Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Habibia Islamicus

اسلام میں اکل بالباطل اوردھوکہ دہی کی ممانعت |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

انسان جب سے اس دنیامیں آباد ہواہے اس وقت سے اسےدوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے پڑتےہیں ، ان میں سے بعض مالی معاملات ہیں جیسے خریدوفروخت ، ملازمت وغیرہ اور بعض غیرمالی ہیں جیسے نکاح،طلاق وغیرہ ۔مالی معاملات میں سب سے زیادہ انسان کو تجارت سے واسطہ پڑتا ہے،کوئی مستقل تجارت کاپیشہ اختیار کرلیتا ہےاور کسی کو بوقت ِضرورت تجارت کرناپڑتی ہے۔ اب تجارت کیسے ہونی چاہئے؟ اس میں کن باتوں کاخیال رکھنا چاہئے ؟ کس چیز کی تجارت کرنی چاہئے ؟ان سب باتوں کاکسی حد تک درست جواب تو خودوہ عقل فراہم کرتی ہے جواللہ تبارک وتعالی نے انسان کو عطا فرمائی ہے ،اسی عقل سے رہنمائی لے کر آج دنیامیں تجارت کی بے شمار صورتیں رائج ہوگئی ہیں اوردن بدن ان میں اضافہ ہورہاہے،اگر انسان کی عقل سلجھی ہوئی اورسلیم ہوتو وہ خود ہی تجارت کی ایسی صورتیں اختیار کرنے سے روک دیتی ہے جس میں انسان کو خسارے کاسامناکرناپڑسکتا ہے یانفع خطرے میں پڑجاتاہے۔مگر جب عقل ماحول کی خرابی کی وجہ سے یازیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے چکر میں اندھی ہوجاتی ہے توپھر انسان جائزناجائز، صحیح غلط کی پرواہ کیے بغیر اپنے ظاہری نفع کے پیچھے پڑجاتاہے ۔پھروہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ حلال تجارت کررہاہےیاحرام تجارت کرکے اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہاہے۔اسے بس ہرصورت میں مال اکٹھاکرنے کی فکر ہوتی ہے ۔انسانی روایات اور اخلاقی اقدار اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ۔پھریہی عقل جو اس کوراہ ِراست پرلانے کی خدمت انجام دے سکتی تھی اس کوغلط کاموں پردلیر کردیتی ہے اور تجارت کو غلط رخ پرڈال کراس کے صحیح ہونے پر بھونڈے دلائل بھی قائم کرلیتی ہے۔

 

اسی لیے اسلام (جوکہ دین ِفطرت ہے )نے تجارت سے متعلق ایسی قیمتی ہدایات دی ہیں کہ انسان اگر ان پر صحیح معنوں میں عمل کرے تو دنیااور آخرت دونوں سنور جائیں ،ایک طرف دنیا میں حلال طیب مال سے لطف اندوز ہوتودوسری طرف آخرت میں رب کی رضااور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب ہو۔

 

قرآن کریم میں تجارت کااصول

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تجارت سےمتعلق ایک ایساجامع اصول بیان فرمادیاہے جس تک انسان کی عقل کی رسائی ممکن ہی نہیں،قران کریم میں اللہ تعالی کاارشاد ہے :

 

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ}[1]

 

’’اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناحق طریقے سے مت کھاؤ،الایہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو(تووہ جائز ہے )۔‘‘

 

یہ آیت مالی معاملات اوراسلامی تجارت کی روح ہے،اس آیت میں واضح طورپر کسی کامال ناحق طریقے پر کھانے سے منع کردیاگیاہےاور تجارت میں باہمی رضامندی کوشرط قراردیاگیا ہے ۔اور ظاہر ہے کہ مالی معاملات میں باہمی رضامندی اسی وقت معلوم ہوسکتی ہے جب معاملہ بالکل واضح ہو،اس میں کسی قسم کا دھوکہ فریب اور جعل سازی نہ ہو ، صاف ستھرااور بے غبار معاملہ ہو،کسی قسم کااس میں اشتباہ نہ ہو، نہ وہ کسی لڑائی جھگڑے کا ذریعہ بنے۔

 

شفاف معاملے کی قرآنی مثال

حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے درمیان ملازمت کا جومعاہدہ ہوا وہ بالکل واضح اور بےغبار ہے، جسے قرآنِ کریم نے سورہ قصص میں نقل کیاہے۔حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:

 

{إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ}[2]

 

’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک سے تمہارا نکاح کردوں۔ بشرطیکہ تم آٹھ سال تک اجرت پر میرے پاس کام (ملازمت)کرو، پھراگرتم دس سال پورےکردوتویہ تمہارااپنافیصلہ ہوگا،اورمیراکوئی ارادہ نہیں ہےکہ تم پرمشقت ڈالوں،ان شاءاللہ تم مجھے ان لوگوں میں سے پاؤ گے جو بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں۔‘‘

 

موسی علیہ السلام نےحضرت شعیب علیہ السلام کو واضح جواب دیااور فرمایا:

 

{قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ}[3]

 

’’یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کردوں، تو مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہوگی، اور جو بات ہم کر رہے ہیں، اللہ اس کا رکھوالا ہے۔‘‘

 

جس طرح حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنے معاملے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑابلکہ بالکل واضح معاملہ کیاہے اسی طرح اسلام تمام مالی معاملات اورتجارت کے بے غبار اور واضح ہونے پرزوردیتاہے، تاکہ تجارت میں باہمی رضامندی کاعنصرجسے قرآن کریم نے شرط قراردیاہے مفقود نہ ہو۔

 

ناپ تو ل میں کمی بیشی کے ذریعے دھوکہ دہی

 

قرآن کریم نے اصولی طورپر جب یہ بات واضح کردی کہ باطل یعنی ناحق طریقے سے کسی کامال نہ لیاجائے تو اب مال حاصل کرنے کے باطل طریقے کون سے ہیں؟ تو اس میں وہ تمام طریقے جن میں حقیقی باہمی رضامندی موجود نہ ہو باطل طریقوں میں داخل ہیں ۔ان باطل طریقوں میں سے ایک طریقہ کیل ووزن یعنی ناپ تول میں کمی بیشی کے ذریعے دھوکہ دےکر دوسرے کا مال بٹورنے کابھی ہے،جس کا ذکر قرآن کریم میں بڑی تفصیل کے ساتھ آیاہے ، اوراس بات پر بہت زوردیاگیاہے کہ کیل یاوزن کے پیمانے میں گڑبڑ کرکے دھوکہ دہی اور جعل سازی کاارتکاب نہ کیا جائے بلکہ پوراپواراناپ یاتول کردیاجائے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں چار جگہ تاکید کے ساتھ اس کاحکم دیاگیا ہے۔پہلی جگہ سورہ اعراف میں اللہ تعالی نے حضرت شعیبؑ کایہ قول نقل کیاہے جوانہوں نے اپنی قوم سے کہا:

 

{يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}[4]

 

’’اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے۔ لہذا ناپ تول پورا پورا کیا کرو۔ اور جو چیزیں لوگوں کی ملکیت میں ہیں ان میں ان کی حق تلفی نہ کرو۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔‘‘

 

دوسری جگہ سورہ ہود میں بھی یہی بات ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:

