Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 5 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

پہلے ہزار سالہ مسلمان سیرت نگار کا اجمالی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

5

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029336_1257

Pages

28-48

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/146/136

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/146

Subjects

1st Millennial Prophet Muhammad (SAW) Sýrah writers Qura’n Sunnah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

What was written on Sýrah-un-Nabiﷺ. No doubt reveals that the pioneer collectors of Sýrah -un-Nabiﷺ, vast sea with infinite depth. It is said about the Holy Quran that "لا تنقضی عجائبہ" “its miracles are countless”, similarly the different aspects of Sýrah -un-Nabiﷺ will illuminate before us, regarding its greatness and significance. It is revealed after the study of Sýrah-un-Nabiﷺ that this authentic composition of S Sýrah-un-Nabiﷺ came into being after the pain stacking efforts of the Sýrah writers. Every saying, act, advice, character, manner and trait, speech of Holy Prophet ﷺ is brighter than the sun and moon. The Sýrah -un-Nabiﷺ writers with their efforts and devotion presented before Ummah such a standard and methodology of refinement and research-a distinction and hallmark of composition and compilation of Sýrah -un-Nabiﷺ -which was followed by the Sýrah -un-Nabiﷺ writers from time to time. The actual sources of Sýrah -un-Nabiﷺ are ﷺ Quran and Hadith. Companion protected hadith as Khulfa-ye-Rashideen (Caliphates) protected Quran. ______________________________________________________ پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ علوم اسلامیہ، ہزارہ یونیو رسٹی، مانسہرہ* اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ علوم اسلامیہ، ہزارہ یونیو رسٹی، مانسہرہ ** When Umar bin Abdul Aziz intensively felt the necessity of collecting hadit h he designated Qadi Abu Bakar ibn Hazam and Muhammad Shahab Zuhri for this purpose, Imam Zuhari was the first to collect Syrat-un-Nabiﷺ and Maghāazi, by the time Ibn Ishaq and Musa bin Uqba’s books introduced Syrat-un-Nabiﷺ as permanent art. After that Ibn Hisham organized, in a new way, Ibn Ishaq’s maghazi in a book named Sýrah Ibn Hishaaam, until now number of books were written on different aspects of Sýrah and will continue till the last hour. Herein we will present summary of the work and efforts of famous Sýrah writers till 10th century, which show the continuity of this art from the start.


سیرت نبوی ﷺ پر آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اولین جمع کرنے والے صحابہ کرام ہیں۔سیرت نبوی ﷺ پر آج تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے ہم قطعیت اور تیقن تو دور کی بات ہے محض اندازہ سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔صرف اللہ تعالی کو علم ہے کہ اس کے حبیب کی سیرت اور پیغام کے بارے میں کتنا اور کیا کچھ لکھا گیا ہے اور کتنا لکھا جا رہا ہے اور آئندہ کتنا لکھا جا ئے گا ۔سیرت نبوی ایک ایسا لا متناہی سمندر ہے جس کی حدود ،گہرائی اور گیرائی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا جیسا کہ قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گیا کہ "لا تنقضی عجائبہ"اسی طرح سیرت کی عظمت اور معنویت کے نئے نئے پہلو ہمارے سامنے روشن ہوتے چلے جائیں گیں ۔سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ سیرت کی حفاظت ،جمع ،ترتیب وتدوین اور آج ہم تک پہنچانے میں سیرت نگاروں نے فن سیرت نگاری میں اپنی جانیں کھپا کر سیرت کے بند دروازوں کو کھولا تب جا کر سیرت کا ایسا مستند مجموعہ تیار ہوا اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا وہ کون سا رخ ہے جو اندھیروں کے لپیٹ میں ہو۔کو سا گوشہ ہے جسے ہم تاریکی سے تعبیر کریں آپ کی زندگی کا کون سا باب ہے جو بند ہو ،آپ کے ہر قول وعمل ،ارشاد وتلقین ،کردار واخلاق کی جھلک ،آپ کے خدوخال ،گفتاروکردار آفتاب سے زیادہ روشن اور ماہتاب سے زیادہ منور نظر آئیں گیں ۔قرآن مجید اور مستند احادیث کی روشنی میں واقعات سیرت کی تحقیق وتنقیح کا جو معیار واسلوب امت کے سامنے اہل سیر نے اپنی کوششوں اور جاں فشانیوں سے پیش کیا اور جس کی مکمل اتباع زمانہ در زمانہ سیرت نگاروں نے کی وہی در اصل اس سیرت نگاری کے تدوین اور ترتیب کی سب سے بڑ ی خصوصیت اور وجہ امتیاز ہے ۔

سیرت نبوی ﷺ کے اصل مآخذ قرآن وحدیث ہیں صحابہ کرام اور تابعین عظام نے حدیث پاک کی حفاظت اس طرح کی جس طرح قرآن کی حفاظت کے لیے خلفائے راشدین نے کوششیں کیں ۔حضرت عمر بن عبد العزیز نے حدیث کی تدوین کی سخت ضروت محسوس کی تو قاضی ابو بکر بن حزم انصاری99ھ اور محمد بن شہاب زہری کو اس اہم خدمت پر مقرر کیا جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو سب سے پہلے امام زہری نے جمع کیا اور مغازی کو مرتب کرنے والے بھی امام زہری تھے ۔آگے چل کر ابن اسحاق اور موسی بن عقبہ کی تصنیفات نے سیرت کو مستقل فن کی حیثیت سے متعارف کروایا اس کے بعد ابن ہشام نے مغازی ابن اسحاق کو نئے طریقے سے منظم کیا اور سیرت ابن ہشام کے نام سے ایک تالیف علماء کے سامنے پیش کی ۔ان کے بعد لگاتار سیرت النبیﷺ کے مختلف پہلووں پر تصنیف وتالیف کا بابرکت کام ہوتا چلا آ رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک اس اہم موضوع پر کام ہوتا رہے گا ۔ذیل میں ہم ایک ہزار صدی تک کے مشہور سیرت نگار اور انکی تصنیفات اور خدمات کا مختصرا خلاصہ پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو گی کہ کس طرح سرمایہ سیرت ہم تک منتقل ہوا ۔

