Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 2 of Habibia Islamicus

ماحولیاتی آلودگی اور تعلیمات نبویﷺ |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

یقیناً رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کے تمام پہلو انسانیت کی دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں،آپ ﷺ کا ذاتی اورشخصی کردار امت کی اخلاقی تربیت کے بارے میں ہدایات تو دیتا ہی ہے، ساتھ ہی آپﷺ نے سماج اور معاشرہ کے ظاہری خدو خال بہتر سے بہتر بنانے کے لئے بھی رہنا اصول بتائے ہیں جس کو ہم ماحولیاتی حسن بھی کہ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور آپ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

 

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ([1]) ’’اللہ کے رسول کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘

 

آنحضرتﷺ کے ارشادات کو مدنظر رکھنے سے ہمیں ماحولیات سے متعلق بہت سی چیزیں معلوم ہوجاتی ہیں۔ انسان کے ارد گرد کی چیزیں، لوگ، چرند پرند، نہریں، درخت، بیل بوٹے عمارتیں اور وہ تمام چیزیں، جو انسان استعمال میں لائے خواہ نہ لائے، وہ ملکر انسان کا ماحول بناتی ہیں۔ جب تک یہ سب چیزیں فطرتی اصولوں کے موافق باقی رہینگی اور مناسب انداز میں ان سے استفادہ کیا جائے گا تو انسانی ماحول بہتر انداز پر قائم رہے گا۔لیکن اگر ان تمام چیزوں کو فطری اصولوں کے برخلاف استعمال کیا گیا، اور ہر ایک آدمی "کام نکالو"  کی طرز اپنائے گا تو کچھ عرصہ کے بعد انسانی ماحول اپنے فطری حسن کو کھو بیٹھے گا اور اس ماحول میں انسانوں کو بسنے میں بہت کوفت اور گھٹن محسوس ہوگی۔ فطرت سلیمہ کے حامل لوگوں کو ایسے ماحول میں رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جب کوئی ماحولیاتی کیفیت اس  درجہ کو پہنچ جائے تو اس کو ماحولیاتی آلودگی کہا جاتا ہے، موجودہ دور کے عالمی مسائل میں سے ماحولیاتی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

 

ماحول کی تعریف و مفہوم

ماحول عربی زبان کا لفظ ہے جو دو حروف سے مرکب ہے۔ ما اور حول "ما" اسم موصول ہے، جس کے معنیٰ ہیں: ہر وہ چیز جو، "حول" کے معنی: چکر لگانا، سال کا پھر آنا۔تو ماحول کے معنیٰ ہوئے: وہ چیزیں جو ایک جسم کے چار سو پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی معنیٰ قرآن کی اس آیت میں بھی بیان کی گئی۔

 

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا۔ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ([2])

 

’’ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب روشن کردیا آگ نے اس کے آسپاس کو تو زائل کردی اللہ نے ان کی روشنی۔‘‘

 

اصطلاح میں ماحول کی تعریف

اصطلاح میں ماحول کی تعریفات درج ذیل ملتی ہیں:

 

۱۔ وہ دائرہ کار جس میں انسان پایا جائے اور اس کی زندگی کے معمولات سرانجام دینے کیلئے جو عوامل و عناصر دستیاب کیے جائیں اس کو "ماحول" کہا جاتا ہے۔([3])

 

۲۔ وہ رہائشی میدان کہ جس میں انسان اپنی طبعی، بشری اور ظاہری ضروریات کو سرانجام دے، جن سے اس کی زندگی اثر انداز ہوتی ہو اس کو ماحول کہا جاتا ہے۔

 

۳۔ انسان کی وہ میل جول جس کے تحت انسان اپنی زندگی گذارتا ہے اور اپنی ضروریات زندگی مثلا: کھانے، پینے، لباس، دوا اور دیگر ضروریات کیلئے دوسرے انسانوں کے ساتھ جو تعلقات قائم کرتا ہے وہ سب مل کر اس کا ماحول کہلاتی ہیں۔([4])

 

ماحول کا مفہوم

ماحول کا مفہوم بہت وسیع ہے، جس میں کائنات، زمین، آسمان، پہاڑ، اور تمام مخلوقات، جس میں انسان بھی شامل ہے، ان تمام چیزوں پر منضبط ہونے والے اثرات کو ماحول کا مفہوم ديا جا سکتا ہے۔ اسلام میں ماحول کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات ،جن میں انسان، جنات، سمندر، نہریں، پہاڑ، نباتات، حیوانات اور حشرات شامل ہیں اور یہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے مسخر کردی ہیں۔ زمین پر تمام موجود وہ چیزیں جو چار سُو پھیلی ہوئی ہیں زمین کا ماحول کہلاتی ہیں۔لیکن ایک انسان کی الگ الگ حیثیت سے اس کے مختلف ماحول بھی ہوسکتے ہیں، اسی طرح مختلف خطہ ہائے زمین کے ماحول بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن اس مختصر مقالہ میں جس ماحول سے بحث کی گئی ہے، اس سے مراد کلی طور پر زمین کا ماحول ہے کہ وہ ایسا ہموار اور موزون ہونا چاہئے کہ جس میں انسانوں کا رہن سہن اطمینان و سکون کا باعث ہو۔

 

ماحولیاتی آلودگی کا مطلب اورمفہوم

فطری ماحول میں غیر فطری عناصر کا داخل ہونا آلودگی کہلاتا ہے۔ آزاد دائرۃ المعارف میں آلودگی سے متعلق لکھا گیا ہے:

 

آلودگی (Pollution)سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء شامل کرنا ہے کہ جس سے ماحول میں منفی تبدیلی واقع ہو۔([5]) آلودگی عام طور پرصنعتی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن یہ توانائی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے، شور، حرارت یا روشنی،دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی امریکی افواج پیدا کرتی ہیں۔([6])

 

آلودگی کا مفہوم

انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زمین پر موجود تمام نعمتوں کو درست انداز میں استعمال کر کے ان سے بہرہ مند ہونا تھا۔ وہ اپنے ماحول کی دیکھ بھال کرتا تاکہ وہ خود اور اس کی آنے والی نسلیں اس فطرتی قانون کے ذریعہ حاصل ہونے والی نعمتوں سے سرفراز ہو، اور یہ عالم تمام انسانوں کیلئے گہوارہ امن و سلامتی ہوتا۔لیکن انسان ہی کی بداعمالیوں اور مفاد پرستی کی سوچ نے اس خدائی نظام میں رخنہ ڈال دیا ہے، انسانی کرتوتوں کے نتیجہ میں دنیا کے اندر مختلف قسم کی آلودگیوں نے سر اٹھایا ہے، جس سے دنیا ایک عظیم فساد کی زد میں ہے، جس کو فساد عظیم ہی کہنا مناسب لگتا ہے۔ جس طرح کہ قرآن کریم فرماتا ہے:

 

ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّوَالۡبَحۡرِبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ([7])

 

’’ظاہرہوگیا (اورپھیل گیا) فسادخشکی اورتری میں لوگوں کےان اعمال کی وجہ سےجووہ خوداپنےہاتھوں کرتےہیں۔‘‘

 

دراصل فساد، نظام فطرت میں تبدیلی لانے، بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی ماحول اور گردو پیش کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ نے جو انتطام و انصرام کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے کا نام ہے، اہل لغت فساد کی تعریف کرتے ہوئی لکھتے ہیں:

 

الفساد في اصل اللغة: هو تغير الشیئ عن الحال السليمة خروجھ عن الاعتدال فهو ضد الصلاح، يقال فسد اللبن والفاکهة والهواء اذا اعتراه تغير او عفونة  حتي اصبح غير صالح ثم استعمل لغة في جميع الاشياء والامور الخارجة عن نظام الاستقامة کالبغي والظلم والفتنة، وعليھ قولھ تعالي؛ظهر الفساد في البر والبحر([8])

 

’’فساد کا معنی لغت میں کسی چیز کی حالت سلیم کا بدل جانا اور اعتدال سے نکل جانا ہے "فساد"، "اصلاح" کی ضد ہے، کہا جاتا ہے: "فسد اللبن" دودھ خراب ہوگیا، میوہ خراب ہوگیا، ہوا خراب ہوگئی، جب کہ اس میں تغیر آجائے اور تعفن پیدا ہوجائے اور وہ بگڑ جائے، پھر بعد میں فساد کا لفظ لغوی اعتبار سے ان تمام اشیاء اور اُمور کے لئے استعمال کیا جانے لگا، جو نظام استقامت سے نکل گئے ہوں، جیسے: بغاوت، ظلم، فتنہ، اللہ تعالیٰ کا فرمان:"ظہرالفساد الخ" اسی معنی میں ہے۔‘‘

 

لہٰذا جو لوگ قوانین فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں یا بدل رہے ہیں اور نظام فطرت کو درہم برہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا ایسے اسباب و عوامل پیدا کر رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے، ہوا کی کثافت، فضاء کی آلودگی اور پانی کی سمیت میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے انسانی وجود کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں، در حقیقت وہ پوری انسانیت کے دشمن، خدا کے سر کش، باغی، شیطان کے پیرو، ابلیس کے چیلے اور اسلامی نقطہ نظر سے عظیم فسادی ہیں، اس لئے کہ سب سے پہلے شیطان نے ہی نظام فطرت میں تبدیلی لانے کی کوششوں کا اعلان کیا تھا:

 

وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا۔ۙ لَّعَنَہُ اللّٰہُ ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا۔ۙ وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرخُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ؕ([9])

 

’’اور نہیں پکارتے مگر شیطان سرکش کو، جس پر لعنت کی اللہ نے اور کہا شیطان نے کہ میں البتہ لوں گا تیرے بندوں سے حصہ مقررہ، اور ان کو بہکاؤں گا اور ان کو امیدیں دلاؤں گا اور ان کو سکھلاؤں گا کہ چیریں جانوروں کے کان اور ان کو سکھلاؤں گا کہ بدلیں صورتیں بنائی ہوئی اللہ کی اور جو کوئی بناوے شیطان کو دوست اللہ کو چھوڑ کر تو وہ پڑا صریح نقصان میں۔‘‘

 

آلودگی کی اقسام

ماحول پر آلودگی کے مختلف اندازوں سے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان مختلف النوع طریقہ ہائے انداز کے اعتبار سے آلودگی کی بنیادی دو قسمیں ہیں: (۱) مادی (۲) معنوی ۔

 

مادی آلودگی کی اقسام

 

ہوا کی آلودگی،پانی کی آلودگی،روشنی کی آلودگی،شور و شغب کی آلودگی،دھول غبار کی آلودگی،غذا کی آلودگی۔

 

معنوی آلودگی کی اقسام

 

اخلاقی آلودگی، تہذیب و تمدن کی آلودگی، سیاست کی آلودگی، معاشرتی آلودگی۔

 