 

{يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ، وَيَاقَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ}[5]

 

’’میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی مت کیا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ خوشحال ہو۔ اورمجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں چاروں طرف سے گھیرلے گا۔ اور اے میری قوم کےلوگو!ناپ تول پوراپورا کیا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو۔ اورزمین میں فسادپھیلاتےمت پھرو۔‘‘

 

تیسری جگہ سورۃ الشعراء میں اسی بات کی تاکید کی گئی ہے:

 

{أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ۔ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ}[6]

 

’’پورا پورا ناپ دیا کرو، اور ان لوگوں میں سے نہ بنو جو دوسروں کو گھاٹے میں ڈالتے ہیں۔ اورسیدھی ترازوسےتولاکرو۔اورلوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کرنہ دیا کرو،اورزمین میں فسادمچاتےمت پھرو۔‘‘

 

چوتھی جگہ سورہ رحمن میں اس کی تاکید کی گئی ہے:

 

{وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ o أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ o وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ}[7]

 

’’اور آسمان کو اسی نے بلند کیا ہے اور اسی نے ترازو قائم کی ہے۔ کہ تم تولنے میں ظلم نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو، اور تول میں کمی نہ کرو۔‘‘

 

پھر یہ کہ ناپ تول پورا کرنے کا صرف حکم ہی نہیں دیاگیابلکہ ایساکرنے والوں کے لیے سخت وعید بھی بیان کی گئی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

 

{وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ۔ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ۔ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ}[8]

 

’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی،جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں،اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔‘‘

 

یہ وعید صرف ناپ تول ہی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے حقوق میں کوتاہی کو شامل ہے، ناپ تول میں کمی کرنا ناحق طریقے سے دوسرے کامال کھانے کی ایک صورت ہےجس کو شعیب علیہ السلام کی قوم نے بطورخاص وسیع پیمانے پر اختیارکررکھا تھا۔مگرباطل طریقے سے مال کمانے کی یہ صورت عمومادھوکہ دہی اور خیانت پر مبنی ہوتی ہے اور بظاہر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ناپ تول میں کمی کا یہ عمل دھوکہ دہی سے ہی کرتی ہوگی ، یعنی گاہک تو یہ سمجھ رہاہوتا تھاکہ وہ پورا لے رہاہے مگر وہ اس میں دھوکے سے کمی کردیتے تھے۔ اس لیے اسلام نے تجارت میں دھوکہ دہی اورخیانت کی جڑ ہی کاٹ دی ہے اور مسلمانوں کو تجارت میں صدق وامانت اختیار کرنے کاحکم دیاگیاہے۔جھوٹ ،غلط بیانی ،دھوکہ دہی،عیب چھپانااورملاوٹ وغیرہ جیسی خطرناک برائیوں سے نہ صرف بچنے کی تاکید کی گئی ہے بلکہ ان کاارتکاب کرنے کی صورت میں آخرت کے عذاب سے ڈرایاگیاہےاوردنیامیں اسپر شرعی اثرات بھی مرتب کیے گئے ہیں۔

 

تجارت میں صدق وامانت کی فضیلت

 

رسول اللہ ﷺ نے تجارت میں صدق وامانت اختیار کرنے والوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، حدیث میں ہے:

 

{التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء}[9]

 

’’وہ تاجر جو تجارت میں صدق وامانت کااہتمام کرتا ہے وہ(قیامت کے دن) ابنیاء،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘

 

ایک دوسری حدیث میں ہے:

 

{البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو قال حتى يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما}[10]

 

’’خرید وفروخت کامعاملہ کرنے والوں کے پاس اختیار ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں ، اگر وہ معاملہ کرنے میں سچائی اختیار کریں اور چیز کی حقیقت صاف صاف بتادیں تو ان کے سودے میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ حقیقت کو چھپالیں اور غلط بیانی کاارتکاب کریں توان کےسودے کی برکت مٹادی جاتی ہے۔‘‘

 

حدیث کی روشنی میں اکل بالباطل اوردھوکہ دہی کی ممانعت

جوشخص تجارت میں سچائی اورامانت کوچھوڑکر غلط بیانی کرے اور دھوکے سے اپنامال فروخت کرے تو حدیث میں اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ کاوزٹ کیااور ایک تاجر کےپاس تشریف لے گئے جو غلے کی ایک ڈھیری فروخت کر رہاتھا،غلہ اوپر سے خشک اور صاف ستھرا نظر آرہاتھا،آپ علیہ السلام نے اپنامبارک ہاتھ اس غلے میں ڈالاتو وہ اندر سے گیلا نکلا۔آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ یہ کیامعاملہ ہےکہ نیچے والاغلہ گیلاہے اور اوپر والا خشک ہے،اس نے جواب دیاکہ یارسول اللہ !اس پر بارش پڑگئی تھی ،اس وجہ سے گیلا ہوگیا۔اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ پھر تونے اس غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا،تاکہ لوگوں کو غلے کے گیلا ہونے کاواضح پتہ چلے۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:

 

{من غش فليس منا}[11]

 

’’جوشخص (معاملات میں )دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی ہم مسلمانوں کی جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

 

ایک اور روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں :

 

{من غش فليس مني}[12]

 

’’جوشخص دھوکہ دہی کرے وہ میری سنت اور میرے طریقے پر نہیں ،اس لیے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔‘‘

 

دھوکہ دہی کی غرض سے جانور کا دودھ نہ نکالنا

 

اسی طرح عرب میں یہ رواج تھاکہ جب دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کوفروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں لاناہوتا تو ایک آدھ دن پہلے ہی اس کادودھ نکالناچھوڑدیتے تھے،تاکہ اس کے تھنوں میں دودھ جمع ہوجائے اور گاہک جب اس کودیکھے تو وہ یہ سمجھےکہ یہ بکری یااونٹنی بہت دودھ دینے والی ہے۔یہ گاہک کو عملادھوکہ دینے کی ایک شکل تھی جواس زمانے میں رائج تھی اورافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ آج بھی یہ صورت پہلے سے زیادہ شدومدکے ساتھ رائج ہے۔اس دھوکہ سے روکنےکیلئےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

{لا تصروا الإبل والغنم فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بعد أن يحتلبها إن شاء أمسك وإن شاء ردها وصاع تمر}[13]

 

’’اونٹنیوں اوربکریوں میں تصریہ نہ کرو،یعنی پہلے سے ان کادودھ دوہنامت چھوڑو،جوشخص ایساجانور خرید لےاورپہلی دفعہ دودھ دوہنے کے بعد آیندہ دودھ کم نکلےتو اسے دواختیار ہیں:چاہے تو یہی جانور اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تویہ جانور واپس کردے اور جودودھ نکالاگیاہےاس کے بدلے میں ایک صاع چھوہارے دے دے ۔‘‘

 

تجارت میں دھوکہ دہی سے متعلق غلط فہمی کاازالہ

 

