Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Bayān al-Ḥikmah > Volume 3 Issue 1 of Bayān al-Ḥikmah

قرآنی طرز زندگی کے مطابق قیادت و رہبریت کی شرائط |
Bayān al-Ḥikmah
Bayān al-Ḥikmah

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060034450_1069

Pages

27-49

PDF URL

http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/download/28/28

Chapter URL

http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/view/28

Subjects

قیادت رہبریت امامت سیاست حکومت داڑھی مذہب لحیۃ مونچھیں واجب

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ

قرآن کریم اللہ کی کتاب اور کتاب ہدایت ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لیے وہ سب کچھ رکھ دیا ہے جس کی کسی بھی زمانے کے انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہے نیز انسان ترقی کرتے ہوئے اگر مریخ پر بھی پہنچ جائے تو قرآن ہی اس کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے کوئی آسمانی کتاب نازل ہونے والی نہیں ہے۔ لہٰذا اسلامی تعلیمات کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گذارنے کے لیے قرآن سےہدایت حاصل کرنا ضروری ہے اور ہدایت کے حصول کے لیے اس کا پڑھنا، سمجھنا اور غور وفکر کرنا یعنی تدبر فی القرآن ضروری ہے۔

بعض سادہ لوح لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام فقط آخرت کے لیے ہدایت فراہم کرتا ہے اور حکومت، سیاست اور قیادت وغیرہ کے مسائل کا تعلق اسلام اور قرآن سے نہیں ہے حالانکہ دین اسلام ایک نظام زندگی ہے جس میں انسان اور انسانی معاشرے کے لیے ان تمام ہدایتوں کو جمع کردیا گیا ہے جس کی ضرورت کسی بھی شعبہ حیات میں پڑسکتی ہے یہاں تک کہ بیت الخلا میں بیٹھنے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں لہٰذا یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ معاشرے کی ایک انتہائی اہم ضرورت یعنی حکومت اور سیاست کے بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ ہو۔ اور جب حکومت اور سیاست کی بات کی جائے تو یہ ممکن نہیں کہ قیادت و رہبریت سے متعلق ہدایت قرآن میں موجود نہ ہو کیونکہ ریاست کا قیام اور اس کا تنظام و انصرام ایک لائق فائق اور صالح قیادت کے بغیر ممکن نہیں۔ جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں جابجا ہدایات نظر آتی ہیں۔

اسلام سے قبل حجاز مقدس میں مرکزی قیادت کا کوئی تصور نہ تھا بلکہ قبائلی نظام رائج تھا جس میں ہر قبیلے کا سردار اس قبیلے کا قائد و رہبر سمجھا جاتا تھا تاہم قبیلہ کے سردار کا انتخاب بعض خوبیوں کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا تھا جن میں شجاعت، سخاوت اور علم کو اہمیت دی جاتی تھی البتہ اس کے باوجود لوگ ذاتی اثر ر رسوخ کے سبب قبیلہ کا سردار بن جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اپنے بنیاد نصاب یعنی قرآن کریم میں ان چیزوں کو جمع کردیا ہے تاکہ ہر دور کے انسان ان سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے زمانے کے مطابق اہل افراد کو یہ بھاری ذمہ داری سونپ سکیں اور معاشرہ اپنے ارتقائی سفر طے کرتا ہوا کمال تک رسائی حاصل کرلے۔

قرآن کریم میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67 کو آیہ بلغ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں خداوند عالم نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ وہ اس پیغام کو پہنچادیں جو پہلے ہی نازل ہوچکا ہے اور اگر یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا[1]۔ متعدد روایات کی روشنی میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں حضرت علی ؑکی ولایت کو پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا اسلامی معاشرے کی قیادت و رہبریت کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) سے کہا گیا کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو گویا رسالت کا کوئی کام نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ جس معاشرے کی بنیاد اللہ کے رسول نے اپنی نگرانی میں رکھی اور جس معاشرے کو زمانہ جاہلیت کے قبائلی نظام سے نکال کر مرکزی سیاسی نظام کی طرف لے کرآئے اس کی قیادت میں تسلسل ضروری تھا ورنہ امت کا شیرازہ بکھر جاتا۔ بعد کی تاریخ نے ثابت کیا کہ جب امت نے اعلان غدیر پر عمل نہیں کیا تو کس طرح اسلام کی پوستین الٹ گئی۔ [2]