اہل سیر اور ان کی تصانیف کا تحقیقی جائزہ

  1. عروہ بن زبیرؒ (23-94ھ):حضرت عروہ بن زبیر کی نسبت اگر دیکھی جائے تو یہ جناب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے بھانجے تھے[1] ۔ جناب عروہ بن زبیر کا شمار مدینہ منورہ کے کبار فقہاء کرام میں سے کیا جاتا تھا۔حضرت عروہ نے سیرت کے مغازی کے پہلو کے اعتبار سے جو خدمت سرانجام دی ہے اس کا ذخیرہ کتب سیرت میں موجود ہے ۔مثلا:علامہ ابن اسحاق ،ابن سید الناس ،واقدی اور علامہ طبری نے اپنی تالفات میں حضرت عروہ بن زبیر کی مغازی کے متعلق روایات کو ذکر کیا ہے ۔حضرت عروہ کی تالیف”مغازی رسول اللہ “تو عصر حاضر میں ناپید ہے ۔لیکن اس کے بعض اجزاء کو دکتور مصطفی اعظمی نے مرتب کر کے 1981ء میں شائع کیا اور پھر اس کا اردو ترجمہ لاہور کے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے 1987ء میں شائع کیا[2]۔
  2. حضرت ابان بن عثمانؒ(20-105ھ):حضرت ابان خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے ۔آپ سیرت نگاری اور مغازی کے علاوہ فقہ اور حدیث کے بھی بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔حضر ت ابان بن عثمان نے جو روایات حضرت مغیرہ سے نقل کی تھی وہ محض صحیفوں کی صورت میں تھی اور ان میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت کے متعلق روایات جمع کی ہوئی تھیں لیکن آپ کے ان صحیفوں سے ہم تک کچھ نہیں پہنچا ۔لیکن پھر بھی حضرت ابان کا شمار ان فقہاء میں سے کیا جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے فن مغازی کا مجموعہ فراہم کیا[3] ۔
  3. حضرت وہب بن منبۃؒ (34-110ھ):حضرت وہب بن منبہ جنوبی عرب کے شہر یمن سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ایک اور بھائی ہمام بن منبہ حضرت ابو ھریرہ کے قابل ذکر شاگردوں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے حضرت ابو ھریرہ کے مجموعہ حدیث کو جمع کیا جو ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ کے نام سے مشہورہے ۔کشف الظنون کے مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت وہب نے مغازی کے متعلق روایات جمع کی ہوئی تھیں ۔لیکن متقدمین سیر ت نگاروں کی تصانیف میں کہیں بھی آپ کا ذکر رسول اللہ کی سیرت بیان کرنے والے راویوں میں نہیں آیا۔ہاں البتہ آپ کی تصنیف "کتاب المغازی" کے بعض اجزاء جرمنی کی لائیبریری” Hadle Bargh “میں محفوظ ہے ۔اس مجموعہ میں آپ نے متقدمین اہل حدیث کی طرح زیادہ اسناد کا اہتمام نہیں کیا۔[4]
  4. حضر ت عاصم بن عمر بن قتادہؒ(120ھ ):آپ کا شمار کبار بابعین میں سے ہوتا ہے ۔علامہ ابن قتیبہ نے آپ کو "صاحب السیر والمغازی " کا لقب دیا ہے[5] ۔ علامہ ابن حجر کے مطابق آپ سیرت اور مغازی کے بلند پایہ عالم تھے ۔ابن اسحاوق مدینہ منورہ میں اکثیر حضرت عاصم بن عمر کے درس میں شرکت کرتے تھے ۔اسی لیے ابن اسحاق نے اپنی تصنیف میں آپ سے مغازی کے متعلق بہت سے روایات نقل کی ہیں ۔اس کے علاوہ علامہ ابن جریر اور واقدی نے بھی آپ سے مغازی کے باب میں روایات اخذ کیں ہیں[6] ۔
  5. حضرت شرحبیل بن سعدؒ (123ھ): حضر ت شرحبیل نے ابو ہریرہ ،زید بن ثابت ،ابو سعید خدری اور دوسرے کئیں صحابہ سے روایات نقل کی ہیں [7]۔علامہ سفیان بن عیینہ کا قو ل ہےکہ ” میں نے شرحبیل سے زیادہ مغازی اور غزوہ بدر کے حالات کا جاننے والانہیں دیکھا“۔علامہ داقطنی اور امام نسائی نے آپ کو ضعیف رواۃ کی فہرست میں شامل کیاہے ۔جبکہ ابن حبان نے آپ کو ثقات میں شمار کیاہے [8]۔اس بات کا پتا نہ چل سکا کہ آپ نے مغازی رسول پر کوئی کتاب لکھی ہے نہیں ۔اب سعد نے اپنی کتاب میں رسول اکرم ﷺ کی قباء سے مدینہ منورہ کی ہجرت کرنے والی روایات ان سے بیان کی ہیں [9]۔
  6. محمد بن مسلم بن شہاب زہریؒ(87-124ھ): علامہ شہاب زہری کا شمار مدینہ منورہ کے بلند پایہ تابعین میں ہوتا تھا [10]۔آپ کو تفسیر ،فقہ ،حدیث ،مغازی ،تاریخ ،اور سیر کی ترتیب وتدوین کے حوالے سے بہت شہرت حاصل تھی ۔امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں شہاب زہری جیسا محدث او رفقیہ نہیں دیکھا [11]۔ رسول اکرم ﷺ کے مغازی پر آپ نے ایک کتاب لکھی جو کہ ”المغازی النبویۃ “ کے نام سے شائع ہو چکی ہے [12]۔
  7. عبد اللہ بن ابوبکر بن حزمؒ (135ھ): آپ مدینہ منورہ کے مشہور قاضی اور محدث تھے [13]۔ علم سیرت اور فن مغازی میں آپ خاصی شہرت کے حامل تھے ۔آپ کے متعلق یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ آپ نے مغازی رسول پر کوئی کتاب مرتب کی البتہ متعدد سیرت نگاروں نے مثلا:واقدی ،ابن اسحاق،ابن جریر اور ابن سعد نے اپنی تصانیف میں آپ کے حوالہ سے بے شمار روایات نقل کی ہیں جو مغازی رسول کے متعلق ہیں [14]۔
  8. موسی بن عقبہؒ(55-141ھ): آپ کا شمار کبار تابعین میں سے ہوتا ہے کیونکہ آپ کو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا [15]۔آپ اپنے عہد کے مشہور فقیہ ،محدث اور سیرت رسول کے عالم تھے[16] ۔ مغازی رسول کے متعلق آپ کی روایات کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی روایات میں صحت کا بڑا اہتمام پایا جاتا ہے ۔آپ کی نقل کردہ روایات میں یہ خصوصیت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے کہ آپ کم عمر اور ناسمجھ لوگوں کی مرویات سے انحراف کرتے ہیں اور پکی عمر اور فہم وفراست کے حامل راویوں سے روایت لینے کا اہتمام کرتے ہیں ۔اس اہتمام کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی مرتب کردہ تصنیف دیگر تصانیف کے مقابلہ میں مختصر اور صحت کے زیادہ قریب ہے [17]۔ آپ کی کتاب کا قدppیم نسخہ سٹیٹ لائیبریری میں موجود ہے اور آپ کی کتاب کو جرمنی ترجمہ کے ساتھ E.Sachau نے 1904 ء میں شائع کیا[18] ۔
  9. محمد بن اسحاقؒ (85-151ھ): آپ کا شمار مدینہ منورہ کے تابعین میں سے ہوتا ہے۔ علامہ ابن اسحاق کو اللہ رب العزت نے سیرت نگاری اور فن مغازی میں اس قدر کمال مہارت دی کہ آپ مغازی رسول کے امام کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ امام شافعی رحۃ اللہ علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ” من اراد ان یتبحر فی المغازی فھو عیال علی ابن اسحاق۔“[19]ترجمہ: ”جو مغازی میں وسیع علم چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ابن اسحاق پر انحصار کرے “۔ علامہ ابن اسحاق کی مرتب شدہ تصنیف "کتاب المغازی والسیر"،"کتاب السیرۃ والمبتداء والمغازی"اور" کتاب المغازی " تینوں ناموں سے معروف ومشہور ہے ۔یہ تصنیف ہم تک اپنی اصل حالت میں نہیں پہنچ پائی البتہ ابن ہشام نے آپ کی سیرت کو کافی حد تک اپنی کتاب سیرت ابن ہشام میں محفوظ کیاہوا ہے ۔
  10. معمر بن راشدؒ (92-153ھ): آپ اپنے زمانے کے مشہور محدث اور مؤرخ تھے ۔ آے نے مغازی کی تدوین کے ساتھ ساتھ سیرت رسول کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا اور تمام روایات کو یکجا کرکے جمع کیا ۔آپ کےمتعلق جوزف ہورتس کہتےہیں:

معمر نے مغازی کو محدود معنوں میں نہیں رکھا ہے بلکہ قدیم انبیاء اور اہل کتاب کی تاریخ کی طرف بھی توجہ دی ہے ۔اس طرح انہوں نے رسول اللہﷺ کی ہجرت سے پہلے کی تاریخ پر مواد فراہم کیا ہے۔مزید برآں ابن سعد اور طبری﷭ کی تاریخوں میں معمر کے حوالے سے عہد عثمان اور معاویہ کے اہم واقعات نقل ہوئے ہیں [20]۔“

