Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

آداب معاشرت، سورة حجرات کی گیارهویں اور بارهویں آیات کے تناظر میں |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

مقدمہ

انسان اجتماعی زندگی گزارتا ہے اور ایک دوسرے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ لیکن اجتماعی زندگی گزارنے کے کچھ آداب اور تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ان پر فرض ہے۔ ان میں سے ایک انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور احترام ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کے جان، مال اور عزت و آبرو کو محترم قرار دیتا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کی جان، مال یا عزت و آبرو کو کوئی نقصان پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر اس کام کو حرام قرار دیا ہے جس سے کسی کی جان، مال یا عزت کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔ جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے، اور اللہ تعالٰی نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنی آخری کتابِ ہدایت کے اندر انسانوں کے ان تینوں بنیادی حقوق کے حوالے سے تمام ضروری احکام بیان فرمائے ہیں۔

جب تک لوگوں کو اپنے ان تینوں حقوق کے تحفظ کا یقین حاصل نہ ہو؛ تب تک وہ معاشرے میں کوئی مثبت کرادار ادا کرنے پردل سے راضی نہیں ہو سکتے ۔ لہذا معاشرے کی بہتری اور اس میں انسانی تعاون کے جذبے کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کا خیال رکھیں۔ اس مقالے میں سورہ حجرات کی گیارھویں اور بارھویں آیات کے تناظر میں صرف انسانی عزت و وقار کے احترام سے مربوط حق اور اس سلسلے میں معاشرتی آداب کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاکہ ان پر عمل کے بعد اس کے مثبت اثرات معاشرے پر مرتب ہو سکیں۔ کیونکہ عزت و آبرو اللہ تعالٰی کی جانب سے انسان کو عطا کردہ ایسا اہم اور قیمتی سرمایہ ہے کہ جس کے کھونے پر انسان بظاہر صحیح سالم نظر آنے کے باوجود اندر سے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔اور یوں ایسا انسان معاشرے میں ایک عضو ناکارہ بن کر رہ جاتا ہے اور پورے معاشرے کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

سورہ حجرات کی گیارھویں اور بارھویں آیات میں سے ہر ایک میں اللہ تعالٰی نے تین تین اور مجموعی طور پر چھ اخلاقی برائیوں کا تذکرہ فرمایا ہے اورصاحبانِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ ان سے اجتناب کریں۔

اب یہاں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں علیحدہ بحث کی جاتی ہے۔

۱۔ تمسخر کی ممانعت

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسى‏ أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَ لا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ عَسى‏ أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَ لا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ ‘‘

تمسخر کہ جو یسخر سے مشتق ہے اس کا معنی مذاق اڑانا ہے۔ جس کا مصدر استہزاء ہے کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے بارے میں زبان سے یا اشارے سے یا اس کی نقل اتارتے ہوئے کوئی ایسی بات کہہ دینا کہ جس سے دیکھنے اور سننے والے اس پر ہنسنے لگیں۔[1]

تو دوسروں کی ہنسی مذاق اڑانے کو تمسخر کہا جاتا ہے جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے دو مرتبہ یہ حکم بیان فرمایا ہے پہلے کلی طور پر فرمایا کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ اب یہ حکم اپنی کلیت اور عمومیت کی بنیاد پر ویسے تو مردوں اور خواتین دونوں کو شامل ہے لیکن خواتین کو بطور علیحدہ خصوصی طور پر دوبارہ یہ حکم دیا کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائیں۔ اس سے اس حکم کی اہمیت اور کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ تو اس آیت میں اللہ تعالٰی نے تمسخر کی مطلق طور پر ممانعت فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی حال میں کسی دوسرے انسان کے تمسخر کے ذریعے اس کو تضحیک کا نشانہ نہیں بنا سکتا ۔ عام طور پر کچھ لوگ دوسروں کے تمسخر کے لیے جو مختلف حیلے بہانے بناتے ہیں وہ اس کے جواز پر ہرگز دلیل نہیں بن سکتے۔

تمسخر کے سماجی و معاشرتی اثرات

قرآنی تعلیمات کے مطابق دوسروں کا مذاق اڑانا جاہلوں اور نادانوں کا شیوہ ہے کہ جس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔[2] کیونکہ دوسروں کا تمسخر یا مذاق اڑانا بذات خود ایک برا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر تمام افراد کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ اور اللہ کے بندوں پر ایک بڑا ظلم بھی ہے۔ چونکہ معاشرے کے اندر رہنے والے تمام لوگ اپنے اپنے مقام پرسماجی اور معاشرتی عزت و احترام کے مالک ہوتے ہیں۔ اور جب تک ان کی یہ عزت و آبرو محفوظ ہے وہ معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو یقینا معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے مفید ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کے تمسخر کے ذریعے ان کی معاشرتی عزت و احترام اور وقار کو ہی خطرے میں ڈال دے تو اس صورت میں بعید نہیں کہ ایسا شخص ایسے جاہلوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر معاشرے کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے اپنا سماجی کردار ادا کرنا ہی چھوڑ دے اور یوں معاشرے کو اس کی صلاحیت اور قابلیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بلکہ یہ بھی بعد از قیاس نہیں ہے کہ لوگوں کے ناروا سلوک اور رویے کے نتیجے میں اس شخص کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھے، جس کا لازمی نتیجہ معاشرے میں ایسی غیر اخلاقی برائیوں کا تسلسل ہے جو کسی لحاظ سے بھی معاشرے اور سماج کے مفاد میں نہیں۔ نیز دوسروں کا تمسخر اور مذاق اڑانا کیونکہ ایک بری صفت ہے لہذا یہ خود اس کے انجام دینے والے کے لیے بھی ضرر کا باعث بن سکتا ہے چونکہ اس اخلاقی برائی کے نتیجے میں اس کی اپنی شخصیت بھی لوگوں کی نظروں سے گر سکتی ہے۔

