Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Habibia Islamicus

حضرت مولانا عبد الغنی ’’حاجی صاحب‘‘ کا تعارف و خدمات |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029632_743

Pages

1-14

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/1/2

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/1

Subjects

Molana Haji Abdul Ghani Services Teachings Social work Molana Haji Abdul Ghani Services Teachings Social work.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

بلوچستان میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت،خلق خدا کوتعلیمات نبویﷺسے آراستہ کرنے اور ان کی روحانی وسیاسی آبیاری کا سہرا علماء کرام کے سر ہے۔ اہل بلوچستان نےعلماء کرام کی تعلیمات سے کما حقہ اکتساب فیض کیاہے جس کا اندازہ اس سرزمین کے مدارس اورعلمائے کرام کےعلمی وروحانی اثرات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ انہی علماء میں سے بلوچستان کے ایک نامور شخصیت حضرت مولانا حاجی عبدالغنیؒ ہیں،جن کاتعارف ،خدمات وتعلیمات کا تذکرہ کرنا اس مقالے میں مقصود ہے۔

 

تعارف

آپ کانام عبدالغنی اورلقب حاجی صاحب تھا۔کم سنی (اٹھارویں سال)میں حج مبارک کی سعادت حاصل کرنے کی وجہ سے اہل چمن میں حاجی صاحب کے نام سے مشہور ہو گئے اور یہ نسبت ان کے نام کالازمی حصہ بن گیا۔آپ 1940ء کو چمن(بلوچستان) میں پیداہوئے۔ ریگستانی علاقہ میں رہائش پزیر ایک مشہورپشتون قبیلہ بادیزئی کی ذیلی شاخ ولی زئی کے بزرگ خاندان ملا عالم زئی کے گھرانے وقت کے عظیم انسان شیخ الحدیث حضرت علامہ الحاج مولانا عبدالغنی صاحب ؒ پیدا ہوئے ۔

 

ابتدائی تعلیم

 

بچپن ہی میں والد کی شفقت ومحبت سے محروم ہو کر یتیم ہو گئے،اس وقت آپ کی عمر چار سال تھی۔غربت اور یتیمی کے اس دور میں آپ نے ریگستانوں میں تقریباً دس سال کی عمر تک بھیڑبکریوں کو چراتے رہے۔ دس سال کے بعدآپ کے بڑے بھائی حاجی دلبر مرحوم نےچمن سےتعلیم کیلئے دوبغدادی قاعدے لائے اوروالدہ مرحومہ نے آپ اور آپ کے بڑےبھائی حاجی عبدالعلی کو ملا محمد حنفیہ مرحوم کے پاس داخل کرادیے۔یہ استاد مولوی عبدالرزاق ملیزئی چمن والے کے والد تھے۔آپ کیزندگی تقریباً خانہ بدوشی کی تھی اس لئے بمشکل دو برس میں قاعدہ ،ناظرہ قرآن مجید اور شروط الصلواۃ سے فراغت ہوئی۔

 

اعلیٰ تعلیم

عمرکے تیرھویں سال میں چمن کے مشہور عالم دین اورفاضل دیوبند حضرت مولانا محمد نور صاحب نور اللہ مرقدہ کی زیر سرپرستی ان کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ ایک سال میں علم الصرف کا فیہ تک، علم النحو شرح الوقایہ تک، علم الفقہ اور فارسیات میں گلستان و بوستان مکمل کیے۔آپ پندرھویں سال میں حصول علم کے لئےافغانستان کے شہر قندھار چلےگئے۔اس وقت قندھار میں حضرت مولانا محمد صدیق ؒ کے نام سے ایک مشہور عالم دین تھے ،تجربہ کاراور نامورمدرس تھے۔ ان کی زیر سرپرستی علم النحوسےکا فیہ اور شرح جامی، منطق سےقطبی اوربد یع المیزان وغیرہ پڑھیں۔ (1)

 

سولویں سال میں قندھار سے پاکستان کے شہر کوئٹہ آگئےاور چمن پھاٹک کے مدرسہ(جامعہ دارالارشاد) میں حضرت مولانا عبدالعزیز ؒ کے زیر نگرانی اوائل اصول، ہدایہ اولین، شرح العقائد، ملا حسن اورسلم العلوم وغیرہ پڑھے ۔سترھویں سال میں پھر واپس چمن آئےاور اپنے سابق استاد مولانا محمد نورؒ کے مدرسہ میں میر زاہد، شرح ملا جلال، مختصر المعانی اورحسامی وغیرہ پڑھے ۔ مولانا محمد نورؒ بہت بڑے عالم دین تھے انتہائی ذہین ،حاضر جواب اور با کمال تھے لیکن اہل چمن نے ان کی قدر نہ کی اور نہ اُن کے علم و کمال کو پہچانا۔اٹھارویں سال کی عمر میں مجھ کو حرمین شریفین کے سفر کی سعادت نصیب ہوئی،یہ سفر تقریباً اڑھائی مہینوں پر محیط تھا۔ انیسویں سال میں کوئٹہ میں داخلہ لیا اوراسباق غور (افغانستان کاعلاقہ)کے مشہور بزرگ عالم دین مولانا جلال الدین غوریؒ سے پڑھے۔ (2)

 

جب آپ کی عمر 20سال ہوئی تو آپ کے استادمولانامحمدنورؒنےآپ کومدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاورجانےکا حکم فرمایا جوآپ نےتسلیم کیا۔مدرسہ میں داخلہ لیکراسباق شروع کردیے،تقریبا ً 4چارسال تک مسلسل مدرسہ میں رہے،اس دوران نہ گھرسےرابطہ ہوااورنہ وطن جاناہوا ۔علم دین کےحصول میں دل ایسالگا کہ سب کچھ بھول گئے۔(3)

 