  1. ابو معشر السندیؒ(170ھ): آپ کا نام عبد الرحمان المدنی تھا آپ بحیثیت فقیہ ،محدث اور مؤرخ خاصی شہرت کے حامل تھے ۔ لیکن رسول اکرم ﷺ کی مغازی کے متعلق آپ کی روایات کو مستند تسلیم نہیں کیا گیا ۔ آپ کے متعلق امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :ابو معشر السندی فن مغازی میں بصیرت کے حامل تھے[21] ۔اور خطیب بغدادی نے آپ کو مغازی کے علماء میں سے شمار کیاہے[22] ۔
  2. معتمر بن سلیمان بن طرخانؒ (106-187ھ): معتمر بن سلیمان یمن کے رہائشی تھے ۔علامہ واقدی کی "کتاب المغازی " میں اس کا آخری جز معتمر بن سلیمان کی مغازی سے ہی نقل کیا گیا ہے ۔علامہ ابن جریر نے اپنی تصنیف میں معتمر بن سلیمان سے صرف دو روایتیں نقل کی ہیں ۔جن میں سے ایک کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔[23] اور دوسری روایت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے سے متعلق ہے[24] ۔ پھر اس کے بعد انہوں نےمعتمر بن سلیمان کی سند سے حضرت عثمان بن عفان کےدور کے چند دلخراش واقعات تحریرکیے ہیں جو کہ فتنہ کے زمانے سے متعلق ہیں [25]۔
  3. ابو اسحاق الفزاریؒ (188ھ): ابو اسحاق الفزاری اپنے زمانہ کے نامور محدث اور مؤرخ تھے ۔آپ کی مرتب کردہ تصانیف میں سے "کتاب السیر فی الاخبار"[26] بہت شہرت کی حامل ہے ۔ اس کتاب کا قدیم مخطوطہ جامع القزوین میں موجود ہے[27] ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:” ابو اسحق الفزاری جیسی سیرت کسی نے بھی نہیں لکھی“ ۔[28]
  4. یحیی بن سعید الامویؒ (111ھ-195ھ) ابو ایوب بن سعید بن الابان الاموی الکوفی ؒنے ہشام بن عروہؒ اور محمد بن اسحاق وغیرہ سے حدیث روایت کی۔۔انہون نے "کتاب المغازی " تصنیف کی[29] ۔امام بخاریؒ اپنی صحیح میں کتاب المغازی میں اس کے حوالے دیے ہیں۔نیز علامہ طبری نے بھی اپنی تاریخ میں اس سے استفادہ کیا ہے ۔لیکن یہ کتاب بھی دستیاب نہیں ۔
  5. ابو العباس الامویؒ (119ھ-195ھ)ابو العباس ولید بن مسلم الاموی بلند پایہ مؤرخ اور محدث تھے [30]۔انہوں نے تقریبا 70 کتابیں تالیف کیں جن میں "کتاب المغازی " اور" کتاب السنن" بھی شامل ہیں [31]۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب المغازی میں اور علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ولید بن مسلم کی مغازی سے استفادہ کیا ہے۔یہ کتاب بھی مفقود ہے ۔
  6. ابان الاحمرؒ (200ھ)ابان بن عثمان بن یحیی بن زکریا اللؤلؤی البجلی المعروف بالاحمر ،ابو عبد اللہ ،دوسری صدی ہجری کے معروف مؤرخ اور علم انساب کے ماہر گزرے ہیں ۔ انہوں نے کتاب المغازی لکھی جس کا موضوع المبتداء والمبعث وغزوات الرسول ہے [32]۔غالبا یہ جامع کتاب تھی اس لیے امام ابن حجرؒنے اسے "کتاب الکبیر " کا نام دیا ہے[33] ۔یہ کتاب بھی دستیاب نہیں ہے ۔
  7. ابو حذیفہؒ (206ھ)ابو حذیفہ اسحاق بن بشیر بن محمد البخاری بلخ میں پیدا ہوئے لیکن بخارا میں مستقل طورپر قیام کیا اور یہیں فوت ہوئے۔آپ محمد بن اسحاق ،عبد الملک بن جریج ،امام مالک اور سفیان ثوری ؒکے شاگرد ہیں ۔ابو حذیفہ﷫ کی تصانیف میں "کتاب المبتداء " اور "کتاب الفتوح " قابل ذکر ہیں ۔"کتاب الفتوح " کے بےشمار حوالے یاقوت الحموی کی "معجم البلدان "اور علامہ ابن حجر کی "الاصابہ " میں ملتے ہیں[34]۔
  8. واقدیؒ(130-207ھ)ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن واقد الواقدی الاسلمی المدنی ،مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔[35]"معجم الادباء" میں آپ کی 28 تصانیف کے نام ملتے ہیں[36] ۔ان میں "التاریخ والمغازی والمبعث "،"کتاب ازواج النبی ﷺ،"کتاب وفات النبی ﷺ،کتاب السیرۃ "،"التاریخ الکبیر "،"کتاب الطبقات"بہت اہم ہیں ۔ڈاکٹر مارسڈن جونس نے 1924ء میں "کتاب المغازی " کا ایک عمدہ عربی نسخہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن اور 1966ء میں "مؤسسۃ الاعلمی "بیروت سے شائع کیا ۔ علماء کی رائے ہے کہ واقدی﷫ کی واقفیت اور تبحر علمی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مگر اس میں شک نہیں کہ ان کے تفصیلی بیانات سب مشتبہ ہیں۔اور ان میں مبالغہ آمیزی اور داستان سازی نظر آتی ہے[37] ۔
  9. ابن ہشام ؒ (218ھ): آپ کا لقب ابو محمد اور آپ قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کی مشہور زمانہ تصنیف ”سیرۃ رسول اللہ ﷺ “(جو کہ سیرت ابن ہشام کے نام سے مشہورہے )قیامت تک کے لیے دنیا کے افق پر اپنا نام روشن کیے رکھے گی ۔اس کتاب کو یہ شرف حاصل ہےکہ سیرت پر یہ اول کتاب تھی جو اپنی صحیح حالت میں ہم تک پہنچی[38] ۔ ابن ہشام نے علامہ ابن اسحاق کی کتاب جو جس طرح ملخص ومہذب اور محقق اورمنقح انداز میں پیش کیا آپ کا یہ کارنامہ اتنے بلند معیار کا تھا کہ اس نے ابن اسحاق کی اصل کتاب پر خط تنسیخ پھیر دیا ۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ علامہ ابن اسحاق کی سیرت ناپید ہوتی گئی اور ابن ہشام کی تلخیص اور تہذیب ایک شہرہ آفاق تصنیف کی شکل اختیار کر گئی ۔سب سے پہلے اس کتاب کو ایک جرمن مستشرق (ویسٹن فیلڈ)نے گوئٹنگن جرمنی سے 1858ء میں شائع کیا۔اور پھر اس کتاب کے متعدد ترجمے فارسی،انگلش ،فرینچ اور اردو میں کیے گئے ۔ یہاں تک کہ بعض علماء نے سیرت ابن ہشام کو منظوم اندز سے ترتیب دے کر بھی پیش کیا[39]۔
