Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 2 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی کے تفسیری آراء کی روشنی میں اسلام کے عادلانہ نظام کا تحقیقی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060029336_1268

Pages

47-69

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/95/85

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/95

Subjects

Qur’an Sunnah Judicial System Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ ایک مسلمہ حقیقیت ہے کہ اسلام ایک عالمگیر دین اور مکمل و جامع ضابطہ حیات ہے۔ اس کی عالمگریت بھی قرآن سے ثا بت ہے اور جامعیت بھی۔قرآن کریم اسلام کی عالمگیریت ثابت کرتا ہے تو ادیان عالم پر اس کے غالب ہونے کی صورت میں۔ارشاد ہے:

هوالذی ارسل رسوله بالهدی ودین الحق لیظهره علی الدین کلهه ولوکره المشرکون(1)

"وہی تو ہے جس نےاپنا رسول ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کرےاگرچہ مشرکوں کو ناگوار گزرے"۔

آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دینِ محمدی ﷺ باقی تمام ادیان پر عالی اور غالب ہوگا۔ خواہ وہ غلبہ دلیل، حجت اور برہان کےذریعے ہو یا سلطنت و ریاست کے ذریعے سےاور جب اسلام کی جامعیت ثابت کرتا ہے تو اِکمال دین کے تذکرے سے ۔ارشاد ہے:

الیوم اکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(2)

"آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی (کل) نعمت پوری کردی اور میں نے تمھارے لئے مذہب اسلام کو پسند کیا"۔

علامہ زحیلی ؒ  اِکمال کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

والمراد بالا کمال: اتمامه فی نفسه وفی ظهوره اما اتمامه فی نفسه فباشتماله علی الفرائض والحلال والحرام والتضیص علی اصول العقائد...الخ، واما اتمامه فی ظهوره فباعلا وکلمته وتفوقه علی کل الادیان و تفوقه مع المصالح العامة(3)

"اکمال سے مراد فی نفسہ اور فی ظھورہ اتمام ہے۔فی نفسہ اتمام اس کا فرائض،حلال،حرام اور عقائد کے اصول کے صراحت  پر مشتمل ہونا ہے اور فی ظھورہ اتمام اس کے کلمے کی بلندی باقی ادیان پر غلبے اور عام مصلحتوں کے ساتھ موافقت ہے"۔

مختصر یہ کہ مذکورہ دونوں آیتیں صراحت کے ساتھ اسلام کی عالمگیریت اور جامعیت پر دلالت کرتی ہیں

کیونکہ جو دین ادیانِ عالم پر غالب ہوگا وہ عالمگیر ہوگا اور جو دین کامل و مکمل ہوگا،وہ جامع ہوگا۔

اسلام کی عالمگیریت اور جامعیت کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس کے بغیر کسی دوسرے دین کی پیروی کی

جائے۔ نہ بطورِ دین اسے اپنایا جائے اور نہ ہی اسے قبول کیا جائے۔قرآن کریم نے اس عقلی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اعلان کردیا۔ومن یبتغ غیر الاسلام دینا(4)

"اور کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ (شخص) آخرت میں خسارہ (نقصان) میں رہے گا"۔

           اسلام کی عالمگیریت اور جامعیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ انسانی فلاح اور کامیابی و کامرانی کا ضامن مذہب ہے۔اس نے انسانی رہنمائی کے لئے  جو اصول وضع کئے ہیں وہ لازوال ہیں اور زندگی گزارنے  کے جو نظام مرتب کئے ہیں، وہ بے مثال ہیں۔ نظام ہائے زندگی کے اس سلسلے کی ایک کڑی "نظامِ عدل"ہے۔عدالت اسلام کی لطیف و خصوصیات میں سےہے۔اسی بنا پر قرآن کریم نےاس کو "اقرب الی التقویٰ" (تقوی کے قریب تر) ہونے کا اعزاز بخشا۔اعدلو هو اقرب للتقویٰ(5)

"عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقوی سے"۔

تقوی کے حصول کے اسباب قریبہ و بعیدہ تو بہت سے ہیں لیکن آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل دوست ودشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذباتِ محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا، یہ قریب ترین اسباب میں سے ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے چھبیس بار عدل کا تذکرہ کیا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے صفات کمال میں سے بھی ایک صفت عدل ہے اور جو چیز اس کی ذات واجب الوجود سے صادر ہےوہ حق اور عدل ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وتمت کلمة ربک صدقا و عدلا لامبدل لکلامته وهو السمیع العلیم(6)

"اور جب آپ کے  رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوگئیں، کوئی بھی اس کے بات کا بدلنے والا نہیں اور وہی (ہر ایک کی) سنتا (اور سب کی جانتا) ہے"۔

عدل کا معنی:

           عدل کے معنی کی تعیین سے پہلے اس کی حیثیت کا متعین کرنا ضروری ہے۔ اس لئے کہ عدل کی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر حیثیت کے اعتبار سے اس کا معنی مختلف ہے۔ ایک حیثیت کے اعتبار سے یہ  ظلم کے مقابلے میں آتا ہے اور ایک حیثیت کےاعتبار سے فسق و فجور کے مقابلے میں آتا ہے۔ جب ظلم کے مقابلے میں ہو تو اس کا معنی ‘‘انصاف’’ کا ہوتا ہے اور جب فسق و فجور کے مقابلے میں ہو تو تقویٰ کامعنی دیتا ہے۔ یہاں اس سے مراد ‘‘انصاف’’ ہے جو کہ ظلم کے مقابلے میں ہے۔

عدل کا معنی بیان کرنے میں اہل علم کے  عبارات، ان کی تعبیرات اور ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن مآل سب

کا ایک ہے۔ذیل میں چند ایک تعریفات کو ذکر کیا جاتا ہے۔

علامہ ابن ھمامؒ کی عبارت عدل کا معنی بیان کرنے میں اس طرح ہے۔

العدل بذل الحقوق الواجبة و تسویة المستحقین فی حقوقهم(7)

"عدل حقوق واجبہ کے ادا کرنے اور مستحقین (حقداروں) کو ان کے حقوق میں برابری دینے کا نام ہے"۔

علامہ سید سند ؒکی تعبیر اس طرح ہے۔

العدل الامر المتوسط بین طرفی الافراط والتفریط(8)

"عدل کمی اور زیادتی کے درمیانی درجے اور مرتبے کا نام ہے"۔جب کہ علامہ ملوحی ؒ کے الفاظ عدل کی تعریف میں یوں ہیں: هو ان تعطی من نفسک الواجب وتاخذه(9)

"دوسروں کے حقوق کا اپنی طرف سے ادا کرنا اور (دوسروں سے) اپنے حقوق لینا عدل کہلاتا ہے"۔

الفاظ کتنے  مختلف ہی کیوں نہ ہوں حاصل سب کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ "کسی شخص کےساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے،عدل ہے۔

