Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 2 of Habibia Islamicus

دور جدید میں بینک کے فرائض و وظائف: ایک تحقیقی جائزہ |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029632_795

Pages

15-28

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/21/23

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/21

Subjects

Traditional Banking Islamic Banking Economic Growth Traditional Banking Islamic Banking Economic Growth

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ابتدائیہ

موجودہ دور مالی، معاشی اور اقتصادی دورکہلاتا ہے اس لئے اگر کوئی بھی شخص انفرادی یا اجتماعی، ملکی یا پھر علمی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہے تو اس کاتعلق بینک سے قائم کرنا لازم و ملزوم ہے۔بینک ایک ایسا ادارہ ہے جوقرض کی بنیاد پر لوگوں سے رقم جمع کرکے دوسرے لوگوں کو سود پر قرض فراہم کرتا ہے۔سود سے حاصل ہونے والا منافع بینک اور ان لوگوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے جنہوں نے اپنی رقوم بینک میں جمع کراوئی تھیں۔اس طرح بینک لوگوں کی جمع کردہ رقوم کو پیداواری اور سرمایہ کاری کے کاموں میں فراہم کرتا ہے جس سے ناصرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

 

اسی طرح کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا دارو مداراس ملک کی مالی ،معاشی اور اقتصادی ترقی پر ہے۔ مالی ، معاشی اور اقتصادی ترقی کا انحصار سرمایہ کی فراہمی پر مبنی ہوتا ہے اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کے دورِ جدید میں سرمایہ کی فراہمی کا مرکز بینک ہوتا ہے۔جن ممالک کا بینکاری نظام مضبوط اورمستحکم ہوتا ہے وہاں سرمایہ کی فراہمی ہوتی ہے اس کے برعکس جن ممالک کا بینکاری نظام کمزور ہوتا ہے وہاں سرمایہ کی قلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ بینک وہ واحد ادارہ ہے جو بچت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ پیداواری اور سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کے جذبہ کو ابھارتا ہے اور سرمایہ کی فراہمی میں اپنا بہترین کردار ادا کرتا ہے۔اس حوالے سے چودھری غلام رسول چیمہ اپنی کتاب ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

 

’’بینک صرف سرمایہ ہی فراہم نہیں کرتا یہ دھاتی زر کے استعمال میں کفالت بھی کرتا ہے اور تسکیک کے مصارف سے نجات دلاتا ہے۔ چیک ، ڈرافٹ ، ہنڈی وغیرہ کے استعمال سے دھاتی زر کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔بینک اقتصادی ترقی کے علاوہ معاشی بحران میں متزلزل معاشی نظام کو سہارا دیتا ہے۔

 

آجرین کو سرمایہ فراہم کر کے انہیں سرمایہ کاری پرآمادہ کرتا ہےجس سے کاروباری سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں۔ کساد بازاری میں مالی امداد ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ثابت ہوتی ہے اور اس طرح معیشت مکمل بربادی اور تباہی سے بچ جاتی ہے۔ سرمایہ کی نقل پذیری میں بھی بینک کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کم منفعت بخش کاروبار سے سرمایہ زیادہ منفعت بخش کاروبار میں منتقل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس طرح سرمایہ اپنے بہترین مصرف میں آجاتا ہے۔

 

بینک بین الاقوامی اور اندرونی تجارت کو سرمایہ فراہم کرتا ہے ۔ بدیشی ہنڈیوں پر پابندی لگا کر تاجروں کو بوقت ضرورت سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ ملکی سرمایہ کی حفاظت کرتا ہے۔ صنعتی اور تجارتی جد و جہد کو تیز کرتا ہے اور قومی فلاح و بہود کا باعث بنتا ہے۔ مختصر یہ کہ قومی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے لیے بینک کا وجود ناگزیر ہے کیونکہ یہ ملک کی تجارتی ، صنعتی ، زرعی اور معاشی ترقی میں کارہائے نمایاں سرانجام دینا ہے۔‘‘(۱)

 

بینک کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت جاننے کے بعد اب ہم اپنے مضمون کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جس میں تفصیل کے ساتھ بینک کے نظم و نسق اس کے فرائض و وظائف اور بینک کی اقسام پرسیر حاصل بحث کی جائے گی۔

 

بینک کی تشکیل

بینک کی تشکیل کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو کسی بھی کمپنی کی تشکیل کا ہوتا ہے۔ بینک بنیادی طور پر ’’جوائنٹ اسٹاک کمپنی‘‘ ہے۔ جس کی تشکیل مختلف مراحل طے کرنے کے بعد ہوتی ہے جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

 

۱۔ ابتدائی مرحلے میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی زیرِ نگرانی ایک رپورٹ(Feasibility Report)تیار کی جاتی ہے۔ جس میں سرمایہ، وسائل، نفع و نقصان کے امکانات وغیرہ کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔

 

۲۔ دوسرے مرحلہ میں بینک کا اجمالی ڈھانچہ(Memorandum)تیار کیا جاتا ہے ۔ جس میں بینک کانام، مطلوبہ سرمایہ،ڈائریکٹرز،نظم و نسق کا طریقہ کار وغیرہ بنایا جاتا ہے۔

 

۳۔ پھر بینک کے انتظامی امور و ضوابط(Articles of Association)لکھے جاتے ہیں۔

 

۴۔ تمام دستاویزات کے ساتھ مرکزی بینک(State Bank)کو اجازت کی درخواست ارسال کی جاتی ہے۔

