Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

ظہرین کے اوقات میں اشتراکات: اسلام کے پانچ بڑے فقہی مکاتب فکر کے تناظر میں |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

مقدمہ

اسلام کے احکامات خواہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات و اخلاقیات سے،کوئی نہ کوئی حکمت و فلسفہ ضرور رکھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بعض احکامات کےفلسفے تک اہلِ علم و دانش کے طائرِ ادراک و فہم کی دسترسی ہو جاتی ہے اور بعض کا فلسفہ متعدد وجوہات کے باعث ان کے فہم و ادراک کے جال میں نہیں آتا۔متذکرہ بالا دونوں صورتوں میں انسان مکلف قرار دیا گیا ہے۔جن جن احکامات کے فلسفے تک اہلِ علم کی رسائی ہوئی ان میں سے بعض میں فقہی اختلاف کی صورتیں یا تو سرے سے ناپید ہیں یا پھر قابلِ اعتنا حدتک موجود نہیں۔البتہ جن احکامات کا فلسفہ اسلامی مصادر میں بیان نہ ہونے یا بیان ہونے کے باوجود زمانی اعتبار سے انسانی فہم و ادراک کی گرفت میں نہ آیا اُس کے حوالے سے اہلِ علم و دانش کے درمیان اختلافِ نظر کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔یہ اختلافِ نظر اگر اہلِ علم و تحقیق کی درگاہ و بارگاہ سے نکل کر عوام الناس تک پہنچے تو مختلف قسم کی مسلکی،سماجی اور اخلاقی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔

اہلِ علم و دانش کے فہم و ادراک میں اختلاف اُن بنیادی عوامل میں سے ایک ہے جن کی بنا پر اسلام کے پیروکار متعدد فقہی،اصولی ،کلامی اور اعتقادی گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔رسالت مآبّ کی حیاتِ اقدس تک متذکرہ بالا بنیادوں پراس فوعیت کی بظاہر کوئی گروہ بندی نہیں تھی۔آپّ کی حیات کے بعد قرآن مجید کو متفقہ طور پر آخری آسمانی کتاب ماننے ،رسالت مآبّ کو خاتم النبیین ماننے،قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی کو متفقہ طور پربنیادی اسلامی مآخذ ماننےاورامتِ مسلمہ کی قیادت کے معاملے میں رسولِ گرامیّ کے مجمل و واضح ارشادات و احکامات موجود ہونے کے باوجود مسلمان متعدد فقہی،اصولی،اعتقادی اور مسلکی گروہوں میں تقسیم ہو گئے یا کیے گئے۔مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے"جسمِ واحد" کی مانند ہونے کا تصور نہ صرف کمزور ہوتا گیا بلکہ موجودہ زمانے میں تو ناپید ہونے کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے رسالت مآبّ اور قرآن مجید میں باہمی اتفاق و اتحاد اور برداشت و استقامت کے معاملے میں مختلف اسالیبِ بیان میں جتنی تاکید کی ہے موجودہ زمانے میں مسلمان مختلف مکاتبِ فکر میں اتنی ہی تیزی سے باہمی دوریوں کو ہوا مل رہی ہے یا دی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں بطورِ مثال قرآن مجید کی درج ذیل واضح آیات ملاحظہ کیجیے:

واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ۔)۱(

ترجمہ: اللہ کی رسی کو تم سب مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں گروہوں میں نہ بٹو۔

اطیعو االلہ و اطیعواالرسول ۔۔۔ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم )۲(

ترجمہ:تم سب اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔۔۔اور آپس میں نہ لڑا جھگڑا کرو کہ تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔

انما المئومنون اخوۃ۔)۳ (

ترجمہ:یقینا ایمان لانے والے آپس میں بھائی ہیں۔

ولا تکونوا کالذین تفرّقوا واختلفوا من بعد ما جاءتھم البینت۔۔ )۴(

ترجمہ: تم اُن لوگوں کی طرح نہ بنو جو آپس میں گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور واضح نشانیاں آنے کے بعد بھی آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ مسلمان فرقوں کے درمیان مشترکات اور نقطہ ہائے اتفاق کے جتنے امکانات و احکامات بنیادی طور پر ہیں اتنے اختلافات کے حوالے سے قطعا نہیں۔افغانستان کےمعروف مذہبی رہنما آیت اللہ آصف محسنی نے اپنے ایک نہایت قیمتی کتابچے" اتحادِ امت" میں ایک جگہ لکھا ہے:"یہ واضح حقیقت ہے کہ دین کے اہم اصولوں،اسلامی ارکان یہاں تک کہ اسلامی معارف کے بیشتر حصوں،مکمل قرآن مجید،سنت نبویْ اور اصولِ فقہ کے بیشتر حصوں کے بارے میں شیعہ و سنی مذاہب کے نظریات مشترک اور یکساں ہیں")۵(