تمسخر کے اسباب

اس ناپسندیدہ عمل کا اصلی سرچشمہ تکبر، غرور اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے۔[3]یعنی جب انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو دوسروں کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھ کر ان کی مختلف کمزوریوں کو لوگوں کے سامنے اچھالنے لگتا ہے تاکہ یوں اس کے اندر موجود غرور کے احساس کو تسکین مل سکے۔

امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: اللہ تعالٰی نے اس مقام پر ’’قوم من قوم‘‘ فرمایا اور ’’ نفس من نفس ‘‘ نہیں فرمایا۔ اور یہ تکبر کے جائز نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ متکبر شخص جب کسی محفل میں ہوتا ہے تو اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے اور پھر دوسروں کا تمسخر اڑانے لگتا ہے لیکن وہی شخص جب لوگوں کی نظروں سے دور تنہائی میں ہوتا ہے تو پھر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا یہ احساس اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا اس لیے کسی کے تمسخر کا مرتکب بھی نہیں ہوتا۔[4]

لیکن خود تکبر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کے بھی متعدد اسباب ہو سکتے ہیں کہ جن میں دولت و ثروت، علم، طاقت، اقتداروغیرہ شامل ہیں کہ جب انسان ان چیزوں کا مالک بن جائے تو بسا اوقات وہ تکبر اور خود برتربینی کا شکار ہو جاتا ہے، یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی نادانی اور جہالت کی بناء پر برتری کے حقیقی معیار سے چونکہ لاعلم ہوتا ہے لہذا تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ دوسروں کے تمسخر کرنے کا سب سے اہم سبب یہی غرور و تکبر ہے لیکن کبھی کبھی بعض دیگر اسباب بھی اس کا محرک بن سکتے ہیں کہ جن کی بناء پر انسان دوسروں کا مذاق اڑائیں، جیسے مال و دولت اور مقام اور عہدے کی لالچ یا تفریح ، حسد اور بغض و کینہ وغیرہ۔

تمسخر کا علاج

قرآن کریم نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سورہ حجرات کی اسی گیارھویں آیت کے اندر ہی تمسخر کے سب سے اہم سبب یعنی غرور و تکبر سے چھٹکارے کا طریقہ اور نسخہ بھی بیان فرمایا ہے: ’’ عَسى‏ أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ ‘‘یعنی ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ یعنی انسان ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھ لے کہ جن کو کمتر اور حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے، حقیت میں وہ ان سے بہتر ہوں، اور اللہ تعالی کے نزدیک ان کا مقام اور مرتبہ زیادہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک برتری کا معیار تقوی اور پرہیزگاری ہے۔ [5]اور تقوی کا تعلق دلوں کی پاکیزگی، اخلاص، تواضع اور کردار و گفتار سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری دولت و ثروت یا قوت و اقتدار سے۔ کیونکہ دولت، اقتدار اور ظاہری جاہ و حشم برتری اور فضیلت کے حقیقی معیارات نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہو کر بنائے گئے خود ساختہ معیارات ہیں۔

لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کے رویے سے اجتناب کرے بلکہ اس کے برعکس اپنے اندر تواضع اور فروتنی ایجاد کرتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھے اور اپنے نفس کو حقیر و کمتر سمجھے، کیونکہ اگر انسان ایسا طریقہ زندگی اختیار کرے تو حقیقی بڑائی اسی میں ہے۔ جیسا کہ حضرت امام زین العابدین دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں: و لا ترفعنی فی الناس درجۃ الّا حططتنی عند نفس مثلھا و لا تحدث لی عزاً ظاہراً الّا احدثت لی ذلۃ باطنۃ عند نفس بقدرھا۔[6] یعنی (اے اللہ!) اور لوگوں میں میرا درجہ جتنا بلند کرے اتنا ہی مجھے خود اپنی نظروں میں پست کر دے اور جتنی ظاہری عزت مجھے دے اتنا ہی میرے نفس میں باطنی بے وقعتی کا احساس پیدا کر دے۔

اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومنین تمسخر کی اس بری صفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے آیت کے اس حصے ’’عَسى‏ أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ ‘‘ کو ہمیشہ مدنظر رکھے اور کبھی بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھے بلکہ اپنے آپ کو دوسروں سے حقیر سمجھے، تاکہ اس کی شخصیت کا وقار بڑھے اور معاشرے سے تمسخر جیسے اخلاقی برائی کا خاتمہ ہو سکے۔