  10. ابن سعدؒ (168-230ھ): ابو عبد اللہ محمد بن سعد الزہری البصری﷫ ۔ آپ محمد بن عمر الواقدی﷫ (207ھ)کے شاگرد تھے ،اس لیے آپ " کاتب الواقدی "کے نام سےمعروف تھے[40] ۔"الطبقات الکبری" ابن سعد کی انتہائی مقبول تصانیف میں سے ہے ۔سب سے پہلے ایک جرمن مستشرق (SACHAU ) نے "الطبقات الکبری" کو مرتب کر کے نہایت اہتمام کے ساتھ لائیڈن سے آٹھ جلدوں میں شائع کیا [41]۔
  11. ابن عائذ الدمشقیؒ(150-233ھ): آپ کا نام محمد بن عائذ القرشی تھا ۔ آپ انتہائی ماہر انشا پرداز،محدث اور مؤرخ تھے ۔آپ "صاحب الفتوح والمغازی والسیر" کے نام سے مشہور تھے [42]۔جناب ابن سید الناس کی کتاب "عیون الاثر "کا سب سے بڑا مصدر وماخذ ابن عائذ دمشقی کی ہی "کتاب المغازی "ہے ۔اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی "الاصابۃ" میں آپ سے منسوب کر کے بے شمار روایات نقل کی ہیں ۔
  12. ابو زرعہ دمشقیؒ (280ھ): آپ کا نام عبد الرحمان بن عمرو تھا ۔آپ کا شمار کبار محدثین میں کیا جاتا ہے ۔آپکی مرتب کردہ "سیرۃ النبی" اور "تاریخ الخفاء الراشدین" نہایت قابل ذکر تصانیف میں سے ہیں ۔جس کے ڈیڑھ سو صفحات استنبول کے کتب خانہ "الفاتح " میں موجود ہیں ۔یہ کتاب 1980 ء میں دمشق سے طبع ہو ئی ہے[43] ۔
  13. ابو سعید عبد الملک النیشاپوریؒ (407ھ): آپ فقہائے شافعیہ کے بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔آپ کی تصانیف "دلائل النبوۃ "اور "شرف المصطفی "نہایت قابل ذکر ہیں ۔"شرف المصطفی "سیرت پر نہایت عمدہ کتاب ہے جوکہ آٹھ مجلدات پر مشتمل ہے[44] ۔اس تصنیف کے قلمی نسخہ جات آج بھی درالکتب الظاہریہ میں موجود ہیں [45]۔
  14. ابن حزم الاندلسیؒ (384-456ھ): علامہ ابن حزم کی "جوامع السیرۃ" سیرت پر انتہائی جامع اور مختصر کتاب ہے جو کہ تقریبا دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔
  15. ابن عبدُ البر ؒ (368-463ھ ): آپ اندلس کے مشہور محدثین میں سے تھے ۔سیرت نبوی پر آپ کی نہایت مشہور ومعروف کتاب "الدر فی اختصار المغازی والسیر"ہے ۔یہ کتاب 1984ء میں بیروت کے دار الکتب العلمیہ سے شائع ہوئی ہے ۔آپ کی یہ تالیف انتہائی مختصر اور جامع ترین ہے ۔
  16. علی بن احمد الواحدیؒ (468ھ ): آپ کی کنیت ابوالحسن نیشابوری تھی ۔آپ شافعی مسلک کے نہایت بلند مفسر ،نحوی ،فقیہ اور مؤرخ تھے۔ آپ کی تصانیف میں سیرت سے متعلق "کتاب تفسیر اسماء النبی ﷺ"،"کتاب الدعوات"اور"کتاب المغازی " شامل ہیں [46]۔
  17. عبد الرحمان بن صقرؒ (454ھ -523ھ): عبد الرحمان بن محمد بن صقر ، ابو زید انصاری اندلس کے بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔سیر ت نبوی ﷺ پر آپ کی دو کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ایک "مختصر السیر والمغازی "اور دوسری "منتخب سیرالمصطفی "ہے [47]۔
  18. عبد الرحمان السہیلیؒ(508ھ-581ھ ): ابو القاسم عبد الرحمان السہیلی چھیویں صدی ہجری کے معروف مؤرخ،محدث اور سیرت نگار گزرے ہیں ۔علامہ سہیلی نے سیرت ابن ہشام کی "الروض الانف" کے نام سے ایک شرح مرتب کی جو نہایت مقبول ہوئی[48] ۔پھر اس کے بعد علامہ مغلطائی (762ھ)نے سیرت ابن ہشام اور الروض الانف کو ملاکر "الزھر الباسم " کے نام سے ایک تالیف کی ۔اس کتاب کی منقطع احادیث کی علامہ ابن حجر عسقلانی نے تخریج کی ہے [49]۔
  19. عبد الرحمان بن حبیشؒ(504ھ-584ھ)عبد الرحمان بن محمد بن عبد اللہ الانصاری الاندلسی ،ابو القاسم بن حبیش ۔آپ حدیث ،قرات ،نحو اور لغت کے ائمہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ابن العماد کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی جلدوں میں "کتاب المغازی "تصنیف کی ہے [50]۔
  20. عبد الغنی المقدسیؒ (541ھ-600ھ)ابو محمد تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی الحنبلی﷫ نے "الدرۃ المضیہ فی السیرۃ النبویہ"کے نام سے ایک کتاب لکھی[51] ۔امام ذہبی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک جلد میں "فضائل خیر البریہ "کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کی[52]۔
  21. ابو الربیع سلیمان الکلاعیؒ(565ھ-634ھ)ابو الربیع سلیمان بن موسی بن سالم الاندلسی الکلاعی﷫ کی تصنیف "الاکتفاء فی مغازی رسو ل اللہ والثلاثۃ الخلفاء " غزوات اور خلفاء راشدین کی جنگوں کے بارے میں ہے یہ کتاب قاہرہ سے 1970 ء میں شائع ہوئی ۔
  22. ابن العربیؒ (560ھ-638ھ)محی الدین محمدبن علی بن محمد بن احمد المعروف بابن عربی ،مشہور فقیہ ،ادیب ،شاعر اور متکلم تھے ۔ سیرت کے موضوع پر ان کی تصنیف "محاضرات الابرارومسامرات الاحیار " بہت مشہور ہے ۔یہ کتاب مصر سے 1973ء میں شائع ہوئی ہے ۔
  23. مجد الدین ابن تیمیہؒ (590-652ھ)مجد الدین عبد السلام بن عبد اللہ بن تیمیہ ﷫نے "المنتقی من اخبار المصطفی ﷺ"کے نا م سے سیرت کے موضوع پر کتاب لکھی ۔یہ 1393ھ بمطابق 1974ء میں دار الفکر بیروت سے دوسری مرتبہ شائع ہوئی ہے ۔
  24. النوویؒ(631ھ-676ھ)ابو زکریا یحیی بن شرف النووی﷫ کی "السیرۃ النبویہ "عبد الرؤف علی اور بسام عبد الوہاب الجابی کی تحقیق سے دار البصائر دمشق سے 1400ھ بمطابق 1980ء میں شائع ہوئی ہے ۔یہ کتاب بھی مختصر ہے اور فہارس سمیت 95 صفحات پر مشتمل ہے ۔
  25. ظہیر الدین گازرونیؒ(611-694ھ)شیخ ظہیر الدین علی بن محمد بن مسعود گازونی نے سیرت پر ایک کتاب لکھی۔ اس کا نام "المنتقی فی سیرۃ المصطفی " ہے[53]۔ اسماعیل پاشا نے اس کتاب کا نام "الذردۃ العلیا فی سیرۃ المصطفی "بتلایا ہے[54] ۔
  26. المحب الطبریؒ (615-694ھ)