اخلاق وکردار

آپ کی سب سے بڑی خصوصیت اورعظمت کا سب سے بڑا سبب بھی یہی تھا کہ آپ میں اکابر دیوبند کی ہمہ خصوصیات موجود تھیں۔وہ جہاں علمی حیثیت سے وقار واستغناء اور اخلاقی حیثیت سے غناء نفس کی بلندیوں پر فائز تھے،وہیں فروتنی،خاکساری اور ایثار وزہد کے متواضعانہ جذبات سے بھی بھر پور تھے۔ وہ جہاں علم واخلاق کی بلندیوں پر پہنچ کر عوام سے اونچا دکھائی دینے لگتے تھے،وہیں عجز تواضع وفروتنی اور لاامتیازی کے جو ہروں سے مزین ہوکر عوام میں ملے جلے اور عام انسانوں کی طرح رہے، مجاہدانہ اور غازیانہ اسپرٹ نیز قومی خدمت کے جذبات سے بھی جلوہ آرا تھے۔ غرض علم واخلاق، خلوت وجلوت اور مجاہدہ وجہاد ، اصولی واسلامی سیاست سے بطریقہ اعتدال وابستگی ان کی ذات کی امتیازی شان تھی ۔ وہ بیک وقت محدث،فقیہ، مفسر، عظیم مجاہد، مفتی، متکلم، سیاسی اور حکیم ومربی تھے ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) آپ میں بطور جوہرِ نفس پیوست ہوگئے تھے۔ یہی وہ تمام خوبیاں ہیں جو اکابرین دیوبند میں پائی جاتی تھیں۔(4)

 

اندازدرس وتدریس

 

آپ کی اعلیٰ ذہانت اور منفرد اندازِدرس طالب العلمی کے زمانہ سےہی مشہور تھا ۔ آپؒ کے اس منفرد طرز تدریس کی وجہ سے فقہہ کی مغلق کتاب ردالمختار اور نخبۃ الفکر پڑھانے سے اکثر طلباء کرام محظوظ ہوتے اور یہ اقرار کرتے کہ حضرتؒ کے بعد اس طرح کا موقع پھر ہاتھ نہیں آسکتا۔جب آپ قاضی حمداللہ اور دیگر کتابیں پڑھاتےتو استاد سے دُگنا طلباء آپ کے درس میں شامل ہوتےلیکن اصل نظارہ بخاری ،ترمذی اور دُرِّمختار پڑھاتے وقت کیاجاسکتاتھا۔آپ ؒ ایک ایک حدیث اور مسئلہ کے ساتھ دسیوں مسائل اورفقہی جزئیات کوحل کردیتے۔اپنے حافظہ کے متعلق فرماتے کہ زمانہ طالب العلمی میں تقویٰ،اساتذہ اور خاص کر ماں کی دعائیں اورحج کے موقع پر اجابتِ دعاء کے مقامات پر رب زدنی علماً پڑھنا وہ اسباب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے حافظہ کو وہ قوت بخشی کہ آج الحمدللہ تمام کتب پڑھانے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی لیکن صرف فقہ ہی وہ لامتناہی علم ہے جس میں روز روز نئے مسائل پیش آتے ہیں جس کے لئے ہر وقت مطالعہ ضروری ہے۔(5)

 

اساتذه کرام

آپ کے مشہور اساتذہ حسب ذیل ہیں:

 

ملا محمد حنفيہ ؒ،         حضرت مولانا محمد نور ديوبندی         ؒ،حضرت مولانا محمد صديقؒ،         حضرت مولانا عبدالعزيز ؒ،         شيخ الحديث حضرت مولانا عبدالحق حقانی          ؒ،حضرت مولانا عبد الحليم زروبی          ،حضرت مولانا مفتی محمد علی سواتی        ؒ،حضرت مولانا عبدالغنی دیروی          ؒ،حضرت مولانا مفتی محمد یوسف ؒ ،شيخ محمد اکبر جانؒ اور شيخ محمد حسن جانؒ۔

 

فقہی مسائل میں آپ کاذوق

مسئلہ ختم نبوت

 

آپؒ کے اکثر معتقدین اور تلامذہ ڈیورنڈ لائن کے آس پا س(افغانستان سے تعلق رکھتے) تھے اور آپؒ ان کیلئے ترجما ن دیو بند کی حیثیت رکھتے تھے۔آپؒ اپنےنصائح میں افغانستان کے علما ء کرام کو ہمیشہ تأکیدسےسمجھاتے کہ مسئلہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے، جس طرح نماز ، روزہ ،حج ،زکوٰ ۃ اور جہاد کا سیکھنا فرض ہے اسی طرح مسئلہ ختم نبوت سیکھنا فرض ہے اور ختم نبوت پر ایما ن رکھے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ (6)

 

بحیثیت فقیہ

 

حاجی صاحب کی علمی بصیرت وعلمی فقاہت تمام علماء کی اذہان میں اظہر من الشمس تها۔ آپ فقہی میدان میں ایک ماہر فقہی عالم دین کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔آپ کے درس وتدریس میں فقہی مسائل کا بہت زیادہ امتزاج معلوم ہوتاتھا۔فقہ حنفی کے مستدلات اور دوسرے ائمہ کے مسلک اور ان کے دلائل کے گویا حافظ تھے، علم بڑا مستحضر تھا، انداز بیان بھی بڑا جامع اور مرتب ہوا کرتا تھا۔آپ کی شخصیت دارالعلوم دیوبند کے اساسی اصول کی عکاس تھی۔ فقہی مسائل کوحل کرنے کے لئے آپ نے بعض دیگر علماء کرام کے تعاون واشتراک سے فقہی مجلس کا قیام عمل میں لایا۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی شوریٰ نے فقہی مجلس بنائی تھی جس میں مختلف شرعی مسائل زیر بحث لائے جاتے تھے۔اس مجلس کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس جمعیت علماء اسلام پاکستان پر مختلف زاویوں سے اعتراضات کررہے تھےمثلاً جمعیت علماء اسلام پاکستان کو سیاسی حوالے سے بہت سے مغلق مسائل کا سامنا کرناپڑتاتھا اورعوام یہ سمجھتے تھے کہ جمعیت علماء اسلام ان مسائل کے حل میں شریعت اسلامیہ کالحاظ نہیں رکھتا، جب اس طرح کے اعتراضات شروع ہوگئے،تو ان اعتراضات کے جوابات اور اسی طرح دوسرے فقہی مسائل کو حل کرنے کے لئے مذکورہ مجلس معرض وجود میں آیا۔اس فقہی مجلس کی صدارت کے لئے حضرت مولانا عبدالغنیؒ کومتعین کیا گیا۔ مذکورہ فقہی مجلس میں مختلف مسائل زیربحث لائے گئے اور ان کو اختلافات سے نکال کر بہت ہی مدلل انداز میں حل بھی کئے گئے۔ان مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہیں البتہ ان میں مفقود الخبر،تریاک کی کاشت کاری،کالاباغ ڈیم ،رؤیت ہلال وغیرہ سے متعلق مجالس بہت زیادہ مشہور ومقبول ہوئے۔(7)