۲۔ عیب جوئی

’’ وَلاتَلْمِزُواأَنْفُسَكُمْ‘‘

تلمزوا کے لفظ کا مصدر ’’لمز‘‘ ہے جس کا مطلب کسی دوسرے کی عیب جوئی کرنا ہے۔[7]

قرآن نے یہاں آیت میں ’’انفسکم‘‘ کا لفظ استعمال کر کے درحقیقت اہل ایمان کے اتحاد و اتفاق کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ تمام مومنین ایک نفس کی مانند ہیں کہ اگر وہ ایک دوسرے کی عیب جوئی کریں تو یہ ایسے ہی ہے کہ گویا انہوں نے خود اپنی ہی عیب جوئی کی ہے۔[8]

اور اہل ایمان کا یہی اتفاق و اتحاد ہی اس بات کا سبب ہے کہ ان کو اس ناپسندیدہ عمل سے روکا گیا ہے۔[9] کیونکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ’’انما المؤمنون اخوۃ ‘‘[10] لہذا گویا کہ ان کے اندر اس قدر اتحاد و اتفاق ہونا چاہیے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی اور ایک ہی جان کی مانند ہوں کہ اگرکوئی ان میں سے کسی ایک کی بھی عیب جوئی کرے تو گویا کہ خود اس کے اپنے بھائی یا اپنی ہی عیبجوئی کی گئی ہو۔

عیب جوئی کے سماجی ومعاشرتی اثرات

اس اخلاقی برائی کے برے اثرات میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ عیب جوئی کی وجہ سے معاشرے اور سماج کے اندر اختلاف و انتشار پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ کسی معاشرے میں اگر لوگ ایک دوسرے کے عیوب کی تلاش میں رہیں اور عیب جوئی پر اتر آئیں تو اس سے معاشرے کی وحدت کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور ایسا معاشرہ لوگوں کی نظروں میں برا اور ناپسندیدہ معاشرہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں عیب جوئی کے اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ یہ بعض دوسرے گناہوں کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جیسے بدگمانی، غیبت، اور تجسس وغیرہ۔ کیونکہ ہمیشہ دوسروں کی عیب جوئی کرتے رہنے کے لیے وہ دوسروں کے عیوب کی ٹوہ میں لگا رہے گا اور ان کے بارے میں مختلف بدگمانیوں میں بھی مبتلا ہو گا پھر جب کسی میں کوئی عیب تلاش کر لے تو دوسروں کے سامنے اسے بیان بھی کرے گا یوں غیبت کا بھی مرتکب ہو گا۔

دوسروں کی عیب جوئی کرنے والا آدمی معاشرے کے ہر فرد کی عزت و آبرو کے لیے خطر کا باعث بن سکتا ہے لہذا ایسا شخص معاشرے کے دیگر لوگوں کے باہمی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

عیب جوئی کا علاج

انسان خطا کا پتلا ہے اور کوئی شخص عیوب اور غلطیوں سے پاک نہیں ہوتا لہذا دوسروں کی عیب جوئی کرتے رہنا خود انسان کی اپنی کمزوری ہے۔ رسول اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق دوسروں کی عیب جوئی کرنا بجائے خود اس شخص کے لیے بہت بڑا عیب ہے۔جیسے آپؐ نے اپنی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے: ‏كَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ يُبْصِرَ مِنَ النَّاسِ مَا يَعْمَى عَلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَ أَنْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لَا يَعْنِيهِ.[11]

انسان کے لیے یہی بہت بڑا عیب ہے کہ جو عیب خود اس کے اپنے اندر ہے اس پر تو اس کی نظر نہیں پڑتی لیکن وہ دوسروں کے عیب کو دیکھتا ہے۔ اور اپنے ساتھی کو غیر اہمباتوں کی وجہ سے تکلیف پہنچاتا ہے۔

اسی طرح حضرت امام محمد باقر نے بھی اسی مطلب کو اپنے ایک بیان میں ارشاد فرمایا ہے: كَفَى بِالْمَرْءِ عَيْباً أَنْ‏ يَتَعَرَّفَ‏ مِنْ‏ عُيُوبِ‏ النَّاسِ‏ مَا يَعْمَى عَلَيْهِ مِنْ أَمْرِ نَفْسِهِ أَوْ يَعِيبَ عَلَى النَّاسِ أَمْراً هُوَ فِيهِ لَا يَسْتَطِيعُ التَّحَوُّلَ عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ أَوْ يُؤْذِيَ جَلِيسَهُ بِمَا لَا يَعْنِيهِ۔[12]

انسان کے لیے یہی بہت بڑا عیب ہے کہ جو عیب خود اس کے اپنے اندر ہے اس پر تو اس کی نظر نہیں پڑتی لیکن وہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں رہتا ہے، یا دوسروں کے اندر ایسی غلطیاں نکالتا ہے کہ جن کا وہ خود شکار ہے اور جس سے وہ خود جان نہیں چھڑا سکتا۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں اور ان کے عیوب کی ٹوہ میں رہنے کی بجائے خود اپنی غلطیوں کی اصلاح کی فکر میں رہے، کیونکہ کسی بھی عقلمند انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے دوسروں کی عیب جوئی کرتا پھرے۔