اقسام عدل:

           انسانی زندگی کا مطالعہ اس بات کو روزِ روشن کی طرح نمایاں کردیتی ہے کہ یہ (انسانی زندگی) اپنی وسعت کی بنا پر کئی ایک پہلوؤں کے ساتھ متعلق ہونے والا عدل بھی متنوع اور مختلف ہوگا۔ اس تنوع اور اختلاف کے نتیجے میں بنیادی طورپر عدل کی دو اقسام حاصل ہوتی ہیں۔ انفرادی عدل اور اجتماعی عدل۔ لیکن ان کی ذیلی اقسام زیادہ ہیں جیسے معاشی عدل، سیاسی عدل و قانونی عدل وغیرہ۔

قرآن کریم نے عدل کے ان تمام اقسام کا احاطہ کیا ہےلہٰذا قرآن کریم ہی کی تعلیمات کے تناظر میں اسلام کے عادلانہ نظام کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام نے انسانیت کوعدل کا جو درس دیا ہے اور عدل کا جو

نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کی نظیر نہیں۔

انفرادی عدل:

           انفرادی عدل خاص فرد یا شخص کی صفت ہے۔ معاشرے میں رہنے والا کوئی انسان دو حال سے خالی نہیں، یا اس پر کسی کا حق ہوتا ہے یا اس کا کسی پر حق ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اعتدال کا دامن تھامنا، "انفرادی عمل" ہے۔

اسلام نے انفرادی عدل کا درس دینے میں منفرد طرزِ عمل اختیار کیا ہے اور انسان کو ان عوامل سے بچنے کی تلقین کی ہے جو انفرادی  عمل روکنے میں عدم توازن پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جیسے حُبّ مال اور حُبِ ذات انسان کے انفرادی روئیے پر اثر انداز ہونے والے اہم عناصر ہیں۔ ان دونوں کے باعث وہ متوازن طرزِ عمل سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہو کر ظلم و زیادتی کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے نتائج   بڑے

بڑ ے اجتماعی خطرات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسلام نے انسان کی انفرادی رویے  کو درجہ اعتدال پر لانے کے لئے حبّ ذات کی مذمت اور حبّ مال کے مفسدات بیان کئے تاکہ ان سے اجتناب کرکے انفرادی عدل کا حامل انسان بن جائے۔

حُبّ ذات سے بچنے کے لئے اس کو اپنی حقیقت بتلائی کہ:

ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا(10)

"اور زمین پر اکڑتا ہوا نہ چلنا کیونکہ نہ تو زمین کو پھاڑہی ڈالے گا اور نہ ہی بلندی میں پہاڑوں کو پہنچے گا"۔

آیت کریمہ نے انسان کو متکبر انہ چال چلنے سے منع کیا ہے کہ متکبرانہ چال چلنا آپ کو زیبا نہیں۔ اس لئے کہ نہ تو تو اس حیثیت کا مالک ہے کہ اترا کر چلنے سےزمین کو پھاڑ دے اور نہ ہی اس حیثیت کا مالک ہے کہ گردن ابھار کر اور سینہ تھان کر اونچا چلنے سے پہاڑوں کے برابر ہوجائے۔ لہٰذا اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے آپ میں گھمنڈ کی بجائے خشوع پیدا کرنی چاہئے تاکہ آپ کی یہ گھمنڈ اور تکبر دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے۔

حُبّ مال سے بچنے کے لئے اس کے مفاسد کو بیان کیا۔

واما من بخل واستغنی وکذب بالحسنی فسنیسره للعسری ولا یغنی عنه ماله اذا تردی(11)

"اور جس نے کنجوسی کی اور (آخرت) کی پروانہ کی اور نیک بات کو جھٹلایا تو اس کے لئے ہم جہنم کی راہیں

آسان کردیں گے اور اس کا مال اس کے کچھ کام بھی نہ آئے گا جب کہ وہ گڑھے میں پڑے گا۔

آیت کریمہ میں حُبّ مال کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں بخل کا تذکرہ ہے اور بُخل حبّ مال کا نتیجہ

ہے اور نقصان اس کا یہ ہے کہ اس سے دل  سخت ہو جاتا ہے اور نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے جیسا کہ علامہ زحیلیؒ نے اس کی وضاحت کی ہے۔

من فن بما عنده فلم یبذل خیراً وکذالک تبعیض الله تعالی؛ فالله تعالی یسهل طریقة الشر

ویعصر علیه اسباب الخیر والصلاح حتی یسهل فعلها(12)

"جس کے پاس کوئی چیز(مال وغیرہ) ہے اور اس نے اس پر بخل کیا اور خیر کے کاموں میں صرف نہ کیا اس طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں میں سے،تواللہ تعالیٰ اس کے لئے شر کا راستہ آسان فرمائے گا اور خیر و صلاح کے اسباب اس کے لئے مشکل کر دئے جائیں گے یہاں تک کہ ان کا کرنا اس کے لئے آسان ہوجائے گا"۔

جب شر کے راستے اس کے لئے آسان کر دئے جائیں اور خیر کے راستے مشکل تو انسان آہستہ آہستہ عذاب الٰہی کے انتہائی سختی میں پہنچ جائے گا اور پھر اس کو اس کا یہ مال کچھ فائدہ نہیں دے گا۔جیسا کہ علامہ زحیلیؒ کی اس عبارت سے واضح ہے۔

ولایغید هذا البخیل ماله اذا مات او صار فی القبر اوسقط فی جهنم(13)

"تو اس بخیل کواس کا مال (کچھ) فائدہ نہیں دے گا جب وہ مر جائے یا قبر میں رکھا جائے یا جہنم میں چلا جائے"۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیات کریمہ اور ان جیسی دوسری آیات مبارکہ میں حُبِ مال سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے  جو انسانی زندگی میں اعتدال کی بجائے ظلم اور توازن کی بجائے عدم توازن پیدا کرتی ہے۔نتیجۃً وہ انسان انسانیت کے تمام حدود پار کر کے ظلم و جبر کا دوسرا نام بن جاتا ہے۔

قرآن کریم نے دفعِ مضرت کے ساتھ جلبِ منفعت کے پہلو کو بھی ذکر کیا اور عدل کو مومنین کی صفت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وممن خلقنا امة یهدون باالحق وبه یعدلون(14)

"اور ہماری مخلوقات میں سے ایک ایسا بھی گروہ ہے کہ جو حق  کی رہنمائی کرتا اور حق سے انصاف کرتا

ہے"۔اس گروہ اور جماعت سے کون مراد ہیں، علامہ زحیلیؒ اس کی یقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

