Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Habibia Islamicus

فیملی بزنس میں'' ابہام'' سے پیدا ہونے والے مسائل کا شرعی و تحقیقی جائزہ |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029632_1023

Pages

41-54

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/10/12

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/10

Subjects

Family business Mutual business Shariah Ethics Family business Mutual business Shariah Ethics.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

فيملی بزنسعصر حاضر میں کاروبار کی ایسی قسم ہے جو بہ یک وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ قدیم اس لیے کہ جب سے خاندان موجود ہیں، تب سے یہ کاروبار بھی پایا جاتا ہے اور جدید اس لحاظ سے کہ فی زمانہ اس نے دنیا کی توجہ کو ایک بار پھر اپنی جانب مبذول کر لیا ہے۔ یہ کاروبار کی ایسی قسم ہے جس میں ایک طرف اس کے ساتھ نہایت امید افزا تصورات وابستہ ہیں تو دوسری جانب مشکلات اور مسائل بھی اسی تناسب سے ہیں۔ کارپوریٹ دنیا کے ساتھ ساتھ اہل تحقیق نے بھی اس بزنس کو اپنی توجہ کا خاص مرکز بنایا ہے۔ اس کی وجہ اس کاروبار سے منسلک طرح طرح کی پیچیدگیاں ہیں۔ یہ پیچیدگیاں انتظامی نوعیت کی بھی ہیں، اخلاقی حوالے سے بھی اور شرعی لحاظ سے بھی۔ اس مختصر مقالے میں ہم اس کے بعض شرعی پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ فیملی بزنس کا بنیادی ڈھانچہ شرکت اور مضاربت کے دو اسلامی و فقہی تصورات پر کھڑا ہوا ہے اور فیملی بزنس میں پائی جانے والی عمومی شرعی خرابیوں کا تعلق بھی شرکت اور مضاربت کے مسائل سے ہی ہے۔ چونکہ شرکت اور مضاربت ایک عقد اور معاملہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں تفصیلات کا واضح طورپر طے ہونا ضروری ہوتا ہے۔

 

راقم الحروف ایک عرصے سے اسی موضوع پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس دوران فیملی بزنس کے مسائل کی جو جڑ ہاتھ آئی وہ معاملات کا ابہام اور معاہدات کا واضح نہ ہونا ہے۔ مختلف کیس اسٹڈیز ملاحظہ کیں، احباب کے انٹرویوز کیے، اس بارے میں عام طور پر پوچھے جانے والے شرعی سوالات کا جائزہ لیا تو متعدد ایسے پہلو سامنے آئے کہ کاروبار کے ضروری معاملات طے نہیں کیے گئے تھے اور ایسے ابہامات ہی بعد ازاں شدید مشکلات و مسائل کا سبب بنے۔لہٰذا زیرنظر مقالے میں ایسے پہلووں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا فقہی و شرعی حل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

 

فیملی بزنس کی تعریف

فیملی بزنس سے مراد ایسا کاروبارہے جو پروپرائٹر شپ ، پارٹنرشپ، کمپنی یا کسی بھی اجتماعی صورت میں پایا جائے اور اس میں ملکیت و انتظام کے کل یا زیادہ تر حقوق و اختیارات ایک ہی خاندان کے افراد کے پاس ہوں، نیز یہ کاروبار کئی نسلوں تک چلتا رہے۔[1]

 

فیملی بزنس کی معاشی و اخلاقی اہمیت

خاندانی شراکت داری میں آسانی ہے، حفاظت ہے اور تسلسل کے لاتعداد امکانات ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں خاندان اور کاروبار دونوں یکجا ہونے کی وجہ سے مفادات حد درجہ مشترک ہیں۔ اس بزنس میں ہر شخص مالک بھی ہے اور ملازم بھی۔ ہر ایک کا نفع نقصان ہر لحاظ سے برابر ہے۔ یہاں تک کہ سب کے دل کی دھڑکنیں بھی ایک ساتھ دھڑکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیملی بزنس اس وقت عالمی معیشت پر بھی چھایا ہوا نظر آتا ہے۔

 

آج کی دنیا میں بھی کارپوریٹ بزنسز اور پبلک لمیٹڈ کمپنیز کی طرح فیملی بزنس بھی ملک کی ترقی میں ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق خلیجی ممالک کی معیشتوں کا 98 فیصد، جبکہ اسپین کی معیشت کا 75 فیصد حصہ فیملی بزنسز پر مشتمل ہے۔[2] اسی طرح امریکا کے 90 فیصد بزنسز، انڈیا کی تقریبا 90 فیصد معیشت ، جبکہ عالمی تجارت کا 70 تا 90 فیصد جی ڈی پی فیملی بزنس کا ہی مرہون منت ہے۔[3]

 

پہلی بحث – باپ اور بیٹوں کے درمیان مشترکہ کاروبار میں کاروباری حیثیت میں ابہام کی صورتیں

