Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

ایسر التفاسیر اور اضواء البیان فی تفسیر القرآن کا تقابلی مطالعہ |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

قرآن مجید اللہ تعالی کی آخری کتاب جس کیے اولین مفسر و موضح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے جن کے اقوال مبارک ہمیں کتب احادیث میں باقاعدہ تفسیر کے عنوان کے تحت نظر آتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں کتاب التفسیر یا دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور آتا ہے جن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (۱) اور دیگر صحابہ معروف ہیں اور پھر اس کے بعد تابعین کا دور آتا ہے اور اسی طرح علماء اس امر کا اہتمام کرتے رہے کہ کلام اللہ کی وضاحت اور توضیح امت مسلمہ کے لیے ممکن بنائی جا سکے۔جس کے بعد فہم قرآن ممکن ہو سکے۔

قرآن مجید کی فہم کے حوالے سے جہود کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے جس کا آغاز امام المفسرین مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیری اقوال کے مجموعہ سے ہوتا ہے(۲) اور اس کی مکمل فہرست کا مرتب کیا جانا ناممکن ہے۔لیکن اس میں کچھ نام ایسے ہیں جن کی جہود تاریخ میں سنہرے کلمات کی صورت میں لکھی جائیں گی مثلا امام ابن کثیر کی تفسیر القرآن العظیم ہر مفسر کے لیے مرجع و اساسی مصدر بن گئی ہے ۔

یہ واضح رہے کہ تفسیر قرآن کا نبوی منهج کے تحت لکھی جانے والی کتب تفاسیر کا اولین ماخذ خود قرآن مجید اور فرامین رسالت ہیں اس اعتبار سے مرتب کی جانے والی تفاسیر میں عصرحاضر میں لکھی جانے والی مشہور و معروف تفسیر"ایسرالتفاسیر"سر فہرست ہے جو کہ مشہور الجزائری عالم دین ابوبکر الجزائری کی سلف سے اخذ کردہ فہم کا خلاصہ ہے۔ابو بکرجابر بن عبداللہ الجزایری الجزائر کی ایک مشہور بستی میں ۱۹۲۱ میں پیدا ہوئے۔بچپن میں ہی جب آپ کی عمر صرف ایک سال کی تھی آپ کے والد محترم وفات پا گئے اور والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ جو کہ ایک صالحہ اور نیک خاتون تھی انہوں نے اپنے بیٹے کی درست اسلامی خطوط پر تربیت کا عزم صمیم کرلیااور اپنی مکمل زندگی اس کے لیے وقف کر دی چنانچہ صرف ۱۲ سال کی عمر میں آپ مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا ۔اور اسی دوران لغت کی بعض کتب اور فقہ مالکی کی بعض متون بھی یاد کر لیاور اس کے بعد مشہور شہر بسکرہ منتقل ہو گئے اور دیگر تمام دینی اور دنیاوی علوم کی تکمیل کی۔(۳) اور اس کے بعد ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ نے اپنے گاؤں میں ہی طے کیے اور اس کے بعد آپ الجزائر کے دارالحکومت منتقل ہو گئے اور وہاں اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک ابتدائی مدرسہ میں تدریسی فرائض بھی انجام دینا شروع کر دیے۔تقریبا ایک سال آپ نے اس اسکول میں پڑھایا۔اسی دوران اپ نے اپنی تعلیم کے حوالے سے مشہور عالم دین الشیخ الطیب ابو قیر کے دروس میں مسلسل حاضر رہتے ہوئے ان سے استفادہ کیا۔آپ نے شیخ الطیب سے توحید اور سنت نبوی کے علوم حاصل کرتے رہے۔(۴)ابھی آپ انہی امور میں مشغول تھے کہ جب آپ کی عمر صرف ۳۱ سال تھی فرانسیسی استعمار جو الجزائر پر قابض تھا ان سے شیخ ابو بکر الجزائری کا عقیدہ سلف صالحین کی نشر اشاعت کرنا برداشت نہ ہوا اور انہوں اس حوالے سے آپ پر سختی شروع کر دی۔اور بعض مقامات پر آپ کے دروس پر پابندی لگا دی گئی۔

اس کے بعد آپ سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کی اس وقت سعود خاندان کے بانی ملک عبد العزیز کے بڑے صاحبزادے ملک سعود بن عبد العزیز حکمران تھے جو کہ علم دوست مشہور تھے۔اور انہوں نے مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک بین الاقوامی جامعہ کی بنیاد رکھی جو کہ جامعہ اسلامیہ کے نام سے مشہور ہے ۔ابو بکر الجزائری نے حکومت سعودیہ کہنے پر جامعہ اسلامیہ میں ایک استاد کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ خدمات انجام دیں یعنی ۱۳۸۰ ہجری سے لے کر ۱۴۰۶ ہجری میں سے ریٹائرڈ ہوئے۔(۵) اور جامعہ اسلامیہ میں تدریس کے دوران بین الاقوامی تنظیم رابطہ العالم الاسلامی میں مشیر اور معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔آپ کا رجحان ابتدائی زمانہ سے ہی تصنیف و تالیف کی طرف تھا لہذا آپ نے مختلف اوقات میں کتب تحریر کیں جن کا تعلق تفسیر ، حدیث ، فقہ ،ادب ، سیرت، تاریخ، اور رسائل جزائری، وغیرہ سے تھا اور ان کی کل تعداد ۸۰ کے قریب ہے جن میں سے دس کتب ضخیم ہیں جن میں مذکورہ بالا تفسیر ایسر التفاسیر، منہاج المسلم، ہذا الحبیب، عقیدہ مؤمن قابل ذکر ہیں ان میں سے کچھ کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے جس میں عقیدہ مؤمن اور منہاج المسلم اہم ہیں ان دونوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کتابچہ بھی تحریر کیے جن کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

