Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 2 of Habibia Islamicus

علم قراءات اور دیگر دینی علوم کا باہمی تعلق |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029632_972

Pages

29-44

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/22/24

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/22

Subjects

Quran in seven letters interpretation translation of Quranic words Quran in seven letters interpretation translation of Quranic words.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

وَإنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا شُھَدَاء کُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا ولن تفعلوا۔

"And if you suspect that this book which we ascend to our servant, it is not ours, so make one Surah like it, call our new ones, except for Allah Take the help you want, if you are truthful then do this work, but you did not do this and could never believe. " In relation to knowledge, other scholars and scholars (interpretation, jurisprudence, problems, beliefs, knowledge, knowledge and virtue of Muslim tradition) will be cleared.

یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات حروف میں نازل فرمایا ہےاور اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جن میں سے قرآن کریم کو پڑھنے والوں کے لئے آسانی بہم پہنچانا اور قرآنی الفاظ کے ترجمہ وتفسیر، معنی و مفہوم اور اَحکام و مسائل کے اَخذو استنباط میں اُمت مرحومہ کے لئے وسعت اور آسانی کی راہیں ہموار کرنا خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہی وجہ ہےکہبہت سارے ایسے علوم ہیں جو متنوع قراء ت کی بنیاد پر تن آور درخت کی سی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ یہی قراء ت قرآنیہ تفسیر قرآن میں مجمل معنی کی وضاحت کررہی ہوتی ہیں،انہیں قراء ت کی بنیاد پر استنباطِ احکام میں ایک فقیہ کو راجح مسلک کا علم ہوتا ہے۔یہی قراء ات عقیدۂ سلف کی توضیح اور نکھارمیں ممدومعاون ثابت ہورہی ہوتی ہیں، انہیں کی بنیاد پرقرآن کریم کو وہ امتیاز اور اعجاز ملتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں کفار کو چیلنج کی صورت میں کیاگیاَ۔جیساکہ ارشاد فرمایا :

 

وَإنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا شُھَدَاء کُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا ولن تفعلوا(1)

 

’’اور اگر تمھیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے،یہ ہماری نہیں،تو اس کی مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو ،اگر تم سچے ہو تویہ کام کر کے دکھائو،لیکن تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کر سکتے۔‘‘

 

زیرنظرمقالےمیں علم قراء ات اوردیگرعلوم شرعیہ(تفسیر،فقہ،مسائل عقیدہ،علم نحو،علم بلاغت اورعلم رسم عثمانی) کا باہمی تعلق واضح کیاجائے گا۔

 

علم قرا ء ات اورتفسیر قرآن

قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلہ میں قراء ات کو ایک اہم ماخذکی حیثیت حاصل ہے،خاص طورپرمتواتر قراء ات کونظرانداز کرنا قرآن کے ایک حصہ کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔نیز دومتواترقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں،ان میں سے کسی ایک قراء ت کاانکارقرآن کی آیت کاانکارہے۔

 

دوقراء تیں مثل دوآیتیں

 

جب کسی کلمہ قرآنی میں دومتواترقراء تیں ہوں تومفسرین وفقہاء کے نزدیک وہ دوآیات کی طرح ہیں۔ان کی تفسیر اسی طرح کی جائے گی جس طرح ایک مسئلہ میں واردہ دو آیات کی تفسیرکی جاتی ہے۔چنانچہ أحکام القرآن للجصاص میں ہے:

 

وھاتان القراء تان قد نزل بھما القرآن جمیعا ونقلتھا الأمّۃ تلقّیا من رسو ل ﷲ ﷺ(2)

 

’’ اور یہ دونوں قرا ء تیں ایسی ہیں کہ قرا ٓ ن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہﷺسےحاصل کیا ہے۔‘‘

 

اس اصول کے بارے میں امام جصاص(م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

 

وأیضا فإ ن القرا ء تین کالآیتین،فی إحداھما الغَسل وفی الأخریٰ المسحُ لاحتمالھما للمعنیین فلو وردت آ یتا ن إحداھما توجب الغَسل والأخری المسحَ لمَاجازَ ترکُ الغَسل إلی المَسح(3)

 

’’ اور دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں، ان میں سے ایک میں دھونے کا معنی ہے دوسر ی میں مسح کا معنی ہے، کیو نکہ یہ دونوں معانی کا احتمال رکھتی ہیں ۔ چنانچہ اگر بالفرض دو آیتیں نا زل ہو جا تیں، ایک کا مو جب دھوناہو تا اور دوسری کا مسح ہو تا ،تو بھی دھونے کو مسح کے مقا بلہ میں تر ک کرنا جا ئز نہ ہو تاہے ۔ ‘‘

 

اقسام ِ قراء ات باعتبار تفسیری اثرات

 

تفسیری اعتبار سے قراءات کی دو قسمیں ہیں:

 

۱۔ وہ قراءتیں جن سے تفسیر پرکوئی واضح اثر نہیں ہوتا ،قرآن میں زیادہ قراءتیں اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔

 

۲۔ دوسری قسم وہ جن کا تفسیر پر کچھ نہ کچھ اثر واقع ہوتا ہے۔یعنی ان میں بعض قراءتیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان میں تفسیری معنی مزید وضاحت اور توسیع پیدا ہوتی ہےیاکوئی اشکال یا ابہام دور ہوجاتاہے لیکن بہرحال ان کا محمل اور مصداق ایک ہی ہوتاہے ،جبکہ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ایک قراء ت کا مفہوم ومصداق دوسری قراءت سے بالکل مختلف ہوتاہے ،لہٰذا دونوں قراءتوں سے دو مختلف احکام ثابت ہوتے ہیں یا ایک ہی حکم کی دو ممکنہ صورتیں آجاتی ہیں۔

 

قریب المعنی قراءتیں اور ان کی تفسیر

 

وہ قراءات جن کا معنی ایک حدتک تو مختلف ہے،لیکن ان دونوں قراء توں کامصداق اورمحل ایک ہی ہے،قرآن مجید میں اس طرح کی قراء تیں کثیر تعدادمیں پائی جاتی ہیں۔

 

نمبر(۱) فَیُضَعِّفہٗ/فیُضَاعِفہٗ

 

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قرضًا حسناً فیضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کثَیِرْۃً(4)

 

اختلاف قراء ات

اس آیت میں کلمہ"فیضٰعفہٗ"میں چار قراء تیں ہیں:

 

