Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bannu University Research Journal in Islamic Studies > Volume 3 Issue 2 of Bannu University Research Journal in Islamic Studies

یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں بحری حیوانات، پرندوں اور حشرات کے احکام حلت وحرمت کا تقابلی جائزہ |
Bannu University Research Journal in Islamic Studies
Bannu University Research Journal in Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060029336_1291

Pages

107-120

PDF URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/182/175

Chapter URL

https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/182

Subjects

Islam Christianity Judaism Halal Haram Sea food Birds Animals

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کی غذا کا خصوصی طور پر خیال رکھا ہے وہ غذا خواہ پھلوں کی شکل میں ہو یا لحمیات کی شکل میں ہو کیونکہ انسانی جسم میں پروٹین کی کمی کو لحمیا ت کی وجہ سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ان لحمیات کو اللہ تعالیٰ نے حلال حیوانات کے ذریعے پورا کردیا اور وہ حیوانات جس طرح بَری اور بحری ہیں اسی طرح پرندوں کو پیدا فرماکر ان لحمیات کی کمی کو پورا کردیا۔اس کے ساتھ ساتھ حشرات کو بھی پیدا فرماکر اس میں کچھ کو تو حلال کردیا اور باقی کو حرام کردیا اگر چہ ان حشرات میں کچھ ایسے ہیں جو انسان کے لئے مضر ہیں لیکن بعض انسان کے لئے فائدہ مند بھی ہیں ۔جس طرح اسلام نےان پرندوں اور حشرات میں حلال وحرام کی تمیز رکھی ہے اسی طرح اور مذاہب میں بھی حلت وحرمت کا خیال رکھا گیا ہے اور خاص کر یہودیت وعیسائیت میں بھی اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

حلال کی تعریف

مباح، غیر ممنوع اور جس کے کرنے کی شارع نے اجازت دی ہو[1]۔

حرام کی تعریف

حرام وہ ہے جس کی شارع نے قطعی طور پر ممانعت کی ہواور جس کی خلاف ورزی کرنے والاآخرت میں سزا کا مستحق ہو اور بعض صورتوں میں دنیا میں بھی اس کے لئے سزا ہو[2]۔

مکروہ کی تعریف

مکروہ وہ ہے جس سے شارع نے روکا ہو لیکن سختی کے ساتھ اس کی ممانعت نہ کی ہو۔ یہ درجہ میں حرام سے کم تر ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا اس سزا کا مستحق نہیں ہوتا جس سزا کا مستحق حرام کا ارتکاب کرنے والا ہوتا ہے۔ البتہ اس کی مسلسل خلاف ورزی اور بے وقعتی کرنے پر حرام کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے[3]۔

فلسفہ حلال وحرام

اسلام نے انسان کو بے لگام نہیں چھوڑا کہ بکری کا گوشت بھی کھائے اور خنزیر کا بھی، دودھ بھی پئے اور شراب بھی۔اگر ایک آدمی بکری ذبح کرتے وقت بسم اللہِ، اللہ اکبر کہتا ہے تو بکری حلال ہے لیکن دوسرا آدمی ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا بلکہ لات ومنات یا کسی بزرگ کا نام لیتا ہے تو یہ حلال جانور ما اھل لغیر اللہ میں داخل ہو جائے گا۔تو ایک بکری حلال ہو گئی اور دوسری حرام حالانکہ بظاہر دونوں بکریاں ایک جیسی ہیں ، ایک ہی گوشت ہے[4]۔

حرام خوری کا عبادت واخلاق پر اثر

حلال وحرام کی تمیز وتعلیم اس لئے ضروری ہے کہ انسان کی نشوونما میں اور ساتھ ہی جسم کی بناوٹ اور تشکیل وتحلیل میں خوراک کا بنیادی اثر ہوتا ہے۔ خوراک سے انسان کا جسم بنتا ہے اور پھر اس کے اثرات اخلاق پر مرتب ہوتے ہیں۔ وہ اخلاق پھر صحیح عبادات واعمال تک رسائی کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں۔پس اگر اس نے خراب، ناجائز اور حرام خوراک کھائی تو اس کا جسم بالکل ناکارہ اور خراب بن گیا کیونکہ نجس اور خراب اشیاء کے ذریعے اس کی تربیت اور افزائش کی گئی، اس سے اب اخلاق قبیحہ اور اخلاق رذیلہ ظاہر ہوں گےاور جب اس جسم سے اعمال برآمد ہوں گے تو وہ بھی متاثر ہوں گے[5]۔