ہم یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان مذکورہ تمام آلودگیوں میں معنوی آلودگی کے تحت ذکر کردہ تمام اقسام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، بلکہ ماحول کی دیگر تمام اقسام پر معنوی آلودگی کی زیادہ رعایت کرنی چاہیے تاکہ دیگر مادی آلودگیوں پر قابو پایا جاسکے۔اگر ہم ان تمام اقسام کا تفصیلی جائزہ لیں مستقل ایک کتاب وجود میں آ سکتی ہے۔ مگر ہم صرف ماحول کی چار بنیادی ماحولیاتی آلودگیوں پر تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں بحث کریں گی جو کہ حسب ذیل ہیں:

 

۱۔ فضائی آلودگی ۲۔ زمینی آلودگی ۳۔ آبی آلودگی ۴۔ صوتی آلودگی

 

۱۔ فضائی آلودگی

 

فضا:جا بجا طور پر "فضاء" انسانی حیات کے بقا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اسی فضایہ میلوں پر محیط "ہوا" کا ایک دلربا غلاف مختلف گیسوں سے مرکب ہے، جن میں نائٹروجن %۷۹، آکسیجن %۲۰، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا %۰.۰۳حصہ ہے، یہ فضائی غلاف یکساں طور پر حیوانات، نباتات، انسانوں اورنظر نہ آنے والی کئی مخلوقات کیلئے زندگی کی ضمانت ہے۔جس کے تحت ہم اپنی چوبیس گھنٹوں کی زندگی کے دوران حرکات و سکنات بجا لانے، کام کاج کرنے اور زندہ رہنے کیلئے فضا ہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔

 

اسی فضا کی وسعتوں میں نرم و نازک ہوائیں چلتی ہیں، جن کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی منشاء و مراد سے کسی علائقہ یا خط کے لوگوں کو اس بارش رحمت سے سیراب فرماتا ہے۔ جس طرح ارشاد خداوندہے:

 

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا([10])

 

’’ وہی ہے جس نے چلائیں ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے آگے اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا۔‘‘

 

وَہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ([11])

 

’’اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوش خبری لانے والی اپنی رحمت سے۔‘‘

 

پھر اسی بارش سے زمین پر گل و گلستان، ہریالی اور خوشی بھرے ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور دیگر جانداروں کے کھانے کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح ارشاد خداوندی سے اشارہ ہوتا ہے:

 

فَلۡیَنۡظُرِالۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ۔ اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا۔ ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا۔ فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا۔ وَّعِنَبًا وَّ قَضۡبًا۔ وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا۔ وَّحَدَآئِقَ غُلۡبًا۔ وَّ فَاکِہَۃً وَّ اَبًّا۔ مَّتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ([12])

 

’’فرمایا اب دیکھ لے آدمی اپنے کھانے کوکہ ہم نے ڈالا پانی اوپر سے گرتا ہوا،پھرچیرا زمین کو پھاڑ کر،پھر لگایا اس میں اناج اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھن کے باغ اور میوہ اور گھاس کام چلانےکو تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے۔‘‘

 

مطلب یہ کہ فضا کے اندر یہ مختلف فطری قسم کی تبدیلیاں مثلا: ہوا کے اندر آکسیجن کی کثرت، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، دھوپ،گرمی سردی کا اتار چڑھاؤ پھر موسمی تبدیلیاں یہ سب کچھ ایسا توازن بھرا نظام ہے جوکہ انسان حیات اور دیگر جانداروں کی زندگی کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو جب مختلف طریقوں سے تبدیل کیا گیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی جس سے فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے، فضا کی اسی نوعیت کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔

 

فضائی آلودگی کے بدولت انسانی صحت کیلئے بہت مشکلات اور امراض پیدا ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی معتدل درجہ حرارت میں اختلاف واقع ہوا ہے، فضائی غلاف کو نقصان ہونے کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کا سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ اورمیھین گیسز کی مقدار کا بڑھ جانا ہے۔پھر مختلف یورپی ممالک میں تیزابی بارش اور سیہ ملے پٹرول کے استعمال سے سانس، جگر اور گردہ کی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں، اوزون کے غلاف کی وجہ سے سورج کی خطرناک الٹرا اور گاما شعائیں سیدھا انسانی جلد پر اثر انداز ہونے سے کینسر اور جلدی امراض کا باعث بن رہی ہیں۔ اسی طرح فضائی آلودگی میں دوہویں کا بھی اہم رول ہے، فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والی دیگر چیزیں کچھ اس طرح ہیں:

 

۱۔ صنعتی کارخانوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کے فضلات

 

۲۔ ہتھیاروں اور اسلحہ ڈپوز پر آتشزدگی

 

۳۔ خود ہتھیاروں اور اسلحہ کا استعمال

 

۴۔ ٹریفک کے بہتات اور ان سے نکلتا دہواں

 

۵۔ جنگلات اور باغات کا صفایا

 

۶۔ زہریلی گیسوں اور تابکاری شعائوں کا اخراج

 

۷۔ ہر قسم کا دہواں سگریٹ نوشی و دیگر ذرائع

 

ان تمام اسباب کی بدولت ہماری فضائی خلاء ہمارے لئے بیحد خطرناک نتائج فراہم کر رہی ہیں۔ جس میں انسانی حیات کا رہنا یقینا خطرہ سے خالی نہیں۔ تاہم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے فرمان ہمارے لئے رہنمائی  کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کو پوری یقین سے عمل میں لائیں۔