محب الدین ابو العباس احمد بن محمد الطبری﷫ نے سیرۃ نبوی ﷺ کی 12 مختلف تصانیف کا خلاصہ تیار کیا[55]۔یہ کتاب خلاصۃ سیر سید البشرکے نام سے معروف ہوئی ۔اور یہ کتاب 1343ھ میں دہلی پرنٹنگ پریس ہندوستان سے طبع ہوئی[56]۔

  1. ابو عمر و عامر بن شراحبیل الشعبیؒ(109ھ)آپ کو فہ کے جلیل القدر تابعی او ر معروف محدث تھے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر﷜ فرماتے تھےکہ گو میں غزوات میں بذات خود شریک تھا مگر شراحبیل مجھ سے زیادہ ان حالات کو جانتے ہیں[57]۔
  2. یعقوب بن عتبہ بن الاخنسؒ(128ھ) آپ فقیہ مدینہ اور سیرت نبوی ﷺ کے عالم تھے[58] ۔
  3. محمد بن عبد الرحمان بن نوفل المدنیؒ (131ھ) آپ کثیر الحدیث تھے ۔محدثین نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے ۔آپ نے ایک تالیف کی جس کا نام "کتاب المغازی " تھا [59]۔
  4. ہشام بن عروہ بن زبیرؒ (146ھ) آپ مدینہ کے مشہور محدث تھے ۔سیرت کے ذخیرہ روایات میں آپ کا بہت بڑا حصہ شامل ہے جن کو وہ اپنے والد کے واسطہ سے حضرت عائشہ ؓسے روایت کرتےتھے[60]۔
  5. ابو محمد عبد الرحمان بن عبد العزیز الاوسی الحنیفیؒ(162ھ) آپ امام زہری﷫کے شاگرد تھے اور فن سیرت کے عالم تھے [61]۔
  6. محمد بن صالح بن دینار التمارؒ (168ھ) آپ عاصم بن عمر بن قتادہ اور امام زہری کے شاگرد تھے اور علامہ واقدی کے استاذ تھے آپ لوگوں کو مغازی کی تعلیم دیتے تھے۔[62]۔
  7. عبد اللہ بن جعفر بن عبد الرحمان المخزومیؒ (170ھ) آپ مدینہ کے علماء مغازی میں سے تھے[63] ۔
  8. علی بن مجاہد بن مسلم الکندیؒ(180ھ) آپ ابو معشر النجیح کے شاگرد تھے ۔آپ نے بھی ایک کتاب سیرت پر تحریرکی جس کا نام "کتاب المغازی "تھا[64]۔
  9. زیاد بن عبد اللہ بن طفیل البکائیؒ(183ھ) آپ ابن اسحاق ﷫کے شاگرد اور ابن ہشام ﷫کے استاذ تھے۔آپ ابن اسحاق کی سیرت کے کتاب کے سب سے معتبر راوی ہیں[65] ۔
  10. سلمہ بن فضل الابرش الانصاریؒ(191ھ) آپ ابن اسحاق کے شاگرد تھے اور آپ بھی صاحب المغازی ہیں آپ نے ابن اسحاق﷫سے "المبتداء والمغازی "روایت کی تھی[66] ۔
  11. ابو سعید یحیی بن سعید القطانؒ(198ھ) آپ کی بھی تصنیف کا نام "کتاب المغازی " ہے[67]۔
  12. یونس بن بکیرؒ(199ھ) آپ کا ذکر علامہ ذہبی نے صاحب المغازی کی حیثیت سے کیا ہے[68] ۔
  13. یعقوب بن ابراہیم بن سعد الزہریؒ(208ھ) آپ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کے استاذ تھے آپ کا شمار بھی سیرت ومغازی کے نامور علماء میں ہوتا ہے [69]۔
  14. ابوبکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الصنعانیؒ(211ھ ) آپ نامور محدث اور فقیہ تھے ۔حدیث میں "الجامع الکبیر "کے نام سے آپ کی معروف کتاب ہے ۔نبی کریم ﷺ کی سیرت کی جمع وتدوین میں آپ کا نام نمایاں ہے [70]۔آپ نے "السنن فی الفقہ "،تفسیر القرآن"اور"کتاب المغازی " بھی تصنیف کی[71] ۔
  15. علی بن محمد المدائنیؒ(225ھ) آپ نے سیرت طیبہ اور اس کے ضمنی موضوعات پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں ۔یا قوت الحموی نے آپ کی کتب کی ایک طویل فہرست تحریر کی ہے ۔ان تصانیف میں ایک کا نام "کتاب المغازی "ہے [72]۔
  16. ابو سعد عبد الرحمان بن الحسن الاصبہانی النیشاپوریؒ(329ھ) آپ حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں آپ نے "شرف المصطفی " کے نام سے سیرت کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی[73]۔
  17. احمد بن فارس بن زکریا اللغویؒ(329ھ) آپ کا شمار نامور فقہاء شافعیہ میں ہوتا ہے آپ نے کتاب "تفسیر اسماء النبی ﷺ"،سیرۃ النبی ﷺ"اور "اخلاق النبی ﷺ "جیسی کتب تصنیف کیں[74] ۔
  18. الدمیاطیؒ(613ھ-705ھ)عبد المؤمن بن خلف الدمیاطی کی تصنیف کا نام "المختصر فی سیرۃ سید البشر"ہے۔اکثر کتابوں میں اس کے حوالے آتے ہیں ۔یہ تقریبا ایک سو صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ کے کتب خانہ میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔[75]
  19. الخلاطیؒ(708ھ)علی بن محمد الحسن الخلاطی الملقب بالقادوسی ۔فقہ حنفی کے مشہور عالم تھے "شرح الھدایہ للمرغینانی "ان کی مشہور کتاب ہے۔انہوں نے سیرت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جو "سیرت مغلطائی " کے نام سے مشہورہے[76] ۔
  20. ابن سید الناسؒ(671ھ-734ھ)سیرت کے موضوع پر ابو الفتح محمد بن محمد بن سید الناس﷫ کی معروف تصنیف کا نام "عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر" ہے ۔مؤلف نے اسے دو جلدوں میں تصنیف کیا ہے ۔یہ کتاب 1356ھ میں مصر سے شائع ہوئی ۔بعد ازاں دار الفکر اور دار الافاق الجدیدہ بیروت سے شائع ہوئی ۔[77]۔
  21. الحلبیؒ (664ھ-741ھ)امام قطب الدین عبد الکریم بن محمد الجماعیلی ،الحلبی ﷫،الحنبلی نے "السیرۃ النبویہ لعبد الغنی المقدسی (600ھ) کی شرح دو جلدوں میں کی اور اس کا نام "المورد العذب الھنی فی الکلام علی سیرۃ عبد الغنی"رکھا[78]۔
  22. علاء الدین البغدادیؒ(678ھ-741ھ)ابو الحسن علی بن محمد بن ابراہیم علاء الدین نے سیرت نبویہ ﷺ پر مطول کتاب مرتب کی[79]۔صاحب معجم المؤلفین نے اس کتاب کو "سیرۃ خیر الخلائق محمد المصطفی سید اھل الصدق والوفاء " کے نام سے موسوم کیا ہے [80]۔
  23. علی بن عثمان الترکمانیؒ(683ھ-750ھ)علی بن عثمان الترکمانی الحنفی۔آپ فقیہ ،محدث ،مفسر ،لغوی ،شاعر اور ادیب کی حیثیت سے مشہور تھے آپ نے سیرت نبوی پر ایک کتاب تصنیف کی [81]۔
  24. الذھبیؒ(673ھ-748ھ)شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد الذھبی کی" کتاب المغازی" معروف ہے جو دراصل ان کی "تاریخ الاسلام " کی پہلی جلد ہے جسے الگ سے شائع کیا گیا ہے ۔
  25. ابن قیم الجوزیہؒ(691ھ-751ھ)علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم الجوزیہ کی کتاب "زاد المعاد فی ھدی خیر العباد" چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب سیرت بالخصوص اخلاق نبوی کے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ قابل قدر کتاب اپنی افادیت کی وجہ سے کئی بار چھپ چکی ہے ۔
  26. ابن کثیر ؒ(701ھ-774)نام عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی آپ نے موضوع سیرت پر دو کتابیں مرتب کیں" السیرۃ النبویۃ "اور "الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول "جو موضوع سیرت میں بلند مقام رکھتی ہیں۔[82]
  27. مغلطائیؒ(762ھ)ابو عبد اللہ علاء الدین مغلطائی﷫ نے "الزھر الباسم فی سیرۃ ابی القاسم " کے نام سے سیرت نبوی پر ایک کتاب لکھی [83]۔اس کا قلمی نسخہ لیڈن کی لائبریری میں موجود ہے ۔علامہ مغلطائی نے "الزھر الباسم "کو مختصر کر کے اس کے ساتھ خلفاء کی تاریخ شامل کی اور اس کتاب کو "الاشارہ الی سیرۃ المصطفی وآثار من بعدہ الخلفاء " کے نام سے موسوم کیا [84]۔
  28. ابن نقاشؒ(725ھ-763ھ)ابو امامہ محمد بن علی بن عبد الواحد بن یحیی الدکالی المصری﷫ ۔آپ فقیہ ،واعظ ،نحوی او ر شاعر تھے اور متعدد علوم پر ید طولی رکھتے تھے [85]۔انہوں نے بھی "سیرت نبویﷺ"تالیف کی [86]۔