۱۔ فَیُضَعِّفُہٗ۔امام ابن کثیرؒ،ابوجعفرؒ، ۲۔ فَیُضَعِّفَہٗ۔امام ابن عامرؒ،امام یعقوبؒ، ۳۔ فیُضَاعِفَہٗ۔امام عاصمؒ، ۴۔ فیُضَاعِفُہٗ۔امام نافعؒ،ابوعمروبصریؒ،حمزہ،کسائی، ۵۔ یہ کلمہ سورہ حدید میں بھی واقع ہوا ہے۔

 

توجیہ قراء ات

 

اما م قیسی(م۴۳۷ھ) تشدید والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں :

 

وحجۃ من شدّد وحذفَ الألفَ أنّہ حملَہ علی الکثیر لانّ فعّلتُ (مشدد العین) بابہ تکثیر الفعل

 

’’جن قراء نے تفعیل سے پڑھاہے تو ان کے نزدیک یہ فعل کثرت پر دال ہے؛اس لئے کہ تفعیل کی خاصیت تکثیرفعل ہے۔‘‘

 

اور تخفیف والی قراء ت یعنی مفاعلہ والی قرا ت کے بارے میں لکھتے ہیں :

 

أنّ ضاعفتُ أکثر من ضعّـفتُ؛ لأن ضعّـفتُ معناہ مرّتان، وحُکِی أن العرب تقول: ضعّفتُ درھمک أی جعلتہ درھمین، وتقول ضاعفتہٗ أی جعلتہ أکثر من درھمین(6)

 

’’صیغہ مفاعلہ ،صیغہ تفعیل سے بڑھ کرہے۔اس لئے کہ تفعیل والے صیغہ کامعنی ہوتاہے :دومرتبہ،جیسا کہ عرب کہتے ہیں:ضعّفتُ درھمَکَمیں نے تیرے درہم کودُوگناکردیا۔اورجب ضاعفتہٗ کہتے ہیں،تومعنی ہوتاہے کہ میں نے تیرے درہم کو دوگناسے بھی زیادہ کردیا۔‘‘

 

معنی قراء ات

 

امام ابن الجوزی(م۵۹۷ھ) زاد المسیرمیں لکھتے ہیں:

 

معنی ضاعف وضعّف واحد،والمضاعفۃ الزیادۃعلی الشیء حتی یصیر مثلین أو أ کثر(7)

 

’’ضاعف اورضعّف کامعنی ایک ہی ہے،اورمضاعفہ کسی چیزپر زیادتی اوراتنے اضافہ کانام ہے،جس سے وہ دوگنی یازیادہ ہوجائےتفسیر مظہری میں ہے:’’اور تشدید اس میں تکثیر کے لیے ہے ۔اور مفاعلہ مبالغہ کے لیے ہے ۔‘‘(8)

 

خلاصہ یہ کہ ان دونوں قرا ء توں کوسامنے رکھ کر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ و ہ شخص جو اللہ کے لیے اس قرض والے کام کو اخلاص نیت کے ساتھ کرتا ہے اس کا اجر اور بدلہ کسی اعتبار سے بھی کم نہیں ہوگا۔ اس میں کثرت بھی دواعتبارسے ہوگی اور اس میں برکت بھی ہوگی گویا یہ دونوں قراء تیں معنی کے اندر مزید وسعت پیدا کر رہی ہیں ۔

 

نمبر(۲) وَلاتُسْـَٔـلُ/وَلاتَسْـَٔـلْ

 

اِنّا اَرسلنٰـکَ بالحقّ بَشیرًا وَّنَذیرا وَلا تُســَٔلُ عَن اَصحٰب الجَحیمِ(9)

 

مختلف قراء ات

 

اس آیت میں کلمہ"ولا تسـٔل"میں دو قراء تیں ہیں:

 

۱۔ وَلا تَسْـَٔـلْ۔امام ناف ،اوریعقوبؒ، ۲۔ وَلا تُسْئَلُ ۔باقی سب قراء ۔(10)

 

توجیہ قراء ات

 

امام ابن خالویہ(م ۳۷۰ھ)الحجۃ میں لکھتے ہیں:

 

فالحجۃ لمن رفع أنہ أخبر بذلک وجعل لا نافیۃ بمعنی لیس،ودلیلہ قراءۃعبد اللّٰہ وأبی ولن تسأل۔والحجۃ لمن جَزمَ أنّہ جعلَہ نہیاً(11)

 

’’جنہوں نے مرفوع سے پڑھاہے،ان کی قراء ت کی توجیہ یہ ہے کہ یہ اس بات کی خبرہے،اورلانافیہ لیس کے معنی میں ہے۔اور اس کی دلیل عبداللہ بن مسعودؓ اورابی بن کعبؓ کی قراء ت"وَلَن تُسألَ"ہے۔‘‘(12)

 

البتہ جنہوں نے جزم سے پڑھاہے ان کے نزدیک یہ نہی کاصیغہ ہے۔

 

معنی قراء ات

 

تفسیر مظہری میں ہے :جمہور کی قراء ت کے موافق ولا تُسْـٔلُ عن أصحٰب الجحیم کے یہ معنی ہوں گے:

 

’’اے محمدﷺ آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے ۔آپ کے ذمہ توصرف پہنچادینا ہے اور نافعؒ کی قراء ت پر سو ال سے منع کرنا شدت عذاب سے کنایہ ہوگا۔ جیسے کہا کرتے ہیں: اس کا حال مت پوچھ یعنی وہ بہت تکلیف میں ہے۔‘‘(13)

 

مولانا اشرف علی تھانوی ؒصیغہ نہی والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

قرأ نافع ولا تسـٔل علی صیغۃ النہی إیذانا بکمال شدۃ عقوبۃ الکفار وتھویلاً لھا(14)

 

’’نافع نے صیغہ نہی سے پڑھاہے ،تاکہ کفار کے عذاب کی شدت کی طرف اشارہ ہوجائے۔‘‘

 

اسی طرح امام قرطبیؒ(م۶۷۱ھ) نفی والی قراء ت کا معنی بیان کرتے ہیں :

 

والمعنٰی اِنّا أرسلنٰـک بالحقّ بشیرًا وّنذیرًا غیرَ مَسـٔـولٍ عنھُم(15)

 

’’اورمعنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا،ڈرانے والابناکربھیجاہے،اس حال میں کہ ان کے بارے میں

 

آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا۔‘‘

 

اور نہی والی قراء ت کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

وفیہ وجھان: أحدھما أنّہ نہیٌ عن السؤال عمن عصیٰ وکفر من الأحیاء ؛ لأ نّہ قد یتغیر حالہ فینتقل عن الکفر إلی الإیمان وعن المعصیۃ إلی الطاعۃ، والثانی وھو الأظھر أنّہ نہیٌ عن السؤال عمّن ماتَ علٰی کفرہ ومعصیتہ۔

 