 

نبوی تعلیمات

رسول اللہﷺ نے ایسی تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے جن سے آگ اور دھواں( فضائی آلودگی) پھیلتی ہو اور وہ انسانوں کیلئے ضرر رساں ہوں۔ ہوا ہو یا پانی یہ دونوں آب و ہوا کے نام سے ماحول کا حصہ ہیں، نبی کریم ﷺ نے انکی حفاظت کی تعلیم دی ہے اور انہیں آلودہ کرنے سے منع کیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:

 

لایبولن احدکم فی الماء الدائم الذی لایجری ثم یغتسل فیہ([13])

 

’’تم میں سے کوئی ٹھہرے پانی میں پیشاب نہ کرے، جو بہتا نہیں اور پھر اس میں غسل کرے۔‘‘

 

آب وہوا کو آلودہ کرنے کا ایک سبب کھلی جگہوں پربول وبراز کرنا بھی ہے،چنانچہ نبی ﷺ نے ا سے منع فرماتے ہوئے کہا:

 

اتقوا الملاعن الثلاثۃ: البراز فی الموارد، وقارعۃ الطریق والظل([14])

 

’’تین ایسی چیزوں سے بچو، جو لعنت کا سبب ہیں: مسافروں کے وارد ہونے کی جگہوں پر، سایہ دار درختوں کے نیچے، اور عام راستوں پر بول وبراز کرنے سے۔‘‘

 

اس مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

اتقوا اللعانین، قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال: الذی یتخلی (یتغوط) فی طریق الناس او فی ظلھم([15])

 

’’بچو تم لعنت کے دو کاموں سے۔ (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا: وہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تو راہ میں(جدھر سے لوگ جاتے ہوں) پائخانہ کرنا، دوسری سایہ دار جگہ میں(جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں) پائخانہ کرنا۔‘‘

 

ماحول،گھر، برتن اور سونے کے کمرے کو پر فضا اور صحت اور آرام کے قابل بنانے کے لئے رسول اللہﷺ نے رات کو سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانپ لینے ، دروازوں کو بند کردینے اور چراغ گل کرنے کا حکم فرمایا ہے:

 

خمرواالآنیۃواجیفوا الابواب و اطفئوا المصابیح([16])

 

’’اپنے برتن ڈھانک لیا کرو، دروازے بند کرلیا کرو اور چراغ بجھا دیا کرو۔‘‘

 

اسی طرح آپ کا ارشاد ہے:

 

ان ھذہ النارانما ہی عدولکم،فاذا نمتم فاطفئو ہا عنکم([17])

 

’’یہ آگ تمہارا دشمن ہے۔ پس جب تم سونے لگو تو اس کو بجھا دیا کرو۔‘‘

 

درختوں کی اہمیت اور کاٹنے کی ممانعت

فضائی آلودگی کوختم کرنے میں درختوں اور جنگلات کا اہم کردار ہے، آپﷺنے ایک طرف درختوں کے لگانے کی ترغیب دی ہےاور ان کے کاٹنے اور ضایع کرنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

 

ان قامت علی احدکم القیامۃ وفی یدہ فسیلۃ فلیغرسھا([18])

 

’’اگر تم میں سے کسی پر قیامت آجائے اور اس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اسے چاہیے کہ گاڑدے۔‘‘

 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمن زندگی کی کوئی امید نہ بھی دیکھے، تب بھی اسے فطرت (نیچر )کی حفاظت کرنی چاہیے، کیوں کہ اپنی ذات میں نیچر ایک حسن ہے، گرچہ کسی انسان کو اس سے فائدہ نہ بھی ملتا ہو۔

 

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺنے فرمایا:

 

مامن مسلم یغرس غرسااویزرع زرعا، فیاکل منہ طیراوانسان او بھیمۃ الاکان لہ بہ صدقۃ([19])

 

’’جو بھی مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی باڑی کریگا اور اس سے جو پرند، انسان یا کوئی چوپایہ کھائے گا، تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوگا۔‘‘

 

ان الذین یقطعون السدر، یصبون فی النار علی وجوھہم صبا([20])

 

’’جو بیری کے درخت کو کاٹتے ہیں، آگ میں چہرے کے بل ڈالے جائینگے۔‘‘

 

۲۔ زمینی آلودگی

 

اس کرہ ارض کا ایک تہائی خشکی جبکہ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ خشک حصہ والی زمین کا ہجم اندازا دو کروڑ چورس کلومیٹر ہے۔ انسان ذات کے پیدائش کا منبع زمین ہے۔ چونکٍہ زمین کا جو ہر مٹی ہے اور وہی انسانیت کی ابتدا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

 

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّار([21]) ’’بنایاآدمی کوکھنکھناتی مٹی سےجیسےٹھیکرا۔‘‘

 

زمین سے مراد ہر وہ چیز ہے جوانسان کے قدموں کے نیچے ہو ، کل ما اسفل فھو ارض([22])

 

زمین کی نزدیکی اور اس کی بآسانی پہنچ کی وجہ سے اس کو کام میں لانا بیحد آسان بنایا گیا ہے، جس طرح کہ ارشاد پاک ہے:

 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ([23]) ’’تونے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ہر طرح سے سنوارا اس کے اوپر درخت پیڑ پودے اگائے۔ پانی کی نہریں اور چشمے جاری کئے۔ سرسبز شاداب کھیتیاں ہرے بھرے جنگلات بنائے، پھول پھل پیدا کئے،روشنی وتاریکی، آب و ہوا کے منظم انتظامات جاری کئے، تاکہ انسانوں کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہو۔تاہم حضرت انسان نے اپنی بے ترتیب طرز حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ وہ انسان ذات کے لئے امن و اطمینان کا باعث بننے کے بجائے وہ کسی طرح بھی انسان کو روند رکھنے کے در پے ہے۔ صنعتی ترقی جو درحقیقت ماحولیاتی تنزلی ہے، نے فطری ماحول کوابتر سے ابتر بنا لیا ہے۔

 

زمینی آلودگی کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں کچھ وہ ہیں جو قدرتی ہیں جبکہ دوسری انسانی نقل و حرکت کے باعث بنتی ہیں۔ انسانی استعمال میں لائی ہوئی چیزیں، فضلہ جات، ٹھوس اور مادی چیزوں کے انبار،صفائی کے نتیجہ میں اکٹھے ہونے والی چیزیں، تعمیرات اور کارخانہ جات کے فالتو مٹیریل پرانی گلی سڑی چیزیں زرعی اور صنعتی فضلہ جات اور دیگر چیزیں زمین کی آلودگی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

 

زمین کا درست استعمال

حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

 

جعلت لی الارض مسجدا وطھورا([24])

 

’’میرے لئے(میری امت کے لئے) زمین کو سجدہ گاہ (عبادت کرنے کی جگہ) اور پاکیزہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘

 

یہ حدیث زمین کے پاک ہونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ زمین کو پاکائی کے ذریعہ/سبب کے طور پر بھی استعمال کرنے میں شامل ہے، جیسا کہ پانی کی عدم موجودگی کی بنا پر زمین کی مٹی سے تیمم کرنے کا بھی حکم ہے۔حضورﷺنے نہ صرف زمین کے درست استعمال کی ترغیب دی ہے بلکہ غیر آباد زمین کو آباد رکھنے سے حاصل ہونے والے فوائد کیلئے بھی ترغیب دی ہے، اور کسی درخت کے لگانے، بیج بونے یا پیاسی زمین کو سیراب کرنے کے کاموں کو نیکی اور احسان والے اعمال قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:

 

من احیا ارضا میتۃ لہ بہا اجر([25]) ’’ جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کرتا ہے تو وہ اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔‘‘

 

اسی بنا پریہ حکم بتایا جاتا ہے کہ جو شخص بھی کسی غیر آباد زمین کو سیراب کرتا ہے تو وہ اس کی ملکیت شمار ہوتی ہے۔

 

۳۔ آبی آلودگی

 

پانی نفس حیات کی بنیاد ہے اور یہی چیز اس کے اہم ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

 

وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ([26])

 

’’اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا، پھر یہ (کفار) ایمان کیوں نہیں لاتے۔‘‘

 

وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ([27]) ’’اور اللہ تعالیٰ نے ہر چلتے پھرتے جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا ہے۔‘‘

 

اس زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر اس پانی کا سب سے زیادہ %۹۷  حصہ سمندروں کی صورت میں موجود ہے۔ %۲ برف کے پہاڑ ہیں، جنسے برف باری اور بارش ہوتی رہتی ہے،ساتھ ہی درجہ حرارت بڑھنے کے بدولت یہ پانی دریاؤں اور نہروں کی صورت میں خشکی پر کتب لانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اور پھر زیر زمین پانی ہی انسانوں کو سب سے زیادہ کام آتا ہے۔پانی کا فطری طور پر ایک خاص رنگ و بو اور ذائقہ ہوتا ہے، جب مضر صحت مادہ کی بعض اشیاء پانی کی اس فطری خواص کو بدل دیں تو یہ "آلودہ پانی" کہلاتا ہے۔آبی آلودگی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن کے باعث منہ پر رکھا ہوا گلاس اور بچھرا ہوا سمندر دونوں آلودہ ہونے میں برابر ہو سکتے ہیں۔مٹی، ریت اور کچرے کی وجہ سے قدرتی طور پر پانی آلودہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی کسب کے نتیجہ میں بھی آبی آلودگی پھیلتی ہے مثلا:صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو آبی گذر گاہوں اور نہروں میں پمپ کیا جاتا ہے، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب ہے۔ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ سمندری آلودگی کا سبب خام تیل اور دیگر استعمال شدہ چیزوں کا سمندر میں پھینکنا سبب بنتا ہے۔یہ تمام چیزیں ملکر پانی کی فطری خواص کوختم کردیتی ہیں نتیجہ میں پانی صحت اور انسانی استعمال کیلئے بیحد مضر ہوجاتا ہے۔  آنحضرت ﷺکی مبارک تعلیمات میں اس آبی آلودگی کا سدباب کرنے کا پورا سامان موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔حضورﷺ نے اپنی امت کو فطرتی سرچشموں میں باہمی شرکت کو برانگیختہ کرتے ہوئے فرمایا :

 

المسلمون شرکاء فی ثلاث: الماء والکلاء والنار([28])

 

’’مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: (۱)پانی،(۲) گھاس،(۳) آگ۔‘‘

 

اسی طرح پیاسے کو پانی سے محروم رکھنے کو قابل مؤاخذہ جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا:

 

من منع فضل مائہ او فضل کلائہ منعہ اللہ فضلہ یوم القیامۃ([29])

 

