Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

جنگ، جہاد اور قتل |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

شرعی اصطلاح کے مطابق جہاد مسلمانوں کی ایسی اجتماعی جدوجہد کا نام ہے جو انسانوں کی فلاح و بہبودکیلئے اﷲکے بھیجے ہوئے قوانین کو دنیا میں قائم کرنے اور بلند کرنے کیلئے کی جائے اور اس کیلئے جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ لہٰذاجہاد کا لفظ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے اس مفہوم کے لحاظ سے مسلمان ہمیشہ حالت جہاد میں رہتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی کوشش یا جدوجہد جو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کی جائے وہ بھی جہاد ہو۔

اگر ہم جہاد کے لغوی معنی پرغور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جہاد جَھَدَسے ماخوذ ہے اس کا مصدر جَھَدَ،جُھددونوں کو سمجھا جا تا ہے (۱) اسی طرح جاَھَدَمجاھَدَۃًو جھَاداً سے مراد پوری طاقت صرف کرنا یعنی ”جَاھِدُوافی اﷲحَقَّ جھَادہ‘‘ یعنی اﷲ کے راستے میں پوری طرح کوشش کرو جیسا کہ کوشش کا حق ہے ۔(۲)اردولغت کے مطابق بھی جہد سے مراد کوشش ،محنت ،اور دوڑدھوپ کے لئے جاتے ہیں (۳)

جہاد کے معنی کب سے تبدیل ہوتے ہیں اس حوالے سے ’’ تمام اہلِ لغت ،شارحین اور فقیہ تسلیم کرتے ہیں کہ قدیم عربی میں جہاد کے معنی محنت اور خوب کوشش کرنے کے ہیں،اس متبدلہ یا اصطلاحی معنی ، متاخرین کے زمانہ میں ،نزول قرآن سے بہت بعد لئے گئے ہیں ۔اس لئے یہ بالکل نامناسب ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اس کے نو تراشیدہ معنی لئے جائیں‘‘۔ (۴)۔

قرآن وسنت میں غلبہء دین کیلئے جانی طور پر کی جانیوالی کوشش کو جہاد کے لفظ سے موسوم کیاگیاہے،لہٰذاکثرت استعمال کے باعث علماء،فقہاء،محدثین اور مفسرین نے جہادبمعنی قتال کیساتھ اس کی اصطلاحی تعریف کی ہے مثلاً:فقہائے احناف کے نزدیک جہاد کی تعریف اس طرح سے ہے کہ :’’ہوالدعاءُ الی الدین الحق وقتال من لم یقبلہُ " لوگوں کو دین حق کی طرف بلاناا ور جو اس کو قبول نہ کرے ،اس سے قتال کرنا ۔(۵)

’’ اسی طرح فقہائے مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ واہل ظاہر کے نزدیک بھی جہاد کی اصطلاحی تعریف مذکورہ تعریف سے کچھ مختلف نہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فقہاء کا جہاد کی اصطلاحی تعریف کو کفار کے خلاف قتال تک محدود کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قرآن و حدیث میں کثرت کے ساتھ جہاد بمعنی قتال استعمال ہوا ہے۔فقہائے کرام کسی چیز کی کثرت استعمال کے پیش نظر اس پر کئی حکم لگاتے ہیں ۔لفظ جہاد بھی اس کی ایک مثال ہے کہ اس کے معنیء قتال میں بکثرت استعمال نے اسے قتال تک محدود کردیا ۔اگرچہ لفظ جہاد کا مفہو م وسیع ہے ،جیسے علامہ ابن تیمیہ ،ابن حجر اور ابن قیم کے اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ہر وہ محنت و کوشش جو کسی نہ کسی پہلو سے غلبہء دین کے لئے ہو جہاد کہلاتی ہے ‘‘ ۔ (۶ )

چونکہ جہاد کی حدود وقیود فقہاء اہل علم اب تک واضح نہیں کرسکے ہیں لہٰذااسلامی ممالک میں بالخصوص کسی بیرونی /مغربی یاغیراسلامی ممالک کے ساتھ موجود کسی بھی قسم کے ختلافات اور اس سلسلے میں اپنی برتری قائم کرنے یا رکھنے کے لئے کی جانے والی ہر عملی کوشش کو بھی علماء و فقہاء اسلامی مہم جوئی یا جہاد کا نام دیتے ہیں لیکن اس کے بر عکس کسی ایسی مہم جوئی انفرادی یا اجتماعی جو کہ اصلاح معاشرہ یا انسانی خدمات اوردیگر عمل خیر سے متعلق ہو ،کو جہاد یا اس قسم کی کسی اصطلاح سے یاد نہیں کرتے یوں جہاد کا عمومی مفہوم قتال اور ایک خاص مقصد ،دائرے کے اندر قید ہو کر رہ گیا ہے ۔مغربی میڈیا جو کہ دنیا پر حاوی ہے اور اہل اسلام بھی انہی ذرائع ابلاغ کے زیر اثرہونے کی وجہ سے بھی لفظ جہاد خاص مقاصد کی وضاحت کے لئے استعمال ہونے لگا ہے اور یوں غیر مسلم تو غیر مسلم ،مسلمان بھی جہاد کو قتال کے معنی میں ہی ڈھونڈتے ہیں ۔

