Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 2 of International Research Journal on Islamic Studies

عصر حاضر کے تناظر میں اسلامی فلاحی ریاست کے اصول و مبادی |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2020

ARI Id

1682060026458_974

Pages

33-46

PDF URL

https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/download/15/8

Chapter URL

https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/view/15

Subjects

State Welfare Social Economic Problems Muslim State Welfare Social Economic Problems Muslim

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

خالق کائنات نے بشمول انسان اپنی تمام مخلوقات کی سرشت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ ہم جنس کے ساتھ باہم مل جل کر رہتے ہیں۔لیکن انسانوں کے معاشرےمیں یہ انوکھی انفرادیت ہے کہ وہ ہم جنسوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام جانداروں سے مل کرایک معاشرہ تخلیق کرتاہے۔ چنانچہ انسانی معاشرے میں ہمیں پالتو جانور بھی ملتے ہیں دوسرا یہ کہ انسانوں کے معاشرے میں کچھ اخلاقی ضابطے بھی ملتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ دیگر مخلوقات کے بار ے میں کچھ مثبت رویے اپناتا ہے ۔یہیں سے انسانی تہذیب وثقافت جنم لیتی ہے۔اس تہذیب وثقافت کے نتیجے میں پھر وہ معاشرتی ادارے پیدا کرتا ہے جن میں سے ایک ادارہ ریاست بھی ہوتا ہے۔یہ ریاستیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک انسانوں کے طے کردہ ضابطوں کی روشنی میں ترتیب پانےوالی ریاستیں دوسرے خدائی احکام کی بنیاد پر جنم لینے والی ریاستیں ۔

انسانوں کی تاریخ میں عاد ،ثمود،نمروداورفرعون کی قائم کردہ ریاستیں اول الذکر زمرے میں آتی ہیں جبکہ حضرت یوسف،حضرت داؤد،حضرت سلیمان علیھم السلام اور آنجناب ﷺکی تعلیمات پر جنم لینے والی ریاستیں دوسرے زمرے کی ریاستیں شمار ہوتی ہیں۔ اول الذکر ریاستوں کا مقصد انسانی احکام پر مبنی تہذیب وتمدن کا تحفظ جبکہ مسلم ریاستوں کے قیام کا مقصد خدائی احکام پر مبنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہوتا ہے۔ان دونوں اقسام کی ریاستوں میں سب سے ٹھوس ،قابل عمل اور انسانیت کے تحفظ پر مبنی ریاست صرف وہ ریاست تھی جو مدینہ میں نبی آخر الزماں کے ہاتھوں قائم ہو کر چودہ سال تک قائم رہی۔ ان تمام مسلم ریاستوں میں مثالی نمونہ ریاست مدینہ کی ریاست تھی۔کیونکہ ریاست مدینہ کاقیام ہی ان متفقہ اخلاقی اصولوں کی بنا ء پر ہوا تھا جو تمام مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کی بنیاد ہیں۔اسی سے مسلم تہذیب و ثقافت اور امت مسلمہ کا آغاز ہوا ہے۔انسانی تاریخ کی مدون تاریخ میں ریاست مدینہ کے علاوہ کسی ایسی ریاست کا وجود نہیں ملتا کہ جس نے آٹھ سال کے قلیل عرصےمیں اصلاحات کی اتنی بےمثال نظیر چھوڑی ہو جس نے قیامت تک آنے والی ریاستوں کو اپنی تقلید کے ذریعے کامیابی کی ضمانت فراہم کی ہو۔

اقتدار کے ایوانوں میں اس مثالی نمونہ کی تقلید سے روگردانی کی بنا ءپر انسانیت آج شدید کشمکش کی حالت میں ہے۔عصر حاضر میں مسلمان ممالک بےشمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کے پسماندہ ملکوں میں شمار کیے جانے کے علاوہ بےشمار مسائل کا شکار ہیں۔موجودہ دور کے پیش آمدہ بےشمار مسائل،مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اور قومی حمیت و غیرت اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلم ریاستیں اپنے مستقبل کی نقشہ کشی ریاست مدینہ کی طرز پراسلامی تہذیبی روایات کی روشنی میں کرتے ہوئے اپنی ریاستوں کو اسلامی فلاحی ریاستیں بنائیں۔= ریاست کا مفہوم =