’’جو شخص اپنا باقی ماندہ پانی یا باقی ماندہ گھاس روکے رکھتاہے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے اپنے فضل سے محروم کردینگے۔‘‘

 

در حقیقت زمین کا درست استعمال اور پانی کی حفاظت اور حیوانات کے ساتھ حضورﷺ کا حسن برتاؤ تواضع اور عاجزی وانکساری کی بہت واضح دلیل ہے اور ماحولیات کی حفاظت کی بھی واضح دلیل ہے۔

 

۴۔ صوتی آلودگی

 

صوتی یا آواز کی آلودگی کا تعلق سننے اور انسانی سماعت سے ہی۔ سماعت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے کہ انسانی پیدائش کے بعد سب سے پہلے جس کو شمار کیا گیا ہے، وہ سماعت ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

 

وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَوالۡاَفۡـِٕدَۃَ ۙ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ([30])

 

’’اور دیئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل، تاکہ تم احسان مانو۔‘‘

 

سماعت علم کے حصول کا ایک اہم وسیلہ ہے، انسانی جسم کے اندر سماعت کا نظام ایک خاص انتظام سے کام کرتا ہے چنانچہ ہر حرکت کرنے والی چیز حرکت کرتے وقت ایک آواز کرتی ہی، یہ آواز  ہوا، پانی اور ٹھوس چیزوں سے لہروں کے ذریعہ سفر کرتا ہے، انسانی کانوں تک پہنچنے والی ان لہروں کا ہجم 20 hears سے 20,000hearts  ہوتا ہے۔ اگر اس فریکوئنسی سے کم یا زیادہ حجم کی لہریں انسانی سماعت سےٹکرائینگی تو انسانی کان اس کو نہیں سن پائیں گے۔آواز کی طاقت کو ڈیسی بیل (DB) سے ناپا جاتا ہے عام انسان20 تا 100ڈی بی کے حامل آواز کو سن سکتا ہے۔ جب کسی آواز کی طاقت 100dp یا 20,000 heartsسے بڑھ جائے تو انسان کو سننا محال ہوجاتا ہے۔ اس کو"صوتی آلودگی" کہا جاتا ہے۔

 

صوتی آلودگی کا پریشر اورتسلسل انسانی اعصاب اور اس کی جسمانی توانائیوں کو یک سر متاثر کرتا ہے۔ بسا اوقات انسان اس صوتی آلودگی کی بدولت معذور ہوجاتا ہے۔قرآن نے صوتی آلودگی کو ایک منفرد انداز میں نمایاں کیا ہے ،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

 

وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَالۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ([31])

 

’’اور نیچی کر آواز اپنی بے شک بری سےبری آواز گدھے کی آواز ہے ۔‘‘

 

اسلام نے صوتی آلودگی کو کم کرنے کا کتنا اہتمام کیا ہے کہ بڑی آواز میں بولنے کے بجائے خود فضول بولنے کو بھی ناگوار تصور کیا گیا ہے اورسکوت و خاموشی کو پسندیدہ عمل شمار کیا گیا ہے،جس طرح آپﷺنے فرمایا:

 

من صمت نجا([32]) ’’جو خاموش رہا، نجات پاگیا۔‘‘

 

ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے بولنا بھی ایذا رسانی كی ایك صورت ہے، حتیٰ كہ قرآن كریم كی تلاوت جیسی عبادت كو بھی ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں ناپسند كیا گیا ہے جس سے دوسروں كی عبادت میں خلل آئے یا تكلیف كا باعث ہو۔

 

عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لأبي بكر: مررت بك وأنت تقرأ وأنت تخفض من صوتك، فقال: إني أسمعت من ناجيت، قال: ارفع قليلا، وقال لعمر: مررت بك وأنت تقرأ وأنت ترفع صوتك، قال: إني أوقظ الوسنان وأطرد الشيطان، قال: تخفض قليلا([33])

 

’’حضرت ابو قتادہؓ روایت فرماتے ہیں : حضور اكرم ﷺنے حضرت ابو بكر صدیق ؓسے فرمایا : (رات كو) آپ كے پاس سے میرا گزر ہوا تو آپ ہلكی آواز میں تلاوت فرما رہے تھے، تو حضرت ابو بكر صدیق ؓنے فرمایا : میں اس (ذات) كو سناتا ہوں جس سے میری سرگوشی رہتی ہے، تو حضور اكرم ﷺ نے فرمایا : (آواز كو) تھوڑا سا بلند كر دو، اور حضرت عمرؓ سے فرمایا : آپ كے پاس سے بھی میرا گزر ہوا تو آپ بہت بلند آواز میں تلاوت فرما رہے تھے، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں سوتے كو جگاتا ہوں اور شیطان كو بھگاتا ہوں، تو حضور اكرم ﷺنے ان سے فرمایا : (اپنی آواز كو) تھوڑا پست كر دو۔‘‘

 

وعظ و نصیحت میں بھی آواز کو پست رکھنے کی تعلیمات

نبی کریم ﷺ نے آواز کو عام حالات میں بھی نیچا رکھنے کی تعلیم فرمائی ہے اور اس بات کی اس حد تک اہمیت مد نظر رہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں بھی آواز کو پست رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں:

 

عن أبي نضرة أن عائشة رضي الله عنها قالت لقاص المدينة: ضع صوتك عن جلسائك، و تحدث ما أقبلواعليك بوجوههم، فإذا أعرضوا عنك فأمسك، وإياك والسجع في الدعاء([34])

 