 

۵۔ مرکزی بینک تمام دستاویزات کی جانچ کرنے کے بعد اجازت دیتا ہے اوراس طرح ایک بینک وجود میں آتا ہے۔(۲)

 

بینک کے وجود میں آنے کے بعد وہ اپنا بنیادی طریق کار ، ترکیبی ڈھانچہ(Prospectus)وغیرہ عوام کے سامنے پیش کرتا ہے جس کا مقصد عوام کا بینک پر بھروسہ اور اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے۔پھر بینک لوگوں کو اپنی امانتیں جمع کرانے کی دعوت دیتا ہے۔ جس کو(Deposits)کہتے ہیں۔

 

ڈپازٹ کی اقسام

عام طور پر ڈپازٹ کی تین اقسام ہیں:

 

۱۔ کرنٹ اکاؤنٹ (Current Account)

 

کرنٹ اکاؤنٹ ایک ایسا اکاؤنٹ ہے جس میں صارفین کسی بھی وقت جتنی مقدار میں چاہیں اور جتنی مرتبہ چاہیں بغیر کسی پابندی کے رقم جمع اور نکلواسکتے ہیں۔اس اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم پر منافع(سود) نہیں ملتا ہے۔

 

۲۔ سیونگ اکاؤنٹ (Saving Account)

 

یہ اکاؤنٹ منافع بخش اکاؤنٹ ہوتا ہے جس میں صارفین کسی بھی وقت جتنی مقدار میں چاہیں اور جتنی مرتبہ چاہیں بغیر کسی پابندی کے رقم جمع کرواسکتے ہیں۔لیکن جمع شدہ رقم نکلوانے پر عموماً مختلف پابندیاں لاگوہوتی ہیں۔ اس اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم پر بینک سال میں دو مرتبہ منافع (سود)دیتا ہے ۔

 

۳۔ فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Deposit)

 

اس اکاؤنٹ میں صارفین بینک میں جمع شدہ رقم مقررہ وقت سے پہلے واپس نہیں لے سکتے۔ جمع شدہ رقم پر بینک سود کی شرح مدت کے مطابق منافع (سود)دیتا ہے ۔طویل مدت کے لئے جمع شدہ رقم پر شرح زیادہ ہوتی ہے جبکہ کم مدت پر جمع کی جانے والی رقم پر شرح کم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مفتی تقی عثمانی صاحب مزید فرماتے ہیں:

 

’’بینک اپنے ابتدائی سرمایہ کے علاوہ جب ان تینوں قسم کے اکاؤنٹس سے مزیدسرمایہ جمع کر لیتا ہے تو اس سرمائے کا ایک مقررہ حصہ (جو حا لات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے )مرکزی بینک کے پاس جمع کرواتا ہے۔یہ سرمایہ مرکزی بینک کے پاس جمع کروانا ضروری ہے کیونکہ مرکزی بینک کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ صارفین کے سرمایہ کا تحفظ کرے۔ مرکزی بینک میں جمع شدہ رقم پر تجارتی بینکوں کو کچھ نفع (سود) بھی ملتا ہے۔بہر حال مرکزی بینک یہ طے کرتا ہے کہ تمام تجارتی بینک اپنی امانتوں کا کتنا فیصد حصہ مرکزی بینک میں جمع کروایں گے۔ آ ج کل مرکزی بینک میں سرمائے کا چالیس فیصد حصہ جمع کروایا جاتا ہے۔‘‘(۳)

 

نفع نقصان کا تناسب، فیصلے اور شرکت سے علیحدگی کا طریق کار

بینک کےنفع نقصان کا تناسب، باہمی مشاورت سے فیصلے اور شرکت سے علیحدگی کے طریقے کارمیں کیے جانے والے اقدامات کی وضاحتیں درج ذیل ہیں:

 

۱۔ بینک میں کاروبار سے متعلق تمام اہم فیصلے حصہ داروں کی باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں۔

 

۲۔ بینک ہر مالی سال کے اختتام پر نفع و نقصان کےتعین کے لئے حسابات کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔مجموعی نفع یا نقصان کے تعین کے بعد ہر حصہ دار کے نفع اور نقصان کو متعین کیا جاتا ہے۔

 

۳۔ نفع کی صورت میں ہر حصہ دار کو اس کے حصے کا نفع دے دیا جاتا ہے ۔

 

۴۔ نقصان کی صورت میں ہر حصہ دار کو مطلع کیا جاتا ہے کہ نقصان کی وجہ سے اس کے سرمایہ میں کمی واقع ہوگئی ہے۔

 

۵۔ نئے مالی سال کیلئے نئے معاہدے کی تجدید کی جاتی ہے اور اس کے حسابات پچھلے سال سے الگ ہوتے ہیں۔

 

۶۔ ہر حصہ دار کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت شرکت سے علیحدہ ہوجائے۔ لیکن شرکاء کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ مالی سال کے اختتام یا سہ ماہی حسابات کے موقع پر ہی علیحدگی اختیار کرے ۔ علیحدہ ہونے والے شریک کے علاوہ باقی تمام شرکاء کی شرکت باقی رہتی ہے۔

 

۷۔ کسی حصہ دار کی جانب سے علیحدگی کا نوٹس ملنے پر اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ مشترکہ کاروبار کے حسابات مکمل کرکے اس شریک کا سرمایہ بمع اس کے حصے کے نفع یا نقصان کے واپس کردیا جائے۔

