Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Habibia Islamicus > Volume 2 Issue 1 of Habibia Islamicus

ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں احتساب کا کردار: سیرت طیبہﷺکی روشنی میں |
Habibia Islamicus
Habibia Islamicus

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029632_1181

Pages

1-14

PDF URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/download/14/16

Chapter URL

https://habibiaislamicus.com/index.php/hirj/article/view/14

Subjects

Accountability Development Construction Nation Seerah Accountability Development Construction Nation Seerah.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

This is a familiar fact that accountability has a primary, important and key role to reform and develop an individual as well as a society. Quran (The Holy Book) and Sunnah (The Sayings the Prophet Muhammad (PBUH) emphasize the acco-untability and the Seerah (Prophet’s life) is its practical example. The Prophet (PBUH) mentioned the importance of individual accountability, told the people to follow the principle of accountability and also set up a collective account-ability system. On various occasions, He inquired the governors and investigated their financial matters. He also strongly condemned crimes such as exploitation, corruption, deception and cheating; those are the result of lack of accountability and He communicated the Ummah to stay away from the devastating crimes like these. The study of Seerah (the Prophet’s life) shows that He strongly empha-sized the accountability among all other matters. The Prophet (PBUH) used practical measures for justice and equality, giving people their rights and elimin-ating all kinds of oppression, abuse, injustice, exploitation and corruption. It was the effect of the teaching and training of the Prophet (PBUH) that the lives of companion’s رضی اللہ عنہم اجمعین of Prophet Muhammad (PPBUH) are the basic source of guidance for mankind till the world due to accountability. The compa-nions of the Prophet (PBUH) used to arrange the accountability and also self-accountability, as a result, the society was a manifestation of transparency, peace fulness, ideal, and brotherhood. This article explains the need and importance of accountability, role of accountability in the country's development, different types of accountability in the light of Seerah. As a result, firstly, we may be able to step up towards the formation of a righteous society. Secondly the rules and regulations for the establishment of an ideal welfare state in the light of Seerah may come into existence.

معاشرے اور ملت کا وجود افراد کے وجود سے وابستہ ہے، اور معاشرے کی بھلائی و برائی کا دارومدار بھی افراد کی بھلائی اور برائی پر موقوف ہے، کیونکہ فرد ہی معاشرے کی عمارت کی بنیادی اکائی اور اینٹ ہے جس کے اثرات براہِ راست ملک و ملت اور معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ فردِ انسانی کے اندر بھلائی اور برائی دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں، چنانچہ جب برائی کی صلاحیتیں غالب ہو جاتی ہیں تو انسان معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے پورا معاشرہ بدامنی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، اور جب فرد کے اندر اچھائی اور نیکی کی صلاحیتیں غالب ہو جائیں تو انسان کی اپنی زندگی بھی کامیاب بن جاتی ہے اور یہ معاشرے کیلئے بھی کارآمد اور مفید بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ان دونوں صلاحیتوں کے بیان کے بعد بھلائی کی افادیت ارشاد فرمائی ہے جس سے انسان کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ اگر آپ کارآمد اور مفید بننا چاہیں تو اس کا واحد راستہ بھلائی کو اپنانے کا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا،قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا،وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا۔[1]

 

’’اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کو برائی اور اچھائی دونوں سمجھا دیں، یقیناً وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو سنوارا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملایا۔‘‘

 

اس آیتِ کریمہ نے اچھائی اور نیکی کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کو باعثِ نجات و فلاح قرار دیا ہے۔ اسی طرح سیرتِ طیبہ میں بھی اس کی بڑی تاکید وارد ہوئی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ میں اپنی صلاحیتوں کے مثبت استعمال کی راہنمائی ملتی ہےاور اس کے اصول و طریقہ کار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جن میں سب سے مقدم چیز محاسبہ ہے۔

 

احتساب کا مفہوم

یہ باب افتعال کا مصدر ہے، اس کا مجرد حَسِب ہے، جس کے بارے میں علامہ جوہری فرماتے ہیں:

 

حسب حسبته أحسبه بالضم حسبا وحسابا وحسبانا وحسابة، إذا عددته۔[2]

 

حسب کا معنیٰ ہے گننا اور شمار کرناہے۔علامہ زبیدی احتساب کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

 

والاحتساب: طلب الأجر۔[3] ’’احتساب اجر وثواب طلب کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘

 

محمد ازہریؒ احتساب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

قال ابن السِّكيت: احْتَسَبْتُ فلاناً: اخْتَبَرْتُ ماعنده، والنساء يَحْتسِبن ماعند الرِّجال لهن أي يَخَتَبِرْن۔[4]

 