فیملی بزنس کی یہ صورت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور مسائل بھی اسی کے حوالے سے سب سے زیادہ درپیش ہوتے ہیں۔ خاندانی کاروبار سے متعلقہ پیچیدگیوں کا سرچشمہ والد اور بیٹوں کے معاملے میں مذکورہ بالا نوعیت کی تصریح کا نہ پایا جانا ہے۔ بیٹے سالہا سال اپنے والد کےساتھ کاروبار میں لگے رہتے ہیں۔ بلاشبہ وہ اس کو اپنے ذاتی کاروبار کی طرح چلا رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جوانی کا بہترین وقت اور صلاحیتیں اس پر جھونک دیتے ہیں،جبکہ دوسری جانب والد کوئی بھی صراحت نہیں کرتے اور معاملے کو مبہم چھوڑے رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ شدید اور پیچیدہ قسم کے جھگڑوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر شروع سے ہی والد اپنے بیٹوں کی شراکتی حیثیت واضح کردیں تو یہ اپنی اولاد کے ساتھ بہت بڑی خواہی ہو سکتی ہے۔ بہرحال اگر ہم بیٹوں اور والد کے درمیان کاروبار کی مختلف نوعیتوں کا جائزہ لیں تو وہ کچھ اس طرح ہیں:

 

۱۔ باپ اور بیٹے کے درمیان کاروبار مشترک ہو اور اس کی صراحت کر دی گئی ہو۔

 

۲۔ بیٹے اپنے والد کے کاروبار میں ملازم کی حیثیت سے کام کر رہے ہوں۔

 

۳۔ بیٹے اپنے والد کے کاروبار میں اس کے معاون ہوں۔

 

ان تینوں کا صورتوں کا بالترتیب حکم درج ذیل ہو گا:

*

اگر باپ اور بیٹے کے درمیان کاروبار مشترک ہے اور اس کی صراحت کر دی گئی ہے تو یہ سب سے بہتر صورت ہے اور اس میں حسب معاہدہ تقسیم نفع وغیرہ کا معاملہ کیا جائے گا۔ اب ان کی حیثیت ایک عام پارٹنر کی سی ہے۔ ان میں سے سلیپنگ اور ورکنگ پارٹنرز کے لیے احکامات اسی کے مطابق ہوں گے۔ نفع و نقصان بھی حسب ضابطہ تقسیم کیے جائیں گے۔
  • اگر بیٹے والد کے کاروبار میں اس کے شریک اور پارٹنر نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت ایک ملازم کی سی ہے اور اس کی صراحت کر دی گئی ہے تو اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت بیٹوں کا معاملہ بھی عام ملازمین جیسا ہو گا۔ انہیں وظیفے اورتنخواہ کا مستحق سمجھا جائے گا۔ ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری اور اس کی تنخواہ واضح طور پر طے کرنا ضرورہو گا۔ اب بیٹا اپنی تنخواہ کے علاوہ کسی چیز کا حق دار نہیں ہو گا، نیز اس کے ذاتی اخراجات الگ سے بطور تبرع بھی طے کیے جا سکتے ہیں اور اس کو تنخواہ کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
  • اور اگر بیٹوں کی حیثیت نہ تو پارٹنر کی سی ہے کہ انہیں نفع کا مستحق قرار دیا جائے اور نہ ملازم کی سی ہے کہ وہ وظیفے کے حق دار ٹھہریں، بلکہ ان کی حیثیت محض معاون کی سی ہے۔ ایسی صورت میں وہ قانوناً و شرعاً کسی خاص سلوک کے مستحق نہیں ہوتے، بلکہ اس بارے میں والد کی منشا ہی چلتی ہے۔ وہ جس بیٹے کو جو اور جتنا دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

 

 

 

اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ پہلی دو صورتوں سے متعلق اگر صراحت نہیں کی گئی، بلکہ معاملے کو مبہم رکھا گیا ہے تو شرعاً ایسی صورت میں بیٹے معاون محض اور متبرع ہوتے ہیں۔ ان کی جملہ کاوشیں والد کی معاونت شمار ہوتی ہیں۔ وہ کاروبار کے مالک بھی شمار نہیں ہوتے اور نہ ہی وراثت میں انہیں کسی قسم کی برتری اور مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ اس مسئلہ سے دو صورتوں کا استثنا ہےجوکہ حسبِ ذیل ہیں:

 

ا۔ مذکورہ بالا مسئلہ اس صورت میں ہے جب یہ سب بیٹے والد کی کفالت میں رہ رہے تھے۔ اگر والد کی کفالت میں نہیں تھے، بلکہ الگ رہ رہے تھے تو انہیں ان کی محنت کی اجرت مثل (یعنی اس جیسے کاروبار میں اس جیسےشخص کی جو معروف تنخواہ ہو) دی جائے گی۔

 

۲۔ اور اگر والد کے ساتھ رہتے ہوں اور علاقائی و برادری کے عرف میں بیٹوں کی خدمت بامعاوضہ سمجھی جاتی ہو تو بھی انہیں اجرت مثل مل جائے گا، ورنہ محض معاون شمار ہوں گے اور پورے کاروبار کا مالک صرف والد ہو گا اور اسی بنا پر وراثت میں حصہ شرعی کے ہی مستحق قرار پائیں گے۔اس حوالے سے فقہائے کرام کی تصریحات کچھ اس طرح ہیں:

 

علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فتح القدیر میں رقمطراز ہیں:

 

قوله:(ويصح أن يتساويا في رأس المال ويتفاضلا في الربح) :وعكسه بأن يتفاضلا في رأس المال ويتساويان في الربح، وهو قول أحمد.وقال مالك والشافعي وزفر: لا يجوز…(ولنا) ما ذكر المشايخ من قوله صلى الله عليه وسلم: ((الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين)) ولم يعرف في كتب الحديث، وبعض المشايخ ينسبه إلى علي رضي الله عنه۔[4]

 