جہاد اور قتال 

’’اگرچہ جہاد میں قتال بھی شامل ہے لیکن ہر قتال جہاد نہیں ہوتا ۔جہاد اپنے مقصد ،طریق کار اور نصب العین کے اعتبار سے محض اعلائے کلمۃاﷲاور تحفظ غایات اسلامی کیلئے ہوتا ہے یہ اندھا دھند جنگ وجدال نہیں بلکہ مقاصد ملت کی خاطر ایک بااصول جنگ ہے جو معین اصولوں ،پابندیوں ،اور احتیاطوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے ،اور ان احتیاطوں کا ذکر قرآن مجید میں بصراحت کیا گیا ہے ۔اسلام میں جہاد کا حکم اس وقت نازل ہوا جب آنحضورﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ،اور چونکہ اس وقت کفار قریش نے جنگی یورشوں کے ساتھ مسلمانوں کو ستانا شروع کیا چنانچہ ان لوگوں کے مقابلے اور ان کے شر کے دفعیہ کے لئے اﷲ نے جہاد کا حکم دیا‘‘۔(۷(

ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ’’جہاد فی سبیل اﷲ کے ضمن میں سب سے بڑا مغالطہ ،جو بہت عام ہے اور صرف عوام ہی میں نہیں، خواص یعنی علماء کو بھی لاحق ہے یہ ہے کہ ’’جہاد‘‘کے معنی’’ جنگ‘‘کے ہیں گویاکہ ’’جہاد ‘‘ کوقتال کے مترادف باہم معنی قرار دے دیاگیاہے غور طلب بات ہے کہ لسانیات کا یہ بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی زبان کے دو الفاظ بالکل ایک مفہوم کے حامل نہیں ہوتے اس سے آگے بڑھ کر بات ہی ہے کہ ’’جہاد فی سبیل اﷲ ‘‘اور’’ قتال فی سبیل اﷲ‘‘قرآن پاک کی دو مستقل اصطلاحیں ہیں ،جو قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوئی ہیں ۔مثلاً سورۃالصف چودہ آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورۃ ہے اور اس میں یہ دونوں اصطلاحات آئی ہیں ۔اس کی آیت ۴ میں ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘کی اصطلاح بایں طورآئی ہے:إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ (۴:الصف) (۸)’’یقنیاًاﷲ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکرلڑتے ہیں گویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔‘‘