لہذا اس عیب جوئی کی بیماری کا علاج صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان جس طرح اپنے عیوب کو دوسروں کے سامنے بیان کرتا نہیں پھرتا اسی طرح وہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں بھی نہ رہے بلکہ جس طرح اللہ تعالی اپنے بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی فرماتا ہے کہ وہ ’’ستار العیوب‘‘ ہے اسی طرح اللہ کی صحیح بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے عیوب کو چھپائے۔

۳۔ بد القابی

’’ وَ لا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإيمانِ ‘‘

’’نبز‘‘ لقب کو کہتے ہیں اور یہ لفظ برے القاب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’تنابزوا‘‘ باب تفاعل سے ہے کہ جو دو طرفہ فعل کے لیے استعمال ہوتا ہے لہذا آیت کا معنی یہ ہو گا کہ ایک دوسرے کو برے القاب نہ دو۔[13]

تو اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مومنین کو ایک دوسرے کو برے ناموں اور برے القابات کے ساتھ پکارنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ جب کسی کو غلط اور برے القابات سے پکارا جائے تو اس سے لوگوں کے سامنے اس کی تضحیک ہو تی ہے اور اسلام کسی کی تضحیک اور بے احترامی کی اجازت نہیں دیتا۔

بد القابی کے سماجی و معاشرتی اثرات

بدالقابی کی روک تھام انسانوں کی سعادت اور اخلاقی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ جیسا کہ ذکر ہوا کسی کو برے القاب اور ناموں کے ساتھ پکارنے سے وہ حقارت کے احساس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یوں وہ نفسیاتی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرے اور سماج سے کٹ کر تنہائی میں زندگی گزارنے کو ترجیح دینے لگتا ہے لہذا معاشرہ اس کی خدمات سے محروم رہ جاتا ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہذا لوگوں کو برے القاب سے یاد کر کے ان کو معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کرنا خود بہت بڑی برائی ہے جس سے انسان کو اجتناب کرنا چاہیے۔

اس آیت کے مطالعے سے بطور خلاصہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسروں کا مذاق اڑانا، عیب جوئی کرنا ، دوسروں کو برے القاب سے پکارنا اور دوسروں کی بے احترامی اور توہین آمیز رویہ اختیار کرنا ایسی اخلاقی برائیاں ہیں کہ جنسے اللہ تعالٰی نے روکا ہے کیونکہ ان کے ارتکاب سے لوگوں کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے جس کے باعث لوگوں کے درمیان محبت اور بھائی چارگی کو نقصان پہنچتا ہے اور پورے معاشرے میں ایک بے چینی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ لہذا لوگوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنے اور معاشرے سے بے چینی کی فضا کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان ان اخلاقی برائیوں سے اجتناب کریں۔

اس کے بعد آیت نمبر ۱۲ کے اندر اللہ تعالی کچھ ایسے اخلاقی اصول بیان فرماتا ہے کہ جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک مسلمان حتی اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات اور افکار کو بھی پاک رکھ سکتا ہے اور اپنے مومن بھائی کی غیر موجودگی میں بھی اس کی عزت و آبرو کی حفاظت پر تیار ہو جاتا ہے اور کسی ایسے کام کے اجتناب سے پرہیز کرتا ہے کہ جس سے اس کے مسلمان بھائی کی عزت خطرے میں پڑ جائے۔

اس آیت میں بدگمانی، تجسس اور غیبت جیسی اخلاقی برائیوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے کہ جن میں مبتلا ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بہت ساری مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

۴۔ بدگمانی کی ممانعت

’’ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثيراً مِنَ الظَّنِ‏ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ‏ إِثْمٌ ‘‘

اس آیت میں گمان سے مراد یہ کہ انسان بغیر کسی دلیل کے کوئی گمان کرے اور اس پر عمل کرے، کیونکہ صرف گمان کا ذہن میں پیدا ہونا تو نفسیاتی ادراک کی ایک قسم ہے جو انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا۔[14]

لہذا اگر کسی کے بارے میں برا گمان ذہن میں پیدا ہو جائے تو اس گمان کی وجہ سے کوئی رد عمل انجام دینے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اصل میں جس گمان سے روکا گیا ہے وہ یہی ہے کہ اس کے اوپر کوئی رد عمل انجام دیا جائے ۔

زیادہ گمانات (کثیرا من الظن) سے ممانعت کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ لوگوں کے درمیان حسن ظن سے زیادہ بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔[15] ورنہ حسن ظن اور نیک گمان رکھنا نہ صرف گناہ نہیں ہے بلکہ اچھا اور قابل تحسین بھی ہے۔

امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اللہ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جس چیز کے بارے میں تم علم رکھتے ہو اس کے برخلاف بات کرنے سے اجتناب کرو ، اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اس کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب کرو۔ کیونکہ علم کے خلاف بات کرنا جھوٹ اور تہمت ہے، اور شک کی بنیاد پر بات کرنا بے وقوفی ہے۔ جبکہ یہ دونوں بری صفات ہیں۔ لہذا اللہ نے ان دونوں برائیوں کی نہی کے لیے ’’یا ایھا الذین آمنوا‘‘ خطاب کے ذریعے ایمان کی صفت پر ہی اکتفا فرمایا ہے کہ خود یہی ایمان کی صفت ہی مومنین کو تہمت اور شک سے دور رکھتی ہے۔ لیکن مومنین کو ایسی برائیوں سے روکا ہے کہ جو ان کے درمیان عام ہیں کہ ان میں سے ایک یہی بدگمانی ہے۔[16]

مزید یہ کہ اس آیت میں بہت سے گمانوں سے منع فرمانے کے بعد دلیل کے طور پر یہ کیوں فرمایا گیا کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں؟ تو تفسیر نمونہ میں اس سوال کے جواب میں بیان ہوا ہے کہ بعض بدگمانیاں واقعیت پر مبنی ہوتی ہیں، اور بعض واقع کے برخلاف ہوتی ہیں، اور جو بدگمانیاں واقع کے برخلاف ہوں وہ یقیناً گناہ ہیں۔ لہذا یہی یقینی گناہ کا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ انسان تمام قسم کی بدگمانیوں سے اجتناب کرے۔[17]

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بدگمانی درحقیقت اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے لہذا یہ خود اللہ کے بارے میں بدگمانی ہے۔ جیسے کہ پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’من أساءبأخيه الظن فقدأساء بربه انالله يقول اجْتَنِبُواكَثِيراًمِنَ الظَّن‘‘ یعنی جو اپنے بھائی کے بارے میں بدگمانی کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے پروردگار کے بارے میں بدگمانی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ زیادہ بدگمانیوں سے پرہیز کرو۔[18]

بدگمانی کے سماجی و معاشرتی اثرات

لوگوں کے بارے میں بدگمانی کرنے سے ان کی شخصیت کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ جبکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانوں کی شخصیت اور عزت نفسکو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ لہذا قرآن نے لوگوں کی شخصیت کے احترام میں صاحبان ایمان کو یہاں تک حکم دیا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں بھی ان کے بارے میں برے خیالات نہ لائیں۔ اور اس حکم الٰہی کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنا لوگوں کے مابین دوستانہ تعلقات کی بنیادیں مضبوط ہوں گی اور ایک دوسرے سے الفت و محبت کا رشتہ جتنا پائدار ہو گا اتنا ہی زندگی کے نیک اجتماعی اور معاشرتی اہداف تک رسائی آسان ہو گی۔ لہذا بدگمانی اور آپس کی محبت و دوستی میں خلا ڈالنے والے خیالات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر کسی معاشرے میں بدگمانیوں کا سلسلہ بڑھ جائے تو اس سے لوگوں کے ایک دوسرے پر اعتماد کو ٹھیس پہنچے گا جس سے آپس میں نفرت و کدورت کی آگ بھڑک اٹھے گی جو معاشرے کے اجتماعی شیرازے کو بکھیر کر رکھ دے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ انسان دوسروں پر حسن ظن رکھے۔ حضرت امام علی فرماتے ہیں: ’’ و لا تظنن بکلمۃ اخرجت من اخیک سوء و انت تجدلھا فی الخیر محملا‘‘[19] یعنی اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی باتوں کے بارے میں بدگمانی مت کرو جبکہ تم اس بات کے بارے میں حسن ظن بھی قائم کر سکتے ہو۔

اس کے علاوہ بدگمانی کے برے اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ خود بدگمان شخص کے لیے بھی نفسیاتی اور روحانی طور پر نقصان دہ ہے کیونکہ وہ اپنی اس بری صفت کی وجہ سے تمام لوگوں کے بارے میں بدگمانیوں میں مبتلا رہتا ہے جس کی وجہ سے کسی پر اعتماد نہیں کر سکتا اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے سے ڈرتا ہے اور یوں خود ہی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر اس کی یہ بری صفت اندر اندر سے خود اس کی اپنی شخصیت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے جس سے اس کی شخصیت پروان چڑھنے سے رک جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت علی فرماتے ہیں: ’’من لم یحسن ظنہ استوحش من کل احد۔‘‘[20] یعنی جو حسن ظن نہیں رکھتا وہ ہر ایک سے ڈرتا رہتا ہے۔ اور یوں وہ نفسیاتی طور پر ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا ہو کر معاشرے سے بالکل ہی الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس حسن ظن رکھنے کی صورت میں ایسا شخص ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے اور یوں وہ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں حصہ لیتا ہے جس سے اس کے اپنے وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اس سے معاشرے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

۵۔ تجسس کی ممانعت

’’ وَلاتَجَسَّسُوا‘‘

تجسس دوسروں کے عیب تلاش کرنے، ان کے گھریلو حالات کی ٹوہ میں رہنے اور لوگوں کے نجی معاملات کے پیچھے رہنے کو کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر نامطلوب چیزوں کی ٹوہ میں رہنے کو تجسس کہا جاتا ہے۔ لہذا ’ وَلاتَجَسَّسُوا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عیوب اور ان کی خامیوں کی ٹوہ میں نہ پڑو اور جن کو لوگوں نہ پوشیدہ رکھا ہے انہیں آشکار نہ کرو۔[21]