مصنف کا قول کہ راس المال میں برابری اور نفع میں زیادتی یا اس کے برعکس دونوں جائز ہے۔ یہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے۔ جبکہ امام مالک، امام شافعی اور امام زفررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جائز نہیں۔ ہمارے نزدیک حضورﷺ کے ارشاد پر عمل کیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نفع شرط کے مطابق، جبکہ نقصان دونوں کے سرمایے کے تناسب سے ہو گا۔ یہ الفاظ حدیث کے طور پر کتب میں موجود نہیں، بعض مشائخ نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔

 

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:

 

(ويضمن بالتعدي) وهذا حكم الأمانات. وفي الخانية: التقييد بالمكان صحيح، فلو قال: لا تجاوز خوارزم، فجاوز: ضمن حصة شريكه. وفي الأشباه: نهى أحدهما شريكه عن الخروج، وعن بيع النسيئة :جاز.(كما يضمن الشريك) عنانا أو مفاوضة .بحر۔[5]

 

ایک شریک اگر مال میں تعدی کرتے تو وہ نقصان کا ضامن ہو گا۔ یہ امانات کا حکم ہے۔ فتاوی خانیہ میں ہے کہ مکان کے ساتھ مقید کرنا درست ہے، چنانچہ اگر ایک نے کہا تھا کہ اسے شہر خوارزم سے آگے نہ لے جانا۔ وہ لے گیا تو اپنے شریک کے حصے کا ضامن ہو گا۔ اشباہ میں ہے کہ ایک شریک نے دوسرے کو نکلنے سے اور ادھار خریدوفروخت سے منع کیا تو یہ درست ہے ۔ اس ضمان کی مثال شرکت عنان اور مفاوضہ ہے۔بحرالرائق میں اسی طرح ہے۔

 

صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 

(ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلومة) لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه وبدله تفضي إلى المنازعة، كجهالة الثمن والمثمن في البيع۔[6]

 

اجارے کا معاملہ اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ منافع اور اجرت معلوم نہ ہو۔ اس کی) نقلی( دلیل وہ حدیث ہے جو ہم نقل کر چکے، اور)عقلی(دلیل یہ ہے کہ معقود علیہ اور اس کے عوض میں جہالت جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ثمن اور مبیع میں جہالت پائی جائے۔

 

دوسری بحث – والد اور بیٹوں کے کاروبار کی تقسیم میراث میں ابہام کی صورتیں

جب معاملات کی ابتدا میں الجھنیں ہوتی ہیں تو پھر یہی پیچیدگیاں اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ بیٹوں کی والد کے کاروبار میں کیا حیثیت تھی؟ کیا وہ مالک تھے یا کچھ اور؟ وغیرہ۔ ایسی چیزوں کی تصریح نہ ہونے کی بنا پر والد کی وفات کے بعد ورثا حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟ عام طور پر اس کی نوبت شدید قسم کے جھگڑوں اور خاندان کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں پر اپنے حقوق کی برتری ثابت کرتے اور زیادہ حصہ چاہتے ہیں۔ غرض، مشترکہ خاندانی کاروبار اگر تصریحات سے خالی اور ابہامات سے پر ہو تو وراثت کے مسائل خاصے پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ذیل میں اہم ترین مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:

*

اصول یہ ہے کہ اگر والد کی زندگی میں بیٹوں کے معاملات کی تصریح موجود نہیں تھی تو والد کے انتقال کے بعد تمام بہن بھائی وراثت کے شرعی حصوں کے مطابق اس کاروبار میں شریک ہوں گے۔ یہ سب برابری کی بنیاد پر شریک ہوں گے،یعنی کاروبار میں محنت یا مدت کی کمی زیادتی کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
  • پھر اگر والد کے فوت ہونے کے بعد بھائی آپس میں والد کے ترکہ اور میراث سے مشترکہ کاروبار چلائیں تو انہیں اس کی اجازت ہے، تاہم ان کے لیے ضروری ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے کر لیں۔ اگر انہوں نے کچھ طے نہ کیا ہو اس صورت میں بھی وہی حکم ہو گا جو والد کے ساتھ معاملے کی نوعیت واضح نہ ہونے کی وجہ ہوتا ہے ، یعنی تمام بھائی برابر کے حق دار شمار ہوں گے۔

 

 

 

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

 

وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال،فهو بينهم سوية،ولو اختلفوا في العمل والرأي.وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها. ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية: الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة، ولم يكن لهما شيء، فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله؛ لكونه معينا له۔[7]

 

Bottom of Form

 

اور اسی طرح اگر بھائی اپنے والد کے ترکے میں اکٹھے ہوئے(تجارت کی وجہ سے مال میں اضافہ ہوگیا تو اب یہ سب کے سب برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ اگرچہ عمل اور عقل میں مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ہم یہ پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ یہ شرکت مفاوضہ نہیں ہے جب تک لفظی تصریح موجود نہ یا اس کی جملہ شرائط پائے جانے کے ساتھ اس کے مقتضیات موجود نہ ہوں۔ پھر یہ کہ یہ بات بیٹے کے اپنے باپ کے ساتھ شرکت کے علاوہ کے بارے میں ہے۔ جیساکہ’’القنیہ‘‘میں ہے:باپ اور بیٹا ایک ہی پیشے میں کمائی کرتے ہیں اور دونوں کے لئے کچھ مختص نہیں ہے تو اس صورت میں اگر بیٹا باپ کی کفالت میں ہوتو ساری کمائی باپ کی ہوگی، کیونکہ بیٹا اس کا معاون و مددگار ہے۔

