Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 2 of Habibia Islamicus

سائنس اور تہذیب و تمدن کے فروغ میں اسلام کا کردار |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029632_862

Pages

45-52

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/23/25

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/23

Subjects

Islam Qur’an and Science Logic and Islam Islamic Sciences Islam Qur’an and Science Logic and Islam Islamic Sciences.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور تمام شعبہ حیات کے حوالے سے مکمل ہدایات کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُسے ہر طرح کی جسمانی، عقلی، منطقی اور استدلالی صلاحیتوں سے بہرہ ور کیا تاکہ انسان کائنا ت میں غور وفکر اور تدبر کرکے کائناتی رازوں کو جان سکے۔ آج انسان سائنس و ٹیکنالوجی اور تہذیب و تمدن کے جس مرحلے پر آکھڑا ہے قدیم انسان کا اس کا تصوربھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس پورے ارتقائی سفر میں دین ِ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو انسان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور اس ارتقائی سفر میں ہر مرحلے پر انسان کا ہادی و رہنما ء رہاہے۔دامن اسلام میں قرآنی تعلیمات ایسی جامع و مانع ہے کہ علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں:

 

”کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل و اساس قرآن عزیز میں موجود نہ ہو۔“(۱)

 

چنانچہ اسلام انسان کو کائنات اور نظام کائنات میں غور وفکر،عبرت وبصیرت اور تفکر و تدبر کے حصول کی دعوت دیتا ہے اور اپنی حقانیت کے اثبات کے لیے کائنات اور نظام کائنات کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔

 

سائنس غوروفکر کانام ہے ہر دور میں انسان فکر و تدبر کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں انسانی سوچ و فکر اور تہذیب و تمدن میں واضح تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا کردار ہمیشہ بنیادی اور کلیدی رہاہے۔ قرآن کریم میں آج سے چودہ سو سال پہلے انتہائی صراحت کے ساتھ واضح کردیا گیا تھا،چنانچہ ارشاد فرمایا:

 

سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ(۲)

 

’’ ہم عنقریب انھیں آفاق میں اور انفس میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے جس سےان پر یہ کھل جائے کہ یہ سراسر حق ہے۔ ‘‘

 

اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ آیت بیان کرنا دراصل اس انقلاب کی طرف اشارہ ہے جسے عہد ِحاضر میں سائنسی انقلاب (Scientific Revolution) کانام دیا جاتاہے۔ جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے کائنات کے جوحقائق معلوم ہوئے ہیں وہ قرآن کی پیش کردہ دعوت کو قطعیات کے ساتھ ثابت کررہے ہیں۔ کینیڈا کے ایک اخبار The Citizen نے 1984ءمیں قرآن کے بارے میں لکھا:

 

Ancient Holy Book 300 years ahead of its time.

 

"قدیم مقدس کتاب اپنے وقت سے تیرہ سوسال آگے ہے۔"

 

اسی طرح ٹائم آف انڈیا نے1984ء میں لکھا:

 

Koran Scores over Modern Sciences.

 

"قرآن جدید سائنس پر بازی لے جاتا ہے ۔"

 

نظام کائنات کے حوالے سے قرآنی تعبیرات اور اُن کا انداز بیان اِس قدر مسلم و محقق ہے کہ آج کی جدید سائنس اُن کی تردید کرنے کے بجائے اُن کی تصدیق و توثیق کرتی ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور ”جینیات‘‘ کے ماہر ہیں، وہ تعجب سے کہتے ہیں :”قرآن مجید میں بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں مغربی دنیا نے پہلی بار1940ءمیں دریافت کیا، وہ کہتا ہے:

 

The 300 years Old Koran Contains Passages so accurate about embryonic development that Muslims can reasonably believe then to be revelation from God.(3)

 

چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ کائنات کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق سابقہ ادوار کے لوگ ناقص علم و واقفیت رکھتے تھے یا مکمل نابلد تھے۔مگر قرآن ِ کریم نے بہت عرصے پہلے ان کے بارے میں انکشافات کردیئے تھے۔ قرآن مجید کے تمام بیانات اور دورِ حاضر کے تمام تسلیم شدہ تصورات کے درمیان ایک واضح مطابقت موجودہے۔ علامہ اقبال ؒ لکھتےہیں:

 

But the point to note is the General empirical attitude of the Quran which engendered in its followers a feeling of reverence for the actual, and ultimately made them the founder of Modern Science.(4)

 

یعنی قرآن مجید کی وجہ سے مسلمانوں میں اس کائنات کی سمجھ بوجھ پیدا ہوئی اور آگے چل کر وہ جدید سائنس کے بانی بن گئے۔ چنانچہ سائنسی سفر میں اسلامی تعلیمات کا حصہ بنیادی اور قابل ذکر ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ قرآن مجید فکری دور کا داعی اور سب سے بڑا علمبردار ہے اس نے اپنے متبعین کو نئے نظریات سے آگاہ کرکے فکری دنیامیں عظیم سائنسی اور فکری انقلاب برپا کیا اور جدید علوم اور جدید صنعتوں کی طرف توجہ دلاکر ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک توجہ طلب حقیقت ہے کہ اسلام سے قبل علمی سائنس (Practical Science)کا کوئی باقاعدہ وجود نہ تھا بلکہ سائنس صرف یونانی فلسفے سے ماخوذ چند نظری چیزوں کا نام تھا، تجربے اور مشاہدے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی تھی اسی اثناء میں قرآن نزول ہوا اور دامن اسلام میں اہل ایمان کو تجربے اور مشاہدے پر اُبھارا گیا کائناتی رازوں کو جاننے کے لئے غوروفکر کی دعوت دی گئی۔ اس حوالے سے قرآن مجید درج ذیل مطالبات کرتا ہوا نظر آتا ہے:

 

۱۔ وہ نوعِ انسانی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ زمین اور اجرام سماوی کی ہر چیز کا غور سے مشاہدہ کریں۔(سورۃیونس:۱۰)

 

۲۔ وہ آسمانی برجوں کامشاہدہ کرنے کی تاکید کرتا ہے۔(سورۃحجر:۶۱)

 

۳۔ وہ درختوں اور پودوں میں پھلوں کے لگنے اور اُن کے پکنے کے مناظر پر غور کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ (سورۃ انعام:۹۹)

 

۴۔ وہ اُونٹوں کی عجیب و غریب خلقت، آسمان کی اونچائی، پہاڑوں کی مضبوطی اور زمین کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔(سورۃ غاشیہ:۱۷۔۲۰)

 

یہاں تک کہ اسلام اپنے بنیادی و اثاثی معتقدات یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات کے لئے بھی نظام کائنات میں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کو یہ امتیاز اور انفرادیت حاصل ہے کہ وہ صرف غوروفکر کی دعوت نہیں دیتا بلکہ تسخیر کائنات اور سائنس و یہذیب و تمدن کے فروغ کے حوالے سے بھی دعوتِ فکر دیتا ہے۔ نئی تہذیب، نئے تمدن اور نئے اخلاق کی بنیاد اسلام نے ڈالی یہاں تک کہ ایک معروف، متعصب ، مستشرق مارگولیوتھ لکھتا ہے:’’باوجود یہ کہ اس قسم کی تاریخ ساز تحریروں میں اس (قرآن) کی عمر سب سے کم ہے مگر انسان پر حیرت انگیز اثر ڈالنے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اس نے ایک نئی انسانی فکر پیدا کی ہے اور ایک نئے اخلاق کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘(۵)

 

کائنات میں غورو فکر کی قرآنی تعلیمات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں میں تحقیق و تجربہ کی بنیاد پر عملی سائنس کا آغاز ہوا۔ سائنسی ارتقاء کا سفر تیزی سے آگے بڑھا۔ تہذیب و تمدن میں ایک جدید انقلاب برپا ہوا دیکھتے ہی دیکھتے تہذیب و تمدن سے دور عرب قبائل جدید سائنس اور جدید تہذیب کے امام بن گئے۔ تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں ریاضی، الجبرا، فلکیات، طب، فزکس، کیمسٹری، حیاتیات، علم نباتات، ارضیات اور جغرافیہ وغیرہ میں بے انتہاء کام کیا۔لاکھوں کی تعداد میں مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں، کتب خانے اور علمی کلیات و جامعات قائم کیں۔ بغداد، دمشق، سسلی اور قرطبہ(مسلم اسپین) وغیرہ علوم و فنون کے مرکز بن گئے تھے۔ دنیا بھر سے تشنگان علم ان مراکز سے علمی سیرابی حاصل کررہے تھے۔یورپ سمیت ہر طرف اندھیرا تھا صرف مسلم معاشرے علمی و فنی میدان میں انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اہل یورپ کو آٹھ سو سالہ (۱۴۹۵ء۔۴۸۶ء)دور وحشت(Dark ages)سے نکالنے ،جدید سائنس کی بنیاد ڈالنے اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا سبب مسلمانوں کی تحقیق و تدوین ہے تو یہ بات بالکل درست ہے، یہاں تک کہ غیر متعصب محقیقن نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ پروفیسر حتی(Hitti.PK)نے لکھا ہے:

 

Moslem of Spain wrote one of the brightest chapters in the intellectual history of medieval Europe between the middle of the eighth and beginning of the Thirteenth Centuries as we have noted before, the Arabic speaking people were the main bearers of the torch of culture and civilization throughout the world.(6)

 

اس تحریر میں واضح اعتراف موجود ہے کہ یورپ کی تہذیب اور جدید سائنس کی بنا میں مسلم اسپین کا کردار بنیادی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خلافت اگر چہ جاگیر داریت و ملوکیت میں تبدیل ہوگئی مگر اس دوران جو کام ہوا وہ حکمرانوں کی ذاتی شخصیت سے بالا تر تھا۔یورپ عربی تمدن کا احسان مند ہے کہ انہوں نے عرب سے فلسفہ اور علمی فکر میں استفادہ کیا۔

 

اس وقت تہذیبِ جدید کا سربراہ یورپ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپی تہذیب کے تمام مثبت پہلو آج بھی اسلامی تمدن کے احسان مند ہیں۔ اسلامی تہذیبی اثرات کے رنگ آج بھی یورپی تہذیب میں بنیادی ہونے کے ساتھ ساتھ نمایاں بھی ہیں۔Robert Briffaultاپنی کتاب"The Making of Humanity"میں لکھتاہے:

 

It was not science, which brought Europe back to life. Other and manifold influences from the civilization of Islam Communicated its first glow to European Life."(7)

 

انسائیکلوپیڈیاآف برٹانیکاکامقالہ نگارلکھتاہے:

 

Most of the Classical literature that spurred the European Renaissance was obtained from translations of Arabic manuscripts in Muslim Libraries.

 

اسلام کے سائے میں سائنسی ترقی کا یہ منظر نامہ کیسے وجود میں آیا؟ اس کے پیچھے اسلام کی تحصیل علم کے حوالے سے تاکید نے اہم کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں اسلام ایک مکمل نظام حیات کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ابتداء سے ہی اسلام نے اہل عرب کو حصول علم سے وابستہ کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم طلباءو علماء نے اپنی زندگیاں حصول علم کے لئے وقف کردیں اس غرض سے انہوں نے ایشیاء ، افریقہ اور یورپ کے سفر کیے اور اشاعت دین کے ساتھ ساتھ اشاعت علم میں بھرپور خدمات سر انجام دیں۔ مسلمانوں کی پوری علمی تحریک میں قرآن مجید کا کردار بنیادی ہے کیونکہ وہ تمام علم و تحقیق کا مرکز و محور ہے۔چنانچہ قرآن مجید بہت سے سائنسی اُصولوں اور ان کے موضوعات کا بالکل واضح اور درست انداز میں تذکرہ کرتا ہے۔ قرآن مجید کا مرکزی موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید اردگرد پھیلی ہوئی نشانیوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ پھر ان پر تدبر و تشکر، اُن کی تحلیل و تجزیہ اور تلاش و جستجو کی وصیت کرتا ہے۔ یہی وہ اسلامی نقطۂ نظر تھا جس نے وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو جدیدسائنس کا بانی بنادیا۔

 

اسی طرح قرآن تحقیق و جستجو کے سفر میں زندگی کی ساخت و نوعیت، آسمان، سورج، چاند، تارے، دن و رات، ہوا، طوفان، بجلی ، بادل ، سمندر،دریا،چشمے، سیلاب،زمین، پہاڑ، چٹانیں، دھاتیں،درخت، پھل ،پھول،پودے، پالتو جانور، جنگلی جانور، حشرات، بحری حیات کا تذکرہ کرتا ہے۔ اور اُن میں غوروفکر کی تعلیم دیتا ہے اور بار بار تاکید کرتا ہے کہ وہ تدبر کیوں نہیں کرتے، وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔

 

قرآن اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ مظاہر فطرت سے انسان کا ایک رشتہ ہے اور ان مظاہر میں غورو فکر کرنے کا نام سائنس ہے۔ اسلام دراصل یہ چاہتا ہے کہ انسان کائناتی غور و فکر کے نتیجے میں خدا کا شعور حاصل کرے اور عقل و شعور اول تا آخر ہر مرحلے پر قرآنی اقدار اور اخلاقی ضابطوں کے ماتحت رہے۔ وہ کسی لمحے بھی انسانی اقدار کی حدود و قیود سے باہر نہ نکلے ورنہ سائنسی ارتقاء کا سفر اعلیٰ انسانی اقدار کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ جیساکہ آج یورپ و امریکہ میں اخلاقی قدروں کی پامالی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ وہ لوگ جو یہ بات سمجھتے ہیں کہ انسانی مسائل اور اعلیٰ اقدار پر توجہ دیئے بغیر سائنس کو اپنا راستہ متعین کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تو وہ دراصل ذہنی طور پر ہدایتِ اسلامی سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ اسلام تو فکر و تجربے سے مقاصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔

 

اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرۂ ارض کی نشوونما کا نظریہ جدید سائنس کے حاملین اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں جبکہ یہ حقیقت قرآن کے ذریعے چودہ سو سال پہلے آشکار ہوچکی تھی۔

 

أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْء ٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ۔(۸)

 

مگر جدید سائنس کےحاملین کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ قرآن اور مذہب کے ساتھ رشتہ نہیں جوڑ سکتے بلکہ یہ کہنا شروع کردیا کہ مذہب کی باتوں میں اب کوئی معنویت نہیں۔ مذہب سے رشتہ توڑنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج پوری انسانیت انتشار کا شکار ہے اور ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔جب انسان حقیقت کی نگاہ سے غور و فکر کرتا ہے تو اُس پر واضح ہوتا ہے کہ قرآنی اُصول سچے اور انسانی مسرت کا حقیقی ذریعہ ہیں۔ شہنشاہ نپولین اعترافِ حقیقت کرتے ہوتے لکھتا ہے:

 

’’مجھے اُمید ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب میں تمام ممالک کے سارے عقلمند اور تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کے اُصولوں پر متحد کردونگا، اس لئے کہ صرف یہی اُصول سچے ہیں اور صرف ان ہی سے انسان کو حقیقی مسرت حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘(۹)

 

تسخیر کائنات کا تصور صرف اسلام نے دیا ہے اس تسخیری فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مظاہرِ کائنات انسانی تحقیق کا حصہ بن گئے ہیں۔ مسلمانوں نے دنیا کو بتایا کہ کائنات وسعت حاصل کر رہی ہے جبکہ پہلے یہ تصور تھا کہ کائنات یکساں حالت پر قائم ہے۔جیسا کہ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

 

وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُون۔(۱۰) ’’اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے وسعت دے رہے ہیں۔‘‘

 

قرآن نے واضح کیا کہ ہر چیز میں زوجین (جوڑا، جوڑا) ہے۔ جیساکہ ارشاد فرمایا گیا:

 

وَمِن کُلِّ شَیْء خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون۔(۱۱)

 

حیاتیاتی ارتقاء کا تصور اسلام نے پیش کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا:

 

أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْء حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ۔(۱۲)

 

قرآن نے اہل نظر پر واضح کیا کہ اجرام سماوی کسی غیر مرئی یعنی کششِ ثقل کی وجہ سے خلاء میں قائم ہے۔ارشاد فرمایا گیا:

 

اللّہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لأَجَلٍ مُّسَمًّی یُدَبِّرُ الأَمْرَ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لَعَلَّکُم بِلِقَاء رَبِّکُمْ تُوقِنُونَ۔(۱۳)

 

قرآن نے یہ بات واضح کی کہ کائنات ایک نقطہ سے پھیلی ہے پہلے یہ سمٹی ہوئی تھی پھر پھیلنا شروع ہوئی اور ایک بار پھر سمیٹ دی جائے گی۔

