Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 2 of Habibia Islamicus

جامعات كے طلبہ کے عقائد و نظریات کی اصلاح کیلئے مکی دور کے اسلوب دعوت کو اپنانے کی ضرورت و اہمیت: منہج اور متوقع نتائج |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

کم علمی یاکم فہمی یاکج فہمی پر مبنی دینی تعبیرات اور متضاد بیانیوں (Narratives)کی بنا پر، عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کو فکری اعتبار سے مجموعی طور پر دو انتہاپسندانہ رویوں کا سامنا ہے۔ ۱۔ لادینیت،۲۔ تکفیر۔ ان انتہاپسندانہ رویوں کی کش مکش اور تصادم کے نتیجے میں،ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ مغربی روشن خیالی،آزادیٔ فکر، اورآزادیٔ اظہار رائےکی خوب صورت تعبیرات کے زیر اثر، دین بے زاری کی تیز وتند آندھیوں کی مسموم فضا کی لپیٹ میں ہے، اور سرے سے دین اسلام کو زندگی کے فکری اورعملی دونوں ہی دائروں سے نکال باہرکرنے کے درپے ہے،یہ طبقہ اپنی شناخت ایک مسلم طبقے کی حیثیت سےکروانے اورجتانے کےباوصف اپنے داخلی تذبذب اورارتیابی وتشکیکی کیفیت کی وجہ سے،بہ زبان حال دین اسلام سے مطمئن نہیں، اور اسلام کے بارے میں شدید مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہے۔

 

دوسرا طبقہ دین اسلام کی متشددانہ وپرتعصب تعبیر کی وجہ سے اسلام کے نظریاتی اور فکری دائرے کو اس قدر محدود کرچکا ہے کہ محض ایسے فروعی اور جزئی مسائل کی وجہ سے عام اہل اسلام کی تکفیر میں مبتلا ہے جو مسائل اہل اسلام کی تاریخ سے وابستہ ہیں، اور اگر ان مسائل کی وجہ سے اس رویۂ تکفیر کو درست قراردیا جائے تو تاریخ اسلام کی نمایاںشخصیات تک اس کے اثرات پہنچتے ہیں اور معاملے کو نہایت سنگین موڑ تک پہنچا سکتے ہیں۔درحقیقت متذکرہ بالا دونوں ہی رویے اور ان رویوں کے اختیار کرنے والے ان دونوں طبقات کو رد عمل کی نفسیات نے جنم دیا ہے، جب لادینیت اور دین بے زاری میں زیادتی سے کام لیا جاتا ہے تو دوسری طرف خطرۂ بحرانِ شناخت (Identity Crisis) کے جذبات دوسرے طبقے کو اکساتے ہیں کہ وہ اپنے اختیار کردہ نظریات اور افکار کی ذرہ بھر مخالفت کرنے والوں کو اسلام دیس نکالا کردیں۔ہمارے خیال میں ان دونوں ہی خطرناک متشددانہ رویوں کے پنپنے، پھیلنے اور مسلم معاشرے میں جڑپکڑنے کی وجہ دین ِاسلام کے بنیادی عقائدجن کی اصل واساس قرآن مجید اور سنت رسول اللہ ﷺہیں، ان سے لاعلمی اورغفلت ہے، اور ان عقائد کی نشر واشاعت اورتعلیم وتدریس کا نامناسب انتظام ہے، اس سلسلے میں ہمیں اپنے مقتدر ومحترم دینی رہنمایان ملت سے بھی شکوہ ہے کہ ان کی طرف سے قرآن وسنت کے ٹھوس، متفقہ، اور افراط وتفریط سے پاک عقائد ونظریات کی تبلیغ اور دعوت اور مسلم معاشرے میں انہیں پیش (Address) کرنےکے بارے میں غیرحکیمانہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔

 

چونکہ تعلیم وتعلم سے وابستہ نوجوان طلبا اور طالبات ہی کسی بھی قوم و ملت کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں، مستقبل کی امیدیں انہی سے وابستہ ہوتی ہیں،قوم وملت کی ترقی یا تنزل انہی کی ترقی وتنزل سے عبارت ہےاور ملت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہوتی ہے، اس لیے اس اہم طبقے کی بہترین فکری تعمیر وتربیت ہی کسی بھی قوم وملت کے کام یاب یا ناکام ہونے کا مدار ہوتی ہے۔اگر اس طبقے کو تربیت اور تعلیم میں درست رویے کو اپنایا جائے اور انہیں دینی فکر ونظر کا درست شعور مہیا کرنے کا مناسب انتظام کیا جائے تو یہ ہمارے مستقبل کے لیے ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔

 

موضوعات بحث

تعلیمی اداروں سے وابستہ نوخیز نوجوان نسل کے عقائد وافکار کی اصلاح، اور انہیں دین اسلام کا حقیقی رخ سمجھانے کے لیے درست اور تیر بہ ہدف حکیمانہ پالیسی کے اختیار کرنے کے لیے زیر نظر تحریر میں،ایک طرف تعلیمی اداروں کے طلبا وطالبات کو کتاب و سنت سے ہم آہنگ واضح اور درست نظریات وعقائد کی تعلیم وتدریس کے لیے سیرت رسول ﷺسے کشید حکیمانہ پالیسیوں کواختیار کرنے کی ضرورت، اہمیت، طریق کار اور اس منہج کے ممکنہ ومتوقع اچھے نتائج ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا گا۔دوسری طرف اس سلسلے میں رسول اللہﷺکی مکی دور نبوت میں اختیار کردہ دعوتی وتبلیغی پالیسی کو بالخصوص بہ طور آئیڈیل رول ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی جاے گی، مثلاً: بنیادی عقائد توحید، رسالت وآخرت پر زور دینا، تعبیر وبیان میں سادگی اختیار کرنا، عام رسوم ورواج کے اختیار میں تشدد کی بجاے لچکدار برتاو، تین سال تک خفیہ دعوت، دعوت بہ ذریعہ عمل وغیرہ وہ اسالیب اور طریق ہائے دعوت تھے جو رسول اللہﷺنے مکی دور زندگی میں بہ حسن وخوبی اختیار کیے اور پیغام اسلام کوسمجھ،برت کر آگے پہنچانے کے لیے ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جس نے پیغام رسانی کے فریضۂ نبوت میں رسول اللہﷺکی نیابت کا واقعی حق ادا کردیا۔

 

قبل از ہجرت رسول اللہ ﷺکے اختیار کردہ اسلوبِ انذار وتبشیر کی نمایاں خصوصیات

ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی نے رسول اللہ ﷺکے تقریبا تئیس سالہ دعوتی مشن کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے:

 

پہلا مرحلہ: خفیہ دعوت، یہ مرحلہ بعثت نبویﷺ کے بعد عرصہ تین سال پر محیط ہے۔

 

دوسرا مرحلہ: اعلانیہ دعوت، لیکن صرف زبانی وکلامی دعوت جس میں مخالفین سے باقاعدہ لڑائی یا مڈبھیڑ مقصود نہیں تھی، یہ مرحلہ ان تین سالوں کے بعد ہجرت تک کا ہے۔

 

تیسرا مرحلہ: اعلانیہ دعوت کے ساتھ ساتھ ظلم وزیادتی کرنے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے میدان کارزار میں اترنے والوں کے خلاف قتال ومبارزت،یہ مرحلہ صلح حدیبیہ تک کا ہے۔

 

چوتھا مرحلہ: اعلانیہ دعوت کے ساتھ ساتھ اندرون وبیرون جزیرہ عرب جو فرد وقوم اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بنے، چاہے مشرکین ہو، ملاحدہ ہو، یا اہل کتاب، تمام ہی سے نمٹ کر اسلام کے ابلاغ کی راہ ہموار کرنا، یہ مرحلہ رسول اللہ ﷺکی دنیوی زندگی کے اختتام تک کا ہے۔([1])