آگے آیت نمبر ۱۱ میں فرمایا : تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُم (۹) ’’ایمان لاؤاﷲپر اور اس کے رسولﷺپر اور جہاد کرو اﷲ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔‘‘ چنانچہ ان دونوں اصطلاحوں کو مترادف قرار دینا بہٹ بڑی غلطی ہے یہ دونوں الفاظ بعض اوقات ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوجاتےہیں ۔اور قرآن مجید میں بھی یہ اس طرح استعمال ہوئے ہیں۔۔۔۔قرآن حکیم کی بنیادی اصطلاحات میں سے دو دو اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ جن کے مابین خاص اور عام کا رشتہ ہے مثلاً’’مومن ‘‘ اور’’ مسلم ‘‘ بظاہر مترادف الفاظ ہیں کہ ایک ہی شخص کیلئے دونوں الفاظ کا استعمال ہوسکتا ہے ،لیکن ’’مسلم ‘‘ عام اصطلاح ہے ’’مؤمن ‘‘خاص ۔یعنی ہر’’مؤمن ‘‘تو لازماً ’’مسلم‘‘ ہے لیکن ہر مسلمان لازماًمومن نہیں ہے ۔۔۔۔اسی طرح اصطلاحات کا ایک جوڑا ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ ہے نبی اور رسول میں کئی اعتبار ات سے فرق کیا جا تا ہے ،لیکن یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص۔ یعنی ہر رسول تو لازماًنبی ہے لیکن ہر نبی لازماًرسول نہیں جہاد اور قتال میں بھی بالکل یہی رشتہ ہے کہ ان دونوں میں عموم اور خصوص کی نسبت ہے ۔اس میں جہاد عام ہے اور قتال خاص ہے،یعنی قتال تو لازماً جہاد ہے ،لیکن جہاد لازماًقتال نہیں ہے ۔ان تینوں جوڑوں کے بارے میں اہل علم نے بہت عمدہ اصول وضع کیا ہے ۔اذا اجتمعا تفرقا واذا تفرقا اجتمعا،یعنی جب کسی ایک جگہ پر یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں گے تو یقیناً ان میں بہت بڑا فرق ہوگا Simultaneous Contrastہوگا لیکن یہ الگ الگ استعمال ہونگے تو ایک ہی مفہوم میں استعمال ہو نگے۔چنانچہ اگر ایک ہی جگہ مسلم اور مؤمن کے الفاظ آرہے ہوں تو ان کے مفہوم میں لازماً فرق ہوگا ۔اسی طرح اگر ایک ہی جگہ جہاد اور قتال کے الفاظ آئیں ،جیسا کہ سورۂ الصف کی مثال دی گئی ہے ،تو لازماًفرق ہوگا ۔لیکن اگر دونوں علیحدہ علیحدہ استعمال ہو رہے ہوں تو یہ ایک دوسری کی جگہ استعما ل ہو سکتے ہیں ،یعنی نبی کی جگہ رسول اور رسول کی جگہ نبی ، اسی طرح جہاد کی جگہ قتال اور قتال کی جگہ جہاد، اور مؤمن کی جگہ مسلم اور مسلم کی جگہ مؤمن کے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں ۔بہر حال اس فرق کوپیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔‘‘(۱۰(

جہاد اورجنگ

جنگ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑایؤں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہوتا رہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے کی جاتی ہیں ۔ ان لڑایؤں کے مقاصد محض شخصی یا اجتماعی ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظر یہ اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ نہیں ہوتا۔اسلام کے پیش نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی دلچسپی ہے کہ ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا اسلام کو دلچسپی جس چیز سے ہے وہ محض انسانیت کی فلاح ہے۔ اور اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک ر کھتا ہے ۔اس نظریہ اور مسلک کے خلاف جہاں جس چیز کی حکومت بھی ہے اسلام اسکو مٹانا چاہتا ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو اس کا مدعا اپنے نظریہ اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلا لحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پہ اس کی ضرب پڑتی ہے ۔ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے اس سے تمام نوح انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے۔جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا جامع نام’’ جہاد" رکھتا ہے۔ 

زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظام زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلدنہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ د ھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

اور جہاد ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لا زمی قید ہے۔اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’راہِ خدا میں ‘‘ اس ترجمے سے لوگ غلط فہمیمیں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائدکا پیرو بنانا ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ ہے ۔ کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’’ راہِ خدا‘‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ 

’’ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح و بہبودکے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خودکوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو، بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو اسلام ایسے کام کو ’’ فی سبیل اللہ‘‘ قرار دیتا ہے۔(۱۱(

قتال کسے کہتے ہیں ؟

قرآن کریم میں سب سے پہلے قتال کی اجازت اس وقت ملی جب نبیﷺ نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اور وہاں آپﷺ نے تبلیغ شروع کی قبول کرنے والوں نے کی لیکن اکثریت جن میں خصوصاًقریش مکہ تھے، نے مخالفت کی اور جب مخالفت کی انتہا ہوگئی تو حضورﷺ مدینہ کی جانب ہجرت کرکے آگئے یہاں کی فضا اقا مت دین کے لئے قدرے سازگار تھی لیکن قریش نے ان کا یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور لشکر لے کر مدینہ کی جانب چڑھ دوڑے اب وقت آگیا تھا کہ مجاہدین کی یہ جماعت ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی یا میدان جنگ میں نکل کر اپنی بقا وسلامتی کے لئے آخری کوشش کرتی لہٰذا اس موقعہ پر اﷲ نے انہیں اجازت دی کہ وہ مقابلہ کریں أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ o الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (۱۲(جن (مومنوں ) کے خلاف ظالم قوتیں جنگ کے لئے چڑھ آئی ہیں اب انہیں بھی (اسکے جواب میں )جنگ کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہو رہا ہے اور ااﷲ کی مدد ضرور قادر ہے ،یہ وہ مظلوم ہیں جو نا حق اپنے گھروں سے نکال دئیے گئے ان کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اﷲہے۔