 

قرآن مجید نے بتایا کہ زمین پر ایک وقت ایسا گزرا ہے کہ جب اللہ نے اسے پھاڑ کر فرش کی طرح پھیلادیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

 

وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ۔(۱۴)

 

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یورک ایسڈ انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے یہ خون اور سور میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دونوں حرام ہیں۔

 

جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تحقیق و جستجو کا سفر اہل عرب نے اسلام کے سائے میں شروع کیا تو نہ صرف نظری و عملی سا ئنس کا آغاز ہوا بلکہ نئی ایجادات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ نویں صدی عیسویں میں پہلی سائنسی پرواز کا تجربہ ابن فرناس نے کیا۔ نظام سیارگان کا پہلا نمونہ ابوالقاسم نے تیار کیا۔ شیشہ سازی کی صنعت نویں صدی عباس بن فرناس نے دریافت کی۔ دوربین ابو الحسن نے ایجاد کی۔ علوم کے اشاریئے پر پہلی مایہ ناز کتاب ابن ندیم نے ۶۹۹ء میں لکھی جو تمام علوم کو شامل ہے۔ امریکہ کی دریافت کولمبس سے پانچ سو سال پہلے اہل عرب کر چکے تھے۔ زمین کروی ہے کا نظریہ سب سے پہلے اہل عرب نے پیش کیا۔

 

نظریہ اضافت الباقلانی نے پیش کیا۔ سرآر ایف برٹن نے انکشاف کیا ہے کہ سب سے پہلے کتب نما امیر ابحر احمدبن ماجد نے ایجاد کیا۔واسکواڈ گاما کی ہندوستان تک رہنمائی فی الحقیقت عربوں نے کی ۔ ماہر کیمیا جابر بن حیان نے بال کمانی(ترازو) بنائی اور ولم کیمیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ الجبرا موسیٰ الخوارزمی نے ایجاد کیا۔ دوران خون کی دریافت سب سے پہلے ابنِ نفیس نے کی۔ جوہر اور خلاء کا تصور سب سے پہلے ابوبکر الباقلانی نے پیش کیا۔ نویں صدی میں ابو القاسم الزہراوی نے آلاتِ جراحی ایجاد کئے اُن کی تصانیف19 ویں صدی تک یورپ میں پڑھائی جاتی رہی۔

 

۷۵۱ء میں سمر قند میں کاغذ کی صنعت کا آغاز ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد سب سے پہلے ابو صالح بن داؤد نے ڈالی۔ سب سے پہلے البیرونی نے اوج مدار شمس(Apogee)کاپتہ لگایا اور حساب لگایا کہ سورج کس طرح گردش کرتا ہے۔ صحیح ترین تقویم عمر خیام نے پیش کی۔ سب سے پہلے البیرونی نے اسکول کا نظام تعلیم رائج کیا اور متعلقہ قوانین و ضوابط مرتب کئے۔سب سے پہلے مسلمانوں نے عدسوں کی خصوصیات کو واضح کیا جس کی وجہ سے بعد میں مشاہداتی آلات وجود میں آئے۔ کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ اس وقت Imposing Theoryہےاس کا تصور سب سے پہلے قرآن کی روشنی میں مسلمانوں نے دیا۔

 

جس طرح اسلام میں نظری ومادی اور عملی سائنس کو بام عروج پر پہنچایا اسی طرح معاشرتی و اخلاقی تمدن کی بھی تہذیب کی اور اس سلسلے میں بھی ایک انقلاب برپا کیا ، مشرق و مغرب کی فضاء اس کی گواہ ہے۔ نسلی امتیاز مغربی ممالک کا بھیانک چہرہ تھا۔ یورپ نے نسلی امتیاز کا خاتمہ قرآنی تعلیمات کا ایک اہم کارنامہ ہے۔’’جس نصب العین کے حصول کے لئے فرانسیسی اور لاطینی امریکی ممالک نے حقوق کا معاہدہ سامنے آیا وہ مغرب کی ایجاد نہیں بلکہ اس کا سر چشمہ قرآن کریم تھا۔‘‘(۱۵)

 

