Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 2 of International Research Journal on Islamic Studies

اسلامی فلاحی ریاست کے اساسی تصورات اور عوامی فلاح میں اس کا کردار ریاست مدینہ کے تناظر میں |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2020

ARI Id

1682060026458_554

Pages

62-80

PDF URL

https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/download/17/10

Chapter URL

https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/view/17

Subjects

Welfare Islamic Welfare State Riasat-e-Madinah Welfare Islamic Welfare State Riasat-e-Madinah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

دین ِاسلام انسان کی روح اوربدن دونوں کی فلاح وصلاح اورتمام تقاضوں کی تکمیل کاپرزورداعی ہے۔اسلام جہاں اخلاقیات کے ذریعے روح کوبالیدگی عطاکرتاہے وہیں تدبیرِمنزل اورسیاست ِمدن کاایک مکمل اورجامع نظام وضع کرتاہے جوانفرادی واجتماعی بدنی ضروریات کی تکمیل کاضامن ہے۔سیاست اقوام کی رہبری ورہنمائی کامکمل لائحہ عمل ہے جوان کے بنیادی حقوق کےتحفظ کی خاطروجودمیں آتاہے۔سیاست کےلغوی مفہوم میں ہرقسم کی کجی اوربگاڑکی اصلاح شامل ہے۔یہی وجہ ہےکہ عالم ِدنیا میں پیداہونے والے ہربگاڑکی اصلاح کی خاطر اول البشرحاکم ِاعلیٰ کےخلیفہ اورنگران کےطورپرمبعوث ہوئےاوررفتہ رفتہ پیداہونےوالےہرفساد کی اصلاح کابیڑا لےکرانبیاء کرام کی بعثت کاسلسلہ جاری رہاجس کااختتام مصلح ِاعظم محمدﷺپرہوتاہے۔آپ ﷺنے آکرتہذیب وتمدن سے عاری اورانسانی حقوق سے ناآشنا معاشرے کی جس طوراصلاح کی زمانہ قیامت تک اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز ہے۔

آپ ﷺکی قائم کردہ ریاست ِمدینہ کی تاسیس میں کارفرمااصولوں نے انسانیت کی فلاح وبہبودمیں کلیدی کرداراداکیا۔علمی واقتصادی،سیاسی وسماجی اورعسکری ودفاعی نظام میں آپﷺکی کی گئی اصلاحات نے سیاست کے میدان میں انقلاب برپاکرنے کے ساتھ ساتھ دنیاکوایسےنظم ِسیاست سےروشناس کرایا جس میں انسانیت کی دنیاوی ترقی اوراخروی فلاح پوشیدہ ہے۔موجودہ دورمیں ان اصولوں اوراصلاحات کاجائزہ لےکرریاست کی تشکیل اسی نہج پرضروری ہےتاکہ حقیقی فلاحی ریاست کےقیام کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔چنانچہ اس مقالہ میں ریاست ِمدینہ کے تعارف،خصوصیات اورفلاح ِعامہ میں اس کے کردارپرروشنی ڈالی جائے گی۔= ریاست کامفہوم ،حقیقت اوراجزائے ترکیبی =

سیاست کےعملی اطلاق کے لیےریاست کاوجود ناگزیرہے۔ریاست کسی بھی خطے کے افرادکے مقررہ نظم ونسق کے مطابق اوراپنے میں سے ہی کسی فردیاجماعت کےماتحت زندگی بسرکرنے کےباہمی عہدوپیمان کےنتیجےمیں وجودمیں آتی ہے۔[1]وہ مقررہ نظم ونسق نظام ِسیاست اوراس کی نگران ومحافظ قوت حکومت سے تعبیرکی جاتی ہے۔نصیرالدین طوسی کے مطابق ریاست انسانی معاشرے کی ایک ارتقائی شکل ہے جوفردسے خاندان،خاندان سے شہراورشہرسے ریاست بنتی ہے اوراس کااختتام بین الاقوامیت پرہوتاہے۔[2]

ریاست کی اسلامی شناخت کےلیےضروری ہےکہ رعایااورحکومت کایہ تعلق مذہب کی بیڑی سے بندھااوراس کی قانونی اساس دین ِاسلام طے ہو۔سیدابوالاعلیٰ مودودی کی عبارت اس امر پردلالت کرتی ہے۔آپ لکھتے ہیں:

’’اسلامی ریاست سے مرادوہ ریاست ہے جوحاکمیت ِالٰہی اورخلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کواس کے تضمنات کے ساتھ قائم کرنے کی داعی ہو۔‘‘[3]

معلوم ہواکہ حاکمیت ِالٰہی کے نفاذمیں سرگرم اورنبوی منہج پرعمل پیراریاست اسلامی ریاست کہلانے کی حقدارہے۔ریاست کی اس تعریف سے ریاست اورحکومت کاامتیازسامنے آجاتاہے ۔ وہ محدودجغرافیائی علاقہ ریاست کہلاتاہے جس کی حدودمیں تبدیلی نہیں پائی جاتی الا یہ کہ کوئی عظیم سانحہ اس کی حدودپراثراندازہو۔ اس علاقے کی رعایاجس مقتدرقوت کے زیرِسایہ زندگی بسرکرتے ہیں اسے ہم حکومت سے تعبیرکرتے ہیں جس میں تبدیلی مقررہ نظم کے تحت وقتاًفوقتاًہوتی رہتی ہے۔اس حقیقت کوسامنے رکھتے ہوئے درج ذیل امورریاست کے عناصرِترکیبی معلوم ہوتے ہیں:

  1. محدودجغرافیائی خطہ
  2. آبادی اوررعایا
  3. مقتدرجماعت جسے حکومت سے تعبیرکیاجاتاہے۔
  4. اقتدار ِاعلیٰ

یہ عناصرریاست کی تشکیل کےلیےلازم ہیں جن کےبغیرکسی بھی انسانی اجتماع کوریاست یامملکت سےتعبیرنہیں کیاجاسکتا۔البتہ اسلامی ریاست کےوجودکےلیےحامل ِاقتدارکاصاحب ِایمان ہونااورآئین کی تشکیل میں اسلامی نظام ِحیات کومد ِنظررکھناضروری ہےجس کےبغیراسلامی ریاست کاتصورمحال ہے۔= نقل وعقل کے تناظرمیں ریاست کی اہمیت ومعنویت =

اسلام ریاست کے وجود کا زبردست داعی اور اس کے مکمل نظم و نسق کی خاطر زریں اصول وضع کرتا ہے۔اسلام میں ریاست کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنے امر کی تنفیذ ِارضی کا جو بوجھ پیکر ِ خاکی کے کندھوں پر ڈالا ہے اس کی بجا آوری بدوں سلطنت و اقتدار محال ہے کیونکہ اسلامی معاشرے کے بہت سے مصالح کی تکمیل،اعلائے کلمۃ اللہ اوراجرائے حدودبدوں اقتدارممکن نہیں۔چنانچہ فقہ اسلامی کے ایک قاعدے ’’جس چیزکے بغیرواجب پورانہ ہووہ چیز بھی واجب ہے‘‘[4] کی روسے ریاست کاوجودناگزیرہے۔ریاست وحکومت کی اہمیت کے پیش ِنظر اسے اسلام کاجڑواں بھائی قراردیاگیاہے کہ دونوں کی اصلاح اورترقی ایک دوسرے پرمنحصرہے۔

’’الإسلام والسلطان أخوان توأمان لا یصلح واحد منہما إلا بصاحبہ فالإسلام أس والسلطان حارس وما لا أس لہ یہدم وما لا حارس لہ ضائع‘‘[5]

’’اسلام اور حکومت جڑواں بھائی ہیں ۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہو سکتا ۔ اسلام کی مثال عمارت اور حکومت کی نگہبان کی ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔‘‘

شرعی احتیاج کے علاوہ عقل بھی ریاست کی ضرورت پرزوردیتی ہے۔انسانی معاشرہ افرادکاایساہجوم ہے جس میں ماحول ومزاج کااختلاف ضروریات،مفادات اورترجیحات کے ٹکراؤکوجنم دیتاہے۔یہی ٹکراؤمستقبل میں تنازعات کاباعث ہوکرمعاشرتی راحت وسکون غارت کرتاہے۔یہ عوامل جملہ امورکی محافظ ایسی مقتدرقوت کاتقاضاکرتے ہیں جس کی طرف بوقت ِتنازع رجوع کیاجائے اوروہ افرادکے حقوق وفرائض کاتعین کرے۔اس قوت واقتدارکوہم ریاست وحکومت سے تعبیرکرتے ہیں جس کے بغیرمعاشرہ ادھورااورغیرمستحکم رہتاہے۔امام غزالی رحمۃاللہ علیہ ریاست کی اہمیت کے بارے رقمطرازہیں:

’’جب شہروں قصبوں کی بنیادپڑتی ہے توبغیرکسی حاکم کے باہمی تنازعات کارونماہونالازمی ہے۔اگرہرشخص اپنے معاملات خودطے کرنے لگے توکوئی کسی کے آلام کاذمہ دارنہیں ہوسکتا۔ان حالات میں باہمی زندگی بسرکرنے کے لیے اصول وقیوداورایک دوسرے پرحدودخودبخودپیداہوتے ہیں اوریہی نظام ترقی کرکے ریاست کی شکل اختیارکرلیتاہے۔‘‘[6]

معلوم ہواکہ جبرواستبدادکے خاتمے اورمعاشرتی عدل وانصاف کے فروغ کے لیے ریاست اورحکومت کاوجودضروری ہے۔اسی بناپرمشہورمؤرخ ابن خلدون اپنی کتاب’’المقدمۃ‘‘میں ریاست اورنظام ِحکومت کی ضرورت پرزوردیتے نظرآتے ہیں۔[7]= فلاح کے اسلامی وغیراسلامی تصورکاموازنہ =

مقصودومطلوب کوپالینے اورسعادت مندی کے مفہوم کواداکرنے کے لیے عربی میں فوز،نجاح اورفلاح سمیت متعددالفاظ مستعمل ہیں۔بعض الفاظ کامیابی کے کسی ایک پہلوکوشامل ہیں تودیگربعض کسی دوسرے پہلوکااحاطہ کرتے ہیں۔تاہم فلاح کالفظ کثیرجہتی مفہوم کاحامل اوراسلام کے نظریہ نجات سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔نجات وکامرانی کے دیگرتصورات محض دنیاوی سعادت مندی ونیک بختی تک محدودہیں لیکن اسلام کاحیات بعدالممات کاتصورعالم ِآخرت میں بھی کامیابی وکامرانی کی ضرورت پرزوردیتاہے ۔فکرِاسلامی میں فلاح کااطلاق ایسی کامیابی پرہوتاہےجس کےبعدکسی قسم کی ناکامی،محرومی یانقصان کااندیشہ نہ رہے۔دنیاوی زندگی میں مال ودولت،اولادواحفاد،عزت وشرف کامیابی وکامرانی کی علامت ہے توآخرت میں دخول ِجنت کامیابی کی حتمی شکل کیونکہ جہنم سے بچ کرجنت میں داخل ہوجاناہی وہ مقام ہے جس پرتمام قسم کے نقصان ومحرومی کے خدشات دم توڑ جاتے ہیں۔اس قسم کی فلاح کاحصول ایمان مع عمل سے مشروط ہے جوکہ کسی ایک کے بغیرناممکن ہے۔فلاح کے اسی تصورکوواضح کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی فلاح کودوقسموں میں منقسم کرتے ہیں اورلکھتے ہیں:

’’الفلاح الظفروادراک البغیۃ وذلک ضربان دنیوی واخروی فالدنیوی الظفربالسعادات التی تطیب بہاحیاۃالدنیاوہوالبقاوالغنی والعزوفلاح اخروی وذلک اربعۃ اشیاء بقاء بلافناء وغنی بلافقروعز بلاذل وعلم بلا جہل‘‘[8]

’’فلاح کامیابی اورمقصودکوپالیناہے اوراس کی دوقسمیں ہیں ۔دنیاوی واخروی۔دنیاوی فلاح ان تمام سعادتوں کوپالینے کانام ہے جن کے ذریعے دنیاوی زندگی خوشگواربنتی ہے یعنی مال ودولت اورعزت اوراخروی فلاح چارچیزوں کانام ہے۔بقا بلافنا،غنابلافقر،عزت بلاذلت اورعلم بلاجہل۔‘‘