مولانا سید جواد نقوی نے اپنی کتاب" وحدتِ امت: اسلام کا فراموش شدہ رکن" میں شیعہ سنی مشترکات کے تناسب کے حوالے سے لکھا ہے:

"شیعہ سنی میں نوّے [۹۰]فیصد مشترکات موجود ہیں۔یہ بات اسلامی مذاہب کے مطالعے کے بعد درج کر رہا ہوں اور نوے[۹۰] فیصد بھی محتاط اندازہ کر رہا ہوں ورنہ مشترکات اس سے بھی زیادہ ہیں اور اختلاف بھی ایسا نہیں کہ جو تفرقہ،دشمنی،کدورت و دوری کی شکل اختیار کرے")۶(

متذکرہ بالا سطور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نمازِ ظہرین کے اوقات کے حوالے سے اسلام کے پانچ بڑے فقہی مکاتب کے درمیان موجودمشترکات کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:

۱۔جعفری،حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی مکاتبِ فکر کے فقھاء کے نزدیک متفقہ طور پر نمازِ ظہر کا وقت اُس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج آسمان کے نصف سے گزر جائے جسے شرعی اصطلاح میں"زوال شمس" کہا جاتا ہے۔

۲۔ اس بات میں بھی مذکورہ بالا فقہی مکاتب میں اتفاقِ نظر پایا جاتا ہے کہ زوالِ شمس کے فوری بعد کا وقت[جس میں چار رکعات نماز پڑھی جا سکے]ظہر کا مخصوص وقت ہے۔ اس مخصوص وقت میں صرف ظہر ہی پڑھی جا ئے گی۔

۳۔یہ نکتہ بھی متفقہ ہے کہ ظہرین[ظہر و عصر] کا وقت"زوالِ شمس" سے شروع ہو کر "غروبِ آفتاب" تک رہتا ہے۔

۴۔پانچوں فقہی مسالک کے فقھاء اس حوالے سے بھی اتفاقِ نظر رکھتے ہیں کہ "غروبِ آفتاب" سے چار رکعات نماز پڑھنے میں عموما جتنا وقت لگتا ہے اُتنا وقت عصر کا مخصوص وقت ہے۔

۵۔یہ بات بھی متفقہ ہے کی عصر کے مخصوص وقت میں صرف عصر ہی پڑھی جائے گی۔

۶۔ظہر کے "وقتِ فضیلت" اور "وقتِ ادا" کے حوالے سے بھی اختلافِ نظر ناقابلِ اعتنا حد تک ہے۔یعنی پانچوں فقہی مکاتب کے نزدیک ظہر کا "وقتِ فضیلت" زوالِ شمس کے آغازسے اُتنی دیر تک رہتا ہے جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جا سکیں۔گویا ظہر کا مخصوص وقت ایک طرح سے اس کا وقتِ فضیلت بھی ہے۔

۷۔ظہر کا "وقتِ ادا"زوال شمس سے شروع ہوتا ہے اورعصر کے مخصوص وقت کے آغاز تک رہتا ہے۔

جہاں تک ظہرین کے وقتِ فضیلت،وقتِ ادا،مخصوص وقت،مشترک وقت،شاخص اور اس کے سائے کی کمیت کے حوالے سے قرآن مجید کی آیت کا تعلق ہے ،اس بارے میں محض "دلوک الشمس اور "غسق الیل " کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ بالاتفاق فقھا ء نےاول الذکر سے "زوال شمس" اور موخر الذکر سے" غروب آفتاب" مراد لی ہے۔ آیت ملاحظہ ہو:

"اقم الصلواۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل۔۔۔" )۷ (

ترجمہ: زوالِ شمس سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کرو ۔۔۔

ظہرین سے متعلق متذکرہ بالا امور کے حوالے سےفقھاء نے جن روایات کو قابلِ اعتبار و اعتنا سمجھتے ہوئے استناد و اجتہاد کیا ہے اُن میں درج ذیل روایات بنیادی اہمیت دی گئی ہے:

۱۔ قامۃ للظھر و قامۃ للعصر )۸(

شاخص کے سائے کی مقدارلمبائی میں شاخص کے ایک برابر ہونے تک کا وقت ظہر کا اور دو برابر ہونے تک کا وقت عصر کا ہے۔

۲۔حضرت امام جعفر صادق بن حضرت امام محمد باقر کے خاص صحابی جناب زرارۃ نے اُن سے ظہرین کے وقت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب ان الفاظ میں دیا:

اذا زالت الشمس فقد دخل وقت الظھر والعصر جمیعا الا انّ ھذہ قبل ھذہ ثم انت فی وقت منھما جمیعا حت تغیب الشمس ) ۹(

جب زوالِ شمس ہوجائے ظہر اور عصر دونوں کا وقت شروع ہو جاتا ہے البتہ اِس[ظہر]کا وقت اُس[عصر] سے پہلے ہے پھر اس کے بعد سورج غروب ہونے تک ان دونوں کا وقت تمھارے اختیار میں ہے۔