قرآن پاک کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ قتال کا حکم بھی اسی وقت دیتا ہے جب ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے بھی اصول وضع کئے گئے ہیں جیساکہ ۔اقدام سے پہلے دعوت اسلام پیش کرنا یابا ز رہنے کی تنبیہ کرنا ۔"اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَاَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ۔"(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے رب کے رستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریقہ سے ان سے مناظرہ کرو، جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا رب اُسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں اُن سے بھی خوب واقف ہے (۱۳)

"مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۔ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔(۱۴) جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کاضرر بھی اُسی کو ہو گا اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘

آپ ﷺ نے زید بن حارثہ کی قیادت میں تین ہزار افراد کو جمادی الاول ۸ ہجری میں روانہ کرتے ہوئے ہدایات فرمائی ’’میں تمہیں خدائی تقویٰ اور اپنے مسلمان ساتھیوں سے حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں اللہ کا نام لے کر اللہ کے منکرین سے جہاد کرنا ،نہ کسی قسم کی زیادتی کرنا ،نہ کسی بچے ،عورت،عمر رسیدہ بوڑھے اور اپنی عبادت گاہ میں گوشہ نشین شخص کو قتل کرنا ،کسی کھجور کے باغ کے قریب تک نہ جانا ،نہ کسی درخت کو کاٹنا اور نہ کسی مکان کو منہدم کرنا‘‘ (۱۵ )یہ ہدایت کسی خاص علاقے کے لوگوں کے لئے نہیں ہوتی تھی جیسا کہ حضرت سلیمان بن بریدہؓ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے خاص اس کے اپنے نفس کے بارے میں اللہ عزوجل کے تقویٰ کی اور اس کے مسلمان ساتھیوں کے بارے میں خیر کی وصیت فرماتے ۔پھر فرماتے ،اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں غزوہ کرو ۔جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ان سے لڑائی کرو ۔غزوہ کرو خیانت نہ کرو ،بد عہدی نہ کرو ، ناک کان وغیرہ نا کاٹو کسی بچے کو قتل نہ کرو ۔(۱۶) اسی طرح صحابہ کرام کی زندگیوں میں ہمیں یہ اصول نظر آتاہے جیسا کہ جب آپﷺ نے حضرت علی کو رمضان ۱۰ میں ۳۰۰ افراد کے ہمراہ لشکر امام مقرر فر ماتے ہوئے یمن کی جانب روانہ فرمایا تھاتو یہی نصیحت کی کہ سب سے پہلے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا ،اور اگر وہ نہ مانے اور مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں تو ان کے خلا ف میدان میں اترنا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مدحج پہنچ کر ایک کیمپ قائم کیا اور چند افراد پر مشتمل ٹولیاں بنا کر مختلف جانب روانہ کیں اور انہیں وہی ہدایت کی جو نبیﷺ سے سنی تھی۔(۱۷) لہذا جنگ کا اعلان کئے بغیر یکبارگی حملہ کردینا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔جبکہ دیگر مذاہب کے پیروکار یکبارگی حملے کے سبب اپنی شکست کو فتح میں بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کیو نکہ 1907 میں ہیگ کانفرنس میں ہالینڈ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اعلان جنگ کے بعد دشمن کو کم از کم24 گھنٹے کی مہلت دینی چاہیے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہالینڈ کی اس تجویز سے کسی نے اتقاق نہ کیا اور یہ قانون بنادیا گیا کہ اعلان جنگ کے ایک منٹ بعد بھی حملہ کیا جاسکتا ہے لہٰذا جنگ کا کوئی اعلان نہ کیا گیا اور جرمنی نے دوسری جنگ عظیم ( ۱۹۳۹ -- ۱۹۴۵)میں یہی رویہ اختیار کیا۔(۱۸) اس اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنا ضروری ہے کہ اسلام دنیا میں مذہبی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے جس کی مثال ہمیں میثاق مدینہ کی شرائط میں دکھائی دیتی ہے جس میں ایک شرط یہ تھی کہ تمام مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی لہٰذا جب اسلا م قوموں کو آزادی کا حق دیتا ہے تو وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔لہٰذالفظ جہاد کو محض قتال تک محدود کردینا درست نہیں کیونکہ قتال تو جہاد کی سب سے آخری صورت ہے جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک ہر لمحہ جہاد ہے۔