ریاست کا لفظ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں مستعمل ہے۔اردو لغت میں اس کے معنی امیری،امارت،سرداری اور حکومت کے بیان کیے گئے ہیں۔[1] خلیل بن احمد فراہیدی(م۔175ھ) عربی لغت میں رقمطراز ہیں کہ "ہر چیز کی بلندی اس کا راس ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ میں ان کا سردار ہوں، میں ان پر سرداری کرتا ہوں،انہوں نے مجھے اپنا سردار بنا لیا ہے۔"[2] بقول پروفیسر خورشید احمد ریاست وہ ہئیت اجتماعی ہے جس کے ذریعے سے ایک ملک کے باشندے ایک باقاعدہ حکومت کی شکل میں اپنا اجتماعی نظام قائم کر کے اسے قوت قاہرہ کا امین قرار دے دیں۔[3] لہذایہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی تنظیم جس میں چار عناصر علاقہ،آبادی،حکومت اور اقتدار اعلیٰ پائے جائیں ریاست کہلاتی ہے۔== اسلامی ریاست ==

ایسی ریاست جہاں اجتماعی معاملات میں اسلامی احکام و قوانین کا عملاً نفاذ ہو اور عوام اس دستور و قانون کے عملی طورپر پابند ہوں اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔اسلامی ریاست کا مقصدتمام افرادکو شرعی احکام کا پابند بنانا اور ان کی معاشی و معاشرتی بہبود کا تحفظ ہوتا ہے۔اسلامی ریاست کے مقاصد کےبارے میں ابن خلدون(م۔۸۰۸ھ)نے لکھا ہے،

الرياسة والملك هي كفالة الخلق وخلافة ا للة فى العباد وتنفيذ احكا مه فيهم [4]

"ریاست کا مقصدعوام کی (معاشی،اخلاقی وتہذیبی )کفالت ،خلافت الٰہی کا قیام اوراللہ کے احکام کوان میں نافذ کر ناہوتا ہے"

ریاست کی تاریخ

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ [5]

قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دنیا میں ریاست کے قیام کا تعارف انبیاء کرامؑ نے کرایا ہے۔ چونکہ انبیاءکرامؑ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں لہٰذا نیابت الٰہی کااہل ان سے بڑھ کر کوئی نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ابتداء حضرت آدمؑ سے فرمائی اوراس سے یہ بھی واضح فرمادیا کہ انسان خود قانون ساز نہیں بلکہ قانون الہٰی کو نافذ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کےمطابق بنی اسرائیل کے انبیاء سیاسی قیادت بھی فرماتے تھے۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ قیادت سنبھال لیتا تھا۔[6]

کلام الہٰی نے قرآنی آیات میں طالوت کی حکومت، حضرت یوسفؑ ، حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے دور اقتدار کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثالیں پیش کی ہیں۔ قرآن کریم نے ماضی کی غیر مسلم ریاستوں میں سے نمرود، فرعون اور ملکہ بلقیس کی حکومتوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ان کے نظام حکومت کی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ماضی کی ان ریاستوں کے مطالعے سے ان کی جو خصوصیات سامنے آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔== اسلامی فلاحی ریاست کی خصوصیات ==

  • قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُإِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [7]یعنی اسلامی فلاحی ریاست میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہوتی ہے۔
  • وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ [8]یعنی اسلامی فلاحی ریاست میں اقتدار شخصی یا خاندانی ہونے کی بجائے مشاورت پر مبنی ہوتا ہے۔
  • يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ [9]یعنی اسلامی فلاحی ریاست میں معاشرتی تقسیم کی نفی کر کے مساوات کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔
  • وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ [10]یعنی اسلامی فلاحی ریاست میں کسی کو دوسروں کے معاشی استحصال کی اجازت حاصل نہیں ہوتی۔

غیر اسلامی ریاست کی خصوصیات

  • وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ [11]یعنی غیر اسلامی ریاست میں خدا کے اقتدار اعلیٰ کی نفی کی جاتی ہے۔
  • غیر اسلامی ریاست میں دوسروں کے معاشی استحصال کی اجازت ہوتی ہے۔جس کی واضح مثال سودی نظام کی مضبوطی اور وسعت ہے۔[12]
  • وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى [13]یعنی غیر اسلامی ریاست میں اخلاقیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔
  • إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ [14]یعنی غیر اسلامی ریاست میں اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے انسانوں کو گروہوں اور جماعتوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