یہودیت وعیسائیت میں بحری حیوانات کی حلت وحرمت

بائبل حلا ل وحرا م کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے:

"اگر پانی کا جانور ہے اور اس کے جسم پر پَر اور چھلکے ہیں تو اس جانور کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر جانور سمندر یا دریا میں رہتا ہے اور اس کے پَر اور چھلکے دونوں نہ ہوں تو اس جانور کو تمہیں نہیں کھانا چاہئے۔ وہ گندے جانوروں میں سے مانے جاتے ہیں۔ اس جانور کا گوشت نہیں کھانا چاہئے۔ اس کے مردہ جسم کو بھی نہیں چھُونا چاہئے۔ پانی کے ہر اس جانور کو جس کے پَر اور چھلکے نہیں ہوتے ہیں تمہارے لئے نفرت انگیز ہے"[6]۔

دوسری جگہ پر اس طرح آیا ہے: "سمندری مُرغ، سمندری کا غ، پانی کی مُرغی، مچھلی کھانے والے پلیکن، سمندری گدھ، مگر مچھ"[7]۔

ایک اور جگہ پر اس طرح کے الفاظ ہیں:" تم ایسی کوئی بھی مچھلی کھا سکتے ہو جس کے پَر اور چھلکے ہوں۔ لیکن پانی میں رہنے والے کسی ایسے مخلوق کو نہ کھاؤ جس کے پَر اور چھلکے نہ ہوں۔ یہ تمہارے لئے پاک غذا نہیں ہے۔ سمندری باز، سمندری بطخ، دریائی مرغ"[8]۔

بائبل کی ان آیات سے واضح ہوتاہے کہ سمندر کے وہ تمام حیوانات حرام ہیں جن کے پَراور چھلکے نہ ہوں اور جس سمندری حیوان کے پَر اور چھلکے ہوں تو وہ حلال ہیں۔ان چیزوں کی مزید تشریح کے لئے بائبل میں کچھ حیوانات کی تصریح بھی کی گئی ہے جو حرام ہیں مثلاً سمندری مرغ، سمندری کاغ، پانی کی مرغی، سمندری گدھ ، سمندری بطخ اور مگرمچھ۔

اسلام میں بحری حلا ل وحرام کا بیان

قرآن میں بحری حلت وحرمت کے بارے میں ایک عمومی حکم وارد ہوا ہے اور پھر اس میں نبی کریم ﷺ اور فقہ کے ذریعے تخصیصات کی گئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُه[9]۔

"تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا طعام حلال کیا گیا ہے"۔

اور طعام سے مراد تمام دریائی جانور ہیں۔ لیکن یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ اسلام میں تمام دریائی جانور مراد نہیں ہیں اس لئے حدیث میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ارشاد نبویؐ ہے:

احلت لنا المیتتان والدمان، السمک والجراد والکبد والطحال[10]۔

ترجمہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے واسطے دومردار حلال کر دئیے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اوردو خون حلال کردئیے ہیں یعنی جگر اور تلی ۔

اب اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں صرف مچھلی بمعہ تمام اقسام کے حلال ہیں لیکن اب مچھلی کے اقسام کیا ہیں اور کن دریائی حیوانات پر اس کا اطلاق ہوتاہے تو اس بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے۔

امام شافعیؒ کے نزدیک تمام دریائی جانوروں پر سمک کا اطلاق ہوتا ہے ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: احل لکم صید البحر وَطَعَامُه ۔"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا ہے"۔اور طعام سے مراد تمام دریائی جانور ہیں۔

امام مالکؒ بھی تمام دریائی جانوروں کو سمک کہتے ہیں مگر خنزیر الماء، کلب الماء اور دریائی انسان کو حرام قرار دیتے ہیں۔