دور حاضر میں جہاد

دور حاضر میں لفظ جہاد کو قتال کے زمرے میں گردانتے ہوئے دنیا میں جنگ اور اس جیسی مہم جوئی کا آغاز کرنا مشکل ہے گو کہ مسلمانوں کو کرہ ارض پر کافی مشکلات کا سامنا ہے جہاں چاہے زمینی یا نظریاتی سرحدوں کی حفاظت درکار ہو ،اجتماعی طور پر جہاد مسلح جدوجہد کی فرضیت انتہائی پیچیدہ نظر آتی ہے ،تاہم مسائل میں گھرے ہوئے مسلمانان عالم کے لئے جہاد کی ضرورت ہے ۔یہاں یہ بات انتہائی مناسب سمجھتی ہوں کہ دور حاضر میں مسلمانوں کو جہاد کی بمعنی قتال سے زیادہ دیگر مفہوم یعنی جدوجہد کی زیادہ ضرورت ہے ،کیونکہ مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں کو مسلح حملوں یا جنگی مہمات سے زیادہ دیگر محاذوں پر خطرات لاحق ہیں ،علمی ،سائنسی اور معاشی میدانوں میں جہاد کی ضرورت ہے ۔جس طرح ماضی میں مسلمانوں نے اپنی دفاع میں جہاد بمعنی قتال کی ہے اسی طرح موجودہ دور میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے میدانوں میں دفاع کی اشد ضرورت ہے ۔ ثقافتی یلغار ہو یا ذرائع ابلاغ کے ذریعے خبروں اور اطلاعات کی فراہمی اور کمیو نیکیشن کے نئے ٹولز ہر میدان میں مسلمان پیچھے نظر آرہے ہیں۔لہٰذا ان میدانوں میں جہاد کی زیادہ ضرورت ہے۔ ان میدانوں کے ہتھیار اور مقابلے کے سامان ہی الگ ہیں۔ روائتی طرز کی جنگوں اور مقابلے کی نسبت دور جدید کے ان میدانوں میں کامیابی کے لئے زیادہ تیاری اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

  1. المنجد ،عربی ۔اردو لوئیس معلوف ، کراچی: مکتبہ قدوسیہ اردو بازار ،سنہ اشاعت ،جولائی ۱۹۷۵ء۔
  2. بلیاوی ،مولانا عبد الحفیظ ،مصباح الغات لاہور :خزینہ علم وادب ،۱۰شعبان المعظم ۱۳۲۹بمطابق ۲۸ مئی ۱۹۵۰۔
  3. اردو لغت،(کراچی : اردو لغت بورڈ ،ترقی اردوبورڈ ، سال اشاعت ،جون۱۹۸۶ء) ص۷،جلدہفتم۔
  4. چراغ علی ،جہاد دہشت گردی یا دفاع، ص۳۱۳۔
  5. ڈاکٹر حمید اﷲعبدالقادر،پیغمبر امن ﷺ (لاہور:دارالسلام ،سنہ اشاعت جون ۲۰۰۸ ء ،بحوالہ ردالمختار :۴ /۱۲۱) ص ۴۲۰ ۔
  6. ایضاً ص ۴۲۰،بحوالہ فتح الباری ، ۶/۳،۳۸۔
  7. سید قاسم محمود، اسلامی انسائیکلو پیڈیا ،(لاہور :، اردو بازار، الفیصل )جلد اول ،ص۷۴۵ ۔
  8. القرآن :۶۱/ ۴ ۔
  9. القرآن :۶۱/ ۱۱۔
  10. ڈاکٹر اسرار احمد ،جہاد فی سبیل اﷲ،(لاہور: مرکزی انجمن خدام ،ستمبر ۲۰۰۳ء)ص۸۔۱۰۔
  11. مودودی ،ابو الاعلی،تفہیمات (لاہور :اسلامک پبلیکشنز (پر ائیویٹ )لمیٹڈ،ستمبر ۲۰۰۷ء )ص ۷۹،۸۔
  12. ا لقرآن :۲۲ / ۳۹،۴۰ ۔
  13. ا لقرآن :۱۶/ ۱۲۵۔
  14. ا لقرآن :۱۷/ ۱۵۔
  15. رضا ،محمد،شیخ، محمد رسولﷺ (لاہور:تاج کمپنی لمیٹڈ ۱۹۶۱ء) ص۴۱۰۔
  16. صفی الرحمن مبارکپوری ،الرحیق المختوم (لاہور:المکتبہ السلفیہ ، اکتوبر ۱۹۹۵ء)ص ۵۹۵۔
  17. جدول سرایا النبیﷺ (کراچی: جامعہ صوت الحرا ء، ۲۰۰۸ء)ص ۲۴۔۲۲۔
  18. لوئیس ایل سنائیڈر، جنگ عظیم دوئم ،ترجمہ مولانا غلام رسول مہر(لاہور:دارالشعور ، جون ۲۰۰۶ء)ص۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...