 

صفی الرحمن مبارک پوری نے قبل از ہجرت کی مدت کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے:

 

۱۔ تین سالہ خفیہ دعوت۔

 

۲۔ اس کے بعد دس نبوی کے اواخر تک مخالفین کی ایذا رسانی پر تحمل وبرداشت کرتے ہوئے، بلا مقابلہ ومبارزت مکہ مکرمہ اور اطراف واکناف کے قبائل عرب کو علانیہ دعوت۔

 

۳۔ دس نبوی کے بعد مکہ مکرمہ سے باہر رہنے والوں کو علانیہ دعوت۔([2])

 

ان تینوں ہی مراحلِ دعوت میں رسول اللہﷺکے اختیار کردہ اسلوبِ انذار وتبشیر کے رویے پر غور کیا جائے تو حسبِ ذیل پانچ امتیازات نمایاں ہوتے ہیں:

 

۱۔ خفیہ دعوت

 

پہلی وحی آجانے اور اس کے بعد پیغام خدا کے پہنچانے کی بھاری ذمہ داری کے باقاعدہ سپرد کیے جانے کے بعد رسول اللہﷺنے اپنے عالمگیرمشن کا آغازخفیہ دعوت سے فرمایا، پیغام خدا کا اظہارصرف ان کے سامنے فرمایا جن سے کوئی سابقہ معرفت ہو، یا رشتہ داری ہو، اس اسلوب دعوت کے اپنانے کی وجہ کسی کا خوف یا ڈر ہرگز نہیں تھا، بلکہ رسول اللہﷺکو کامل یقین تھا کہ جس خدا نے آپ کو ذمہ داری سونپی ہے، وہ آپ کی حفاظت کرنے پر قدرت رکھتا ہے، تاہم یہ اس وقت کے حالات کا تقاضا تھا، یہ پیغامِ اسلام اس وقت موثر ہوسکتا تھا، جب اس کی دعوت کی ابتداء اسی انداز سے کی جائے،اگر فوری طور پر اظہار اور اعلان کی صورت اپنائی جاتی تو مطلوبہ فوائد کے حصول میں تاخیر یا فوری طور پر کئی ایک رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتا تھا۔([3])

 

۲۔ رشتہ داروں اور واقف کاروں سے دعوت کا آغاز

 

ابتداء میں رسول اللہﷺکو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اپنی دعوت کےدائرے کومحدودرکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں اور واقف کاروں کے سامنے پیش فرمائیں۔([4]) سیاسی، انتظامی اورتبلیغی ہرسہ نقطہائے نظر سے یہ ایک بالکل منطقی پالیسی تھی کہ سب سے پہلے ان کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی جائے جو کم از کم بات سننے،سمجھنے اوراس پرغورکرنے کے لیے دلی طور پررضامند ہیں، اور ایسے افراد قریبی رشتہ داراورواقف کار دوست ہی ہوسکتے تھے، چنانچہ آپﷺنے اسی پالیسی کے مطابق سب سے پہلے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی، یہی وجہ ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہؓ ایمان لائیں جو آپ کے حرم محترم میں تھیں،مردوں میں سیدنا ابو بکرؓ ایمان لائے جو آپ کے دیرینہ دوست تھے، بچوں میں سیدنا علیؓ ایمان لائے جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے اورغلاموں میں سیدنا زید بن حارثہؓ ایمان لائے جو آپ ﷺکو سیدہ خدیجہ کی طرف سے بہ طور ہدیہ غلام پیش کیے گئے تھے، اورممانعت وارد ہونے سے پہلے آپ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا قراردیا تھا، اور وہ محمد بن زیدؓ پکارے جاتے تھے۔([5])

 

۳۔ ایذا رسانی پر، بلاشکوہ وشکایت اور بلا مقابلہ ومبارزہ، صبر وتحمل

 

اس مرحلہ دعوت کا ایک نمایاں امتیاز مخالفین کی شدید ایذا رسانی کے سامنے کیا جانے والا صبروتحمل، اور برداشت وثبات ہے،عقبہ ابن ابی معیط آپﷺکے گلے میں کپڑا ڈال کر گلا گھونٹتا ہے، لیکن سامنے سے ایک ہاتھ تک نہیں اٹھتا ہے۔([6]) رسول اللہﷺشہنشاہ کائنات کے روبرو سجدہ ریز لذت مناجات سے بہرہ یاب ہورہے ہیں اور اسی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی کی غلاظت آپ کی پشت مبارک پر ڈالی جاتی ہے، لیکن آپﷺکی طرف سے کوئی انتقامی اقدام نہیں ہوتا۔([7]) مکہ کی گلیوں میں آپ کی طرف مٹی اچھالی جاتی ہے، سر مبارک اور چہرہ مبارک گرد آلود ہوجاتے ہیں، لیکن یوں عزت وناموس کوپامال کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی شکوہ وشکایت مروی نہیں۔([8]) ان سب کے باوجودبھی انہیں ایک خدا کی طرف لوٹ کر آجانے ہی کی دعوت دی جاتی ہے۔تین سالہ شدید ترین معاشرتی لاتعلقی کے عذاب جھیلنے کے باوجود ایذا رسانی کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی حربہ جنگ وجدل استعمال نہیں کیا گیا۔([9]) اس مرحلہ دعوت میں صحابہ کرام پر ٹوٹنے والے ستم کی داستان بھی کرب انگیز اور درد ناک ہے، لیکن ان مصیبت زدہ ساتھیوں کوبھی آپﷺکی طرف سے غصے میں جواب دیا جاتا ہے کہ تم سے پہلے گزرے اہل ایمان اس سے بھی کڑی مشکلات کوبرداشت کرتے آئے ہیں یعنی تمہیں بھی اس برداشت میں باک نہیں ہونا چاہیے۔([10])

 

۴۔ عام فہم اور دو ٹوک اسلوب کے ذریعے بنیادی عقائد ونظریات کی تعلیم

 

مکی سورتوں میں غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس مرحلہ دعوت ، مخاطبین کے سامنے سادہ اور عام فہم اسلوب میں بنیادی عقائد ونظریات ہی کو موضوع بحث بنا یا گیا ہے۔بطور مثال بنیادی عقائد اسلام؛ توحید، رسالت اور آخرت پر چند آیات ملاحظہ ہوں:

 

۱۔ توحید:’’بھلا کیا ان لوگوں نے زمین میں سے ایسے خدا بنا رکھے ہیں جو نئی زندگی دیتے ہیں؟ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے، عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔‘‘([11])

 

’’پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کرجس نے سب کچھ پیدا کیا، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔‘‘([12])

 

۲۔ رسالت: ’’نٓ، (اے پیغمبر) قسم ہے قلم کی، اور اس چیز کی جو وہ لکھ رہے ہیں، اپنے پروردگار کے فصل سے تم دیوانے نہیں ہو، اور یقین جانو تمہارے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا، اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہو۔‘‘([13])

 

۳۔ آخرت: ’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اس منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو (ماں کے رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنایا، اور اسے ٹھیک ٹھاک کیا، نیز اسی سے مرد وعورت کی دو صنفیں بنائیں، کیا وہ اس بات پر قادرنہیں ہے کہ مردوں کو پھر سے زندہ کر دے؟‘‘([14])

 