اسلامی فلاحی ریاست مدینہ کا تعارف

قیام ریاست کے سلسلے میں یہ بات ذہنوں میں رہنی چا ہیے کہ منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں اہم ترین ذمہ داری ایک ایسے معاشرے کاقیام بھی ہوتا ہے جس کا ہر جز اور پہلو الہامی تعلیمات کے نتیجے ترتیب ہوتا ہے ۔حضرت یوسفؑ کا معاشرہ،حضرت داؤدؑوسلیمانؑ کا معاشرہ،اور آنجنابﷺ کے دست مبارک سے قائم ہونے والا مدنی معاشرہ اسی منصب کے تقاضوں کی تعمیل کا نتیجہ تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی تین مقامات پر کیا گیا ہے۔[15] اس طرح یہ مدنی معاشرہ ذوق حکمرانی کی تکمیل کی خواہش پر وجود میں نہیں لایا گیا تھا بلکہ یہ خدا کے احکا م کی تعمیل اور تکمیل کا نتیجہ تھا۔

مدینہ منورہ سرزمین عرب میں مکہ مکرمہ کے شمال میں 455 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ شہر مکہ مکرمہ اور شام کے وسط میں اور سطح سمندر سے 619 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔اس شہر کا پرانا نام یثرب تھا۔بالاتفاق تمام مورخین یثرب حضرت نوحؑ کی اولاد میں سےایک شخص کا نام تھاجس نے (1600 ق۔م اور 2200ق۔م کے درمیانی زمانے میں) اس شہر کی بنیاد رکھی۔[16] اسی کے نام پر اس شہر کا نام یثرب مشہور ہوگیا۔یثرب میں بسنے والے ابتدائی تین قبیلے عمالیق،یہودی اور اوس و خزرج نمایاں تھے۔ حضوراکرمﷺنے اپنی تشریف آوری کے بعد اس کا نام یثرب سےتبدیل کر کے"المدینہ"رکھ دیا۔[17]

سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دے کر اہل مکہ کے لیے دعا فرمائی تھی۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ[18] جبکہ آپﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا اور اہل مدینہ کے لیے دعا فرمائی حتیٰ کی مدینہ کے مد اور صاع (غلہ ناپنے کے پیمانے)کے لیے بھی دعا فرمائی۔[19]مدینہ منورہ کی دو فضیلتیں ایسی ہیں کہ کوئی فضیلت ان کی برابری نہیں کر سکتی۔ایک یہ کہ اس میں حضوراکرم ﷺ کا روضہ مبارک ہے اور دوسری یہ کہ آپﷺکی مقدس مسجد (مسجد نبویﷺ)بھی اسی شہر میں ہے۔

ہجرت کےبعدمدینہ منورہ میں آپﷺ نے جواولین اسلامی ریاست قائم فرمائی اسے ہم ریاست مدینہ یا پیغمبرانہ ریاست بھی کہہ سکتے ہیں جس کی چوڑائی اولاًدس مربع میل اور لمبائی پندرہ مربع میل تھی۔دس سال کے بعد جب آپﷺکی وفات ہوئی تو یہی شہر ایک ایسی ریاست کا پایہ تخت بن چکا تھاجو دس لاکھ مربع میل کے رقبہ پر محیط تھی۔گویاروزانہ اوسطاًپونے تین سوکلومیٹر کا رقبہ مسلسل اسلامی مملکت میں بڑھتا گیا۔[20]= پہلی اسلامی ریاست مدینہ اور عصر حاضر کی ریاستوں کے بنیادی خدوخال =

ریاست مدینہ تاریخ کی پہلی ریاست ہے جو تحریری دستور کی بنیاد پر وجود میں آئی اور اسی دستور کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ اس ریاست کے حکمران مقرر ہوئے۔اس معاہدہ کی دفعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے مدبّراور ماہر قانون کا تیار شدہ ہے جو حالات کی جزئیات تک سے کلی طور پر واقف ہو۔ڈاکٹر محمدحمیداللہ ؒنے بجا طور پر اسے دنیا کا سب سے پہلا فلاحی ریاست کا تحریری دستور قرار دیا ہے۔[21]