من بعض الامم امة قائمة باالحق قولاً وعملاً، یرشدون الناس ویدعونهم الیه ویعملون باالحق ویقضون باالعدل دون میلٍ ولا جورٍ وهم امة محمد ﷺ بدلیل ماجا فی الاحادیث الکثیرة منها ما رواه الشیخان فی الصحیصح عن معاویه بن ابی سفیان قال: قال رسول الله ﷺ لاتزال طائفة من امتی ظاهرین علی الحق لا یضرهم من خذلهم ولا من خالفهم متی تقوم الساعة

وفی روایة متی یاتی امر الله وهم علی ذلک(15)

"بعض جماعتوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو حق پر قولاً و عملاً قائم رہتی ہے اس (حق) کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے اور ان کو دعوت دیتی ہے اور حق پر عمل کرتے ہیں، اور انصاف سے فیصلے کرتے ہیں بغیر ظلم اور جور کے اور یہ جماعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور اس پرکثرت سے احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں،جن میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے شیخین  نے صحیحین میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے؛ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی جو حق بات پر قائم ہوگی،نہ ملامت کرنے والوں کی  ملامت ان کو نقصان پہنچا سکے گی اور نہ مخالفت کرنے والوں کی مخالفت، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اور ایک روایت میں ہے: یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے"۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس آیت کریمہ میں مُھتدین (ہدایت پانے والا)مومنین کی صفت بیان کرنے میں ہے جیسا کہ علامہ زحیلیؒ  نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔

اخبر الله فی هذه الایات عن امة الدعوة المحمدیة وجعلهم کغیرهم من اقوام الانبیاء فریقین:فریق المومنین المهتدین وفریق الضالین المکذبین اما المهتدون فوصفهم الله بانهم یرشدون الناس الی الحق ویقضون باالحق والعدل......(16)

"ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبھاالصلواۃ والسلام کی خبر دی  ہے اور دوسرے انبیا علیہم السلام کے امتوں کی طرح ان کے بھی دو فریق بنائے ہیں ایک مومنین مھتدین اور ایک گمراہ (اور) جھوٹے،جوہدایت یافتہ  ہیں،ان کی صفت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ وہ لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور حق اور انصاف کےساتھ فیصلے کرتے ہیں"۔

بالکل اسی جیسا مضمون اسی سورۃ میں حضرت موسٰی علیہم السلام کے قوم کے بارے میں بھی نازل ہواہے۔

ومن قوم موسٰی امة یهدون بالحق وبه یعدلون(17)

"اور موسٰی علیہم السلام کے قوم میں ایک گروہ ہے  جو حق کی راہنمائی کرتا اور حق سے انصاف کرتا ہے"۔

حاصل یہ کہ مذکورہ دونوں آیتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ عدل مومن کی صفت ہے اور ایک کامل مسلمان کے لئے صفتِ عدل سے متصف ہونا ضروری ہے۔مذکورہ دونوں آیتوں کے خلاصہ کے طور پر علامہ زحیلیؒ لکھتے ہیں:

انها شهادة عظیمة من الله تعالي لجماعة من بنی اسرائیل انهم التزموا الحق والعدل فی انفسهم ومع غیرهم فامنو بالنبی موسٰی علیهم السلام وعن بعده من الانبیا وقضو بین الناس بالعدل و دعوا لناس الهدایة بالحق(18)

"یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے لئے بڑی گواہی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کے ساتھ اور دوسرے کے ساتھ حق اور عدل و انصاف کو لازم رکھا پس اپنے نبی حضرت موسٰی علیہم السلام پر ایمان لائے اور بعد میں آنے والے انبیا پر بھی ایمان لائےاور لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کیا اور لوگوں کو حق طریقے سے ہدایت کی طرف دعوت دی"۔

مزید لکھتے ہیں:

وهذه المزیة ایضاً قائمة فی امة النبی صلی الله علیه وسلم فقد انزل الله علی نبیه محمد ﷺ لیلة الاسرا بعد رجوعه الی الدنیا. وممن خلقنا امة یهدون بالحق وبه یعدلون. یعنی امة محمد ﷺ(19)

"اور یہی فضیلت امۃ محمدیہ ﷺ میں بھی اس طرح قائم ہے،اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں جناب نبی کریم ﷺ کی دنیا کو واپسی کے بعد وممن خلقنا امة یهدون بالحق وبه یعدلون نازل فرمائی یعنی امت محمدﷺ۔

خلاصہ کلام یہ کہ عدل مومن کی صفت ہے اور مومن کااس سے متصف ہونا ضروری بھی ہے۔اس لئے کہ فرد کی عدل (انفرادی عدل) اجتماعی عدل کے لئے اساس اور بنیاد ہےاور اسی اساسیت کی بنا پر فرد کی زندگی کے لئے "عدل" اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ معاشرے کی اجتماعی وجود کے لئے۔

اجتماعی عدل:

اسلام اپنے طرزِ دعوت اور اندازِ درس میں کبھی" دفعہ مضرت" (نقصان یا نقصان دہ چیزوں کا دفع کرنا) کا  پہلو اجاگر کرتا ہے اور کبھی "جلبِ منفعت"(نفع کمانے اور کھینچنے) کا اور کبھی دونوں پہلوؤں کا ساتھ ساتھ ذکر ہوتا ہے۔اسلام جب اجتماعی عدل کا درس دیتا ہے تو دفع مضرت کا پہلو زیادہ اجاگر کرتا ہے۔

انسان کے اجتماعی زندگی میں نا انصافی کے ظہور کا منشا معاشرتی امتیازات کا ظہور ہے۔ معاشرے کے افراد جب طبقاتی تقسیم کا شکار  ہوجاتے ہیں تو معاشرہ تباہی  کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔اجتماعی عدل ختم ہوجاتا ہے اور ظلم و نا انصافی کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔لہٰذا اسلام نے سب سے پہلے ان  معاشرتی امتیازات کا قلع قمع کردیا اور معاشرتی مساوات کا درس دے کر ظلم کی جڑ کاٹ دی تاکہ اجتماعی عدل پروان چڑھ سکے۔ چنانچہ فرمایا:

یا ایها الناس اتقو ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منها رجالاً کثیرا ونساءً(20)

"لوگوں!تم اپنے رب سے ڈرتے رہو کہ جس نے تم کو ایک شخص (جان) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کیا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں"۔

آیت کریمہ میں انسانی اصلیت کی وحدت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان انسانی حدود کا التزام کرے اور طبقاتی تقسیم کا شکار نہ ہوجائے اور ایک دوسرے کو بھائی کی نظر سے دیکھ کر ظلم وانصاف سے دور رہے، جیسا کہ علامہ زحیلیؒ نے فرمایا ہے:

کون البشر من اصل واحد ومنشا واحد، ابوهم آدم و آدم من تراب، فهی النفس الواحدة، ووحدتها تقتضی جعل الاسرة الانسانیة متراحمة متعاونة متحابة غیر متعادیة ولا متخاصمة ولا متقاطعة(21)