تینوں ہی آیت میں غور کیجیے؛ سورۃ الانبیاء میں توحید کے بیان کے لیے نظام عالم کے ایک مربوط انداز پر جاری وساری رہنے کی حسی مثال سادہ الفاظ میں دی گئی، جب کہ سب سے پہلی وحی سورۃ العلق میں خدا کے کرشمۂ خالقیت کو انتہائی مختصر اسلوب میں بتایا گیا۔ سورۃ القلم میں رسالت کے اثبات میں رسول اللہﷺکی اخلاقی زندگی جو مخاطبین پر عیاں تھی کا حوالہ دیا گیا،یہاں بھی کسی پیچیدہ تعبیر وتفصیل کا سہارا نہیں لیا گیا۔سورۃ القیامۃ میں آخرت کا امکان کو عدم سے وجود کے عام فہم تجربے کے ذریعے ثابت کیا گیا۔

 

۵۔ دعوت بہ ذریعہ پاکیزگی کردار وعمل

 

سیدہ خدیجہؓ کو جب رسول اللہﷺنے غار حرا میں پیش آمدہ پہلی وحی کی صورت حال بتائی تو سیدہ خدیجہؓ نے اس کے فوری جواب میں جو رسالت مآبﷺکی اخلاقی خوبیوں کو بیان کیااس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے کردار کی یہ طہارت و پاکیزگی سب ہی پر عیاں تھی۔([15]) اسی طرح کوہ صفا سے جب آپﷺنے اعلانیہ دعوت کے فریضے کی ادائیگی کا آغاز کیا تو آپﷺنے سب سے پہلےمخاطبین کو اپنی سچائی اور امانت داری کا حوالہ دیا، اور مخاطبین نے آپ کے رو برو آپ کی امانت وصداقت کا برملا اقرارواعتراف کیا۔([16]) حجر اسود کے نصب کے معاملے پربھی جب مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺکو بیت اللہ میں پایا تو سب ہی نے آپ کے کردار کی پاکیزگی کا حوالہ دے کر آپ کے فیصلے پر اتفاق کا اظہار کیا۔([17])

 

سیرت مطہرہ کے اس پہلو سے جہاں اور کئی ایک اسباق ودروس حاصل ہوتے ہیں، بجا طور پر یہ درس بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آپ کی دعوت کے کئی دلوں میں گھر کرنے کی وجہ آپ کی پاکیزگیٔ اخلاق وعمل اور بلندیٔ کردار کی یہ صفت تھی جس کے مخالفین بھی بجا طور پرمعترف تھے۔آپﷺنے عمل وکردار سے خاموش دعوت دینے کا یہ انداز اپنے مشن میں شامل اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین فرمایا تھا، چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ جو آپ ﷺکے سفر وحضر کے رفیق ،یار غار اور دعوتی مشن میں آپ ﷺکے ہمہ وقت وہمہ تن ساتھ رہے، مکہ مکرمہ میں آپ ؓ کے طرز دعوت میں بھی ہمیں دعوت بہ ذریعہ پاکیزگی کردار وعمل کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے، آپؓ سب کے سامنے بیت اللہ میں نماز ادا کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو مکہ مکرمہ کے مرد عورت، بچے بوڑھے، سب ہی آپ کو دیکھنے سننے کے لیے بھیڑ لگا لیتے، مشرکین سربراہان کو جب معاملے کی سنگینی کا ادراک ہوا تو انہوں نے آپ کو دق کرنا شروع کیا، آپؓ نے تنگ آکر مکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا، اس وقت قوم حبشہ کے ایک نمایاں فرد ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی، تو ابن الدغنہ نے آپ کے کردار کی پاکیزگی سےمتعلق تقریبا وہی الفاظ کہے جو سیدہ خدیجہؓ نے پہلی وحی کے نزول کے وقت رسول اللہﷺکو بہ طورتسلی کہے تھے، اور ابن الدغنہ آپ کو اپنی پناہ میں لیتے ہوئے دوبارہ مکہ پہنچ گئے، جب قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کو اس شرط پر قبول کیا کہ سیدنا ابو بکرؓ نماز اپنے گھرکے اندرچھپ کر پڑھیں گے تو سیدنا ابو بکرؓ نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔([18]) اور بذریعہ عمل دعوتِ اسلام کے عمل کو برابرجاری رکھا، سیدنا ابو بکرؓ اوررسول اللہﷺکےباہمی تعلقات کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ طرز دعوت آپؓ نے رسول اللہ ﷺکےحکم واجازت سے اختیار کیا ہوگا، اور اسی بنا پر اس انداز دعوت کو سنت وسیرت ہی کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔

 

دعوتِ اسلام کےعظیم کازکے بہ حسن وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئےسیرت نبوی ؐکے یہ چند امتیازی رویے تھےجو مکہ مکرمہ میں رسول اللہﷺبہ طورخصوصی اختیار فرمائے،سیرت نبویؐ کے ان پہلؤوں کی روشنی میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کے اصلاح عقائد کے منہج وطریق کار سے متعلق اب چند تجاویزذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

 

عصری جامعات کے طلبا وطالبات کے عقائدونظریات کی اصلاح کا منہج اور طریق کار،چند تجاویز اور متوقع نتائج

نوخیز نوجوان نسل کے عقائد کی اصلاح کے اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ اور اساتذہ دونوں ہی پر برابر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انتظامیہ اور اساتذہ میں پرخلوص باہمی تعاون وامداد اس مشن کی کام یابی کی ضمانت ہوگا، اس سلسلے میں اساتذہ اپنی حدود میں کیا کچھ کوششیں کر سکتے ہیں؟ اورادارہ جاتی سطح پر کیا کوششیں کی جاسکتی ہیں؟ دونوں ہی سے متعلق چند تجاویز اور ان کے متوقع نتائج ذکر کیے جائیں گے، پہلے کچھ تجاویز اساتذہ کرام کے لیے ہیں، اور پھر کچھ تجاویز ادارتی سطح پر جامعات کی انتظامیہ کے لیے پیش کی جائیں گی۔

 

اساتذہ ومعلمین کیلئےچند رہنما تجاویز

 

۱۔ عقائد ونظریات اور اقدار کی اہمیت پیدا کرنا

 

عقائد ونظریات اور مابعد الطبیعیاتی اقدار (Metaphysical values)انسان کی نجی واجتماعی اورعملی واخلاقی زندگی کی پوزیشن واضح کرتے ہیں، عقائد ونظریات ہی کی بنا پر انسان کی زندگی سے اعمال پھوٹتے ہیں، اور انسان زندگی کی شاہ راہ پر گامزن ہونے کے لیے ایک متعینہ راہ اختیار کرتا ہے، جس زندگی کی بنیادی قدرعبدیت (خدا کی بندگی) ہو، بنیادی عقیدہ توحید فی الذات والصفات ہو، اورجس زندگی کی نظریاتی وابستگی رسالت مآبﷺکی ذات سے جڑی ہواس زندگی سے نکلنے والےعمل وکردارمیں عبدیت نمایاں ہوگی، توحید کے جذبات موجزن ہوں گے، اور ایسی زندگی میں رسالت مآب ﷺکی تعلیمات کو فیصلہ کن حیثیت رکھتی حاصل ہوگی، اس کے برعکس جس زندگی کی بنیادی قدر آزادی (جو جی چاہے چاہ سکنا ) ہو، بنیادی عقیدہ لامذہبیت یا شرک ہو، اور نظریاتی اعتبار سے کانٹ(Kant)اور ڈیکارٹ(Descartes)اس زندگی میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہوں تو اس زندگی سے نکلنے والے عمل و کردار میں بھی آزادی، لامذہبیت اور فلسفیانہ الحاد کا پہلو نمایاں ہوگا۔

 