’’ابن السکیت کا فرمان ہے کہ"احْتَسَبْتُ فلاناً" کا معنیٰ ہے کسی کا امتحان لینا اور جانچنا، عورتیں اپنے شوہر کے ساز وسامان کا احتساب کرتی ہیں یعنی اس کو جانچتی رہتی ہیں اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔‘‘

 

چونکہ احتساب میں جانچنے اور خبرگیری کا معنیٰ پایا جاتا ہے اس لئے یہاں پر احتساب سے مراد اپنے نفس اور ماتحتوں کا محاسبہ اور

 

خبر گیری کرنا اور انہیں غلط کاموں سے روکنا ہے۔

 

احتساب کی قسمیں

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت میں غور کرنے سے احتساب کی دو بنیادی قسمیں سامنے آتی ہیں:

 

انفرادی احتساب

اس کو اصلاحِ نفس اور اصلاحِ فرد سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات کی اصلاح اور تربیت کی فکر کرے، اپنی بھلائی کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرے اور برائیوں اور رذالتوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ یہ معاشرے کی صلاح و بہتری کی بنیادی اکائی ہے کیونکہ معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہے، افراد کی صلاح و فساد کا اثر پورے معاشرے پر مرتب ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے سب سے پہلا کام افراد کی اصلاح کا کیا، تاکہ اس کے نتیجے میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آ سکے اور امت کو بھی اس طرف خصوصی طور پر متوجہ فرمایا۔ آپﷺ کی تعلیمات میں خود احتسابی اور اصلاحِ نفس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

 

ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب۔[5]

 

’’غور سے سنو، جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو پورا بدن درست ہو جاتا ہے اور جب وہ فاسد ہو جائے تو سارا بدن فاسد اور بیکار ہو جاتا ہے، گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘

 

اس حدیث سے خود احتسابی اور اصلاحِ نفس کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے کہ آپﷺ نے دل کی اصلاح کے بغیر پورے جسم کو بے کار قرار دیا ہے۔ لہٰذا تزکیہ نفس اور اصلاحِ قلب فرد اور معاشرے کی حقیقی تعمیر و ترقی کے لئے ازحد ضروری ہے۔ جس طرح آپﷺ نے خود احتسابی کی اہمیت بتلائی ہے اسی طرح آپﷺ کی سیرتِ طیبہ اور اسوہ حسنہ سے اس کے اصول اور طریقہ کار بھی واضح ہوتا ہے، جن میں چند اہم اصولوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

 

تصحیحِ نیت

فرد کی اصلاح کے لئے ایک بنیادی اصول اور ضروری امر نیت کی درستگی ہے کہ انسان ہر جائز کام کسی صحیح مقصد کے تحت انجام دے، اور ہر کام کی انجام دہی کے وقت استحضارِ نیت ہو، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی و سرخروئی پیشِ نظر رہے۔ امام بخاریؒ نے "الجامع الصحیح" کی ابتداء رسول اللہﷺ کی اس حدیث مبارک سے فرمائی ہے جس میں نیت کی درستگی کی اہمیت بتلائی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه۔[6]

 

’’یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کی نیت ہوتی ہے، چنانچہ جس نے دنیوی مقاصد کے لئے ہجرت کی یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لئے ہو گی جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘

 

اس حدیث نے نیت کی اساسیت واضح فرما دی کہ نیت تمام اعمال کے لئے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، جس پر اعمال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ محدثین نے اس حدیث کو بڑی اہمیت دی ہے یہاں تک کہ اسحاق بن راہویہ نے اس کو ربعِ دین (دین کا چوتھائی حصہ) قرار دیا ہے، جامع العلوم والحکم میں آپؒ کا ارشاد ان الفاظ میں منقول ہے:

 

عن إسحاق بن راهويه قال أربعة أحاديث هي من أصول الدين حديث عمر إنما الأعمال بالنيات۔[7]

 

’’اسحاق بن راہویہ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ چار احادیث اصول دین میں سے ہیں ، ایک ان میں سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ ہے، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘

 

جبکہ امام شافعیؒ کا فرمان ہے:

 

يدخل في حديث الأعمال بالنيات ثلث العلم۔[8] ’’مذکورہ حدیث ایک تہائی علم پر مشتمل ہے۔‘‘

 

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ حدیث دینی علوم میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ کسی بھی عمل کی قبولیت اور عبادت بننے کے لئے نیت ضروری ہے، اگر نیت درست اور خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کی ہو تو وہ عمل عبادت بن جاتی ہے ورنہ اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اصلاحِ نیت میں اخلاص، تقوٰی، پرہیز گاری اور توکل کا بنیادی کردار ہے، جب آدمی ان صفاتِ حمیدہ اور اخلاقِ عالیہ سے متصف ہو جائے تو اس کی نیت میں اخلاص پیدا ہونے لگتی ہے جس سے اس کے اعمال میں مثبت تبدیلی آنے لگتی ہے۔ لہٰذا فرد کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر عمل میں اپنی نیت کا جائزہ لے کر اس کی درستگی اور اخلاص کا اہتمام کرے۔