"(آیت کریمہ)انسانی اصل ومنشا کے ایک ہونے پردلالت کرتی ہے، ان کا باپ آدم ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے(پیدا کیا گیا)تھا۔پس یہ ایک نفس ہےاور اس نفس کی وحدت آپس میں رحم کرنے،تعاون کرنے اور محبت کرنے کا تقاضا کرتی ہے نہ  کہ ایک دوسرے سے دشمنی ،لڑائی اور مقاطعت(تعلق توڑنے)کی"۔

اسی طرح کا مضمون دوسری جگہ مزید وضاحت کے ساتھ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

یایها الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم(22)

"لوگوں ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے جدا جدا خاندان اور

قومیں (جو) بنائی ہیں تو باہم شناخت کے لئے  (نہ کہ تکبر کے لئے)۔ بےشک عزت دار تو اللہ تعالیٰ کے

نزدیک تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے"۔

اس آیت کریمہ میں تین چیزوں کا بیان ہوا ہے۔  (1) مساوات(2) انسانی معاشرت تعارف(3) فضیلت کا معیار تقویٰ میں۔یایها الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی  میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ تمہاری اصلیت ایک ہے، تم سب ایک ماں باپ سے پیدا کیے گئے ہو لہٰذا تم سب برابر ہو اور جب تمہاری اصلیت ایک ہوئی تو پھر حسب و نسب کی گنجائش کہا ں رہی۔" وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا"سے قبائل، اقوام اور خاندانوں میں انسانیت کی تقسیم کا فلفسہ بیان کیا ہے کہ تمہاری یہ تقسیم قبائل،اقوام اور خاندانوں میں تعارف کے لئے ہے  نہ کہ تفاخر و تکبر کے لئے ۔ جب کہ " ان اکرمکم عند الله اتقاکم " سے فضیلت کے معیار کو مقرر کیا گیا ہے کہ فضیلت کا معیار تقوی ہے نہ کہ حسب و نسب یا دوسری کوئی چیز ۔

مختصر یہ کہ اسلام نے ذات پات اور اونچ نیچ کے امتیازات کا قلع قمع کرکے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسانی مساوات کی وہ نظیر اور "ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے محمود و ایاز" کی وہ عملی تصویر پیش کی،جس سے مذاہب عالم عاری ہیں۔ اس انسانی مساوات کے تناظر میں جس اجتماعی عدل کا قیام عمل میں آیا۔دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔دنیا اس عدل کا تصور بھی نہیں کر سکتی جس کی ایک جھلک لِسان نبوت سے ان الفاظ میں نمودار ہوئی۔

من قتل عبده قتلناه ومن جدع عبده جدعناه(23)

"جس نے اپنا غلام قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا کو ئی عضو کاٹا ہم اس کا عضو کاٹیں گے"۔

انسانیت کی اس مساوات کو اگر ہم "اجتماعی  عدل " کہیں تو بجاہوگا اس لئے کہ اجتماعی ظلم اور نا انصافی کی جڑیں یہیں سے کٹ جاتی ہیں ۔

انفرادی اور اجتماعی عدل  کے بعد ان کے ذیلی اقسام پر بحث ضروری ہے  جس سے ان کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔

1۔ معاشی عدل

مستحکم اجتماعی عدل کے تحت مختلف پہلو آتے ہیں جن میں ایک پہلو معاشی عدل کا ہے جس کو حیات انسانی میں توازن بر قرار رکھنے    اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔بخل ، احتکار اور اسراف و تبذیر غیرہ وہ امور ہیں جو معاشی زندگی میں ظلم کا دروازہ کھولتی ہیں ۔ قرآن کریم نے ان چیزوں سے بچنے اور معاشی عدل کے قیام کے لئے  مختلف اسلوب اختیار کئے ہیں ۔ کھبی انفاق فی  سبیل اللہ کی فضیلت بیان کر کے بخل سے بچنے اور ایثار کی طرف مائل ہونے کا درس دیا ہے اور کھبی اسراف و تبذیر کی مذمت

بیان کرکے بے جا مال اڑانے سے منع کیا ہے  ۔

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت مثال  کے ذریعے بیان کی ۔

مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل الله کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مأة حبة والله یضعف لمن یشاء(24)

"مثال ان لوگوں کی جو اپنے مال خداکی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جو سات بالیں نکالے اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ   تعالیٰ جس کے لئے  چاہتاہے دو چند کر دیتا ہے "۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کے ثواب کو دوچند کرنے کی مثالی و ضاحت بیان فرمائی ہے اور مثال کے ذریعے اپنی راہ میں خرچ کی شرافت اور اس پر ابھارنے کا درس دیا ہے جیساکہ آیت کے ذیل میں علاقہ زحیلی نے اس کی و ضاحت کی ہے ۔

تضمنت الاٰية بیان مثال لشرف النفقة فی سبیل الله والتحريض و الحث علی الانفاق فی سبیل الله(25)

"آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر نے کی شرافت اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے پر ابھارنے کی مثال بیان کرنے کو متضمن ہے "۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان کرنے سے بخل سے بچاؤ اور ایثار کا جذبہ بیدار ہوگا تو معاشی عدل کی راہیں کھلیں  گی ۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسراف اور تبذیر کی شناعت بیان کر کے اس سے بچنے کی تلقین کی ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

وکلو واشربو والا تسرفو انه لا یحب المسرفین(26)

"اور کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی نہ کرو کیونکہ اس کو (اللہ تعالیٰ ) کو فضول خرچی کرنے والے پسند نہیں"۔

اسی طرح ارشاد فرمایا: ولا تبذر ان  المبذرین کا نوا اخوان الشیطین(27)

"اور مال کو بے ہودہ نہ اڑانا۔ بے شک مال کو بے ہودہ اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں"۔

پہلی آیت میں اسراف کی شناخت بیان کی گئی ہے اس طرح کہ اسراف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے نہیں بن سکتے۔اور دوسری آیت میں تبذیر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔اس طرح تبذیر کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔اسراف نام ہے ضرورت کی جگہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کا اور تبذیر نام

ہے بلا ضرورت خرچ کرنےکا۔

اسی مضمون کو سورۃ الفرقان میں ایک اور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے  اپنے بندوں کی متعدد صفات بیا ن فرمائی ہے ۔ان اوصاف میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے خرچ کرنے میں نہ اسراف سے کام لیتے ہیں نہ بُخل سے بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔چنانچہ ارشاد فرمایا ہے:  والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذالک قواما(28)

"اور اللہ تعالیٰ کے بندے وہ لوگ ہیں جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ کمی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان(دونوں یعنی اسراف اور کمی)کے درمیان معتدل ہوتا ہے"۔

مذکورہ بالا آیات کریمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خرچ کرنے میں اسراف اور تبذیر سےمنع کیا گیا ہے۔ اور اس بات کا درس دیا گیا ہے کہ:

لا تنفق المال الا باعتدالٍ وفی غیر معصیة وللمسلمین بالوسط الذی لا اسراف فیه ولا تبذیراً(29)

"مال  کو اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ خرچ کرو اور گناہوں کی جگہ میں خرچ نہ کرو بلکہ مستحقین پراس اعتدال کے ساتھ خرچ کرو جس میں نہ اسراف ہو اور نہ تبذیر"۔

حاصل یہ کہ قرآن کریم نے ایک طرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کا درس دے کر معاشرے کے غریب افراد کی تعاون پر ابھارا تو دوسری طرف اسراف اور تبذیر سے منع فرما کر بے جا و بلا ضرورت مال

اڑانے سے روک دیا اور جب یہ دونوں چیزیں معاشرے میں جمع ہوجائیں تو معاشی عدل کا قیام عمل میں آجاتا ہے۔

2۔ سیاسی و قانونی عدل

           اجتماعی زندگی میں کبھی کبھار ایسے حالات بھی پیش آتے ہیں کہ حقوق و فرائض عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں،حقوق پامال ہوجاتے ہیں،فرد اور اجتماع کے وجود کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ظلم کی تصویر بن جاتا ہے۔ یہ حالات عموماً اس وقت زیادہ پیش آتے ہیں جب معاشرے کا سیاسی نظام غیر عادل ہاتھوں میں ہوکیونکہ ظالم سیاسی نظام جہاں افراد معاشرہ کے حقوق چھینتا  ہے وہاں ان کے امن و سکون کو بھی برباد کردیتا ہے۔ ان حالات میں ایک ایسا نظام ناگزیر ہوتا ہے جو سیاسی و قانونی عدل پر مشتمل ہو اور ایسے نظام کے وجود کے لئے قوت انتہائی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قوت اور عدل کو ساتھ ساتھ بیان کیا۔

لقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معهم الکتاب والمیزان لیقوم الناس باالقسط وانزلنا الحدید فیه باس شدید ومنافع للناس(30)

"البتہ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوئے (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں او رہم نے لوہا بھی اتارا جس میں جنگ کا سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں"۔

آیت کریمہ میں دو چیزوں کا ساتھ ساتھ ذکر کیاگیا ہے ایک عدل اور ایک قوت

علامہ زحیلی نے اس آیت کی  دلنشین تفسیر بیان کی ہے۔" وانزلنا معهم الکتاب والمیزان "  کے تحت لکھتے ہیں:

وانزلنا معهم المیزان ای العدل فی الاحکام ای امرناهم به یستطیع الناس ما امروا به من الحق والعدل وتقوم حیاتهم علیه فیتعاملوا بینهم باالانصاف فی جمیع امورهم الدینیة والدینیویة(31)

"اور ہم نے ان کے ساتھ ترازو بھی نازل کیا یعنی احکام میں عدل کو۔ہم نے لوگوں کواحکام میں عدل کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ حق اور عدل کی اتباع کریں اور ان کی زندگی اس پر قائم ہو پس وہ اپنے دینی اور دنیوی امور میں آپس میں انصاف کا معاملہ کریں ۔

وانزلنا الحدید  کے تحت لکھتے ہیں:

والحدید امر القوة الرادعة للکفالة احترام الاحکام فی دارالاسلام ولتادیب المعتدین والمعاوین شرع الله ودینیه....(32)

"اور لوہا قوتِ وادعہ(وہ قوت جو زجروتوبیخ کے لئے ہو)کی علامت ہو تاکہ دارِ سلام میں احکام کے احترام کی

کفالت کرے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین کی خاطر حد سے تجاوزکرنےوالوں اور دشمنی کرنے والوں کو

ادب سکھائے"۔

عدل اور قوت کا ایک ساتھ ذکر اس بات کا غماز ہے کہ لوگ انصاف کےساتھ اپنے جملہ معاملات حل

کرنے  کی کوشش کریں اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو پھر قوت کے استعمال سے اس کو انصاف اور حق کی

تابعداری پر مجبور کیا جائے۔ اسی چیز کا نام سیاسی اور قانونی عدل ہے۔

سیاسی اور قانون عدل کے ایک پہلو کا تذکرہ ہوچکا اب ایک دوسرا پہلو بھی ملاحظہ ہو،قرآن کریم نے ذی قوۃ اور ذی جاہ افراد کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی اختلافات اور کشیدگیاں ختم کرنے کی صورت میں عدل سے صرف نظر نہیں کرنی چاہیئے ایسا نہ ہوکہ اپنی سیاسی قوت کے بل بوتے پرا یک جانب جھکاؤ کا اظہار کرکے دوسرے فریق کو اپنے حق سے محروم کرو۔ ان حالات میں عدل کو معیار بناتے ہوئے ذی قوت حضرات کو حکم دیا ہے۔

وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوذات بینهما فان بغت احدهما علی الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتی تفیئ الی امر الله فان فاءت فاصلحوا بینهما بالعدل واقسطوا ان الله یحب المقسطین (33) "اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلاح کراور پھر بھی اگر ان میں سے ایک(فریق) دوسرے (فریق)پر سرکشی کرے تو سر کشی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ(گروہ)حکمِ خُدا کی فرمانبرداری پر آجائے، پھر اگر وہ فرمانبرداری پر آجائے تو ان میں سے انصاف سے صلح کرادو اور ان میں عدل کرو۔بے شک اللہ تعالی کو انصاف کرنے والوں سے محبت ہے"۔

حکام کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور ان پر اس بات کو واجب کر دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کو" فاصلحوذات بینهما باالعدل"کے تناظر میں حل کرو اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے میں عدل کا دامن تھامے رہو جیسا کہ اس عبارت سےیہ بات واضح ہورہی ہے۔

ویجب علی ولاة الامور وحکام الدول الاسلامیة الاصلاح بین فئتین مقاتلتین مسلمین(34)

"اور(مسلمانوں)کے امور کے والیوں اور اسلامی حکومتوں کےحکام پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے باہمی لڑائی کرنے والی دو گروہوں میں صلح کرادے"۔

3۔ ادارتی امور میں عدل

ادارتی امور میں عدل حکومت وقت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے اس لئے