*

موت کے بعد تو انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، وہ جو کچھ چھوڑ کے جاتا ہے، وہ ورثا کا ہوتا ہے اور وہ شریعت کی رہنمائی کے مطابق اپنے اپنے حصے کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اپنے وارثوں اور قرابت داروں کو جس طرح چاہے تقسیم کرے، مگر صرف شرط یہ ہے کہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے کر ایک کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان و ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو۔ وہ حسب ضرورت جس کو جس قدر حاجت مند سمجھے دے دے ۔ اس صورت میں وراثت کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

 

 

 

تاہم اگر وہ زندگی میں کی گئی تقسیم کے ذریعے کسی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے تو پھر شریعت اسے کہتی ہے کہ وہ سب میں برابر ہی تقسیم کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر میں ایک کو زیادہ دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں تھی، لہذا شریعت کہتی ہے اب وہ برابری کی بنیاد پر ہی تقسیم کرے گا۔ اس بارے میں علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 

وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم۔[8]

 

فتاوی خانیہ میں ہے کہ اولاد میں بعض کو محبت کی وجہ سے ترجیح دینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ محبت قلب کا عمل ہے، اور اسی طرح تحائف میں بھی، بشرطیکہ دوسروں کو اذیت دینا مقصود نہ ہو، بصورت دیگر وہ سب کے درمیان برابری کرے گا۔ بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابر دے گا۔ اسی پر فتوی ہے اور اگر اس نے حالت صحت میں سارا مال اپنے بیٹے کو دے دیا تو یہ دینا جائز تو ہے، البتہ وہ گناہ گار ہو گا۔

*

مذکورہ بالا صورت کے ساتھ جڑا ہوا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک شخص اپنی زندگی میں وراثت کی تقسیم کر رہا ہے اور اس کے بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی ہوں تو بیٹی کو بھی بیٹے کے برابر حصہ دیا جائے۔ یہ اصل ضابطہ ہے، پھر اگر بیٹی کو بھی کاروبار میں شریک کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ اس کے حصے کو مضاربت کے طور پر لگایا جائے یعنی اس کے حصے سے حاصل ہونے والے نفع میں سے اس کی مرضی کے ساتھ ایک متعین فیصدی حصہ بھائیوں کے لیے (جو کام کرنے والے ہوں گے) رکھا جائے اور باقی اس بیٹی کو دیا جائے۔ یہاں بیٹی سلیپنگ پارٹنر کے طور پر ہو گی، جبکہ بیٹے ورکنگ پارٹنر ہوں گے۔ اسی بنا پر نفع میں فرق سامنے آئے گا۔

 

 

 

مجمع الانہر میں کچھ یوں لکھا گیا ہے:

 

(هي) أي المضاربة (شركة) في (الربح…بمال من جانب) وهو جانب رب المال (وعمل من جانب) آخر وهو جانب المضارب. وهي مشروعة للحاجة إليها؛ فإن الناس بين غني بالمال غبي عن التصرف فيه، وبين مهتد في التصرف صفر اليد عن المال، فمست الحاجة إلى شرع هذا النوع من التصرف لتنتظم مصلحة الغبي والذكي والفقير والغني۔[9]

 

مضاربت منافع میں ایسی شرکت کا نام ہے، جس میں ایک جانب سے مال، جبکہ دوسری جانب سے عمل ہوتا ہے۔ یعنی رب المال اورمضارب کے درمیان یہ شرکت ہوتی ہے۔ ضرورت کی بنا پر اسے مشروع کیا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ کبھی مال دار تو ہوتے ہیں، مگر اس میں تصرف کرنے کے حوالے سے نابلد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک آدمی کبھی تصرف سے تو آگاہ ہوتا ہے، مگر اس کا ہاتھ خالی ہوتا ہے، چنانچہ اس قسم کے تصرف کے مشروع کیے جانے کی ضرورت پیش آئی، تاکہ غبی و ذکی اور فقیر و غنی کی مصلحت کا بندوبست کیا جاسکے۔

*

ابہام در ابہام کا ایک سلسلہ وہاں سے پھوٹ پڑتا ہے جب بڑے کی وفات کے فورا بعد میراث کی شرعی تقسیم کو زیربحث نہیں لایا جاتا۔ عام طور پر اس معاملے میں کسی رسم و رواج یا لوگ کیا کہیں گے قسم کے بہانے کو آڑ بنا لیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابھی تک تو ہمارے والد کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی کہ ہم ان کی میراث کو تقسیم کرنے بیٹھ جائیں۔ حالانکہ یہ نامناسب عذر ہے، جس کی شریعت کی رو سے کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں۔ شریعت یہ کہتی ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد طے کرنا چاہیے۔ اگر تقسیم نہ کرنا چاہیں تو کم از کم تعیین ضرور کر دینی چاہیے۔تقسیم ِمیراث کا معاملہ اسلام میں اس قدر اہم ہے کہ قرآن ِ کریم کی آیات میں جتنی تفصیل میراث کے حصوں کی بیان کی گئی ہے اتنی تفصیل کسی بھی اورچیز کی بیان نہیں کی گئی۔ نماز کا حکم تو موجود ہے مگر نماز کی رکعات ،جزئیات کی تفصیل موجود نہیں اور اس کا مفصل عملی طریقہ بھی نہیں بتایا گیالیکن میراث کی آیات میں اس کا طریقہ اور حصے تک تفصیل سے بتا دیے گئے ہیں۔ سورۃ النساء کی آیت مبارکہ’’یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ‘‘ میں ورثا کے حصوں کی تفصیل ذکر کر دی گئی ہے۔[10]