’’اس میں دوصورتیں ہیں:ایک یہ کہ یہ حکم زندوں میں سے گناہ گاراورکفارکے بارے میں سوال سے روکنے کے لئے ہو،کیونکہ ان کاحال کفرسے ایمان کی طرف،اورگناہ سے اطاعت کی طرف تبدیل بھی ہوسکتاہے۔اوردوسراجوکہ زیادہ ظاہر ہے،کہ یہ حکم کفراور معصیت پرمرنے والے لوگوں کے بارے میں سوال سے روکنے کے لئے ہو۔‘‘

 

خلاصہ یہ ہوا کہ نفی والی قراء ت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اصحاب جہنم کے بارے میں نبی کریمﷺسے کوئی سوال نہیں ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لائے ۔ اس لئے نبی کریمﷺکی ذمہ داری صرف پہنچا دیناتھی اور نہی والی قرا ء ت سے یہ معنی سمجھ میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو ان لوگوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرمادیا ہے ،جن کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہو چکاہے اور اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے :

 

اِسْتَغْفِرْلَھُمْ أوْلَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَھُمْ،ذَلِکَ بِأنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ،وَاللّٰہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(16)

 

’’اے نبی ﷺآپ ان کے لئے استغفار کریں یانہ کریں،اگرآپ ان کے لئے سترمرتبہ بھی استغفارکریں گے ،توبھی اللہ ان کومعاف نہیں فرمائے گا؛اس لئے کہ انہوں نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی ہے،اوراللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں عطاء فرماتا۔‘‘

 

گویا اُس آیت میں دوقراء توں کی وجہ سے دو پہلوؤں سے سوال کرنے سے روکناثابت ہوگیا۔یعنی نہ تو نبی کریمﷺسےجہنم والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،اورنہ ہی آپ ﷺان کے بارے میں کوئی سوال کریں گے اس لئے کہ ان کی مغفرت کا کوئی اِمکان نہیں ہے اور اگر یہ سوال زندہ لوگوں کے بارے میں ہو توان کاحال تبدیل بھی ہوسکتاہے۔

 

مختلف المعنی قراءت اور ان کی تفسیر

(ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھَل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ)

 

اِذقَالَ الحَوَارِیُّونَ یٰعیسَی ابنَ مَریمَ ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ أن یُّنزّلَ عَلینَامائدۃً مّنَ السّماءقالَ اتّـقُوا اللّٰہَ اِن کُنتُم مُّؤمنینَ(17)

 

’’جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰؑ بن مریم ؑکیا آپ کا رب مان لے گا کہ وہ ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان نازل کردے،توحضرت عیسیٰؑ نے کہااللہ سے ڈرواگرتم ایمان رکھتے ہو۔‘‘

 

اختلاف قراء ات

 

اس آیت میں دوقراء تیں ہیں:

 

۱۔ (ھل تَسْتَطِیعُ ربَّـک)امام کسائی کی قراء ت ہے، ۲۔ )ھل یَستَطِیعُ ربُّک)باقی سب قراء۔(18)

 

توجیہ ومعنی قراء ات

 

بعض علماء نے کہا ہے کہ اس جگہ استطاعت سے مراد حکمت وارادہ کا تقاضا ہو سکتا ہے ۔قدرت رکھنے کا مفہوم وارد نہیں ہے۔ اللہ کی قدرتمیں تو حواریوں کو شک نہیں تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی حکمت وارادہ بھی ایساہو سکتا ہے یا نہیں ،کہ آسمانوں سے خوان نازل فرمادے ۔بعض علماء نے کہا کہ کلام کا وہی مطلب ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہورہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایمان تھا ، اس وقت تک ان کے دلوں میں معرفت کا استحکام نہیں ہوا تھاکیونکہ جاہلیت اور کفر کا زنامہ ماضی قریب ہی میں ختم ہوا تھا ۔ اور امام کسائی کی قراء ت میں"ھل تَسْتَطِیعُ ربَّک" آیا ہے ۔یہ عیسیٰ کو خطاب ہے اور(ربک)مفعول ہے یعنی اے عیسیٰ کیا آپ اپنے رب سے یہ درخواست کردیں گے ؟اور آپ کے لئے یہ دعا کرنے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے؟ اور کیا آپ کا رب آ پ کی یہ درخواست قبول کرے گا ؟جیساکہ تفسیرمظہری میں ہے:

 

’’استطاعت کا معنی ( یہاں ) اطاعت ہے ،مان لینا یعنی درخواست کے مطابق کردینا۔‘‘(19)

 

حضرت علیؓ، عائشہؓ، عبداللہ بن عباسؓ کی بھی یہی قر اء ت ہے،اس قراء ت کو اختیارکرنے کی وجہ یہ ہے کہ عائشہؓ نے فرمایا حواری اللہ ( کے رتبہ ) سے خوب واقف تھے ۔اسی لئے حضرت عیسیٰ ؑنے ان کے قول کوبڑی گستاخی قراردیتے ہوئے فرمایا:

 

اِتَّقُوْااللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ(20) ’’یعنی اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو(اللہ کی قدرت میں شک نہ کرو)۔‘‘

 

حضرت تھانوی ؒاس کامعنی لکھتے ہیں:

 

ہل تستطیع أن تسأل ربَّک(21) ’’کیاآپ اپنے رب سے سوال کرسکتے ہیں۔‘‘

 

اس آیت میں ان دو قر ا ء توں کی بناء پر ایک ہی آیت سے حواریوں کے سوال کے دو پہلو سامنے آتے ہیں:

 

۱۔ یہ کہ وہ یہ سوال کر نا چاہتے تھے کہ کیا حضرت عیسیٰؑ کارب آسمان سے کوئی مائدہ نازل کرے گا یا نہیں کرے گا ۔یعنی وہ اپنے قول:"آ منّا واشھَد بأ نّنا مسلمون"کی بنا پر مومن تو تھے، لیکن ابھی ان کو ایمان کے اندروہ رسوخ حاصل نہیں ہوا تھا لہذا وہ یہ سوال کر بیٹھے ۔جیسا کہ علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:

 

"یعنی ھل یستطیع"والی قراء ت ان کے دعویٰ ایمان کے خلاف تھی، اس وجہ سے حضرت عیسیٰؑ نے ان کو تنبیہ فرمائی اورکہا اللہ سے ڈرو۔لیکن دوسری قراء ت یعنی"ھل تستطیع ربک"یہ ان کے دعویٰ ایمان باللہ کے خلاف تو بظاہر نہیں ہے، لیکن ا س سے یہ شبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑکے اللہ سےتعلق کو نہیں پہچان سکے تھے۔ گویا ان کو حضرت عیسیٰ ؑکی درخواست کی قبولیت پر شک تھا ،جس پرحضرت عیسیٰ ؑنے ان کو تنبیہ فرمائی ۔خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں قراء توں سے حواریوں کے سوال کے دونوں پہلوؤں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔(22)