 

خود احتسابی

فرد کی اصلاح کیلئے دوسرا اہم اصول خود احتسابی کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اعمال و اخلاق پر نظر رکھے اورکبھی اپنے نفس کی اصلاح سے غافل نہ رہے بلکہ وقتاً فوقتاً اپنا جائزہ لیتا رہےاور اپنے اعمال کو سنت کے سانچے میں ڈھالتا رہے، یہ اصلاحِ نفس اور تزکیۂ باطن کا بہترین ذریعہ ہے۔حضورﷺ کی سیرتِ طیبہ اس حوالے سے کامل راہنمائی اور ہدایات فراہم کرتی ہے، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

والله إني لأستغفرالله وأتوب إليه في اليوم أكثر من سبعين مرة۔[9]

 

’’اللہ تعالیٰ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔‘‘

 

خود احتسابی کی اس سے واضح مثال کیا ہو سکتی ہے کہ آپﷺ معصوم و مغفور ہونے کے باوجود روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ (اور بعض روایات کی رو سے سو سے زیادہ) توبہ و استغفار فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ کی صحبت کا اثر تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں بھی یہ صفت بدرجۂ اتم موجود تھی، چنانچہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ دل کی کیفیت بدلنے پر "نافق حنظلة" کی صدا لگاتے ہوئے گھر سے نکلے اور جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو وہاں بھی اپنے منافق ہونے کا اقرار کیا۔ آپﷺ نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ جب ہم آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں اور جنت و جہنم کا تذکرہ سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہیں، مگر جب گھر جاتے ہیں تو بیوی، بچوں اور جائیداد کی فکر میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ میری مجلس میں اور ذکر کے وقت آپ لوگوں کی جو حالت ہوتی ہے اگر وہ ہر وقت رہے تو فرشتے آپ سے بستروں پر اور راستوں میں مصافحہ کرنے لگیں گے، مگر وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔[10]

 

رسول اللہ ﷺ کے منہجِ تعلیم و تربیت میں خود احتسابی اور تزکیۂ نفس کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، آپﷺ بذاتِ خود بھی اس کا اہتمام فرماتے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی کا دل باطنی امراض (کِبر، بغض، حسد، کینہ، دنیا کی محبت کے غلبہ) سے صاف ہونے لگتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی نیت کی درستگی اور اعمال کی عمدگی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کی طرف رسول اللہ ﷺکے اس مبارک ارشاد میں اشارہ ہے:

 

إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم۔[11]

 

’’یقیناًاللہ تعالیٰ آپ کی شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتے بلکہ آپ کے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں۔‘‘

 

دل کی صفائی کا اثر انسان کی نیت اور پورے اعمال پر پڑتا ہے، اسی لئے آپﷺنے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے، نیز اس حدیث سے خود احتسابی اور اپنے اعمال واخلاق، نیت و کردار کی فکر اور احتساب کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ آدمی کو ہر وقت اپنے دل اور اعمال پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انہی چیزوں کی قدر ہےاور اسی پر انسان کی کامیابی اور ترقی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی صحبت و تربیت کی بدولت صحابہ کرام خود احتسابی کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

 

حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا، وتزينوا للعرض الأكبر، وإنما يخف الحساب يوم القيامة على من حاسب نفسه في الدنيا۔[12]

 

’’اپنا محاسبہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور بڑے دن کی پیشی کے لئے تیاری کرتے رہو، اس لئے کہ جو شخص دنیا میں اپنا محاسبہ کرتا رہے قیامت کے دن اس کا حساب آسان ہو گا۔‘‘

 

یہ تربیتِ نبویﷺ کا اثر تھا کہ آپﷺ کے شاگرد نہ صرف ذاتی طور پر خود احتسابی پر کاربند رہے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے رہے۔ اس سے خود احتسابی کی اہمیت اور انسانی زندگی پر اس کے بہترین اثرات مرتب ہونے کا اندازہ بھی باسانی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کو قیامت کے دن حساب کی آسانی کا سبب قرار دیا، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے تو اس سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو وہ اس کی تلافی کرے گا، اور مستقبل کے اعمال کو بہتر بنانے کی فکر کرتا رہے گا، تاکہ ان میں حسن و کمال پیدا ہو سکے۔

 