اس حدیث سے یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہوگئی کہ دھوکہ دینا نہ صرف یہ کہ شرعا ناجائز اور حرام ہے،بلکہ دھوکہ دینے کی صورت میں اس پرشرعی احکام بھی مرتب ہوتے ہیں ،جیساکہ اس حدیث میں دھوکہ کھانے والے کوعقد فسخ کرنے کااختیار دیاگیا ہے۔ عموماً ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتاہے کہ معاملات میں غش یعنی دھوکہ دہی ، جعل سازی اور خیانت بس ایک گناہ ہے اور آخرت میں اس پرگرفت ہے ، مگر دنیا میں اس پر کیا شرعی اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ عموما اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا لوگوں کو علم ہوتا ہے ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دھوکہ دینے والا صرف توبہ واستغفار پر اکتفاء کرتا ہے اور دھوکہ کھانے والااس کو اپنی قسمت اور مقدر کا فیصلہ سمجھتا ہےاور آخرت میں انصاف کی امید لگاکر دل کو تسلی دیتا ہے حالانکہ یہاں معاملہ صرف آخرت کا نہیں ہے، بلکہ شریعت مطہرہ نے دنیا میں بھی اس طرح کے معاملات کا بہترین حل پیش کرکے فریقین کو اس پر عمل درآمد کا پابند بنایاہے۔

 

تجارت میں اسلامی تعلیمات سے مسلمانوں کی لاپرواہی

 

مذکورہ بالاقرآنی آیات اور احادیث یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی اور وافی ہیں کہ اسلام نے تجارت میں صدق وصفائی، امانت ،دیانت کی کتنی اہمیت بیان کی ہے،جھوٹ،غلط بیانی ،دھوکہ دہی ،ملاوٹ وغیرہ جیسی تمام برائیوں سے کتنی شدت کے ساتھ منع کیاگیاہے۔مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اسلام نے تجارت میں جتنازور ان اعلی اخلاق کواپنانے پردیا ہے ہم اتناہی اس معاملے میں غافل ہیں ، اسلام نے جن برائیوں سے بڑی شدت کے ساتھ منع کیاہے ہم بے فکری کے ساتھ ان میں مبتلا ہیں ۔آج غیر مسلموں نے محض اپناکاروبار بڑھانے اوردنیا کے نقصان سے بچنے کے لیے تجارت میں ان اعلی اخلاق و اوصاف کو اختیار کرلیاہےجن کااسلام نے ہمیں حکم دیاہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تجارت پر غیرمسلم چھاگئے ہیں اور مسلمان ان سے پیچھے رہ گئے ۔

 

آج عالمی سطح پر تجارت کے میدان میں مسلمان تاجروں کاکردار وہ نہیں رہاجوقرونِ اولی میں تھا،جن کے کردار کودیکھ کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔برِصغیر پاک وہند میں اسلام انہی نیک دل اورسچے کردار کے مالک تاجروں کی بدولت پھیلناشروع ہوااوررفتہ رفتہ پورے برصغیر میں اسلام لوگوں کے دلوں میں گھرکرگیااورخطے کاپسندیدہ ترین مذہب شمار ہونے لگا ۔جب کہ آج مسلمان تاجروں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ جھوٹ اور دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مسلمانوں کے ساتھ معاملات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اسلام نے معاملات کیلئے ہمیں جن زریں اصولوں کاسبق دیاہےوہ ہم نے نہ صرف یہ کہ بھلادیاہےبلکہ بہت سے سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات میں ہم آزاد ہیں ،اسلام صرف عقائد اور چند عبادات تک محدود ہے،حالانکہ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ ٔحیات ہے،زندگی کاکوئی پہلواس سے خارج نہیں ہے۔

 

اس وقت مسلمانوں پرجدت پسندی اورروشن خیالی کاجوبھوت سوار ہےوہ معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے یہ نادان مسلمان بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ کی ظاہری ترقی کاراز اسلام سے دوری ہے۔وہ معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں،اسلامی تعلیمات سے اس غفلت ولاپرواہی کے نتیجے میں ہم معاملات کے میدان میں دنیا کی دیگر اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

 

ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم معاملات سے متعلق اسلامی تعلیمات اور قیمتی ہدایات کوصحیح معنوں میں سمجھیں ،ان پر پوراپوراعمل کریں اورمعاشرے میں ان کوعام کریں ،تاکہ دنیاکے سامنے اسلام کی عادلانہ معاشی تعلیمات اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ نکھر کر سامنے آجائیں اور بنی نوع انسان ان ابدی معاشی تعلیمات سے مستفید ہوسکے۔

 

دھوکہ دہی اورجعل سازی پراحکامِ شرعیہ دنیویہ کاترتب

 

قرآن کریم نےاکل بالباطل کی ممانعت کرتے ہوئے تجارت میں باہمی رضامندی کو چونکہ شرط قراردیاہے تووہ اعمال جو اس رضامندی کوختم کردیتے ہیں اسلام نے ان کوباطل طریقوں میں شمار کیا ہے اوریہ باطل طریقے بہت سارے ہیں ،جن کی تفصیل کایہاں موقع نہیں ، ہم ان میں سے ایک طریقہ غش یعنی دھوکہ دہی اور جعل سازی پرمرتب ہونے والے احکام کاخلاصہ بیان کرتے ہیں ۔

 

اگرمتعاقدین میں سے کوئی ایک دوسرے کودھوکہ دے تواسے عربی میں تغریریاتدلیس کہتے ہیں اور غش کا لفظ ان دونوں کو جامع ہے۔عام طور پراکثرفقہاء کی اصطلاح میں اگردھوکہ دہی زبانی ہو تو اسے تغریر اور اگر عملی ہوتو اسے تدلیس کہاجاتاہے ۔

 

تغریریعنی زبانی دھوکہ دہی اور اس کی اقسام
اگر متعاقدین(بائع ومشتری ) میں سے کوئی ایک عقد کے وقت ایسی بات کرتاہے جوحقیقت کے خلاف ہے،مگر دوسرا شخص اس کو صحیح سمجھ کر عقد پررضامند ہوجاتاہے اورعقدکرلیتا ہے،مگرعقد کے بعد اس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہوجائے تو فقہی اصطلاح میں یہ تغریرہے ،یہ تقریبا وہی لفظ ہے جسے انگریزی میں تمویہ(ملمع سازی ) [misrepresentation]کہا جاتا ہے ۔

 

خرید وفروخت میں تغریریعنی زبانی دھوکہ دہی کی تین اقسام ہیں:

 

پہلی قسم:مبیع کی جنس بیان کرنے میں دھوکہ دہی

اس کی صورت یہ ہوسکتی ہےکہ زیور بیچنے والا گاہک سےیہ کہے کہ یہ سونے کا زیور ہے ،وہ اس پر اعتماد کرکے خرید لے، عقد کے بعد پتہ چلے کہ یہ تو چاندی کا زیور ہے جس پر سونے کا پانی چڑھایاگیا ہے ۔

 

اسی طرح انڈے بیچنے والایہ کہہ کرانڈے بیچے کہ یہ مرغی کے انڈے ہیں اور عقد کے بعد پتہ چلے کہ وہ کچھوے یابطخ کے انڈے ہیں ۔تویہاںمبیع حقیقت میں کچھ اور ہے اور بائع کی غلط بیانی کی وجہ سے دوسراشخص کسی اور چیز کو مبیع سمجھ رہاہے تویہ جنسِ مبیع میں دھوکہ دہی ہے۔

 