 

تبیین وتوضیح قراءات

یعنی ایک بات کسی ایک قراءت میں مبہم ہوتی ہے تو دوسری قراءت میں اس کی وضاحت ہوجاتی ہے ،جیساکہ ارشادفرمایا:

 

وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَلَۃً اَوِ امْرَأۃٌ وَلَہٗ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ(23)

 

آیت مذکورہ میں لفظ"أخٌ"اور"أختٌ"میں اِبہام ہے کہ وراثت کی تقسیم میں ذکرکیاگیاحصہ کس بھائی اور بہن کا ہے؟ حقیقی (سگے) بھائی اور بہن مراد ہیں، علاتی (جوباپ کی طرف سے ہوں) یا اخیافی (جو ماں کی طرف سے ہوں)تودوسری قراء ت میں اس کی وضاحت یوں موجود ہے:

 

وَلَہُ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ مِّنْ اُمِّ(24) ’’جو اخیافی بہن بھائی ہوں، ان کا وراثت میں یہ حصہ ہے۔‘‘

 

نصوص کا ظاہری تعارض اور علم قراء ا ت

 

وہ مسائل جن میں بظاہر نصوص میں باہمی تعارض نظر آرہا ہوتا ہے اور رفع ِتعارض کے لئے تطبیق کی کوئی صورت نکالنا ہوتی ہے، وہاں بھی قراء ت ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں،مثلاً اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

 

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوٰۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ(25)

 

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘

 

مذکورہ بالاآیت میں ذکر ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کے لئے دوڑو، جبکہ دوسری طرف صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے :

 

أنَّ أبا ھریرۃ قال سمعتُ رسول اﷲ ﷺ یقول إذا أُقِیمتِ الصلوۃُ فلا تأتوھا تسعون وأتوھا تمشون،علیکم السکینۃ فما أدرکتم فصلُّوا وما فاتکم فاتمُّوا(26)

 

’’حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ،آپ فرما رہے تھے کہ جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم دوڑ کر اس کی طرف نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ، تم پر اطمینان لازم ہے۔ جو پا لو پڑھ لو اور جو رہ جائے اُسے مکمل کر لو۔‘‘

 

اب بظاہر دو نصوص کے درمیان تعارض کی کیفیت نظر آرہی ہے۔ آیت قرآنی کے مطابق نماز جمعہ کے لئے دوڑ کے آنا چاہئے جبکہ حدیث نبویؐ نماز کے لئے دوڑ کر آنے سے منع کررہی ہے، اب اگر دیگر قراء ات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ظاہری تعارض بآسانی دور ہورہا ہے، مثلاًایک دوسری قراء ت میں لفظ"فاسعوا"جس کے معنی دوڑنے کے ہیں، کی جگہ لفظ"فَامْضُوْا"ہے جو اطمینان اور سکون سے چل کر آنے کا معنی دیتا ہے، گویا دوسری قراء ت نے اس ظاہری تعارض کو یوں رفع کیا کہ حدیث نبویؐ کا مفہوم اپنی جگہ ٹھیک ہے اور آیت قرآنی میں لفظ"فَاسْعَوْا"کا مفہوم جمعہ کے لئے انتہائی کوشش اور جستجو سے آنے کا ہے، جو دوسری قراء ت کو سامنے رکھتے ہوئے اَخذ کیاگیا ۔

 

مختلف فقہی اَحکام کااِستنباط اور علم قراء ا ت

قرآن مجید کو فقہ اِسلامی میں اصل الاصول اور ماخذ اوّل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے ہر دور میں قرآن کی متعددقراء ات پڑھنے، علم قراء ات سیکھنے اور بوقت ِضرور ت قراء کی طرف رجوع کرنے کا بہت اہتمام فرمایا ہے تا کہ قراءاتِ متواترہ اورغیرمتواترہ کے درمیان فرق کرنے کے ساتھ ساتھ ان قراء ات سے شرعی اَحکام پر استدلال اور مختلف قراء ات پر مرتب ہونے والے فقہی اَثرات کی نشاندہی کر سکیں۔اگرچہ قرآن کریم سے اَحکام کے استنباط کرنے میں فقہائے کرام نے قراء اتِ متواترہ کے ساتھ بعض مسائل میں شاذہ قراء ت کو پیش نگاہ رکھا ہے لیکن یہاں یہ بات ملحوظ خاطررہناضروری ہے کہ متنوع قراء ات ِقرآنیہ کی وجہ سے احکام فقہ میں اوامر ونواہی اور حلال وحرام میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یعنی اختلاف تضاد اور تناقض ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی لفظ میں ایک قراء ت کے مطابق کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جا رہا ہو اور دوسری قراء ت کے مطابق تقاضا ممانعت کا ہو رہا ہو یا ایک قراء ت میں کسی چیز کو حلال اور دوسری قراء ت میں حرام قرار دیا گیا ہو، بلکہ بعض مقامات پر ایک قراء ت کا معنی دوسری قراء ت کے معنی میں وسعت اور گہری مناسبت پیدا کر دیتا ہے۔ اور دونوں معانی کا انطباق ایک ہی ذات یا چیز پر ہو رہا ہوتا ہے۔

 

جیسا کہ سورت فاتحہ میں"مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ"میں دوسری قراء ت"مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ"ہے۔(27) ایک قراء ت کا معنی روز جزاء کا مالک اور دوسری قراء ت کا معنی روز قیامت کا بادشاہ ہے۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں دونوں قراء توں نے مل کر معنی ومطلب میں وسعت اورمزیدنکھارپیدا کردیا۔ اوربعض دیگرمقامات پرایک قراء ت دوسری قراء ت کے ساتھ بغیرتضاداورٹکراؤ کے نیا فائدہ اور مختلف حکم ثابت کر رہی ہوتی ہے۔ اورکبھی دو قراء توں کے درمیان ظاہری تعارض بھی واقع ہو جاتا ہے اس لیے فقہاء کے نزدیک کسی لفظ میں دو متواتر قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں انہیں دل سے قرآن تسلیم کرنا اور ن کے مقتضٰی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور ان کا معنی ومفہوم اس طرح بیان کیا جائے گا جس طرح کسی ایک مسئلہ میں نازل ہونے والی دو آیات کا بیان کیا جاتا ہے۔ اور اگر دو متواتر قراء توں میں ظاہری تعارض نظر آئے تو اُن کے درمیان جمع وتطبیق کی کوئی صورت نکالنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح دو آیتوں کے درمیان ظاہری تعارض کی صورت میں نکالی جاتی ہے۔بسا اَوقات دو مختلف قراء ات مختلف مسائل کے استنباط کا فائدہ بھی دیتی ہیں، مثلاً اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ(28) ’’اور تم ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک صاف ہوجائیں۔‘‘

