی اولاد ، اس کے بھائی اور ان کی اولاد،اس طرح الاقرب فالاقرب سےترتیب چلتی رہے گی اور خون بہا  کی ادائیگی میں یہ سب لوگ قاتل کے ساتھ تعاون کریں گے۔ (الموسوعۃ  الفقہیہ کویت،ج29ص222،مادہ عاقلہ)۔

37: الہدایہ ،ج3 ص108۔

38: علامہ کاسانی لکھتے ہیں:وَكُلُّ دِيَةٍ وَجَبَتْ بِنَفْسِ الْقَتْلِ الْخَطَأِ أَوْ شِبْهِ الْعَمْدِ تَتَحَمَّلُهُ الْعَاقِلَةُ، وَمَا لَا فَلَا، فَلَا تَعْقِلُ الصُّلْحَ؛ لِأَنَّ بَدَلَ الصُّلْحِ مَا وَجَبَ بِالْقَتْلِ بَلْ بِعَقْدِ الصُّلْحِ، وَلَا الْإِقْرَارَ؛ لِأَنَّهَا وَجَبَتْ بِالْإِقْرَارِ بِالْقَتْلِ لَا بِالْقَتْلِ، وَإِقْرَارُهُ حُجَّةٌ فِي حَقِّهِ لَا فِي حَقِّ غَيْرِه(بدائع الصنائع:ج7ص255)

" قتل خطا اور شبہ عمد کی صورت میں واجب شدہ دیت عاقلہ ہی برداشت کرے گی اس کے علاوہ نہیں لہٰذا صلح کو عاقلہ پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ بدل صلح،قتل کی وجہ سے واجب نہیں  بلکہ عقد صلح کی وجہ سے واجب ہے۔اس طرح اقرار سے ثابت شدہ قتل کا تاوان بھی عاقلہ پر نافذ نہیں کیا جائے گا کہ وہ بھی قتل کی وجہ سے نہیں بلکہ اقرار قتل کی وجہ سے واجب ہے اور اقرار صرف مقر کے حق میں حجت ہے کسی اور کے حق میں نہیں"۔

39: ایضاً۔

40: الہدایہ ج3ص108۔

41: ایضاً،ج4،ص2847۔

42: ایضاً،ج6،ص4352۔

43: علامہ وھبۃ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج7،باب الجنایات،طبع4،دارالفکر،بیروت،ص5768۔

44: معین الحکام: ص231

45:  سورۃ المائدہ: 38۔

46: فتاوی ہندیہ: ج 4، ص 244۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...