  29. ابن جماعہؒ (719ھ-766ھ)قاضی القضاۃ عز الدین عبد العزیزبن محمد بن ابراہیم بن جماعہ الکنانی الشافعی﷫ نے سیرت پر مختصر کتاب لکھی[87]۔
  30. ابو جعفر الرعینیؒ (779ھ)ابو جعفر احمد بن یوسف بن مالک الرعینی الغرناطی الاندلسی۔ ابو جعفر الرعینی نے اپنے رفیق ابن جابرکی تصنیف "الحلۃ السیراء فی مدح خیر الوری "کی شرح کی اور اسے "طراز الحلۃ وشفاء الغلۃ"کے نام سے موسوم کیا[88]۔صلاح الدین المنجد نے ان کی کتاب "السیرۃ والمولد النبوی ﷺ"کا تذکرہ کیا ہے [89]۔
  31. ابن جابر الاندلسیؒ (698ھ-780ھ)محمد بن احمد بن علی بن جابر الاندلسی ۔آ پ شعر وشاعری اور عربیت کے عالم تھے ۔ ابن جابر کی تالیفات میں "العین فی مدح سید الکونین " اور"الحلۃ السیرافی مدح خیرالوری" کا تذکرہ ملتا ہے[90] ۔صلاح الدین منجدنے ان کی کتاب "السیرۃ النبویہ والمولد النبویہ "کا تذکرہ کیا ہے [91]۔
  32. فتح الدین شہیدؒ(728ھ-793ھ)ابو الفتح محمد بن ابراہیم بن محمد فتح الدین بن شہید معروف کا تب ،فن تفسیر کے ماہر،فاضل انشاء پرداز اور شاعر تھے[92]۔سیرت پر ان کی منظوم کتاب "الفتح القریب فی سیرۃ الحبیب "معروف ہیں [93]۔
  33. برہان الدین الحلبیؒ(753ھ-841ھ)ابراہیم بن محمد بن خلیل الطرابلسی ،الحلبی ،ابو الوفاء ،برہان الدین۔آپ علوم حدیث اور رجال کے عالم تھے۔[94] ۔علامہ برہان الدین حلبی نے "نورالنبراس فی شرح سیرۃ ابن سید الناس" کے نام سے "عیون الاثر " کی نہایت محققانہ شرح لکھی ۔یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور مفید معلومات کا ایک خزینہ ہے ۔ندوۃ کےکتب خانہ میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے[95] ۔
  34. تقی الدین المقریزیؒ (766ھ-845ھ)احمد بن علی تقی المقریزی﷫ عظیم مؤرخ تھے ۔قاہرہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی ۔ان کی معروف کتاب "امتاع الاسماع بما للرسول من الابناء والاموال والحفدۃ والمتاع" سیرت نبوی ﷺ کے واقعات پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب 6 جلدوں میں ہے[96] ۔حاجی خلیفہ نے اسے بہت عمدہ تصنیف قرار دیا ہے[97]۔
  35. برہان الدین البقاعیؒ(885ھ)ابراہیم بن عمر بن حسن الرباط بن علی بن ابی بکر البقاعی ،ابو الحسن ،برہان الدین۔آپ عظیم مؤرخ اور ادیب تھے[98] ۔ سیرت پر "جواہر البحار فی نظم سیرۃ المختار" اور "مختصر سیرۃ الرسول وثلاثۃ من الخلفاء الراشدین "انکی اہم تصانیف ہیں [99]۔آخر الذکر کتاب کا ایک قلمی نسخہ رئیس الکتب کتب خانہ میں موجود ہے [100]۔
  36. العامری الحرضیؒ (816ھ-893ھ)ابو زکریا یحیی بن ابی بکر بن محمد بن یحیی العامری ،الحرضی ،الیمانی ،الشافعی۔ آپ یمن کے نامور محدث حافظ اور مؤرخ تھے[101]۔آپ کی سیرت کی کتاب "بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل فی تلخیص المعجزات والسیر والشمائل " کو بہت شہرت ملی ہے ۔یہ متوسط ضخامت کی قابل قدر تصنیف ہے جو سیرت اسماء وصفات اور شمائل وفضائل کے مباحث پر مشتمل ہے۔
  37. ابن المبردؒ (840ھ-909ھ)یوسف بن حسن بن احمد بن حسن الصالحی جمال الدین ابن المبرد۔آپ صالحیہ دمشق میں فقہ حنبلی کے عظیم فقیہ تھے[102] سیرت پر آپ کی "الدرۃ المضیۃ والعروس المرضیۃ فی السیرۃ " ایک مشہور تصنیف ہے[103]۔"العقد التام فیمن زوجۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام "بھی آپ کی تصنیف ہے[104] ۔
  38. جلال الدین السیوطیؒ (849ھ-911ھ): آپ کا نام عبد الرحمان بن ابو بکر جلال الدین اور کنیت ابو الفضل تھی ۔ آپ اپنے زمانے کے نہایت مشہور امام ،مؤرخ ،ادیب ،حافظ اور مصنف تھے ۔"الاعلام " میں علامہ زرکلی نے لکھا ہےکہ جلال الدین سیوطی نے تقریبا چھ سو کتابیں تصنیف کیں ۔[105] اور ان میں سے سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر آپ کی تالیف"الخصائص الکبری" نہایت مشہور ومقبول ہے ۔
  39. ابن الوزیر الحنفی ؒ (844ھ-920ھ): آپ کا نام عبد الباسط بن خلیل الحنفی تھا۔ اپنے عہد کے نہایت بلند پایہ مفسر ،مؤرخ اور لغوی تھے ۔ سیرت نبویﷺ پر آپ کی "غایۃ السول فی سیرۃ الرسول " نہایت شاندار تصنیف ہے[106] ۔
  40. شہاب الدین القسطلانی (851ھ-923ھ): علامہ قسطلانی نے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں وفات پائی ۔آپ مصر کے بلند پایہ محدثین ،فقہاء ،اور مصنفین کے فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں[107] ۔سیرت نبویہ پر آپ کی تصنیف "المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ فی السیرۃ النبویۃ"ہے ۔[108]اردو میں دو جلدوں میں "سیرۃ محمدیۃ "کے نام سے عبد الجبار خان نظامی نے اس کا بہترین ترجمہ کر کے اس کو شائع کیا ہے [109]۔
  41. شمس الدین محمدؒ (942ھ): آپ شافعی مسلک کے نہایت معروف محدث،مؤرخ اور سیرت نگار تھے [110]۔آپ کی نہایت مقبول تصنیف "سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد " ہے جو کہ آپ کے نسبت سے بھی مشہورہے یعنی "السیرۃ الشامیۃ "سے[111] ۔متاخرین سیرت نگاروں میں آپ کی یہ کتاب نہایت مبسوط اور مرتب کتاب شمار کی جاتی ہے۔
  42. ابن الدیبع الزبیدیؒ(866ھ-944ھ): عبد الرحمان بن علی بن محمد الشیبانی عرب کے جنوب علاقہ کے نہایت عمدہ مؤرخین میں سے تھے ۔[112]سیرت طیبہ کے موضوع پر آپ نے "حدائق الانوار ومطالعۃ الاسرار فی سیرت النبی المختار" کے نام سے موسوم کر کے ایک کتاب تالیف کی جو کہ بہت مشہور ہوئی[113] ۔
  43. المناویؒ(952ھ-1031ھ): آپ کا نام عبد الرؤف بن زین الدین حداوی المناوی تھا ۔آپ نے اپنے زمانے میں نہایت قابل قدر مشائخ سے علم حدیث حاصل کیا اور بہت سے علوم اور معارف کوجمع کیا[114]۔عبدالرؤف المناوی نے مشہور محدث زین الدین العراقی کی منظوم سیرت طیبہ "الدرر السنیۃ " پر بسیط شرح مرتب کی ۔اس کے بعد آپ نے اس شرح کی مزید تلخیص کر کے اس کو "الفتوحات السبحانیۃ فی شرح نظم الدرر السنیۃ للعراقی " کے نام سے موسوم کیااور آپ کی یہ تصنیف بھی طبع شدہ ہے[115] ۔سیرت نبویہ پر آپ نے "الروض الباسم فی شمائل المصطفی ابی القاسم " کے نام سے ایک تصنیف بھی مرتب کی ہے[116] ۔
  44. نور الدین الحلبیؒ(975ھ-1044ھ): آپ کا نام علی ابن ابراہیم بن احمد برہان الدین حلبی تھا ۔آپ مسلک شافعی سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نحوی ،لغوی ،اصولی ،فقیہ ،مؤرخ اور صوفی تھے[117] ۔ آپ کی تصنیف"انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون " بہت معروف ہے ۔یہ کتاب دو معروف کتابوں یعنی "عیون الاثر فی فنون المغازی والسیر" اور" سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد" کی تلخیص ہے ۔اور ان کتب میں آپ نے متعدد اور قابل مفید اضافے کیے ہیں [118]۔
  45. الزرقانیؒ ( 1055ھ- 1122ھ): آپ کا نام محمد ابن عبد الباوی بن یوسف زرقانی المالکی تھا۔اپنے عہد کے عمدہ علماء میں سے تھے ۔ آپ کو حدیث ،فقہ اور اصول میں کمال مہارت تھی[119] ۔ علامہ زرقانی ﷫کی شرح "المواھب اللدنیۃ "[120] سیرت طیبہ پر نایاب علوم کا بیش بہا خزانہ ہے ۔ سیرت نبویہ پر علامہ عبد الرحمان سہیلی کی تصنیف الروض الانف " کے بعد آپ کی کتاب سب سے زیادہ مستند،جامع اور محققانہ تصانیف میں سے ہے۔