جلال الدین سیوطی نے ابن جریر اور ابن منذر سے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ ’’ وَلاتَجَسَّسُوا ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو ظاہر ہے اسے لے لو اور جسے اللہ نے پوشیدہ رکھا ہے اسے چھوڑ دو۔[22] یعنی لوگوں کے ساتھ معاملات میں ان کے ظاہر پر اکتفاء کرو، نہ کہ ان کے پوشیدہ عیوب اور خامیوں کی ٹوہ میں لگ کر انہیں آشکار کرنے کی کوشش کریں۔ جب خود اللہ تعالٰی نے ان کے بعض عیوب کے اوپر پردہ ڈالا ہے تو بندوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ انہیں آشکار کریں۔

اس آیت کریمہ کے اندر اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بدگمانی سے باز رہنے کے حکم کے فورا بعد انہیں لوگوں کے عیوب کی ٹوہ میں رہنے سے منع فرمایا، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجسس کی اصلی وجہ یہی دوسروں کے بارےمیں بدگمانی ہے۔ یعنی جب کوئی شخص دوسروں کے بارے میں بدگمانی کا شکار رہے گا تو یہ اس کے لیے اس بات کا بھی باعث بنے گا کہ وہ لوگوں کے مخفی عیوب اور خامیوں کی ٹوہ میں پڑے، اور ان عیوب کو لوگوں کے سامنے آشکار کرتا پھرے۔ لیکن قرآن کریم واضح اور دوٹوک الفاظ میں اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ تجسس سے باز رہیں۔ تاکہ لوگ اپنی نجی زندگی کے معاملات میں امن و سکون محسوس کریں۔ کیونکہ اگر لوگوں کا ایک دوسرے کے مخفی اور پوشیدہ عیوب کی ٹوہ میں رہنا درست قرار پائے تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا اور نتیجتاً معاشرے میں تمام لوگوں کی نجی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی اور پھر پوشیدہ خامیوں کے منظرعام پر آنے کے بعد لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد بھی اٹھ جائے گا، اور یوں معاشرے کے اندر ایک بے چینی کی فضا قائم ہو گی جس سے معاشرے کا اجتماعی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ لہذا قرآن کریم نے اس بری صفت سے روکا تاکہ لوگ ان بیہودہ کاموں میں مصروف رہ کر اپنی اور دوسروں کی زندگی کے نظم و ضبط میں خلل ڈالنے کے بجائے اچھے اور مثبت کاموں کی طرف راغب ہوں جس سے معاشرے کے اندر اخلاقی اقدار کو فروغ مل سکے اور معاشرہ ترقی اور بہتری کی جانب گامزن ہو سکے۔

۶۔ غیبت

’’ وَ لا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ ‘‘

غیبت سے مراد پیٹھ پیچھے کسی کی ان برائیوں کو بیان کرنا ہے کہ جن کو سن کر اسے ناگوار گزرے۔ چاہے اس کی کسی جسمانی برائی کا تذکرہ ہو یا اخلاقی برائی کا یا اس کے کردار اور اعمال سے متعلق کسی برائی کا تذکرہ ہو یا اس کی باتوں، لباس، گھر، بیوی وغیرہ سے متعلق ہو ، اور چاہے واضح الفاظ میں برائی کا تذکرہ ہو یا اشارے اور کنائے سے، یہ سب غیبت کے مفہوم میں شامل ہیں۔[23]

کیونکہ غیبت کی نہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے مومن بھائی کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ تکلیف یقینا غیبت کی ان تمام صورتوں میں پہنچتی ہے۔

پس غیبت پیٹھ پیچھے لوگوں میں پائے جانے والے ان عیوب اور خامیوں کا تذکرہ ہے جسے وہ سننا ناپسند کرتے ہوں۔ اب معاشرے میں عام طور پر جو لوگ دوسروں کی غیبت کرتے ہیں وہ اپنےاس عمل کی توجیہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم تو اس میں پائے جانے والے عیب اور برائی ہی کا تذکرہ کر رہے ہیں، کوئی غلط نسبت تھوڑی دے رہے ہیں، لہذا یہ غیبت تو نہیں ہے! تو یہ سوچ دراصل غیبت کی حقیقت سے لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ غیبت کہتے ہی اسی کو ہے کہ انسان پیٹھ پیچھے دوسروں کے اندر پائے جانے والی برائیوں اور خامیوں کا تذکرہ کرے، ورنہ اگر کوئی اس سے آگے بڑھتے ہوئے کسی کی طرف ناحق طور پر ایسی برائیوں کی نسبت دے جو اس کے اندر پائی ہی نہ جاتی ہوں تو یہ تہمت ہے جس کا گناہ غیبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ جیسے کہ پیغمبر اکرمﷺ نےایک حدیث میں غیبت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے اسی نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے: ’’ھو ان تقول لاخیک ما فی، فان کنتَ صادقاً فقد اغتبتَہ و ان کنتَ کاذباً فقد بھتہ۔‘‘[24] یعنی غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کی ان (برائیوں) کا تذکرہ کرو کہ جو اس میں پائی جاتی ہیں، پس اگر اس میں وہ (برائی) ہے کہ جو تو کہتا ہے تو تو نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر تو جھوٹا ہے اور اس میں وہ (برائی) نہیں ہے جو تو کہتا ہے تو بے شک تو نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