اسی طرح یورپ میں تہذیبی زندگی کو بام عروج تک پہنچانے میں قرآنی تعلیمات کا اثر ہے۔ پروفیسر ایچ اے آر گب لکھتا ہے: ’’مغربی دنیا میں قرآنی مسلک، مختلف انتہاؤں کے درمیان اس وقت بھی توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔ قرآنی تمدن یورپی قوم پرسی کی انتشاری کیفیت اور روسی اشتمالیت کی گروہ بندی کے معاشیاتی پہلو میں مدغم ہو کر نہیں رہ گیا۔‘‘

 

قرآنی تعلیمات میں ایک خاص تعلیم امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے انسانی معاشروں کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر گب عالمی تہذیب کے لئے ضرورت اسلام کے حوالے سے لکھتا ہے:’’افریقہ، ہندوستان اور انڈونیشا کے عظیم اور جاپان کے محدود مسلم معاشرے سے یہ بات عیاں ہے کہ کسی طرح اسلام مختلف نسلوں اور روایت اور نہ مٹنے والے اختلافات کو تحلیل کردیتا ہے۔‘‘(۱۶)

 

اسلامی طرز زندگی نے معاشرے کو وحدت و قوت عطا کی، متحد رکھنے والی اس قوت نے مذہبی قانون کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اسلام نے خدا کے بارے میں مابعد الطبعیاتی تصورات کو گنا ہ قرار دیا۔اُس کے ساتھ ہی اُس کے بارے میں قیاسات و نظریات کو مستر کردیا۔ان بحثوں کے دروازے بند کرکے اسلام میں مشرقی اقوام کو بہت بڑا پیغام دیا ہے۔ بعد میں اس پیغام نے بڑی بری مذہبی تحریکوں کو جنم دیا۔ دوسری طرف مغرب میں عقیدہ تثلیث میں اختلاج پیدا ہوا اور توحیدی الہٰی کی فکر پیدا ہوئی۔ اسلام نے شادی کو انسان کا فطری تقاضہ قرار دیا اور زہدو پارسائی کی خاطر تجرد کو رد کردیا۔اسلام نے عقیدۂ آخرت کی صورت میں خود احتسابی کی ایسی تعلیم دی جس نے انسان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی پر یکساں مثبت اثر ڈالا ورنہ ریاستی قانون سازی بھی انسان کی جذباتی بغاوت کا راستہ نہیں روک سکتی۔

 

اہل علم و دانش قرآنی ہدایات کی تحقیق کے بعد اس بات کے معترف ہیں کہ قرآن کریم کو انسانیت کی ابھی اور خدمت انجام دینی ہے کیونکہ اس کے علاوہ انسانی معاشروں میں ایسی کوئی فکر و نظر موجود نہیں جو انسانوں کو مساوات نسلی امتیاز سے بالا تر خود احتسابی اور پاکیزہ سوچ و عمل کی بنیاد پر راہ عمل دے سکے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے اس فکر و نظر کی وجہ سے اہل اسلام نے صرف ایک صدی میں اتنی ترقی کی کہ جس کے حصولل کے لئے قوموں کو ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔

 

حوالہ جات

۱۔الاتقان فی علوم القرآن۔علامہ سیوطی،ج۱،ص۱۳۹

 

۲۔القرآن فصلت :۵۳

 

۳۔عظمت ِقرآن ۔ وحیدالدین خان۔ ص۳۴

 

۴۔The Reconstruction of religious thought in Islam, P-18

 

۵۔DS Margolioth,An Introduction to the Koran, By J.M Rod well London, 1918

 

۶۔History of the Arabs, London, 1970 Professor Hitti. PK

 

۷۔The making of Humanity, Robert Briffault, Page 202

 

۸۔القرآن،سورۃ انبیاء:۲۵

 

۹۔شیرفل،پارس،یونیورسٹی

 

۱۰۔القرآن،سورۃالذاریات:۴۷

 

۱۱۔القرآن،سورۃالذاریات:۴۹

 

۱۲۔القرآن،سورۃالانبیاء:۳۰

 

۱۳۔القرآن،سورۃالرعد:۲

 

۱۴۔القرآن،سورۃالذاریات:۴۸

 

۱۵۔حقیقی اورصحیح اسلام برنارڈشاہ،برٹش ریسرچ،۱۹۳۶

 

۱۶۔H.A.R. Gibb, Wither Islam, London, 1932, P-379

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...