 

۸۔ کسی حصہ دار کی موت سے اس کی شرکت ختم ہوجاتی ہے اور مذکورہ بالا طریقے کے مطابق حسابات مکمل کرکے اس کا سرمایہ مع نفع یا نقصان اس کے شرعی ورثاء یا ان افراد کو واپس کردیا جاتا ہے جن کے حق میں اس نے وصیت کی ہو۔(۴)

 

بینک کے فرائض

بینک کے فرائض میں سب سے اہم کام قرضوں کی تشکیل اور قرضوں کی فراہمی ہے جیسے(Credit Creation) کہتے ہیں۔ قرضے وجود میں لانا اوران کی فراہمی کرنا بینکوں کیلئے سب سے بڑے فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بینک کئی طرح کے قرضے فراہم کرتا ہے جن میں پیداواری،تجارتی اور ذاتی اخراجات کے لئے صرفی قرضے بھی ہوتے ہیں۔قرضوں کی فراہمی میں بینک کبھی طویل المیاد اورکبھی قلیل المیعادقرض دیتا ہے جو عموماً تین ماہ یا چھ ماہ تک کے لئے ہوتے ہیں۔ بینک سے لوگ تین طرح کے قرضے لیتے ہیں جنہیں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

 

۱۔ اضافی اخراجات کی ادائیگی (Over Head Expenses)

 

بینک لوگوں کو ان کی روزمرہ کے تجارتی ضروریات و اضافی اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض فراہم کرتا ہے ۔ جس میں تنخواہوں یا بلوں کی ادائیگی کے لئے قرض لیا جاتا ہے۔

 

۲۔ تجارتی سامان یا خام مال کی خریداری (Working Capital)

 

بینک لوگوں کو ان کے کاروبار چلانے اور ان کے رواں اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض فراہم کرتا ہے جس میں سامان تجارت یاخام مال وغیرہ خریدنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے۔

 

۳۔ بڑے منصوبوں کی مالی امداد (Project Financing)

 

بینک بڑے بڑے منصوبوں کی مالی امداد کرنے کے لئے قرض فراہم کرتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگ بینک سے بڑے پیمانے پر قرض لیا کرتے ہیں۔(۵)

 

بینک اور قرضوں کا اجراء

 

بینکوں کے فرائض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرضوں کی فراہمی بینکوں کا بنیادی فریضہ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی شخص جا کر بینک سے با آسانی قرض وصول کرسکتا ہے ۔ بلکہ بینکوں کو بھی قرض جاری کرنے کے لئے کچھ طریق کار اور اختیارت ہوتے ہیں جن کی روشنی میں بینک عمل درآمد کرتے ہوئے قرضوں کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے ۔ وہ طریق کار اور اختیارات ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں:

 

قرضوں کی فراہمی میں بینکوں کا طریق کار

قرضوں کی فراہمی میں بینکوں کا طریق کار یہ ہے کہ قرض دینے سے پہلے بینک اس شخص کا جائزہ لیتا ہے جو قرض لینا چاہتا ہے۔ اس جائزہ میں اس بات کی تصدیق و تحقیق کی جاتی ہے کہ جو شخص قرض لینے آیا ہے کیا وہ مقررہ مدت پر قرض واپس کر پائے گا یا نہیں؟ اگر نہیں تو بینک اُسے قرض دینے سے انکار کر دیتا ہے اور اگر اس کی اہلیت رکھتا ہو گا تو قرض فراہم کرنے کے لئے رضامند ہو جائے گا۔ اس حوالے سے مفتی تقی عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:

 

’’بینکوں کے قرض دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے بینک یہ جائزہ لیتا ہے کہ جوشخص قرض لینا چاہتا ہے، وہ مدت مقررہ پر قرض واپس بھی کردے گا یا نہیں؟جائزہ لینے کے بعد بینک ایک حد مقرر کردیتا ہے کہ اتنی مدت میں ہم اتنا قرض دینے کے لئے تیار ہیں، جو حسب ضرورت وقتاً فوقتاً لیا جاسکے گا۔ اس تحدید کے بعد اس شخص کے لئے بینک میں اکاؤنٹ کھولدیا جاتا ہے۔ اس اکاؤنٹ سے جب چاہے اور جتنا چاہے قرض لے سکتا ہے۔ اس اکاؤنٹ کھولنے پر بہت خفیف شرح سے بینک سود بھی لیتا ہے مثلاً(1%یا.5%)اور جب وہ قرض لے لیتا ہے تو اب باقاعدہ شرح سے سود لیا جاتا ہے۔ اس مدت کے دوران عموماً یوں ہوتا ہے کہ ایک رقم بینک سے لے کر اس میں سے جو بچ جائے وہ دوبارہ بینک میں واپس کردی جاتی ہے ۔ اس طرح رقم لینے اور واپس کرنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ مدت کے اختتام پر بینک حساب کرتا ہے کہ کتنی رقم کتنے دن اس کے پاس رہی ۔ اس حساب کے مطابق اس سے سود لیا جاتا ہے۔‘‘(۶)

 

۲۔ قرضوں کی فراہمی میں بینکوں کے اختیارات

 