قرآن کریم میں واضح طور پر دو طرح کی قیادتوں کا تذکرہ ہےایک کو ائمہ ہدیٰ کہا گیا ہے اور ارشاد ہو اکہ : وَجَعَلنَاهُم أئِمَّةً يَهدُونَ بِأمرِنَا[3]  اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے ۔"جبکہ دوسرے کو ائمہ جورسے تعبیر کیا گیا ہے جو لوگوں کو جہنم کی آگ کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ وَ جَعَلنَاهُم أئمَّةً يَدعُونَ إلی النَّارِ[4]  اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے۔"

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دونوں طرح کی قیادتوں میں صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض صلاحیتیں مشترکہ بھی ہوتی ہیں تاہم ائمہ ہدیٰ معاشرے کو امر الٰہی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں انہیں اپنی قیادت و رہبریت میں خدا کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ ائمہ جور لوگوں کو آگ یعنی نار جہنم کی دعوت دیتے ہیں اور جو ان کے پیچھے چلتا ہے وہ انہی کہ ساتھ جہنم رسید ہوجاتا ہے۔ ائمہ ہدیٰ کے لیے لفظ یھدون آیا ہے جبکہ ائمہ جور کے لفظ یدعون آیا ہے جو کہ خود ان کی دعوتوںکی حقیقت کو و اضح کرتا ہے۔

قرآن کریم میں خدا سے برگشتہ کرنے والی قیادت کو طاغوت کا نام دیا گیا ہے جو کہ لفظ طغیٰ سے نکلا ہے جس کا معنی طغیانی و سرکشی ہے گویا ایسی قیادت خود کو خدا کے مقابل قرار دیتی ہے اور معاشرے کو بھی خدا سے برگشتہ کرتی ہے اور انسان کو خدا کے احکام سے بغاوت پر اکساتی ہے۔ نتیجتاً انسان اور انسانی معاشرہ نور ہدایت سے نکل کر کفر و شرک کی گمراہی میں پہنچ جاتا ہے۔

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ[5] اﷲ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں (حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"

قرآن کریم تو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے انکار کو قرار دیتا ہے۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ[6]۔ اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو۔

لہٰذا الہٰی قیادت کا ایک فریضہیہ بھی ہے کہ وہ معاشرے کو طاغوت کی غلامی سے نجات دلائے تاکہ لوگ طاغوت کی اطاعت کو چھوڑ کر خدا کی اطاعت میں داخل ہوجائیں۔

قرآن نے کفر کے اماموں سے جنگ کرنے کا حکم ہے.[7] یعنی آخری مقابلہ کفر کی قیادت و رہبریت ہونا چاہئے تاکہ کفر ہمیشہ کے لیے نابود ہوجائے وگرنہ فقط کفر کے ایجنٹوں سےمقابلہ کرنے یا خاتمہ کرنے سے کفر کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کا مقابلہ کفر کی قیادت سے ہوجاتا ہے اوراگر وہ اس مقابلے میں سرخرو ہوجائیں تو پھر ان کے زمانے میں کفر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ مقابلہ ہے جو اسلام کی نگاہ میں مقدس ہے اور اس کی خاطر جان بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ اس اعتبار سے ایک الہٰیقیادت و رہبریت کی ذمہ دار اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اسے اس جنگ کی قیادت بھی کرنی ہے جو کفر کے لیڈروں سے ہوتی ہے اور جس میں عالم کفر اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ وارد میدان ہوتا ہے۔

یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ دین اسلام ہر سطح پر ایمان باللہ کی اہمیت پر کیوں زور دیتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں اہل حق کی تعداد کم اور وسال محدود رہے ہیں ایسے میں ایمان ہی کے سہارے کفر اور طاغوت کے رہنمائوں سے مقابلہ ممکن ہے۔پس قرآن کے مطابق الہٰی قیادت کی سب سے بڑی پہچان اللہ پر ایمان ہے اور وہ خدا کی خاطر جہاد کرتے ہیں جبکہ کفار و مشرکین طاغوت کی خاطر لڑتے ہیں۔

الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا[8]۔ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں (ظلم و استحصال کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے) جنگ کرتے ہیں اورجنہوں نے کفر کیا وہ شیطان کی راہ میں (طاغوتی مقاصد کے لئے) جنگ کرتے ہیں، پس (اے مؤمنو!) تم شیطان کے دوستوں (یعنی انسانیت کے دشمنوں) سے لڑو، بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔"

قرآن نے انبیاء علیہم السلام کو اپنی اپنی امتوں کے لیے قائد و رہبر کے طور پرپیش کیا ہے اور انہیں اپنی اپنی امتوں کے لیے اُسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ یہ سب ہادیان برحق ایمان کےاعلیٰ ترین درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔ ان کی کامیابی درحقیقت ان کے ایمان باللہ کی کامیابی ہے نیز وہی لوگ جو اس معاشرے میں ایمان کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے ان کے ساتھی بنے۔ کمزور ایمان والے لوگ اور شکوک و شبہات میں مبتلا لوگ انبیا کی تحریک میں پیش پیش نظر نہیں آتے۔ بعض اوقات قرآن نے انبیاء کے علاوہ بھی کچھ کردار بیان کیے ہیں مثلاً ایک مثالی قیادت کے طور پر جناب طالوت کو پیش کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ بقرۃ میں ارشاد ہوا ہے:

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [9]۔ اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔"

یہاں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ طالوت کو علم اور جسم کی بنیاد پر برتری دی گئی اور ان کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ پس یہ دونوں صفات یعنی علم میں برتری اور جسمانی شجاعت قیادت و رہبریت کے دو اہم ستون ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ لفظ جسم یہاں شجاعت کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے البتہ پہلے زمانے میں جنگ و جدل کے لیے انسان کا جسمانی طور پر طاقتور ہونا بھی ضروری ہوتا تھا اور ہتھیار اور سواری قوت و طاقت ہی کے ذریعے موثر طور پر استعمال کیے جاسکتے تھے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے اور جسمانی طاقت کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے تاہم جب تک قیادت و رہبریت میں شجاعت نہیں ہوگی فقط ٹیکنالوجی سے مقابلہ جیتا نہیں جاسکتا۔ بزدل قیادت کبھی جرائت مندانہ فیصلے نہیں کرسکتی خاص طور پر جہاں جان و مال کو خطرات بھی درپیش ہوں تو وہ ہمیشہ مصلحت پسندی کا شکار ہوگی اور اپنے مخالفین سے اپنے دل میں خوف محسوس کرے گی۔

اس آیت سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ لفظ علم کو پہلے اور جسم کو بعد میں رکھا گیا ہے جس سے طاقت کے مقابلے میں علم کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے درباریوں کے سامنے تخت بلقیس کو لانے کا حکم دیا تو قرآن کریم کے مطابق ایک عفریت نے کہا کہ وہ دربار برخاست ہونے سے قبل تخت بلقیس کو حاضر کرسکتا ہے کیونکہ وہ قوی و امین ہے۔

قَالَ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ۔ قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ۔ قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ۔[10] (سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیںo یک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوںo (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے۔"

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قوی کے لیے بھی امین ہونا ضروری ہے ورنہ اپنی طاقت و قوت کی مدد سے خیانت بھی کرسکتا ہے تاہم اگر اس کے مقابلے میں اہل علم موجود ہوں تو پھر ان کو برتری حاصل ہوگی۔ آیت نے یہ بھی بتا دیا کہ کتاب کا تھوڑا سا علم بھی عفریت پر بھاری ہوتا ہے۔ پس اہم ذمہ داری اسی کو دی جائے گی جس کا علم زیادہ ہو۔ ایک الٰہی معاشرے میں جاہل کو کسی بھی اہم ذمہ داری پر فائض نہیں کیا جائے گا اس میں تو کوئی دو رائے نہیں۔