جس شخص کی تربیت مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور اس جینے کے پل پل کا حساب دینے کے نظریے پر ہوگی، اس شخص کی زندگی یقیناً ایسے شخص کی زندگی سے مختلف ہوگی جس کو مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اورحساب وکتاب کے بارے میں شک وشبہ ہو یا سرے سے وہ اس کا انکاری ہو۔ نوجوان طلبا وطالبات کے عقائد ونظریات کی اصلاح کیلئےسب سے پہلے جس اقدام کی ضرورت ہے وہ نوخیز نسل میں اسلامی اقدار وعقائد کی اہمیت اجاگر کرنا ہے، انہیں یہ بات باور کروائی جاے کہ عمل وکردار کی طرح اقدار وعقائد کے باب میں بھی اسلامی تعلیمات کتنی واضح([19]) دو ٹوک ہیں([20])اور اعمال صالحہ کی طرح ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقدار صالحہ اورعقائد صالحہ کا پیروکار ہو اور زندگی کے اس شعبے میں بھی صراط مستقیم پر گامزن ہو۔

 

۲۔ خفیہ دعوت کے ذریعے آغاز

 

میڈیا کے زیر اثر نوجوانوں میں پھیلتے ہوئے الحاد وتکفیر کے اثرات (جس پر کچھ بات آغاز گفتگو میں ہوچکی ہے) کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر کسی تعلیمی ادارے میں عقائد ونظریات کے بارے میں کسی سبب سے حساسیت کی فضا قائم ہوگئی ہے،([21]) تو اصلاح عقائد کے مشن کا آغازخفیہ دعوت سےکیاجائے،اوریہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ اس ماحول میں پیدا شدہ حساسیت کے اثرات کم نہ ہوجائیں اورہم خیال افراد وطلبا کی ایک جماعت پیدا نہ ہوجائے، اس لیے کہ حساس حالات کی فضا میں افراط وتفریط کی وجہ سے ایک درست اورحق بات کو سننے سمجھنے کی صلاحیت بھی کم زور ہوجاتی ہے، ایسی صورت حال میں اگر کسی غلط فکری رخ کی اصلاح کے بارے میں کوئی بھی بات اعلانیہ کی جائے گی تو شاید اس کے اچھے نتائج برآمد نہ ہوں۔ بہ ظاہر خفیہ دعوت کا عنوان ایک عام قاری کے لیے تشویش کا باعث ہوسکتا ہے (کہ کیا یہ کوئی نامناسب عمل ہے جس کو علانیہ نہیں کیاجاسکتا؟)، تاہم اس عنوان سے مراد اسی پالیسی کی طرف اشارہ مقصود ہے جو زمانہ ابتداے بعثت میں رسول اللہﷺنے اختیار فرمائی تھی، رسول اللہﷺکی دعوت دین بھی سراسر حق تھی، لیکن آپ ﷺنے آغاز دعوت کے وقت اسی پالیسی کو اختیار کیا، اور جب ایک عرصہ گزر جانے کے بعد اپنے ہم خیال افراد کی جماعت تیار ہوئی تب آپ نے اللہ تعالی کے حکم کےمطابق باقاعدہ اعلانیہ دعوت شروع کی۔ اسی حکمت نبوی ﷺپر مبنی پالیسی کو حساس اور نازک صورت حالات میں اختیار کرنا دانش مندی اور اس مشن کے اچھے نتائج کی ضمانت ہے۔

 

۳۔ اولین تعلیم؛ بنیادی عقائد توحید ورسالت وآخرت

 

اس وقت طلبا وطالبات میں پھیلتی ہوئی دین سے لاتعلقی اور دین بے زاری اس بات کی متقاضی ہے کہ عقائد کے باب میں کلامی دقائق ولطائف اور فلسفیانہ نکتہ سنجیوں کی بجائے بنیادی عقائد اسلام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جائے، ان کے سامنے عقیدۂ توحید ایسے بنیادی عقیدے، جو تمام ہی ملل سماویہ کا مرکزہ ہے، کا تعارف پیش کیاجائے، عقیدہ توحید کے تقاضوں سے انہیں روشناس کروایا جائے، رسالت ِنبویﷺکے عقیدے کی اہمیت سمجھائی جائے، اپنوں کی عاقبت نا اندیشی اور غیروں کی مفاد پرستی کی وجہ سے اس وقت رسول اللہﷺکی دی گئی ہدایات کے بارے میں اہل اسلام میں جو بڑھتی ہوئی غلط فہمی اور احساس کم تری ہے اس غلط فہمی اور احساس کمتری کو علمی وعقلی اندازسے دورکیا جائے، بدعملی وبدکرداری کی روک تھام کے لیے نوخیز نسل کے دل میں عقیدہ آخرت کا احساس اجاگر کیا جائے، ان میں قیامت کے دن کی حساب دہی کا شعور پیدا کیاجائے۔

 

الحاد اور تکفیر ایسی دو متضاد انتہاؤں کی طرف جانے والے معاشرے میں قرآن کریم کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے، جنت میں رؤیت باری تعالی کے امکان وعدم امکان،تقدیر کے پر پیچ مسائل، معراج کے جسمانی وروحانی ہونے، صفات باری تعالیٰ سےمتعلق نکتہ آفرینیاں اورموشگافیاں لاحاصل ہیں،یہ وقت استوائے عرش،نور وبشر،علم غیب کلی وجزوی، سماع موتی، جسمانی وروحانی عذاب ِبرزخ ایسے مسائل میں الجھنے الجھانے کا نہیں ہے، جب عمارت کی جڑوں میں دیمک لگنے کا خطرہ ہو تو اس عمارت کی دیواروں کو رنگ وروغن کرنے اور ان پر پھول بوٹوں کی کشیدہ کاری سے کہیں زیادہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ جڑ سے دیمک کے خاتمے کے لیے کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔اس سلسلے میں حدیث جبریلؑ([22])میں رسول اللہﷺکی دی گئی ہدایات کو طلبا وطالبات کی اصلاح عقائد کا دستور بنانا چاہیے، چنانچہ جب جبریل ؑ نے ایمان کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہﷺنے فرمایا :’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، فرشتوں پر،خدا کی اتاری کتابوں پر،رسولوں پر،یوم آخرت پراوراچھی بری تقدیر پر ایمان لے آئے۔‘‘([23]) انہی بنیادی عقائد کو طلبا وطالبات کے سامنے نقل وعقل کی روشنی میں پیش کیا جائے۔([24])

 

۴۔ تعلیم عقائد میں تدریج

 

رسول اللہﷺکی دعوت دین کی ایک نمایاں خوبی اسلوب تدریج کا اختیار کرنا ہے، اللہ جل جلالہ کے حکم کے مطابق مختلف مواقع پر رسول اللہﷺنے اپنے دعوتی مشن میں،خصوصا نوخیز نواجونوں کے ساتھ، تدریجی انداز بیان اختیار فرمایا ہے،چنانچہ جندب بن عبد اللہؓ کہتے ہیں:’’ہم نوخیز نوجوان تھے،ہم نے رسول ﷺکے ساتھ عرصہ گزاراہے،ہم نے رسول اللہﷺسے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا، اور یوں قرآن سیکھنےسے ہمارے ایمان میں مزید اضافہ ہوا۔‘‘([25]) اسی طرح رسول اللہﷺنے سیدنا معاذؓ کو یمن بھیجتے ہوئے جو طریقہ دعوت ارشاد فرمایا اس کے مطابق انہیں پہلے اہل یمن کو شہادتیں کے اقرار کی دعوت دینے کا حکم دیا، پھر فرمایا اگر وہ یہ بات مان لیں تب ان کےسامنے صدقے سے متعلق احکام بیان کرنا۔ ([26]) اسی طرح رسول اللہﷺقرآن کریم کی تعلیم کے متعلق بھی یہی طریقہ اختیار فرماتے کہ کچھ آیات پڑھا کر جب تک پڑھنے والے انہیں اچھی طرح سمجھ نہ لیں آگے نہ بڑھتے تھے۔([27]) اس سنت نبویﷺسے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ گو اصول عقائد طلبا وطالبات کو ایک ساتھ بتائے جائیں لیکن نادرست عقائد کی اصلاح وتفہیم کے بارے میں تدریج کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اہم عقائد کے بارے میں ترتیب وار ان کے خلجان کو دور کیا جائے اور ان کے سوالات کا جواب دیا جائے اور بعد ازاں ان سے کم اہمیت رکھنے والے عقائد کی تفصیل ذکر کی جائے۔