 تعارف تفسیر "ایسرالتفاسیر"

ایسر التفا سیر مشہور تفسیر جو کہ اس وقت دنیا کے مختلف جامعات اور اداروں میں ایک نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھائی جا رہی ہے ایک یہی امر اس کتاب کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے واضح ہے یہ کتاب چار ضخیم جلدوں میں تالیف کی گئی ہے اور ہر جلد تقریبا ۷۰۰سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔

یہ تفسیر جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ تفاسیر میں سب سے زیادہ آسان فہم و تفہیم ہے کہ اگر کوئی مبتدی اس سے استفادہ کرناچاہے تو اس کے لیے انتہائی آسان اسلوب موجود ہے جیسا کہ آئندہ سطور میں بیان کیا جائے گا۔اور اسی وقت اگر کوئی عالم دین اس سے استفادہ کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی شیخ ابو بکر الجزائری نے ایسا منہج اختیار کیا جس سے علماء دین بھی مستغنی عنہ ہیں ہو سکتے ۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی قسم کے مسلکانہ تعصب سے پاک ہے کیونکہ اس کا ماخذ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے اور کتاب و سنت کو اپنا ماخذ بنانے کے نتیجے میں سب سے بڑا فائدہ جو حاصل ہوتا ہے وہ دین اسلام کی اصل اور حقیقی روح کا حاصل ہونا ہے ۔

گو کہ بعض علماء نے اس تفسیر کے بعض مندرجات پر اعتراض بھی کیا ہے اور انہیں سلف صالحین کے منہج سے الگ قرار دیا ہے تو درحقیقت اس قسم کے اعتراضات کی وجہ تحریر میں ابہام کا پایا جانا ہے۔جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت : ان الذین کفروا سوآء علیہم اانذرتھم ام لم تنذرھم لا یؤمنون (۶) اس میں ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ کفر کی تعریف ان لفظوں میں کرتے ہیں کہ :’’الكفر لغة التغطية والجحود وشرعاً التكذيب بالله وبما جاءت به رسله عنه كلاً أو بعضاً‘‘ (۷)

اور یہ امر معروف ہے کہ سلف صالحین کے نزدیک کفر کی یہ تعریف نامکمل اور ادھوری ہے جو کہ ایک گمراہ فرقہ مرجیتہ کی تعریف سے مشابہت رکھتی ہے۔جو کہ صرف تکذیب کو ہی کفر سمجھتے ہیں جبکہ کفر کی مکمل تعریف صرف تکذیب یعنی جھٹلانے سے تعبیر نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر امور بھی پائے جاتے ہیں جن کے لیے کتب عقیدہ کا مطالعہ مفید ہے۔

۱۔اسلوب بیان

اس کتاب میں مؤلف حفظہ اللہ نے انتہائی خوبصورت منہج اختیار کیا ہے جو ہر دو طبقوں کے لیے مفید ہے یعنی طلباء اور علماء وغیرہ۔جیسا کہ خود صاحب کتاب نے بھی بیان کیا ہے اور ہر وہ فرد جو ایسر التفاسیر کا مطالعہ کرتا ہے بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہر جاتا ہے کہ اس سے آسان اور سہل اسلوب اور طریقہ قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بیان کرنے کے لیے نہیں پایا جاتا کہ آسانی کے ساتھ ساتھ کوئی اہم امر کو ترک نہیں کیا گیا جیسا کہ درج ذیل طریقہ سے معلوم ہوگا:

۱)شرح المفردات: اس سے مراد مطلوبہ آیت میں کوئی مشکل کلمہ جو غیر واضح ہو اس کی آسان لفظوں میں وضاحت کرنا

۲)اس کے بعد اس آیت اجمالی اور عام مفہوم بیان کیا گیا

۳)اور ایک اہم خوبی وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی مختلف آیات کو موضوعات کی مناسبت سے مختلف چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم کر دیا ہے ۔ جس سے قاری کے لیے فہم قرآن مزید آسان ہو جاتا ہے۔

۴)ہر قطعہ کا ماقبل اور مابعد سے مکمل مناسبت کا پس منظر کا بیان کیا جانا ہے جس کی وجہ سے قرآن مجید کے طالب علم کے لیے سب سے بڑی مشکل آسان ہو جاتی ہے کہ آیات کے مابین ربط و مناسبت گہرے غور و فکر اور تدبر کی متقاضی ہے جو ہر کس و نا کس کے بس کی با ت نہیں اور ربط و مناسبت آیت پر بہت کم تفاسیر میں موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔

۵)اس کے بعد ان ہدایات کو تفصیل سے بیان کیا گیا جو ان آیات سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔اور ان ماخوذ فوائد کو سلف صالحین کے منہج کی مطابقت میں بیان کیا گیا ہے۔

۶)جہاں شیخ نے ضروری سمجھا وہاں آیت کی تفسیر میں ایک سے زائد مفاہیم کو بھی بیان کر دیا گیا لیکن یہ زیادہ تر ایسے مقامات ہیں جہاں مختلف فقہی مذاہب کے اقوال کے درمیان ترجیح سے دیگر اقوال کا غیر اہم ہونا سمجھا جائے۔اور یہ مختلف اقوال ضروری نہیں کہ ان کی بنیاد صرف فقہی مذاہب پر ہو بلکہ مفسرین کی ذاتی آراء پر مبنی ہو۔

۷)مشکل کلمات کی وضاحت کے دوران شیخ حفظہ اللہ نے لغوی تعریفات اور اصطلاحی تعریفات کو جا بجا بیان کی ۔

۸)مشکل کلمات کے علاوہ بعض مقامات پر مرکب کلمات کی تشریح اور توضیح کا بھی اہتمام نظر آتا ہے کہ جہاں اس امر کی ضرورت ہے کہ کلمات کی مرکب توضیح اور تشریح کی جائے تو وہاں اس اسلوب کو بھی استعمال کیا۔جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات جو کہ اہل تقوی کی صفات پر مبنی ہیں ان کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے آپ تحریر کرتے ہیں :

یؤمنون بالغیب :یصدقون تصدیقا جازما لکل ما ھو غیب لا یدرک بالحواس کالرب تبارک و تعالی ذاتا و صفات و الملائکۃ والبعث ونعیمہاوالنار وعذابہا۔ (۸)

یعنی اہل تقوی ہر اس امر کی ایسی مکمل تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں جن کا ادراک انسان کے لیے اپنے حواس سے ممکن نہیں ہے مثلا اللہ تعالی کی ذات اور اس کی صفات اور فرشتے اور دوبارہ جی اٹھنا اور جنت اور اس کے انعامات اور جہنم اور اس کا عذاب۔

اور اسی طرح دیگر صفات کا ایک مرکب کی حیثیت سے تشریح کی گئی ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض کلمات کی فہم مرکب صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور اگر ہم انفرادی صورت میں سمجھنا چاہیں گے تو ممکن ہے کہ مکمل مفہوم نہ سمجھ سکیںجو کہ اس مقام پر مرا دہو۔

۹) بعض آیات کی وضاحت کا تعلق سبب نزول سے ہے تو شیخ نے مکمل سبب نزول بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ اسباب نزول کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۰)فہم قرآن مجید کے حوالے سے اتنی آسان تعبیر گو کہ شیخ اہل زبان میں سے ہیں لیکن آسان کلمات اور آسان تعبیر و انشاء پردازی کے ساتھ مشکل مشکل مقامات کی وضاحت کر دینا ۔یہ ایک حقیقی خاصیت ہے جو ایسر التفاسیر کے علاوہ شیخ کی دیگر کتب میں بھی پائی جاتی ہے۔

۱۱) اس تفسیر کو اس حد تک مختصر رکھا گیا ہے کہ مقصد فوت ہوئے بغیر کم وقت میں قرآن مجید کا مفہوم آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے۔

۲۔منہج تفسیرایسر التفاسیر

۱)شیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ نے اپنی اس معروف تفسیر میں جو منہج اختیار کیا وہ محدثین کا معروف منہج ہے جس کے مطابق آیات کی تفسیر قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ہی کی گئی ہے جس کی طرف قرآن مجید کا ایک لفظ ’’ تصریف آیات‘‘ (۹) مکمل اشارہ کرتا ہے۔جہاں قرآن مجید کی آیات نہ مل سکیں وہاں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاں احادیث نہ مل سکیں وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال او ر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال بھی نہ ملنے کی صورت میں تابعین عظام رحمہہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔

۲)زیادہ تر شیخ نے مفسرین کے اقوال بغیر نسبت کے نقل کیے ہیں اور بعض مقامات پر آپ نے اصحاب الاقوال کا نام بھی تحریر کر دیا ہے ۔اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ جہاں انہوں نے صاحب قول کا ذکر نہیں کیا وہ اس کے علاوہ اور بھی دیگر اہل علم سے مروی ہے اور معروف ہو گا جبکہ جہاں کسی کے نام سے ذکر کیا گیا ہے وہ ممکن ہے وہ صاحب قول اس بات کو کہنے میں منفرد ہو سکتا ہے۔

۳)آیات قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کے لیے بعض مقامات پر کلمات کی لغوی تشریح کافی نہیں بلکہ وہاں اصطلاحی یا عرفی مفاہیم کی بھی ضرورت پڑتی ہے جیسا کہ لفظ ایمان کی لغوی وضاحت تصدیق سے کی گئی ہے جبکہ اصطلاحی تعریف میں قلب ،زبان اور جوارح تینوں اس تصدیق میں شامل ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہوتی ہے تو ایمان مکمل حالت میں موجود نہیں ہے بلکہ ناقص حالت میں موجود ہے کیونکہ زبانی اقرار تو فرعون نے بھی کیا تھا لہذا اعتراف قلب کے بعد زبان سے اقرار اور اپنے عمل سے اس اعتراف اور اقرار پر گواہی از حد لازمی ہے ۔