معلوم ہواکہ دیگرتصورات کی بنسبت اسلام میں فلاح کاتصوروسیع اوردارین کی کامیابی کومحیط ہے۔اس لیے ہروہ امرجودنیاوی راحت وسکون کے ساتھ ساتھ اخروی اجروثواب کاباعث ہووہ فلاح کاموجب قرارپائے گا۔فلاح کایہ تصورایک ایسے معاشرے کے قیام کی ضرورت پرزوردیتاہے جہاں فردصرف اپنی فلاح کافکرمندنہ ہوبلکہ اخلاقیات کے اعلیٰ معیارپرقائم ہوتے ہوئے اجتماعی اورمعاشرتی فلاح کے حصول میں اپناکرداراداکرے۔افرادکے ساتھ اپنارویہ فلاحی بنیادوں پراستوارکیے بغیراخروی فلاح کاحصول نہ تویقینی ہے اورنہ ہی اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔= حصول ِفلاح کی جہات اوردائرہ کار =

دارین میں کامیابی وکامرانی کے کچھ تقاضے ہیں جن کوپوراکیے بغیرکامل فلاح کاتصورادھوراہے۔یہ تقاضے نہ صرف فلاحی جہات کاتعین کرتے ہیں بلکہ افرادکواس بات کاپابندبناتے ہیں کہ ان تمام جہات میں انفرادی واجتماعی فلاح کے حصول میں کوشاں رہیں۔فلاحی ریاست کی تشکیل بھی انہی تقاضوں کی تکمیل کی خاطرعمل میں لائی جاتی ہے۔ذیل میں انہیں بیان کیاجاتاہے۔== فلاح کی روحانی جہات ==

دین ِاسلام کابتایاہواضابطہء اخلاق ہی روح اورجسم کی بالیدگی اورنشوونماکاضامن ہے۔روح کی پاکیزگی اورنورانیت کی خاطر اسلام بہت سے ایسے اوصاف اپنانے کادرس دیتاہے جوخالق سے تعلق استوارکرنے کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت کوجلابخشتے اورکردارکوبلندی عطاکرتے ہیں۔ان اوصاف کی فہرست میں صدق ووفا،جودوسخا،صبر وشکر،امانت ودیانت اورعفوودرگزرسمیت تمام اخلاقِ حسنہ شامل ہیں جن پرعمل پیراہونااوران کی اضدادسے بچناتمام مسلمانوں کے لیے بالعموم اورانتظام ِریاست سے وابستہ افرادکے لیے بالخصوص ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیرفلاحی مملکت کی بنیادمستحکم وپائیدارنہیں ہوسکتی۔امام الماوردی لکھتے ہیں:

’’فحق علی ذی الامرۃ والسلطان ان یہتم بمراعاۃاخلاقہ واصلاح شیمہ لانہاالۃسلطانہ واس امراتہ‘‘[9]

’’حاکم وبادشاہ پرلازم ہے کہ وہ اپنے اخلاق وعادات کی اصلاح کااہتمام کرے کیونکہ یہ اس کے غلبہ کاذریعہ اورحکومت کے لیے بنیادہے۔‘‘

معلوم ہوااخلاقی اقدارحاکم ِوقت کے لیے رسوخ اوردوام کاذریعہ ہے۔اخلاقی فلاح کے حصول کاتقاضاہے کہ مملکت اخلاقیات کی ترویج واشاعت اورفساد،بدامنی،فحاشی وعریانی سمیت تمام اخلاقی برائیوں کے انسدادکے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ رعایااسلام کی اصل روح سے بہرہ وراورثمرات سے مستفیدہوسکے۔== فلاح کی علمی جہات ==

قرآن مجیدمیں متعددمقامات پرفلاح کوایمان وعمل سے مشروط کیاگیاہے اورعلم کے بغیرعمل کواستنادکادرجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔علم وعمل کایہ التزام اس حقیقت پرمنتج ہوتاہے کہ علم کے بغیرانسان کی فلاح ممکن نہیں۔اسی بناپرحصول ِعلم کوشرعی فریضہ قراردیاگیاہے۔[10] اس فریضہ سے وابستہ افراداپنی سیرت وکردارکی بناپرمعاشرے کے لیے رحمت اورنفع رسانی کاسبب بنتے ہیں۔نزولِ وحی کا آغاز’’اقرا‘‘سے کرنے میں بھی علم کی اہمیت کی طرف لطیف اشارہ ہے۔

فلاح کے علمی تقاضوں میں رعایاکی مذہبی اورعصری تعلیم کااہتمام ،تعلیمی اداروں کاقیام اورایسے نصاب کی تشکیل شامل ہیں جونظریہ اسلام سے ہم آہنگ اورعصری ضرورتوںکوپوراکرنے والاہو۔اس کے علاوہ تعلیمی اخراجات کاقابل ِبرداشت ہوناکہ کوئی بچہ یافردعلم کی روشنی سے محروم نہ رہ جائے اوربعدازتعلیم فنی تربیت بھی ایک اہم تقاضاہے جس کی تکمیل حصول ِروزگارمیں معاون ہے کیونکہ اس کی بدولت معاشرے کوایسے افرادمیسرآتے ہیں جواپنی صلاحیت وقابلیت کی بناپرریاستی استحکام اوراجتماعی فلاح وبہبودکاذریعہ بنتے ہیں۔== فلاح کی اقتصادی جہات ==

عالم ِفانی میں انسان کی فلاح بنیادی ضروریات کی تکمیل کے بغیرادھوری ہے اوربنیادی ضروریات کاحصول مال وزرکے بناناممکن۔اسلام چونکہ عالم ِانسانیت کی اجتماعی فلاح وبہبودکازبردست حامی ہے اس لیے معاشرہ کی معاشی صورتحال کوبہتری کی جانب گامزن کرتے ہوئے ایسے زریں اصول فراہم کرتاہے جن کی بدولت معاشرے سے غربت،افلاس اوربیروزگاری کاخاتمہ ہوتاہے۔قرآن مجیدمیں مال کوجہاں خیرسے تعبیرکیاگیاہے[11]وہیں حیات ِانسانی کے قوام ودوام کاذریعہ بتلاکرناسمجھ افرادکے حوالے کرنے سے منع فرمایاگیاہے۔[12]

اقتصادی فلاح کےحصول کےلیےضروری ہےکہ معاشرےمیں معاشی مساوات قائم کی جائے۔ایسےعوامل کی روک تھام کی جائےجن کی وجہ سےدولت چندافرادکے ہاتھوںسمٹ کررہ جائےاوراس کےثمرات سےلوگ مستفیدنہ ہوسکیں۔ترقی کےمحرک کوکچلنے کی بجائے فردی ملکیت کااحترام اوراقتصادی مسابقت کی فضابرقراررکھی جائے تاکہ معاشرے کے تمام افرادکوضروریات باآسانی دستیاب ہوں۔معاشرے کے نادارافرادکی کفالت اوربے روزگارافرادکے لیے روزگارکے مواقع پیداکرنابھی ریاست کی معاشی ذمہ داریوںمیں شامل ہے کیونکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ معاشی عدم ِاستحکام کی علامت سمجھی جاتی ہے۔آپ ﷺکافرمان بھی ہے کہ:

’’کادالفقران یکون کفرا‘‘[13]

’’قریب ہے کہ غربت کفرکاسبب بن جائے۔‘‘

کفرابدی خسران کاسبب اوراس کاانسدادحصول ِفلاح کی طرف پہلاقدم ہے۔اس بناپرغربت کاخاتمہ اورعملی اقدامات ایسامعاشی تقاضاہے جومعاشرتی استحکام کے ساتھ ساتھ دارین کی فلاح کاموجب بھی ہے۔کوئی بھی ریاست اس تقاضے کی تکمیل کے بغیرفلاحی مملکت کے تصورپرپورانہیں اترسکتی۔== فلاح کی سیاسی وسماجی جہات ==

ہروہ ضرورت جس پرانسانی زندگی کاانحصارہوبنیادی ضرورت کہلاتی ہے اوراس لائق ہے کہ اسے احسن طریقے سے پوراکیاجائے۔ان ضروریات کی فہرست میں کئی چیزیں شامل ہیں تاہم قرآن کے مطالعہ سے خوراک ،لباس اوررہائش اولین بنیادی ضروریات معلوم ہوتی ہیں۔[14]اس کے علاوہ روزگاراورصحت کی سہولیات کاشماربھی بنیادی ضروریات میں ہوتاہے۔چونکہ اخلاص وتقویٰ کے سواہرامتیازکی نفی اسلام کے نظریہ قومیت کاخاصہ ہے[15]اوریہ تصورسماج میں ہرفردکومساوی مقام ومرتبہ دینے کاپابندبناتاہے۔ اس لیے عوام کوبلاامتیازبنیادی ضروریات اورشہری حقوق کی فراہمی،حکومتی فرائض میں کوتاہی اوربددیانتی کی صورت میں عوامی احتساب کے حق کاحصول سماجی فلاح کی اصولی جہت ہے۔اسی طرح عوام الناس کے علمی وفکری معیارکوبہتربنانا،ان کی تخلیقی وتعمیری صلاحیتوں کونکھارنا،رویوں میں مثبت تبدیلی لانااورامداد ِباہمی کی فضابرقراررکھنا بھی مملکت کی سیاسی اورسماجی فلاح کی علامت ہے۔

فلاح کی یہ تمام جہات باہم مربوط اورکلی فلاح کے لیے ہرایک کی بدرجہ اتم تکمیل ضروری ہے جس کے بغیرکوئی بھی ریاست فلاحی مملکت کاروپ نہیں دھارسکتی۔ان جہات پرعمل پیراہونے سے ہی فلاحی مملکت کاتصورواضح ہوگاجس کے اہداف ومقاصدکی نشاندہی قرآن وسنت میں کی گئی ہے۔ = مملکت کافلاحی تصوراوراس کے اہداف =

انفرادی فلاح کے ساتھ ساتھ اسلام معاشرتی وسماجی فلاح وبہبودکابھی زبردست داعی ہے۔معاشرے کی منظم شکل ریاست کی فلاحی بنیادوں پرتشکیل کاحکم دیتاہے۔اسلام درحقیقت ترقی وخوشحالی کاایسامستحکم نظام چاہتاہے جس میں ہرفردکی لازمی ضروریات بطریق ِاحسن پوری ہوں۔اس لیے رعایاکی بنیادی ضروریات کی تکمیل اورتمام امورمیں فلاح وبہبودکاقیام فرائض میں شامل کرکے ایسی ریاست کوفلاحی ریاست ومملکت سے تعبیرکرتاہے جومعاشرے کی تعمیروترقی کی ضامن اورہمہ قسم کے ظلم واستحصال کاسدباب کرتی ہو تاکہ اسلامی مملکت کے افرادپرامن وپرسکون زندگی بسرکریں اورزمین جنت ِارضی کانمونہ پیش کرے۔

انسانیت کی فلاح کی خاطروجودمیں آنے والی مملکت کے اہداف ومقاصدبھی منجانب ِالٰہی طے شدہ ہوتے ہیں۔خالق ِکائنات نے مملکت کے قیام کواگرشرعی فریضہ قراردیاہے تواہداف کی نشاندہی بھی فرمائی ہے تاکہ انتظام ِریاست سے وابستہ افرادتمام وسائل اورمساعی ان اہداف کے حصول میں صرف کریں تاکہ مملکت کافلاحی پہلواجاگرہو۔قرآن میں انبیاء کی بعثت کابنیادی مقصداجتماعی عدل قراردیاگیاہے۔ارشاد ِربانی ہے:

"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط۔"[16]

’’ہم نے اپنے پیغمبروں کوکھلی نشانیاں دے کربھیجااوران پرکتابیں نازل کیں اورمیزان عدل تاکہ لوگ انصاف پرقائم رہیں۔‘‘

معلوم ہواکہ معاشرے میں عدل وانصاف کی ترویج کے لیے الہامی ذرائع بروئے کارلائے گئے ہیں۔اسی طرح اہل ِایمان کی امتیازی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اقتدارملنے کی صورت میں دین کے قیام ،نیکی کی ترویج اوربرائی کے سدباب میں کوشاںرہتے ہیں۔

"الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ۔"[17]

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگرہم ان کوملک میں حکومت دیں تونمازقائم کریں اورزکوٰۃ اداکریں اورنیک کام کرنے کاحکم دیں اوربرے کاموں سے منع کریں۔‘‘

اقامت ِدین دراصل دین کی حفاظت اوراس کے عملی نفاذکانام ہے۔چنانچہ ہروہ قدم قابل ِستائش وتقلیدہے جوانجام کاردین کے قیام کاسبب بنے۔ان اقدامات میں دین ِاسلام کی تعلیم وتبلیغ، نشرواشاعت اوراس پرلگائے گئے اعتراضات کاازالہ اہم ہیں۔اسی طرح کسی بھی معاشرے میں دین کے عملی نفاذکے لیے حدودوشعائرپراعلانیہ عمل درآمدمعیارقراردیاجاتاہے۔چنانچہ ان امورپرعمل پیراریاست کوحقیقی مقاصدکی جانب گامزن ریاست قراردیاجاسکتاہے۔

دین ودنیاکاامتزاج اوردونوںمیں کامیابی کے لیے دعااورعمل میں مصروف رہنااسلام کی واضح تعلیم ہے۔چنانچہ اسلامی فلاحی مملکت کے مقاصدمیں ان اہداف کاحصول بھی اہم مقام رکھتاہے جن کاتعلق عوام الناس کی دنیاوی ضروریات سے ہے۔ان کی دستیابی سہولت اورعدم ِدستیابی تنگی کاباعث بنتی ہے۔ ان مقاصدکے اصول تو قرآن وسنت میں واضح ہیں البتہ عملی تطبیقات ارباب ِحل وعقدکوسونپ دی گئی ہیں کہ اپنے زمان ومکان کے لحاظ سے طے کریں۔چنانچہ خلوص ِنیت اورجملہ اسلامی تعلیمات ان کے حصول میں پیش ِنظررہیں تو دنیاوی زندگی پرسکون اور اخروی اجرکاحصول یقینی ہے۔دنیاوی مقاصد کی لگی بندھی کوئی حدنہیں۔حالات وواقعات کے مطابق ان میں تغیروتبدل عین ممکن ہے۔البتہ معاشرتی عدل وانصاف ،قانونی مساوات ،رفاہ ِعامہ ،خدمت ِخلق اوررعایاکی کفالت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ملکی استحکام اورمعاشرتی فلاح میں ان عناصرکاکردارناقابل ِانکارہے۔= ریاست ِمدینہ کاتعارف،خصوصیات اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار =

ریاست ِمدینہ کی تاسیس سے لے کراسکی توسیع اوراستحکام آپ ﷺکی سیاسی بصیرت اورحسن ِانتظام کابہترین نمونہ ہے۔آپﷺ نے قبائلی تفرقات اورنسلی تعصبات کے شکارعرب معاشرے کومنظم اجتماعیت سے روشناس کرایااورتہذیب وتمدن سے ناآشناقوم کوتمدنی طورپربے مثال مقام عطافرمایا۔

آپﷺکے لازوال طرز ِحکمرانی نے اندرونی وبیرونی طورپرمنتشریثرب کودنیاکی بہترین فلاحی ریاست میں تبدیل کیا۔ریاست ِمدینہ کے پس ِمنظر،بنیادی خصوصیات اورآپﷺکی سیاسی حکمت ِعملی کوسمجھے بغیرسیاست کے میدان میں آپﷺکی دوراندیشی اورحکمت وبصیرت کاصحیح معنوںمیں اندازہ نہیں لگایاجاسکتااس لیے آئندہ سطورمیں انہی خطوط پرریاست ِمدینہ کاتفصیلی جائزہ لیاجاتاہے۔== ریاست ِمدینہ کاپس منظر ==

آپﷺکی سیاسی بصیرت کی ایک جھلک اہل ِعرب حلف الفضول اورحجر ِاسودکی تنصیب کے موقع پردیکھ چکے تھے تاہم ایک قائدوحکمران کی امتیازی حیثیت سے شناخت کے لیے ایک الگ جغرافیائی خطے کی ضرورت تھی جوبعدازہجرت سرزمین ِیثرب کی شکل میں پوری ہوئی۔یثرب میں مشرکین کے دوقبائل اوس اورخزرج آبادتھے جوہجرت سے دوبرس قبل بیعت عقبہ اولیٰ وثانیہ کے موقع پرمسلمان ہوئے اورآپ ﷺکواپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔سیاسی طورپراہلیان ِیثرب ریاست وحکومت کے تصورسے بالکل ناواقف تھے۔معمولی سی بات پرسالوں جنگ کاسلسلہ چلتارہتاجس کانتیجہ جانی ومالی نقصان کی صورت میں نکلتا۔اوس اورخزرج کی باہمی جنگی صورتحال کافائدہ اٹھاکرمضافات ِمدینہ میں آبادیہودقبائل معیشت پرپوری طرح قابض تھے۔نور ِایمان سے منورہونے کے بعداور باہمی خانہ جنگی سے تنگ آکراوس وخزرج مشترک حکومت کے قیام پرمتفق اوربطورقائدعبداللہ بن ابی کانام تجویزکرچکے تھے تاہم حکومت کے قیام کوابھی حتمی شکل نہ ملی تھی کہ آپ ﷺاصحاب کے ہمراہ ہجرت فرماکرمدینہ تشریف لے آئے اوراہل ِیثرب نے آپﷺکوقائدتسلیم کرکے نظم ونسق حوالے کردیا۔یوں آپﷺنے اہل ِمدینہ کے اقدامات کوحتمی شکل دے کرریاست کی تشکیل مکمل فرمادی۔

آپﷺکی آمدسے قبل اوربعدکی صورتحال میں درج ذیل فروق سامنے آتے ہیں:

  1. ریاست کی تشکیل محض سماجی وعلاقائی ضرورت سے ہٹ کرنظریہ وعقیدہ کی بنیادپرعمل میں لائی گئی ۔دین ِاسلام میں داخل یااس کے زیر ِسایہ آنے والے ہرفردکوریاست کاباشندہ قراردے کرایک عالمگیرریاست کی بنیادرکھی گئی۔
  2. عبداللہ بن ابی کی بجائے آپ ﷺکومتفقہ طورپرقائدوحکمران تسلیم کرلیاگیاجس کاملال عبداللہ بن ابی کوآخردم تک رہا۔
  3. ہجرت کے بعدمدینہ کی رعایاچارگروہوں پرمشتمل ہوگئی۔مکہ سے آنے والے مہاجرین،ان کی نصرت کی بناپرانصارکالقب پانے والے مدینہ کے اصل باشندے یعنی اوس وخزرج،اطراف میں آبادیہوداورعبداللہ بن ابی کے ہم نوا جواصلاًمشرک تھے تاہم معاشرتی دباؤکے بسبب اسلام ظاہرکرتے اور پس پردہ سازشوںمیں مصروف رہتے۔انہیں منافقین کے نام سے یادکیاجاتاہے۔

اول الذکردوگروہ اہل ِایمان جبکہ آخرالذکردوگروہ نظریاتی طورپرآپﷺکے مخالف تھے لیکن ایک مستحکم ریاست کے قیام کے لیے سب کواعتمادمیں لینانہایت ضروری تھا۔آپ ﷺنے سیاسی تدبروحکمت کی بدولت تمام مسائل کوبطریق ِاحسن حل کیااورایک بہترین اورمثالی فلاحی ریاست کی بنیادرکھی جس نے دس برس کے عرصے میں پورے جزیرۃ العرب کواپنے حصارمیں لیااورآنے والے دورمیں اس کی حدودتین براعظموں تک پھیل گئیں۔== ریاست ِمدینہ کی خصوصیات اوربنیادی اصول ==

اسلامی نظام ِسیاست ریاست کی تشکیل کے لیے چندزریں اصول فراہم کرتاہے جن کوملحوظ رکھنانہایت ضروری ہے۔ ان اصولوں پرعمل کے نتیجے میں ریاست کی منفردپہچان اوراسلامی تشخص واضح ہوتاہے ۔عصرِحاضرمیں انہی اصولوں کی بنیادپرفلاحی ریاست کی تشکیل ممکن ہے۔ریاست ِمدینہ کی تشکیل میں کارفرمااصولوں کامختصرجائزہ حسب ِذیل ہے۔=== حاکمیت ِاعلیٰ اورنیابت ِارضی کااصول ===

علم ِسیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار ِاعلیٰ یااقتدار ِمطلق کے معنی میں مستعمل ہے۔اس حیثیت کے حامل فردیاجماعت کولامحدوداختیارات حاصل ہوتے ہیں۔افراداس کی غیرمشروط اطاعت کے پابنداوران کے حقوق اسی کے مرہون ِمنت ہوتے ہیں جنہیں وہ جب چاہے سلب کرسکتاہے۔وہ تمام قوانین سے ماورااوراس کاحکم دوسروں کے لیے قانون کادرجہ رکھتاہے۔اس کے اپنے ارادہ کے سواکوئی خارجی امریاطاقت اس کے اختیارات کوسلب یامحدود نہیں کرسکتی۔[18]

دیگرنظامہائے سیاست میں یہ مقام کسی فرد ِواحدیاجماعت کوحاصل ہوتاہے لیکن حاکمیت کامفہوم اورخصوصیات اس امرسے مانع ہے کہ یہ مقام فرد ِواحدیاکسی جماعت کے لیے تسلیم کیاجائے۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق یہ مقام صرف باری تعالیٰ کوحاصل ہے۔چونکہ وہی خالق ِکائنات ہے اس لیے زمین وآسمان میں حکومت وبادشاہت اسی کوزیباہے۔کلی اقتدارواختیارکامالک ،غیرجوابدہ اورتمام عیوب سے منزہ ومقدس ذات اسی کی ہے۔قرآن مجیدکی متعددآیات اس حقیقت کوواضح کرتی ہیں۔

٭بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہ۔[19]

’’جس کے ہاتھ میں ہرچیزکی بادشاہی ہے اوروہ پناہ دیتاہے اوراس کے مقابل کوئی کسی کوپناہ نہیں دے سکتا۔‘‘

٭فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔[20]

’’جوچاہتاہے سوکرڈالتاہے۔‘‘

٭الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلَام۔[21]

’’حقیقی بادشاہ،ہرعیب سے پاک،سلامتی دینے والا۔‘‘

کائنات کی تخلیق اس بات کاتقاضا کرتی ہے کہ اس کا نظم ونسق خالق کی ہی مرضی سے طے ہو۔جس طرح مافوق العادۃ اموراللہ تعالیٰ کی منشاکے مطابق طے پاتے ہیں اسی طرح ماتحت العادۃ اموراس لائق ہیں کہ اسی کی منشاکے مطابق طے کیے جائیں۔چنانچہ حاکمیت واقتداراعلیٰ کے غلبہ اورنفاذ کی خاطرانسان کوبطورخلیفہ ونائب پیداکیاگیاہے جوجملہ قوانین کاپابنداورالٰہی احکام کی تنفیذکے لیے حاکم ِاعلیٰ کادیاہوااختیاراس کے حکم ومنشاکے مطابق استعمال کرسکتاہے۔اس اصول کوخلافت ِارضی سے تعبیرکیاجاتاہے جس کاوعدہ شروع ہی سے تمام نیکوکاروں سے رہاہے۔ارشاد ِربانی ہے:

"وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ۔"[22]

’’اورجولوگ تم میں سے ایمان لائے اورنیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کاوعدہ ہے کہ ان کوملک کاحاکم بنادے گاجیساکہ ان سے پہلے لوگوں کوبنایاتھا۔‘‘