اسلام سے قبل کے معاشروں کی بنیاد قومیت پر ہوتی تھی۔قومیت کی بنیاد نسل،علاقہ اور زبان پر قائم تھی۔ماضی کی تمام ریاستیں ہوں یا آج کی موجودہ یورپی ریاستیں ،یہ سب قومیت کے اسی تصور پر قائم تھیں یا ہیں۔اس کا بڑا نقصان دہ پہلو یہ تھا کہ ہر قوم اپنی قومیت کی برتری کی بنیاد پر وجود رکھتی تھی اور دیگر اقوام کو اپنے سے کم تر اور فروتر سمجھتی تھیں یعنی اسلام سے قبل مصری تہذیب ہو یا عراقی ، یونانی تہذیب ہو یا پھر رومی اور ایرانی معاشرہ ہو یہ سب قومیت کہ اسی تصور پر قائم تھے۔اس دور سے آج تک یورپ میں بھی یہی تصور قائم ہے۔یورپ کی ابتدائی تاریخ میں وہ لوگ جن کے بال سفید اور آنکھیں نیلی ہوتی تھیں وہ بر تر سمجھے جاتے تھے ۔اس برتری کےتصور کو یونانیوں نے بھی آگے بڑھایاچنانچہ الیگز ینڈرگریٹ کے استاد ارسطو نے بھی یہی تصور اپنے اس شاگرد کے ذہن میں بٹھایا کہ ہم بحیثیت قوم باقی تمام اقوام سے برتر ہیں۔چنانچہ ارسطونے اپنی مشہور کتاب السیا سیہ کے صفحہ نمبر۲۱۷ پر لکھا ہے کہ اہل یونان سردار ہیں اور باقی سب انکے غلام،کسی یونانی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا ۔یہی تصور یورپ میں جرمنی کے ہٹلر نے اپنایا اس کی پسندیدہ کتاب "The Passing of Great Races "جو Madison Grassier کی تحریر ہے تھی جس کی بنیاد پر اس نے جرمن قوم کی برتری کا نعرہ لگایا ۔ابھی حال ہی میں نیوزی لینڈمیں ایک مسجد پر حملے کہ نتیجے میں پچاس سے ذیادہ مسلمان شہید کرنے والے حملہ آور کی پسندیدہ کتاب یہی تھی اور وہ بھی سفید فام لوگوں کی برتری اور باقی لوگوں کی کم تری کا دعویدار ہے۔اس طرح ہندو معاشرے میں دیکھیں آریاؤوں نے اپنی برتری بھی اسی بنا ءپر قائم کی تھی ۔خود برہمن بن بیٹھےاور مقامی آبادی کو شودر یعنی دلت قرار دیا۔ہندو معاشرے کی یہ مقبولیت ابھی تک باقی ہے۔ ان تفصیلات کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کہ نسل کی بنیاد پر قومیت کا تصور انسانی معاشروں کی خصوصیت رہا ہے اور انسانی معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی ارتقاءمیں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔اسی تصور نے انسانوں کے ہاتھوں کروڑوں انسان مروائے ہیں۔ آنجناب ﷺ کادور عا لمگیر یت پر مبنی معاشرےکےارتقاء کا دور اوّلین تھا ۔آنےوالے دورمیں قومیت کے یہ تصوّرات انسانیت کے خاتمے کا باعث بن سکتے تھے۔اس انسانیت کش صورتحال سےبچنے کےلیےضروری تھاکہ انسانوں کوبلاتفریق قوم وملک مل جل کر رہنے کا درس دیا جائے۔یہ ضرورت مدینے کی ریاست کی شکل میں پوری ہوئی۔ریا ست مدینہ تاریخ انسانی کی پہلی ریاست تھی جو کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اور کثیراللسانی معاشرے پر مشتمل تھی۔ مختلف المذاہب قبائل و جماعت کو ایک نظام کےتحت انسانیت کے بہترین مقاصد کے لئے متحد کرنے کی یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کی نظیر ناپید ہے۔ہر گروہ کے تمام جائزحقوق کی حفاظت کے ساتھ سب کو اجتماعی امن و ترقی کی راہ پر لگا دینے کا کاکوئی نقشہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔آج بھی اقوام عالم ایسے نظام کے تحت متحد ہوکر عالمی امن کے خواب کی تکمیل کے لئے مؤثر ترین کوشش کر سکتی ہیں۔ میثاق مدینہ صرف ریاست مدینہ کی تاسیس کے لئے ہی اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ اس میں آئندہ آنے والے تمام مسلمان حکمرانوں کے لئے بھی رہنما اصول مہیا کئے گئے ہیں۔موجودہ دور میں تحریری دستور کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب اس معاہدہ میں موجود ہیں لہذا اس کے نتیجے میں ایک آئینی ریاست وجود میں آئی۔جدید علم سیاسیات میں آئینی ریاست ایسی ریاست ہے جو قانون کی حکمرانی کے تصور پر قائم ہو۔ریاست مدینہ دنیاکی وہ اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے یکساں تھا۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھاکہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاًکہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔مملکت پاکستان کے دستور میں تو ریاست مدینہ کے دستور کی جھلک موجود ہے لیکن جس طرح دستور مدینہ نےاللہ تعالیٰ کی حاکمیت عملاً قائم کر کے سیاسی و سماجی نظام کو اس کے تابع کیا ،دستور پاکستان ایسا کرنے میں ناکام ہے۔= ایک اسلامی فلاحی مملکت کےاصول (ریاست مدینہ اورعصرحاضر کے تناظر میں ) =