فکرِ آخرت

اصلاحِ فرد کے حوالے سے تیسرا اہم اصول جو ہمیں سیرتِ طیبہ سے ملتا ہے وہ ہے فکرِ آخرت۔ کہ آدمی کبھی آخرت سے غافل نہ رہے بلکہ اپنی اصل زندگی جو کہ آخرت کی ہے اس کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے، اور اس کے مطابق لائحہ عمل بنا کر زندگی گزارے، ہر اس کام سے اجتناب کرے جو اس کی آخرت کے لئے مُضر ہو، کیونکہ ایک مسلمان کا عقیدہ اور نظریہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کی اصل زندگی آخرت کی ہے۔ قرآن کریم نے اس موضوع کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے، مختلف مقامات پر مختلف انداز اور پیرایوں میں آخرت کا تذکرہ کرکے انسانوں کو اس کی تیاری کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایک مقام پر ارشادِ خداوندی ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔[13]

 

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔‘‘

 

یہ آیت انسانیت کو یہ دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ وہ آنے والے کل یعنی قیامت کی فکر کرتے رہیں اور اس کی تیاری سے کسی وقت غافل نہ ہوں۔ اسی طرح آپﷺ کے اسوہ حسنہ اور سیرتِ طیبہ میں فکرِ آخرت کی اہمیت بیان فرمائی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ بذاتِ خود روزانہ عذابِ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عذابِ قبر کے متعلق پوچھا :

 

فما رأيته بعد في صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر۔[14]

 

’’اس کے بعد میں نے آپﷺ کو جس نماز میں بھی دیکھا تو آپ عذابِ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔‘‘

 

آپﷺ نے امت کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

اعوذوا بالله من عذاب القبر۔[15] ’’قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔‘‘

 

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فکرِ آخرت کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

أكثروا ذكرهاذم اللذات الموت۔[16] ’’لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘

 

خلاصہ یہ کہ نبوی تعلیم و تربیت کا لازمی اور بنیادی حصہ افراد کی اصلاح اور تزکیہ نفس تھا جس کو ہم انفرادی احتساب سے تعبیر کر سکتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے تربیتی منہج کا ایک اہم حصہ اپنے نفس، اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار کی اصلاح، تزکیہ اور احتساب تھا۔ جو ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے بنیادی اکائی ہے کیونکہ جب افراد کے اعمال و اخلاق درست ہوں گے تو اس کے مثبت اثرات ملک وملت پر بھی پڑیں گے۔

 

اجتماعی احتساب

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں احتساب کی دوسری قسم اجتماعی احتساب ہے، جس سے مراد عمومی احتساب اور محاسبہ ہے یعنی معاشرے کے تمام افراد کا محاسبہ کرنا اور جرائم و برائیوں پر ان کی روک ٹوک کرنا۔ جس طرح فرد کی اصلاح کے لئے انفرادی احتساب لازمی اور ضروری ہے اسی طرح معاشرے اور ملک کی درستگی اور ترقی کے لئے اجتماعی احتساب لازمی و ضروری ہے، جس معاشرے میں عمومی اور مساوی احتساب ہو گا وہاں کا نظام مثالی اور معیاری ہو گا اور وہ معاشرہ روبہ ترقی ہو گا، اور جس معاشرے میں مساوی اور اجتماعی احتساب کا فقدان یا کمی ہو گی وہ معاشرے روز بروز زوال پذیر ہو گا۔ اجتماعی احتساب کا عمل عدلیہ اور نظامِ قضا کے ذریعے وجود میں آتا ہے، جب عدالتی نظام صحیح اور عادلانہ ہو تو اس کے مثبت اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں، اور پورے معاشرے میں امن و امان اور چین و سکون کا دور دورہ ہوتا ہے، لیکن اگر عدالتی نظام عادلانہ، منصفانہ اور شفاف نہ ہو تو وہ ملک و معاشرہ کبھی بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔

 

اسلامی تعلیمات اور رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں جہاں انفرادی احتساب پر زور دیا گیا ہے وہاں اجتماعی اور مساوی احتساب کی بھی بڑی تاکید ہے۔ اسلام میں اجتماعی احتساب (عدالتی نظام) کی بنیاد احکامِ الٰہیہ پر ہو گی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں عدلیہ کا نظام چلے گا، قرآن و سنت کے خلاف فیصلوں سے نہ تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی مثالی نظام قائم ہو سکتا ہے اور نہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے۔ قرآن کریم نے نہایت سخت اور دو ٹوک الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔[17]

 

’’اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تعلیمات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔‘‘

 

ایک اور مقام پر ان لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے جبکہ ایک مقام پر انہیں کافر بھی کہا گیا ہے، علماءِ تفسیر نے اگرچہ اس میں تاویل کی

 

ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حوالے سے قرآن و سنت نے کسی لچک اور نرمی کو برداشت نہیں کیا۔

 