 

۵۔ مسلکی وابستگیوں سے عدم تعرض کی پالیسی

 

فروعی مسائل اور مکاتب فقہ سے وابستگی کے سلسلے میں اہل اسلام عام طور پر چند مشہور فقہی مکاتب فکر (مالکیہ حنفیہ، شافعیہ، حنابلہ، ظاہریہ، جعفریہ وغیرہ )سے وابستہ ہیں؛ پھر ایک مکتب فکر کے تحت بھی آراء کے محمود اختلاف کی وجہ سے کئی ایک مسالک اپنا وجود رکھتے ہیں،عصری جامعات کا یہ حسن ہے کہ وہاں مسالک ومکاتب کی وابستگیوں سے لاتعلق ہوکر طلبا وطالبات کو داخلے دیے جاتے ہیں اور اختلاف آراء کا بجا طور پر احترام کرتے ہوئے، اس اختلاف آراء کو تفرقہ بازی وتفرقہ سازی کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں کی مذمت اور ان کی روک تھام کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں،مسلک ومکتب کے بارے میں چونکہ ایک حساسیت پائی جاتی ہے، اس لیے وقت کی نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ بنیادی عقائد([28]) کی تعلیم وتربیت کے مرحلے میں طلبا و طالبات کے اختلاف مسالک ومکاتب کا احترام کرتے ہوئے ان مسلکی وابستگیوں کے متعلق کسی قسم کی کوئی منفی بات نہ کی جائے ورنہ اصلاح عقیدہ کی مثبت دعوت بھی اس مسلکی حساسیت کی نذر ہونے کا اندیشہ ہے۔

 

۶۔ زیر تربیت طلبا وطالبات کی مجموعی فکری استعداد کو مد نظررکھا جائے

 

جس طرح ہر علم وفن کی تدریس وتعلیم میں یہ بات ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ گفتگو ایسی ہو جو سامعین کی استعداد وصلاحیت کے مطابق ہو اور اس گفتگو کو سامعین اچھی طرح سمجھ کر اپنا سکیں، ایسے ہی عقائد کی تعلیم وتدریس میں بھی اس نکتے کو خصوصی طور پر ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔سیدہ عائشہؓ رسول اللہﷺکے انداز تدریس کے متعلق فرماتی ہیں :’’ آپﷺتمہاری طرح جلدی جلدی لگاتار گفتگو نہیں کرتے تھے جس کی بنا پر سننے والوں کو آپﷺکی بات سمجھنے میں تکلف کرنا پڑے، بلکہ جب بھی گفتگو کرتے واضح اور دو ٹوک ہوتی، جو اس مجلس میں ہوتا وہ (با آسانی) اس بات کو یاد کر لیتا۔([29]) سامعین کی استعداد ہی کو پیش نظر رکھ کر آپ کبھی کبھار ایک بات کو تین تین دفعہ دہرایا بھی کرتے تھے۔‘‘([30])

 

چنانچہ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا وطالبات کی علمی استعداد وصلاحیت کو پیش نظر رکھیں، عقائد کے باب میں ایسی دقیق بات جو ان کی عقل وفہم سے بالا ہو ان کے سامنے بیان نہ کی جائے، اس بارے میں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کا یہ فرمان مد نظر رہے، آپؓ فرماتے ہیں:’’ آپ جب بھی کسی قوم کے سامنے ایسی بات کہیں گے جو ان کی عقل ودانش سے بالا ہوگی تو اس قوم کے لوگ ضرور فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے۔‘‘([31])

 

۷۔ نرمی ونرم خوئی اپنانا، ترش روئی سے اجتناب

 

اس وقت طلبا وطالبات کی دینی ذہن سازی میں ایک اہم رکاوٹ گفتار اور اسلوب تعلیم وتدریس میں درستگی اور ترش روئی کا وہ رویہ ہے جو عام طور پر مذہبی طبقے سے وابستہ کچھ کم فہم اور ناسمجھ افراد نے اختیار کیا ہوا ہے، جو عقائد سے متعلق طلبا وطالبات کے سوالات کا جواب نہ دے سکنے کی کمزوری کو اس رویے سے رفو کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اس رویے کو بدلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اگر اس رویے کو برتا جاتا رہا تو اندیشہ ہے کہ ہمارا یہ قیمتی نوجوان اثاثہ میڈیائی پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر کل کی بجائے آج ہی دین اسلام سے وابستگی ختم یا برائے نام کر دے ۔(لاقدراللہ ذلک)

 

اس بارے میں بالخصوص رسول اللہﷺکے انداز تعلیم کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا علیؓ فرماتے ہیں:’’رسول اللہﷺکا چہرہ ہر وقت تبسم سے کھلا رہتا، اخلاق میں نرمی، انداز میں شائستگی تھی، نہ گفتار میں درستگی تھی، نہ کردار میں سختی، نہ زور زور سے چلانے والے تھے، نہ بدگوئی کرنے والے، نہ عیب جو تھے، نہ بے جا مدح خواں۔‘‘([32]) کوئی اجنبی، آپ ﷺکے مرتبہ ومقام سے ناواقف آکر آپ سے گفتگو میں سختی اور مانگنے میں درستی برتتا تو آپ اس کے رویے پر کسی قسم کا ردِعمل ظاہر کرنے کی بجائے صبرو سکوت سے کام لیتے،بلکہ جوسوالات صحابہ کرامؓ از خودپوچھنے کی ہمت نہ کرپاتے ان کیلئے دیہاتی بدؤوں کو تیار کرکے لاتے کہ وہ سوال کریں اوررسول اللہﷺان کو جواب دیں اس لیے کہ رسول اللہﷺان بدؤوں کے سوال اور انداز سوال پر کسی قسم کے غصے کا اظہار نہ فرماتے تھے۔([33]) ابو رفاعہ عدویؓ کہتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہﷺخطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، اسی دوران میں نے آپ کے پاس پہنچ کر یوں کہا کہ ایک اجنبی آیا ہے اور اپنے دین کے بارے میں معلومات چاہتا ہے، آپؐ نے خطبہ چھوڑا،منبر سے اتر کر ایک کرسی منگوائی اور اس پر بیٹھ کر مجھے میری مطلوبہ معلومات بہم پہنچائیں ،پھر مجھ سے فارغ ہوکر دوبارہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور اپنی بات جہاں ادھوری چھوڑی تھی اس کو مکمل فرمایا۔([34])

 

۸۔ سوالات کرنے کا موقع دینا اور سوال کرتے ہوئے نامناسب رویے پر صبر کرنا

 

افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسلامی عقائد کے بارے میں بھی ایک عمومی تاثر یہ قائم ہوتا جا رہا ہے کہ دیگر توہماتی مذاہب کی طرح دین اسلام کے عقائد بھی خلاف عقل ہیں اور انہیں تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہے، حالانکہ یہ تاثر سراسر غلط ہے جو اپنوں کی ناسمجھی اور غلط رویے کی بنا پر معاشرے میں کافی حد تک پھیل چکا ہے۔اسلامی عقائد ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ہیں، البتہ کچھ ایسے اصول ہیں جن کو سیکھے سمجھے بغیر کچھ عقائد کی کلیت وتمامیت ایک عام ذہن کے لیے واضح نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایک خاص نوعیت کے اختصاص کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم ایسے چند پہلؤوں کی بنا پر جملہ عقائد اسلام کو عام انسانی ذہنی بساط سے بالا قرار دینا درحقیقت انسانی شرافت عقل کی توہین ہے، اللہ جل جلالہ نے کائنات میں جا بہ جا اپنی نشانیاں بکھیری ہی اس وجہ سے ہیں کہ انصاف کے ساتھ سوچنے والے کے لیے حق کی طرف راہ یابی کا دروازہ چوپٹ کھلا رہے، اگر اس بارے میں کسی قسم کا اشکال یا سوال پیدا ہو تو فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون([35]) ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔‘‘([36]) کی تعلیم دی گئی ہے۔

 

چنانچہ زیر بحث موضوع سے متعلق طلبا کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات، اشکالات اور اعتراضات کا طلبا کی عقلی استعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے دلیل وبرہان سے جواب دینا معلم کی ذمہ داری ہے، اپنی کم علمی کو غصے یا ناراضگی سے چھپانے کے بجائے صبر اورحوصلے سے کام لے کر جواب دینے کی کوشش کی جائےاور اگر موقع پر معلم کو جواب معلوم نہ ہو تو وہ خود دیگر اہلِ علم سے مدد لے کر طلبا کی تشفی کا سامان کرے۔گو کہ بے جا سوالات کی رسول اللہﷺنے مذمت فرمائی ہے([37]) لیکن اس سے وہ سوالات مراد ہیں جو ضد وعناد یا محض تکلفات یا غیر مفید امور سے متعلق تفتیش پر مبنی ہوں([38])اس کے برعکس بغرض تفہیم کیے جانے والے سوال کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے نصف عقل وعلم بھی کہا گیا ہے۔([39]) پہلے گزر چکا ہے کہ سائل کی درستگی کے باوصف آپ ﷺکس اعلیٰ حسن اخلاق اور نرم خوئی کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے ۔

 

۱۰۔ اخلاقی پاکیزگی اور ستھرے کردار کے ذریعے عملی دعوت

 

دعوت چاہے کسی اچھے عمل کی ہو یا کسی درست فکر ونظریے کی، اس کی تاثیر اس وقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جب داعی کی خود اپنی شخصیت اور کردار پاکیزہ اور ستھرا ہو، عام انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کے خواہشمند داعی کی خود اپنی زندگی پر نگاہ ڈالتا ہے، اس کی دعوت کے آئینے میں خود اس کو پرکھنا چاہتا ہے، داعی کے اخلاق وکردار کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی دعوت کو کس حد تک قبول کیا جائے؟چنانچہ اسی انداز دعوت کو اصلاح عقائد کے اس مشن میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جب تک معلم کا عمل وکردار پاکیزہ اور شفاف نہیں ہوگا اس کی دعوت کمزور اور بے اثر رہے گی۔اس انداز دعوت کو اختیار کرنے کی تجویز کا ماخذ بھی رسول اللہ ﷺسمیت جملہ انبیاے کرامؑ کی سنت ِدعوت ہے۔ سیدنا شعیبؑ نے قوم کو دعوت دیتے ہوئے اپنے عمل وکردار کے بارے میں فرمایا تھا:’’اور میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ جس بات سے تمہیں منع کررہا ہوں تمہارے پیچھے جا کر خود وہی کام خود کرنے لگوں۔‘‘([40]) اوررسول اللہﷺکے صفا پہاڑپرچڑھ کر اپنی پاکیزگی کرداروعمل کو پیش کرنے والی روایت سمیت کچھ اور روایات بھی پہلے ذکر کی جاچکی ہیں۔(وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین)

 

ادارتی انتظامیہ کیلئے چند تجاویز

۱۔ معلمین کی تدریب و تربیت

 

طلبا وطالبات کی ذہنی ساخت کےتشکیل پانے میں سوسائٹی، والدین، دوست یاراوررشتہ داروغیرہ کئی عوامل بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں، تاہم ان تمام ہی عوامل میں سب سے موثر عامل معلم ہوتا ہے، بنیادی طور پر طلبا وطالبات اپنے معلمین ہی کو دیکھ کر کسی بھی منفی یا مثبت طرز عمل اور اندازِفکر ونظر کو اختیار کرتے اور اپناتے ہیں، پھر اگر وہ طرز وانداز زمانے کی عام روش کے مطابق ہو تو معلم کو تربیت وتعلیم میں مزید کسی اضافی تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا، بلکہ معلم کی معمولی سی کوشش سے اس طرزِعمل وفکرونظرکے نقوش طلبا و طالبات کے دلوں میں گہرے ہوتے جاتے ہیں، لیکن اس کے برعکس اگر معلم کا طرز وانداز زمانے کی عام روش سے مختلف ہو تو ایسی صورت حال میں معلم کو خوب محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے۔اب معلمین،خصوصاً جن معلمین کا خصوصی مضمون اسلامیات یا کسی دینیات کے کسی بھی شاخ سے متعلق ہو، عقائد ونظریات کی اصلاح کے بارے میں تربیت وتعلیم کے ذریعے کیا کوشش کرسکتے ہیں؟ کس منہج کا اختیار کرنا ان کے لیے زیادہ موثر ہوسکتا ہے اور کون سا منہج نقصان دہ؟ ان اہم نکتوں سے متعلق رہنمائی کے لیے ادارتی سطح پر معلمین کی تربیت کے لیے خصوصی کورسز اور ورکشاپس منعقد کی جاسکتی ہیں، جن کے ذریعے اساتذہ کی رہنمائی کی جائے، یوں یہ اساتذہ طلبا وطالبات کی رہنمائی میں اپنا کردار اچھی طرح ادا کرسکیں گے۔

 

۲۔ معلمین کی تعلیمی سرگرمیوں کی نگرانی

 

ادراتی سطح پر جس طرح جامعات کے منتظمین،معلمین کی اس نکتہ نظر سے پڑتال اور نگرانی کرتے رہتے ہیں کہ وہ درسگاہ میں آمد ورفت میں اوقات کا خیال رکھتے ہیں یا نہیں؟ طلبا وطالبات کی علمی ضروریات پوری کرتے ہیں یا نہیں؟ طلبا ان کی تدریس وتعلیم اور انداز تربیت سے مطمئن ہیں یا غیر مطمئن؟ ایسے ہی منتظمین کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہےکہ وہ معلمین کی فکری تعلیمی سرگرمیوں کی پڑتال کرتے رہیں اور طلبا وطالبات کے ذریعے یہ جائزہ لیا جاتا رہے کہ فکری اعتبار سے ان کی تربیت کے لیے کون سا منہج اختیار کیا گیا ہے؟ کوئی عاقبت نااندیش نام نہاد معلم طلبا وطالبات کو ملک دشمنی، اسلام دشمنی، مسلمان دشمنی اور فکری بغاوت کی تعلیم تو نہیں دے رہا؟کہیں تریاق علم کی تقسیم کی بجائے معلم قوم کے بچوں کے ذہنوں میں تشکیک واضطراب کا زہر تو نہیں گھول رہا؟ کہیں معلم ان کے اذہان وفکار میں انسان وانسانیت سے محبت کا درس دینے کی بجائے نفرت اور بغض تو نہیں سکھا رہا؟ اگر کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں یقینی طور پر قابل اعتماد ذرائع سے علم ہوجائے کہ وہ نوجوان نسل کی منفی تربیت کرنے میں مصروف عمل، ملک کے مستقبل کو نقصان پہنچا رہا ہے تو ایسے شخص کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، نہ صرف اسے ادارے سے بے دخل کیا جائے بل کہ اگر معاملہ کسی طرح سنگین نوعیت کا ہو تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کرکے ایسے افراد کا تعلیم وتربیت کے میدان میں در آنے ہی سے راستہ روک دیا جائے۔