ذیل میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سنہری اصول پیش کیے جاتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر موجودہ انسانی معاشروں کو امن کا گہواراہ بنایا جا سکتا ہے۔

قرآن وحدیث کے اصولوں پر مبنی شورائی نظام

موجودہ دور میں جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہواہے جبکہ بانی ریاست مدینہ نے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کراپنے صحابہ کی رائے کو فوقیت دی ۔جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام کا دور دورہ تھا، اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی ،اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ریاست مدینہ کا وجود آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے کو اپنے مافی الضمیر کے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہ تھی۔رسول اللہﷺنے کبھی کوئی غیر جمہوری فیصلہ صادر نہیں فرمایا۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اصول وضوابط دے دیئے ہیں، اب انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے نظام وضع کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۔[22]

"پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور اہم معاملات اورکاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں۔"

اس سلسلے میں ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.[23]

"اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں"۔

معاشرتی اصلاح کے لئے ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی اصلاح ناگزیر ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تنفیذ اور مقاصد شریعت کا حصول ایک مستحکم اور صالح ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے ۔مستحکم ریاست کے قیام و بقاء کے لیےضروری ہے کہ حکمران حدوداللہ کو قائم رکھیں، محکومین اطاعت کریں اور اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے کریں ۔چنانچہ جن امور میں وحی کے ذریعے رہنمائی نہ کر دی جاتی تو ان میں رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے مشورہ کرتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ،وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ،وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُالأَرْضِ خَيْرٌلَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَاكَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ،وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌلَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا۔ [24]

"جب تمہارے حاکم تم میں سے بہترین لوگ ہوں، تمہارے مال دار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہم مشاورت سے طے ہوں تو تمہارے لیے زمین کی پیٹھ اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے حاکم برے ہوں تمہارے مال دار بخیل ہوں اور معاملات عورتوں کے سپرد کر دیئے جائیں توتمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہترہے"۔

شورائی نظام کے قیام کی تمام کاوشیں اسی صورت میں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں جب کوئی منظم حکومت اس جدوجہد کی پشت پناہی کے لئے موجود ہو۔ حقو ق و فرائض کا نفاذصرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ریاست کی قوت بھی خدا کے احکام کے تابع ہواورزندگی کے تمام امور شریعت کی روشنی میں طے پائیں۔ حکومت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے اس پورے عمل کی نگران و محافظ ہو ۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے دین و سیاست کی دوئی کے تصور کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ:

الإسلام والسلطان أخوان توأمان لا يصلح واحد منهما إلا بصاحبه فالإسلام أس والسلطان حارس وما لا أس له يهدم وما لا حارس له ضائع۔ [25]

"اسلام اور حکومت دو جڑواں بھائی ہیں ۔ دونوں میں سےکوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہو سکتا ۔ اسلام کی مثال عمارت اور حکومت کی نگہبان کی ہے جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔"

رسول اللہ ﷺنے قرآن حکیم کے اصولوں پر مبنی شورائی نظام وضع کر کےاس پرایک مستحکم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ دستور پاکستان میں بھی قرآن وحدیث پر مبنی شورائی نظام کی ضمانت مہیا کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی کہ حکمران اخلاص نیت کے ساتھ دو قومی نظریئے کا تحفظ کرتے ہوئے ملک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیں اور ایسانظام وضع کریں جس میں حاکم ومحکوم کی عزت وناموس ،جان ومال کا تحفظ ہواور تمام تر ضروریات زندگی سب کو با آسانی دستیاب ہوں۔