آیت میں ایمان وعمل ِصالح کے وصف سے متصف افرادکی حکومت کوخلافت سے تعبیرکرنے میں اس امرکی طرف لطیف اشارہ ہے کہ ان کوحاصل قوت واقتدارعطیہ خداوندی ہے جس کااستعمال اسی کے احکام کے مطابق لازم ہے۔آدم علیہ السلام سے لے کرمحمدﷺتک تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کے نائب اورنمائندہ ہونے کی حیثیت سے جلوہ افروزہوئے اوران کے بعدیہ خلافت ارباب ِحل وعقدکوحاصل ہے جنہیں’’اولی الامرمنکم‘‘سے تعبیراوران کی اطاعت کاحکم دیاگیاہے۔[23]تاہم ان کاہرغیرشرعی حکم واجب الردہوگا کیونکہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی کوئی حیثیت نہیں۔[24]خلافت ِارضی کے اس اصول کی بناپراسلامی ریاست کے سربراہ کونیابت ِرسول حاصل ہوتی ہے جس کاتقاضاہے کہ سربراہ ِمملکت اپنے اختیارات شریعت کے دائرے میں رہ کرہی استعمال کرسکتاہے۔قانون سازی ہویاقانون پرعمل کسی مرحلہ پرشریعت کوفراموش نہیں کیاجاسکتا۔=== شورائیت وجمہوریت کاحسین امتزاج ===

شوریٰ دراصل عوامی رائے کے اظہارکانام ہے۔امام راغب اصفہانی کی صراحت کے مطابق شوریٰ کامقصدیہ ہے کہ عامۃ الناس کی رائے معلوم کی جائے۔[25]یہی اصول معاصرپارلیمانی نظام کی بنیادہے جس کی داغ بیل اسلام تب ڈال چکاتھاجب یورپ جمہوریت اورپارلیمنٹ کے مفہوم سے بھی ناآشناتھا۔اسلامی نظام ِسیاست میں نہ تومشورہ کی اہمیت کاانکارممکن ہے اورنہ ہی ریاست ِمدینہ کے نظم ونسق میں یہ اصول فراموش نظرآتاہے۔اسلام میں مشورہ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن مجیدمیں ایک مکمل سورت کو’’الشوریٰ‘‘کے نام سے موسوم کیاگیاہے۔باری تعالیٰ کا آپ ﷺکواصحاب سے مشورہ کاحکم دینا[26]اوراصحاب کاباہمی طریق مشاورت بیان کرنااس کی اہمیت پردال ہے۔ارشاد ِربانی ہے:

وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُم۔[27]

’’اوراپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔‘‘

حکم ِالٰہی کی تعمیل میں ریاست ِمدینہ کے دفاعی ،سیاسی،سماجی واقتصادی معاملات مجلس ِشوریٰ کے مشورے سے طے کیے جاتے رہے باوجوداس کے کہ وحی کی رہنمائی حاصل ہونے کی بناپرآپ ﷺکومشورہ کی ضرورت نہ تھی۔آپ ﷺکے بعدخلفاء ِراشدین رضی اللہ عنہم کاتقررباہمی مشورہ ہی سے ہوا۔ عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بعدخلیفہ کے تعین کے لیے جن چھ کبارصحابہ رضی اللہ عنہم کی کمیٹی بنائی تھی انہیں یہ ہدایت تھی کہ اگرآراء برابرہوں توباہم مشورہ سے فیصلہ کرنااوراگرچارایک طرف اوردوایک طرف ہوں تواکثریت کے مطابق عمل کرنا۔[28]یہ امر مشورہ اورجمہوریت کے امتزاج کاپتہ دیتاہے۔اسی طرح قانون سازی کے عمل میں بھی شورائیت وجمہوریت دیکھنے کوملتی ہے۔قرآن وسنت اصل قانون لیکن جن چیزوں کے بارے خاموش وہاں امیرکے اجتہادکوقانون کادرجہ قبولیت ِعامہ کی صورت ہی حاصل ہوتاہے جوکہ جمہوریت کی ایک شکل ہے۔ حق وباطل کی تعیین اورشریعت کے واضح مسائل میں اگرچہ جمہوریت کاکوئی اعتبارنہیں لیکن مباح اورمجتہدفیہاامورمیں کثرت ِرائے کااعتبارنہ صرف محمودبلکہ اسوہ متقدمین سے ثابت ہے۔

اس گفتگو سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ اسلامی ریاست میں صاحب ِاقتداراپنے آپ کوعقل ِکل سمجھنے کی بجائے ارباب ِحل وعقدسے مشورہ کے ذریعے ملکی معاملات طے کرے۔ایساکرنے سے اللہ کی مددشامل ِحال ہوتی ہے اورکسی بھی معاملے کے متعددپہلوسامنے آتے ہیں جن میں سے بہترکاچناؤآسان اورممکن ہوجاتاہے۔=== معیار ِقیادت واہلیت اورتفویض ِاختیارات ===

ریاست ِمدینہ کی ایک امتیازی خوبی قیادت واہلیت کااعلیٰ معیارقائم کرناہے۔اہل ِاسلام کاقائدان کابہترین اورفہم وفراست،تقویٰ وللہیت اورصلاحیت کے لحاظ سے فائق ترفردہوتاتھاجس کاہرعمل امت کی فلاح وصلاح کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔خلفاء ِراشدین رضی اللہ عنہم کے ورع وتقویٰ مثالیں تاریخ میں موجودہیں کہ کس طرح اپنی ذات کوپس ِپشت ڈال کرامت کی نفع رسانی میں کوشاںرہتے۔تمام قسم کے تعیشات بالائے طاق رکھ کرسادگی کی اعلیٰ مثال قائم کیں۔دن کونظم ِحکومت اوررات کوعبادت کااہتمام ان کاروزمرہ کاشعارتھا۔یہی وجہ ہے کہ خدائی مددکے بل بوتے ایک فلاحی معاشرے کے قیام میں کامیاب ہوئے۔

قیادت کااعلیٰ معیارطے کرنے کے بعدتفویض ِاختیارات ریاست کی تشکیل کاایک اہم اصول رہاہے۔تفویض ِاختیارات کامطلب یہ ہے کہ حامل ِعہدہ ان اموراورمعاملات میں آزادانہ تصرف کاحقدارہواوروظائف کی ادائیگی میں ہروقت امیرکی اجازت کامنتظرنہ ہوجواسے بطورنیابت سربراہ ِمملکت کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ریاستی نظم ونسق مقررومعہودطریق پررواں دواں رہنامعاشرتی عدل وانصاف،مساوات،حریت اوربنیادی ضروریات کی تکمیل کاباعث ہے تودوسری جانب ریاستی امورمیں تعطل معاشرے کی زبوں حالی کی عکاسی کرتاہے۔وقت کی قلت،مسائل کااژدہام اس بات کامتقاضی ہے کہ حاکم ِوقت اپنے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرے اورہرایک اپنے اپنے دائرہ کارکی حدتک امور کی انجام دہی یقینی بنائے۔وزیریامعاون ِکارکے تقررکااشارہ موسیٰ علیہ السلام کی باری تعالیٰ سے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو شریک ِکاربنانے کی درخواست سے ملتاہے۔[29]الماوردی تفویض ِاختیارات کی اہمیت کے بارے لکھتے ہیں:

’’و لان ما وکل بہ الی الامام من تدبیر الامۃ لا یقدر علی مباشرۃ جمیعہ الا بالاستنابۃ ، و نیابۃ الوزیر المشارک لہ فی التدبیر اصح فی تنفیذ الامور من تفردہ بہا ، لیستظہر بہ علی نفسہ ، و بہا یکون ابعد من الزلل ، و امنع من الخلل‘‘[30]

’’امت کانظم ونسق چلانے کے لیے امام پرجوذمہ داریاں عائدہوتی ہیں بدوں نیابت ان کی ادائیگی ممکن نہیں۔شریک کاروزیرکونائب بناکراختیارسونپنازیادہ درست ہے تاکہ امیرکیلئے سہولت بھی ہواوراس کے ذریعے لغزش اورخلل واقع ہونے سے بچاؤبھی۔‘‘

تفویض ِاختیارات کانتیجہ مناصب پردیگرافرادکے تقررکی صورت میں نکلتاہے۔ اہل افراداپنی صلاحیت وقابلیت کے بل بوتے اپنے وظائف عمدہ طریقے سے بجالاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں مناصب کوامانات سے تعبیرکرتے ہوئے اہل افرادکے سپردکرنے کاحکم دیاگیاہے۔[31]ریاست ِمدینہ میں مناصب پرتقررکے لیے مطلوبہ اوصاف میں ایمان وتقویٰ،حب ِجاہ ومال سے براء ت ،دین ِاسلام کے مزاج سے شناسائی اورعہدہ کی قابلیت وصلاحیت سرفہرست تھے۔آپ ﷺنے عہدوں پرفائزافرادکویہ باورکرایاکہ یہ مناصب کسب ِدنیایاجاہ ومال کے ذرائع نہیں بلکہ امانت ومسئولیت کابار ِگراں ہیں جن سے حتی الامکان بچ کے رہنالازم ہے۔چنانچہ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺسے کسی خطے کی حکومت کی خواہش ظاہرکی تو ارشادفرمایا:

’’یااباذر! انک ضعیف وانہاامانۃ ویوم القیامۃ خزی وندامۃالا من اخذہابحقہاوادی الذی علیہ فیہا‘‘[32]

’’اے ابوذر! تم کمزورہواوریہ ایک امانت ہے اورقیامت کے دن رسوائی۔مگریہ کہ کوئی شخص برحق طریقے سے حاصل کرے اورجو ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں انہیں ٹھیک ٹھیک اداکرے۔‘‘

ہاں اگربغیرمانگے کسی کوامارت نصیب ہوجائے تواس کے ساتھ اللہ کی مددشامل ِحال ہوتی ہے۔[33]اس لیے ایک سربراہ ِریاست کی ذمہ داری میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ریاستی مناصب پرایسے افرادکاچناؤکرے جوحقیقی مقاصدسے آشنا،امانت ودیانت کے پیکراورباصلاحیت ہوں تاکہ اپنے مناصب سے انصاف کرتے ہوئے عوام الناس کے لیے سہولت پیداکرسکیں۔

اصول ِتنقیدومحاسبہ اورمعزولی

تنقید،محاسبہ اورمعزولی ایک ہی عمل کے مختلف مراحل ہیں۔تنقید سے شروع ہونے والاعمل محاسبہ کے ذریعے قصوروارثابت ہونے کے نتیجے میں صاحب ِمنصب کی معزولی پراختتام پذیرہوتاہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکرکوامت ِمحمدیہ کی بعثت کابنیادی فریضہ قراردیاگیاہے۔اس اصول کی روسے ہرفردپرلازم ہے کہ بقدراستطاعت برائی کے سدباب میں اپناکرداراداکرے۔چنانچہ منکرات پرتنقیدکرناہرفردکاشرعی حق ہے جس کی تصدیق ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

’’من رای منکم منکرافلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان‘‘[34]

’’جوتم میں سے برائی دیکھے اسے چاہیے کہ بزور ِبازواسے روکے۔اگرایسانہ کرسکے تواسکے خلاف آوازاٹھائے اوراگریہ بھی نہ کرسکے تودل میں اسے براجانے اوریہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے۔‘‘

اسی طرح روایات میں دین ِاسلام کونصیحت سے تعبیرکیاگیاہے اورخیرخواہی کاتقاضاہے کہ جہاں کہیں کوئی منکرسامنے آئے اس کی نشاندہی کی جائے۔اس بناپرریاست ِمدینہ میں ہرشخص حکومت پرنظررکھتااورجہاں کوتاہی نظرآتی اس کے حل کی پوری کوشش کرتا۔البتہ اتنی بات ضرورہے کہ تنقیدمخلصانہ اورتعمیری ہونی چاہیے۔تنقیدبرائے تنقیص امور ِسلطنت میں تعطل اورپریشانی کاباعث ہوکربسااوقات معاشرے میں انتشاراورخلفشارپیداکردیتی ہے۔