’’حضرت ابو نضرۃؓ روایت كرتے ہیں كہ ایك دن امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ كے واعظ سے كہا : اپنی آواز كو شركاء مجلس كے سامنے پست ركھو، اور ان سے وعظ و نصیحت كرو جو آپ كے سامنے موجود ہیں، اگر وہ آپ سے چلے جائیں تو وعظ و نصیحت كو روك دو، اور دعا میں الفاظ كی بناوٹ (تك بندی) سے دور رہو۔‘‘

 

عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قلت له: أ ذكرت هذا الحديث عن أبيك؟ قال: نعم، قال: أرسلت عائشة رضي الله عنها إلى أبي عمر رضي الله عنه في قاص كان يقعد على بابها: إن هذا قد آذاني وتركني لا أسمع الصوت، فأرسل إليه فنهاه، فعاد، فقام إليه أبي عمرُ رضي الله عنهما بعصاه حتى كسرها على رأسه([35])

 

’’حضرت نافعؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓسے دریافت كیا : كیا یہ حدیث آپ اپنے والد سے روایت كرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اور كہا: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایك ایسے واعظ (خطیب) كی میرے والد حضرت عمرؓ كو شكایت كی كہ جو ان كے دروازے پر بیٹھتا تھا (اور بلند آواز سے وعظ كرتا تھا)، كہ اس شخص نے مجھے تكلیف پہنچائی ہے، اور مجھے كسی آواز سننے كے قابل نہیں چھوڑا، تو حضرت عمرؓ نے اس واعظ كو پیغام بھیج كر ایسا كرنے سے منع فرمایا، (لیكن وہ باز نہ آیا) اور اس نے وہی حركت دہرائی، پھر میرے والد حضرت عمر ؓ اپنی لاٹھی كے ساتھ اس كی طرف گئے اور وہ لاٹھی اس كے سر پر توڑ دی۔‘‘

 

چونكہ اس خطیب كی آواز بہت بلندتھی اور اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا كی یكسوئی میں فرق آتا تھا، اور یہ حضرت فاروق اعظم ؓ كی خلافت كا زمانہ تھا، اس لئے حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓسے شكایت كی كہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر كے سامنے وعظ كرتے رہتے ہیں، جس سے مجھے تكلیف ہوتی ہے، اور مجھے كسی اور كی آواز سنائی نہیں دیتی، تو اس كے نتیجے میں حضرت عمرؓ نے اس خطیب پر تعزیری سزاجاری فرمائی۔بات صرف یہ نہیں تھی كہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی تكلیف كا ازالہ كرنا چاہتی تھی، بلكہ دراصل وہ اسلامی معاشرت كے اس اصول كو واضح اور نافذ كرنا چاہتی تھیں كہ آواز کوكسی كی تكلیف کا ذریعہ نہ بناؤ،کیونکہ آواز جب حد سے زیادہ بڑھ جائے، تو تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔حضرت عطاء بن أبی رباح (مشہور تابعی ہیں) فرماتے ہیں :

 

ینبغی للعالم أن لایعدو صوتہ مجلسہ([36]) ’’عالم كو چاہیے كہ اس كی آواز اس كی اپنی مجلس سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

 

جنگلی جیوت((wild life

 

ماحو لیات کا ایک اہم مسئلہ جنگلی جیوت کا تحفظ بھی ہے۔ اس حوالے سے نبیﷺنے ہمیں سکھایا ہے، کہ ہمارے ماحول میں موجود مخلوقات ہماری طرح کی مخلوقات ہیں جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ اللہ نے ان کے ہم پر حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ ان کا قتل اور ان کا اتلاف کسی معتبر مصلحت کے بغیر جائز نہیں۔چنانچہ بخاری نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

 

قرصت نملۃ نبیا من الانبیاء فامر بقریۃ من النمل فاوحی اللہ الیہ: ان قرصتک نملۃ احرقت امۃ تسبح اللہ۔

 

’’ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے کسی ایک نبی کو کاٹ لیا، تو اس نے چیونٹیوں کے گائوں کو جلا دینے کا حکم دیا، تو اللہ نے اس کےپاس وحی بھیجی، کہ اگرتمہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو تم نے ایک ایسی خلقت کو جلاکر خاک کر دیا، جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی۔‘‘

 

یہ مفہوم قرآن کریم کی ان آیات میں بھی پایا جاتا ہے:

 

وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ؕ([37])

 

’’اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح۔‘‘

 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ ؕ وَ کَثِیۡرٌ حَقَّ عَلَیۡہِ الۡعَذَابُ ؕ([38])

 

’’تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت آدمی اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا عذاب۔‘‘

 

یہ آیات اس طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان چوں کہ اسی ماحول کا حصہ ہے، اس حیثیت سے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسرے ماحولیاتی عناصر کی حفاظت کرےاور ان کوتلف ہونے سے بچائے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے ماحولیات کے دوسرے عناصر کو بھی اس کے تابع بنا دیا ہے، جیسے: سورج، چاند اور حیوانات وغیرہ۔ انسان پر انکی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہ ان کی طرف سے اللہ تعالی کی ان پر بے شمار نعمتوں کا شکرانہ ہوگا۔

 