انتظامی عہدوں پرباصلاحیت افراد تعینات کرنے کا اصول

اسلامی ریاست کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اس میں حکومتی وانتظامی امورکے تمام عہدے اور مناصب پر اہل، باصلاحیت اور امانت دار افراد کا تقرر کیا جاناچاہئے ۔حکومتی اختیارات اور اموال اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی امانت ہیں جنہیں خداترس، ایماندار اور عادل لوگوں کے سپردکیا جانا چاہئے اور اس امانت میں کسی شخص کو من مانے طریقے پر ،یا نفسانی اغراض کے لئے تصرف کرنے کاحق حاصل نہیں ہے ۔ جب کسی منصب پرکسی نااہل کا تقرر ہوتا ہے تومعاشرہ میں بدامنی،ظلم وزیادتی اور بے چینی کا ظہور میں آنا لازمی امر ہے ۔منظم ومستحکم حکومت ہی عوام الناس میں نظم و ضبط پیدا کر سکتی ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ انتظامی عہدوں پر قابل ،اہل ، ایماندار اور باصلاحیت افرادکا انتخاب اور تقرر عمل میں لا کر قوانین کی عملی تنفیذ کی راہ ہموار کی جائے۔حدیث مبارکہ ہے کہ :

فَإِذَاضُیِّعَتِ الأَمَانَۃُ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ،قَال کَیْفَ إِضَاعَتُہَا؟قَال إِذَاوُسِّدَالأَمْرُ إِلَی غَیْرِ أَہْلِہِ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃَ [26]

"جب امانت ضائع کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو، دریافت کیا گیا کہ امانت کیسے ضائع ہوگی،توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جب کوئی منصب کسی نا اہل کے سپرد کردیا جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔"

رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی بنیادپر بغیر اہلیت کے دے دیاتو اس پر اﷲکی لعنت ہے ،نہ اس کا فرض قبول ہے اورنہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ۔[27] بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اﷲ ،اس کے رسول ﷺاور سب مسلمانوں سے خیانت کی ۔[28]قرابت داری کی وجہ سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اورناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور نظامِ حکومت برباد ہو جاتاہے۔ بالخصوص ایسے ریاستی مناصب جن سے عوام کے حقو ق وابستہ ہیں اور جن کے اختیار میں قوم کی دولت ہو تی ہے یا جن کے پاس قو می راز اور سلامتی و دفاع کے معاملات ہیں ، تمام مناصب اہل اور امین افراد کو تفویض کئے جانے چاہئیں۔اسی خدشہ کے پیش نظر رسول اﷲ ﷺنے فرمایا تھاکہ جب قوم کی قیادت اور اختیارات نااہل لوگوں کو تفویض کر دیئے جائیں، جب شاہینوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں چلاجائے تو قیا مت کا انتظار کرو ، نااہل اور بد دیانت عمال لوگوں پر وقت سے پہلے ہی قیامت ڈھادیں گے۔== حکومتی قوانین کا احترام اور اجتماعی نظم و ضبط برقرار رکھنے کا اصول ==

معاشرہ کی فکری اور اعتقادی بنیاد اورمعاشرے میں انجام دئیے جانے والے کاموں میں باہمی تعلق کی مضبوطی معاشرتی نظم و ضبط کی دلیل ہے بصورت دیگر یہ بد نظمی کی خطرناک صورت ہے۔ گویایہ ایک طرح کے دوغلے پن اور نفاق کو وجود میں لانے کا باعث بنتا ہے جو بذات خود بہت خطرناک بات ہے۔اسلام کا نعرہ لگانا اور باربار اس کی تکرار کرنا جبکہ عمل میں اسلامی قوانین کا خیال نہ رکھنا ،انسانی حقوق کو اپنے منشور کا بنیادی اور اساسی رکن قرار دینا جبکہ عمل میں حقوق بشر کی دھجیاں اڑانا ، آزادی کے نعرے لگانا جبکہ عملاً دوسروں کی آزادی کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا ،قانون اور قانون کے مطیع و فرمانبردار ہونے جیسے مقدس ناموں سے اپنی شان بڑھانا اور عملاً خود کو قانون سے ما فوق شمار کرنا بے نظمی کے واضح مصداق ہیں ۔ حکومتی عہدیدارجو اصول و قوانین وضع کرنا یا ان کا نفاذ چاہتے ہیں انہیں چاہیئےکہ وہ سب سے زیادہ ان قوانین کے پابند ہوں تاکہ ان کو دیکھتے ہوئےعوام الناس بھی قوانین کا احترام اور اجتماعی نظم و ضبط کا خیال رکھیں۔