احناف کے نزدیک سمک کا اطلاق صرف اور صرف مچھلی پر ہوتا ہے۔احناف کی دلیل یہ ہے کہ ارشاد باری ہے:ویحرم علیہم الخبائث[11]۔ اور مچھلی کے سوا تمام دریائی جانور خبیث ہیں۔اور دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی دوائی کے کھانے سے منع فرمایا ہے جس میں مینڈک ملا ہوا ہو اور کیکڑے کی بیع سے منع کیا ہے[12]۔

اسلام میں دریائی جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے ایک اور قانون بھی ہے اور وہ یہ کہ ایسے دریائی جانور جو خباثت یعنی گندگی نہ کھاتا ہو اور جس طرح خشکی کے جانوروں کے کچلی کے دانت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسرے جانوروں کا چیر پھاڑ کرتے ہیں اسی طرح دریائی جانوروں میں وہ جانور جس کےکچلی کے دانت ہوں اور وہ دوسرے دریائی جانوروں کا چیر پھاڑ کرتے ہوں تو وہ بھی حرام ہیں اور وہ سمک(مچھلی)کی تعریف میں داخل نہیں ہیں۔جیسے کہ مگرمچھ[13]۔

تقابل

1:اگرچہ بائبل نے دریائی حیوانات کے حلال وحرام کےلئے ایک فارمولا دیا ہوا ہے کہ جس کے پَراور چھلکے ہوں تو اس کو کھایا جاسکتا ہے اور جس کے پَر اور چھلکے نہ ہوں تو وہ حرام ہیں لیکن ایک بات اس میں یہ بھی بیان کی ہے کہ اس کو چھونابھی نہیں چاہیے حالانکہ اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کیونکہ اگر ایک چیز حرام ہے تو اس کے چھونے سے کوئی انسان نجس نہیں ہوتا جب تک اس پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو یا اس نے کسی برتن یا پانی وغیرہ میں اپنا منہ داخل نہ کیا ہو۔

2: سمندری مرغ، سمندری کاغ، پانی کی مرغی، سمندری گدھ اورسمندری بطخ یہ ایسے دریائی جانور ہیں جو بائبل کی بیان کے مطابق حرام ہیں لیکن یہی جانور جو خشکی میں رہتے ہیں تو وہ حلال ہیں اگرچہ بائبل میں اس کی حلت کا تذکرہ نہیں ملتا لیکن چونکہ بائبل نے پرندوں میں سے حرام کے نام گنوائے ہیں اور ان کے علاوہ جو پرندےہیں وہ حلال ہیں تو ظاہر سی بات ہےکہ خشکی والا مرغ اور بطخ بھی حلال ہیں لیکن اس بات کی کوئی تصدیق نہیں ہے کہ یہی جانور جو خشکی والے ہیں وہ تو حلال ہیں لیکن سمندری کیوں حرام ہیں اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی اس کی کوئی وجہ بیان کی گئی ہے جب کہ اسلام میں یہ تمام جانور حلال ہیں ماسوائے سمندری گدھ اور سمندری کاغ کے۔ اور یہ حلال اس وجہ سے ہیں کیونکہ خشکی میں بھی یہی جانور یعنی مرغ اور بطخ حلال ہیں تو جب خشکی والے حلال ہیں تو پھر سمندری کیوں حرام ہو۔

یہی ایک فرق ہے کہ اسلامی تعلیمات میں حلال وحرام کی وجہ اور حکمت بھی بیان کی جاتی ہے لیکن دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ہوتی۔

3:بائبل میں تو یہ تفصیل بتا دی گئی ہے کہ سمندری وہ جانور حلال ہیں جس کے پَر اور چھلکے ہوں لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آیا ان جانوروں کو پکڑ کر ان کو ذبح کیا جائے گا یا ان کو بغیر ذبح کے کھایا جائے گا۔جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اسلام نے تو اس کی وضاحت کردی ہے کہ ان جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے کہ ارشاد نبویؐ ہے:

احلت لنا المیتتان والدمان، السمک والجراد والکبد والطحال[14]۔

ترجمہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے واسطے دومردار حلال کر دئیے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اوردو خون حلال کردئیے ہیں یعنی جگر اور تلی ۔