 

 

 

شریعت کے مطابق میراث تقسیم نہ کرناگناہ ِ کبیرہ ہے،دوسروں کے حقوق کوغصب کرنا ہے، اللہ اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی ہے اور شریعت کی حدود کو توڑنا ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں قرآن کریم نے جہنم کے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

 

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ۔[11]

 

’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کرے گا۔‘‘ 

*

ایک سنگین زیادتی اس تناظر میں یہ بھی کی جاتی ہے کہ خواتین بالخصوص بہنوں اور بیٹیوں کو حصہ میراث سے محروم کیا جاتا اور انہیں متروکہ کاروبار میں سے کسی حصے کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ خاندانی کاروبار کی منجملہ پیچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔اس حوالے سے ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں: 

 

 

 

عن اَنس رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم من قطع میراث وارثه قطع میراثه من الجنة یوم القیامة۔[12]

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کرے گا ۔‘‘ 

 

تیسری بحث – فیملی بزنس میں ریکارڈ سے متعلق ابہام کی صورتیں

شروع میں یہ عرض کیا جاچکا کہ خاندانی کاروبار میں سامنے آنے والی الجھنوں میں سے بیشتر کا تعلق اس بات سے ہے کہ معاملات کو مبہم چھوڑا جاتا ہے۔ ہم جب اس حوالے سے تحقیق کے لیے نکلے اور بعض فیملی بزنس مالکان سے بات چیت ہوئی تو ابہام کی کچھ شکلیں ریکارڈ کے حوالے سے بھی سامنے آئیں۔ فیملی ممبران مروت یا ناواقفیت کی وجہ سے شروع سے ہی معاملات کو صحیح رخ پر ڈال نہیں سکتے، جس کا خمیازہ پھر اگلی نسلوں کا بھگتنا پڑتا ہے۔ذیل میں چند ایسی صورتوں کی وضاحت پیش کی جاتی ہے:

*

ایک ایسی جگہ جہاں دو کزنز کے درمیان فیملی بزنس پارٹنرشپ تھی، انہوں نے بتایا کہ ہمارا کاروبار پارٹنر شپ کی بنیاد پر چل رہا ہے ۔ اس میں دو پارٹنرز ہیں ، دونوں ورکنگ پارٹنر ہیں ۔ ایک اکاوَنٹس اور بینک کے معاملات اور دیگر اخراجات کو دیکھتے ہیں ، جبکہ ان کے پارٹنر سیلز اور پرچیز کو دیکھتے ہیں ۔ پارٹنرشپ کا معاملہ تحریری نہیں زبانی ہے ۔ سرمایہ دونوں پارٹنرز کی طرف سے نصف نصف ہے۔ اسی طرح نفع اور نقصان بھی برابر طے ہے ۔ ظاہر ہے اس صورت میں اگر چہ معاملات کسی حد تک طے تو کیے گئے ہیں، مگر انہیں تحریر صورت میں ڈھالا نہیں گیا۔ اس طرح اس کاروبار کی بنیاد ایک کچی نیو پر رکھی گئی ہے، جو کسی ناچاقی، بدگمانی اور پھر نتیجتاً کاروبار کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی صورت میں شریعت معاملات کو تحریری صورت میں لکھنے کا حکم دیتی ہے۔ اس حوالے سے قرآن پاک کی سب سے طویل آیت مبارکہ نازل کی گئی۔جیساکہاللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا :

 

 

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا۔[13]

 

اے ایمان والو! جب تم کسی معین میعاد کےلیے ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو وہ انصاف کے ساتھ تحریر لکھے، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو، لکھنے سے انکار نہ کرے ۔ جب اللہ نے اسے یہ علم دیاہے تو اسے لکھنا چاہیے ۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہو رہا ہو، اور اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے جواس کا پروردگار ہے اور اس (حق) میں کوئی کمی نہ کرے۔

*

اسی قسم کی ایک اور صورت جو سامنے آئی اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہےکہ اے بی اور سی ڈی کے نام سے دو فیملی بزنسز کمپنیوں کے تمام شرکا اصولاً اس کے ڈائریکٹر ہیں ۔ سب کے حصص اور نفع و نقصان برابر ہے، بلکہ عملی طور پر جو ڈائریکٹر اے بی کے معاملات کو دیکھتے ہیں ، وہ اپنے گھر کے دیگر اخراجات اس سے نکالتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر ڈائریکٹر سی ڈی سے اپنے اخراجات نکالتے رہتے ہیں ، جس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ۔ البتہ زیادہ سے زیادہ کی حد مقرر کی گئی ہے کہ کوئی بھی ڈائریکٹر 30لاکھ سے زیادہ رقم نہیں لے گا ۔

 

 

 

چونکہ سب کا ذریعہ معاش یہی دو ادارے ہیں، اس لیے ہر کوئی اپنی ضروریات کے مطابق کم یا زیادہ پیسے نکالتا رہتا ہے، اس سلسلے میں ابھی تک کوئی نزاع یا بحث مباحثہ تو نہیں ہوا، لیکن ظاہر ہے کہ دل میں یہ بات کھٹکتی رہتی ہے کہ پتا نہیں کس نے کتنا نکالا؟ اس لیے ظاہری رضامندی تو ہے، لیکن دلی رضا مندی کا پایا جانا مشکل ہے۔لیکن جب سالہا سال سے اس طرح کا کام چل رہا تھا تو اب ساری چیزوں کا حساب کتاب کرنا اور آئندہ کے لیے کوئی ترتیب بنانا مشکل ہے کہ اس کو کس طرح حل کیا جائے کہ سارے شرکا اپنی دلی رضامندی سے اس معاملے کو جاری رکھ سکیں۔