سیّدنا صدّیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز عمل میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی ایک مثال ایسی بھی ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخِ عالم قاصر ہے۔ جیشِ اسامہ کی روانگی کے وقت فوج کے سپہ سالار نو عمرسیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے جنہیں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے چند روز قبل مقرّر کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب سیّدنا ابوبکر صدّیق خلیفہ مقرّر ہوئے تو ان کو بھی حضرت اسامہ کی جگہ کسی تجربہ کار شخص کو امیر بنانے کا مشورہ دیا گیا۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جس شخص کو رسول اللہﷺ نے مقرّر کیا ہو میں اسے ہٹا دوں۔حکومتی پالیسیوں کا تسلسل معاشرتی نظم و ضبط کی بنیاد ہے،نئے آنے والوں کے لیے لازم ہے کہ ماقبل انتظامیہ کی پالیسیوں اور فیصلوں کا مکمّل احترام کیا جائے۔

سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالتے ہی سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانگی کا حکم دیا۔روانگی کے وقت سپہ سالار گھوڑے پر سوار تھے اور خلیفۃ الرّسول پیدل ساتھ چل رہے تھے،سیدنا اسامہ کو حیا آئی اور کہنے لگے کہ آپ بھی گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا بھرمجھے گھوڑے سے اتر کر پیدل چلنے کی اجازت دیں، فرمایا نہ میں گھوڑے پر سوار ہوں گا نہ تم اپنی سواری سے اترو گے۔سیدنا اسامہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھےاور حاکم وقت جو عزّت انہیں دے رہے تھے وہ اسامہ کو نہیں لشکرِ اسلام کو دے رہے تھے۔

سبق یہ ملا کہ منتظم چاہے کوئی بھی ہواس کی عزّت ضروری ہے۔سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ لشکر کے ساتھ کچھ فاصلے تک چلے تاکہ سب لوگ یہ منظر دیکھ لیں۔ جب آبادی کی حدود ختم ہو گئیں تو رخصت کرتے ہوئے سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارے لشکر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں، اگر مناسب سمجھو تو انہیں میرے پاس چھوڑ دو تاکہ امور مملکت میں میرا ہاتھ بٹا سکیں۔اس سے یہ سبق ملتاہےکہ جب کسی شخص کو ذمّہ داریاں اور اختیارات تفویض کر دیے جائیں تو پھر اس کے کاموں میں براہِ راست مداخلت نہ کی جائے۔ سیّدنا اسامہ نے بخوشی سیّدنا عمر کو مدینے میں چھوڑجانا قبول کیا،آپ رضی اللہ عنہ لشکر لے کر گئے اور کامیاب و کامران لوٹے۔[29]مذکورہ واقعہ سے مندرجہ ذیل نکات اخذ کئے جا سکتے ہیں:* حکومتی پالیسیوں اورطریقِ کار کا تسلسل برقرار رکھاجائے۔

  • منتظمین کی حوصلہ افزائی کی جائے اورانہیں عزّت دی جائے۔
  • منتظمین کے اختیارات میں براہ راست مداخلت نہ کی جائے۔

قانون کی بالا دستی قائم رکھتے ہوئےبلا امتیاز قوانین نافذکرنے کا اصول

سماجی معاملات کے سلسلے میں تعلیمات نبویﷺ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کے افراد برابر کے حقوق کے مالک ہوں اور ان کے درمیان تباہ کن اختلافات بالکل پیدا نہ ہوں اگر پیداہوں تو ترقی نہ کریں۔ آپ ﷺنے اولاد آدم کے حقوق کیلئے مساوات کا اعلان کیا، قانون کی بالا دستی قائم کی اور طاقتور اور کمزور کے لیے یکساں احکام نافذ کئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سزا کو معاشرے میں نظم وضبط برقرار رکھنے کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خوف وسزا کا محرک فرد کو منفی افعال سے باز رکھتا ہے۔انسان کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ سزا کے خارجی محرک کے بغیر درست طرزعمل اختیار کرے ۔ قریش کے قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون فاطمہ بنت اسود سے چوری کا جرم سرزد ہو گیا. اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو معافی سزاکی سفارش کے لیے بھیجاگیاتو آپ ﷺ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا اور فرمایا تم خدا کی مقرر کردہ حد کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہو اور پھر خطبہ ارشاد فرمایا۔