جنسِ مبیع میں تغریریعنی زبانی دھوکہ دہی کا حکم

ایسی بیع شرعابالکل باطل ہے،یعنی منعقد ہی نہیں ہوتی،نہ خریدنے والامبیع کامالک بنتا ہے،نہ بیچنے والاثمن کامالک بنتاہے، دونوں پر شرعا لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کی چیز واپس کریں ۔ چنانچہ مشہور حنفی فقیہ محقق ابن الہمام فتحُ القدیر میں فرماتے ہیں:

 

{(قوله ومن اشترى إلى آخره)إذا اشترى هذه الجارية فظهرت غلاما فالبيع باطل لعدم المبيع}[14]

 

’’جب کوئی شخص غلام کو باندی کہہ کرکے فروخت کردے اور مشتری باندی سمجھ کر خرید لے اور عقد کے بعد پتہ چلے کہ وہ تو لڑکا یعنی غلام ہے نہ کہ باندی ، تو ایسی صورت میں بیع شرعا باطل ہے ،کیونکہ مبیع تو موجود ہی نہیں ۔‘‘

 

دوسری قسم : مبیع کا وصف بیان کرنے میں دھوکہ دہی

وصف میں دھوکہ دہی سے مراد: چیز کی اصل حقیقت تو وہی ہو جو بیچنے والابتا رہا ہے،مگر وہ اس کے جواوصاف بیان کررہاہے ان میں غلط بیانی کررہاہے اور گاہک کو دھوکہ دے رہاہے۔جیسے گاڑی فروخت کرنے والایہ کہے کہ یہ نئی ہے، استعمال شدہ نہیں ہے ، بعد میں پتہ چلے کہ گاڑی پرانی ہے ،مگر اس کورنگ روغن کرکے اور دھلائی کرکے گاہک کو دھوکہ دیاگیااور نئی کہہ کر فروخت کیا گیا۔

 

یا اسی طرح مبیع کے بارے میں بائع یہ دعوی کرے کہ یہ فلاں ملک کی بنی ہوئی ہے ،اسے وہیں سے امپورٹ کیا گیاہے، پھر بعد میں پتہ چلے کہ وہ اس ملک سے امپورٹ شدہ نہیں بلکہ اس کی کاپی ہے جومقامی طورپر تیار کی گئی ہے۔

 

اسی طرح اگر مبیع پر کارڈ لگادیاگیا جس پر لکھاہواہے کہ یہ جاپانی ہے(Made in Japan)اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو ملکی مصنوعات میں سے ہے یا اس پر جھوٹی تجارتی علامت(مارکہTrade Marka ) لگادی گئی ہے۔ توان سب صورتوں میں شرعا وصف میں غلط بیانی اور دھوکہ شمار ہوگا۔کیونکہ یہاں بائع کادعوی یہ ہوتاہےکہ یہ مبیع فلاں متعین وصف کے ساتھ متصف ہے اور اس بنیاد پر مشتری کی رضامندی مبیع میں اسی وصف کے موجود ہونے کی شرط کے ساتھ ہوتی ہے ،اگر وہ شرط موجود نہ ہو تواس کی رضامندی بھی مفقود ہوجاتی ہے۔

 

وصف میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا حکم

 

اگر عقد میں کسی وصف کی شرط لگائی گئی اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ وصف مبیع میں موجود نہیں ، بائع نے غلط بیانی اور دھوکے کاارتکاب کیاہے تو اس صورت میں ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ مشتری کو عقدفسخ کرنے کااختیار ملتا ہے،اگرچہ اسکی تطبیق میں کچھ جزوی اختلاف ہے،مگر اصولی طورپر اس خیارکے ثبوت پرچاروں فقہاء متفق ہیں ۔[15]

 

پھرفقہاءِاحناف کے نزدیک اس کی تفصیل یہ ہے کہ مشتری اس اختیارکی بنیادپرچاہےتو عقد کونافذ کردےیعنی بغیر وصف کے طے شدہ پوری قیمت کے بدلے میں مبیع کواپنے پاس رکھ لے یا پھرعقد کو فسخ کردے ۔ تاہم اسے اس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ مبیع اپنے پاس روک لے اور بائع سے قیمت میں کمی کایک طرفہ مطالبہ کرے ۔چنانچہ صاحب ِ ہدایہ فرماتے ہیں :

 

{ومن باع عبدا على أنه خباز أو كاتب وكان بخلافه فالمشتري بالخيار إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء ترك؛ لأن هذا وصف مرغوب فيه فيستحق في العقد بالشرط، ثم فواته يوجب التخيير؛ لأنه ما رضي به دونه}[16]

 

وصف فوت ہونے کی وجہ سے ملنے والے خیارکانام

 

مبیع کا وصف فوت ہونے کی وجہ سے مشتری کو جو اختیار ملتا ہے اس کو خیار فواتِ الوصف یاخیارُ الوصفِ المشروط کہاجاتاہے، کبھی مختصر کرکے اسے خیارُ الخلف کانام بھی دیاجاتاہے،نیزاسے خیارُ تخلفِ الصفۃ بھی کہاجاتا ہےاوربعض مصنفین اسے خیارِ وصف کا نام بھی دیتے ہیں ۔[17]

 

خیارُفواتِ الوصف کی شرائط

 

یہ خیار ملنے کے لیے درج ذیل شرائط کاموجود ہونالازمی ہے:

 

(۱) وصف عقد میں مشروط ہو۔اگرکوئی وصف عقد میں صراحتاً مشروط ہو تومشتری کو یقینی طور پر اختیار ملے گا۔اور اگر وصف عقد میں صراحۃ ًتو مشروط نہ ہو،مگر خارجی قرائن سے اس کاشرط ہوناسمجھ میں آتاہوتوایسی صورت میں دلالت ِحال کی وجہ سے اس کی حیثیت شرعا وہی ہونی چاہئے جو صراحتاً مشروط وصف کی ہوتی ہے ، جیسے قربانی کے دنوں میں قربانی کے جانوروں کے لیے مخصوص منڈیاں لگتی ہیں ،اگر کوئی شخص اس منڈی سے جانور خریدتا ہے تو اس میں خود بخود اس وصف کی شرط ملحوظ ہوتی ہے کہ جانور قربانی کے قابل ہوناچاہیے ، لہذااگر جانور خریدنے کے بعد پتہ چلے کہ عمر کم ہونے کی وجہ سے اس کی قربانی نہیں ہوسکتی تو مشتری کو اختیار ملناچاہیے،اگرچہ اس جانور میں کسی قسم کاکوئی عیب نہ ہو۔

 

(۲) وصف ِمشروط ایسا ہوجس کا کوئی صحیح مقصد ہو ،فضول اور بے فائدہ قسم کاوصف نہ ہو۔ورنہ تو وہ وصف مشروط ہونے کے باوجود لغو ہوجائے گا اور مشتری کوفسخ کااختیار نہیں ملے گا۔[18]

 