 

ظاہر ہے اس میں فیملی بزنس ممبران اپنی دو کمپنیوں سے اپنی ضروریات کے لیے رقم نکال رہے ہیں، مگر کچھ بھی طے شدہ نہیں ہے۔ سراسر ابہام ہی ابہام ہے۔ یہ تنازعات کا ایسا بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ بنا بریں ڈائریکٹر حضرات کا مشترک کاروبار سے اپنی ضروریات کے لیے رقم نکالنے کا جو طریقہ کار اوپر کی تفصیل میں ذکر کیا گیا ہے یعنی بغیر اندراج کے ہر شریک اپنی ضرورت کے مطابق ایک مخصوص رقم نکال سکتا ہے، یہ شرعاً درست نہیں ، کیونکہ اس میں اپنے اصل حق سے زیادہ لینے اور دوسرے شرکاء کی حق تلفی کا عین امکان ہے، لہٰذا اس کا صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ شرکاء کچھ عرصے (مثلاچھ ماہ/سال) بعد نفع کا باقاعدہ حساب کیا کریں تاکہ ہر شریک کو اس کا حقیقی نفع معلوم ہوجائے، اگر شرکاء کو رقم کی ضرورت ہو تو سب شرکاء کی رضامندی سے ہر شریک مشترکہ کاروبار سے رقم لے سکتا ہے، لیکن یہ رقم علی الحساب ہوگی ۔ یعنی اس نکالی گئی رقم کا باقاعدہ اندراج کیا جائے اور پھر بعد میں جب حقیقی نفع معلوم ہو تو اس وقت کمی پیشی کا تصفیہ کرلیا جائے ۔علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 

وفي التتارخانية: ولو قال كل ما تناول فلان من مالي فهو حلال له فتناول حل، وفي كل من تناول من مالي فهو حلال له فتناول رجل شيئا لا يحل وقال أبو نصر: يحل ولا يضمن. قال أنت في حل من مالي خذ منه ما شئت قال محمد هو حل من الدراهم والدنانير خاصة۔[14] 

 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے: اور اگر کسی نے کہا: میرے مال سے فلاں نے جو بھی لیا، وہ اس کے لیے حلال ہے ، پھر اس فلاں نے لے لیا تو یہ اس کے لیے حلال ہو گا ۔ اور اگر اس نے یوں کہا کہ جس شخص نے بھی میرے مال میں سے لیا تو اس کے لیے حلال ہے، پھر ایک شخص نے لے لیا تو اس کے لیے حلال نہیں ہو گا ۔ اور ابونصر نے کہا: اس صورت میں بھی حلال ہے اور وہ ضامن بھی نہیں ہو گا ۔ ایک شخص نے یوں کہا کہ تمہارے لیے میرا مال حلال ہے، اس میں سے جو چاہے لے لے، امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ اجازت صرف دراہم و دنانیر کے ساتھ خاص ہو گی ۔

 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 

ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح۔[15]

 

بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مبیع معلوم ہو اور ثمن معلوم ہو اس حد تک کہ وہ جھگڑے سے روک دے ۔ پس مجہول کی بیع ایسی ہے جو جھگڑے کی طرف لے جاتی ہے، یہ صحیح نہیں ہو گی ۔

 

چوتھی بحث – فیملی بزنس کی دوسری نسل میں منتقلی سے متعلق ابہام کی صورتیں

معاملات کو مبہم رکھنے کی وجہ سے ایک اور اہم مسئلہ جو درپیش ہوتا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے:

*

والد کے انتقال کے بعد بڑا بھائی کاروبار کا مکمل نظم و نسق سنبھالتا ہے۔ اس دوران چھوٹے بھائی کسی ذمہ داری کے قابل نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مکمل انحصار بڑے بھائی پر ہوتا ہے۔ان کی تعلیم اور پرورش وغیرہ سب چیزوں کا خیال بڑا بھائی رکھتا ہے۔ کاروبار کو ترقی دینے میں ساری محنت اور کردار بڑے بھائی کا ہوتا ہے۔ اب جب چھوٹے بھائی بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ ان کا دعوی برابری کی سطح کا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر شروع سے معاملات طے ہوتے تو اب بڑے بھائی کو یہ زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔ شریعت بھی اس حوالے سے یہی کہتی ہے کہ وہ دونوں حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں، کیونکہ یہ اصل کاروبار والد کا تھا اور والد کا یہ ترکہ اولاد میں برابر درجے میں تقسیم ہو گا۔فتاوی شامیہ میں کچھ اس طرح ذکر کیا گیا ہے:

 

 

 

لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ۔ [16]

 

اور اسی طرح اگر بھائی اپنے والد کے ترکے میں اکٹھے ہوئے،( تجارت کی وجہ سے) مال میں اضافہ ہوگیا تو اب یہ سب کے سب برابرکے حصہ دار ہوں گے، اگرچہ عمل اور عقل میں مختلف ہی کیوں نہ ہوں ۔

 