خلا صۃ البحث

سیرت نگاری کے فن کو ابتدا ٗ سےاسلامی دنیا میں اہم مقام حاصل ہےیہی تو ایک وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پیارے نبیﷺ کے ہر قول ،فعل کو محفوظ رکھنے کے لئے حدیث کے فن کو عروج پر پہنچایا اور محمدﷺ کےہر ایک سنت کونہ صرف عملی طور پر بلکہ کتابی صورت میں بھی محفوظ کیا اسی طرح آپﷺ کی سیرت کو محفوظ رکھنے کے لئے سیرت نگاری کے فن کوکمال بخشا تاکہ نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو محفوظ رکھا جائےاور ان فنون کو باقاعدہ طور ایک مستند اندازسے نہ صرف شروع کیا گیا بلکہ ایک مستند طریقہ کار سے ان فنون کو کما ل تک پہنچایاجوموجودہ دور میں ان مستشرقین کو جو حضرت محمدﷺ کی زندگی پر غیر مناسب سوال اُٹھاتے ہیں ان کے لئے نہ صرف واضح چیلنج ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔

 

حوالہ جات

  1. الطبقات الكبرى، ، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)، 5/179،مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة، 1408۔
  2. مغازی رسول اللہ ﷺ،عروہ بن زبیر،مترجم :محمد سعید الرحمان علوی،ص:24-101،ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور،1987ء۔
  3. سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی کتابیں اور ان کے مؤلفین ،جوزف ہوروتس،مترجم:ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، ص:14،ادارہ ادبیات دہلی ،1974ء۔ ۔
  4. Guillaume, A. The Life of Muhammad , Introduction, P:XIV, Oxford University Press, Oxford, 1955.
  5. المعارف، أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)، ص:205،الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، 1992ء۔
  6. Guillaume, A. The Life of Muhammad , Introduction, P:XV.
  7. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn7
  8. تهذيب التهذيب، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)، 4/321، مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند، 1326هـ
  9. الطبقات الكبرى، ، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)، 1/237۔
  10. وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)، 4/177، دار الصاد بیروت ،1398ھ-1978ء۔
  11. الطبقات الكبرى، ، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)، 2/388۔
  12. المغازی النبویۃ،محمد بن مسلم بن شہاب الزہری،ص:37-181،دار الفکر ،دمشق،1981ء۔
  13. تهذيب التهذيب، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)، 5/165۔
  14. سیرت نبوی کی ابتدائی کتابیں اور ان کے مؤلفین ، ڈاکٹرنثار احمدفاروقی ،ص:156۔
  15. سیرۃ النبی ،علامہ شبلی نعمانی ،1/22،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد،1988ء۔
  16. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،8/276، دار العلم للملايين، 2002ء۔
  17. رسول اکرم کے سیرت نگار،ڈاکٹر عنایت اللہ شیخ ،بحوالہ ماہنامہ فکر ونظر ،سیرۃ النبی نمبر،13/42،شمارہ :9،ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد،1976ء۔
  18. سیرت نبوی کی ابتدائی کتابیں اور ان کے مؤلفین ، ڈاکٹرنثار احمدفاروقی ،ص:105۔
  19. وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)،4/276۔
  20. سیرت نبوی کی ابتدائی کتابیں اور ان کے مؤلفین ، ڈاکٹرنثار احمدفاروقی ،ص:109۔
  21. ایضاً، 10/420۔
  22. تاريخ بغداد،أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)،13/427، دار الغرب الإسلامي - بيروت، 1422هـ - 2002 ء۔
  23. تاريخ الطبري ( تاريخ الرسل والملوك)، محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ)، 1/631،دار التراث - بيروت، 1387 هـ۔
  24. ایضاً، 1/170۔
  25. تاريخ الطبري ( تاريخ الرسل والملوك)، محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ)، 3/390۔
  26. الفہرست،ابن ندیم،ص:124۔
  27. مقالہ سیرت نگاران نبوی،شیخ نذیر حسین،بحوالہ ماہنامہ معارف،ص:171۔
  28. تهذيب التهذيب، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)، 1/152۔
  29. تذکرۃ الحفاظ،ابو عبد اللہ محمد بن احمد شمس الدین الذھبی(748ھ)، 1/326۔
  30. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،13/172۔
  31. ھدیۃ العارفین،اسماعیل باشا البغدادی،2/500۔
  32. الا علام،خیر الدین الزرکلی،1/21۔
  33. لسان المیزان، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي، 1/24
  34. مقالہ سیرت نگاران نبوی،شیخ نذیر حسین،بحوالہ ماہنامہ معارف ،ص:174۔
  35. المعارف، أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)،ص:226۔
  36. معجم الادباء،شہاب الدین ابو عبد للہ یاقوت الحموی(626ھ)،18/281-282،مکتبہ عیسی البابی الحلبی،مصر،1355ھ۔
  37. مقدمہ سیرت رسول ،محمد حسین ھیکل ، مترجم:محمد اسماعیل پانی پتی ص:29۔ ۔یہ درست ہے کہ واقدی کی اکثر روایات موضوع ہیں ۔لیکن ان کی تمام روایات کو مسترد نہیں کیا جاسکتاکیونکہ وہ بیشتر متاخرین کا اہم مرجع ہیں ۔( اصح السیر،ابو البرکات دانا پوری،ص:14۔)
  38. وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)، 3/177۔
  39. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 2/102۔ابن تغر بردی کہتےہیں کہ ابن الشھید نے ابن ہشام کی سیرت نبویہ پچاس ہزار ابیات میں نظم کی تھی اور اس پر مزید اضافے کیے تھے ۔( النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، يوسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري الحنفي، أبو المحاسن، جمال الدين (المتوفى: 874هـ)، 12/125 وزارة الثقافة والإرشاد القومي، دار الكتب، مصر)
  40. الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشہور کتب السنۃ المشرفۃ ،محمد بن جعفر الکتانی(1345ھ)،ص:114،نور محمد ،اصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب ،کراچی،1379ھ-1960ء۔
  41. مقالہ طبقات ابن سعد(سیرت نبوی کا قدیم ماخذ ) ،ڈاکٹر نثار احمد ،بحوالہ نقوش رسول نمبر،1/507۔
  42. النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، يوسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري الحنفي، أبو المحاسن، جمال الدين (المتوفى: 874هـ)،2/265۔
  43. مقالہ سیرت نگاران نبوی ،شیخ نذیر حسین،بحوالہ ماہنامہ معارف،ص:182۔
  44. الاعلام ،خیر الدین الزرکلی،4/310۔
  45. معجم ما الف عن رسول اللہﷺ،صلاح الدین المنجد،ص:207۔