اجتماعی احتساب کے بنیادی اصول

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سیرتِ طیبہ سے اجتماعی احتساب کے حوالے سے جو اہم اور بنیادی اصول سامنے آتے ہیں ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

 

باصلاحیت افراد کا انتخاب

معیاری نظامِ احتساب کیلئے ضروری ہے کہ اس کے لئے علمی اورعملی اعتبار سے مستند اور باصلاحیت افراد کا انتخاب کیا جائے،

 

نااہل اور مفاد پرست لوگوں کو اجتماعی احتساب کا عمل حوالہ کرنا ملک و ملت کے لئے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپﷺ کی زندگی سے بھی اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپﷺ نے ہر موقع پر باصلاحیت اور اہل لوگوں کا انتخاب فرمایا ہے، اور قیامت تک کے لئے اس اصول کی بنیاد رکھی ہے کہ جب تک مناصب کے لئے میرٹ پر تعیناتی نہیں ہو گی اس وقت تک معیاری اور مثالی ریاست اور معاشرے کا قیام خوابِ محض ہی رہے گا۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ انہیں کسی جگہ کی حکومت سونپ دی جائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

يا أبا ذر إنك ضعيف وإنها أمانة وإنها يوم القيامة خزي وندامة إلا من أخذها بحقها وأدى الذي عليه فيها۔[18]

 

’’اے ابو ذر! تم کمزور ہو، اور یہ (حکومت و سربراہی) ایک امانت ہے، قیامت کے دن رسوائی اور پشیمانی ہے، مگر یہ کہ کوئی شخص برحق طریقے سے یہ امانت لے، اور اس کے جو حقوق اُس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔‘‘

 

حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں اور آپ کے بارے میں بدعنوانی وغیرہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن چونکہ آپ پر عبادت اور زہد کا غلبہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے انہیں منصب سے دور رہنے کی تلقین فرمائی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ عبادات اور زہد و خلوت نشینی میں مصروف ہوں اور کسی کی حق تلفی ہو جائے۔حضرت سفیانؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام جو خط لکھا تھا وہ میں نے پڑھا، جس میں لکھا تھا:

 

لا تستقضين إِلَّا ذا مال، وذا حسب؛ فإن ذا المال لا يرغب في أموال الناس، وإن ذا الحسب لا يخشى العواقب بين الناس۔[19]

 

’’آپ صرف اس شخص کو قاضی مقرر کریں جو مالدار اور اونچے خاندان والا ہو کیونکہ مالدار کی نظر لوگوں کے مال پر نہیں ہوتی اور خاندانی شرافت والا لوگوں کے انتقام سے نہیں ڈرتا۔‘‘

 

حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مالدار اور حسب والے کی قید اس لئے لگائی کہ یہ دو معیارات قضاء کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، اور اس کی وجہ بھی آپؒ نے بیان فرمائی کہ جب وہ ذاتی طور پرمالدار ہو گا تو رشوت لے کر ناحق فیصلے نہیں کرے گا اور جب خاندانی اعتبار سے شرافت والا ہو گا تو کسی کے دباو میں آ کر حق بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شعبے کے لئے جو لوگ زیادہ مفید اور کارآمد ہوں ان کا تقرر کرنا چاہئے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

 

حکمران پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے اعمال و مناصب میں سے ہر منصب اس شخص کے حوالے کر دے جس میں اس کی اہلیت سب سے زیادہ ہو، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’جو شخص مسلمانوں کے امور کا والی و نگران بنا اور اس نے کسی ایسے شخص کا تقررکیا جس سے زیادہ باصلاحیت آدمی موجود ہو تو اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ خیانت کی۔‘‘[20]

 

خلاصہ یہ کہ ہر معاملے میں میرٹ اور اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقرر و تعیناتی ضروری ہے، ذاتی تعلقات، خاندانی مراسم اور قرابت و رشتہ داری کی وجہ سے کسی کو ترجیح نہ دی جائے۔ جس معاشرے میں میرٹ کی پاسداری ہوتی ہے اور جہاں پر باصلاحیت اور حقدار لوگوں کو عہدے و مناصب تفویض کئے جاتے ہیں وہ معاشرہ خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے کیونکہ باصلاحیت افراد اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام دیتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کے معاشی و معاشرتی مسائل حل ہوتے ہیں، اور ملک خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔

 

غیر جانبداری

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اجتماعی احتساب میں سب سے اہم اور بنیادی اصول یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی جانبداری سے کام نہ لیا جائے بلکہ مکمل غیر جانبدار ہو کر محاسبہ کیا جائے۔ اس حوالے سے نہ کسی منصب کی رعایت کی جائے اور نہ ہی کسی رشتہ داری اور دیگر تعلقات کا لحاظ رکھا جائے۔ احتساب کے موثر اور کارگر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ جب تک اس دنیا میں تشریف فرما تھے تو اجتماعی احتساب کی ذمہ داری خود نبھاتے تھے، عاملوں، گورنروں اور دیگر مناصب پر مقرر لوگوں سے پوچھ گچھ اور ان کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے۔