اسلام علم کو بہت اہمیت دیتا ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس بات کی تصریح کردی گئی ہے۔ کہیں کہا گیا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوتے تو کہیں جاہل کو نابینا اور جاہل کو بینا قرار دیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ [11]۔ آپ (ان سے دریافت) فرمائیے: کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے، آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی (دینِ) حق کی ہدایت فرماتا ہے، تو کیا جو کوئی حق کی طرف ہدایت کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے یا وہ جو خود ہی راستہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راستہ دکھایا جائے (یعنی اسے اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے جیسے کفار اپنے بتوں کو حسبِ ضرورت اٹھا کر لے جاتے)، سو تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔"

ایک الہٰی رہبر کے لیے فقط یہ کافی نہیں کہ وہ عالم ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معلم ہو کیونکہ معاشرے میں علم کے فروغ میں بھی اس کو کردار ادا کرنا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے اپنے رسول کے لیے فرمایا۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ[12]۔ وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"

علم کی اہمیت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا تاہم یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ علم مقصود بالذات نہیں بلکہ حصول مقصد کا ذریعہ ہےجبکہ اس کے مقابلے میں تقویٰ مقصود الہٰی ہے اور وہ ہر اہم ذمہ داری کی بنیاد ہے۔ علم اگر تقویٰ کے بغیر ہو تو پھر وہ آفت ہے۔ پس قیادت و رہبریت کے لیے تقویٰ ضروری ہے بلکہ تقویٰ کا ایک اعلیٰ درجہ درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان، علم اور شجاعت کے بعد جتنی بھی صفات و خصوصیات ہیں وہ سب تقویٰ کے ذیل میں آتی ہیں۔ مثلاً تقویٰ کے بہت سے تقاضے ہیں ان میں سے ایک استقامت ہے۔ قیادت اور استقامت لازم و ملزوم ہیں اور قرآن کریم میں ہے۔إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ[13]۔ بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔"

فرشتوں کا نزول خواہ مومن کے قلبی سکون کے لیے ہو یا جنگ بدر کی طرح فتح کی نوید بن جائے دونوں صورتوں کے لیے ایمان اور استقامت کی شرط ہے۔ ظفر علی خان نے اس بات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کواتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

قرآن کریم کے مطابق ہر مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستضعفین کی حمایت کرے۔ مستضعفین وہ مظلوم ہیں جن کو کسی سازش یا ظلم کے ذریعے کمزور کردیا گیا ہے اور اب وہ اس طرح بے بس ہیں کہ ظالموں کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں۔ایک عام مسلمان کو بھی ان کی پشت پناہی کا حکم دیا گیا ہے پس ایک الٰہی قیادت و رہبریت کا فریضہ حمایت سے کہیں زیادہ ہے یہاں تک کہ قرآن کریم جن مواقع پر کسی سے جنگ کرنے کو لازمی قرار دیتا ہے ان میں سے ایک مقام مستضعفین کی مدد و نصرت ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے۔وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا[14]۔ اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (مظلوموں کی آزادی اور اُن کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے) جنگ نہیں کرتے حالانکہ کمزور، مظلوم اور مقہور مرد، عورتیں اور بچے (ظلم و ستم سے تنگ آ کر اپنی آزادی کے لیے) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (مؤثر اور طاقت ور) لوگ ظالم ہیں اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے۔"

قرآن کے مطابق قائد و رہبر کو اخلاق پسندیدہ کا حامل ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر اس کے گرد جمع ہوں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ بد اخلاق اور بد کردار لوگوں سے لوگ متنفر ہوتے ہیں اور ان سے دور بھاگتےہیں قرآن کریم نے رسول اکرم کے لیے فرمایا ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ[15]۔ (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔"

قیادت و رہبری کے لیے تواضع و بردباری بھی ایک بنیادی شرط ہے اور یہ بھی تقویٰ کا ہی تقاضہ ہے کیونکہ خداوند عالم کو تکبر پسند نہیں ہے ۔تکبر کا معنی خود کو بڑا سمجھنا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی مخلوق خدا کے سامنے بڑی نہیں ہے اسی لیے خدا کو یہ پسند ہے کہ انسان متکبر ہو، شیطان کے لیے کہا گیا ہے کہ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔[16] اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا"۔ بڑا صرف خدا ہے اور اسی کو تکبر کرنا زیب دیتا ہے۔ انسان کے لیے یہی سب سے بڑی بات ہے کہ وہ عبد بن جائے۔ محمد رسول اللہ بھی عبد تھے اور عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ ہر دور میں قیادت و رہبریت کے دعویدار کو تواضع اور انکساری کا اظہار کرنا ہوگا پھر تو وہ کامیاب ہوگا ورنہ تکبر کرنے والے کا انجام شیطان اور فرعون والا ہوتا ہے۔