 

۳۔ تمام شعبہ ہائے علوم وفنون کے طلبا وطالبات کیلئے ایک مختصر اور جامع نصاب کی فراہمی

 

اعلیٰ تعلیمی ادارے اور جامعات چونکہ اپنے نصاب کی تعین میں کافی حد تک خود مختار ہوتے ہیں، اس لیے عقائد ونظریات کی اصلاح سے متعلق بھی ادارتی سطح پر تمام ہی شعبہ ہائے تعلیم میں دینیات یا اسلامک ایتھکس اینڈ ویلیوز(Islamic Ethics & Values)کےعنوان سے ایک باقاعدہ ضمنی مضمون کا اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس میں عقائد ونظریات کی اصلاح کے حوالے سے ایک مکمل نصاب فراہم کیا گیا ہے،اس لیے کہ عقائد ونظریات کی اصلاح صرف دینیات کے مضمون کے طالب علم ہی کی نہیں، بل کہ تمام مسلمان نوجوان طلبا وطالبات کی اہم ترین شرعی ضرورت ہے،گو کہ یہ نصاب طویل نہ ہو لیکن اختصار وجامعیت کے ساتھ اس نصاب میں حسب ذیل تین حصے شامل کیے جائیں:

 

۱۔ بنیادی دینی عقائد( توحید، رسالت، آخرت ختم نبوت وغیرہ) کی تشریح وتفصیل۔

 

۲۔ ارکانِ اسلام، اہم فرائض (نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ) سے متعلق بنیادی معلومات۔

 

۳۔ اسلامی تعلیمات کی عقلی مصالح و حکمتیں اورمسشترقین و مسغربین کی طرف سے عام طور پر کیے جانے والے اشکالات و اعتراضات کے جوابات۔

 

۴۔ طلبا وطالبات سے مشاورتی فورمز (Counseling Forums)کے ذریعے رابطہ مہم

 

قائد چونکہ ایک حساس موضوع ہے اور ہمارے زمانے میں اس کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے، اس لیے بسا اوقات طلبا و طالبات اپنے ذہنوں میں ابھرتے سوالات اور اشکالات کو کسی اجتماع میں یا دوران درس پیش کرنے سے گھبراتے ہیں، نیز بعض معلمین سے سخت رویے کے سامنے کے خوف کی بنا پر وہ اپنی فکری تشویش کا اظہار نہیں کرتے، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل کے نہاں خانے میں سلگتی یہ چنگاری جب بھڑکتی ہے تو یا ایمان کو خاکستر کرکے طالب علم کو الحاد کی راکھ پر ڈھیر کردیتی ہے، یا پھر رواداری وبرداشت کے جذبات جلا کر طالب علم کو شدت پسندی اور عدم برداشت ایسے ذہنی امراض میں مبتلا کردیتی ہے، ذہن میں ابھرتے ان تیکھے سوالات کے اظہار پر طلبا وطالبات کی آمادگی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ طلبا وطالبات کے ساتھ مشاورتی فورمز کے ذریعے رابطہ مہم کو بھرپور انداز سے استوار کیا جائے، انہیں دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے، ان کے لیے مشاورتی فورمز(counseling forums)اور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، جن کمیٹیوں کے ارکان معلمین کے سامنے وہ اپنے فکری خدشات پر مباحثہ کرسکیں اور ان کے اشکالات ان کے سینوں میں دب کر نہ رہ جائیں، اس رابطہ مہم کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز پر باقاعدہ گروپ بنا کر ان سہولیات کا مثبت استعمال بھی کیاجاسکتا ہے، اور بین الطلبا ایسے آزاد فورمزتشکیل دے کر بھی کیاجاسکتا ہے جس پلیٹ فارم پرطلبا و طالبات کو اپنے سوالات کو کھل کر بلاجھجک اظہار کرنے کی آزادی فراہم کی جائے، اور اگر کسی طالب علم کو اپنے خیالات کے عمومی اظہار میں باک ہو تواس طالب علم کو متعلقہ معلم تک پہنچانے میں مدد کی جائے۔ انتظامیہ کی بھرپور دلچسپی اور نگرانی اس رابطہ مہم کے منظم اجرا، نفاذ اور اس مہم کو اصلاح عقائد کے مشن میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے از حد ضروری ہے۔

 

۵۔ ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام

 

جیساکہ موقر تعلیمی اداروں میں طلبا وطالبات کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے نصابی، ہم نصابی اور غیر نصابی موضوعات سے متعلق مختلف عناوین پر ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح اصلاح عقائد ونظریات کے حوالے سے بھی متنوع عنوانات پر ورکشاپس اورمختصر دورانیے کے سرٹیفیکیٹ کورسز کا اجرا کیا جاسکتا ہے، ورکشاپس میں فکری ونظریاتی مسائل کی پیچیدگیوں کو ایڈریس (address)کیا جائے، اور کورسز میں باقاعدہ ایک ایسا جامع نصاب انہیں پڑھایا جائے جو عقائد ونظریات کے حوالے سے انہیں ایک سچا، کھرا اور پکا مسلمان بننے میں مدد دے، یہ نصاب ایسا ہو جس میں ایک طرف الحاد ولادینیت کے پھیلتے ہوئے مہلک مرض کا تریاق بھی ہو، اور دوسری طرف تشدد پسندی اور عدم برداشت ایسی اخلاقی کوتاہیوں کا علاج بھی ہو۔