۳۔امام مالک اور امام حنبل نے" وقتِ اضطراری " اور "وقتِ اختیاری" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ دونوں فقھاء کے مطابق ظہرین کا اختیاری وقت تب شروع ہوتا ہے جب شاخص کا سایہ اُسی کے برابر ہو جائے۔ اب سوال اختیاری وقت کے ختم ہونے کا رہا تو اس بارے میں ان دونوں فقھاء کی رائے مختلف ہے۔امام مالک کے مطابق ظہرین کا اختیاری وقت سورج کی کرنیں/روشنی زرد ہونے تک رہتا ہے۔جوں ہی کرنیں زرد ہونا شروع ہو جائیں ظہرین کا "اضطراری وقت" شروع ہو جاتا ہے جو کہ غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔امام مالک نے اس مسئلے میں جس روایت پر استناد کیا ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں:

جمع بین الظھر والعصر فی الحضر )۱۰(

حضورّ نے حضر میں ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں ۔جبکہ امام حنبل کی رائے میں ظہرین کا اختیاری وقت تب ختم ہوجاتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اُسی کے دوگنا ہو جائے۔)۱۱(

۴۔مکتبِ جعفری میں ظہر و عصر نیز مغرب و عشاکو یکے بعد دیگرے پڑھنے کے جواز کے طور پر صحابئ رسول ّ جناب ابنِ عباس کی اس روایت کو بنیاد قرار دیا گیا ہے:

جمع بین الظھرو العصر والمغرب و العشاء فی السفر و الحضر )۱۲(

ترجمہ: رسول اللہ ّ نے سفر اور حضر میں ظہروعصر کو ساتھ اور مغرب و عشا کو ساتھ پڑھا۔

متذکرہ بالا سطور اور روایات کی روشنی میں درج ذیل نکات بطورِ خلاصہ و نتیجہ سامنے آتے ہیں:

۱۔ظہر کا مخصوص وقت "زوالِ شمس" سے شروع ہو کر اُتنی دیر تک رہتا ہے جتنی دیر میں عموما چار رکعات پڑھی جا سکتی ہیں۔

۲۔ظہر کے مخصوص وقت میں صرف ظہر ہی پڑھی جائے گی۔

۳۔عصر کا مخصوص وقت غروبِ آفتاب سے متصل اُتنا وقت ہے جس میں عموما چار رکعات پڑھی جا سکیں۔

۴۔عصر کے مخصوص وقت میں صرف عصر ہی پڑھی جائے گی۔

۵۔ظہر اور عصر کے مخصوص اوقات کا درمیانی وقت گویا "مشترک وقت/اختیاری وقت" ہے۔

۶۔رسالت مآب ّ نے سفر کے علاوہ حضر میں بھی کبھی کبھار ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھا ہے۔

۷۔ظہر اور عصر کو ساتھ[یکےبعد دیگرے] پڑھنا لازم قطعا نہیں بلکہ جائز ہے۔

۸۔ظہر اور عصر کو ہر صورت میں الگ الگ پڑھنا بھی لازم نہیں ۔

۹۔متذکرہ بالا سطور و نتائج کے تناظرمیں تمام مسلمان مکاتب و مسالک کی قیادتوں سے اب بھی امتِ مسلمہ کا وہی سوال و شکوہ ہے جوحکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے اپنی لازوال نظم"جوابِ شکوہ " کے درج ذیل اشعار میں کیا تھا :

منفعت ایک ہے اس قوم کی،نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی،دین بھی ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی قرآن بھی اللہ بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں)۱۳(

حوالہ جات

  1. القرآن: 3/103
  2. القرآن:8/86
  3. القرآن:49/10
  4. القرآن:3/105
  5. محسنی،آیت اللہ محمد آصف،اتحادِ امت،اردو ترجمہ: سید عباس موسوی، (اسلام آباد: البلاغ المبین،طبع دوم ۲۰۰۹ء) ص۲۱
  6. جواد نقوی،سید ، وحدتِ امت، (لاہور:متاب پبلی کیشنز،اشاعت اول اگست ۲۰۱۳ء) ص ۲۶
  7. القرآن:17/78
  8. الحر العاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، (بیروت:دار احیاء التراث العربی،سن اشاعت ندارد) ج3، ص105
  9. ایضاً، ج3، ص105
  10. ابنِ قدامہ،ابو محمد موفق الدین عبداللہ ابن احمد ،المغنی، (قاہرہ: مکتبہ القاھرہ ،۱۹۸۶ء/۱۳۸۸ھ) ج 10،ص ۳۷۴
  11. الجزیری،عبد الرحمن،الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، (بیروت:دار الارقم بن ابی الارقم،۱۹۹۳ء) ج ۰۱،ص ۱۸۳
  12. وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، ج ۳،ص ۱۶۱
  13. علامہ محمد اقبال،ڈاکٹر،جوابِ شکوہ[نظم]،مشمولہ:کلیات اقبال[اردو] (لاہور: الفیصل ناشران وتاجران) سن نداردص
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...