 

نمازجمعہ کی ادائیگی کے متعلق حضرت علامہ کا فتویٰ

 

بلوچستان چونکہ اکثریت ویران ،غیرآبادہےاور روزمرہ کے اشیاء خوردونوش بمشکل مہیا ہوتے ہیں ،لہذا ایسے علاقے سے نسبت کی وجہ سے فقہی مسئلہ پیدا ہوتا ہےکہ ایسے علاقوں میں نماز جمعہ پڑھی جائے یا نہیں۔چنانچہ اکثر مقامات پر علماء کرام کےدرمیان نماز جمعہ اداکرنےیانہ کرنے کے متعلق سخت اختلافات پایاجاتا، یہاں تک کہ مختلف مساجد میں تقاریر کے دوران (نمازجمعہ کے) جائز اور ناجائز ہونےکے احکامات جاری کیے جاتے۔آپ نے ضلع پشین(بلوچستان) کے ذمہ دار اراکین اور دوسرے تمام لوگوں کو جمع کرکے حاجی عبدالرحمٰن مسجد کربلا (ضلع پشین)میں دونوں گروپوں کو اپنے مدلل انداز میں شریعت اسلامیہ کے فقہی اصول کے مطابق جواب دیکر نماز جمعہ شروع کیا ۔اسی طرح حرمزئی ،پیر علی زئی اورحبیب زئی میں بھی نماز جمعہ کے بارے میں علمائے کرام میں اختلافات تھا جن کو آپ نے بہت اچھے اور مدلل انداز میں حل کرائے۔(8)

 

فقہ حنفی کے مطابق ہلال کمیٹی کے متعلق مشہور کتاب"فتاویٰ حقانیہ"میں آپ کا حسب ذیل فتویٰ شائع ہواہے:

 

سوال :ہمارے علاقے قومی اسمبلی حلقہ این اے197پشین جس میں کچلاک، پشین بازار، یارو بازار، جنگل پیر علی زئی بازار، عبدالله خان بازار، چمن بازار، گلستان بازار اور میزئی اڈه بازار کے علاوه دیگر بڑے بڑےگاؤں مثلاکربلا، حرمزئی، گانگلزئی، یکلزئی، ٹانگی، کلی کلک وغیره، چهوٹے بڑے علاقے شامل ہیں، ان علاقوں پر حکومت پاکستان کا قانون لاگوہے، اور یہ تمام علاقے صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہیں،لیکن یہاں عید اور روزه بڑے عجیب طریقہ سےمنائےجاتے ہیں، کہ ایک بستی میں عید دوسرے میں روزه ، ایک گهر میں عید دوسرےگهر میں روزه، یہاں تک کہ گهر کے ایک فرد کا روزه اور دوسرے کی عید ہوتی ہے، جبکہ علاقہ کے معروف عالم دین مولاناعبدالغنی صاحب شرعی گواہان پر عید اور روزے کافیصلہ فرماتےہیں، تو کیاان کے فیصلہ پر عمل کیا جائے یاحکومت کی طرف سے قائم ہلال کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کیا جائے ؟ نیز بعض لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ہم افغانستان کے اعلان کے مطابق عید اور روزه کا اہتمام کرسکتےہیں یانہیں؟ ازراه کرم شریعت مقدسہ کی روشنی میں اس مسئلہ کی تفصیلا وضاحت فرمائی جائے ؟

 

الجواب:اسلام لوگوں کواجتماعیت کی دعوت دیتاہے اسلئے مسلمانوں کےذمہ اجتماعیت کےاحکام فرض کئے۔نماز، روزه،حج، اور زکوة اس کی مثالیں ہیں، اسی طرح عیدین بهی اجتماعیت کی داعی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ وه ایک ساتھ روزه رکهیں، اور ایک ساتھ عیدمنائیں۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:

 

"صوموا لرؤية الهلال،وأفطروا لرؤيته"(9)

 

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

"عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:صَوْمُكُمْ يَوْمَ تَصُومُونَ، وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ"(10)

 

یہی وجہ ہے کہ فقہاء مذاہب ثلاثہ بالاتفاق اور مذہب شافعیہ کے بعض فقہاء اور مذہب اہل حدیث، زیدیہ، ظاہریہ وغیره کا اجتماعی فیصلہ ہے کہ اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں، اہل غرب کی رؤیت اہل شرق کے لیے قابل حجت ہے، لہذا رمضان یاعیدین کا چاند جب نظر آجائے توقاضی وقت،ہلال کمیٹی یاعلاقے کے معتمد عالم دین کوچاہیے کہ وه اس شہادت کو قبول کرکے اس کے مطابق روزه یاعیدین کا حکم صادر کرے ،وه حساب وکتاب یا کمپیوٹر کی اطلاع عدم احکام کو نہ دیکهے۔صاحب بحرالرائق فرماتےہیں:

 

"حَتَّى لَوْ أَخْبَرَ رَجُلٌ عَدْلٌ الْقَاضِيَ بِمَجِيءِ رَمَضَانَ يُقْبَلُ وَيَأْمُرُ النَّاسَ بِالصَّوْمِ يَعْنِي فِي يَوْمِ الْغَيْمِ وَلَا يُشْتَرَطُ لَفْظُ الشَّهَادَةِ وَشَرَائِطُ الْقَضَاءِ "(11)

 

علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:

 