۴)شیخ کے اساسی اور بنیادی مصادر اور مراجع جیسا کہ پہلے امر میں بیان کیے گئے ہیں لیکن شیخ نے اس حوالے سے جن کتب کو اپنے سامنے بالخصوص سامنے رکھا ان میں سے تفسیر ابن کثیر ،تفسیر طبری ،روح المعانی،فتح القدیر ، تفسیر احکام القرآن للقرطبی ،و جصاص ، و ابن عربی،زادلمسیراور بالعموم اہم تفاسیر اپنے زیر مطالعہ رکھی اور اس کے علاوہ کتب لغات جیسا کہ مفردات الفاظ قرآن ہے ۔اس کے علا وہ کتب احادیث کے تفاسیری ابواب بالخصوص ان کے مصادر و مراجع میں شامل ہیں۔گو کہ شیخ نقل کرنے والی معلومات کا حوالہ نہیں بیان کرتے لیکن اگر شیخ ابو بکر الجزائری کے تفسیری اقوال کی تخریج و تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ شیخ کا منہج تفسیر سلف صالحین کے مناہج سے کتنا قریب تھا۔

۵)شیخ نے اپنی تفسیر میں ایک اہم قرینہ اور منہج جو جا بجا استعمال کیا وہ آیات کی تفسیر ایمانیات ثلاثہ کے ساتھ کرنا ایمانیات ثلاثہ سے مراد توحید،رسالت اور معاد جس کے بعد قاری قرآن مجید اپنے اندر ایمانی کیفیات کا بدرجہ اتم محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر فہم قرآن کی طلب میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے بلکہ تفہیم قرآن کا جذبہ بھی اس کے اندر بیدار ہو جاتا ہے۔

۶)عموما مفسرین کی کتب میں ان کی ذاتی آراء کا کثرت سے بیان شامل ہوتا ہے یعنی اپنی آراء کی صحت پر آیات، احادیث ،اقوال سے استشھاد کرنا عام ہے لیکن شیخ حفظہ اللہ نے اس فکر کو بہت کم اختیا ر کیا صرف وہ معانی بیان کیے جن کا تعلق قرآن مجید کی فہم سے براہ راست ہے اور جو کتاب و سنت کی صحیح تعلیمات سے ماخوذ ہوں ۔او ر اس میں ذاتی اجتھادات اور تعبیرات کو بہت کم بیان کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ حفظہ اللہ کے نزدیک دین اسلام کی اصل کتاب و سنت کے ساتھ تعبیر ہے بلکہ دین اسلام کی توضیح و تشریح کا امر بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہی ممکن اور صحیح ترین ہے ۔

۷)شیخ حفظہ اللہ نے اپنی تفسیر میں تفاسیر بالرائے کو اپنے زیر مطالعہ ضرور رکھا لیکن صرف بغرض استفادہ نہ کہ بطور استشھادتاکہ یہ علم رہے کہ اگر کسی آیت کی تفسیر کتاب و سنت سے ہٹ کر بھی کر نی پڑ جائے تو اس میں کیا منہج اختیار کیا جائے۔

۸)شیخ نے اپنی اس تفسیر سے پہلے جس تفسیر کو سب سے زیادہ پڑھا وہ سید رشید رضا کی ’’المنار‘‘ تھی.

الحمدللہ رب العالمین۔

۳۔اہم مقامات

گو کہ اس مختصر تعارف میں ایسر التفاسیر جیسی مشہور عام تفسیر کا مکمل احاطہ تو ناممکن ہے لیکن بغرض استفادہ اس تفسیر کے اہم مقامات درج ذیل ہیں:

جلد اول:

۱)اہل عناد اور غرور و تکبر کا ہدایت سے محروم ہونا ، ص ۲۳،۲۴۹،۳۴۳

۲)یہ فطرت ہے کہ ایک برائی دوسری برائی کو جنم دیتی ہے ص ۲۸

۳)تسبیح اور تقدیس میں فرقص ۴۰

۴)جہاد کے واجب ہوجانے کے بعد اس کا ترک کرنا ، ص ۶۰

۵)علم و عمل سے جانتے بوجھتے منہ پھیرنا، ص ۸۲

۶)اسلام کے احکام کا تعلق صرف اس کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے داخل و باطن کی اصلاح سے بھی ہے جس میں تھذیب اخلاق و روح اور اخلاق قابل ذکر ہیں اور ظاہری احکام کا تعلق باطن سے بھی ہے ، ص ۹۹

۷)بغیر نام لیے گناہوں کے مرتکبین پر لعنت کرنا جائز ہے ، ص ۱۳۹

۸)امت کے زوال کا سب سے اہم سبب ان کے آپس کے باہمی اختلافات ہیں ، ص ۱۹۳

۹)مشروعیت جھاد کی حکمت، ص ۲۴۰

۱۰) کافر پر صدقہ خیرات بوقت ضرورت کیا جانے کا جواز، لیکن زکوۃ نہیں کہ وہ اہل اسلام کا حق ہے ، ۲۲۶