(۳) وصف ایساہوجو شرعا جائز اور معتبر ہو۔اگر ایسے وصف کی شرط لگائی گئی ہوجو شرعا ناجائز اور غیر معتبر ہوتوایسے وصف کے موجود نہ ہونے کے باوجود بھی مشتری کو اختیار نہیں ملےگا۔جیسے باندی کی بیع میں یہ شرط لگادی جائے کہ وہ گاناگانے والی ہواور عقد کے بعد پتہ چلے کہ وہ اس فن سے بالکل ناواقف ہے تو مشتری کوکوئی اختیار نہیں ملےگا۔کیونکہ یہ وصف شرعا غیر معتبر ہے۔

 

(۴) وہ وصف ایسا نہ ہوجس میں غرر ہو،یعنی وصف کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ہی مشکل ہو۔جیسے بکری کی بیع میں یہ شرط لگانا کہ وہ ہرروز اتنے کلو دودھ دے گی ۔ یہ ایسےوصف کی شرط ہے جس میں غرر ہے، کیونکہ مستقبل کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ کہناکہ وہ اتنادودھ دے گی بہت مشکل ہے ۔ہاں اجمالی طورپر یہ شرط گائی جاسکتی ہے کہ وہ بہت دودھ دینے والی ہے۔

 

اس کے برخلاف اگر وہ وصف ایساہو جس میں غرر نہ ہواور اس کے ہونے یانہ ہونے کو بآسانی معلوم کیاجاسکتاہو توایسے وصف کے نہ ہونے کی صورت میں مشتری کواختیار ملے گا،جیسے مشتری اس شرط پر گاڑی خریدے کہ یہ ایک لٹر پٹرول میں پندرہ کلو میٹر سفر کرتی ہے اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ دس کلومیٹر کرتی ہے تو مشتری کواختیار ملےگا۔[19]

 

خیار وصف کی صورت میں اگر مبیع کورد کرنا متعذرہو

 

متعاقدین کی طرف سے مبیع میں طے شدہ وصف موجود نہیں ہے، جس کی بناء پر اسے خیار ِوصف ملناچاہیے،مگرصورت حال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ اب مبیع کو واپس کرنا ناممکن ہوگیا، مثلا اس شرط پر گاڑی خریدی کہ وہ نئی ہے ۔ استعمال کے بعد پتہ چل گیا کہ وہ گاڑی پرانی اوراستعمال شدہ ہے،بائع نے دھوکہ دہی کے ذریعے نئی کہہ کر فروخت کردی تھی اور بائع نے اس کا اقرار بھی کرلیاتو اس کااصل حکم تو یہی ہے کہ مشتری کوواپس کرنے کااختیار ملے گا، مگر ابھی واپس کرنے جارہاتھاکہ راستے میں گاڑی چوری ہوگئی اور واپس ملنے کی کوئی امید نہیں یا جلادی گئی تو ظاہر ہے کہ اب مبیع کو واپس کرناتو ناممکن ہے۔لہذا اب مشتری کو دونوں گاڑیوں کی قیمت میں جو فرق ہے وہ واپس ملے گا۔یعنی نئی گاڑی اور اس جیسی پرانی گاڑی دونوں کی قیمت لگائی جائے گی اوردونوں کی قیمت کے درمیان جو فرق ہوگاوہ مشتری کوواپس کیاجائے گا۔چناچہ محقق ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :

 

{وامتنع الرد بسبب من الأسباب رجع المشتري على البائع بحصته من الثمن بأن يقوم العبد كاتبا وغير كاتب فيرجع بالتفاوت.وعن أبي حنيفة لا يرجع بشيء؛ لأن ثبوت الخيار للمشتري بالشرط لا بالعقد، وتعذر الرد في خيار الشرط لا يوجب الرجوع على البائع فكذا هذا، والصحيح ما في ظاهر الرواية، وبه قال الشافعي؛ لأن البائع عجز عن تسليمه وصف السلامة كما في العيب}[20]

 

خیار فوات الوصف اور خیار ِعیب میں فرق

 

یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ عقد میں وصف ِمشروط نہ ہونے کی وجہ سے جواختیار ملتاہے یہ خیارِ عیب نہیں ہےبلکہ الگ سےایک مستقل خیار ہے۔ اور ان دونوں خیاروں میں دو فرق بالکل واضح ہیں :

 

(۱) خیارِ عیب کے لیے عقد میں مشروط ہوناضروری نہیں ،یہ اختیار مشتری کو حکم ِشرع کی وجہ سے ملتا ہے۔چنانچہ اگر متعاقدین کے درمیان مبیع میں عیب نہ ہونے کی شرط طے نہ ہوئی ہوتوتب بھی اسے اختیار ملتاہے۔ برخلاف خیارُفواتِ الوصف کے کہ یہ تب ملتا ہے جب عقدمیں وہ وصف مشروط ہو۔

 

(۲) خیار ِ عیب اس وقت ملتاہے جب مبیع میں کوئی ایساعیب ہو جوتاجروں کے عرف میں عیب شمار کیاجاتاہو، برخلاف خیارفوات الوصف کے کہ یہ وصف ِمشروط موجود نہ ہونے کی وجہ سے ملتا ہے،اگرچہ اس وصف کے موجود نہ ہونے سے تاجروں کے عرف میں مبیع عیب دار شمار نہ ہوتی ہو۔

 

تیسری قسم مبیع کی قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی

مبیع کی قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی کی دو صورتیں ہیں :

 

(۱) بائع قیمت ِخرید بتانے میں دھوکہ اورغلط بیانی کا ارتکاب کرے۔

 

(۲) بائع یامشتری بازاری قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی کاارتکاب کریں ۔

 

پہلی صورت یعنی قیمتِ خرید بتانے میں دھوکہ دہی کی پھر دو صورتیں ہیں :

 

(۱) بیوعُ الامانہ یعنی امانت پرمبنی بیوع میں دھوکہ دہی

 

بیوع الامانہ سے مراد بیع مرابحۃ اور بیع تولیہ ہیں، بیع مرابحہ سے مراد وہ بیع ہے جوثمن ِاول پر متعین اضافے کے ساتھ کی جاتی ہے۔مثلابائع یہ کہے کہ یہ چیز میں نےپانچ سو میں خریدی ہےیامجھے پانچ سو میں پڑی ہے اورسوروپے نفع کے ساتھ آپ کو چھ سو میں فروخت کرتا ہوں۔

 

بیع تولیہ سے مراد وہ بیع ہے جس میں بائع اور مشتری کے درمیان یہ بات طے ہوتی ہے کہ بائع مشتری کو اسی قیمت پر بیچ رہاہےجس قیمت پر بائع کو وہ چیز پڑی ہے ،اس پر کوئی نفع نہیں لے رہا۔

 

ان دونوں بیوع میں بائع کے لیےمشتری کو ثمنِ اول سچ سچ بتانالازم ہوتا ہے۔

 

مرابحہ اور تولیہ میں دھوکہ اور خیانت کا حکم

 

اگر بیع مرابحہ یا تولیہ میں یہ بات ظاہر ہوجائے کہ بائع نے ثمن ِاول بتانے میں خیانت کی ہے تو اس کی دوصورتیں ہیں :

 

(۱) یہ خیانت ثمن کے وصف میں ظاہر ہو۔ مثلابائع نے ثمن کی مقدار تو صحیح بیان کی ،مگر وہ ثمن ادھار پر خریدنے کی وجہ سے مقررہوا تھا،مگر بائع نے مشتری کویہ نہیں بتایاکہ میں نے یہ چیز ادھار خریدی تھی۔