"بِأَنَّ الْمَعْمُولَ بِهِ فِي الْمَسَائِلِ الثَّلَاثِ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْبَيِّنَةُ؛ لِأَنَّ الشَّهَادَةَ نَزَّلَهَا الشَّارِعُ مَنْزِلَةَ الْيَقِينِ وَمَاقَالَهُ السُّبْكِيُّ مَرْدُودٌ رَدَّهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْ الْمُتَأَخِّرِينَ،وَ لَيْسَ فِي الْعَمَلِ بِالْبَيِّنَةِ مُخَالَفَةٌ لِصَلَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَجْهُ مَا قُلْنَاهُ أَنَّ الشَّارِعَ لَمْ يَعْتَمِدْ الْحِسَابَ، بَلْ أَلْغَاهُ بِالْكُلِّيَّةِ بِقَوْلِهِ { نَحْنُ أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسِبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا } وَقَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: الْحِسَابُ لَا يَجُوزُ الِاعْتِمَادُ عَلَيْهِ فِي الصَّلَاةِ انْتَهَى"(12)

 

اس لیے کہ قاضی شرعی کو بدون وجہ شرعی کے کسی شہادت کو ردکرنے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ وه شہادت کے حوالہ سے فیصلہ کرےگا۔ علامہ علاؤالدین الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:

 

"(رَأَى) مُكَلَّفٌ (هِلَالَ رَمَضَانَ أَوْ الْفِطْرِوَرُدَّ قَوْلُهُ) بِدَلِيلٍ شَرْعِيٍّ"(13)

 

اگرچہ قاضی شرعی کی موجودگی میں کسی دوسرےشخص کا فیصلہ عیدین و رمضان میں ناقابل قبول ہے۔احکام شرعی کے بارے میں صرف قاضی شرعی کافیصلہ قبول ہوگا۔علامہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 

"لماقال العلامه وهبة الزحیلی: من المصالح العامةرابعاً، القيام على شعائر الدين من أذان وإقامة صلاة الجمعة والجماعة والأعياد، وصيام، وحج"(14)

 

لیکن جہاں کہیں قاضی شرعی نہ ہو یاوه شرعی دلائل کی روشنی میں حکم صادرنہ کرتا ہو تو عیدین ورمضان وغیره عبادات کے قیام میں علاقے کا معتمد عالم دین قاضی شرعی کے قائم مقام ہو سکتاہے۔

 

مولانا رشیداحمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 

"جہاں مسلم حاکم موجود نہ ہویا وه فیصلہ شرعی نہ کرسکتاہو ۔ وہاں اگرچہ جمیع معاملات میں تو عالم قاضی کے قائم مقام نہیں ہوسکتا البتہ رؤیت ہلال وغیره بعض جزئیات میں اس کافیصلہ حکم قاضی کے قائم مقام ہو جائےگا۔"(15)

 

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

 

"قال العلامہ ابن عابدین: وَفِي الْفَتْحِ : وَإِذَا لَمْ يَكُنْ سُلْطَانٌ ، وَلَامَنْ يَجُوزُ التَّقَلُّدُ مِنْهُ كَمَا هُوَ فِي بَعْضِ بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ غَلَبَ عَلَيْهِمْ الْكُفَّارُ كَقُرْطُبَةَ الْآنَ يَجِبُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَتَّفِقُوا عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ، وَيَجْعَلُونَهُ وَالِيًا فَيُوَلَّى قَاضِيًا وَيَكُونُ هُوَ الَّذِي يَقْضِي بَيْنَهُمْ"(16)

 

موجوده ہلال کمیٹی کا اعلان اگر چہ قابل اعتبارہے اس پر مسلمان عید ورمضان جیسے امور انجام دے سکتےہیں مگر اسکے علاوه علماء کی کمیٹی یاایک معتمد عالم دین بهی اس بات کا مجاز ہے کہ وه شہادت یادیگر اطلاعات کی بناء پر رمضان وعیدین کافیصلہ کرسکے یہ بهی قضاء قاضی کے قائم مقام ہے۔ اعلان رمضان وعیدین کا حق صرف ہلال کمیٹی کو حاصل نہیں۔ علامہ محمد یوسف بنوری ؒفرماتےہیں:

 

"واعلم ان بلاد الهند الیوم لیست فیہا حکومة اسلامیة ولیس فیہادارالفقه للمسلمیں فالحکم فی مثلها الصوم باخبار ثقة والفطر یقول ثقتین ولاینبغی لعلماء العصر من المفتیین المشی علی ما هو شان قضاة دارالاسلام من الشهادة وغیرها"(17)

 

اس لیے کہ ہلال کمیٹی دیگر تسامحات کے ساتھ ساتھ شہادت شرعی کو بهی اپنی مفروضہ رائے اور عدم رؤیت کے اعلان کےبعدقبول نہیں کرتی اورشہادت کو کمپیوٹرکےحساب سے پرکهاجاتاہے۔ جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی جس پر گذشتہ عیدین (عیدالفطر، عیدالضحی) کا اعلان واضح دلیل ہے، جو کہ سب کے سامنےہے۔ اور اخبارات وجرائدمیں اس کے خلاف کافی مدلل ومفصل مضامین لکهےگئے، اس کے ساتھ قاضی شرعی کا حکم بهی تب نافذ ہوتا ہے، جب وه شریعت کے موافق ہو، لہذا جب ایک علاقہ میں رؤیت چاندہوجائےتورؤیت جہاں بهی ہوثبوت شرعی کےساتھ ثابت ہونے پر ہلال کمیٹی یاعلاقے کا معتمد عالم دین روزه یاعیدین کافیصلہ (اعلان) کردے۔

 

مسلمانوں کو چاہئے کہ وه اس فیصلہ پر عمل کریں، اختلاف کو ختم کرنے کے لیےآسان سےتجویز یہ ہے کہ ہلا ل کمیٹی صرف مخصوص وقت تک شہادت یا اطلاع کی پابندی نہ کریں بلکہ رات گئے تک ملک وبیرون ملک رابطہ کرتی رہے جہاں پر بهی رؤیت ہلا ل شرعاثابت ہو جائے تو رمضان یاعیدکا اعلان کردیاجائے ۔

 