اسی حوالے سے علامہ شامی رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

 

يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره….فإذا كان سعيهم واحد اولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا۔[17]

 

کسانوں میں عام طور پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کا ترکہ اس کی اولاد کے حوالے ہو جاتا ہے اور وہ بغیر تقسیم کیے اس میں کھیتی باڑی ، زراعت، خریدوفروخت اور قرض کا لین دین وغیرہ شروع کر دیتے ہیں ، اور کبھی اولاد میں سے بڑا لڑکا ان سارے معاملات کا ذمہ دار بن جاتا ہے اور باقی سب لوگ اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں…. تو اس صورت میں چونکہ اس کی محنت ایک ہی ہے اور ہر ایک نے کتنا کام کیا ہے ، اس کا کوئی حساب نہیں ہے تو اب ان سب نے مل کر جو کچھ بھی جمع کیا ہے، وہ ان کے درمیان عمل میں کمی بیشی اور رائے میں صواب و خطا کے فرق کے باوجود برابری کی بنیاد پر تقسیم ہو گا ۔

*

معاملات میں ابہام کی ایک صورت وہاں پیدا ہوتی ہے، جہاں کوئی جائیداد وغیرہ اولاد یا رشتہ داروں میں سے کسی ایک کے نام کرا دی جاتی ہے، یعنی کوئی ملکیت منتقل ہوتی ہے، نہ شریک بنانے کی صراحت ہوتی ہے اور نہ ہی ہبہ کیے جانے کا تذکرہ ہوتا ہے۔ بعد ازاں جس شخص کے نام کی گئی ہوتی ہے، وہ اس پر ملکیت کا دعویدار ہو جاتا ہے اور یوں جھگڑے کا ایک نیا سلسلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ صرف نام کرا دینے سےدوسرا شخص نہ تو مالک بنتا ہے اور نہ ہی یہ چیز اس کی ملکیت میں بطور ہبہ کے پہنچتی ہے، لہذا کہیں ایسی کوئی صورت پیش آئے تو اس میں جائیداد کو اصل مالک کی طرف لوٹایا جائے گا۔ جس کے نام ہے، اس کی ملکیت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ صاحبِ شرح مجلۃ الاحکام لکھتے ہیں :

 

 

 

الشرکة فی الاصل هی اختصاص مافوق الواحد من الناس بشیء وامتیازهم بذلک الشیء، لکن تستعمل ایضا عرفا و اصطلاحا فی معنی عقد الشرکة الذی هو سبب لهذا الاختصاص۔[18]

 

شرکت اصل میں ایک سے زائد افراد کا کسی چیز کے ساتھ اختصاص اور اس ذریعے سے ممتاز ہونا ہے، تاہم عرف اور اصطلاح میں یہ عقد شرکت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہی اس اختصاص کا سبب بنتا ہے ۔

 

علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

 

منها القبض، وهو ان یکون الموهوب مقبوضا۔[19]

 

ہبہ کی شرائط میں سے ایک قبضہ بھی ہے یعنی ہبہ کی گئی چیز پر دوسرے کا قبضہ کروا دینا ۔

*

خاندانی کاروبار کی ایک ایسی صورت جو پیچیدگی اور ابہام کا باعث بنتی ہے، یہ ہے کہ ایک بھائی نے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا۔ باقی بھائیوں نے اپنا اپنا ذریعہ معاش اختیار کیا۔ دوسری جانب ان سب کا کھانا پینا اکٹھا تھا۔ تقسیم اور علیحدگی نہیں ہوئی تھی۔ ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے بھائیوں کی وہ کمائی جو وہ اپنے طور پر جمع کر رہے ہیں، وہ ان کی ذاتی شمار ہو گی یا وہ سب کے درمیان مشترک ہو گی۔

 

 

 

اس حوالے سے اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کی طرف سے شایع شدہ تحقیق کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:

 

یہاں المعروف کا لمشروط کا قاعدہ لاگو ہو گا اور عرف و عادت کو حکم بنایا جائے گا۔ بعض جگہوں میں عرف یہ ہے کہ کھانا پینا ساتھ ہے، اس کا خرچ سب مل کر اٹھاتے ہیں، اس کے بعد جس کے پاس جو رقم بچ جائے، اس کا وہ تنہا مالک ہے۔ ایسی صورت میں ہر بھائی اپنی آمدنی کے بقیہ حصے کا مالک ہو گا اور باپ کا ہاتھ بٹانے والا بھائی اپنے اپنے حق المحنت کا۔ اس کے بعد والد کا بقیہ سرمایہ بھائیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ جبکہ بعض جگہوں کا عرف یہ ہے تمام بھائیوں کی کمائی والد کے پاس یکجا ہوتی ہے۔ خواہ کسی کی کمائی کم ہو یا زیادہ۔ پھر مشورے سے یا والد کے حکم سے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بھائیوں کی کمائی سب کے درمیان مشترک سمجھی جائے گی اور تمام بھائیوں کے درمیان کل اثاثہ برابر تقسیم کیا جائے گا۔[20]

 