 

یعنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اُسے حیض آنا بندنہ ہوجائے۔ قراء ت ِحفص کے اعتبار سے بیوی سے جماع کے لئے حیض کے بند ہونے کے بعد غسل کی صورت میں طہارت ضروری نہیں، صرف حیض کا بند ہونا ہی کافی ہے جبکہ دوسری قراءت میں لفظ"یَطْھُرْنَ"کے سکون کے بجائے تشدید کے ساتھ"یَطَّہَّرْنَ"ہے۔(29)جس کا معنی یہ ہوگا کہ بیوی کے قریب جانے کے لئے حیض کا بند ہونا ہی کافی نہیں بلکہ غسل کرنا بھی ضروری ہے، چنانچہ دو مختلف قراء ات سے الگ الگ مسائل کے استنباط سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ اس مسئلے میں تخفیف کا پہلوموجود ہے۔

 

دوسری مثال:اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مال مسروقہ اسلام کے مقرر کردہ نصاب تک پہنچ جائے گا تو چور کا دایاں ہاتھ کاٹیں گے یا بایاں؟اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جس آیتِ مبارکہ میں حدِ سرقہ بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے:

 

وَ السَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا أَیْدِیَھُمَا(30)

 

یہ اَئمہ عشرہ کی قراء ت ہے، جو متواترہ ہے جس کی رُو سے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ بیان نہیں کیا گیا کہ اس کا کون سا ہاتھ کاٹا جائے گا؟لیکن فقہائے اُمت کا اس بات پر اِتفاق ہے کہ جب پہلی دفعہ کسی شخص پر چوری کا جرم ثابت ہوجائے اور چوری کا سامان بھی مقررہ نصاب تک پہنچ جائے تو چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔اس اجماع کی ایک دلیل قراء تِ شاذہ کا ورود ہے۔یہ عبداللہ بن مسعودؓ کی قراء ت ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:

 

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْمَانَھُمَا(31)

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ قراء ت متواترہ میں چور کا مطلق ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے اور یہ قید نہیں ہے کہ کون سا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ لیکن قراء ت شاذہ دائیں ہاتھ کے کاٹنے کو متعین کررہی ہے۔ گویا اس حکم کا مدار اجتہاد پر نہیں بلکہ نص پر ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایسے بہت سارے مسائل ہیں ،جن پر اختلاف قراءات کی بناء پر فقہی احکام پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ،خواہ ان مسائل کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات یا معاشرت یا اخلاقیات سے ہو،ہر شعبہ کے بہت سارے مسائل کاقراء ات سے گہراتعلق ہے اور قراء ت ہی کی بناء پر بہت سارے مسائل کا حل پایاگیاہے ۔

 

قراءات قرآنیہ کانحوی قواعد پر اثرات

بعض متنورین (روشن خیال طبقہ)جو علم القراء ات کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے وہ علم نحو وصرف کے قواعد پر قرآنی قراءتوں پر حاکم بنا دیتے ہیں اور ان کے خیال میں جو قراء ت نحو وصرف کے قواعد کے خلاف ہو، اسے یہ کہہ کر ردّ کر دیتے ہیں کہ یہ قواعد عربیت کے خلاف ہے، اور یہ بہت بڑی جسارت ہے کہ غیر قرآن کو قرآن کریم پر حاکم بنا دیا جائے، اوروحی پر مبنی قراء ات کی صحت وسقم کا فیصلہ ایسے علوم سے کیا جائے جو سراسر اِنسانی سعی وکاوش کا نتیجہ ہیں، جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ بنتاہے کہ قواعد لغت کی تصحیح قراء اتِ قرآنیہ سے کریں، اس کے برعکس قراء ات کی تصحیح قواعدِ عربیت سے کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، کیونکہ قواعدِ لغت کا انحصار قراء تِ قرآنیہ اورنصوص سنت پر ہے، اور قراء ات کا دارومدار سماع پر ہے اِجتہادو اِستنباط پر نہیں، متعدد صحابہ کرامؓ نے ان قراء ات کا سماع نبی کریمﷺسے کیا ، اور ان سے تابعین ؒ نے اَخذ کیا ، اورتبع تابعینؒ تک ہوتا ہوا یہ علم اَئمہ قراء تک پہنچا اور انہوں نے اسے آگے روایت کیا۔ لہٰذا علم قراء ات کے سلسلہ میں اَئمہ لغت یاعلماء ِ نحو کی تقلید نہیں کی جا سکتی، اس لئے کہ اس فن کا تمام تر دارومدار رسول اللہﷺسے سماع پر ہے، جیساکہ حضرت زید بن ثابت ؓکہتے ہیں:

 

القراءۃ سنۃ متبعۃ أن یأخذ ہالآخر عن الأول(32)

 

’’فن قراء ت لائق اتباع ایسی سنت نبویہ ہے جسے بعد میں آنے والا اپنے پیشرو سے اَخذ کر تا ہے۔‘‘

 

یہ بات ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قراءکرام کی قراء ات کا دارومدارنحوی قواعدیافقہی مسائل کی طرح اجتہاد اورقیاس واستنباط پر نہیں ہے بلکہ قراء اتِ قرآن صرف رسول اکرمﷺسے سماع پر موقوف ہے ہیں۔شیخ عبد العظیم زرقانی ؒ لکھتے ہیں:

 

’’علماء نحو نے اپنے نحوی قاعدے قرآن کریم، کلام رسول (حدیث نبویﷺ)اورکلام عرب سے حاصل کئے ہیں۔لہٰذا جب معتبر اور مقبول رِوایت کے ساتھ قرآن کی قرآنیت ثابت ہوجائے تووہی علماء نحو بنائے ہوئے قواعد کافیصلہ کرے گی۔ اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے قواعد کی تصحیح کے لئے کلام اللہ(قرآن کریم) کی طرف رجوع کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے بعض خلافِ قرآن بنائے ہوئے قواعد کوقرآن کریم پرحاکم بنا دیا جائے، ورنہ اس طرز عمل سے اس اصول کا ترک لازم آئے گا جس کا لحاظ کرنا ضروری ہے اوریہ آیت قرآنی کے خلاف ہو گا۔‘‘(33)

 

قاعدہ

 