 

حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے قبیلہ ازد کے ابن اللتبیہ نامی شخص کو عامل مقرر فرمایا تھا، جب وہ صدقات لیکر آگیا تو اس نے کہا یہ تمہارا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے (یعنی کچھ چیزوں کے بارے میں کہا کہ یہ چیزیں مجھے لوگوں نے گفٹ کرکے دی ہیں، یہ صدقات میں شامل نہیں ہیں) اس پر رسول اللہ ﷺنے اس کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:

 

فهلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر يهدى له أم لا ؟ والذي نفسي بيده لا يأخذ أحد منه شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته إن كان بعيرا له رغاء أو بقرة لها خوار أو شاه يتعر۔[21]

 

’’آپ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھتے کہ دیکھا جاتا کہ آپ کے پاس ہدیے آتے ہیں یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو شخص اس مال میں سے کوئی چیز ناحق لے لے قیامت کے دن وہ اس چیز کو گردن پر لیکر آئے گا، اگر اونٹ ہو گا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا، اگر گائے ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتے ہوئے آئے گی، اگر بکری ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتے ہوئے آئے گی۔ ‘‘

 

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو علم و عمل اور فقاہت کے امام اور نہایت بلند مرتبے پر فائز تھے انہیں آپ ﷺ نے یمن کا گورنر بنایا اور اس وقت یہ ہدایت فرمائی:

 

يا معاذ إياك و التنعم عباد الله ليسوا بالمتنعمين۔[22]

 

’’اے معاذ! عیش پرستی سے اجتناب کرتے رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔‘‘

 

رسول اللہ ﷺ کی غیر جانبدارانہ احتساب کا اندازہ مندرجہ ذیل روایت سے ہوتا ہے :

 

عن عائشة، أن امرأة سرقت فأتي بها النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: من يجترئ على رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا أن يكون أسامة، فكلموا أسامة فكلمه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أسامة، إنما هلكت بنو إسرائيل حين كانوا إذا أصاب الشريف فيهم الحد، تركوه ولم يقيموا عليه، وإذا أصاب الوضيع أقاموا عليه، لو كانت فاطمة بنت محمد لقطعتها۔[23]

 

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی، اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (سفارش کی) جرات حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا، لہٰذا ان لوگوں کے کہنے پر حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہﷺ سے بات کی، جس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اسامہ! بنی اسرائیل بھی تو اسی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں کہ ان میں جب کوئی اونچے خاندان کے لوگ حد کے مستحق قرار پاتے تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمتر درجے والا شخص جرم کا ارتکاب کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اگر حضرت محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی چوری کرتیں تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘

 

اس سے اسلام کے نظامِ احتساب کی غیر جانبداری کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ریاستِ مدینہ تھوڑے عرصے میں ایک مثالی ریاست کی صورت میں ابھر کر دنیا کے سامنے آئی جس کی ترقی، خوشحالی اور امن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہیں کی جاسکتی۔ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کی بدولت حضرات خلفاء راشدین نے بھی احتساب کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ جب حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ بنے تو آپ نے خطبہ دیا جس میں دیگر اہم باتوں کے علاوہ ایک بات یہ ارشاد فرمائی:

 

فأطيعوني ما أطعت الله فإذا عصيت فلا طاعة لي عليكم۔[24]

 

’’جب تک میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا رہوں تم لوگ میری اطاعت کرنا اور جب میں نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں۔‘‘

 

اسی طرح ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺنےفرمایا :

 

ایھا الناس ان اکیس الکیس التقی وان احمق الحمق الفجور، وان اقواکم عندی الضعیف حتی آخذ لہ بحقہ، وان اضعفکم عندی القوی حتی آخذ الحق منہ۔[25]

 

’’اےلوگو!سب سے بڑی سمجھداری تقوی ہے اور بڑی نادانی گناہ کا کام ہے۔ تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ اس کا حق دلوادوں، اور قوی ضعیف ہے یہاں تک کہ اس سے غریب کا حق لے لوں۔‘‘

 

خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:

 

أحب الناس إلي من رفع إلي عيوبي۔[26]

 

’’مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جو میرے عیوب مجھ تک پہنچائے۔‘‘

 

اس سے احتساب کے بارے میں اسلام کے تصورِ عدل و انصاف اورغیر جانبداری کی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام میں اس معاملے میں حکمران اور رعایا کے درمیان کوئی فرق نہیں، جبکہ آج کل بہت سارے ممالک میں انصاف کے بلند و بالا دعووں کے باوجود حکمرانوں کو قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے، جو ملکی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ اور انصاف کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