کہ جب تک اداروں میں اہل افراد کی تقرری نہ ہو، عہدوں پر فائز حضرات میں اس عہدے کی صلاحیت نہ ہو تو ظلم کے دروازے کھلے رہیں گے۔معاشرے میں بےچینی پھیلی ہوئی ہوگی اور مظلوم کی آواز سننے والا اور اس کا فریاد رس کوئی نہ ہوگا۔ظلم کے اس دروازے کو بند کرنے،معاشرے کی بے چینی ختم کرنے اور مظلوم کی فریاد رسی کے لئے ضروری ہے کہ ادارتی امور میں عدل قائم کی جائےجس کاعام فہم الفاظ میں وضاحت یوں کر سکتے ہیں کہ:"ادارہ میں تقرری اور عزل (معزول کرنا) ہر دو شرعی قواعد و اصول کے مطابق ہوں، نہ تقرری میں دوستی و رشتہ داری اور اقربا پروری یا تعلقات کا لحاظ ہو اور نہ ہی عزل میں ذاتی رنجش یا غیر شرعی اسباب کا دخل ہو۔" ادارتی امور کےاس مطلب کا مآخذ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ کی ایک عبارت ہےکہ  جب وہواذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل(35)کی تفسیر کرتے ہیں تو عدل سے حکم کرنے کو امانت قرار دیتے ہیں۔

والحکم بالعدل ایضا من باب ادا الامانة والاخلال به خیانة".عن ابی ذر رضی الله تعالی عنه قال: قلت یا رسول الله استعملنی قال:یا ابا ذر انک ضعیف وانها امانة(36)

" عدل سے حکم کرنا امانت کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں کمی کرنا خیانت ہے ۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے دربارِرسالت میں عرض کیا:"مجھے عامل (گورنر)بنادیں۔تو فرمایا:"اے ابو ذررضی اللہ عنہ تم ضعیف(کمزور)ہو اوریہ (منصب)ایک امانت ہے"۔

قاضی صاحبؒ کی اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ عدل سے حکم کرنا امانت ہے،کسی عہدے پر تقرری اہلیت کی بنیاد پر ہو کیونکہ یہ بھی امانت ہے اور امانت کو اہل کےسپرد کرنا ازروئے قرآن واجب ہے۔

ان الله یامرکم ان تؤدو الامانات الی اهلها(37)

"بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کرو"۔

پس ضروری ہے کہ نہ تو تقرری میں کسی قسم کے ذاتی تعلق کا لحاظ ہو اور نہ ہی عزل میں کسی غیر شرعی سبب کی گنجائش بلکہ دونوں صورتوں میں فیصلہ اہلیت کی بنیاد پر ہو اور اسی چیز کانام "ادارتی عدل" ہے۔

4۔ دشمنوں کے ساتھ عدل

اسلام عدل والا دین ہے اس کی عدالت کا درس صرف اپنے پیروکاروں تک ہی محدود نہیں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی عدالت کا حکم دیتا ہے اور ان پر ظلم سے روکتا ہے۔اسلام نے دشمنوں کے ساتھ ہر معاملہ میں انصاف کا درس دیا ہے۔دشمن کبھی برسرپیکار ہوتا ہے اسی حالت میں بھی اسلام عدل کا حکم دیتا ہے،کبھی زیادتی کرتا ہے تو اس کا بدلہ لینے میں بھی اسلام عدل ہی کو مد نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے۔

وقاتلوهم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کله لله فان انتهوا فلا عدوان الا علی الظلمین(38)

"اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد، اور حکم رہے خُدا کا،پس اگر وہ باز آجائیں پھر کسی پر زیادتی نہیں مگر ظالموں پر"۔ کبھی حکم ہوتا ہے:

فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدی علیکم(39)

"پس جو کوئی زیادتی کرے  تم پرتو تم بھی اس پر(اسی قدر)زیادتی کرو جس قدر کہ اس نےتم پر کی"۔

اور کبھی طرز وانداز اور بھی دلچسپ ہوتا ہے۔

ولایجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا(40)"اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو"۔

علام زحیلیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ولا یحملنکم بغض قوم وعداوتهم عل ترک العدل فیهم بل استعملوا العدل فی معاملتکم مع کل احد صدیقاً کان او عدواً(41)

"کسی قوم کی بغض یا دشمنی تم کو ان کے ساتھ عدل کے ترک کرنے کا باعث نہ بنے بلکہ اپنے معاملات میں ہر کسی کے ساتھ عدل کرو خواہ دوست ہو یا دشمن"۔

قرآن کریم کا یہ انداز دلپذیر کیا سراہنے کے قابل نہیں کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل کا حکم ہر حال میں دیتا ہے ۔دشمن مقابلے اور مقاتلے پر اترتاہے تو مقابلے اور مقاتلے کا حکم  دیتا ہے۔ تاکہ دین سر بلند اور غالب رہے لیکن جب مقابلے سے باز آتا ہے تو "فلا عدوان" کا درس دے کر مقاتلے سے منع کرتاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تو باز آجائیں اور تم اس پر زیادتی کرو، اس لئے کہ یہ عدل کے خلاف ہے۔جب دشمن سے بدلہ لینے کا درس دیتا ہے تو بھی عدل کو مد نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی زیادتی اس کی زیادتی سے تجاوز کر جائے اور کبھی عدل و انصاف کی ترازو ایسے نہج پر رکھنے کی تعلیم دیتا ہے کہ شدید سے شدید تر عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑہ(پلہ) کو جھکا نہ سکے۔اس سے زیادہ عدل کا تصور کیا ہوسکتا ہے؟

5۔تعبدی امور میں عدالت:

           اسلام کے عادلانہ نظام میں "تعبدی امور میں عدالت" کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔قرآن کریم نے تعبدی امور میں عدالت کی بھی تلقین کی ہے جس کی ایک واضح اور بین ثبوت اللہ تعالی کا یہ حکم ہے۔

ومن قتله منکم متعمداً فجزاءه مثل ما قتل من النعم یحکم به ذوا عدل منکم(42)

"اور جو کوئی تم میں سے اس کو جان بوجھ کر مارے تو اس پر بدلہ ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی (جانوروں)میں سے،جو تجویز (فیصلہ)کریں دو معتبر آدمی (عادل آدمی)تم میں سے"۔

آیت کریمہ کے ابتدائی حصہ میں حالت احرام میں شکار کی حرمت کا حکم ہے اس کے باوجود بھی اگر کسی نےاحرام کی حالت میں شکار کیا تو وہ دو صاحبِ بصیرت اور معتبر و تجربہ کار آدمیوں سے اس جانور کی قیمت لگوائے۔اس قیمت لگانے میں صاحب بصیرت اور تجربہ کار آدمیوں کی شرط اس وجہ سے ہے کہ ان کی بصیرت اور تجربہ قیمت لگانے میں انصاف کو مد نظر رکھے گی۔ ثابت ہوا کہ تعبدی امور میں عدالت اسی طرح لازمی اور ضروری ہے جس طرح کہ دیگر امور میں اور اسلام نے اس کو اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنا کہ دیگر امور میں۔

6۔ گھریلو امور میں عدالت:

           جس طرح معاشرے کے افراد کے درمیان حالات کا تنا ؤ ہوتا ہے،بگڑتے اور خراب ہوتے ہیں تو اسلام ان کے سلجھانے میں عدل کا درس دیتا ہے، اسی طرح گھریلو حالات بھی کبھی بگاڑ کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسلام یہاں بھی عدل کا درس دیتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