بینکوں کو قرض جاری کرنے سے مرادہرگز یہ نہیں کہ بینکوں کو اپنی مرضی سے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں ، جب چاہیں اور جتنی مقدار میں چاہیں قرض فراہم کردیں۔بلکہ ہربینک قرضوں کی فراہمی میں مرکزی بینک کی طرف سے پیش کردہ ہدایات کا پابند ہوتا ہے اور وہ انہی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے قرضوں کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔مرکزی بینک کی طرف سے قرضوں کی فراہمی میں حدمقرر کرنے میں کئی عوامل کا دخل ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی خاص شعبے میں زیادہ تمویل کی ضرورت ہوتی ہے تومرکزی بینک بینکوں کا رخ ادھر کردیتا ہے اورکبھی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے حد مقرر کی جاتی ہے۔بہر کیف مرکزی بینک کی ہدایات کے مطابق ہی بینک قرضوں کی فراہمی درج ذیل حصوں کے مطابق کرتے ہیں:

 

۱۔ بینک اپنی تمام امانتوں کا چالیس فیصدحصہ مرکزی بینک کے پاس رکھواتاہے ۔

 

۲۔ پانچ فیصد بینک اپنے پاس نقدکی شکل میں رکھتا ہے۔ 

 

۳۔ تیس فیصد تک پرائیوٹ سیکڑز کو قرض فراہم کرسکتا ہے۔

 

۴۔ باقی پچیس فیصد سرکاری اداروں کو قرضہ فراہم کرتا ہے۔(۷)

 

مختصر کلام یہ کہ بینک کا کام صرف سرمایہ جمع کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ بینک اپنے اختیارات میں رہتے ہوئے سرمایہ فراہم بھی کرتا ہے۔ نیز بینک ان لوگوں یا اداروں کی اچھی طرح تحقیق و تصدیق بھی کرتا ہے جس کو قرض کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

بینک کے وظائف

 

بینکوں کے وظائف جووہ انجام دیتے ہیں یوں تو بے شمار ہیں لیکن ان کوسمجھنے کی خاطر ہم ان کومختلف عنوانات میں تقسیم کرسکتے ہیں جن کی مدد سے بینکوں کے وظائف کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے وہ وظائف درج ذیل ہیں:

 

۱۔ مشاورتی خدمات

 

بینک میں مختلف قسم کے ماہرین کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف بینکوں کے پاس مختلف قسم کی مہارتیں موجود ہوتی ہیں یعنی کوئی بینک درآمد و برآمد کے معاملات میں مہارت رکھتا ہے تو کوئی کار فنانسنگ میں اور کوئی ہوم فنانسنگ میں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف قسم کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے مشورے حاصل کرکے بڑی بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

 

۲۔ سرمایہ کاری میں معاونت

 

بینک سرمایہ کاری یا مالی معاملات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ کونسی سرمایہ کاری میں فائدہ کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں جبکہ کونسی سرمایہ کاری میں نقصان کا احتمال زیادہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بینک سے سرمایہ کاری یا مالی معاملات میں مفید مشورے اور تعاون حاصل کرتے ہیں۔ 

 

۳۔ نقدرقوم کی حفاظت

 

لوگ اپنی رقوم کو حسب ضرورت و عادت جمع تو کرتے ہیں لیکن حالت کے پیش نظر نقد رقوم کی حفاظت گھر وں، دفتروں، دوکانوں یا کارخانوں میں کرنا مشکل کام ہے۔اس لئے ہر شخص اپنی نقد رقم جو ضرورت سے زائد ہوتی ہے بینک میں رکھنا زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔

 

۴۔ قرضوں کی فراہمی

 

بینک لوگوں کی رقوم کی حفاظت کے ساتھ ان رقوم سے صحیح فائدہ اٹھانا سکھاتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی محفوظ رقوم کو پیداواری یا سرمایہ کاری کے کاموں میں استعمال کر کے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح بینک مختلف لوگوں کو قرض فراہم کرکے محفوظ رقوم سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

 

۵۔ براہ راست سرمایہ کاری

 

مختلف بینکوں کے پاس مختلف قسم کی مہارتیں موجود ہوتی ہیں اس لئے بہت سے بینک مختلف کاموں میں براہ راست سرمایہ کاری کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں ۔

 

۶۔ امانت خانوں کی فراہمی

 

بینکوں کے پاس لوہے سے بنے محفوظ صندوق(Lockers)ہوتے ہیں۔بینک سے ان صندوق کوکرائے پر حاصل کیا جاتا ہے ۔ ان صندوقوں میں صارفین اپنی قیمتی دستاویزات، زیورات یا دیگر قیمتی اشیاء محفوظ رکھتے ہیں۔

 

۷۔ کاروبار میں معاونت

 

بینک کو معلوم ہوتا ہے کہ کب ،کہاں اورکیسے کس قسم کی سرمایہ کاری کرنی ہے ،کونسا کاروبار نفع بخش اور کونسا نقصان دے ہے۔ اس لئے بینک لوگوں کو مختلف کاروبارمیں مفید مشورے، مدد اور تعاون فراہم کرتا ہے۔

 

۸۔ جائیداد کا نظم و نسق

 

بعض بینک بحیثیت وکیل بن کر لوگوں کی جائیداد کا نظم و نسق سنبھال لیتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی کی جائیداد، صنعت یا کوئی تجارت غیر ملک میں ہے اور وہ اس کی نگرانی نہیں کر پا رہا تو بینک اس کی مدد کر کے اس کی جائیداد، صنعت یا تجارت کی ذمہ داری سنبھال لیتا ہے اور اس کام کی وہ اجرت وصول کرتاہے۔