۱۱) اللہ کے علاوہ سجدہ کفر ہے ، ص ۳۳۸

۱۲)حاکم وقت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی رعایا پر جبر کرے کہ وہ فوج میں داخل ہوں۔ ص۵۱۸

۱۳) خفیہ اجتماعات جائز نہیں ، ص۵۴۱

وغیرہ وغیرہ

جلد دوم :

۱)اہل باطل کا اپنے باطل اعمال کی مزعومہ صحت کے لیے قرآن مجید سے استشھاد۔ص ۲۰۵

۲)یہ فطری امور میں سے ہے کہ انسان جو سنتا ہے اس سے متاثر بھی ہوتا ہے لہذا اسے چاہیے کہ جائز باتیں سنے تاکہ وہ برائی کی طرف راغب نہ ہو، ص ۲۴۰

۳)برا ئی میں اضافہ کا سبب برائی ہوتا ہے اور نیکی میں اضافہ نیکی ہی سے ممکن ہے، ص ۴۴۲

۴)کبائر سے اجتناب ہی کامیابی کی ضمانت ہے ، ص ۳۵۶

۵) ہر عمل صالح میں اخلاص از حد ضروری ہے جس کے لیے نیت صالحہ و حسنہ لازمی ہے، ص ۴۳۸

۶)برائی کا مسلسل ارتکاب دلوں پر مہر کا سبب بن جاتا ہے، ص ۴۹۶

جلد سوم:

۱)اللہ تعالی کسی بھی قوم کو جو نعمت دیتا ہے وہ اس سے واپس نہیں لیتا بلکہ وہ قوم خود اپنی گمراہیوں سے اس سے محروم ہو جاتی ہے ، ص ۱۴

۲)جہنم کے ست طبقات ہیں، ص ۸۱

۳)نماز حاجت کی مشروعیت، ص ۹۷

۴)انسا ن جنوں سے افضل ہے اور اس کے خواص فرشتوں سے بھی افضل ہیں جبکہ عام فرشتے صرف عام آدمیوں سے افضل ہیں ، ص ۲۱۴

۵)بسا اوقات ظالم مشرک کے ساتھ استھزاء جائز ہوجاتا ہے جب اس پر عذاب نازل ہو جائے۔ ص۴۰۰

۶)دعوت حق کو ٹھکرانے والے سب سے پہلے اہل متکبر او ر اہل کفر ہوتے ہیں ، ص۵۱۳

۷)کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور قوانین کو اپنا حاکم بنانا صریحا کفر ہے، ص ۵۸۲

۸)اسلوب دعوت اور سید نا موسی علیہ السلام کی حیات طیبہ، ص ۶۴۹

جلد چہارم:

۱)سب سے پہلے جس نے سیادت اپنی نسل سے محدود کی وہ فرعون تھا، ص ۵۲

۲)عورتوں کے لیے حجاب اور پردہ اسلام کے سابقہ مذاہب میں بھی موجود تھا جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں جب بات کرتی ہیں تو حجاب کے پیچھے سے بات کرتی ہیں، ص ۶۵

۳ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار سے زائد نکاح میں حکمت کا بیان، ص ۲۸۴

۴)نفخات اربعہ کا بیان ، ص۳۸۵

۵)لفظ احزاب منفی نوعیت کا حامل ہے ، ص ۴۳۸

اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن

امام علامہ محمد امین بن محمد مختار بن عبدالقادر بن محمد بن احمد بن نوح بن محمد ابن سیدی احمد بن مختار الشنقیطی، ان کا تعلق عرب کے قبیلے حمیر ہے، آپ ۱۳۲۵؁ ھ میںماریطانیہ میں پیدا ہوئے، آپ صغر سنی میں ہی یتیم ہو گئے آپ کے والد نے ترکہ میں آپ کے لئے کافی مال ثروت چھوڑا۔(۱۰)

۱۰سال کی عمر تک پہنچتے آپ قرآن کریم حفظ کر چکے تھے اور دوران اپنی ممانی سے فقہ مالکی کی بعض کتب اور ادب ، نحو اور سیرت کی بعض کتب پڑھ چکے تھے، دیگر اساتذہ میں شیخ محمد بن صالح ، شیخ محمد الافرم ، شیخ احمد عمر ، شیخ محمد زیدان ، شیخ محمد النعمہ اور شیخ احمد بن مود وضیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ، ان اساتذہ سے شیخ نے نحو ، صرف، اصول ، بلاغت ، تفسیر اور حدیث کی کتابیں پڑھیں جبکہ منطق ، اصول تحقیق اور فن مناظرہ پر مہارت شیخ نے ذاتی مطالعے کے حاصل کی ۔طلب علم میں آپکی دلچسپی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے، شیخ عطیۃ فرماتے ہیں مجھے شیخ نے بتایا کہ دوران طالبعلمی میں ایک دن اپنے شیخ کے درس میں تھا ، انہوں نے کسی بات کی شرح فرمائی لیکن اس سے میری تشفی نہ ہوئی چناچہ درس کے بعد میں نے اس مسئلے کے حل کے لئے مطالعہ شروع کیا حتی کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا میں اب بھی سیر نہ ہوا نماز کے بعد پھر دوبارہ شروع ہو گیا چناچہ مغرب کے بعد میرے خادم نے آگ روشن کی اور میں اس دوران جوں ہی کسل مندی کا شکار ہوتا تو خادم مجھے سبز چائے پیش کرتا اور میں دوبارہ محو مطالعہ ہو جاتا اسی حالت میں طلوع فجر ہوئی اور مجھے اس مسئلے میں کچھ تشفی ہوئی ، اس تمام عرصے میں کھانے اور نماز کے علاوہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔

شیخ فتویٰ دینے کے معاملے میں حد درجہ محتاط رہتے تھے آپ اس وقت تک فتویٰ نہیں دیتے تھے جب تک کہ آپ کے سامنے نص صریح نہ آجاتی چناچہ شیخ کے صاحبزادے عبداللہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کویت سے ایک وفد آیا اور انہوں نے شیخ سے کسی مسئلے کے بارے میں استفسار کیا ، شیخ فرمانے لگے کہ میں آپ کو کتاب اللہ سے اسکا جواب دوں گا، آپ چند لمحے غور و فکر فرماتے رہے ھر فرمانے لگے : اللہ اعلم ، ’’ ولا تقف ما لیس لک بہ علم‘‘، میں اس مسئلے کے حوالے سے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ ﷺ میں سے کوئی دلیل نہیں جانتا اور جہاں تک لوگوں کے کلام کی بات ہے تو اسے میں اپنے ذمے میں نہیں لینا چاہتا، ان کے مزید اصرار پر شیخ نے فرمایا کے فلاں نے اس مسئلے پر یہ کہا ہے اور فلاں نے یہ کہا ہےجبکہ میں اس بار ے میں کچھ نہیں کہتا۔(۱۱)

1371 ھ میں ریاض میں معہد علمی ، کلیہ شریعہ اور کلیہ اللغۃ کا افتتاح کیا گیا اور شیخ ؒ کو تدریس کے لئے منتخب کیا گیا آپ یہاں تفسیر اور اصول تفسیر ۱۳۸۱ تک پڑھاتے رہے، اسی دوران مسجد الشیخ محمد آل شیخ میں الاصول مکمل طور پر دروس کی صورت میں پڑھائی،۱۳۸۱ سے ۱۳۸۶ تک معہد القضاء العالی میں تفسیر اور اصول تفسیر کی تدریس فرمائی اور اس دوران آپ ھیئت کبار العلماء اور رابطہ العالم الاسلامی کے رکن بھی رہے، اس کے بعد جب مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کا افتتاح ۱۳۸۱ھ میں ہوا تو آپ کو وہاں تفسیر کا استاذ مقرر کیا گیا۔

انساب العرب( منظوم)، فروع مذہب مالک، الفیۃ المنطق، الفرائض (منظوم)، یہ کتب مخطوطہ کی شکل میں ہیں، جبکہ آپکی مطبوعہ کتب میں اضواء البیان ، آداب البحث والمناظرہ، مذکرۃ الاصول علی روضۃ الناظر، منع المجاز فی المنزل للتعبد والاعجاز، دفع ایہام الاضطراب عن آی الکتاب کے نام قابل ذکر ہیں ۔

آپ کے متعدد مقامات پر دئیے گئے دروس کو عامۃ الناس کے استفادہ کے لئے نشر کیا گیا ، ان میں سے چند مطبوعہ دروس درج ذیل ہیں: آیات الصفات ، حکمۃ التشریع، المثل العلیا فی الاسلام، کمال الشریعۃ وشمولھا، المصالح المرسلہ(۱۲)

منہج تفسیر

یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہوسکتی ہے، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں:

(۱)تفسیر القرآن بالقرآن۔قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے

(۲)تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل سے کی جائے

(۳)تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ

(۴)تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ

(۵)تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ

(۶)تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامیہ کی روشنی میں،حالات وواقعات،مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے

بنیادی طور پر شیخ رحمہ اللہ کے تفسیری ماخذ یہی چار مصادر تھے۔

اس اعتبار سے قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنا اور اس امر کا بیان کہ انواع التفسیر میں سب سے اشرف و افضل ترین تفسیر وہی ہے جو قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے۔

احکام فقہیہ کا بیان، اس اعتبار سے یہ تفسیر ، تفسیر ماثور کی حیثیت سے بھی معروف ہے کیونکہ اس کے مصادر اور مراجع نقلیہ ہیں اور اسی طرح اسے فقہی تفسیر کے طور پر بھی پہچانا گیا۔

قرآن مجید کی جن آیات کی تفسیر قرآن سے ہو گی وہاں اسی سے اکتفاء کیا جائے گا اور البتہ بعض مقامات پر جہاں ابہام پایا گیا یا وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی وہاں سنت سے مدد لی ۔مثلا : ’’ الحمد للہ رب العالمین ‘‘ یہاں پر اس اپر کو بیان نہیں کیا گیا کہ حمد مکانی ہے یا زمانی لیکن سورۃ روم کی آیت نمبر ۱۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ حمد مکانی ہے، ’’ ولہ الحمد فی السمٰوات والارض ‘‘، اور اسی طرح میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ حمد زمانی اعتبار سے بھی ہے جیسا کہ سورۃ القصص آیت نمبر ۷۰ میں ہے:’’ لہ الحمد فی الاولیٰ والاٰخرۃ‘‘ ، اور سورۃ اسباء آیت نمبر ایک میں : ’’ ولہ الحمد فی الاٰخرۃ‘‘۔(۱۳)

سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۳۰ : ’’ و اذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘‘، اس خلیفہ کی معنی میں علماء دو اقوال مذکور ہیں ، پہلا قول : خلیفہ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آیت کے سیاق و سباق سے یہی مفہوم زیادہ انسب معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے اور جمع کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ ’’بعد میں آنے والے ‘‘اور اس امر پر شاہد اسی آیت کے آخری کلمات ہیں : ’’ قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا و یسفک الدماء‘‘ اور یہ امر معلوم ہے کہ آدم علیہ السلام مفسدین میں سے نہیں تھے اور نہ ہی خون بہانے والےتھے، اس آیت کی مثال سورۃ

فاطر آیت نمبر ۳۹ سے بھی ملتی ہے ’’ ہو الذی جعلکم خلٰئف فی الارض‘‘ (۱۴)

بعض آیات کی تفسیر میں ایک سے زائد اقوال کو بیان کیا گیا ہے، یہ تمام اقوال بر حق ہوں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک پر قرآن شاہد ہے، اور کسی بھی قول کی ترجیح بیان نہیں کی گئی، کیونکہ سب ہی صحیح ہیں۔

شیخ نے قرءآت مقبولہ کا ذکر بھی جا بجا کیا ہے اور ان قرءآت پر استشہاد حدیث شریف سے کیا گیا ہے، اور اگر ان قرءآت کی وجہ سے کوئی فقہی مؤقف سامنے آتا ہے تو اسے بھی بیان کیا ہے۔

آیت کی تفسیر کرنے کے بعد بعض مقامات پر شیخ نے اس آیت سے مستنبط مسائل بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت (۳۰)میں کچھ مسائل جو شیخ نے اخذ کئے وہ یہ ہیں : اگر حاکم وقت فاسق ہو اور بدعات کی طرف دعوت دے رہا ہو تو کیا اس بنیاد پر اس کو معزول کیا جا سکتا ہے اور اس پر خروج کیا جا سکتا ہے؟

کیا ایک ہی وقت میں دو خلیفہ کا تقرر کیا جا سکتا ہے؟

کیا امام خود اپنے آپ کو معزول کر سکتا ہے؟(۱۵)

شیخ رحمہ اللہ کا تفسیر میں منھج اور اسلوب کا اندازہ اس مثال سے بخوبی ہو سکتا ہے:

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

لفظ " المحصنات " قرآن مجید میں تین معانی میں استعمال ہوا ہے :

اول :العفائف : پاکبازاورپاکدامن ، اسی معنی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ محصنات غیر مسافحات } پاکدامن ہوں اورزنا کرنے والی نہ ہوں

دوم :الحرائر : آزاد عورتیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : { تو ان ( لونڈیوں ) پرآزاد عورتوں سے نصف سزا ہے } یعنی آزاد عورتوں سے نصف کوڑے ۔

سوم :تزوج ، یعنی شادی شدہ کے معنی میں – تحقیقی طورپریہی صحیح ہے - اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ توجب وہ شادی ہونے کے بعد فحاشی والا کام کریں } یعنی جب شادی کرلیں ، اور علماء میں سے جس نے یہ کہا ہے کہ یہاں پراحصن کا معنی اسلام ہے ، تو یہ آیت کے سیاق وسباق کے ظاہری طورپر خلاف ہے ، کیونکہ آیت کے سیاق میں مومن لڑکیوں کا ذکر کیا گيا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : { اور تم میں سے جوآزاد اورمومن عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ رکھے ۔۔۔ الآیۃ } ۔

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں جس کی نص یہ ہے :

اورظاہرتویہ ہوتا ہے – واللہ اعلم – کہ یہاں پر احصان سے مراد شادی ہی ہے کیونکہ آیت کا سیاق اس پرہی دلالت کررہا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { اورتم میں سے جس کسی کوآزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت وطاقت نہ ہوتومسلمان لونڈیوں سےجن کے تم مالک ہو نکاح کرلو} واللہ اعلم ۔

اورآیۃ کریمہ کا سیاق مومن لڑکیوں کے بارہ میں ہے تو اس سے یہ متعین ہوا کہ اللہ تعالی کے فرمان { احصن } سے مراد شادی کرلیں ہی ہے جیسا کہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما وغیرہ نے تفسیر کی ہے ۔ .(16)

تقابلی مطالعہ

ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ کی تفسیر اور شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ کی تفسیر دونوں کے تعارف سے جو امور واضح ہو کر سامنے آتے ہیں ان کو اختصار سے درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱)دونوں تفاسیر کے معیار میں بہت فرق ہے جیسا کہ ایسر التفاسیر کا انداز بیان کلمات کے معانی آسان فہم میں بیان کرنا اور پھر اس کا اجمالی مفہوم اور ان آیات سے مستفید فوائد کا نکات کی صورت میں بیان کرنا ۔