وان خفتم شقاق بینهما فابعثوا حکمامن اهله وحکما من اهلها ان یریدا اصلاحا یوفق الله بینهما(43)

"اور اگر تم کو میاں بیوی کے باہم نا اتفاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے کنبہ کا، ایک منصف بیوی کے

کنبے کا مقرر کرو،اگر یہ دونوں(منصف)اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان میں موافقت پیدا کردے گا"۔

آیت کریمہ میں گھریلو معاملہ کے سلجھانے کے لئے منصف کی تقرری کا حکم دیا گیا ہے اور منصف بھی

اقارب میں سےہو۔ اس لئے کہ ایک تو اس کے حالات زیادہ معلوم ہوں  گے اور دوسرا ان  سے خیر خواہی

کی زیادہ امید ہے تو نتیجۃً جو صلح ہوگا وہ انصاف کے تقاضے کو پورا کرےگا۔

7۔ مالی امور میں عدالت:

           اسلام کی تعلیماتِ عدالت کا ایک جزء"مالی امور میں عدالت" کا ہے۔جس کا درس قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔

یا ایها الذین امنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمٰی فاکتبوه ولیکتب بینکم کاتب بالعدل(44)

"اے ایمان والو! جب تم ادھار پر کسی میعاد معین تک لین دین کیا کرو تواس کو لکھ لیا کرو اور چاہیئے کہ تم میں سے کوئی کاتب پورا پورا لکھے"۔

یعنی جب معاملہ مالی ہو تو اس میں بھی عدل کو ملحوظ رکھا کرو کیونکہ اس میں اگر عدل کا لحاظ نہ کیا گیا اور کسی غیر عادل سے اس کو لکھا گیا تو ضرور ایک فریق کے ساتھ ظلم ہوگا اور اگر یہ کتابت اورلکھائی کسی عادل کے ہاتھ کی گئی اور خود عاقدین نےبھی اس لکھائی میں عدل سےکام لیا تو پھر نہ کسی قسم کی دل شکنی کی نوبت نہیں آئے گی اور نہ ہی ظلم کا دروازہ کھلے گا۔

آیت کریمہ میں خالقِ کائنات نے کتابت کی جو کیفیت بیان کی  ہے اس کی  وضاحت علامہ زحیلیؒ نے یوں کی ہے:

بان یکتب کاتب مامون عادل مجاهد فقیه متدین یفظ الحق دون میل لاحد الجانبین مع وضوح المعانی وتجتنب الفاظ المختلفه للمعانی الکثیرة وهذا یدل علی اشتراط العدالة فی الکاتب(45)

احتکار اور ذخیرہ اندوزی اموال میں خلاف عدل ہے اس لئے کہ عدل کا تقاضا یہ ہے:

من کان معه مضل ظهر فلیعد به علی من لا ظهر له، ومن کان عنده فضل زاد فلیعدبه علی من لا زاد له(46)

"جس کے پاس زائد سواری ہو،وہ اس کے حوالےکرے جس کے پاس کوئی سواری نہ ہو اور جس کے پاس

زائد زادراہ ہو وہ اس کے حوالے کریں جس کے پاس زادِراہ نہ ہو"۔

اسی وجہ سے لسانِ نبوت سے مالی امور میں عدل کی خلاف ورزی کرنے والے کے حق میں وعید کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ارشاد ہے:

من احتکر علی المسلمین طعاماً ضربه الله با الجزام والافلاس(47)

"جس  نے(بوقت ضرورت)مسلمانوں پر طعام کو ذخیرہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جزام اور غربت میں مبتلا فرمائیں گے"۔

8۔ اقوال میں عدالت:

           اقوال میں عدالت کا درس قرآن کریم نے ان الفاظ میں دیا ہے :

واذ قلتم فاعدلو ولو کان ذا قربٰی(48)"اور جب تم کہو تو انصاف کرو اگرچہ قرابت دار(کےخلاف)ہی کیوں نہ ہو"۔آیت کریمہ اقوال میں عدالت پر صراحۃ ًدلالت کرتا ہے اسی بنا پر علامہ زحیلیؒ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے:

ای فاعدلوا فی القول فی الشهادة او الحکم ولو کان المقول له او علیه ذا قربة(49)

" گواہی یا فیصلے کی بات میں عدل سے کام لو اگرچہ معقول لہ(جس کے لئے بات کی جائے)یا معقول علیہ (جس کے خلاف بات کی جائے) رشتہ دارہی کیوں نہ ہو"۔

مطلب  یہ کہ کسی صورت میں بھی عدل کا دامن نہ چھوڑنا چاہیے ۔ رہی  یہ بات کہ قولی عدالت میں کون کون سی چیزیں داخل ہیں تو اس کی وضاحت علامہ رازیؒ نے ان الفاظ میں کی ہے:

یدخل فیه کل ما یتصل باالقول فیدخل فیه ما یقول المرء فی الدعوة الدین وتقریر الدلائل علیه بان یذکر الدلیل ملخصاً عن الحشو والزیادة بالفاظ مفهومة معتادة قریبة من الافهام ویدخل فیه ان یکون الامر بالمعروف ونهی عن المنکر واقعاً علی وجه العدل من غیر زیادةٍ فی الایذاء والایحاش ونقصان قدر الواجب وید خل فیه الحکایات التی یذکرها الرجل حتی لایزید فیها ولا ینقص عنها ویدخل فیه حکم الحاکم بالقول(50)

"(قولی)عدل میں قول سے متعلق ہر چیز داخل ہے پس دین کی طرف دعوت دینے اور دلائل کے بیان میں آدمی جو کہے وہ حشو اور زوائد سے پاک ایسے الفاظ ہو جو معتاد اور قریب الفہم ہوں اور اس میں نیکی کی طرف

بلانا اور برائی سے منع کرنا بھی داخل ہے جو اعتدال کے طور پر یعنی ضرر دینے،  متنفر کرنے اور قدر الواجب

سے کمی کے بغیر ہو اور اس میں وہ حکایات بھی داخل ہےجنہیں انسان ذکر کرتا ہے یہاں تک کہ نہ ان میں زیادۃ  ہو اور نہ ہی ان میں کمی ہو اور اس میں حاکم کا حکم قولی بھی داخل ہے"۔

9۔ افعال میں عدالت :

           اقوال کی طرح افعال میں بھی قرآن نے عدالت کا درس دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

یایها الذین امنو کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین...(51)

"اے ایمان والو!قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف اگرچہ  نقصان ہو تمہار ا یا ماں باپ کا یا قرابت داروں کا"۔