  46. شذرات الذھب فی اخبار من ذھب،ابو الفلاح عبد الحیی ابن العماد الحنبلی (1089ھ) ،3/330۔
  47. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،4/103۔
  48. البدایہ والنھایہ ،أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي ، 12/318۔
  49. الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التاریخ ، شمس الدین محمد بن عبد الرحمان السخاوی(902ھ)،ص:188۔
  50. شذرات الذھب فی اخبار من ذھب،ابو الفلاح عبد الحیی ابن العماد الحنبلی (1089ھ) ،4/280۔
  51. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)، 4/160۔
  52. تذکرۃ الحفاظ،ابو عبد اللہ محمد بن احمد شمس الدین الذھبی(748ھ)، 4/137۔
  53. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،7/232۔
  54. ھدیۃ العارفین،اسماعیل باشا البغدادی،1/715۔
  55. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/718۔
  56. معجم ما الف عن رسول اللہ ﷺ،صلاح الدین المنجد،ص:108۔
  57. وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم بن أبي بكر ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)، 3/12-13۔
  58. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 11/392۔
  59. معجم ما الف عن رسول اللہ ﷺ،صلاح الدین المنجد،ص:135۔
  60. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 11/50۔
  61. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 6/220۔
  62. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 9/225۔
  63. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 5/172۔
  64. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 7/378۔
  65. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 3/376۔
  66. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 4/154۔
  67. ھدیۃ العارفین، اسماعیل باشا البغدادی،2/513۔
  68. تذکرۃ الحفاظ،ابو عبد اللہ محمد بن احمد شمس الدین الذھبی(748ھ)، 1/299۔
  69. تہذیب التہذیب، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 11/380۔
  70. الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التاریخ ، شمس الدین محمد بن عبد الرحمان السخاوی(902ھ)،ص:187۔
  71. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالۃ،5/219۔
  72. معجم الأدباء ، شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (المتوفى: 626هـ)، 14/129-131۔/الفھرست،محمد بن اسحاق ابن الندیم (385ھ)،ص:153-154۔
  73. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)، 4/74۔
  74. معجم الأدباء ، شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي الحموي (المتوفى: 626هـ)، 4/80۔
  75. سیرۃ النبی ،علامہ شبلی نعمانی ،1/37۔
  76. معجم المؤلفین ، عمر رضا کحالہ ،7/191۔
  77. سیرۃ النبی ،علامہ شبلی نعمانی،1/38۔
  78. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 2/101۔
  79. الدر الکامنۃ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 3/171۔
  80. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،7/178۔
  81. الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التاریخ ، شمس الدین محمد بن عبد الرحمان السخاوی(902ھ)،ص:191۔
  82. الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التاریخ ، شمس الدین محمد بن عبد الرحمان السخاوی(902ھ)،196-199۔
  83. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/958۔
  84. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/958۔
  85. الدر الکامنۃ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي (852ھ)، 4/191۔
  86. الاعلان بالتوبیخ لمن ذم اھل التاریخ ، شمس الدین محمد بن عبد الرحمان السخاوی(902ھ)،ص:191۔
  87. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 2/101۔
  88. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،2/213۔
  89. معجم ما الف عن رسول اللہ ﷺ،صلاح الدین المنجد،ص:117۔
  90. ایضاً، ص:321۔
  91. ایضاً، ص:117۔
  92. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)، 6/190۔
  93. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 2/101۔
  94. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،1/22۔
  95. سیرت النبی ،علامہ شبلی نعمانی،1/38۔
  96. 1941ء میں محمود شاکر کی تحقیق سے شائع ہوئی۔
  97. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/166۔
  98. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)، 1/50۔
  99. تاریخ آداب الللغۃ العربیۃ،جرجی زیدان،3/168۔
  100. مقالہ سیرت کی چھیالیس مطبوعہ اور قلمی کتابیں ،مولانا اجمل اصلاحی ،بحوالہ نقوش رسول نمبر،9/98۔
  101. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالۃ،13/187۔
  102. الاعلام،خیر الدین الزرکلی ،9/299۔
  103. 1219ھ میں بمبئی سے شائع ہو چکی ہے۔
  104. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،9/299۔
  105. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،4/71۔
  106. 1328ھ میں ترکی سے شائع ہو چکی ہے۔
  107. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،1/22۔
  108. مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،1416ھ-1996ء۔
  109. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 2/189۔
  110. شذرات الذھب فی اخبار من ذھب،ابو الفلاح عبد الحیی ابن العماد الحنبلی (1089ھ) ،8/250۔
  111. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،8/30۔
  112. الأعلام، خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ)،4/91۔
  113. مطبوعہ مطابع قطر الوطنیۃ،1982ء۔
  114. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،5/220۔
  115. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/747۔
  116. معجم المطبوعات العربیۃ والمعربۃ،یوسف الیان،2/179۔
  117. معجم المؤلفین ،عمر رضا کحالہ،3/7۔
  118. کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي القسطنطيني المشهور باسم حاجي خليفة أو الحاج خليفة (المتوفى: 1067هـ)، 1/180۔
  119. معجم المؤلفین ، کحالہ،1/124۔
  120. یہ شہاب الدین القسطلانی (923ھ) کی نامور تالیف "المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیہ " کی شرح ہے ۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...