 

۹۔ رقوم کی منتقلی

 

بینک رقوم کی منتقلی بھی کرتے ہیں۔مثلاً اندرون ملک ہو یا بیرون ملک بغیر کسی تاخیر یا نقصان کے بینک کے ذریعے باآسانی رقوم کی منتقلی کی جا سکتی ہے ۔

 

۱۰۔ واجبات کی وصولی

 

بینک واجبات کی وصولی بھی کرتے ہیں۔ مثا ل کے طور پر اگر کسی کی جائیداد کسی اور ملک یا شہر میں ہے اور اس کا کرایہ وصول کرنا ہے تو بینک یہ ذمہ داری قبول کرے گا اور ہر مہینے کرایہ وصول کر کے حساب میں جمع کرتا رہے گا اور اس خدمت کی اجرت وصول کرے گا۔

 

۱۱۔ ایل سی کھولنا

 

بینک ایل سی بھی کھولتا ہے جس کی مددسے وہ لوگ جو درآمد برآمد کا کاروبار کرتے ہیں بیرون ملک رقم کی ادائیگی باآسانی کرسکتے ہیں۔

 

۱۲۔ گارنٹی دینا

 

بینک گارنٹی دینے کا کام بھی سر انجام دیتا ہے ۔ بینک گارنٹی ہر اس شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو درآمد یا برآمد کا کاروبار کرتا ہے۔ بینک گارنٹی کی بنیاد پر دونوں فریقین کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرے فریق کی مالی حیثیت کیا ہے اور وہ اتنے بڑے کاروبار کا اہل بھی ہے یا نہیں۔

 

۱۳۔ کریڈٹ کارڈ کا اجراء

 

بینک کریڈٹ کارڈ کا اجراء بھی کرتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ سے مراد بینک کی طرف سے ایک اجازت نامہ ہے۔جس کی مدد سے جب چاہیں، جس جگہ چاہیں اورجتنی رقم چاہیں بینک سے ادھار لے سکتے ہیں۔(۸)

 

یہ وہ چند فرائض ووظائف ہیں جن کاشمار بینک کی سرگرمیوں میں ہوتا ہے ۔بینک اس کے علاوہ بھی بے شمار کام سرانجام دیتے ہیں۔ دورِ جدید میں بینکوں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے انھیں مختلف اقسام میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ہر بینک کو مخصوص فرائضِ منصبی سے منسلک کرنا ہے۔

 

بینکوں کی اقسام

بینکوں کے فرائض و وظائف کے اعتبار سے بینکوں کی کئی قسم کی اقسام ہیں،جن میں بعض بینک خاص شعبوں جبکہ بعض بینک عمومی شعبوں میں تمویل کرتے ہیں۔ بہر حال ذیل میں بینکوں کی اقسام کا اختصار کے ساتھ تعارف پیش کیا جارہا ہے :

 

۱۔ زرعی بینک (Agricultural Bank)

 

یہ بینک شعبہ زراعت میں آسان شرائط پرسستے قرض فراہم کرتا ہے اور زراعت کی ترقی وفروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کے لئے زرعی ترقیاتی بینک اور زرعی ترقیاتی کارپوریشن قائم ہے۔

 

۲۔ صنعتی بینک (Industrial Bank)

 

یہ بینک صنعت میں ترقی کی غرض سے درمیانے اور طویل عرصے کے لئے حوصلہ افزا شرائط پرقرضے فراہم کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی اسی بینک کے مرہون منت ہوتی ہے۔(۹)

 

۳۔ ترقیاتی بینک (Development Bank)

 

یہ بینک کسی بھی شعبہ میں ترقیاتی کاموں کے لئے قرضے دیتا ہے۔

 

۴۔ امدادی بینک (Co-operative Bank)

 

یہ بینک باہمی امدادکی بنیاد پرقائم ہوتا ہے،جو لوگ اس بینک کے ممبر ہوتے ہیں انہی کو قرض دیا جاتا ہے اور انہی کے کھاتے یہاں کھولے جاتے ہیں۔

 

۵۔ سرمایہ کاری بینک (Investment Bank)

 

سرمایہ کاری بینک میں ڈپازٹ متعینہ مدت کے لئے ہوتے ہیں ۔ اس بینک میں عام کرنٹ یا سیونگ اکاؤنٹ نہیں ہوتے، صرف فکسڈڈپازٹ(Fixed Deposit)ہوتے ہیں اور قرضے بھی محدودمدت تک کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔

 

۶۔ تجارتی یا کمرشل بینک (Commercial Bank)

 

یہ بینک کسی خاص شعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے ۔اندرونی اور بیرونی تجارت کو مالیات فراہم کرتے ہیں۔عمومی تمویل کا کام کرتے ہیں اور کسی شعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔(۱۰)

 

۷۔ اسلامک بینک (Islamic Bank)

 

یہ بینک بھی تجارتی یا کمرشل بینک کی طرح ہوتے ہیں لیکن اس میں سُود کا عنصر نہیں پایا جاتا ۔اسلامی بینکاری نظام کے قائم کردہ اہل علم حضرات، علماء کرام اور معاشیاتِ اسلامی کے ماہرین اس نظام کی جو تعریف بیان کرتے ہیں اُس کے مطابق اسلامی بینکوں کاصرف سود سے پاک ہونا ہی کافی نہیں بلکہ تمام اُمور میں شریعت محمدی ؐ کی پیروی کرنا لازم و ملزم ہے۔ اسی لئے یہ حضرات اسلامی بینکوں کی انتظامیہ اور اس میں متعین کردہ شرعی ایڈوائزروں کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اداروں کے ماحول اور اس میں کام کرنے والے لوگوں کی تعلیم و تربیت بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کریں۔ بہرحال علماء کرام اور معاشیاتِ اسلامی کے ماہرین اسلامی بینکاری نظام کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔

 

جامع فیروز اللغات اردو میں اسلامی بینکاری نظام کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

 

’’اسلامی بنکاری یا اسلامی بینکاری ایک ایسا نظام ہے جس میں تمام اُمور شریعتِ اسلامی کے مطابق انجام پزیر ہوں اور اسلامی معیشت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہو۔ اسلامی بنکاری نظام میں بنک میں امانت رکھنے یا قرض لینے کی صورت میں جومنافع کا لین دین ہوتا ہے اسے ربا اور سودسمجھاجاتا ہے،معاشی سرگرمی کا اکثر حصہ مشارکت اور مضاربت کے اصول کے تحت انجام پاتا ہے، اور مرابحہ کو بدرجہ مجبوری اختیار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور کے اکثر اسلامی بنکوں میں مرابحہ کا نظام زیادہ رائج ہوا ہے۔‘‘(۱۱)

 

ڈاکٹر عبد الرزاق رحیم جدی اسلامی بینک کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

 

المصرف الاسلامی ھو: مؤسۃ مالیۃ مصرفیۃ تزاول اعمالھا وفق احکام الشریعۃ الا سلامیۃ۔(۱۲)

 

’’اسلامی بینک سے مراد بینکنگ سے متعلق ایسا مالیاتی ادارہ ہے جو اپنے معاملات شرعی احکام کے مطابق انجام دے۔‘‘

 

ماہرِ معاشیات ڈاکٹر عبد الرحمن یسری اسلامی بینک کی تعریف بیان کرتے ہیں:

 

’’اسلامی بینک سے مراد بینکاری کا وہ ادارہ ہے جو اپنے تمام معاملات میں، سرمایہ کاری کی تمام سرگرمیوں میں، اپنے انتظامی امور میں اسلامی شریعت کے احکام کا مکمل التزام کرے، شریعت کے مقاصد کی تکمیل کو اپنا ہدف سمجھے اور ایک مسلم معاشرے کی مالی اور مصرفی ضروریات کا اندرون ملک اور بیرون ملک اہتمام کرے۔‘‘(۱۳)

 

ڈاکٹر رفیق یونس مصری اسلامی بینکاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

’’بینک فقط حرام امور کے عدم ارتکاب سے مکمل اسلامی نہیں بن جاتا بلکہ اس کے مکمل اسلامی بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے معاملات اپنی شرائط ، ارکان اور اختیارات کے لحاظ سے بھی شریعت کے احکام کےموافق ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی بینک وہ نہیں ہے جو صرف سُود اور حرام اُمور سے اجتناب کرے بلکہ اسلامی بینک وہ ہے جو ممنوعہ اُمور کے ساتھ شرعی احکام کی بھی پابندی کرے۔‘‘(۱۴)

 

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اسلامی بینک کی تعریف یو ں کرتے ہیں:

 

’’اسلامی بینک سے مراد وہ ادارہ ہے جو دورِ جدید کے جائز مالی اور مصرفی معاملات کو حدود شریعت کے اندر رہتے ہوئے انجام دیتا ہو۔حلال وحرام کےقواعدکاپابندہو۔ناجائز وحرام تجارت مثلاً:ربا، غرر ، قماروغیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔‘‘(۱۵)

 

۸۔ بچتی بینک (Saving Bank)

 

یہ بینک کم آمدنی والے لوگوں میں بچت کی عادت پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ ایک خاص شرح سے بچت کرنے والوں کے روپے پر سود بھی ادا کرتے ہیں۔

 

۹۔ رہن یاگروی بینک (Mortgage Bank)

 

یہ بینک زمین ، جائیداد یا زیور کو رہن رکھ کر قلیل اور طویل مدت کے لئے قرض دیتے ہیں۔

 

۱۰۔ مبادلہ بینک (Exchange Bank)

 

مبادلہ بینک غیر ملکی زرمبادلہ کا لین دین کرتے ہیں یعنی ایک ملک کی کرنسی لے کر دوسرے ملک کی کرنسی دیتے ہیں ۔ بین الاقوامی ادائیگیوں میں سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ ان بینکوں کے مالکان اور ان کا سارا عملہ غیر ملکی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تجارت کے مالی وسائل کو طے کرنا اور کرانا ان کا کام ہے۔ ان بینکوں کی اہمیت موجودہ زمانے میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔(۱۶)

 

۱۱۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (International Monetary Fund)

 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے مختصراً(IMF)کہتے ہیں ۔ جو ۱۹۴۸ء کو قائم ہوا۔اس ادارہ کا صدر دفتر امریکہ (واشنگٹن) میں ہے۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو معاشی و مالی خسارے سے نبٹنے اورمعاشی و مالی فلاح کے لئے چند شرائط کے ساتھ تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو قرض فراہم کرتا ہے جن میں زیادہ تر شمار غریب ممالک کا ہوتاہے۔ان شرائط میں پیٹرول، شرح سودیا ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی شرط عائد کی جاتی ہے۔اس ادارے کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک کے مرکزی بینکوں کا مرکز ہے جو کسی بھی ملک کی مالی و معاشی حالت کو مستحکم بنانے یا وقتی ادائیگی کرنے کے لئے قرضہ فراہم کرتا ہے۔