 

ثمن کے وصف میں خیانت کاحکم

 

ا س صورت میں بیع چاہے مرابحہ ہویاتولیہ دونوں صورتوں میں اس کاحکم یہ ہے کہ مشتری کواختیار ملے گا،چاہے تو بیع کو اسی قیمت پر نافذ کردے اورچاہے تو عقد کوفسخ کردے ۔ا س صورت میں یہ حکم ائمہ اربعہ کے درمیان متفق علیہ ہے۔چنانچہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں :

 

{(فصل):وأما حكم الخيانة إذا ظهرت.فنقول وبالله التوفيق: إذا ظهرت الخيانة في المرابحة لا يخلو إما أن ظهرت في صفة الثمن وإما أن ظهرت في قدره فإن ظهرت في صفة الثمن بأن اشترى شيئا بنسيئة ثم باعه مرابحة على الثمن الأول ولم يبين أنه اشتراه بنسيئة أو باعه تولية ولم يبين ثم علم المشتري فله الخيار بالإجماع إن شاء أخذه وإن شاء رده}[21]

 

(۲) یہ خیانت ثمن کی مقدار میں ظاہر ہو،مثلابائع نے مشتری سے یہ کہاکہ یہ چیز میں نے سو روپے میں خریدی ہے ،بعد میں پتہ چلے کہ اس نے جھوٹ بولاتھا،حقیقت میں اس نے نوے روپے کی خریدی تھی ۔

 

ثمن کی مقدار میں دھوکہ اور خیانت کاحکم

 

اس صورت کے حکم میں تین قول ہیں :

 

(۱) امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ مرابحہ میں مشتری کو اختیارملےگا ، چاہے تو اسی مقررہ قیمت پر بیع کو نافذ کردے اورچاہے تو عقد کوفسخ کردے۔اور بیع تولیہ میں اسے فسخ کااختیار تو نہیں ملے گا،البتہ ثمن ِاوّل کوبیان کرنے میں جتنی مقدار میں خیانت کی ہے اتنی مقدار ثمن سے کم کردی جائے گی اور باقی ثمن میں عقد لازم ہوجائےگا۔چنانچہ علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:

 

{وإن ظهرت الخيانة في قدر الثمن في المرابحة والتولية بأن قال: اشتريت بعشرة وبعتك بربح ده يازده أو قال: اشتريت بعشرة ووليتك بما توليت، ثم تبين أنه كان اشتراه بتسعة فقد اختلف في حكمه، قال أبو حنيفة عليه الرحمة: المشتري بالخيار في المرابحة إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء ترك، وفي التولية لا خيار له لكن يحط قدر الخيانة ويلزم العقد بالثمن الباقي

 

}[22]

 

(۲) امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول یہ ہےکہ مرابحہ اور تولیہ دونوں میں مشتری کو عقد فسخ کرنے کااختیار تو نہیں ملے گا،البتہ ثمن کی جتنی مقدار میں خیانت ظاہر ہوئی ہےاتنی مقدار ثمن سے کم کردی جائے گی ،نیزبیع مرابحہ میں ثمن کی جتنی مقدار کم ہوگی اس کے موافق نفع بھی کم کردیاجائے گا۔بیع تولیہ کی مثال تو واضح ہے۔ مرابحہ میں اس کی مثال یہ ہے کہ بائع نے بیع مرابحہ میں یہ کہاتھاکہ میں نے یہ چیز سوروپے میں خریدی ہے اور ایک سو دس روپے میں آپ کوبیچتا ہوں ، دس روپے میرا نفع ہے۔بعد میں پتہ چلاکہ اس نے وہ چیز نوے روپے میں خریدی تھی تو اما م ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اب ثمن تو نوے روپے شمار ہوگا۔جہاں تک نفع کامعاملہ ہے تو چونکہ سوروپے پر وہ دس روپے نفع لے رہاتھاتو اس حساب سے نوے روپے پر نو روپے نفع بنتاہےتو اس عقدِمرابحہ میں کل ثمن نناوے روپے ہوگا۔چنانچہ بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی ؒ امام ابویوسف ؒ کامذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

{وقال أبو يوسف: لا خيار له ولكن يحط قدر الخيانة فيهما جميعا، وذلك درهم في التولية، ودرهم في المرابحة، وحصة من الربح، وهو جزء من عشرة أجزاء من درهم}[23]

 

حنابلہ،سفیان ِثوری،ابن ابی لیلی اورشوافع کاایک قول یہی ہے،مالکیہ کامذہب بھی یہی ہے۔بیع مرابحہ اور تولیہ کے مقاصد کی روشنی میں یہی قول راجح معلوم ہوتاہے۔

 

(۳) امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ بیع مرابحہ اور تولیہ دونوں میں مشتری کو اختیار ملے گا،چاہے تو اسی ثمن پر عقد کونافذ کردے اور چاہے تو عقد کوفسخ کردے۔علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے بدائع الصنائع میں امام محمدؒ کامذہب ان الفاظ میں بیان کیاہے:

 

{وقال محمد رحمه الله له الخيار فيهما جميعا إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء رده على البائع}[24]

 

(۲) بیع مساومہ میں مبیع کی قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی

 

بیع مساومہ سے مراد وہ بیع ہے جس میں بائع اور مشتری کے درمیان ہونے والاسودا ثمن ِاوّل پرمبنی نہیں ہوتا،بلکہ بائع اور مشتری آپس میں اتفاقِ رائے سے کوئی بھی ثمن طے کرلیں ،قطع ِنظر اس بات سے کہ وہ چیز بائع کو کتنے میں پڑی ہے۔

 

بیع مساومہ میں دھوکہ دہی سے مراد یہ ہے کہ بائع مشتری کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی قیمت ِخرید بتانے میں غلط بیانی کرے،مگر عقد علی الاطلاق ہو،ثمن ِاول کے ساتھ مشروط نہ ہو۔ مثلا بائع مشتری سے یہ کہے کہ میں نے ہزار روپے میں خریدی ہے، آپ کو بھی ہزار روپے میں فروخت کرتا ہوں، مشتری اس پر اعتماد کرکے ہزار روپے میں خرید لے ۔بعد میں پتہ چلے کہ بائع نے پانچ سو روپے میں خریدی تھی اورگاہک کے سامنے جھوٹ بول دیاکہ میں نے ہزار میں خریدی ہے ۔

 

بیع مساومہ میں مبیع کی قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی کاحکم

 

اس کے حکم میں فقہاء کے دوقول ہیں :

 

(۱) حنفیہ ،مالکیہ اورشافعیہ کامذہب یہ ہے کہ بیع مساومہ میں بائع اگر اپنی قیمت ِخرید بتانے میں غلط بیانی اور جھوٹ کا ارتکاب کرے تواس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ،مگراس کی وجہ سے مشتری کو عقد فسخ کرنے کا اختیار نہیں ملتا۔

 

(۲) حنابلہ کے نزدیک اس صورت میں بھی مشتری کو خیارِ فسخ حاصل ہوگا،یہ حضرات اس کو بیع نجش پر قیاس کرتے ہیں ۔

 

(۲) بائع یامشتری بازاری قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی کاارتکاب کریں

 