غیبت اللہ تعالٰی کے نزدیک اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ اس نے نہایت شدید الفاظ میں اس کی ممانعت فرمائی ہے اور اس عمل کی برائی کو واضح کرنے کے لیے اسے اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ گویا کہ مسلمان بھائی کی عزت و آبرو اس کے بدن کے گوشت کی طرح ہے اور جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ چونکہ غایب اور بےخبر ہوتا ہے اور اپنا دفاع نہیں کر سکتا لہذا وہ مردوں کی طرح ہے۔[25]

غیبت کے سماجی و معاشرتی اثرات

انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی عزت اور آبرو ہے، لیکن غیبت اس سرمائے کو ختم کر دیتی ہے۔ غیبت کی وجہ سے انسان کی معاشرتی اور سماجی حیثیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ غیبت لوگوں میں بدگمانی کا باعث بنتی ہےجس سے لوگوں کے اجتماعی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اور یوں نہ صرف معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنے جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ پورا معاشرہبرائی کی طرف چلا جاتا ہے۔ غیبت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں نفرتیں اور کدورتیں پیدا ہوتی ہیں اور دشمنیاں بڑھ جاتی ہیں۔ لہذا ان تمام برے اثرات کی وجہ سے اسلام نے اس کی شدید الفاظ میں ممانعت فرمائی ہے۔

کیونکہ اللہ تعالٰی نے اسی اجتماعی زندگی کے نظام کو باقی رکھنے کی خاطر لوگوں کے گناہوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے اور اگر خدانخواستہ اس کی طرف سے انسانوں کے عیوب اور گناہوں کی پردہ پوشی نہ ہوتی تو معاشرے کا اجتماعی نظام تشکیل پا ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ کوئی بھی انسان عیوب اور خامیوں سے پاک نہیں ہے۔[26]

غیبت کے اسباب

غیبت کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں، جیسے :

۱۔ کسی پر غصہ آنے کی وجہ سے یا دشمنی کی وجہ سے غیبت کرنا۔

۲۔ کسی سے حسد کی وجہ سے غیبت کرنا۔

۳۔ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے کی خاطر اپنی تعریف جبکہ دوسروں کی غیبت کرنا۔

۴۔ لوگوں کو ہنسانے کی خاطر اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کسی غیبت کرنا۔

۵۔ کسی کا مذاق اڑانے اور تمسخر کی خاطر غیبت کرنا۔

۶۔ لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر یا مال و دولت اور مقام کی لالچ میں غیبت کرنا۔

۷۔ کسی میں موجود عیب کی وجہ سے افسوس کے اظہار کے طور پر غیبت کرنا۔

۸۔ کسی کے گناہ پر تعجب کرتے ہوئے، اللہ کی خاطر اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے غیبت کرنا۔[27]

لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ ان میں سے کسی دلیل کی بناءپر بھی غیبت کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر غیبت کی بیماری میں مبتلا شخص اپنے اس برے عمل پر ندامت کا اظہار نہ کرے تو یہ اخلاقی برائی آہستہ آہستہ ایک عادت کی صورت میں اس کے اندر راسخ ہو سکتی ہے، جس کے بعد پھر وہ دوسروں کی غیبت کر کے دلی سکون محسوس کرنے لگے گا اور اس ناپسندیدہ عمل کی برائی اس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ ابتدا میں ہی فوری طور پر اس برائی سے اپنے آپ کو بچائے۔

غیبت کا علاج

غیبت جیسی اخلاقی برائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان پہلے اپنے اندر پائے جانے والے غیبت کے اسباب و علل کو تلاش کرے پھر اس کی اصلاح کر کے اس برائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ مثلا غیبت کے جو مختلف اسباب و علل ہیں جن میں حسد، دشمنی، لالچ، غصہ، تکبر وغیرہ شامل ہیں ، پہلے ان برائیوں سے نجات اور اپنی اخلاقی اصلاح کے لیے خود سازی کا عمل شروع کرے۔

نیز غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان غیبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے براے اثرات اور نتائج کے بارے میں غور کرے اور سوچے کہ اس کے اس فعل کی وجہ سے کس قدر معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور کس قدر لوگوں کے آپس کے روابط اور تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔تاکہ ان کو مدنظر رکھ کر یہ غیبت سے بچ سکے۔ نیز غیبت کی مذمت میں قرآن و سنت میں وارد ہونے والی آیات و روایات کا مطالعہ کرنے سے بھی غیبت سے جان چھڑانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ ان آیات اور روایات میں غیبت کے برے نتائج کو بیان کیا گیا ہے جن سے آگاہی کے بعد صاحبانِ ایمان غیبت سے بچنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں غیبت کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس عمل سے توبہ کرے اور اس کی تلافی بھی کرے۔ غیبت کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اگر غیبت کرنے والے شخص سے معافی مانگ سکتا ہے تو اس سے معافی مانگ لے ورنہ اس کے حق میں دعا کرے اور اس کی مغفرت کی دعا کرے۔ جیسے کہ حضرت امام جعفر صادق؛ پیغمبر اکرمﷺ کی ایک حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ غیبت کا کفارہ کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ تستغفر لمن اغتبتہ کلما ذکرتہ۔‘‘[28] غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی ہے، جب بھی اس کا ذکر آئے تو اس کے لیے مغفرت طلب کرو۔