وزراء اورعمال کے تقررکے بعدان کامحاسبہ اورنگرانی بھی ریاست ِمدینہ کی عظیم الشان روایت رہی ہے۔خلفاء ِراشدین رضی اللہ عنہم کااپنے آپ کوکھلے دل سے احتساب کے لیے پیش کرنااس امرکی دلیل ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی فردمطلق العنان اوربازطلبی سے مستثنیٰ نہیں۔مال ِغنیمت کی چادروں کی تقسیم کے بارے ایک عام شہری خلیفہ راشدعمررضی اللہ عنہ پرسوال اٹھاتاہے۔آپ اطمینان سے اسے سنتے اوراپنے بیٹے کی زبانی حقیقت بیان کرکے اعتراض دورکرتے ہیں۔[35]خودعمررضی اللہ عنہ عمال کے محاسبہ میں دیگرخلفاء سے زیادہ سخت نظرآتے ہیں۔آپ ہی کے دورمیں گورنرِمصرکے بیٹے نے عام آدمی کوتھپڑمارا۔انصاف طلبی پرگورنراوربیٹے کوبلواکررعایاکے سامنے اسی مظلوم کے ذریعے بدلہ دلوایاگیا۔[36]

احتساب کے نتیجے میں کوتاہی اورغفلت کے مرتکب افرادکی معزولی بھی ریاست ِمدینہ کی ایک اصولی روش ہے۔معزولی کے نتیجے میں امیرلوگوں کے حقوق کاتحفظ کرتاہے۔برطرفی جہاں کوتاہی کے مرتکب کے لیے زجروتوبیخ کاکام کرتی ہے وہیں آئندہ آنے والے کے لیے تنبیہ کاباعث بنتی ہے۔ریاست ِمدینہ میں بدعنوانی اورخیانت،عہدہ کی مطلوب صلاحیت میں کمی واقع ہونا اورعمومی مصلحت کے پیش ِنظرمعزولی کاتذکرہ ملتاہے۔عہدے کی طلب میں چونکہ حرص وہوس کاشائبہ پایاجاتاہے جوکہ امانت ودیانت کے اعلیٰ معیارکے خلاف ہے اس لیے ایسے افراد کوشروع ہی سے عہدہ سے الگ رکھاگیا۔[37] ایک گورنرکی معزولی کے موقع پرعمر رضی اللہ عنہ کاکلام کتب ِتاریخ میں موجودہے کہ’’ میں نے کسی ناراضگی یاگناہ کی وجہ سے اسے معزول نہیں کیابلکہ میں زیادہ قوی شخص کوعہدہ سونپناچاہتاہوں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاسکے‘‘۔[38] خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی صلاحیت،امانت ودیانت میں کوئی کلام نہیں۔لیکن عمررضی اللہ عنہ کاانہیں معزول کرنااس عمومی مصلحت کے بسبب تھاکہ کہیں لوگ اس فتنے میں مبتلانہ ہوجائیں کہ فتح کادارومدارخالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی امارت وعدم ِامارت پرہے اوراللہ تبارک وتعالیٰ سے ان کی نظرہٹ جائے۔

مختصریہ کہ تنقید،محاسبہ اورمعزولی کاعمل کسی حقیقی مصلحت کی بناپرہوناچاہیے۔ ذاتی مفاد اورضدوعنادکے نتیجے میں کسی اہل اورباصلاحیت شخص کوعہدہ سے سبکدوش کرناناصرف مذموم بلکہ انسانیت کونفع سے محروم کرناہے۔

تعصب سے پاک عالمگیرنظریہ قومیت کی حامل ریاست

انسان کی تمدنی زندگی اس بات کاتقاضاکرتی ہے کہ مشترک اغراض ومقاصدکے حصول کے لیے باہمی تعاون اوراشتراک کے طریق پرعمل کیاجائے۔یہ امرتمدنی ترقی کے ساتھ اجتماعی اتحادکاموجب ہوکرقومیت کوجنم دیتاہے جس کااطلاق مشترک اغراض ومصالح کے حامل مجموعہ افرادپرہوتاہے۔قومیت کاابتدائی نقطہ اگرچہ قابل ِتحسین ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کے نتیجے میں عصبیت کاغلبہ اسے داغدارکرنے کی کوشش کرتاہے۔تاہم قومیت کے معیاراورجذبہ حمیت کوکڑی شرائط کاپابندبنادیاجائے توفسادکی جگہ صلاح وخیرکاپہلونمایاںہوجاتاہے۔

نسل،وطن،زبان اورنظم ِمعیشت وحکومت کااشتراک قومیت کے مروجہ عناصرہیں لیکن اسلام ان سب کے برعکس ایک عالمگیراوروسیع نظریہ قومیت فراہم کرتاہے اورانسانیت کے مابین ہمہ قسم کے مادی ونسلی فروق کی نفی کے بعدجس چیزکوعزت وشرف کامعیارقراردیتاہے وہ دین اورتقویٰ ہے۔ارشاد ِربانی ہے :

"یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر۔"[39]

’’لوگو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورتمہاری قومیں اورقبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کوشناخت کرو۔بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والاوہ ہے جوزیادہ پرہیزگارہے۔بیشک اللہ سب کچھ جاننے والااورسب سے زیادہ خبردارہے۔‘‘

آیت مبارکہ کی روسے تمام بنی آدم کی اصل ایک اورقبائلی تقسیم کامقصدباہمی تعارف وپہچان ہے۔انسانیت کونسلی وقبائلی تفاخرکی بھینٹ چڑھنے سے بچاکراس امرکی تلقین کرتاہے کہ نسل ِانسانی کے مابین اصل امتیازاعمال واخلاق کے حسن وقبح کی بناپرہے۔پورے کلام ِالٰہی میں نسلیت ووطنیت کی تائیدسے ہٹ کرتمام انسانیت کومخاطب کیاگیاہے۔اس سے یہ امرمترشح ہوتاہے کہ اسلام روئے زمین پربسنے والے تمام انسانوں کی صلاح وفلاح کاداعی ہے۔یہ وہ عالمگیرنظریہ قومیت ہے جس سے بقیہ ادیان ونظام ہائے حیات عاری ہیں۔

لچک داراورعصری تقاضوںسے ہم آہنگ ریاست

کائنات میں بقااوراستحکام کے لیے وقت کے دھارے کے ساتھ اپنے اندرجدت پیداکرنااشدضروری ہے۔قانون ِالٰہی بھی وقتی حالات کومدنظررکھنے کادرس دیتاہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کومعجزات زمانے کی ضرورت کے پیش ِنظرعطاکیے گئے۔ید ِبیضااورعصائے کلیم کے ذریعے سحروتخیل کابطلان کیاگیاتواحیاء اموات اورلاعلاج امراض کے علاج اورشفایابی کی بدولت مشہوراطباء کودعوت ِفکردی گئی۔اسی طرح عہد ِرسالت میں فصحاء وبلغاء کلام ِمقدس کی فصاحت وبلاغت کامقابلہ کرنے سے عاجزآئے۔نیزعصری ضرورت کوپیش ِنظررکھنے کااشارہ اس فرمان ِالٰہی سے بھی ملتاہے :

"وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ ۔"[40]

’’اورتم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھرقوت کی تیاری رکھو۔‘‘

آیت مبارکہ میں قوت کاعموم اس امرکی طرف مشیرہے کہ زمان ومکان کے مطابق کفارسے مقابلہ کے لیے قوت واستعدادتیاررکھنالازم ہے۔یہ تمام اموراسلام کی عالمگیریت اورابدیت ثابت کرتے ہوئے اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ اسلام لچک داراورحالات وازمنہ کے مطابق اپنے اندروسعت پیداکرنے والادین ہے۔

اسلام کی اسی ابدیت کے پیش ِنظرآپﷺریاست ِمدینہ کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں کوشاں رہے۔اصحاب رضی اللہ عنہم کوغیرعربی زبانیں سیکھنے کاحکم،سفراء ووفودسے ملاقات کے لیے مخصوص لباس اورمہرکی تیاری وقتی ضرورت کی بناپرہی تھا۔آپ ﷺکے بعدخلفاء ِراشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دورکی ضرورتوں کے پیش ِنظرملکی نظم ونسق میں ترامیم کیں جس کی واضح مثال ان اداروں اورمحکموں کاقیام ہے جن کاوجودریاست ِمدینہ کے اولین ادوارمیں نہیں ملتا۔ظاہرہے کہ وقت کاتقاضاہی ان کے قیام کامحرک بنا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اہل ِاسلام اس ضرورت کاادراک اورتکمیل میں کوشاں رہے سیادت وقیادت ان کامقدررہی۔ترقی یافتہ اقوام میں شماراورشانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے عصری تقاضوں کی تکمیل نہایت ضروری ہے جن میں جدیدعلوم پردسترس،معاشی واقتصادی اصلاحات اوردفاعی امورمیں مہارت شامل ہیں۔

یہ وہ مضبوط بنیادیں تھیں جن پرریاست ِمدینہ کی عمارت کھڑی کی گئی اوران کی بدولت مختصرعرصے میں اسے لازوال حیثیت حاصل ہوئی۔موجودہ دورمیں انہی بنیادوں پرکسی ریاست کی تشکیل اس کے رسوخ اورثبات کی ضمانت ہے۔

آپ ﷺکی سیاسی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

آپ ﷺنے نقطہ صفرسے انتظام ِریاست کاآغازفرمایااورپھراپنی کمال فراست سے مملکت کاایسانظم ونسق ترتیب دیاجس نے ایک لازوال اورمثالی فلاحی معاشرے کی بنیادرکھی۔انسانیت کے لیے نافع ہی انسانوںمیں سے بہترہے[41] کااصول تمام ترریاستی حکمت ِعملی میں لاگوفرماکرعوامی فلاح کی راہ سازگاربنائی گئی۔اس اصول نے جہاں یہ امرواضح کردیاکہ ریاست کاوجودفلاح ِعامہ کی بنیادپرہی عمل میں لایاگیاہے وہیں ہرریاستی ادارے کواس امرکاپابندبنایاکہ کسی بھی پالیسی میں اس اصول کوفراموش نہ کیاجائے۔آئندہ سطورمیں مختلف شعبہ جات میں آپ ﷺکی حکمت ِعملی اورعوامی فلاح میں ان کے کردارکاجائزہ لیاجاتاہے۔

انتظامی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

انتظامی حکمت عملی کے سلسلے میں لوگوں کواجتماعیت کے قالب میں ڈھالنااورمرکزسے جوڑے رکھنانہایت ضروری تھاتاکہ سیاسی وحدت واجتماعیت قائم کی جاسکے۔اس ضرورت کے پیش ِنظر ریاست کے مرکزاورسیکرٹریٹ کے طورپرمسجد ِنبوی کی بنیادرکھی گئی جومحض عبادت گاہ ہونے کی بجائے تمام ترریاستی اقدامات کامرکزقرارپائی۔عمائدین ِحکومت کوہدایات جاری کرناہوں یاسفراء ووفودسے ملاقات،تعلیم وتبلیغ کاسلسلہ ہویاغنیمت کی تقسیم کامعاملہ تمام امورمسجدمیں طے کیے جاتے۔اس عمل سے اسلامی معاشرے میں مسجدکی اہمیت اورمرکزیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔مسجدکے ساتھ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں کی تعمیرتعمیرات اورجدیدکالونائزیشن کے تصورکو واضح کرتی ہے۔راستے سے تکلیف دہ چیزکے ہٹانے کوصدقہ قراردینا[42] اورآپﷺکایہ فرمان کہ’’راستہ سات ہاتھ یعنی دس فٹ کشادہ رکھو۔‘‘[43] شاہراؤں کی تعمیراورتنظیف پردال ہے۔کسی بھی بلدیاتی نظام کالازمی حصہ سمجھے جانے والے اصول مثلاًصاف پانی کی فراہمی،نکاسی آب کے بارے ہدایات اورکوڑاکرکٹ کے لیے آبادی سے باہرایک جگہ کاتعین سب آپﷺکی انتظامی پالیسی کی مثالیں ہیں جوصحت منداورپاکیزہ معاشرے کے قیام میں معاون ہیں۔

وحدت والفت کی بات کی جائے تومہاجرین وانصاراگرچہ نظریاتی طورپرآپﷺکے موافق تاہم دونوں الگ روایات کی حامل اقوام تھیں۔قریش عرب کی ممتازقوم یہاں مجبوراورمہاجرہونے کی حیثیت سے آئی تھی۔ایسے معاشرے کومنظم وحدت میں پرونااورمعاشرتی تعلقات کوٹھوس بنیادفراہم کرنانہایت ضروری تھا۔آپﷺنے مؤاخات کے ذریعے فریقین کومنظم کیااوراس طرح مدینہ منورہ امت ِمسلمہ کامرکزومحوربن کرابھرا۔آپ ﷺنے اجتماعیت کادائرہ کاربڑھاکریہوداورمدینہ کے اطراف میں بسنے والے غیرمسلم قبائل کوبھی میثاق ِمدینہ کے ذریعے مملکت کے شہری قراردیااوریوںمدینہ اوراطراف کاعلاقہ سیاسی وحدت قرارپایا۔