خلاصہ

آنحضرتﷺ کی مبارک زندگی تمام انسانوں کی ابدی کامرانی کی ضامن ہے اور زندگی کے تمام مسائل میں آپ نے اپنی امت کو بہم ہدایت کا سامان مہیا کیا ہے۔ماحولیاتی آلودگی جدید دور کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اخبارات، جرائد، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ادارہ جات اور انجمنیں اس کی آگہی اور سدباب پر اپنے تحرکات لے رہی ہیں۔تاہم ایک مسلمان اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے سچے امتی کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے قابل وثوق انداز میں آپ ﷺکی تعلیمات کو چننا چاہئے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پاک : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنۃ پر تعمیل کرتے ہوئےمجموعی آلودگی کے تدارک کو تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔جس میں مسئلہ آلودگی، اس کی اہمیت، تعارف اور اقسام کو بیان کرنے کے بعد تعلیمات نبوی ﷺمیں موجود اس کا حل بیان کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ امت مسلمہ اور اقوام عالم ان نبوی تعلیمات سے بھرپور انداز سے مستفید ہونگے۔

حوالہ جات

  1. الاحزاب:21
  2. بقرہ: ۱۷
  3. ابو زریق، علی رضا، البیئۃ والانسان، طبع:سلسلہ دعوۃ الحق، اصدار دعوۃ عالم الاسلامی، 1416ھ، ص:7
  4. شبلی، احمد ابراھیم، البیئۃ والمناہج الدراسیۃ، طبع: مؤسسۃ الخلیج العربی، الریاض،1984ع، ص:16
  5. Pollution-definition from the Merriam, Webster online dictionary
  6. ‘’U.S. Military is the world’s largest polluter’’ with reference of https://ur.m.wikipedia.org
  7. روم:۴۱
  8. مفردات الامام راغب الاصفہانی، والمصباح، والقاموس المحیط، واساس البلاغہ، بحوالہ: المدخل الفقہی العام للشیخ مصطفی احمد الزرقا، طبع: دوم، سال: 1425ھ/2004ع، دار القلم، دمشق، جلد:2، صفحہ: 673
  9. نساء:117_119
  10. الفرقان : ۴۸
  11. الاعراف:۵۷
  12. عبس:24_32
  13. صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب البول فی الماء الدائم
  14. سنن ابوداؤد، کتاب الطہارۃ
  15. صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطریق والظلال
  16. بغوی، محیی السنۃ، ابو محمد، الحسین بن مسعود بن الفراء البغوی الشافعی، (وفات: 516ھ)، تحقیق: شعیب الارناؤط- محمد زہیر الشاویش، ط: المکتب الاسلامی، طبع دوم، سال: 1403ھ/1983ع، شرح السنۃ، 11/391
  17. صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، باب الامر بتغطیۃ الاناء وایکاء السقاء
  18. شیبانی، ابو عبد اللہ، احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد(164ھ-241ھ)، مسند احمد، تحقیق: شعیب الارناؤط، عادل مرشد وآخرون، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولی: 1421ھ/2001ع، جلد: 3، صفحہ 183، 184 اور 191
  19. صحیح البخاری، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ
  20. بیہقی، ابو بکر، احمد بن الحسین بن علی بن موسی الخسروجردی الخراسانی (وفات: 458ھ) ، السنن الکبری للبیہقی، تحقیق: محمد عبد القادر عطا، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، طبع سوم: 1424ھ/2003ع، جلد: 9، صفحہ: 160ھ
  21. الرحمن:14
  22. الزبیدی، مرتضی، ابو الفیض، محمد بن محمد بن عبد الرزاق الحسینی (وفات: 1205ھ)، تاج العروس من جواہر القاموس، تحقیق: مجموعۃ من المحققین، ط: دار الہدایہ، باب الالف
  23. الحج: ۶۵
  24. صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم "جعلت لی الارض مسجدا"
  25. شیبانی، ابو عبد اللہ، احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد(164ھ-241ھ)، مسند احمد، تحقیق: شعیب الارناؤط، عادل مرشد وآخرون، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولی: 1421ھ/2001ع، جلد: 3، صفحہ 313
  26. انبیاء: ۳۵
  27. النور: 45
  28. سنن ابن ماجہ، کتاب الرہون، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث
  29. شیبانی، ابو عبد اللہ، احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد(164ھ-241ھ)، مسند احمد، تحقیق: شعیب الارناؤط، عادل مرشد وآخرون، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولی: 1421ھ/2001ع، جلد: 2، صفحہ 179اور221
  30. النحل:78
  31. لقمان: ۱۹
  32. شیبانی، ابو عبد اللہ، احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد(164ھ-241ھ)، مسند احمد، تحقیق: شعیب الارناؤط، عادل مرشد وآخرون، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولی: 1421ھ/2001ع، جلد: 2، صفحہ 159
  33. جامع الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی قراءۃ اللیل
  34. ابن شبہ، ابو زید، عمر بن شبہ النمیری، البصری(173ھ-262ھ): تاریخ المدینۃ المنورۃ ج1، ص13، تحقیق:فہیم محمد شلتوت۔سال طباعت ندارد
  35. ابن شبہ، ابو زید، عمر بن شبہ النمیری، البصری(173ھ-262ھ): تاریخ المدینۃ المنورۃ ج1، ص 15، تحقیق:فہیم محمد شلتوت۔ سال طباعت ندارد
  36. السمعانی،ابو سعد، عبد الکریم بن محمد:ادب الاملاء والا ستملاء ، تحقیق: سعید محمد اللحام، ط: مكتبۃ الھلال بیروت، الطبعۃ الأولی، ۱۴۰۹ھ/ ۱۹۸۹ء، ص ۶۱
  37. الانعام:38
  38. الحج:18
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...