ہلال کمیٹی کمپیوٹر کے حساب پر شہادت کو نہ پر کهے اس لیے کہ ممکن ہے پاکستان میں طول البلداور عرض البلدکے حساب سے امکان رؤیت نہ ہو اور دیگر ممالک میں امکان رؤيت ممکن ہوا اسلئے شہادت کو شرعی اصول پر پر کها جائے۔لیکن اگر ہلال کمیٹی والے اپنی خود ساختہ اصولو ں پرقائم رہتےہوئے روابط سےروگردانی کرتےہوں تو مسلمانوں پر لازمی ہے کہ وه علاقے کے معتمد عالم دین کے اعلان پر رمضان وعیدین کا اہتمام کریں تاکہ اختلاف ختم ہوکر لوگوں میں وحدت پیدا ہو جو کہ اسلام کا فلسفہ ہے لہذا ہلال کمیٹی یاعلاقے کے مسلمانوں کو رمضان کا روزه یاعید(افطار) کر لیناچا ہئیے۔ اس طرح ان شاء الله تعالی وحدت قائم ہو گی۔

 

کسی دوسرے ملک کے صرف اعلان پر روزه یا افطار ( عید) کرنا شرعا صحیح نہیں جب تک وہاں کے رؤیت دوسرے طُرُقِ شرعی( شہادت علی الرؤیت یاشہادت علی الشہادت یاشہادت علی القضاء یااستفاضہ) کی ساتھ ثابت نہ ہو جائے اور علاقے کا معتمد عالم دین یا علماء کمیٹی وغیره اعلان نہ کرے۔(18)

 

تقسیم میراث اورخواتین

آپ تمام مسلمانوں اور قبائلی جرگوں کے وفدوں اور جلسوں اور اپنے دورہ حدیث میں تقسیم میراث کے بارے میں فرماتےتھے کہ حضرت نبی کریم ﷺکی بعثت سے قبل جو غایت درجہ شرک و کفر کازمانہ لوگوں پر گزراہے اسکو جاہلیت کہتےہیں ، زمانہ جاہلیت میں جہاں مختلف قسم کی رسمیں اور جاہلانہ تصورات وخیالات (مثلا لڑکیوں کا زنده در گور کرنا، غلاموں اولونڈیوں پر سختی اور تشدد سے پیش آنا، یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کهانا، اور طرح طرح باطل معبودوں کی عبادت کرنا، وغیره) رائج تهے، اس کے علاوہ ایک ظالمانہ طریقہ یہ بھی رائج تھا کہ وارث کاحق دار صرف وہی شخص ہوسکتا تها جو گهوڑے کی پشت پر سوار ہو کر دشمنوں کامقابلہ کرتا اور اپنے خاندان کابدلہ لے سکتا،ظاہر ہے کہ اس اصول کی تحت عورتیں اور بچے سب محروم تهے۔

 

لیکن آج کل ہمارےمعاشرے میں مسلمانوں میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جوبڑی کوتاہیاں او ر غلطیاں ہورہی ہیں ان میں سےایک بڑی (غلطی) کوتاہی میراث کا الله رب العزة اور رسول اللہﷺکی احکامات وارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرناہے، بلکہ ایک وارث یاچند وارثوں کا اسےہڑپ کرجانا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرناہے ۔تعجب ہےکہ بہت سے لوگ جو مسلمان ہونے کے دعودیدار ہیں لیکن مرنے والے کی بیویوں اوربیٹیوں کو میراث کےشرعی حصے نہیں دیتے۔تاہم بدعات ، خرافات اور رسومات کے کاموں میں میراث کےمشترکہ مال سے خرچ کرنےمیں کوئی عارنہیں رکهتے۔مثلا تیسرے دن قرآن پڑھوا کر حیلہ اسقاط کرتے ہیں اور قبرستان میں بنیت ثواب تر کہ کے مال سے پیسے تقسیم کررہےہوتےہیں وغیره وغیرہ۔ یہ سب حرام اور ناجائز ہیں۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنے کو اہل علم میں بهی شمار کرتےہیں اور بخشوانے کےٹهیکدار بن کر حیلہ اسقاط کے ذریعے یتیموں اور بیواؤں کا مال کهاتے ہیں۔

 

اس کے علاوه یہ بهی دیکهنے میں آیاہے کہ جہاں دوبیویوں کی اولاد ہوں ان میں سے جس بیوی کی اولاد کے قبضے میں مرنے والے کی املاک اور اموال میں سے جس قدربهی ہو وہی اسے لے اڑتاہے حالانکہ شریعت مطہره میں مرنے والے کی بیو یوں سے جو اولاد ہیں یہ سب ترکہ میں مشترک ہیں۔ شرعاسب میں میراث کا قانون جاری ہوتاہے اگرتقسیم نہ کیا جائے اورجس کے قبضے میں جو مال ہے وہ مستحقین کو نہ پہنچائے تو جس کے پاس بهی اپنے حصے سے زیاده ہو گا وه حرام کهانےکےگناه کا مرتکب ہو گا اور اسے مال کے یہ محبت آخرت کے عذاب میں مبتلاکردےگی۔میراث کی تقسیم کے بارے میں شرعی حکم نہ ماننااور لڑکیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا اور ان کا حق نہ وینا بہت سخت گناہ ہے بلکہ حد کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ اللہ نے اپنے کلام پاک میں وراثت کے قانون وقواعد بیان کرنے کے بعد صریح الفاظ میں بیان فرمایاہے:

 

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔(19)

 

" اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرےگا اور اس کے مقرره حدود سے تجاوز کرےگا وه اس کو جہنم میں ڈال دےگا جہاں وه ہمیشہ رہےگا اور اس کلئے ذلت کا عذاب ہے۔"

 

اور اللہ تعالیٰ نےلڑکیوں کے حصہ کی اہمیت بیان فرمائی :

 

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ۔(20)

 

"آج کل لوگ(لِلذَّكَرِ)کو توماننے کیلئے تیار ہیں ۔ لیکن مثل(حَظِّ الأُنثَيَيْنِ)ماننے کو تیار نہیں ہیں۔"(21)

 

قصاص کے متعلق حضرت علامہ کی رائے

پشتون قبائل میں قصاص کے متعلق ایک ایسارواج موجود تھا جس میں دوقوموں یاقبیلوں کے درمیان خونریزجهگڑا ہوتاتو ایک قبیلہ دوسرےکے ایک آدمی کوقتل کرتادوسرا قبیلہ بدلےمیں قاتل کے علاوه پہلے قبیلےکےاور کسی شخص کوقتل کرتا،اس غیر شرعی رسم کے متعلق حضرت علامہ نے حسب ذیل فتویٰ جاری کیا۔ 