جبکہ اضواء البیان میں اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر قرآن سے کی جائے اور اس حوالے سے جہاں مناسب سمجھا گیا شیخ شنقیطی رحمہ اللہ نے کلمات قرآن کا مفہوم تفصیل سے بیان کیا وگرنہ جس طرح ابو بکر الجزائری حفطہ اللہ نے بالاہتمام کلمات کے معانی لکھے ہیں یہ اہتمام ہمیں اضواء البیان میں نظر نہیں آتا۔

۲)ایسر التفاسیر دراصل مکمل قرآن مجید کی تفسیر ہے جبکہ اضواء البیان میں شیخ رحمہ اللہ نے صرف ان آیات کو منتخب کیا ہے جن کی تفسیر قرآن مجید سے ممکن ہے لہذا اگر ایسی آیات جن کی وضاحت خود قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں پائی جاتی تو شیخ رحمہ اللہ نے ان آیات کی تفسیر نہیں کی۔

۳)ایسر التفاسیر اپنی آسان فہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں کئی مدارس میں ابتدائی مدارج میں بطور نصاب مقرر ہے جبکہ اضواء البیان اپنے دقیق انداز اور علمی اسلوب کی بنیاد پر علماء کے لیے مرجع کی حیثیت اختیار کر چکی ہے لیکن اسے بطور نصاب مقرر کرنا ممکن ہی نہیں البتہ بطور مصدر ضرور کئی جامعات نے اسے منتخب کیا ہے۔

۴)ایسر التفاسیر کے مقاصد تالیف میں عامۃ الناس کو مخاطب کیا گیا ہے جبکہ اضواء البیان میں علماء اور دین کے طالب علموں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ عام لوگوں کے لیے ممکن ہی نہیں اس کتاب کو سمجھ سکیں۔

۵)ایسر التفاسیر میں کلمات کے معانی بیان کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھا گیا ہے زبان کو بہت زیادہ آسان فہم رکھا جائے جبکہ اضواء البیان میں کلمات کی تشریح میں انتہائی دقیق تعبیر کو اختیار کیا گیا ہے ۔

۶)ایسر التفاسیر میں عمومی طور پر اصلاحی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جبکہ اضواء البیان میں فقہی انداز بیان کو اختیار کیا گیا ہے ہے ۔

۷)ایسر التفاسیر میں مولف حفظہ اللہ نے جو منھج اختیار کیا اسے انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جبکہ اضواءالبیان میں شیخ شنقیطی رحمتہ اللہ نے انتہائی تفصیلی اور مبسوط مقدمہ میں تفسیر قرآن کے علمی اصولوں کو بیان کیا بالخصوص وہ اصول جنہیں شیخ رحمتہ اللہ نے جا بجا اپنی تفسیر استعمال کر کے ان کی عملی تطبیق بھی واضح کر دی۔

۸)ان دونوں تفاسیر کے باہمی تقابل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں تفاسیر کے مجالات مختلف ہیں اور علمی معیارمیں بھی فرق ہے جیسا کہ مثالوں سے یہ بات واضح کی گئی ہے ۔

حوالہ جات

  1. عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف، معروف صحابی رسول ﷺ ، اور نبی ﷺ کے چچا زاد ہیں، صحابہ کرام کے درمیان اپنے علم و فضل کے حوالے سے منفرد مقام رکھتے تھے۔
  2. ابو الحجاج مجااہد بن جبر التابعی المخزومی القرشی ، ۱۰۴ ھجری میں فوت ہوئے آپکی تفسیر "تفسیر مجاھد"کے نام سے دار الفکر الاسلامی الحدیثیہ ، مصر نے 1989میں چھاپی ہے۔
  3. المعجم الجامع فی تراجم العلماء وطلبۃ العلم المعاصرین ، اعداد ملتقیٰ اھل الحدیث) جدۃ، ج 1،ص4
  4. ایضا، ج 1،ص4
  5. ایضا، ج 1،ص6
  6. الجزائری ،ابو بکرجابر بن موسی بن عبد القادربن جابر، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، (جدۃ: راسم للدعایۃ والاعلان السنہ) طبعۃ الرابعۃ ،ج 1،ص23
  7. ایضا، ج 1،ص23
  8. ایضا، ج 1،ص20
  9. القرآ ن26/46:
  10. الشنقیطی ، محمد الامین، آثار الشیخ العلامہ محمد الامین الشنقیطی، جدۃ: دار العالم الفوائد للنشر والتوضیح،1426ھ) الطبعۃ الاولیٰ، ج 1،ص4
  11. ابن عطیۃ،الترجمۃ الموجزۃ للشیخ محمد الامین الشنقیطی، غیر مطبوعہ (ص2
  12. ایضا، ص4
  13. الشنقیطی ، محمد الامین بن محمد المختار،اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن( بیروت ،دار الکتب العلمیۃ السنہ) ج 1،ص31
  14. ایضا، ص46-47
  15. ایضا، ص 49-55
  16. ایضا، 1 /279 - 280
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...