بازاری قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی سے مراد یہ ہے کہ متعاقدین میں سے کوئی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے کے لیے بازاری قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی سےکام لے۔ مثلا بائع مشتری سے یہ کہے کہ بازار میں اس چیز کی قیمت ہزار روپے ہے، مشتری اس پر اعتماد کرکے ہزار روپے میں خرید لے ۔بعد میں پتہ چلے کہ مارکیٹ میں اس کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہے ۔اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشتری ناواقف بائع سے یہ کہے کہ مارکیٹ میں اس کی قیمت پانچ سو روپے ہےاوراس پر اعتماد کرکے وہ پانچ سوروپے میں فروخت کردے اور بعد میں پتہ چلے کہ مارکیٹ میں اس کی قیمت تو ہزار روپے ہے ۔

 

بازاری قیمت بیان کرنے میں دھوکہ دہی کا حکم

 

اگر متعاقدین میں سے کوئی ایک بازاری قیمت بیان کرنے میں دوسرے کو دھوکہ دےکر بہت مہنگی چیز بیچ دے یابہت سستی چیز خرید لے تو اس صورت میں خیار ِ مغبون کے احکام جاری ہوتے ہیں جس میں کافی تفصیل ہےجس کو یہاں نقل کرنےکی گنجائش نہیں ،البتہ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

 

خیارِ مغبون کی تعریف

 

خیار ِمغبون سے مراد عقد فسخ کرنے کا وہ اختیار ہے جومغبون کو حاصل ہوتاہے،اور مغبون سے مراد وہ شخص ہے جو مارکیٹ کی قیمت پر عقدکرنے کی بجائے ایسی قیمت پرعقد کرے جس پر عادۃً عقد نہ کیاجاتا ہویعنی مارکیٹ کی قیمت اور متعاقدین کے درمیان طے کیے گئے ثمن میں بہت زیادہ فرق ہو۔اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص سوروپے کی چیز پانچ سو روپے میں خرید لے یاپانچ سوروپے کی چیز سوروپے میں بیچ دے۔

 

خیارِمغبون کاحکم

 

اس پر سب فقہاء کااتفاق ہے کہ اگر مغبون شخص مارکیٹ کے حالات اور خریدوفروخت کے معاملات اورقیمتوں سے واقف ہواور وہ جان بوجھ کرایساعقد کرے تو اسے عقد فسخ کرنے کااختیار حاصل نہیں ہوتا۔لیکن اگر وہ بازار کی قیمتوں سے ناواقف ہواور خرید وفروخت کے معاملات کواچھی طرح نہ سمجھتا ہو تو اس صورت میں فقہاء کے تین قول ہیں :

 

(۱) حنابلہ کے نزدیک جس کے ساتھ غبن کیاگیاہےاسے عقد فسخ کرنے کااختیار ملے گا،بشرطیکہ غبن ِفاحش کے ساتھ معاملہ ہوا ہو۔

 

(۲) مالکیہ کے نزدیک اگر دھوکہ دہی اور جعل سازی کے ذریعے غبنِ فاحش کے ساتھ معاملہ کیاگیاہوتوجس کے ساتھ غبن ہواہے اسے خیار ِفسخ ملے گا،ورنہ نہیں ۔

 

ان دونوں مذہبوں میں فرق یہ ہےکہ مالکیہ کے نزدیک خیارِفسخ ملنے کے لیے یہ شرط ہے کہ دھوکہ دہی کے ذریعے یہ معاملہ کیاگیا ہو،جب کہ حنابلہ کے نزدیک یہ شرط نہیں بلکہ محض قیمتوں سے ناواقف ہونا کافی ہے۔

 

(۳) حنفیہ اورشافعیہ کا اصل مذہب یہ ہےکہ خیارِ مغبون کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ،اگر غبن کے ساتھ معاملہ کیاگیاہوتوشرعاوہ نافذہے بشرطیکہ عقد کی دیگرشرائط موجود ہوں ۔البتہ متاخرین فقہاء ِاحناف کافتوی اس پر ہے کہ دوشرطوں کے ساتھ مغبون کو خیارِفسخ ملتا ہے:

 

(۱) یہ معاملہ دھوکہ دہی اورغلط بیانی کے ذریعے کیاگیاہو۔

 

(۲) غبن ِفاحش کے ساتھ معاملہ کیاگیاہو،یعنی قیمت میں معمولی فرق نہ ہو بلکہ بہت زیادہ فرق ہو،اس کی تعیین اس طرح ہوگی کہ اگر مارکیٹ میں بیان کی گئی قیمت پر بھی وہ چیز بکتی ہوتو یہ غبنِ فاحش نہیں ،اور اگر مارکیٹ میں کوئی بھی اس قیمت پر نہ بیچتا ہوتو یہ غبنِ فاحش ہے ۔

 

علامہ حموی رحمہ اللہ نے متاخرین احناف کے اس فتوی کو ان الفاظ میں نقل کیاہے:

 

{ويفتى بالرد إن غره ، وفي الزيلعي: قال البائع للمشتري: قيمته كذا فاشتراه فظهر أقل فله الرد لحكم أنه غره ، وإن لم يقبل ذلك فلا ، وبه أفتى الصدر الشهيد}[25]

 

اب متاخرین احناف کایہ فتوی ممکن ہے کہ مالکیہ کے مذہب پرمبنی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ حنفیہ کے اصل مذہب میں یہ تاویل کی جائے کہ وہ اس صورت میں ہے جب غلط بیانی اوردھوکہ دہی کے بغیر معاملہ ہواور متاخرین فقہاءِاحناف کافتوی دھوکہ دہی اور غلط بیانی کے ساتھ معاملہ کرنے کی صورت میں ہے،تودونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔علامہ ابن عابدین ؒ نےاسی تاویل کواختیار کیاہے۔

 

تدلیس یعنی عملی طورپر دھوکہ دہی اور اس کی تفصیل

 

تدلیس عربی زبان کالفظ ہے،جس کے معنی:عیب چھپانا،دھوکہ دینا۔فقہی اصطلاح میں اس کااطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے:

 

(۱) مبیع میں موجودکسی عیب کوچھپانا۔ اس صورت میں تو مشتری کوخیار ِ عیب ملتاہے۔

 

(۲) اس کادوسرامعنی وہ ہے جس کو علامہ دردیر ؒ نے تغریرِفعلی کے ذیل میں بیان کیاہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :

 

{وهو التغرير الفعلي، وهو أن يفعل البائع فعلا في المبيع يظن به كمالا وليس كذلك}[26]

 

اس کاحاصل یہ ہے کہ خریدوفروخت میں تدلیس یعنی تغریرفعلی یہ ہے کہ بائع مبیع میں ایسا عمل کرے جس کی وجہ سے وہ اعلے درجے کی اور بہترین اوصا ف پر مشتمل چیز معلوم ہوجب کہ حقیقت میں وہ ایسی نہ ہو۔

 