 

قانون الہی کے علاوه ہرقسم کا قانون یارسم و رواج و روایات ظلم اور بربریت گمرہی اور ہلاکت کے علاوه اور کچھ نہیں تمام انسانیت کیلئے صرف اور صرف شریعت اسلامی مشعل راه اورنجات کاسبب ہے اورشریعت کے قانون میں قاتل کے علاوه بدلے میں اور معصوم جان کو مارنا ہرگز جائز نہیں، اگر قاتل کے بجائے اور کسی کو مارا تواس سے قصاص لیاجائے اور نہ ہی قاتل سے مقتول کے ورثہ یاقریبی اولیاء کے علاوه اور کوئی شخص بدلہ لےسکتاہےاس لئےکہ قاتل کاخون صرف مقتول کی جو ورثاء یا حکومت وقت کیلئے جائز ہے اور کسی کو نہیں۔(22)

 

صاحب ردالمحتار فرماتے ہیں :

 

"وَلَوْ قَتَلَ الْقَاتِلَ أَجْنَبِيٌّ وَجَبَ الْقِصَاصُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلِ الْعَمْدِ؛ ای لِأَنَّهُ مَحْقُونُ الدَّمِ بِالنَّظَرِ لِقَاتِلِهِ (وَالدِّيَةُ عَلَى عَاقِلَتِهِ) أَيْ الْقَاتِلِ(فِي الْخَطَأِ، وَلَوْ قَالَ وَلِيُّ الْقَتِيلِ بَعْدَ الْقَتْلِ) أَيْ بَعْدَ قَتْلِ الْأَجْنَبِيِّ(كُنْت أَمَرْته بِقَتْلِهِ وَلَا بَيِّنَةَ لَهُ) عَلَى مَقَالَتِهِ (لَا يُصَدَّقُ) وَيُقْتَلُ الْأَجْنَبِيُّ"(23)

 

نکاح شغار (وٹہ سٹہ ، مقامی پشتو زبان میں سری يامخی کہتے ہیں) کا حکم، جو قبائلی نظام میں نکاح کا یہ سلسلہ بہت زیادہ ہیں۔

 

صاحب سنن الکبریٰ روایت کرتے ہیں:

 

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ-نَهَى عَنِ الشِّغَارِ. وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ"(24)

 

صاحب ردالمحتار فرماتے ہیں :

 

"(وَوَجَبَ مَهْرُ الْمِثْلِ فِي الشِّغَار) هُوَ أَنْ يُزَوِّجَهُ بِنْتَه عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ بِنْتَه أَوْ أُخْتَهُ مَثَلًا مُعَاوَضَةً بِالْعَقْدَيْنِ وَهُوَ مَنْهِيٌّ عَنْهُ لِخُلُوِّهِ عَنْ الْمَهْرِ،فَأَوْجَبْنَا فِيهِ مَهْرَالْمِثْلِ فَلَمْ يَبْقَ شِغَارًا وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ مَعَ إيجَابِ مَهْرِ الْمِثْلِلَمْ يَبْقَ شِغَارًا حَقِيقَةً۔"(25)

 

آپ ؒنے نکاح شغار کے بارے میں یوں کہا : نکاح شغار سے نبی کریم ﷺنے منع فرمایاہے:یعنی بلاذکر مہر عقد کے عوض میں عقد ہی کو نکاح شغار کہتےہیں یعنی لڑکی کے عوض لڑکی دینا مہر ذکر کئے بغیر اسلئے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے شغار کے صورت میں مہر مثل کو واجب کر دیاہے اور نفس نکاح صحیح ہے البتہ یہ عمل مکروه ہے۔(26)

 

درس دورہ حدیث

2008ء میں جامعہ کے دارالحدیث میں ایک طالب علم نے حضرت ؒسے سوال کیا کہ آپ نے کب سے دورہ حدیث پڑھانا شروع کیا ۔ حضرتؒ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے فراغت کے دوسرے سال(تقریباً 1967) سے دورہ حدیث پڑھانا شروع کیا۔ لیکن بدقسمتی سے مسلسل دورہ حدیث نہ پڑھاسکا۔ کبھی جمعیت علما ءاسلام توکبھی تحریک طالبان افغانستان کیلئے دورہ حدیث چھوڑنا پڑا۔ البتہ1999 ء سے آخر دم تک مسلسل دورہ حدیث جاری رہا۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

 

"عَنْ عُثْمَان قَالَ:قَالَ رَسُول اللَّه ﷺ "خَيْر كُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآن وَعَلَّمَهُ"(27)

 

آپﷺ سے روایت ہے:

 

"عن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ -ﷺ-:« أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ، قَالَ قُلْتُ: بَلٰى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:« فَلاَ تَفْعَلْ. نَمْ، وَقُمْ، وَصُمْ، وَأَفْطِرْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنَيْكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا،وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ. فَإِنَّ كُلَّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَإِذَا ذَاكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ۔"(28)

 

عورتوں کا بال کاٹنا

عورتوں کے سر کے بال آگے یا پیچھے سے کاٹنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ وہ ان تین باتوں کا خیال رکھے۔ (۱)مردوں سے مشابہت نہ ہو۔ (۲)کافروں سے مشابہت نہ ہو۔ (۳)حلق نہ ہو۔

 

صحیح مسلم کی روایتوں میں آیا ہے کہ حضورﷺکی وفات کے بعد بیبیوں کے بال اتنےلمبے نہیں رہیں جتنے حضورﷺ کی زندگی میں تھے۔ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضورﷺ کی شریک حیات اور ابن عباسؓ کی خالہ) کو دفنا رہے تھے۔تو میں نے دیکھا کہ اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔آج کل کے نوجوان علمائے کرام نے اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔اور وہ اکثرسوال پوچھتے ہیں کہ جس عورت نے آگے کے بال کاٹے ہوئے ہو کیا وہ پھر بھی مسلمان ہوتی ہے؟میں ان سے کہتا ہوں کہ کفر ہمارے سروں پہ پہنچ چکا ہے۔ ہمارے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں ایسے وقت میں ہمیں ان کم اہم مسئلوں پر ضرورت سے زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔

 