4: ایک اور چیز جو بہت اہم ہے خاص کر حلت وحرمت کے حوالے سے اور وہ یہ ہے کہ اگر حلال دریائی جانوروں میں کوئی جانور خود بخود یعنی طبعی موت مرجائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ آیا اس کو حلال تصور کیاجائے گا یا حرام؟

اس بارے میں بائبل میں کوئی واضح یا مخفی حکم نہیں ملتا جب کہ اسلام میں جس طرح صرف سمک(مچھلی )ہی حلال ہے تو اگر کوئی سمک طبعی موت مرجائے تو اس کو سمک طافی کہا جاتا ہے اور اس کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے جس میں نبی کریمﷺ نے طافی جانوروں(دریا کی پھینکی ہوئی) سے منع فرمایا ہے[15]۔

یہودیت وعیسائیت میں پرندوں کی حلت وحرمت

بائبل میں پرندوں کے حوالے سے حلال وحرام کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہے:

"تمہیں نفرت انگیز جانوروں کو بھی نہیں کھانا چاہئے جیسے : عقاب، گدھ اور شکاری چڑئیں،چیل، اور تمام طرح کے عقاب،تمام قسم کے کالے پرندے، شتر مُرغ، اُلّو، ہُد ہُد اور چمگادڑ"[16]۔

بائبل میں دوسری جگہ پر اس طرح وارد ہے:

" تم کسی پاک پرندہ کو کھا سکتے ہو۔ لیکن ان پرندوں میں سے کسی کو نہ کھاؤ: عقاب، کسی بھی قسم کے گدھ، باز، لال چیل، سمندری باز،

کسی بھی قسم کا چیل، کسی بھی قسم کا کوّا، شاخ وا لا الّو، چیخنے وا لا الوّ، سمندری بطخ، کسی بھی قسم کی شاہین، چھوٹا الّو، بڑا الّو، سفید الوّ، ریگستانی الوّ، شتر مرغ، دریائی مرغ، لق لق، کسی بھی قسم کا بگلا، ہُد ہُد یا چمگادڑ۔ لیکن تم کسی پاک پَر والے پرندے کھا سکتے ہو"[17]۔

قرآن میں پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حرام چیزوں سے منع کیا گیا ہے اور نبی کریمﷺ کےحوالے سے اللہ بیان فرماتے ہیں:

وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ[18]۔

ترجمہ :کہ وہ (نبی کریمﷺ)ان کے لئے پاک چیزو ں کو حلال کرے گا اور خبیث چیزیں ان کے لئے حرام کرے گا"۔

حلال وحرام کے بارے میں اصول نبی کریمﷺ نےاپنے اس حدیث میں بیان کی ہے۔ ارشاد نبوی ؐ ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: عَنْ كُلِّ ذِى نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِى مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ[19]۔

ترجمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ نے ہر کچلی والے درندے اورہر ایک پنجہ (سے کھانے ) والے پرندے سے منع فرمایا"۔

ایک اور حدیث میں کچھ پرندوں کی نبی کریمﷺ نے وضاحت بھی کردی کہ یہ حرام ہیں اور ان کو حرم میں بھی قتل کردینا جائز ہے۔

عن عروة عن عائشة انّ رسول اللهﷺ قال: خمس من الدّوابّ کلّهنّ فاسق يقتلن فی الحرم، الغرابُ والحِداةُ والعقرب والفارة والکلب العقور[20].

ترجمہ:حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: پانچ جانور بدذات ہیں ان کو حرم میں بھی مارڈالنا چاہیئے۔ کوّا ، چیل ، بچھو ،چوہا اورکاٹنے والا کتا“۔

ادیان ثلثہ کا تقابل

بائبل میں جن پرندوں کے نام گنوا کر ان کو حرام قراردیا گیا ہے تو وہی پرندے اسلام میں بھی حرام ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے ماسوائے دریائی مرغ کے کہ بائبل میں اس کی حرمت کی کوئی تصریح نہیں کی گئی ہے کیونکہ جو وجہ حرمت کی ہے وہ یا تو یہ ہے کہ وہ دوسرے پرندوں کاشکار کرتا ہو یا خبیث چیزوں کو کھاتا ہو اور سمندری مرغ اور بطخ کے بارے میں اس طرح کی کوئی تصریح نہیں ملتی لیکن اسلام میں مرغ اور بطخ جس طرح خشکی والا حلال ہے اسی طرح تَری والا بھی حلال ہے۔ باقی پرندے یعنی باز، چیل ، کوّا اور الوّ وغیرہ تو جس طرح یہودیت اور عیسائیت میں حرا م ہیں بالکل بعینہ اسی طرح اسلام میں بھی حرا م ہیں۔