 

احتساب کے لئے منظم اداروں کا قیام

سیرتِ طیبہ اور آپﷺکی تعلیمات حکمرانوں کو اس اہم اصول کی نشاندہی کراتی ہیں کہ عدل و انصاف، مساوات اور غیر جانبدار احتساب کیلئے مستقل اداروں کا قیام ضروری ہے۔ مختلف شعبوں اور محکموں کے احتساب کیلئے باصلاحیت، دیانتدار اور اصول پسند افراد پر مشتمل ادارے قائم کئے جائیں تاکہ ملک سے کرپشن، بدعنوانی، ظلم، بددیانتی اور جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مدینے کی ریاست محدود تھی جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس احتساب کی ذمہ داریاں نبھاتے تھے، مگر جوں جوں اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا اس کیلئے مستقل افراد اور ادارے قائم ہوتے گئے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے دور میں بازار تشریف لے جا کر وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے اور بدعنوانی، ملاوٹ اور دیگر جرائم کا سدِ باب فرماتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم ﷺنے غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرتے ہوئے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈال دیا تو ہاتھ کے ساتھ کچھ نمی لگ گئی، آپ ﷺ نے غلے کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسولﷺ یہ بارش سے بھیگ گیا ہے، اس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غش فليس مني۔[27]

 

’’آپ نے اس کو غلے کے اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے؟ جس نے ملاوٹ کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘

 

نیز عاملین اور گورنروں کے احتساب کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے، کہ آپﷺ بذاتِ خود ان کا احتساب فرماتے اور اس معاملے میں کسی بھی لچک کا مظاہرہ نہیں فرماتے۔ اس کے علاوہ خصومات اور دیگر معاملات کے فیصلے بھی رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ بعد میں اس کے لئے مستقل ادارے اور افراد مقرر کئے گئے تاکہ مملکت کا نظم و نسق صحیح طریقے سے چلایا جا سکے اور احتساب کا بہترین نظام قائم کیا جاسکے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں دیگر کئی اداروں کی طرح بازار کی نگرانی کے لئے مستقل شعبے کا پتہ چلتا ہے، مشہور محدث محمد متقی ہندیؒ روایت کرتے ہیں:

 

عن الزهري أن عمر بن الخطاب استعمل عبد الله بن عتبة على السوق۔[28]

 

’’امام زہری سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عبد اللہ بن عتبہؓ کو بازار کی نگرانی پر مقرر فرمایا۔‘‘

 

بعد کے ادوار میں احتساب کیلئے بنیادی طور پر عدلیہ اور حسبہ کا نظام وجود میں آیا، جن کی فعالیت، غیرجانبداری اور معیاری ہونے کی بناء پر اسلامی ریاست روز افزوں رو بہ ترقی تھی، لوگوں کے جان و مال محفوظ تھے، کرپشن، ظلم، ملاوٹ، رشوت، دھوکہ دہی اور اس طرح کے دیگر جرائم سے اسلامی معاشرہ معیاری احتساب کی بدولت پاک تھا، جس کی وجہ سے لوگ امن و سکون اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور مملکت بھی ترقی کے منازل طے کر رہی تھی، مگر جوں جوں اسلامی ممالک میں احتساب کا نظام کمزور ہوتا گیا اسلامی ممالک تنزل کے شکار ہوتے گئے اورپستی اور زوال کے دور میں داخل ہو گئے، لہٰذا مسلمان ممالک کے سربراہان پر لازم ہے کہ احتساب کے لئے مضبوط، معیاری اور غیرجانبدار نظام قائم کریں تاکہ امتِ مسلمہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا سفر طے کر سکے۔

 

نتائج وخلاصہ بحث

۱۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور ملک و ملت کی تعمیر وترقی کے لئے زریں اصول ہیں جنہیں اپنائے بغیر امتِ مسلمہ کبھی بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں ہو سکتی۔

 

۲۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انفرادی احتساب اپنا کر اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور کرکے اپنی ذہنی، علمی اور عملی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے، اسی طرح اجتماعی احتساب کا معیاری نظام قائم کیا جائے تاکہ صالح معاشرے کی طرف پیش رفت ہو سکے، اور ملک و ملت ترقی کے منازل طے کر سکیں۔

 

۳۔ صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعے لوگوں میں خود احتسابی کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

 

۴۔ اجتماعی احتساب کی فعالیت اور کردار بڑھانے کے لئے مروجہ عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے۔

 

۵۔ عدالتی نظام کی قرآن و سنت اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں از سر نو تشکیل کی جائے۔

 