آپ ﷺکی اس حکمت ِعملی نے رعایاکی فلاح وبہبودمیں نمایاں کرداراداکیا۔اتحادواتفاق کے قیام کے ساتھ ساتھ لوگوں کامعیار ِزندگی بلندہوااوراقوام ِعالم کی مہذب ومتمدن اقوام میں ان کاشمارہونے لگا۔اسی پالیسی کوخلفاء ِراشدین رضی اللہ عنہم نے پروان چڑھایااوریوں مدینہ کانظم ونسق ایک بہترین اورمثالی انتظامی پالیسی کے طورپرشمارہوا۔

معاشی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

امربالمعروف ونہی عن المنکرکافریضہ انفرادی واجتماعی سطح پرامت ِمحمدیہ کے ہرفردسے مطلوب ہے۔چنانچہ نیکیوں سے مزین اوربرائیوں سے پاک معاشرے کاقیام اسلامی مملکت کابنیادی فریضہ ہے۔مال اورملکیت کاتحفظ چونکہ ہرفردکاحق ہے اس لیے اس کے تحفظ کویقینی بنائے بغیربرائیوں سے پاک معاشرے کے قیام کاخواب ادھوراہے۔مال کوانسانی زندگی میں جواہمیت حاصل ہے اس کاانکارممکن نہیں۔انسان کی تمام بنیادی ضروریات کاوسیلہ اوردنیاوی خیروفلاح کاموجب ہے اسی بناپرمال کودنیاوی زینت قراردیاگیاہے۔[44]

معیشت کی اس ضرورت کاادراک کرتے ہوئے مرکزیت اوراجتماعیت کے بعدآپ ﷺمعاشی پالیسی کی تشکیل پرعمل پیراہوئے۔معاشی طورپر مدینہ کے باسی مختلف طبقات پرمشتمل تھے۔یہودی طبقہ سودی کاروبارسے وابستہ اورمعیشت پرمکمل طورپرقابض تھا۔مہاجرین مالی طورپرتنگی داماں کاشکار اورانصار ِمدینہ کے معاشی حالات میں بھی یکسانیت نہ پائی جاتی تھی۔ایسے معاشرے میں معاشی مساوات قائم کرناوقت کی اہم ضرورت کے ساتھ فراست وتدبرکاامتحان بھی تھا۔آپ ﷺنے ریاستی جبرکوثانوی حیثیت دے کرخداترسی اوراخلاقیات کے ذریعے قرض ِحسنہ،صدقات وعطیات،سخاوت اورباہمی تعاون وہمدردی کی فضاکوفروغ دیا۔چنانچہ بیشترمعاشی مسائل ان اخلاقی اقدارکی بدولت حل کیے گئے اورباقی ماندہ ضروریات کی تکمیل کے لیے ریاستی اقدامات کاسہارالے کرعوام الناس کی معاشی فلاح کویقینی بنایاگیا۔

آپﷺکی معاشی حکمت ِعملی کی ابتدائی جھلک مؤاخات ِمدینہ کی صورت میں نظرآئی جس کے ذریعے متمول صحابہ کے مال ودولت میں ضرورت مندصحابہ کوشریک بناکرضروریات ِزندگی کی فراہمی اوراہل ِایمان کے مابین معاشی توازن قائم کیاگیا۔بعدازاں دھن پرمخصوص طبقات کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے سودی قرضوں کے متبادل قرض ِحسنہ کانظام متعارف کرایاگیا۔جب معاشرے میں باہمی ہمدردی اورتعاون کی فضاقائم ہوگئی توآپ ﷺنے بالکلیہ حرام قراردے کرمعاشرے کوسودکی لعنت سے پاک کردیا۔[45]

دست سوال درازکرنے کی حوصلہ شکنی اورموجودوسائل کوبروئے کارلاکرروزگارکے مواقع پیداکرنابھی آپ ﷺکی معاشی حکمت ِعملی کاحصہ رہا۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کتب ِحدیث میں موجودہے کہ ایک شخص نے جب آپﷺسامنے سوال کیاتوآپ ﷺنے اس کے وسائل دریافت فرمائے ۔پتہ چلا کہ ایک ٹاٹ اورپیالہ اس کاکل اثاثہ ہے ۔آپ ﷺنے وہ نیلام فرماکررقم اس کے حوالے کی اورمزدوری کاحکم دیا۔چندیوم بعدجب ان کی معاشی حالت بہترہوگئی توآپ ﷺنے خوشی کااظہارفرمایااورکہا:

’’ہذا خیرلک من ان تجی المسالۃ نکتۃ فی وجہک یوم القیامۃ‘‘[46]

’’یہ بہتر ہے تیرے لیے بہ نسبت اس کے کہ تمہاراسوال بروز ِقیامت تمہارے چہرے پرداغ بن کر آتا‘‘

اس اصول نے معاشرے میں قناعت اورخودداری کوفروغ دیا۔بازارمیں اقتصادی مسابقت کی فضاپیداکی گئی جس کے نتیجے میں اشیاء کے نرخ متوازن سطح پربرقراررہے۔[47]ان تمام کاروباری شکلوں اورعوامل کی روک تھام کی گئی جن میں عوامی مفاداورفلاح کاپہلومفقوداورکسی فریق کالازمی نقصان نظرآتا۔افرادکوشخصی ملکیت کاحق ضروردیاتاہم اسے ایسے اخلاقی ضابطے کاپابندبنایاکہ وہ ذاتی منافع کی آڑمیں اجتماعی مفادکوٹھیس نہ پہنچاسکے۔معاشی توازن برقراررکھنے کی خاطرمیانہ روی کاطریق اپنانے پرزوردیاگیااوربخل واسراف کے بچنے کی تلقین کی گئی۔[48]آپ ﷺکی اس معاشی پالیسی کے خوشگواراثرات سامنے آئے۔عوام کے نہ صرف مسائل حل ہوئے بلکہ وہ معاشی طورپرمستحکم ہوگئے۔وقت کے ساتھ فتوحات اورمال ِغنیمت وفے کے نتیجے میں ریاست ِمدینہ کومعاشی رسوخ حاصل ہواتوخدمت ِخلق اورکفالت ِعامہ کے وسیع تصورنے ریاست کی فلاحی شناخت کوآشکاراکردیا۔

مختصریہ کہ آپ ﷺکی معاشی پالیسی فرداورریاست کے توازن کی بہترین عکاس ہے۔دیگرنظام ہائے معیشت کی طرح افراط وتفریط سے پاک اورمادیت وروحانیت کے حسین امتزاج پرمشتمل ہے۔اسلام اشتراکیت کی مانندنہ توفردکی شخصی ملکیت سلب کرکے ترقی کے محرک کوکچل کررکھ دیتاہے اورنہ سرمایہ دارانہ نظام کی مانندفردکوبے لگام چھوڑے رکھتاہے کہ وہ عوامی مفادات کوزدپہنچاتارہے۔اس بناپرریاست ِمدینہ کی معاشی پالیسی ہی مملکت ورعایاکی فلاح وبہبودکی ضامن ہے۔

دفاعی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

ریاست ِمدینہ کاقیام جن حالات میں عمل میں آیااس کومد ِنظررکھتے ہوئے بہترین دفاعی حکمت ِعملی مرتب کرنااشدضروری تھا۔بیرونی خطرات کے علاوہ اندورنی خلفشارکوکچلے بغیرریاستی استحکام ممکن نہ تھا۔اس ساری صورتحال میں میثاق ِمدینہ ہی ریاست کے اندرونی وبیرونی استحکام کاپہلاقدم ثابت ہوا۔اس دستاویزکے ذریعے آپﷺکومتفقہ طورپرسربراہ ِریاست تسلیم کیاگیااورمدینہ کوشہری مملکت قراردے کریہودکے تعاون سے دفاعی حکمت ِعملی مرتب کی گئی۔

جنگی قوت ایک وقت میں ایک ہی محاذپراستعمال کرناآپ ﷺکی جنگی پالیسی کانمایاں اصول رہا۔یہودکی عہدشکنی ظاہرہوجانے کے باوجودقریش کی جڑیں کمزورکرنے تک کسی قسم کی اورمحاذآرائی سے گریزکیاگیا۔غزوہ احزاب کے بعدیہودکی بیخ کنی پرتوجہ دی گئی کیونکہ مستقبل میں ان کاوجودریاست کے لیے خطرہ کی علامت تھا۔جب تک جنگی صورتحال برقراررہی آپ ﷺکوسفارتی تعلقات قائم کرنے کاموقع نہ مل سکالیکن صلح حدیبیہ نے آپ ﷺکویہ موقع فراہم کیا۔مختلف ریاستوں سے سفارت کاری کی بدولت جہاں تعلقات قائم ہوئے وہیں ریاست مخالف عناصربھی کھل کرسامنے آگئے جوآنے والے دورمیں مزاحمت یاصلح کے نتیجے میں ریاست ِمدینہ کی ماتحتی میں آگئے۔

اسلام سے قبل جنگ انتقام کی آڑمیں ملک گیری اوروحشت وبربریت کادوسرانام تھا۔میدان ِجنگ میں مردوعورت،بچے بوڑھے،مقابل وغیرمقابل کی تمیزکے بغیرقتل وغارت گری کابازارگرم کرکے مال ومتاع کاحصول باعث ِفخروعزت سمجھاجاتاتھا۔لیکن آپﷺنے جنگی منہج اورنصب العین کی تبدیلی کے ذریعے جنگ جیسی وحشت ناک چیزکوبھی رحمت کے قالب میں ڈھال دیا۔ملک گیری اورانتقام کی بجائے اعلائے کلمۃاللہ جنگی نصب العین قراراوراس مقصدکے لیے کم سے کم خون بہانے کی پالیسی پرزوردیاگیا۔[49]میدان ِجنگ کے آداب متعین کیے گئے،مقابل وغیرمقابل کاامتیازکیاگیااورسفاکیت ودرندگی کے تمام مروج طرق مثلاًلاش کی بے حرمتی اورمثلہ وغیرہ کی نفی کرکے دفاعی نظام کوبھی اخلاقی بنیادوں پراستوارکیاگیا۔حالت ِجنگ میں اخلاقیات کی بہترین مثال آپ ﷺکاوہ فرمان ہے جوآپ ﷺنے فتح مکہ کے موقع پرسعدرضی اللہ عنہ کے قول کہ ’’آج کادن جنگ کادن ہے اورآج حرمتیں پامال ہوں گی‘‘کی تردیدمیں ارشادفرمایا:

’’کذب سعدولکن ہذاالیوم یعظم اللہ فیہ الکعبۃ‘‘[50]

’’سعدنے غلط کہاآج کے دن اللہ کعبہ کی عظمت کوبلندکرے گا۔‘‘

اسی طرح جنگی قیدیوں سے اہانت آمیزرویے کے تسلسل کوختم کرکے حسن ِسلوک کاحکم اوران کے تمام بنیادی حقوق ریاست کی ذمہ داری قراردے کراحترام ِانسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔اساریٰ بدرکی مشروط رہائی کے نتیجے میں جہاں ریاست کی وقتی ضروریات پوری ہوئیں وہیں رئیس یمامہ ثمامہ بن اثال کی غیرمشروط رہائی[51] نے ریاست کے امن پسندانہ اورصلح جوئی کے کردارکوواضح کیا۔ آپ ﷺکی دفاعی پالیسی اورجنگی اصلاحات اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ اسلام جنگ جیسی نازک صورتحال میں بھی انسانیت کی فلاح اورخیرکاپہلوفراموش نہیں کرتا۔یہی دین ِاسلام کاوہ وسیع ترین فلاحی تصورہے جس کی مثال پیش کرنے سے بقیہ ادیان قاصرہیں۔