علامہ زحیلیؒ  شهداء لله ولو علی انفسکم  کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وكونوا شاهدین  بالحق لله تعالی، بان تتحروا الحق الذی یرضی الله وتوءدوا الشهادة ابتغاءً وجه الله لتکون الشهادة صحیحة عادلةً حقاً من غیر مراعاة احد ولا محابة(52)

"اور تم اللہ تعالیٰ کے لئے حق اور صحیح گواہی دینے والے بنو کہ تم اس حق کے متلاشی ہوجاؤ جو  اللہ تعالی کو پسند ہے اور اللہ تعالی کی رضا کے لئے گواہی دو تاکہ گواہی کسی کا لحاظ اور محبت کے بغیر حق ، عدل والا اور صحیح ہو"۔

مزید لکھتے ہیں :

اشهدوا بالحق المجرد ولوکانت الشهادة علی انفسکم وعاد ضررها علیکم بان تقروا بالحق ولا تکتمون ومن اقر لانفسه بحق فقد شهد علیه لان الشهادة اظهار الحق واشهدوا بالحق ایضاً ولو کانت الشهادة علی الوالدین والاقارب وعاد ضرر علیهم لان بر الوالدین وصلة الاقارب لا تکون بالشهادة لغیر الله من البر والصلة والطاعة فی الحق والمعروف(53)

"خالص حق گواہی دو اگر چہ گواہی اپنے آپ پر ہو اور اس کا نقصان تم کو ہو اس طرح کہ تم حق کا اقرار کرو اور اسے چھپاؤ نہیں اور جس نے اپنے آپ پر حق کا اقرار کیا تو یہ گواہی ہے اپنےآپ پر،اس لئے کہ گواہی حق کو ظاہر کرنے کا نام ہےاور اسی طرح حق(سچی) گواہی دو اگرچہ یہ گواہی ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور ان کو اس کا ضرر پہنچے اس لئے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی غیراللہ(اللہ کے علاوہ) کی طرف کی گواہی پر نہیں ہےبلکہ نیکی و بھلا ئی،صلہ رحمی اور اطاعت حق اور نیکی کے کاموں میں ہے"۔

10۔قضائی امور میں عدل :

           قضائی امور میں عدالت کا جائزہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے صاف اور واضح طور پر

ثابت ہو رہا ہے۔                  یایها الذین امنو کونوا قوامین باالقسط...(54)

"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو"۔

علامہ  زحیلیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں چند خوبصورت جملے ذکر کئے ہیں۔پہلے جملے میں لکھا ہے:

یأمر الله تعالي عباده المومنین ان یقول بالعدل(55)

"اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ انصاف کی بات کریں"۔

دوسرے جملے میں لکھتے ہیں:

والعدل عام شامل الحکم بین الناس من الحکام والعمل فی ای مجال وفی الاسرة فیسوی الحاکم اوالوالی اولموٓظف بین الناس فی الاحکام والمجالس وقضاء والحوائج ایضاً(56)

"اور عدل عام حکمرانوں کی طرف سے لوگوں کے درمیان فیصلے کو بھی  شامل ہے  اور ہر میدان میں عمل کو بھی اور خاندان میں بھی، پس حاکم، ولی وغیرہ سب احکام،مجالس اور حاجتوں کو پورا کرنے میں برابر ہیں"۔

خلاصہ

خلاصہ  کلام یہ ہے کہ قضائی امور میں لوگوں کے درمیان خواہ وہ حاکم وقت کی طرف سے ہو یا ولی اور گورنر یا دوسرے حکومتی وظیفہ خوار کی طرف سے عدل کا قیام اور عد ل کے ساتھ فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

حوالہ جات

1: سورۃ التوبۃ: 33

2: سورۃ المائدۃ:3

3: الزحیلی، وھبۃ بن مصطفیٰ،الدکتور،التفسیر المنیر،ج 3 ،ص 434 ،435 ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ۔

4: آل عمران: 85۔

5: آل عمران: 8۔

6: الانعام: 115۔

7: الشوکانی ،محمد بن علی بن محمد،فتح القدیر ،ج 1 ،ص480 طبع نامعلوم۔

8: الجرجانی،علی بن محمد بن علی،سید سند،التعریفات،ص 58 طبع تہران ایران۔

9: ملوحی،صالح، نضرۃ النعیم فی مکارم الاخلاق رسول الکریم،ج2،ص80 طبع نامعلوم۔

10: الاسراء:38۔

11:اللیل 11,10,9,8:۔

12: الزحیلی،التفسیر المنیر،ج 15 ،ص 657 ۔

13: ایضاً، ج 15 ،ص 658 ۔

14: الاعراف:  181 ۔

15: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 5 ،ص 192 ۔

16: ایضاً، ج 5 ،ص196 ۔

17: الاعراف: 159

18: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 5 ،ص142 ۔

19: ایضاً۔

20: النساء: 1

21: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 2 ،ص558 ۔

22: الحجرات: 13 ۔

23:ترمذی،محمد بن عیسیٰ،ابو عیسیٰ،جامع ترمذی،ج4،ص26 ، ایچ ایم سعید کمپنی،  کراچی۔

24: البقرۃ:261۔

25: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 2 ،ص 51 ۔

26: الاعراف:31۔

27: الاسراء :26، 27۔

28: الفرقان:76۔

29: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 8 ،ص 62 ۔

30: الحدید:25 ۔

31: الزحیلی،التفسیر المنیر،ج 14 ،ص358 ۔

32: ایضاً، ج 14 ،ص360 ۔

33: الحجرات: 9۔

34: الزحیلی،التفسیر المنیر،ج 13 ،ص 570 ۔

35:النساء: 58۔

36: پانی پتی ،ثناء اللہ ، قاضی، تفسیر مظہری،ج2،ص15۔طبع نامعلوم۔

37: النساء: 58۔

38: البقرۃ: 19۔

39: االبقرۃ: 194۔

40: المائدۃ: 7۔

41: الزحیلی،التفسیر المنیر،ج 3 ،ص368 ۔

42: المائدۃ: 95۔

43: النساء: 35۔

44: البقرۃ: 282۔

45: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 2 ،ص 119 ۔

46: القشیری،مسلم بن حجاج، الصحیح المسلم،ج2،ص81 رقم 1728 طبع، ایچ ایم سعید کمپنی،  آرام باغ کراچی۔

47: القزوینی،محمد بن یزید،ابو عبداللہ،سنن ابن ماجہ رقم 5122، طبع نامعلوم۔

48: الانعام: 152۔

49: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 4 ،ص 454 ۔

50: بو عبداللہ  الرازی،محمد بن عمر، فخر الدین ،مفاتیح الغیب المعروف تفسیر الکبیر،ج 13،ص248 مکتبہ التجاریہ مکہ۔

51:النساء: 135۔

52: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 3 ،ص 323 ۔

53: ایضاً۔

54: النساء: 135۔

55: الزحیلی، التفسیر المنیر،ج 3 ،ص 322 ۔

56: ایضاً۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...