تمنی یاترجی کے جواب میں فعل مضارع پر فاآجائے تواس فا کے بعد’’أن‘‘مصدریہ مقدر ہوتا ہے جو فعل مضارع کونصب دیتاہے۔(35) جبکہ حفص ؒکے علاوہ باقی قراء کرام فا کو عاطفہ بناتے ہیں اور’’أبلغ‘‘پر عطف ڈالتے ہوئے’’فأطَّلِعُ‘‘کو مرفوع پڑھتے ہیں۔(36)

 

اسی طرح امام عاصم رحمہ اللہ نے سورۃ عبس کی آیت’’وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّیٰٓ٭ أَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی‘‘(37) میں’’فَتَنْفَعَہُ‘‘ منصوب پڑھا ہے کیونکہ اس میں مضارع پر فا’’لعل‘‘کے جواب میں ہے، اور یہاں بھی فعل مضارع پر فا کے بعد’’أن‘‘ناصبہ مقدر ہے۔جبکہ عاصم رحمہ اللہ کے علاوہ باقی قراء نے’’یزکی‘‘پر عطف ڈالتے ہوئے’’فَتَنْفَعُہُ‘‘کو مرفوع پڑھا ہے۔

 

قاعدہ

 

اسی طرح علماء نحو کے ہاں یہ قاعدہ بھی معروف ہے کہ افعال رجہان ’’ظن، حسب، خال اورنعم‘‘کے بعد فعل مضارع پر آنے والا’’أن‘‘ناصبہ بھی ہو سکتاہے اورمخففہ من المثقلہ بھی، اوردوسری صورت میں فعل کو مرفوع پڑھا جائے گا۔اوریہ قاعدہ سورۃ المائدہ کی آیت’’وَ حَسِبُوْآ أَلَّا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ‘‘ (سورۃ المائدہ: ۷۱(سے لیا گیا ہے ،کیونکہ اس آیت میں ابوعمرو بن علاء، حمزہ اور الکسائی نے ’’تکون‘‘ کو رفع سے پڑھا ہے، اور’’أنْ‘‘کو مخففہ من المثقلہ بنایا ہے، جبکہ ان کے علاوہ باقی قراء نے’’تکون‘‘کو نصب سے پڑھا ہے اور’’أن‘‘کو مصدریہ (ناصبہ)بنایا ہے۔یاد رہے کہ کلام عرب میں’’أن‘‘چار اقسام پر ہے: 

 

۱۔ أن مصدریہ جو فعل مضارع کونصب دیتا ہے ، اور یہ معروف ہے جیسے:’’أرید أن تخرج ‘‘

 

۲۔ أن مخففہ عن المثقلہ: اور یہ افعال شک ویقین کے بعد آتا ہے جیسے:’’عَلِمَ أَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضیٰ‘‘(المزمل:۲۰)

 

۳۔ أن تفسیریہ اور یہ ایسے فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنی میں ہو جیسے:’’وَنٰدَیْنٰہُ أَنْ یٰٓإِبْرٰہِیْمُ‘‘(الصافات:۱۰۴)

 

۴۔ أن زائدہ اور یہ تین مقامات میں تاکید کے لئے زائد آتا ہے:

 

(۱) "لَمَّا"کے بعد جیسے’’فَلَمَّآ أَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ‘‘(یوسف:۹۶(

 

(۲) قسم اور"لو"کے درمیان جیسے’’واﷲ أن لو قمتَ قمتُ‘‘

 

(۳) کاف جارہ اور اس کے مجرور کے درمیان بھی أن زائدہ آتاہے جیسے ’’کان ظبیۃ‘‘(38)

 

ذکر کردہ چند مثالوں سے یہ بات ثابت کرنا مقصود ہے کہ قواعد لغت قراء اتِ قرآنیہ سے اَخذ کیے گئے ہیں، اور قراء ات ان قواعد سے مقدم ہیں، اس لیے قراء ات کو قواعد پر حاکم بنانا اور ان کی صحت وسقم کا فیصلہ قراء ات سے کرنا جوقاعدہ ان کے مطابق ہو اسے قبول کرنا اورجو خلاف ہو اس میں ترمیم کرکے قراء تِ قرآن کے موافق بنانا ہی قرین قیاس ہے، اس کے برعکس قواعدِعربیہ کو قراء ات پر حاکم بنادینا اورقراء ات کی صحت وسقم کو قواعد لغت کے تابع بنا دینا تو ایسے ہی ہے جیسے فروع کو اپنے اصول پر حاکم بنا دیا جائے اوریہ درست نہیں بلکہ عدل وانصاف کے اصول کے خلاف ہے۔ لہٰذا قراء ات کوقواعد سے پرکھنا بھی علمی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔

 

قراءات قرآنیہ کاعقیدہ کے مسائل پر اثرات

توحید کا ثبوت مختلف طریقوں سے: مثلا"مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ"میں پہلی قراء ت اسم فاعل کے وزن پر’’مٰلِکِ یوم الدین‘‘ہے یہ قراء ت عاصم، کسائی، یعقوب اور خلف العاشر سے نقل کی گئی ہے۔ دوسری قراء ات’’مَلِکِ یوم الدین‘‘الف کو گرانے اور"حَذِرِ"کے وزن پر عاصم،کسائی، یعقوب اور خلف العاشر کے علاوہ باقی قراء سے نقل کی گئی ہے۔ (39)

 

اِستدلال

 

(۱) اگر( مٰلِکِ(اسم فاعل کے وزن پرپڑھیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بادشاہ اور حاکم مطلق ہے جو اپنی تمام مملوکہ اشیاء میں اپنی منشاء سے تصرف کرتا ہے، اور قیامت کے دن کرے گا جس دن کسی کو کسی چیز میں تصرف کرنے اور حکم چلانے کی اجازت نہ ہوگی۔

 

(۲) اگر مَلِکِ ہو تو مفہوم یہ ہوگا کہ ایسا حاکم جو اپنی ملکیت میں اوامرو نواہی کے ساتھ تصرف کرے۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دنیا کے دیگر بادشاہوں کی بنسبت ارفع و اعلیٰ اور عزت و تکریم میں ہوگا جبکہ یہ دنیا کے بادشاہ اور حکمران دنیا کے برعکس (ذلیل و خوار) ہوں گے۔

 

قراء اتِ قرآنیہ کے اعجاز کا افعال عباد میں اثر

 

قراء اتِ قرآنیہ کا افعال عباد میں گہر اثر ہے۔ اگر قرآن کریم کے ایک لفظ کو پڑھ کر کسی کم فہم شخص کے ذہن میں کوئی اعتراض اٹھتا ہے تو اس کو یا تو اسی قراء ت سے جواب دیا جائے گا، یا پھر کسی دوسری قراء ت سے اس لفظ کا معنی کھل کر سامنے آجائے گا اور معترض کے اعتراض کا جواب بھی مل جائے گا۔مثلاً: اللہ تعالیٰ کا فرمان:قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَھَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا(40)