۶۔ سستا اور یکساں انصاف فراہم کرنے کا نظام رائج کیا جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد عدلیہ پر بڑھ جائے اور عام آدمی کو آسان اور فوری انصاف میسر ہو سکے۔

 

۷۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اجتماعی احتساب کیلئے عدلیہ کے ذیلی ادارے حسبہ،مانیٹرنگ،صحت و تعلیم اورمحکمہ پولیس کی مانیٹرنگ سمیت دیگر اداروں کی مانیٹرنگ کیلئے باصلاحیت، امانتدار اور ملک و ملت کے خیرخواہ لوگوں پر مشتمل شعبے قائم کئے جائیں۔

حوالہ جات

  1. الشمس : 8 - 10
  2. الجوهري، إسماعيل بن حماد (ت393هـ)، الصحاح في اللغة، دار العلم للملايين، بيروت، ط:4، 1990، ج1، ص125
  3. الزَّبيدي، أبو الفيض محمّد بن محمّد، (المتوفى: 1205هـ)، تاج العروس، دار الهداية، س ن، ج2، ص275
  4. محمد بن أحمد بن الأزهري الهروي، أبو منصور،تهذيب اللغة، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ط:1، 2001م، ج2، ص43
  5. البخاری، محمد بن اسماعيل، صحيح البخاري، دارطوق النجاة، مصر ،باب فضل من استبرأ لدينه، رقم الحديث:52، ج1، ص31
  6. نفسِ مصدر، كتاب بدء الوحي، رقم الحديث:1، ج1، ص1
  7. ابن رجب الحنبلي، أبو الفرج عبد الرحمن بن أحمد، جامع العلوم والحكم، دار المعرفة، بيروت،ط1، 1408ه، ج1، ص9
  8. البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي، معرفة السنن والآثار، دار الوفاء، القاهرة، 1412هـ، ج 1، ص263
  9. الحميدي ، محمد بن فتوح، الجمع بين الصحيحين، دار ابن حزم، بيروت، ط:2، 1423هـ، رقم: 2498، ج3، ص177
  10. القشيري النيسابوري، أبو الحسن مسلم بن الحجاج (المتوفى: 261هـ)، صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي، بيروت، س ن، باب فضل دوام الذكر والفكر في أمور الآخرة والمراقبة، رقم الحديث: 2750، ج 4، ص2106
  11. نفسِ مصدر، باب تحريم ظلم المسلم، وخذله، واحتقاره ودمه، وعرضه، وماله, رقم الحديث 2564، ج 4، ص 1987
  12. الترمذي، أبو عيسى محمد بن عيسى بن سَوْرة،سنن الترمذي، دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1998 م، کتاب الزهد، ج4، ص 219
  13. الحشر: 18
  14. البخاری، صحيح البخاري، دارطوق النجاة، مصر، باب التعوذ من عذاب القبر، الحديث 6366، ج1، ص161
  15. الحميدي، محمد بن فتوح، الجمع بين الصحيحين، دار ابن حزم، بيروت، ط2، 1423هـ، ج3، ص 65
  16. التميمي ، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم، صحيح ابن حبان, مؤسسة الرسالة, بيروت, ط 2، 1414, ج 7, ص259
  17. المائدة : 45
  18. مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، باب کراهة الامامة بغير ضرورة، رقم:4683، ج3، ص1457
  19. ابوبكر محمد بن خلف البغدادي،أخبار القضاة، المكتبة التجارية الكبرى، ط:1، 1366هـ، ج1، ص76
  20. ابن تيمية أحمد بن عبد الحليم الحراني، السياسة الشرعية، دار المعرفة، بيروت،س ن،ج1، ص17
  21. البخاري،صحيح البخاري،دار ابن كثير،بيروت،1407ھ،کتاب الهدايا،باب من لم يقبل الهدية لعلة، ج2، ص917
  22. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين، شعب الإيمان، دار الكتب العلمية، بيروت، ط:1، 1410، ج5، ص156
  23. النسائي، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب،سنن النسائي، مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب، ط:2، 1406، ج8، ص72
  24. ابن قتيبة الدينوري، ابومحمد عبد الله بن مسلم, الإمامة والسياسة, دار الكتب العلمية, بيروت, 1418هـ ج1، ص19
  25. المتقي الهندي،علاء الدين علي بن حسام الدين ،كنز العمال،مؤسسة الرسالة،بیروت،1401هـ، باب الاول فی خلافة الخلفاء، ج5، ص633
  26. ایضاً، ج9، ص174
  27. القشيری، مسلم بن الحجاج،صحيح مسلم، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم من غشنا فليس منا،رقم الحديث:102
  28. علاء الدين علي بن حسام الدين (المتوفى: 975ھ)، كنز العمال،مؤسسة الرسالة، ط:5،1401ھ، ج5، ص815
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...