اسلام اور قرآن کی نگاہ میں قائد و رہبر کے اندرسوز دروں یا درد دل ہونا چاہئے اور اپنی امتوں کے لیے خیر خواہی ہونا چاہئے۔ انبیا علیھم السلام کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی امتوں کے لیے اس قدر سوز و گداز رکھتے تھے کہ ان کی غلط کاریوں کے باوجود ان کے لیے عذاب الٰہی طلب نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ جب بات انتہا کوپہنچ جاتی تھی تو پھر عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اللہ نے چالیس سال تک بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ ان کے ساتھ رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنی مشرک امت ، جنہوں نے ان کو اللہ کا بیٹا بنادیا اور عبادت شروع کردی ، کے لیے بھی خدا سے در پردہ سفارش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ[17]

اور جب اﷲ فرمائے گا: اے عیسٰی ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنا لو، وہ عرض کریں گے: تو پاک ہے، میرے لئے یہ (روا) نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو یقیناً تو اسے جانتا، تو ہر اس (بات) کو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں ان (باتوں) کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہےoمیں نے انہیں سوائے اس (بات) کے کچھ نہیں کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ تم (صرف) اﷲ کی عبادت کیا کرو جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا(بھی) رب ہے، اور میں ان (کے عقائد و اعمال) پر (اس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا، اور تو ہر چیز پر گواہ ہےo اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے۔"

رسول اکرم کی تو کیا بات ہے کہ خدا وند عالم ان کے لیے فرماتا ہے۔ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ[18] (اے حبیبِ مکرّم) شاید آپ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔" یہاں باخع سے مراد یہ ہے کہ گویا اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے تاکہ کسی طرح یہ لوگ مومن ہوجائیں یہ ایک قائد و رہبر کی اپنی قوم سے عشق و محبت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی قوم کی فلاح چاہتا ہے اور اس کی خاطر کہاں تک جاسکتا ہے۔

قیادت و رہبری کے لیے وسعت قلبی ضروری ہے۔ تنگ دل انسان اسلام کی نگاہ میں رہبریت کے لیے اہل نہیں ہے کیونکہ وہ پوری امت کا امام ہوتا ہے اور اس کے دل میں امت کے ہر فرد کے لیے گنجائش ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں پیغمبر اکرم کے لیے خداوند عالم فرماتا ہے۔أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ[19] کیا ہم نے آپ کے کو شرح صدر عطا نہیں کیا؟ ایک الہٰی رہبر کبھی قوم پرستی یا فرقہ پرستی میں نہیں پڑتا وہ تو پوری انسانیت کی بات کرتا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا، قرآن کو پوری انسانیت کے لیے ہدی للناس بنایا۔ امام مہدی عج اللہ فرجہ شریف کی حکومت عالمی حکومت ہوگی اور وہ پوری انسانیت کے لیے نجات دہندہ بن کر آئینگے۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی امت کے رہبر و قائد کو عالمی سوچ کا حامل ہونا چاہئے۔ تنگ نظری کے ساتھ یہ کام نہیں ہوسکتے۔

رہبریت کے لیے عدالت خواہی اور انصاف پسندی ضروری ہے۔ ظالم کے لیے تو امامت ثابت نہیں ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم سے فرمایا۔ لا ینالُ عَهْدِی الظّالِمِینَ[20] یہ عہدہ امامت ظالموں تک ہرگز نہیں پہنچے گا۔ پس قرآن کریم کے مطابق قیادت و رہبری کے لیے عدل و انصاف کا خوگر ہونا ضروری ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ الملک یبقیٰ مع الکفر ولا یبقیٰ مع الظلم[21] ، حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کےساتھ نہیں چل سکتی۔ محققین نے اس کے حدیث ہونے سے انکار بھی کیا ہے اور بہت سے علماء نے اس کو قبول بھی کیا ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کفر کی حکومت اگر عدل و انصاف برقرار رکھے تو پائیدار ہوتی ہے لیکن ظلم کی عمر کم ہوتی ہے۔ ایک الٰہی رہبر کبھی ظلم کے نظام کو پسند نہیں کرتا بلکہ ظلم کے خلاف بغاوت کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ یہ تو کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ کوئی الٰہی رہبر ظلم کے نظام کا حصہ بنے یا اس کا آلہ کار بنے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ظاغوتی نظام ہے اور وہ طاغوت سے جنگ کرنے والا۔