 

اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں دو قراء تیں ہیں۔

 

(۱) ’’لِأَھَبَ‘‘ہمزہ کے ساتھ یہ باقی قراء کی قراء ۃ ہے۔

 

(۲) ’’لِیَھَبَ‘‘’’یا‘‘کے ساتھ یہ ورش، ابوعمرو، یعقوب اور قالون کی قراء ۃ ہے۔(41)

 

درج بالا دو قراء توں کی توجیہ

 

پہلی قراء ت کی توجیہ: جو قراء ۃ ہمزہ’’لأھب‘‘کے ساتھ ہے یہ ایک ظاہری اشکال کا جواب ہے۔ اشکال یہ ہے کہ اولاد دینے والا تو مالک کائنات ہے جو کہ بے اولادوں کو اولاد ہبہ کرتا ہے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں جبریل علیہ السلام وہبیت اولاد کی نسبت اپنی طرف کررہے ہیں۔

 

جواب: جبریل علیہ السلام کا’’لأھب لک‘‘کہنا مجاز عقلی کے طریق سے ہے نہ کہ معنی حقیقی کے اعتبار سے۔ گویا’’لأھب لک‘‘کہنے سے ایک وہبیت اولاد کے سبب کی طرف اشارہ کردیا جوکہ جبریل علیہ السلام ہیں۔ اور فعل کی نسبت سبب کی طرف کرنا عام ہے۔ قرآن کریم میں اس کی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں۔جیسے اللہ تعالیٰ کا بتوں کے بارے میں یہ فرمان ہے:

 

رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ(ابراہیم:۳۶)

 

دوسری قراء ت کی توجیہ

 

رہی دوسری قراء ت’’لیھب لک‘‘’’یا‘‘ کے ساتھ اس میں وہبیت اولاد کی نسبت حقیقی واہب (جو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہے) کی طرف کی گئی ہے۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ’’لیھب‘‘’’یا‘‘والی قراء ۃ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ اولاد دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جبریل علیہ السلام نہیں ہیں وہ تو سبب ہیں۔ یہی محل اتفاق ہے اہلسنت والجماعت کے ہاں۔ پھر دوسری قراء ت اس لیے لائی گئی تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ افعال کی نسبت مجازاً مخلوق کی طرف کرنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے کوئی بندہ ایسا نہیں کرسکتا۔(42)

 

قرآن کریم کا اسلوب بلاغی اور قراء ات متواترہ کا اس پراثر

ناقدین و قارئین اس بات سے روز روشن کی طرح آگاہ رہیں کہ تنوع قراء ات اسلوب بلاغی کی ہی مختلف صورتوں میں سے ہے اور ان کا قرآنی اعجازات پرنمایاں اثر ہے۔ قرآن کریم واضح عربی زبان میں نازل ہوا اور ایسی قوم پر اترا جو فصاحت و بلاغت اور بیان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن قرآن مجید نے اپنے بیان کے ساتھ ان کو حیران کرکے رکھ دیا اور کئی طرق سے ان کو مقابلہ سے عاجز و ناتواں بنا دیا ان کی فصاحت و بلاغت بکھیرنے والی زبانی گنگ ہوگئیں حتیٰ کہ انہوں نے قرآن کریم کے اسلوب بیان کی انفرادیت کو تسلیم کر لیا۔ اس قرآن کا ہر کلمہ اپنے اندر ایک شیرینی اور مٹھاس رکھتا ہے اور اس کے مختلف خوشے ہیں جو لہلا رہے ہیں اور اس کے موتی بکھرے ہوئے ہیں جو چننے کے قابل ہیں اور اس کے جملوں کااوّل و آخر آپس میں مربوط ہے۔ ان تمام خوبیوں کی بنا پراس کتاب نے ہدایت اور نور کے لیے عقل اور وجدان کی کھڑکیوں کو کھول دیا۔اسی بناء پر علماء قرآن کے اعجازات کے اسرار کو تلاش کرنے لگے۔ ان اسرار میں سے ایک راز اعجاز بلاغی ہے بلکہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ بلاغت کے اسالیب اور وسائل حقیقت میں یہی قرآن کے معجزہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے،چنانچہ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

’’قراء ات کتاب اللہ کی وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ ہے۔ ہر قراء ت سے الگ مسئلہ ثابت ہونا اس کے جملہ فوائد میں سے ایک فائدہ ہے۔ کسی چیز کے اعجاز میں مبالغہ اس کے کم حروف اور زیادہ معانی میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدہ ہے کہ زیادتی الفاظ، زیادتی معانی کا فائدہ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قراء ت بمنزلہ آیت کے ہے۔‘‘(43)

 

اسی بنا پر قراء ات بلاغت کی وجوہ میں سے ایک ایسی وجہ ہے جو کہ واضح بیان کے ذریعے قرآن کے اعجاز کو ثابت کرتی ہے۔ ان تمام خصائل حسنہ کی وجہ سے قراء ات کا بلاغت کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والا تعلق ہے۔

 

رسم عثمانی اورقراء ات کے درمیان تعلق

نزول قرآن کے وقت سیدنا جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺکی راہنمائی فرمایاکرتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ پر رکھاجائے اسی وجہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ مصاحف عثمانیہ جو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں لکھے گئے وہ اسی ترتیب پر لکھے گئے جو ترتیب لوح محفوظ میں موجود ہے ۔مصاحف عثمانیہ کے بارے میں یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نقطوں ،شکلوں سے خالی تھے اور حذف واثبات اور فصل ووصل وغیرہ کے بارے میں مختلف تھے اور یہ مصاحف راجح قول کے مطابق ان سبعہ احرف کے مطابق تھے جن پر قرآن نازل ہوا اور یہ بھی احتمال موجود ہے کہ یہ مصاحف ان قراء ات کے مطابق تھے جو عرضئہ اخیرہ میں باقی رہ گئی تھیں رسم عثمانی کے اعجازات میں سے ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ ایک ہی رسم سے تمام قراءات صحیحہ متواترہ پڑھی جاتی ہیں ،چونکہ مصاحف عثمانیہ نقطوں اور زبر،زیراورپیش سے خالی تھے اسی وجہ سے بعض دفعہ ایک ہی رسم میں ایک سے زائد قراءات سماجاتی تھیں۔مثلاً:’’نَغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ‘‘ (البقرۃ: ۵۸)اس میں تین قراء ات ہیں۔ 

 