تعلیمی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

فلاح ِعامہ میں تعلیم وتعلم کی معنویت اورکردارکااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن میں متعددمقامات پرفلاح کوایمان وعمل پہ مرتب کیاگیاہے اورعلم کے بغیرعمل استنادکادرجہ نہیں پاسکتا۔علم وعمل کاالتزام اس نتیجہ کوثابت کرتاہے کہ علم ہی انسان کی حقیقی فلاح کاموجب ہے۔فلاح کے اعلیٰ معیارسے انسانیت کوروشناس کرانے کی خاطرآپ ﷺکی بعثت عمل میں لائی گئی تھی چنانچہ آپ ﷺنے ’’انما بعثت معلما‘‘[52]کے الفاظ کے ذریعے اپنے لیے اسی حیثیت کااظہارپسندفرمایا۔گوکہ فروغ ِتعلیم کا سلسلہ مکی زندگی میں بھی چلتارہالیکن ہجرت کے بعدتعلیمی سرگرمیوں نے سرکاری حیثیت اختیارکرلی ۔تعلیمی اقدامات ریاست ِمدینہ کی اولین فوقیت تھی جس کاثبوت مسجد ِنبوی کے ساتھ صفہ کی تعمیرتھی جسے عالم ِاسلام کی پہلی اقامتی درسگاہ ہونے کااعزازحاصل ہے۔[53] اسی طرح مسجد ِنبوی ریاست کی تمام تعلیمی سرگرمیوں کامرکزتھی جہاں باجماعت نمازکی صورت میں مساوات،اخوت ،اطاعت اورنظم وضبط کادرس سکھایاجاتااورمختلف خطبات کے ذریعے مدینہ کے شہریوں کونظریہ اسلام اوردیگراحکام کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔

اساریٰ بدرمیں سے پڑھے لکھے افرادکی مسلم بچوں کی تعلیم کے بدلے رہائی ریاست کی تعلیمی ترجیحات کاتعین کرتی ہے۔اسی طرح اصحاب کوغیرملکی زبانیں سیکھنے کاحکم دینے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ معاصرعلوم کی ترویج اوراداروں کاقیام بھی تعلیمی پالیسی کاحصہ ہوناچاہیے۔[54]مختلف مفتوحہ علاقوںمیں اصحاب کوبطورمعلم وقاضی بھیجنااس بات کی علامت ہے کہ رعایاکی تعلیم وتربیت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کوبخوبی نبھاتے ہوئے مدینہ کی ریاست میں ایسے اقدامات اٹھائے گئےکہ نصاب سازی سے لے کرتعلیمی اداروں کے قیام تک معاصرریاستیں آپ ﷺکے اسوہ کی پیروی کرتی نظرآتی ہیں۔

داخلی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار

کسی بھی ریاست کی داخلہ پالیسی مملکت کے اندرونی استحکام اورامن وامان کی مجموعی صورتحال کی عکاس ہوتی ہے۔ملک میں امن کی فضابرقراررکھنا،آنے والے وفودکااستقبال وبہتررہائشی انتظامات اورمعاشرے کے ضعفاء،نادارومستحق افرادکی کفالت کاانتظام داخلی وظائف میں شامل ہے۔امن وامان اورنظم وضبط برقراررکھنے کے لیے اولاًآپﷺنے زبانی ہدایات اورمعاشرتی رویوں کی تبدیلی کاسہارالیا۔انسانیت کواسلام کے تصور ِامن سے روشناس کراکرلسانی وعملی ایذارسانی سے منع فرمایاگیا۔عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:

’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘[55]

’’حقیقی مسلم وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

امن وسلامتی پرمبنی ایسی ہدایات کی بدولت آپﷺنے باہم متحارب ومخالف قبائل کوشیروشکرفرمادیاتھا۔اسی طرح مدینہ کے بارے آپ ﷺکاپیش کردہ حرم کاتصورہرایسے اقدام کی حوصلہ شکنی کرتاتھاجس میں جنگ وجدل یاانتشاروفسادکی بوپائی جائے۔سیرت ِطیبہ میں امن وامان کاجائزہ لینے کی خاطرافرادکے تقررکاثبوت ملتاہے جن کاکام گشت کرنااورمشکوک افرادکاپیچھاکرناہوتاتھا۔[56]ذاتیات کی حدتک تجسس ودخل اندازی گوشریعت ِمطہرہ میں ممنوع ہے تاہم وقت کی نزاکت کے پیش ِنظرسیاسی اغراض ومصالح کے لیے مخبروجاسوس کے تعین کااشارہ اسوہ حسنہ سے ملتاہے جن کاکام شرپسندعناصرکی نشاندہی کرناہوتاتھاتاکہ ریاست اس کے خلاف کارروائی کرسکے۔[57] مختلف غزوات کے موقع پرجاسوسوں کی اطلاعات پراقدامات کاتذکرہ بھی کتب ِسیرت میں پایاجاتاہے۔یہ وہ اصول تھے جن کوبنیادبناکردور ِفاروقی میں پولیس کاباقاعدہ محکمہ قائم کیاگیاجس کی ضرورت ریاست ِمدینہ کے ابتدائی دورمیں نہ تھی۔

کفالت ِعامہ کے ضمن میں اس اصول کے ذریعے کہ ’’جس کاکوئی والی نہ ہوامیروحاکم اس کاوالی ہے۔‘‘[58]مستحق ونادارافرادکابار ِکفالت ریاست کے کندھوں پرڈالاگیا۔آپ ﷺکے اس طرز ِعمل نے ریاست کااصل رفاہی اورفلاح ِعامہ کاتصوردنیاکے سامنے پیش کیا۔آنیوالے وفودکااستقبال اورمہمانداری بھی ریاست کی داخلی پالیسی کاحصہ رہی۔مسجد ِنبوی یاکسی صحابی کے گھران کی رہائش کاانتظام کیاجاتا۔[59] آنے والے مہمانوں کی خاطرمدارت اوراعزازواکرام کاآپ ﷺکواس قدرخیال تھاکہ ابن ِعباس رضی اللہ عنہماکی روایت کے مطابق آپﷺکے آخری وصایامیں یہ وصیت بھی شامل تھی:

’’وجیزالوفودبنحوماکنت اجیزہم‘‘[60]

’’وفودکواسی طرح عطیہ پیش کیاکرناجیسامیں عطیہ دیاکرتاتھا۔‘‘

آپ ﷺکایہ حسن ِسلوک انسانی ہمدردی اوراحترام ِآدمیت کی عمدہ مثال اورمخالفین کے دلوں کومسخرکرنے کاموجب بنا۔آپ ﷺکے بہترین داخلی اقدامات کی بدولت ریاست ِمدینہ میں امن وامان ،بھائی چارہ اوراخوت ومساوات جیسی اخلاقی اقدارکوفروغ ملااوریوں انسانیت فلاح کے ایک اعلیٰ معیارسے روشناس ہوئی۔== خارجی حکمت ِعملی اورفلاح ِعامہ میں اس کاکردار ==

اسلام ساری انسانیت کی خیروفلاح کے علمبردارہونے کے ناطے عالمی امن اوراستحکام کی بات کرتاہے اوراسی مقصدکی خاطرآپﷺکی بعثت عمل میں لائی گئی۔سیرت کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ آپ ﷺنے پوری زندگی نہ صرف ہرایسے قدم کی حوصلہ افزائی کی جومعاشرتی ظلم واستحصال کے خاتمہ کے لیےاٹھایاگیابلکہ عملاًایسی ہرکاوش میں شریک ِکاربھی رہے۔حرب ِفجارکے بعدحلف الفضول میں شرکت اس بات کاواضح ثبوت ہے۔

ریاست ِمدینہ کے قیام کے بعدداخلی امن وامان یقینی بناکرآپ ﷺنے اپنی کوششوں کارخ عالمی امن واستحکام کی طرف موڑا۔پوری دنیاکوامن وسلامتی سے بہرہ ورکرنے کے لیے عرب وغیرعرب چھوٹی بڑی طاقتوں سے تعلقات قائم کیے گئے۔خط وکتابت کے ذریعے امن کاپیغام ان تک پہنچایاگیا۔توثیق ِمعاہدات کے ذریعے فروغ ِامن کے مشن کوجاری رکھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺکی خارجہ پالیسی میں امن ِعامہ اورعالمی اتحادایک واضح اصول کی شکل میں ہمیں نظرآتاہے۔اسلام جنگ وجدل کی بنیادپراپنی جغرافیائی حدودکی وسعت پریقین نہیں رکھتا۔میدان ِجنگ میں آپ ﷺکااسوہ حسنہ اس بات کوظاہرکرتاہے کہ جنگ وقتال ایک انتہائی صورت ہے جوقیام ِامن کی تمام غیرمسلح کوششیں بے سودہونے کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے۔تاہم کسی بھی مرحلہ پراگرمخالفین صلح پرآمادہ ہوجائیں تواہل ِاسلام کوبھی صلح کی ترغیب اورحکم دیاگیاہے۔

"وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ"[61]

’’اوراگریہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوجائیں توتم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤاوراللہ پربھروسہ رکھو۔‘‘

تالیف ِقلبی یعنی اپنے حسن ِسلوک کی بدولت اغیارکے دلوں کوموہ لینابھی تعلقات ِعامہ کے باب میں ایک اہم اصول رہا۔امراء وسلاطین کوتحائف بھیجنا،کٹھن حالات میں معاشی اعانت اورمفتوحین سے اچھابرتاؤتالیف ِقلب ہی کی صورتیں ہیں جن کاثبوت سیرت ِطیبہ میں ملتاہے۔تالیف ِقلبی ہی کی بناپراسلام ان اقوام وملل سے حسن ِسلوک اورمنصفانہ برتاؤ کاحکم دیتاہے جواسلام واہل ِاسلام کے خلاف کسی قسم کی معاندانہ روش کاارتکاب کرتے نہیں پائے جاتے۔ارشاد ِربانی ہے:

"لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ "[62]

’’جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اورنہ تم کوتمہارے گھروں سے نکالاان کے ساتھ بھلائی اورانصاف کاسلوک کرنے سے اللہ تم کومنع نہیں کرتا۔‘‘

البتہ اتنی بات ذہن نشین رہے کہ کفارکے تعلقات استوارکرنے میں برابری کااصول فراموش کرنانہ تواسوہ محمدی سے ثابت ہے اورنہ ہی اس کی اجازت۔فقہ ِاسلامی کامسلمہ اصول ہے کہ :

’’الامر بینناوبین الکفارمبنی علی المجازاۃ‘‘[63]

’’ہمارے اورکفارکے مابین معاملہ برابری کی بناپرہوگا۔‘‘

اسی اصول کومد ِنظررکھتے ہوئے عمررضی اللہ عنہ نے کافرتجارپرعشورکانفاذکیاتھا۔[64] البتہ اگرکفارکسی قسم کی بدعہدی کے مرتکب ہوں توہمارے لیے نقض ِعہدکسی طورجائز نہ ہوگا۔اس اصول پرتعلقات کے قیام سے بزدلی کی بجائے بہادری اوردلیری کے عنصرکے ساتھ ساتھ اسلام کاصلح جوئی کاپہلوبھی نمایاںہوتاہے۔

مختصریہ کہ آپ ﷺکی بہترین حکمت ِعملی کی بدولت ریاست ِمدینہ کونہ صرف داخلی وخارجی استحکام عطاہوابلکہ علمی واقتصادی ہمہ قسم کے مسائل بھی حل ہوگئے۔آنے والے ادوارمیں ریاست ِمدینہ ایک مضبوط اورترقی یافتہ ریاست کے روپ میں جلوہ گرہوئی جس کے نظم ونسق کی پیروی ریاست وحکومت کے باب میں کمال وعروج کی ضمانت ہے۔= ریاست ِمدینہ اوراسلامی جمہوریہ پاکستان میں مماثلت =