بطخ کی حلت اس طرح بیان ہوئی ہے: بڑی بطخ اور چھوٹی بطخ دونوں کا کھانا حلال ہے کیونکہ صحابہ کرام ؓکا اس کی حلت پر اجماع ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی اس روایت سے بھی اس کی حلت کا پتہ چلتا ہے۔عبد اللہ بن زریرؒ کہتے ہیں کہ میں نحر کے دن علی کرم اللہ وجہہ کے پاس گیا تو ہمارے پاس چھڑکا ہوا گوشت لایا گیا۔ ہم نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ٹھیک معاملہ فرمائے اگر ہمارے پاس بڑی بطخ کا گوشت لایا جاتا تو زیادہ بہتر تھااس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں زیادہ خیر رکھی ہے۔ آپ نے فر مایا: اے ابن زریر! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ کسی بھی خلیفہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے مال میں سے ماسوائےدو پیالوں کے جائز نہیں ۔ ایک پیالہ وہ جس کو وہ کھائے اور دوسرا وہ جو لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے[21]۔

مرغ اور مرغی کی حلت کے بارے میں اس طرح سے حدیث میں تصریح آئی ہے: عَنْ أَبِي مُوسَى، يَعْنِي الأَشْعَرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَأْكُلُ دَجَاجًا[22]۔

"ابو موسی اشعریرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو مرغی کھاتےہوئے دیکھا "۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ حدیث میں مرغ کی ایک انوکھی فضیلت بیان ہوئی ہے: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: لاَ تَسُبُّوا الدِّيكَ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلاَةِ[23]۔

ترجمہ :حضرت خالد جہنیرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: مرغ کو گالی مت دیا کرو کیونکہ یہ نماز کے لئے جگاتا ہے"۔

اسلام نے جن جانورو ں کو حرام قرار دیا ہےتو وہ یا تو اس وجہ سے حرام ہیں کہ وہ مرادر کھاتے ہیں اور یا اس وجہ سے کہ وہ دوسرے پرندوں کا چیر پھاڑ کرتےہیں لیکن بائبل میں اس حوالے سے کوئی تصریح نہیں ہے کہ وہ کیوں حرام ہیں۔

حشرات کے بارے میں بائبل کی تصریحات

"وہ تمام کیڑے جو اُڑتے ہیں اور تمام جو گھٹنوں کے بل رینگ کر چلتے ہیں گھناؤنے ہیں۔ لیکن وہ کیڑے جو اُڑتے ہیں اور رینگتے ہیں تو صرف اُن کیڑوں کو جو کہ پچھلے ٹانگوں پر کودتے ہیں کھائے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ ہیں : ہر قسم کے ٹڈے ، جھنگر اور گھاس چٹ کرنے وا لا۔ لیکن دوسرے تمام وہ کیڑے جن کے پَر ہوں اور جو رینگ بھی سکتے ہیں وہ گھناؤنے ہیں تمہارے لئے ممنوع ہے۔ وہ کیڑے تمہیں شام تک نجس کر دیں گے۔ کوئی بھی شخص جو اس طرح مرے ہوئے کیڑے کو چھوئے گا نا پاک ہو جائے گا۔ اگر کوئی شخص ان مرے ہوئے کیڑوں میں سے کسی کو بھی لے کر چلتا ہے تو اسے اپنے کپڑوں کو دھو نا چاہئے۔ وہ شام تک نجس رہے گا[24]۔

ایک اور جگہ پر بائبل میں اس طرح بیان ہوا ہے:

"کترنے والے جانور تمہارے لئے گھناؤنے ہیں۔ وہ یہ ہیں : چھچھوندر، چوہا، سب قسم کے بڑے گرگٹ، چھپکلی، مگر مچھ، ریگستانی رینگنے والے گرگٹ اور رنگ بدلتا گرگٹ۔ یہ رینگنے والے جانور تمہارے لئے گھناؤنے ہیں کوئی آدمی جو اُن مرے ہوئے کو چھوئے گا۔ شام تک نجس رہے گا[25]۔