امام نافع اورامام ابوجعفرکی قراءت"یُغْفَرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ"ہے،اورامام ابن عامر شامی کی قراءت"تُغْفَرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ"ہے۔ اورباقی تمام قراء کی قراء ت"نَغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ"ہے۔(44)اگر ان کا رسم رسم عثمانی کی بجائے، رسم قیاسی کے مطابق ہوتا تو اس سے بعض قراءا ت ساقط ہوجاتی جبکہ رسم عثمانی سے تمام قراء ات صحیحہ متواترہ نکل آتی ہیں مثلاً:سورہ بقرہ:۵۱میں"وَإِذْ وٰعَدْنَا"اس کلمہ میں دو قراء ات ہیں۔ امام ابو عمرو بصری، امام ابوجعفر اور امام یعقوب’’وَعَدْنَا‘‘جبکہ دیگر قراء کرام"وٰعَدْنَا"پڑھتے ہیں۔(45) اس کو اگر"وَاعَدْنَا"بالالف لکھ دیا جاتا تو"وَعَدْنَا"کی قراء ت ساقط ہوجاتی ، لیکن اس کے موجودہ رسم (رسم عثمانی) سے"وٰعَدْنَا ، وَعَدْنَا"دونوں قراء ات ہی پڑھی جارہی ہیں۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ قراءات کا تفسیر ،فقہ،بلاغت،نحوی قواعد اور رسم عثمانی کے ساتھ تعلق ہے اور متنوع قراء ات کاان علوم پر کیااثرات ہوتے ہیں ان کی چند مثالیں اوپر گزرچکی ہے ،اس لیے قرآن وسنت دونوں کے تحفظ کےلئے اس طرف توجہہ دینا ہوگی ورنہ بیمار اَفکار کے حامل، اِعتزالی روش کے عادی اور فتنہ پرور محققین کیسے اَحادیث کو قرآن کریم کے مقابل لاتے ہیں اور پھر قرآن کریم کی اتھارٹی کا بہانہ بنا کر ذخیرہ اَحادیث سے ہاتھ صاف کرنے کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ فتنہ اِنکار حدیث ہمیں کیوں سبق نہیں دیتا کہ علم قراءت کو پس پشت ڈالنا گویا کہ مذکورہ محققین کو کھلی چھٹی دیناہے، تاکہ وہ قراء ت کو’’فتنہ عجم‘‘کا نام دے کر اُسے مشکوک ٹھہرائیں اور پھر نصوص کے باہمی تعارض کوبہانہ بنا کر اَحادیث صحیحہ کا انکار کردیں۔

 

حواشی و حوالہ جات

(1) (سورہ بقرہ: 23)

 

(2) الجصاص،امام ابوبکر الرزی الحنفی:أحکام القرآن،بیروت دارالکتب العلمیہ:۲؍ ۳۴۵

 

(3) الجصاص:حوالہ مذکور،۲؍۳۴۶

 

(4) (البقرۃ:۲۴۵)

 

(5) ابن الجزری،شمس الدین ابوالخیرمحمد بن محمد،النشر،بیروت :دارالکتب العلمیہ،۲؍۲۲۸،

 

نیزمصحف القراء ات العشر، سورۃالبقرۃ:۲۴۵

 

(6) القیسی،ابومحمد مکی بن ابی طالب:الکشف عن وجوہ القراء ات السبع،بیروت مؤسسۃ الرسالۃ، ۱؍۳۰۰

 

(7) ابن الجوزی: زاد المسیر ، ۱؍۲۲۱

 

(8) ثناء اللہ پانی پتی: تفسیر مظہری،مترجم،کراچی:ایم ایچ سعید کمپنی، ۱؍۵۵۷

 

(9) (البقرۃ :۱۱۹)

 

(10) ابن الجزری:النشر،۲؍۲۲۱

 

(11) ابن خالویہ،ابوعبداللہ الحسن بن احمد:الحجۃفی القراء ات السبع،بیروت: دارالکتب العلمیہ،ص۳۶

 

(12) احمدمختارعمر،الدکتور،عبدالعال سالم مکرم:معجم القراء ات القرآنیہ ،۱؍۱۰،ایران: انتشارات اسوۃ،1191ء

 

(13) ثناء اللہ پانی پتی:تفسیر مظہری،۱؍۲۰۷، نیزآلوسی:روح المعانی ،۱؍۳۳۳

 

(14) تھانوی،مولانا اشرف علی : بیان القرآن ،ملتان:ادارہ تالیفات اشرفیہ،۱؍۶۵

 

(15) القرطبی:أحکام القرآن ،۲؍۹۲

 

(16) (التوبۃ :۸۰)

 

(17) (المائدۃ:۱۱۲)

 

(18) ابن الجزری:النشر، ۲؍۲۵۶

 

(19) ثناء اللہ پانی پتی: تفسیر مظہری ،۴؍90،91

 

(20) معجم القراء ات القرآنیۃ،۲؍۲۳۸

 

(21) تھانوی: بیان القرآن،۳؍۷۳

 

(22) آلوسی:روح المعانی:۷؍۵۰،۵۱

 

(23) (النساء :۱۲)

 

(24) معجم القراء ات القرآنیہ :2؍116

 

(25) (الجمعۃ:۹)

 

(26) القشیری ،مسلم بن الحجاج ، المحدث الکبیر:صحیح مسلم ،کراچی: ایچ ایم سعید کمپنی،۸۵۷

 

(27) ابن الجزری:النشر، 1؍271

 

(28) (البقرۃ:۲۲۲)

 

(29) (النشر: 2؍80)

 

(30) (المائدۃ: ۳۸)

 

(31) معجم القراء ات القرآنیہ:2/208

 

(32) (السنن الکبری للبیہقي: ۳۸۵)

 

(33) الزرقانی،علامہ عبدالعظیم: مناہل العرفان فی علوم القرآن،بیروت: دارالکتب العربی،۱؍۴۲۲

 

(34) (سورۃ غافر: ۳۶، ۳۷)

 

(35) (ھدایہ النحو:140)

 

(36) (النشر: 2؍440)

 

(37) (سورۃ عبس: ۳، ۴)

 

(38) حجۃ القراء ات ابو زرعہ: ۳ ۲۳

 

(39) النشر:۱؍۲۷۱، فتح الوحید للسخاوي: ۱۷۵

 

(40) (مریم:۱۹)

 

(41) (إیزار المعاني: ۵۸۲، النشر: ۲؍۳۱۷)

 

(42) (الکشف بمکي: ۲؍۸۶، ۸۷، روح المعاني: ۱۶؍۷۷)

 

(43) السیوطی ،امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر،الاتقان فی علوم القرآن:۲۔۵۴

 

(44) (النشر: ۲؍2۱۷)

 

(45) (النشر: ۲؍23۷)
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...