 

آئی ایم ایف کی مزید وضاحت مولانا مشتاق احمد کریمی اس طرح فرماتے ہیں:

 

’’اس ادارہ میں ہر ملک کا ایک کوٹا ہوتا ہے جو اس ملک کی تجارت کا عالمی تجارت کے ساتھ تناسب دیکھ کر مقرر کیا جاتا ہے، مثلاً:عالمی تجارت ایک ارب ڈالر کی ہوئی اور کسی ملک کی تجارت پانچ کروڑ ڈالر کی ہے، تو اس ملک کو پانچ فیصد کوٹاملے گا۔ ہر ملک اپنے کوٹے کا۲۵ فیصد سونے میں اور۷۵ فیصد اپنی ملکی کرنسی میں اس ادارے کے پاس جمع کراتا ہے۔ اس طرح اس ادارے کے پاس کچھ سونا اور تمام ملکوں کی کرنسیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ ہر ملک کوآئی ایم ایف میں فنڈ جمع کرانے پر ادارہ سے قرض لینے کا حق ملتا ہے، جسے(Drawing Rights)کہتے ہیں۔ پھر(Drawing Rights)پر جو قرضہ ملتا ہے، اس کو کئی حصوں میں تقسیم کرلیا جاتا ہے، ہر حصہ کو(Tranche)کہتے ہیں۔ پہلی ٹرانچ اس قرضہ کا۲۵ فیصد ہوتا ہے جو بلا کسی شرط کے ملتا ہے اور سود بھی کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد والی ٹرانچوں میں شرائط اور پابندیاں بھی زیادہ اور اسی تناسب سے سود بھی بڑھتا جاتا ہے۔‘‘(۱۷)

 

۱۲۔ عالمی بینک (World Bank)

 

عالمی بینک جیسے پہلے(International Bank for Reconstruction and Development)کہا کرتے تھے مگر اب اس کا مختصر نام(World Bank)ہے۔عالمی بینک کامرکزی دفتر امریکہ(واشنگٹن کے ضلع کولمبیا)میں ہے۔ کوئی بھی ملک عالمی بینک کا رکن بن سکتا ہے ۔ عالمی بینک ملک سے غربت کے خاتمے یا معاشی ترقی کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے ۔ شروع میں اس ادارے نے بڑے بڑے منصوبوں کے لئے قرض فراہم کئے مگر اب یہ پالیسی ساز قرضے فراہم کرتا ہے۔یعنی یہ مشورے دینے کے ساتھ شرط لگاتا ہے کہ اگر تم نے اپنے ملک کی پالیسی اس طرز پر بنائی تو اتنا قرض لیں گے اور اگر اس طرز کی بنائی تو اس سے بھی زیادہ قرض فراہم کریں گے۔

 

عالمی بینک اورآئی ایم ایف میں فرق صرف اتنا ہے کہ آئی ایم ایف جو قرض فراہم کرتا ہے وہ قلیل المیعاد ہوتے ہیں ، جن کی مدت تین سے پانچ سال ہوتی ہے جبکہ عالمی بینک جو قرض فراہم کرتا ہے وہ طویل المعیاد ہوتے ہیں جن کی مدت پندرہ سے تیس سال تک ہوتی ہے۔(۱۸)

 

۱۳۔ مرکزی بینک (Central Bank / State Bank / Reserve Bank)

 

مرکزی بینک سے مراد ایک ایسا ادارہ ہے جو کسی بھی ملک کے معاشی و مالیاتی نظام کی منصوبہ بندی کرکے ملک کو مستحکم بناتا ہے۔یہ ادارہ کسی بھی ملک کا انتہائی اہم ادارہ ہوتا ہے جو بااختیار سرکاری نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کام کرتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مرکزی بینک کسی بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ ملک میں موجود تمام بینکوں کا سربراہ و نگراں ہوتا ہے جوتمام بینکوں کے مفادات کے لئے پالیسیاں بناتا ہے ۔ حکومت کے مختلف محکموں کے حسابات رکھنے کے ساتھ ساتھ مالی و معاشی امور میں بھی اہم مشورے دیتا ہے۔ سونا چاندی کے محفوظ ذخیرہ کے بعوض نوٹ جاری کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی بینک کے اصول دوسرے تمام بینکوں کے اصولوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

 

مرکزی بینک کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے ۔دنیا کا ہر ملک اپنا مرکزی بینک رکھتا ہے جو مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے موسوم ہوتا ہے مثلاً: پاکستان کا مرکزی بینک ’’بینک دولتِ پاکستان‘‘کہلاتا ہے جبکہ انگلینڈ کا مرکزی بینک ’’بینک آف انگلینڈ‘‘اورانڈیا کا مرکزی بینک ’’ریزرو بینک آف انڈیا‘‘ کہلاتا ہے۔بہر کیف سرشار احمد خان مرکزی بینک کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

 