حوالہ جات

  1. بوطی، سعید رمضان، فقہ السیرۃ مع موجز لتاریخ الخلافۃ الراشدۃ، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۹۹۱ء، ص: ۱۰۵
  2. مبارک پوری، صفی الرحمن، الرحیق المختوم، ط: بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۲۰۰۳ء، ص: ۶۴
  3. سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں؛ وبناءً على ذلك فإنه يجوز لأصحاب الدعوة الإسلامية، في كل عصر أن يستعملوا المرونة في كيفية الدعوة، من حيث التكتم والجهر، أو اللين والقوة، حسبما يقتضيه الظرف وحال العصر الذي يعيشون فيه، وهي مرونة حددتها الشريعة الإسلامية اعتمادًا على واقع سيرته صلى الله عليه وسلم،، ضمن الأشكال أو المراحل الأربعة التي سبق ذكرها، على أن يكون النظر في كل ذلك إلى مصلحة المسلمين ومصلحة الدعوة الإسلامية. (فقہ السیرۃ مع موجز لتاریخ الخلافۃ الراشدۃ ص: ۱۰۵)
  4. الرحیق المختوم میں ہے؛ وكان من الطبيعى أن يعرض الرسول صلى الله عليه وسلم الإسلام أولًا على ألصق الناس به من أهل بيته، وأصدقائه، فدعاهم إلى الإسلام، ودعا إليه كل من توسم فيه الخير ممن يعرفهم ويعرفونه، يعرفهم بحب الحق والخير، ويعرفونه بتحرى الصدق والصلاح، فأجابه من هؤلاء ـ الذين لم تخالجهم ريبة قط في عظمة الرسول صلى الله عليه وسلم وجلالة نفسه وصدق خبره ـ (مبارک پوری، صفی الرحمن، الرحیق المختوم، ص: ۶۵)
  5. منصور پوری، محمد سلیمان سلمان، رحمۃ اللعالمین، ط: کراچی، دار الاشاعت ، ج:۱ ص: ۵۰
  6. امام بخاریؒ، جامع صحیح بخاری، ط: بیروت، دار ابن کثیر۲۰۰۲ء، باب ما لقی النبی ﷺواصحابہ من المشرکین بمکۃ، حدیث نمبر: ۳۸۵۶ ص: ۹۴۳
  7. جامع صحیح بخاری، باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ من المشرکین بمکۃ، حدیث نمبر: ۳۸۵۴ ص: ۹۴۲
  8. ابن ہشام، عبد الملك ابن ہشام الحمیری، سیرت ابن ہشام، ت: عمر عبد السلام تدمری، ط: بیروت، دار الکتاب العربی، ج: ۲ ص: ۶۵
  9. ابن قیم، شمس الدین محمد بن بکر الجوزیۃ، زاد المعاد فی ہدی خير العباد ط: المطبعۃ المصریۃ ۱۹۲۸ء ج: ۲، ص: ۴۶
  10. صحیح بخاری، باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ من المشرکین بمکۃ، حدیث نمبر: ۳۸۵۲، ص: ۹۴۲
  11. عثمانی،مفتی محمد تقی ، آسان ترجمہ ، ط: کراچی؛ مکتبہ معارف القرآن، سورۃ الانبیاء،آیات: ۲۱، ۲۲
  12. آسان ترجمہ ، سورۃ العلق آیات: ۱،۲
  13. آسان ترجمہ قرآن، سورۃ القلم آیات: ا تا ۴
  14. آسان ترجمہ قرآن، سورۃ القیامۃ آیات: ۳۶ تا ۴۰
  15. صحیح بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ، حدیث نمبر: ۳، ص: ۸
  16. صحیح بخاری، باب وانذر عشیرتک الاقربین، حدیث نمبر: ۴۷۷۰، ص: ۱۱۹۶
  17. الرحیق المختوم ص: ۵۲
  18. صحیح بخاری،باب جوار ابی بکر فی عہد النبی ﷺ وعقدہ، حدیث نمبر: ۲۲۹۷، ص: ۵۵۰
  19. باری عز اسمہ کا ارشاد ہے: ’’جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا، تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جاے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، سورہ آل عمران آیت نمبر: ۸۵)
  20. بے شک (معتبر )دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے، اورجن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے الگ راستہ لا علمی میں نہیں بل کہ علم آجانے کے بعد محض آپس کی ضد کی وجہ سے اختیار کیا، اور جو شخص بھی اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔(آسان ترجمہ قرآن، سورہ آل عمران آیت نمبر: ۱۹)
  21. اس حساسیت کے پیدا ہونے کے کئی ایک اسباب ہوسکتے ہیں، مثلا کسی ادارے میں طلبا کے مابین مسلکی بنیاد پر تنازعات ہوتے رہتے ہوں، یا کسی تعلیمی ادارے کے ماحول میں مغربی تہذیب کے منفی پہلو کے زیر اثر دین بے زاری کی فضا ہو، یا کسی ادارے میں عقیدہ ونظریہ کی بنیاد پر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آچکا ہو (جیسا کہ مردان یونیورسٹی میں طالب علم مشعال خان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ)، ایسے ماحول میں اگر عقائد ونظریات کی اصلاح کو باقاعدہ علانیہ طور پر موضوع بنایا جائے تو اس دعوت کے مثبت اثرات کی بجائے منفی نتائج پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
  22. جس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جبریل کے تشریف لانے کی وجہ صحابہ کرام کے سامنے یوں ارشاد فرمائی: جبریل کی یہ آمد اس وجہ سے تھی تاکہ وہ لوگوں کو ان کے دین کے بارے میں سکھائیں۔ (صحیح بخاری، باب سؤال جبریل النبیﷺ عن الایمان، والاسلام، والاحسان، لخ حدیث نمبر: ۵۰، ص: ۲۳)
  23. حوالہ سابقہ حدیث نمبر: ۵۰، ص: ۲۳
  24. اس بارے میں اس لونڈی والی حدیث سے استیناس کیا جاسکتا ہے جس میں آپ ﷺ نے جب لونڈی سے اللہ جل جلالہ کے وجود کے بارے میں سوال کیا تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا، اور جب اپنے بارے میں پوچھا تو جواب میں اس لونڈی نے آپ ﷺ کو ’’اللہ کا رسول ‘‘کہہ دیا، بس انہی دو سیدھے سوالات کے درست جوابات پر رسول اللہ ﷺ نے اس باندی کو مسلمان قرار دے دیا۔ (امام مسلم، ابو الحسین مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، ط: مدینہ منورہ، دار طیبہ، ت: نظر بن محمد الفریابی، ۲۰۰۶ء، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ، حدیث نمبر، ۵۳۷، ص: ۲۴۲)
  25. ابن ماجہ، محمد بن یزید القزوینی، سنن ابن ماجہ، ت: محمد فؤاد عبد الباقی، ط: بیروت، دار احیاء الکتب العربیۃ، باب من الایمان، حدیث نمبر: ۶۱، ص: ۲۳
  26. صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ما جاء فی دعاء النبی ﷺ امتہ الی توحید اللہ تبارک وتعالی، حدیث نمبر: ۷۳۷۱، ص: ۱۸۲۰
  27. ابو عبد اللہ، احمد بن حنبل، مسند احمد، ط: قاہرہ، مؤسسۃ قرطبۃ، حدیث نمبر: ۲۳۵۳۹، ج:۵، ص: ۴۱۰
  28. اور بنیادی عقائد کا خاصہ یہ ہے کہ ان کے متعلق مشہور ومعروف کلامی مسالک اور فقہی مکاتب فکر کا تقریبا اتفاق ہی رہا ہے۔م۔ب۔ب
  29. امام ترمذی، ابو عیسی محمد بن سورۃ، الشمائل المحمدیہ، ط: بیروت، دار الحدیث، حدیث:۲۲۴، ص: ۱۰۵
  30. الشمائل المحمدیہ، حدیث:۲۲۵، ص: ۱۰۵
  31. مقدمہ صحیح مسلم ، باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع، ص: ۶
  32. الشمائل المحمدیہ، حدیث:۳۴۵، ص: ۱۷۰
  33. حوالہ سابقہ ص: ۱۷۱
  34. امام بخاری، الادب المفرد، ت: امام البانی، ط: بیروت، دار البشائر الاسلامیۃ ۱۹۸۹ء، باب الجلوس علی السریر، ج:۱، ص: ۳۹۹
  35. سورۃ النحل آیت نمبر ۴۳
  36. آسان ترجمہ قرآن، سورۃ النحل آیات: ۴۳
  37. الادب المفرد، باب السرف فی المال، ج:۱، ص: ۱۵۸
  38. امام ابن حجر، احمد بن علی بن محمد بن محمد عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ط: بیروت، دار الریان، المکتبۃ السلفیۃ،ج: ۱۰،ص: ۴۲۱
  39. خطیب بغدادی، ابو بکر محمدبن علی،الفقیہ والمتفقہ، ط: السعودیۃ، دار ابن الجوزی، باب فی السؤال والجواب وما یتعلق بہا، ج: ۱، ص:۳۷۲
  40. آسان ترجمہ قرآن، سورۃ ہود آیات: ۸۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...