صاحب المستخرج روایت کرتے ہیں:

 

"عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَا وَأَخُوهَامِنَ الرَّضَاعَةِ فَسَأَلْتُهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ فَدُعِيت بِإِنَاءٍ أَوَاهُ قَدْرَ الصَّاعِ فَاغْتَسَلَتْ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا سِتْرٌ فَأَفْرَغَتْ عَلَى رَأْسِهَا ثَلاثًا قَالَ وَكَانَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ يَأْخُذْنَ مِنْ رُءُوسِهِنَّ حَتَّى يَكُونَ كَالْوَفْرَةِ۔"(29)

 

صاحب المنہاج فرماتے ہیں :

 

"قال عياض رحمه الله تعالى: والمعروف أن نساء العرب إنما كن يتخذون القرون، والذوائب، ولعل أزواج النبيﷺفعلن هذا بعد وفاته صلى الله عليه وسلم لتركهن التزين، واستغنائهن عن تطويل الشعر وتخفيفاً لمؤنة رؤوسهن، وهذا الذي ذكره القاضي عياض من كونهن فعلته، بعد وفاته ﷺ، لا في حياته. كذا قاله أيضاً غيره، وهو متعين ولا يظن بهن فعله في حياتهﷺ، وفيه دليل على جواز تخفيف الشعور للنساء.انتهى كلام النووي. وقوله: وفيه دليل على جواز تخفيف الشعور للنساء۔"(30)

 

این جی اوز کے متعلق حضرت علامہ کی رائے

2009ء میں دارالحدیث میں ایک فاضل نےآپ سے سوال پوچھا کہ این جی او زسے سکول کے نام پر پیسے لیکر اس سے مسجد بنانا کیسا ہے؟ آپ نےجواب میں فرمایاکہ این جی اوز کے کئی اقسام ہیں۔کئی کو مسلمان اور اسلامی ملکوں کی حکومتیں فنڈفراہم کرتی ہیں۔ جبکہ کئی کی فنڈنگ امریکہ اور یورپ کررہے ہیں۔ کچھ این جی اوز خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہمارے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور کئی این جی اوز زہر کو شہد میں لپیٹ کر ہمیں پیش کررہے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کا منہ میٹھا کرکے انکو اپنی طرف راغب کیا جائےاور یوں وہ مسلمانوں کو کم ہمت کررہے ہیں۔ مندرجہ بالا صورت میں ہمیں این جی او کی عزائم کو سمجھنا ہوگااور سکول کے نام پر پیسے لیکر اس سے مسجد بنانا تو صریح دھوکہ ہےاور دھوکہ اس کافر کے ساتھ بھی جائز نہیں ہے جو آپ کےساتھ محاذ جنگ میں برسر پیکار ہو۔

 

انتخابات کی شرعی حیثیت

حضرت ؒ سے کسی نے موجودہ انتخابات کی شرعی حیثیت کے بارے میں سوال کیاتو حضرتؒ نے اسے سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کی کتاب اس بارے میں پڑھنے کا مشورہ دیا۔ جواہرالفقہ میں مذکورہے :

 

"امیدوار کو ووٹ دینے کی ازروئے قرآن وحدیث نبوی چند حیثیت ہیں:ایک حیثیت شہادت کی ہے کی ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہاہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت رکھتاہے۔ دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت کی ہے۔"(31)

 

اللہ تعالیٰ کاارشاد پاک ہے :

 

"من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها۔"(32)

 

مولانا عبدالحق فرماتے ہیں :

 

"اس ووٹ کی حیثیت وکالت کی ہے،ووٹراپنےلیےحکومت کےگھرمیں وکیل نامزدکرتاہےکہ یہ شخص (امیدوار) حکومت سے میرے مسائل حل کرائے گا۔"(33)

 

جہاداوردہشت گردی میں فرق

جہاد و دہشتگردی میں فرق کے متعلق آپ فرماتے تھےکہ اصل میں یہ تعبیر بھی مغرب کی طرف سے آئی ہے کہ دہشتگردی اور جہاد میں فرق واضح ہے۔دہشتگردی توحرکات فسادپھیلانے اور اپنی سربلندی چاہنے کی غرض سے ہوتی ہے ۔جیسا کہ قرآن میں ہے :

 

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَايُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَافَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔(34)

 

" وہ گھر پچھلا ہے ہم دینگے ۔وہ ان لوگوں کو جو نہیں چاہتے اپنی بھلائی ملک میں اور نہ بگاڑ ڈالنا ۔"

 

البتہ فساد پیشہ لوگ آپ کا مال لوٹ لیتے ہیں عزت برباد کرتے ہیں آپ کا خون بہاتے ہیں یہ سب کچھ فساد پھیلانے اور اپنی سربلندی ظاہر کرنے کیلئے کرتے ہیں ،ایسے لوگ دہشتگرد ہیں۔ خواہ وہ حکام کی شکل میں ،سرداراور نواب کی شکل میں یا چور اور ڈاکو کی شکل میں ہو۔ اور جہاد اصلاح کیلئے ہے فساد کیلئے نہیں۔ ان کا غرض اعلا ء نفس نہیں بلکہ "اعلا ء کلمۃ اللہ"ہے تو یہ واضح اور خاص فرق ہے جہاد اور دہشتگردی میں ۔ جہاد کی غرض "اعلا ء کلمۃ اللہ "ہے ،دہشتگردی کا غرض اعلاءنفس ہے۔ جہاد کا مقصد اصلاح ہے جبکہ دہشتگردی کا مقصد فساد ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ تعبیر دشمن کے منہ کی ہے ۔برعکس "نہد نام زنجی راکا فور" وہ سفید کو کالاکہے تو آپ کہیں گے کہ کالا ہے ۔ کالا کو سفید کہے آپ کہیں گے کہ سفید ہے۔

 