ایک اور جگہ پر اس طرح سے حرام حشرات کی تفصیل بیان ہوئی ہے:

ہر وہ جانور جو زمین پر رینگتا ہے وہ ان جانوروں میں سے ایک ہے جو تیرے کھانے کے لئے ممانعت ہے ۔تمہیں ایسے کسی بھی جانور کو نہیں کھانا چاہئے جو پیٹ کے بَل رینگتے ہیں یا چاروں پیروں پر چلتے ہیں یا جس کے بہت سے پیر ہیں یہ سب تمہارے لئے نفرت انگیز ہے۔ انہیں مت کھاؤ! اُن گھِناؤنے جانوروں سے خود کو نجس مت بناؤ۔ تمہیں اُن کے ساتھ اپنے کو نجس نہیں بنا نا چاہئے۔کیوں کہ میں تمہارا خداوند خدا ہوں! میں مقدس ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی مقدس رہو۔ رینگنے والے ان نفرت انگیز جانوروں کی وجہ سے اپنے آپ کو نا پاک مت بناؤ[26]۔

اسلام میں حشرات کے احکام

بحر وبَر اور زمین پر رہنے والے جانداروں کی تین اقسام ہیں:

1: مالیس له دم اصلاً: یعنی وہ جاندار جس میں خون بالکل نہیں ہوتا جیسے ٹڈی، بھڑ، مکھی ، مکڑی، گبریلا، اوربچھو وغیرہ۔ اسلامی شریعت میں ان سب کا کھانا حرام ہے ماسوائے ٹڈی کے کیونکہ اس کی حلت حدیث میں نبی کریمﷺ نے بیان کی ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ: أُحِلَّتْ لَكُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ، فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ، فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ[27]۔

ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ہمارے لئے دو مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردار مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں"۔ان تمام کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ تمام خبائث ہیں اور طبیعت ان سے انتہائی نفرت کرتی ہے جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ[28]۔

"کہ وہ (نبی کریمﷺ)ان کے لئے پاک چیزو ں کو حلال کرے گا اور خبیث چیزیں ان کے لئے حرام کرے گا"۔

2: ما لیس له دم سائل:جن میں خون موجود ہوتا ہے لیکن بہتانہیں ۔جیسے سانپ، چھپکلی وغیرہ۔یہ تمام بھی بالاتفاق حرام ہیں۔

3: ماله دم سائل له نوعان مستانس متوحش:وہ جانور جن میں خون ہوتا ہے وہ دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو انسانوں کےساتھ مانوس ہوجاتا ہے اور ایک وہ جو غیر مانوس ہوتاہے۔ مانوس جانوروں میں بعض کو اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ہے اور بعض کو حلال۔جن کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

تقابل

یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں تمام حشرات حرام ہیں ماسوائے ٹڈی کے ۔ کہ ٹڈی کو جس طرح اسلام نے حلال ٹھہرایا ہے اسی طرح یہودیت اور عیسائیت میں بھی حلال ہے ۔سانپ، بچھو، چھپکلی ، گرگٹ اور تما م پیٹ کے بِل چلنے والے حشرات ادیان ثلثہ میں حرام ہیں۔

مرے ہوئے حرام جانور کا چھونا

اگر چہ تما م حشرات ادیان ثلثہ میں ماسوائے ٹڈی کے حرام ہیں لیکن بائبل کی تصریح کےمطابق اگر کوئی ان کے مردہ جسم کو ہاتھ لگاتاہے تو وہ شام تک نجس رہے گا حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی مردار یا گندی چیز کو ہاتھ بھی لگاتا ہے تو وہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے، شام تک نجس نہیں رہتا۔