اس کی واضح مثال جو کہ عہد رسالت میں بھی موجود تھی یہ ہے کہ دودھ دینے والے جانور کو جب بیچنے کاارادہ ہوتو ایک آدھ دن پہلے اس کادودھ دوہنا چھوڑدیاجائے تاکہ گاہک یہ سمجھے کہ یہ جانور زیادہ دودھ دینے والا ہے،اس کو عربی میں تصریہ کہاجاتاہے،جس سے حدیث میں منع کیا گیاہے۔اسی طرح اس کی ایک اور مثال فقہاء نے یہ بیان کی ہے کہ پرانے کپڑے کو نیارنگ کرناتاکہ وہ نیامعلوم ہو اور خریدنے والاجب اسے دیکھے تو وہ نیاسمجھے ،چاہے بائع اس کو نیاکہہ کرفروخت نہ کرے۔اسی طرح نئی گاڑیاں بیچنے والا تاجر کسی استعمال شدہ گاڑی کی فنشنگ کرکے نئی گاڑیوں میں کھڑی کردے تاکہ خریدار اسے نئی گاڑی سمجھ کر خرید لے ۔

 

تدلیس یعنی زبانی دھوکہ دہی کے احکام

اب اگر یہ چیز ایسی ہو کہ اس میں جن اوصاف کوظاہر کیاگیاہے ان کے نہ ہونے سے وہ تاجروں کے عرف میں عیب دار شمار ہوتی ہوتو اس میں خیارِعیب کے احکام جاری ہوں گے ۔ورنہ اس میں خیارِتدلیس ہوگا جس میں فقہاء کااختلاف ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

 

(۱) مالکیہ،شافعیہ ،حنابلہ اور حنفیہ میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مشتری کوخیارِ تدلیس حاصل ہوگا۔یعنی چاہے تو مبیع کواسی شکل میں اپنے پاس کل قیمت کے بدلے میں رکھ لے اور چاہے تو عقد کوفسخ کردے۔

 

(۲) امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمہ اللہ کے نزدیک اگرتدلیس کے نتیجے میں وہ چیز عیب دار شمار ہوتو خیارِ عیب ملے گا،ورنہ مشتری کوکوئی اختیار نہیں ملے گا اوراسی شکل میں عقد لازم ہوجائے گا۔

 

نتائج ِبحث

(۱) مالی معاملات میں غش یعنی دھوکہ اورجعل سازی کی کوئی بھی صورت اختیار کرنا،چاہے۔ وہ زبانی گفتگوء کے ذریعے ہویاکسی عمل کے ذریعے ہووہ قرآنی حکم کے مطابق اکل بالباطل میں داخل ہے،جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ،حتی کہ اگر کسی کامال باطل طریقے سے حاصل کرلیا تو اس وقت تک توبہ مکمل نہ ہوگی جب تک دوسرےکے مال سے متعلق شرعی حکم پرعمل نہ کرلے۔

 

(۲) مالی معاملات میں متعاقدین پرلازم ہے کہ وہ اپنے معاملات صاف اورشفاف رکھیں ،اس میں غلط بیانی ،تغریریعنی دھوکہ دہی، تدلیس ،خیانت، اورغش وغیرہ کاارتکاب کرنے سے مکمل اجتناب کریں۔یہ ساری چیزیں نہ صر ف یہ کہ حرام ہیں اور آخرت میں ان پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں بلکہ دنیامیں بھی کاروبار اور تجارت کو سخت نقصان پہنچانے والی ہیں ۔

 

(۳) کاروبار میں عقد کے دوران جوبات بھی تاجر گاہک کوکہے یاگاہک تاجر کوکہے بہت احتیاط کے ساتھ کہے ،اس میں اگر دھوکہ دہی ،غلط بیانی ،تغریراورتدلیس تک بات پہنچ گئی تو گناہ اور آخرت میں سخت سزا ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کاانجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ۔

 

(۴) متعاقدین میں سے کسی نے دھوکہ دہی اور غش کے ذریعے معاملہ کربھی لیاتو شریعت دھوکہ کھانے والے کومعاملہ فسخ کرنے کا اختیار دے دے گی اور اس کے نتیجے میں دھوکہ کے ذریعے کمایاگیانفع ہاتھ سے نکل جائے گا۔اور اگر دوسرافسخ ِعقد پرراضی نہیں ہوگاتو گناہ گار ہوگااور شریعت کے حکم کاتارک ہوگا۔اگر معاملہ اسلامی عدالت میں چلاگیاتووہ حکومتی طاقت اور قوت کااستعمال کرکےشرعی حکم پرعمل درآمد کرائے گی ۔

حوالہ جات

  1. النساء:۲۹
  2. 2 القصص:۲۸
  3. القصص: ۲۸
  4. الأعراف: ۸۵
  5. 5 ہود: ۸۴،۸۵
  6. 6 الشعراء: ۱۸۱ـ۱۸۳
  7. 7 الرحمن: ۷ ـ۹
  8. 8 المطففين: ۱ ـ۳
  9. 9 الترمذي،محمد بن عيسى،سنن الترمذي ،دار إحياء التراث العربي،بیروت، ج3،ص: 214
  10. البخاري، أبو عبدالله محمد بن إسماعيل،ٍصحيح البخاري، دار ابن كثير، بيروت، الطبعة الثالثة،1407، 1987،ج: 2،ص:733
  11. 11 الترمذي،محمد بن عيسى، سنن الترمذي ،دار إحياء التراث العربي،بیروت، ج3،ص: 252
  12. القشيرى النيسابوري، مسلم بن الحجاج ابن مسلم،صحيح مسلم،دار الفكر،بيروت لبنان،ج:1، ص:72
  13. البخاري، أبو عبدالله محمد بن إسماعيل،صحيح البخاري، دار ابن كثير، بيروت، الطبعة الثالثة،1407، 1987،ج: 2،ص: 755
  14. محقق ابن الہمام، فتح القدير، المکتبۃ الشاملۃ، ج :15،ص: 86
  15. عثمانی ، محمد تقی ،فقہ البیوع ،مکتبہ معارف القرآن، کراچی ،ینایر۲۰۱۵ء، ج :2،ص: 876
  16. المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني،الهداية، دار احياء التراث العربي - بيروت – لبنان،ج:3،ص: 33
  17. وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية ، الكويت، الموسوعة الفقهية الكويتية، الطبعة الثانية ، دارالسلاسل – الكويت، الطبعة الثانية ، ج: 20،ص: 157
  18. عثمانی ، محمد تقی ،فقہ البیوع ،مکتبہ معارف القرآن، کراچی ،ینایر۲۰۱۵ء، ج :2،ص: 876
  19. عثمانی ، محمد تقی ،فقہ البیوع ،مکتبہ معارف القرآن، کراچی ،ینایر۲۰۱۵ء، ج :2،ص: 878
  20. محقق ابن الہمام، فتح القدير، المکتبۃ الشاملۃ، ج : 14،ص: 360
  21. الكاساني، علاء الدين أبو بكر بن مسعود بن أحمد الحنفي، بدائع الصنائع ، دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان، ج :5،ص: 226
  22. ایضاً
  23. ایضاً
  24. ایضاً
  25. الحموي، أبو العباس شهاب الدين أحمد بن محمد مكي الحسيني الحنفي ،غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر ، دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان،الطبعة الأولى، 1405هـ1985م ،ج :1،ص: 257
  26. الدسوقي ، محمد بن أحمد بن عرفة المالكي، الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي، دار الفكر، بيروت،ج:3،ص: 115
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...