خلاصہ بحث

سرزمین بلوچستان میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت اورخلق خدا کو تعلیمات نبویﷺسے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی رہنمائی کے لئےعلماء کرام نے شبانہ روز محنت کی ہے۔ان علماء کے خدمتی اثرات سے اہل بلوچستان نے کما حقہ اکتساب فیض حاصل کیاہے ۔معاشرتی اصلاح میں ان کے تعلیمات کے اثر سے غیرشرعی رسوم کا چلن خاصا کم ہوچکا ہے ، علم کی روشنی اور شعور وآگہی پروان چڑھا ہے۔ قبائلی جھگڑوں اور خاندانی دشمنیوں کی بجائے بھائی چارہ اور اخوت کے جذبات نے جگہ لی ہے، جابجا دینی مدارس قائم ہیں اور تبلیغی وفود اور جماعتیں بلوچستان کی دورافتادہ ، سنگلاخ اور بے آب وگیاہ علاقوں تک پھیل چکے ہیں ۔ بلوچستان میں جو مسائل انتظامی ادارے، عدالتیں اور حکمران ختم نہیں کرسکتے وہ ان علماء کے فیوضات سے حل ہوئےہیں۔

 

حوالہ جات

(1)انٹرویو،مولوی محمدایوب،بمقام جامعہ اسلامیہ، چمن،2017/03/25

 

(2)سیف،معراج الدین، ختم نبوت اور حضرت علامہ،ماہنامہ لولاک،ملتان،محرم الحرام1433ھ، ج21،ش5،ص 19

 

(3) قاری ممتازسرحدی، علامہ عبدالغنی شہید ؒ کی سرگزشت زندگی خود انکی زبانی،الہدیٰ،سہ ماہی ،ج4،ش 3،رجب تارمضان، 1432ھ،ص43

 

(4) انٹرویو،مولانا محمدایوب،بمقام جامعہ اسلامیہ، چمن،25مارچ 2017ء

 

(5) ایضا

 

(6)بحوالہ بالا، سیف،معراج الدین،مسئلہ ختم نبوت اور حضرت علامہ،ماہنامہ لولاک،ملتان ، ج21،ش5،ص 19

 

(7)شرودی،حافظ حسین احمد،افکار مفتی محمود کاترجمان،چمن،الہدیٰ،اشاعت خاص،جولائی،2012م،ص 150

 

(8) لعل محمد حقانی ،امام علم وعرفان، چمن،الہدیٰ،اشاعت خاص،جولائی،2012ء،ص 413

 

(9) النسائي، أحمد بن شعيب، السنن الكبرى، كِتَابُ الصِّيَامِ ،باب إِكْمَالُ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ إِذَا كَانَ غَيْمٌ، بيروت، مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1421 هـ، حدیث2439

 

(10) البيهقي، أحمد بن الحسين، السنن الكبرى، كِتَابُ الصِّيَامِ ،بَابُ الْقَوْمِ يُخْطِئُونَ فِي رُؤْيَةِ الْهِلَالِ، بيروت، دار الكتب العلمية،1424 هـ،ج4،ص 422

 

(11) ابن نجيم، زين الدين بن إبراهيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق، دار الكتاب الإسلامي، الطبعة: الثانية،د2،ص283

 

(12) الشامی، محمد أمين بن عمر، رد المحتار على الدر المختار، بيروت، دار الفكر، الطبعة: الثانية، 1412هـ، ج2،ص387

 

(13) الحصکفی،علاء الدین، الدر المختار، بيروت، دار الفكر، الطبعة: الثانية، 1412هـ،ج2،ص384

 

(14) أ. د. وَهْبَة بن مصطفى الزُّحَيْلِيّ، الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ (الشَّامل للأدلّة الشَّرعيَّة والآراء المذهبيَّة وأهمّ النَّظريَّات الفقهيَّة وتحقيق الأحاديث النَّبويَّة وتخريجها)، دمشق،دار الفكر، الطبعة: الرَّابعة، باب الوظائف السیاسیۃ،ج8،ص6186

 

(15) مفتی،رشید احمد،احسن الفتاویٰ،کراچی،ایچ ایم سعید،طبع یازدہم 1435ھ،ج4،ص 466

 

(16)رد المحتار على الدر المختار،ج5،ص369

 

(17) بنوری،محمدیوسف،معارف السنن شرح جامع الترمذی،کراچی،ایچ ایم سعید،ج5،ص 345

 

(18)حقانی،عبدالحق،فتاوٰی حقانیہ،اکوڑہ خٹک،مکتبہ سید احمد شہید،طبع ہفتم،1431ھ،ج4،ص 134تا137

 

(19) النساء14:4

 

(20) النساء11:4

 

(21) محمدقسیم محمود، ملفوظات ، الہدی، سہ ماہی،اشاعت خاص،جولائی 2012ء،ص 443تا453

 

(22) حریفال،سید حبیب اللہ شاہ ،ماہنامہ الجمیعت ،لاہور،جلد12،شمارہ3،دسمبر2011، ،ص 9

 

(23) رد المحتار على الدر المختار، ج6،ص 540

 

(24) النسائي، كِتَابُ النِّكَاحِ ،باب الشغار،تفسیر الشغار، حدیث 5473

 

(25) ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج3،ص 106

 

(26) محمدقسیم محمود ،ملفوظات ، الہدی، سہ ماہی،اشاعت خاص،جولائی 2012ء،ص 443تا453

 

(27)الجامع الصحیح للبخاری،كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ،بَابٌ:خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ، حدیث5027

 

(28)ایضا،کتاب الصوم،باب حق الجسم فی الصوم،حدیث1975

 

(29) الأصبهاني، أحمد بن عبد الله، المسند المستخرج على صحيح لإمام مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابٌ فِي الاغْتِسَالِ مِنَ الْجَنَابَةِ، بيروت،دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، 1417هـ،ج1،ص 370،حدیث 720

 

(30) النووي،محيي الدين يحيى بن شرف، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، كِتَاب الْحَيْضِ ،باب القدر المستحب من الماء في غسل الْجَنَابَةِ،بيروت، دار إحياء التراث العربي،الطبعة: الثانية، 1392ھ، ج4،ص 5

 

(31)مفتی محمدشفیع،جواہر الفقہ،کراچی،مکتبہ دارالعلوم،2010ء،جلد5،ص 529

 

(32) النساء85:4

 

(33) فتاویٰ حقانیہ،جلد2،ص302

 

(34)محمدقسیم محمود،ملفوظات ، الہدی، سہ ماہی،اشاعت خاص،جولائی 2012ء،ص 443تا453

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...