تاریخ کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ ریاست ِمدینہ اورپاکستان کے قیام میں کافی حدتک مماثلت پائی جاتی ہے۔قیام ِپاکستان کامحرک دوقومی نظریہ اسی تصورکاارتقا ہے جوریاست ِمدینہ کے پہلے سربراہ جناب محمدﷺنے قریش کے مصالحتی فارمولے کوردکرتے ہوئے ’’لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن‘‘[65]کی صورت میں پیش کیا۔ریاست ِمدینہ کی مانندپاکستان کاقیام بھی کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اورکثیراللسانی معاشرے میں عمل میں آیا۔دونوں ریاستوں کی ابتدامیں ہجرت ونصرت کاعنصربھی دیکھنے کوملتاہے۔قیام کے فوراًبعداندرونی وبیرونی سازشوں نے دونوں ریاستوں کی جڑیں کمزورکرنے کی کوشش کی تاہم رسالت ماب محمدﷺکی بہترین حکمت ِعملی کی بدولت ریاست ِمدینہ کے مخالفین کوہرمیدان میں ہزیمت اٹھاناپڑی ۔ان مماثل پہلوؤںکومد ِنظر رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اگرچہ مسائل سے دوچاراورنازک مرحلے سے گذررہاہے لیکن دوقومی نظریہ اورایثاروہمدردی کاجذبہ اس کی بقا کاضامن ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت وریاست کے باب میں آپﷺکی تعلیمات اوراسوہ حسنہ کی پیروی کی جائے۔اسی میں انسان کی شخصی اوراجتماعی خیروفلاح مضمرہے۔= نتائج بحث =

  1. عوامی فلاح کی خاطراورمعاشرتی تقاضے کی تکمیل میں ریاست ِمدینہ کاقیام عمل میں آیاجسے پہلی فلاحی مملکت ہونے کااعزازحاصل ہے۔
  2. حاکمیت ِالٰہی کے نفاذاوررعایااورحکومت کے تعلق کے مابین توازن واعتدال کی بدولت ایک مستحکم وپائیدارمعاشرے کی جھلک دیکھنے کوملی۔
  3. عالمگیرنظریہ قومیت کی بناپراتحادواتفاق کی فضاکوفروغ ملااورمعاشرتی برائیوں کاسدباب ہوا۔
  4. عوام الناس کوحقوق اوربنیادی ضروریات کی فراہمی کی بدولت نہ صرف ان کامعیار ِزندگی بلنداور معاشرے سے رشوت،سودخوری،قتل وغارت گری جیسے جرائم کااستیصال ہوا۔
  5. اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اورمناصب پراہل افرادکی بدولت ریاستی نظم ونسق بلاتعطل جاری وساری رہاجس کی بدولت لوگوں کی ضروریات بروقت اوربرمحل پوری ہوئیں۔
  6. ریاست ِمدینہ کے نظم ونسق کی پیروی ہی سے عصرِحاضرمیں فلاحی ریاست کاقیام ممکن ہے ۔اسی میں انفرادی واجتماعی فلاح اوردنیاوآخرت کی کامیابی وکامرانی مضمرہے۔

خلاصہ بحث

انسانیت کودنیاوی واخروی کامیابی سے ہمکنارکرنے کے لیے اسلام ریاست وحکومت کاایک بہترین نظام وضع کرتاہے۔یہ نظام افرادکی تمام دنیاوی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدارکی بدولت اخروی فلاح وبہبودکابھی ضامن ہے۔آپﷺنے اسلام کے اسی نظام کی بنیادپرمدینہ میں ریاست کی بنیادرکھی جسے پہلی فلاحی ریاست ہونے کااعزازحاصل ہے۔خدادادصلاحیت اوررہنمائی کی بدولت آپﷺنے دنیاکوایسے نظم ِسلطنت سے متعارف کروایاجہاں فردکی آزادی اورحقوق کاخیال رکھاگیا۔بلاامتیازعدل وانصاف کے تمام تقاضوں کوپوراکیاگیاجس کے نتیجے میں جرائم اورہرقسم کے ظلم واستحصال کاخاتمہ ہوا۔آپﷺ کی بہترین حکمت ِعملی مسائل کے خاتمہ کے ساتھ ریاست کے استحکام اورترقی میں معاون بنی۔ریاست ِمدینہ کااس نہج پرمطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ آج کی مہذب دنیاجن حقوق کاراگ الاپتی اوران کے تحفظ کی دعویدارہے چودہ صدیاں قبل قائم ریاست ِمدینہ ان حقوق کی فراہمی یقینی بناکرعدل وانصاف کے تمام تقاضے پورے کرچکی ہے۔عصرِحاضرمیں کسی بھی ریاست کی اس نہج پرتشکیل ریاستی ترقی واستحکام کے ساتھ انسانی فلاح وبہبودکی ضمانت ہے۔

تجاویز وسفارشات

  1. ریاست ِمدینہ کے ماڈل کی پیروی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کواسلامی سیاسی نظام سے روشناس کرانے کے لیے ریاست ِمدینہ کے نظام اور تعلیمات ِنبوی ﷺکوتعلیمی نصاب کاحصہ بنایاجاناچاہیے۔
  2. قرآن وسنت کی روشنی میں قانون سازی کاعمل یقینی بنایاجائے اورخلاف ِاسلام قوانین کاجائزہ لے کراسلامی قالب میں ڈھالنے کے لیے کوشش کی جائے۔
  3. امن وامان،نظم وضبط،عدل وانصاف اوربنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے تمام اداروں کی قانون سازی ریاست ِمدینہ کے نہج پرضروری ہے تاکہ ادارے اپنے وظائف کماحقہ بجالاسکیں۔
  4. حکومتی افرادکواس بات کاپابندہوناچاہیے کہ مناصب پرافرادکے تقررمیں کسی بھی قسم کی اقرباپروری،نسلی یالسانی حمیت کوبنیادنہ بنائیں بلکہ ایسے افرادکومناصب پرفائزکریں جوعہدے کی اہلیت اورامانت ودیانت کے وصف سے متصف ہوں۔
  5. ملک میں سائنس وٹیکنالوجی کوفروغ دیاجاناچاہیے کیونکہ عصرِحاضرمیں بہت سے مصالح کی تکمیل اس کے بغیرممکن نہیں۔اسی طرح ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے پیش ِنظرانہیں فلاح وخیرخواہی پرمبنی استعمال کاپابندبنایاجائے۔

This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)

حوالہ جات

  1. السامرائی،نعمان عبد الرزاق، النظام السیاسی فی الاسلام،مکتبۃ الملک فہد ریاض،الطبعۃ:الثانیۃ،2000ء ، صفحہ79
  2. الطوسی،ابوجعفرنصیرالدین محمدبن محمد،اخلاق ِناصری،لکھنو،1343ھ،ص82
  3. مودودی،ابوالاعلیٰ،اسلامی ریاست،اسلامک پبلی کیشنزلمیٹڈ لاہور،ص285
  4. محمود احمد غازی ،قواعدکلیہ اوران کاآغازوارتقاء،شریعہ اکیڈمی اسلام آباد،طبع دوم،2014ء ،صفحہ 150
  5. السیوطی،عبدالرحمٰن بن أبی بکر،جلال الدین،جامع الاحادیث،الہمزۃ مع الیاء ،رقم الحدیث 1056
  6. الغزالی،ابوحامدمحمدبن محمد،احیاء علوم الدین،مصطفی البابی الحلبی مصر،1939ء،ج2،ص109
  7. ابن خلدون،عبدالرحمن،المقدمۃ،مطبعۃ لجنۃ البیان مصر،1965ء،ج2،ص422
  8. الراغب الاصفہانی،مفردات الفاظ القرآن،دارالقلم دمشق،طبع رابع،2009ء،ص644
  9. الماوردی،ابوالحسن علی بن محمد،نصیحۃ الملوک،دارالنھضۃ بیروت،ص150
  10. ابن ماجہ،ابوعبداللہ محمدبن یزید،سنن ابن ماجہ،دارالحضارۃللنشروالتوزیع ریاض،طبع ثانی،رقم الحدیث 224
  11. سورۃالعادیات:8
  12. سورۃالنساء:5
  13. الذہبی،محمدبن احمد،میزان الاعتدال،دارالمعرفۃ بیروت،،ط س ن،ج4،ص416
  14. سورۃ طہ:119,118
  15. سورۃالحجرات:13
  16. سورۃ الحدید:25
  17. سورۃ الحج:41
  18. سیدابوالاعلیٰ مودودی،اسلامی ریاست،اسلامک پبلی کیشنز لاہور،ص334
  19. سورۃ المومنون:88
  20. سورۃ البروج:16
  21. سورۃ الحشر:23
  22. سورۃ النور:55
  23. سورۃ النساء:59
  24. ابن ماجہ،سنن ابن ماجہ،کتاب الجہاد،باب لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ،رقم 2865
  25. الراغب الاصفہانی،مفردات الفاظ القرآن،ص 470
  26. سورۃ ال عمران:159
  27. سورۃالشوریٰ:38
  28. محمدتقی عثمانی،اسلام اورسیاسی نظریات،مکتبہ معارف القرآن کراچی،2010ء،ص264
  29. سورۃطہ:29
  30. الماوردی،الاحکام السلطانیۃ،صفحہ30
  31. سورۃالنساء:58
  32. مسلم،ابوالحسین بن حجاج القشیری،صحیح مسلم،بیت الافکارالدولیۃریاض،1998ء،کتاب الامارۃ،باب کراہۃ الامامۃبغیرضرورۃ،رقم 1825
  33. مسلم،صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب النہی عن طلب الامارۃ والحرص علیہا،رقم 1652
  34. مسلم،صحیح مسلم ،کتاب الایمان،باب20،رقم78۔49
  35. ابن قتیبۃ،عبداللہ بن مسلم،السلطان،المکتبۃ الازہریۃ قاہرۃ،ط س ن،صفحہ138
  36. الہندی،علی المتقی بن حسام الدین،کنز العمال،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت،الطبعۃ:الخامسۃ،1985ء،رقم36010
  37. البخاری،صحیح البخاری،کتاب الاحکام،باب7،رقم6730
  38. الطبری ،محمدبن جریر،تاریخ الرسل و الملوک ،دارالمعارف بیروت،1967ء،جلد2،صفحہ490
  39. سورۃ الحجرات:13
  40. سورۃالانفال:60
  41. الہندی،کنزالعمال،رقم 44154
  42. مسلم،صحیح مسلم،رقم الحدیث58
  43. الترمذی،جامع الترمذی،رقم الحدیث 1355
  44. سورۃالکہف:46
  45. سورۃالبقرۃ:275
  46. ابوداؤد،سلیمان بن اشعث ،سنن ابی داؤد،بیت الافکار الدولیۃ ریاض،1999ء،کتاب الزکاۃ،باب ماتجوز فیہ المسئالۃ،رقم الحدیث 1641
  47. الترمذی،جامع الترمذی،رقم الحدیث1314
  48. سورۃالاعراف:31
  49. سورۃالانفال:39
  50. البخاری،صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب این رکز النبی الرایۃیوم الفتح،رقم الحدیث 4280
  51. ابوداؤد،سنن ابی داؤد،رقم الحدیث 2679
  52. الغزالی،احیاء علوم الدین،کتاب العلم،ص18
  53. ڈاکٹرحمیداللہ،اسلامی ریاست،الفیصل ناشران کتب لاہور،ص30
  54. الترمذی،جامع الترمذی،رقم الحدیث2715
  55. البخاری،صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ،رقم الحدیث 10
  56. ڈاکٹرنثاراحمد،عہدنبویﷺمیں ریاست کانشووارتقاء،نشریات لاہور،2008ء،ص417
  57. ایضاً،ص418
  58. ابوداؤد،سنن ابی داؤد،کتاب النکاح،باب فی الولی،رقم الحدیث2083
  59. ڈاکٹرنثاراحمد،عہدنبویﷺمیں ریاست کانشووارتقاء،ص415
  60. البخاری،صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ،باب اخراج الیہودمن جزیرۃالعرب،رقم الحدیث3168
  61. سورۃالانفال:61
  62. سورۃالممتحنۃ:6
  63. السرخسی،محمدبن عبداللہ،شرح السیرالکبیر،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1997ء،ج 5،ص285
  64. الحارثی،ڈاکٹرجریبۃبن احمد،الفقہ الاقتصادی لامیرعمربن الخطاب رضی اللہ عنہ،دارالاندلس الحضارۃجدہ،طبع اول،2003ء،ص505
  65. سورۃالکافرون:6
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...