نتیجہ

اللہ نے ہر انسان کو جو عزت و آبرو دی ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بہانے سے ان کی عزت کو داؤ پر لگائے۔ اللہ تعالٰی ’’ستار العیوب‘‘ ہے اور وہ اپنے بندوں سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کرے۔ اور ہر ایسے عمل اور قول سے اجتناب کرے جس سے کسی کی عزت خطرے میں پڑ سکتی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے توبہ اور بخشش کا دروازہ اپنے خطاکار بندوں کے لیے ہمیشہ کھلا رکھا ہے لہذا ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ جو کسی برائی یا عیب میں مبتلا ہوں وہ کبھی اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگے اور ’’غفار الذنوب‘‘ اسے معاف فرما دے۔ یوں جس نے اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے اچھال کر اس کی عزت و وقار کو داغدار کیا ہے، کل اسے ہی اپنے رب کے عقاب کا سامنا کرنا پڑے۔ لہذا صاحبانِ ایمان کو چاہیے کہ وہ سورہ حجرات کی گیارھویں اور بارھویں آیات مبارکہ کے اندر ذکر شدہ اخلاقی برائیوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں، اور اللہ رب العزت نے ہر انسان کی پردہ پوشی کے ذریعے اسے دوسروں کی نظروں میں جس عزت و وقار سے نوازا رکھا ہے، اسے ان کی برائیوں اور خامیوں کے تذکرے کے ذریعے خطرے میں نہ ڈالیں تاکہ معاشرے میں انتشار و اضطراب کی کیفیت پیدا نہ ہو اور لوگ فکری آزادی کے ساتھ معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

حوالہ جات

  1. طباطبائی ، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن (بیروت:مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1403ھ) ج18، ص 488
  2. القرآن :2/67
  3. شیرازی ، ناصر مکارم ،تفسیر نمونہ ( قم : دار االکتب الاسلامیہ، سندارد ) ج22، ص183
  4. الرزای ،محمد فخر الدین، التفسیر الکبیر(بیروت : دار الفکر، 1423ھ )، ج14، ص 133
  5. القرآن 13 / 49:
  6. حیفہ سجادیہ، دعائے مکارم الاخلاق، بیسویں دعا
  7. المیزان، ج18، ص 482
  8. تفسیر نمونہ، ج22، ص179
  9. المیزان، ، ج18، ص 485
  10. القرآن 10 / 49 :
  11. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الكافي محقق و مصحح: علی اکبر غفاری، محمد آخوندی (تهران: دار الکتب الاسلامیہ، 1408ھ ق) ، چاپ چهارم ،ج2، ص 420
  12. ایضا، ج2، ص 420
  13. المیزان ج18، ص 482
  14. لمیزان، ج18، ص /483ناصر مکارم شیرازی ،تفسیر نمونہ، ج22، ص 180
  15. لمیزان، ج18، ص /483ناصر مکارم شیرازی ،تفسیر نمونہ، ج22، ص 180
  16. التفسیر الکبیر، ج14، ص 137
  17. تفسیر نمونہ، ج22، ص183
  18. جلال الدین سیوطی ،الدر المنثور فی تفسیر الماثور، ج6، ص 92 (قم: کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ ق)
  19. محمد بن حسن حر عاملی وسائل الشیعہ، ( تہران : نشر اسلامیہ،1367 ھ ش) چاپ ششم ،ج8، ص614
  20. عبد الواحد بن محمد تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الحکم(قم: دار الکتاب الاسلامی، 1410ھ) چاپ دوم ، ص 660۔ عیون الحکم و المواعظ ، علی بن محمد لیثی واسطی( قم : دار الحدیث، سندارد) ص465
  21. ابن جریر طبری، تفسیر طبری، (بیروت: دار الفکر،1421ھ ق) ج13، ص 157
  22. الدر المنثور، ج6،ص 92
  23. المیزان، ج18، ص 484۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج22، ص 192
  24. ابن جریر طربی,تفسیر الطبری ج13، ص158 / جلال الدین سیوطی، الدر المنثور،ج۶، ص۹۴
  25. المیزان، ج۱۸، ص485
  26. ایضا
  27. کیمیای سعادت، ابو حامد غزالی۔
  28. وسائل الشیعۃ، ج8،ص606
  1. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn1
  2. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn2
  3. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn3
  4. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn4
  5. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn5
  6. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn6
  7. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn7
  8. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn8
  9. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn9
  10. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn10
  11. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn11
  12. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn12
  13. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn13
  14. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn14
  15. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn15
  16. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn16
  17. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn17
  18. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn18
  19. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn19
  20. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn20
  21. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn21
  22. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn22
  23. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn23
  24. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn24
  25. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn25
  26. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn26
  27. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn27
  28. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn28
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...