’’مرکزی بینک ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر ملک کے مالی استحکام کا محافظ ہوتا ہے۔ عام تجارتی بینک کا اولین مقصد تو منافع کمانا ہے۔مگر مرکزی بینک کا نصب العین منافع کمانا نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لئے دیگر فرائض سر انجام دینا ہے ۔ ڈی کاک (Decock)کی نظر میں مرکزی بینک کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ عوام کی بہتری اور ملک کی بہبود کے لئے کام کرے اور اس کے پیشِ نظر بنیادی طور پر منافع کمانانہ ہو۔‘‘(۱۹)

 

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب مرکزی بینک کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:

 

’’ ملک کے نظام معیشت کو سہولت کے ساتھ چلانے کے لئے نظام بینکاری کی نگرانی اور رہنمائی نیز زر اور کاروبار سے متعلق ریاستی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ایک مرکزی بینک ہوگا۔ یہ بینک ریاست کی نگرانی میں کام کرے گا اس کا مقصد نفع کمانا نہیں بلکہ مفاد عامہ کا تحفظ اور مصالح عامہ کی ترویج ہوگا، غیر سودی نظام معیشت میں بھی مرکزی بینک وہی معروف وظائف ادا کرے گا جو جدید نظام بینکاری میں ادا کرتا ہے۔‘‘(۲۰)

 

اختتامیہ

یہ بات حقیقت ہے کہ بینک کا عمل دخل ہماری زندگیوں میں اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب اس کے بغیر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا آسان نہیں ۔دورِ جدید میں کسی بھی ملک و قوم کی ترقی انہی اداروں پرمنحصر ہوتی ہے۔یہ ادارے دولت کو تقویت دینے کے ساتھ ناصرف قومی خزانہ بڑھاتے ہیں بلکہ لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔

 

اگریہ ادارے نہ ہوتے تو لوگ حسب ضرورت و عادت اپنی دولت کو استعمال تو کرتے لیکن اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھاسکتے تھے۔لہٰذا مندرجہ بالا تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ بینک ہماری زندگی میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جومالی، معاشی اور اقتصادی میدان میں دنیا کو ایک مقام پر اکھٹا کرکے معاشی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

 

حواشی و حوالہ جات

(۱)چودھری غلام رسول چیمہ،اسلام کا معاشی نظام، علم وعرفان پبلشرز، ۲۰۰۷ء، لاہور، صفحہ نمبر: ۲۹۲،۲۹۳

 

(۲)مفتی محمد تقی عثمانی، اسلام اور جدید معیشت و تجارت،مکتبہ معارف القرآن،۲۰۰۷ء،کراچی، صفحہ نمبر :۵۶

 

(۳)ایضاً، صفحہ نمبر :۱۱۵،۱۱۶

 

(۴)ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی ، غیر سودی بنک کاری،اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈ، فروری ۱۹۵۷ء ، لاہور، صفحہ نمبر:۱۸، ۱۹

 

(۵) اسلام اور جدید معیشت و تجارت،محولہ بالا، صفحہ نمبر :۱۱۷

 

(۶)ایضاً، صفحہ نمبر :۱۱۸

 

(۷)ایضاً، صفحہ نمبر :۱۱۷،۱۱۸

 

(۸)ڈاکٹر محمود احمد غازی،محا ضرات معیشت و تجارت، الفیصل ناشران و تاجران کتب،۲۰۱۰ء ، لاہور،صفحہ نمبر: ۳۶۶ تا۳۶۸

 

(۹)اسلام کا معاشی نظام،محولہ بالا، صفحہ نمبر:۲۸۵

 

(۱۰)اسلام اور جدید معیشت و تجارت،محولہ بالا، صفحہ نمبر :۱۱۸، ۱۱۹

 

(۱۱)فیروزالدین الحاج مولوی، جامع فیروز اللغات اردو،فیروز سنز ، س ن،کراچی، صفحہ :’’ اسلامی بینکاری سے رجوع مکرر‘‘

 

(۱۲)دکتور عبد الرزاق رحیم جدی، المصارف الا سلامیۃ بین النظریۃ و التطبیق،دار أسامۃ للنشروالتوزیع،۹۹۸اء ،(اردن)عمان، صفحہ نمبر: ۱۷۴

 

(۱۳)محا ضرات معیشت و تجارت، محولہ بالا،صفحہ نمبر:۳۷۴ تا۳۷۵

 

(۱۴)حافظ ذوالفقار علی، دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم،ابوہریرہ اکیڈمی، س ن، لاہور، صفحہ نمبر: ۱۱۲

 

(۱۵)محا ضرات معیشت و تجارت،محولہ بالا،صفحہ نمبر:۳۷۴ 

 

(۱۶)ایس آر طرزی و خوشی محمد خان،معیشتِ پاکستان، علی بک ڈپو،اکتوبر ۱۹۶۸ء ، کراچی، صفحہ نمبر:۴۷۴،۴۷۶

 

(۱۷) مولانا مشتاق احمد کریمی،بینک کا سود حلال ہے ؟ شبہات- ازالہ،الہلال ایجوکیشنل سوسائٹی،۲۰۰۵ء،بہار(انڈیا)،

 

صفحہ نمبر:۵۸، ۵۹

 

(۱۸) ایضاً، صفحہ نمبر: ۵۹

 

(۱۹) سرشار احمد خان، عبد الرحمان فاتح، زری نظریہ و مالیاتی پالیسی،نیو بک پیلس، ۱۹۸۴ء ،لاہور، صفحہ نمبر: ۲۲۸ 

 

(۲۰) غیر سودی بنک کاری،محولہ بالا، صفحہ نمبر:۱۱۵
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...