خلاصہ البحث

مذکورہ تقابلی جائزہ سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ یہودیت اورعیسائیت میں بعض احکام ایسے ہیں جن کی اسلام کے نظام حلت وحرمت کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے جب کہ بعض چیزوں میں خواہ وہ سمندری حیوانات ہیں، حشرات ہیں یا پرندے ، اس حوالے سے اسلامی تعلیمات میں اچھی خاصی توسیع پائی جاتی ہے اور انسانوں کے لئے اس میں حرج اور تکلیف نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر یہودیت یا عیسائیت میں کوئی پرندہ یا حشرات میں سے کوئی ناپاک ہے تو اس کو چھونا بھی جائز نہیں اور اس کے چھونے سے انسان ناپاک ہوجاتا ہے جب کہ اسلام نے اس حوالے سے رخصت اور فراخی دی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. : الجرجانی، علی بن محمد بن علی، التعریفات: 1/124، دار الکتاب العربی۔ بیروت، طبع، 1405ھ۔
  2. : ابو یحیی، زکریا محمد بن زکریا، الحدود الانیقۃ والتعریفات الدقیقۃ:1/76 ، دار الفکر المعاصر۔ بیروت، طبع، 1411ھ۔
  3. : الجرجانی، علی بن محمد بن علی، التعریفات: 1/293۔
  4. : ابو یحیی، زکریا محمد بن زکریا، الحدود الانیقۃ والتعریفات الدقیقۃ:1/76۔
  5. : ایضاً۔
  6. : کتاب مقدس: احبار1: 10، 11، 12۔
  7. : کتاب مقدس: احبار1: 17، 18، 30۔
  8. : کتاب مقدس:استثناء14: 9، 10، 15، 18۔
  9. : سورۃالمائدۃ:5/ 96۔
  10. : ابو عبد اللہ الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند: 2/97، رقم، 5723، باب مسند عمر بن الخطاب، مؤسسۃ قرطبہ۔ قاہرہ۔
  11. : سورۃالاعراف:7/ 157۔
  12. : ابو الحسن المرغینانی، علی بن ابی بکر، الہدایۃ شرح البدایۃ: 4/69، فصل ما یحل اکله ومالا یحل اکله، المکتب الاسلامیۃ۔ الریاض۔
  13. : البجریمی، سلیمان بن محمد بن عمر، تحفۃ الحبیب علی شرح الحبیب: 5/213، کتاب الحدود،دار الکتب العلمیۃ۔بیروت، طبع،1417ھ۔1996م۔ ابو زکریا النووی، محی الدین یحیی بن شرف، مجموع شرح المہذب: 9/33، کتا ب الاطعمۃ، طبع نامعلوم۔
  14. : ابو عبد اللہ الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند: 2/97، رقم، 5723، باب مسند عمر بن الخطاب۔
  15. : ابو الحسن الماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر:15، 65، باب :لو اصاب ظبیاً مقرطاً، دار الکتب العلمیۃ۔بیروت، طبع، 1414ھ۔
  16. :احبار1: 13۔16، 19۔
  17. : استثناء14: 11۔ 20۔
  18. : سورۃالاعراف:7/ 157۔
  19. : القشیری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم: 6/60، رقم، 5103، باب تَحْرِيمِ أَكْلِ كُلِّ ذِى نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَكُلِّ ذِى مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْر۔دارالآفاق الجدیدۃ۔بیروت
  20. : بخاری، صحیح: 1/563رقم، 1713 باب ما یقتل المحرم من الدّوابّ۔دارالشعب۔القاہرہ، طبع، 1407ھ۔1987م۔
  21. : ابو عبدا للہ الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند: 1/78، رقم، 578، باب مسند علی بن طالب، مؤسسۃ قرطبہ۔ القاہرہ۔
  22. : بخاری، جامع الصحیح: رقم، 5093، باب: لحم الدجاج۔
  23. : ابوداؤدالسجستانی، سلیمان بن الاشعث، سنن: 4/487، رقم، 5103، باب:ماجاء فی الدیک والبہائم۔دار الکتاب العربی۔بیروت۔
  24. : کتاب مقدس: احبار1: 20۔ 26۔
  25. : کتاب مقدس: احبار1: 29۔32۔
  26. : کتاب مقدس: احبار1: 41۔ 44۔
  27. : ابو عبدا للہ، محمدبن یزید القزوینی، سنن ابن ماجۃ: 4/431، رقم، 3314، باب: الْكَبِدِ وَالطِّحَالِ۔مکتبہ ابی المعاطی، بیروت۔
  28. : سورۃ الاعراف:7/ 157۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...