خلاصہ بحث

فیملی بزنس فی زمانہ کاروبار کی نہایت اہم شکل ہے اور خاص طور پر اس وجہ سے اہم ہے کہ اس میں صرف کاروبار کا ہی معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے زیادہ حساسیت رشتوں اور رشتہ داریوں کی ہوتی ہے۔ اسی باعث اس میں انتظامی، شرعی اور اخلاقی پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔ بنا بریں اس موضوع کو خصوصیت کےساتھ بحث و تحقیق کا میدان بنایا گیا ہے۔ فیملی بزنس کے مسائل کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی جڑ بہت سے معاملات کا طے نہ ہونا، ضبط تحریر میں نہ لایا جانا اور ان کو مبہم چھوڑے رکھنا ہے۔ اوپر کے مندرجات سے یہ سامنے آتا ہے کہ معاملات کو واضح کر دینے سے مسائل کی یہ جڑ کٹ سکتی ہے۔ معاملات کا ابہام ختم کرنے کے لیے والد اور بیٹوں یا چچا اور بھتیجوں یا چند بھائیوں کےدرمیان کاروباری حیثیت واضح اور طے کی جائے۔اسی طرح بڑے کے فوت ہوجانے کی صورت میں وراثت کے حصوں کی تعیین کر لی جائے۔ پھر یہ کہ سب معاملات کو نہایت باریکی اور اہتمام کے ساتھ لکھ لیا جائے۔ یہ بھی کہ آمدن اور خرچ کا حساب بھی طے کیا جائے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ ہر شریک بغیر تعیین کے خرچ کرتا چلا جائے۔ پھر ایک وقت آئے کہ ایک دوسرے کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے۔

 

حواشی و حوالہ جات

حوالہ جات

  1. A Study of Conflict and its impact on Family Managed Business: with Special Reference to major cities in Western Maharashtra. A Ph.D Thesis, Submitted by Ms. ASHWINI SURENDRA KADAM,(Enrollment No.: DYP-M.Phil-11022) Patil University, Department of Business Management, Sector 4, Plot No. 10,CBD Belapur, Navi Mumbai,January 2014
  2. Family Business: Yesterday, Today, Tomorrow :Author(s): Ashok Panjwani, Vijay Aggarwal and Nand Dhameja,Source: Indian Journal of Industrial Relations, Vol. 44, No. 2 (Oct., 2008), pp. 272-291,Published by: Shri Ram Centre for Industrial Relations and Human Resources Stable URL: https://www.jstor.org/stable/27768196,Accessed: 01-09-2018 15:52 UTC
  3. A Study of Conflict and its impact on Family Managed Business: with Special Reference to major cities in Western Maharashtra. A Ph.D Thesis, Submitted by Ms. ASHWINI SURENDRA KADAM,(Enrollment No.: DYP-M.Phil-11022) Patil University,Department of Business Management,Sector 4, Plot No. 10,CBD Belapur, Navi Mumbai,January 2014
  4. كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام،المتوفى: 861ھ، فتح القدير، 6/177، دارالفکر،بیروت، لبنان
  5. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي، المتوفى: 1252ھ، رد المحتار على الدر المختار،4/320، دار الفكر،بيروت، لبنان
  6. علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين، المتوفى: 593ھ، الهداية في شرح بداية المبتدي،3/230، کتاب الاجارات، دار احياء التراث العربي، بيروت،لبنان
  7. اَمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی ،المتوفی:1252ھ، رد المحتار علی الدرالمختار، 4/325، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ، دار الفکر،بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، 1992ء ( 
  8. 5ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي،المتوفى: 1252ھ، رد المحتار على الدر المختار،5/696دار الفكر،بيروت، الطبعة الثانية، 1412ھ، 1992ء
  9. ==== عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي ،المتوفى: 1078ھ، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، 2/321، کتاب المضاربة ،دار إحياء التراث العربي، بیروت، لبنان ====
  10. سورۃ نساء، آیت11،12
  11. سورۃ نساء، آیت14
  12. التبریزی، محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری، اَبو عبد اللہ، ولی الدین، التبریزی،المتوفی741ھ، مشکاۃ المصابیح، ج:2،ص:926، باب الوصایا،

     

    المکتب ال;202;سلامی ،بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، 1985
  13. سورۃ البقرۃ:282 
  14. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي،المتوفى: 1252هـ، رد المحتار على الدر المختار،6/401دار الفكر،بيروت، الطبعة الثانية، 1412هـ - 1992م
  15. لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین الخلجی،الفتاوی الھندیۃ، کتاب البیوع، الباب الاول فی تعریف البیع، 3/3، دارالفکر، بیروت، لبنان
  16. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبدالعزيز عابدين الدمشقي الحنفي،المتوفى: 1252ھ، رد المحتار على الدر المختار،4/،325دار الفكر،بيروت، لبنان، الطبعةالثانية،1412ھ،1992ء
  17. ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي،المتوفى: 1252ھ، رد المحتار على الدر المختار،4/07دار الفكر،بيروت،لبنان، الطبعةالثانية،1412ھ،1992ء
  18. علی حیدر خواجہ اَمین اَفندی،المتوفی:1353ھ، درر الحکام فی شرح مجلۃ الاَحکام،کتاب الشرکات، المقدمۃ، ج:1، ص:2، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاَولی، 1991ء
  19. علاء الدین، اَبو بکر بن مسعود بن اَحمد الکاسانی الحنفی ،المتوفی:587ھ، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، 6/123، کتاب الشرکۃ، المکتبۃ الحبیبیۃ، کوئٹہ، پاکستان، الطبعۃ الاولی:1989ء
  20. اسلامی فقہ اکیڈمی،مجموعہ جدید فقہی تحقیقات، موضوع: کاروبار میں اولاد کی شرکت، ص: 190، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، انڈیا، اشاعت: 2010ء
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...