رہبر و قائد کے لیے فقط یہ کافی نہیں کہ وہ ظالم نہ ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں کو ظلم کی چکی سے نجات دلائے اور ان پر پڑی ہوئی ظلم و ستم نیز جہالت و توہمات یا کفر و شرک کی زنجیروں کو اتار پھینکےاور انہیں خرافات سے نجات دلائے۔یہ بات اس آیت میں کہی گئی ہے۔ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [22]۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔"

قرآن کریم تو انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی عادلانہ معاشرے کا قیام بتاتا ہے اور کہتا ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ[23]۔  بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے۔

اسلام میں قیادت ورہبری کے لیے جو ہدایات آئی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اصولوں پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والا ہوتا ہے اور کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتا اور مصالحت کی کوئی کوشش ممکن نہ ہو تو پھر قاطعیت کے ساتھ اعلان کردیتا ہے۔ لَکمْ دِینُکمْ وَ لِی دِینِ۔[24] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔

ایک الہٰی رہبریت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اہل ایمان اور مخلص ساتھیوں کے لیے نرمی اور عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہو لیکن جب دشمنان اسلام کا سامنا ہوتو پھر شدت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہو۔ قرآن کریم واضح طور پر اعلان کررہا ہے۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا[25]۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں۔ وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔"

علامہ اقبال نے اس بات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے:

ہو حلقہ یاراں تو ابریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن[26]

اسلام میں کسی بھی عہدے پر فائز ہونے کے لیے مندرجہ بالا صفات و خصوصیات کے ساتھ ساتھ حسن تدبیر یعنی اہلیت ضروری ہے۔ نااہل اور بے صلاحیت افراد کو ہرگز کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا خواہ اس کا علم اور تقویٰ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکل کر مدین پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ ایک کنویں میں اپنی مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور وہیں دو لڑکیاں اس انتظار میں ہے کہ ان کی باری آئے۔ حضرت موسیٰ نے ان کی مدد کی تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دعوت دی کہ وہ ان کے والد حضرت شعیب علیہ السلام سے ضرور ملاقات کریں۔ جب موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام سے ملے تو ان لڑکیوں میں سے ایک نے کہا۔ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ[27]۔ ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں(

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں کو کیسے پتہ چلا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوی اور امین ہیں۔ جواب واضح ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جس طرح ان لڑکیوں کی مویشیوں کو پانی پلوایا اور لوگوں کو کنویں کے پاس سے ہٹایا وہ ان کی قوت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا اور جب یہ لڑکیاں اپنے والد کے پاس واپس جارہی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے چل رہے تھے تو موسیٰ علیہ السلام کو احساس ہوا کہ ان کی نگاہیں ان لڑکیوں کے وجود پر پڑ رہی ہیں جو غیر مناسب ہے پس انہوں نے کہا کہ میں آگے آگے چلتا ہوں اور تم دونوں مجھے پیچھے سے راستہ بتائو۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امانتداری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کے مطابق اہم ذمہ داریاں اس کو دی جانی چاہئے جو قوی یعنی اہل ہو اور امین یعنی امانتدار ہو۔ قیادت و رہبری بھی انتہائی ذمہ داری کا کام ہے پس اس کے لیے بھی قوی یعنی اپنی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے والا اور امین یعنی قوم کی امانت جو اس کے پاس مال و دولت کی شکل میں ہے یا عزت و ناموس کی شکل میں اس میں خیانت کرنے والا نہ ہو اگر ایک مرتبہ بھی اس کی موئی معمولی خیانت بھی سامنے آجائے تو وہ نا اہل ہوجائے گا۔

قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بھی ہے جس میں عزیز مصر نے جب چاہا کہ ان کو اہم ذمہ داری عطا کرے تو انہوں نے خود فرمایا۔ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ۔ قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ[28]۔ ور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے(o یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔"

حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنی خوبی گنوانا دراصل شرائط کو واضح کرنا تھاکہ جس شخص کو اہم ذمہ داری دی جارہی ہے اس کا ذمہ دار اور قابل ہونا ضروری ہے۔ قیادت و رہبری بھی ایک اہم ذمہ داری ہے اس لیے بدرجہ اتم حفیظ یعنی بہت زیادہ حفاظت کرنے والا اور علیم یعنی بہت زیادہ علم رکھنے والا ہونا چاہئے۔

یوں تو اسلام میں قیادت و رہبریت کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے تاہم قائد و رہبر کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اجتماعی معاملات میں مشورہ کرے اور قرآن کریم اس بارے میں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ[29]۔ . اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔"

قیادت و رہبریت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر فصاحت و بلاغت ہو تاکہ وہ اپنی بات موثر انداز سے کرسکے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اتر جائے اور جدال میں کامیابی حاصل ہو۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے:

اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى۔ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي۔[30]۔ تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہےo(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دےoاور میرا کارِ (رسالت) میرے لئے آسان فرما دےo اور میری زبان کی گرہ کھول دےoکہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں۔"

الہٰی قیادت و رہبریت کے لیے بصیرت نہایت ضروری ہے کیونکہ قدم قدم پر جن معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں بصیرت کے ساتھ سمجھنا اور فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ بصیرت سے مراد دینی بصیرت بھی ہے اور سیاسی و اجتماعی بصیرت بھی۔ بے شک وہ دیگر بابصیرت ساتھیوں سے مشورہ بھی کرسکتا ہے تاہم حتمی فیصلہ تو اسے ہی کرنا ہوتا ہے اس لیے بصیرت کے بغیر معاملہ نہیں چل سکتا پس ایک الہٰی رہبر کے لیے جہاں مندرجہ بالا اور بہت سی خوبیاں ہونی چاہئے وہیں بصیرت کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ[31]

(اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔"

حوالہ جات

  1. يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (سورہ مائدہ 67)
  2. پوستین الٹنے کی اصطلاح حضرت علی ؑ نے اپنے خطبےمیں استعمال کی ہے. وَلُبِسَ الْإِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوباً (نھج البلاغہ، خطبہ 108 )
  3. القرآن: 21/73
  4. القرآن: 28/41
  5. القرآن:2/ 257
  6. القرآن: 16/ 36
  7. فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (سورہ توبہ 12)
  8. القرآن: 4/72
  9. القرآن: 2/ 247
  10. القرآن:27/ 38-40
  11. القرآن:10/35
  12. القرآن: 62/ 2
  13. القرآن: 41/30
  14. القرآن: 4/75
  15. القرآن: 3/159
  16. القرآن: 2/34
  17. القرآن: 5/ 118
  18. القرآن: 26/3
  19. القرآن: 94/1
  20. القرآن: 2/124
  21. الجاحظ، البیان والتبین، ج1، ص 178، مکتبہ الاستقامہ قاہرہ 1956ع
  22. القرآن: 7/ 157
  23. القرآن: 57/ 25
  24. القرآن: 109/6
  25. القرآن: 48/ 29
  26. علامہ، محمد اقبال، ضرب کلیم (لاہور: اقبال اکیڈمی، 1936) ص 39
  27. القرآن: 28/26
  28. القرآن: 12/ 54 ، 55
  29. القرآن: 42/38
  30. القرآن: 20/ 24 تا 28
  31. القرآن: 12/108
  1. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn1
  2. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn2
  3. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn3
  4. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn4
  5. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn5
  6. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn6
  7. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn7
  8. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn8
  9. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn9
  10. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn10
  11. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn11
  12. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn12
  13. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn13
  14. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn14
  15. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn15
  16. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn16
  17. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn17
  18. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn18
  19. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn19
  20. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn20
  21. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn21
  22. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn22
  23. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn23
  24. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn24
  25. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn25
  26. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn26
  27. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn27
  28. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn28
  29. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn29
  30. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn30
  31. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn31
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...