"یاأیّھاالنّاس إنّماضلّ من کان قبلکم انہم کانوااذاسرق الشریف ترکواہ واذاسرق الضعیف فیہم اقامواعلیہ الحد وأیّم اللّہ لوا ن فاطمۃ بنت محمدﷺ سرقت لقطعت یدھا۔"[30]

"اے لوگو!تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ جب کوئی شریف زادہ چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کردیتے ، خدا کی قسم اگر فاطمہ بنتِ محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔"

عبدا للہ بن جبیر خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ یا مسواک تھی جس سے ایک شخص کے پیٹ میں معمولی سی خراش آگئی تو اس نے کہاکہ" آپ ﷺ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس لیے مجھے بدلہ لینے کی اجازت دیں۔ آپ ﷺ نے وہی شاخ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجھ سےبدلہ لے لو، اس شخص نے آپ ﷺکی ناف مبارک کا بوسہ لے کر چھڑی کو پھینک دیا اور عرض کیارسول اللہ ﷺمیرا مقصد یہ تھا کہ ہم آپ ﷺ کے بعد ظالموں کی سر کوبی کر سکیں اور ان سے اپنا بدلہ لے سکیں۔"[31]

ہمہ گیر عدلِ اجتماعی کے قیام و بقاء کا سنہری اصول

دین اسلام کی اعلیٰ ترین قدر سماجی اور تمدنی انصاف ہے۔ اقامت دین کا اصل ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ متوازن نظامِ عدل اجتماعی قائم کیا جائے۔رسول اللہ ﷺ نے انسانی جسم کی فعالیت میں دل کے کردار کو مرکزی قرار دیا ہے اور اس کی درستگی پر پورے بدن کی اصلاح موقوف ہے،اسی طرح عدلِ اجتماعی کے قیام و بقاء کے لئےحکمرانوں اور ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی اصلاح ناگزیر ہے۔ چنانچہ آپﷺنے نظام عدل کو ایک وسیع اور ہمہ گیر نظام عدل اجتماعی کی شکل دی اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوارکیا ۔قرآن حکیم میں آپ ﷺ کا مقصد بعثت ہی نظام عدل اجتماعی کا قیام بتایا گیا ہے۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ۔[32]

"ہم نے اپنے رُسولوں کو واضح نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔"

سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں "انبیاء کرام ؑ کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ہم نے لو ہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لئے منافع ہیں،خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی قوت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لئے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے۔"[33]

اسلام کا نظامِ عدل روحانی اور مادی اقدار پر حاوی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرکے نافذکرتاہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تنفیذ ایک مستحکم اور صالح ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے ۔عدل اجتماعی پر مبنی ایسا نظام قائم کرنا امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے جو عوام الناس کو منظم ومربوط کرکےانہیں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرے۔ منظم ومربوط معاشرے کے قیام کا خواب نظام تعلیم اورذرائع ابلاغ کی اصلاح کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ منظم ومستحکم حکومت ہی عوام الناس میں نظم و ضبط پیدا کر سکتی ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ انتظامی عہدوں پر قابل ،اہل ، ایماندار اور باصلاحیت افرادکا انتخاب اور تقرر عمل میں لا کر قوانین کی عملی تنفیذ کی راہ ہموار کی جائے۔اسلام نے معاشرتی نظم و نسق کی بنیاد مندرجہ ذیل الہامی اصول پر رکھی ہے۔

إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر۔[34]

"اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتاہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔"

مذکورہ بالاآیت مبارکہ میں تین ایسی باتوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر انسانی معاشرے کی درستگی کا انحصار ہے۔پہلی چیز عدل ہے جس کا مطلب لوگوں کے درمیان حقوق وفرائض میں توازن قائم ہو۔دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ، خوش خلقی، درگزر، اور ایک دوسرے کا پاس ولحاظ رکھنا ہے، احسان معاشرے کا جمال اور اس کا کمال ہے جو اس میں خوش گواریاں اور شیر ینیاں پیدا کرتاہے۔ تیسری چیز صلہ رحمی ہے جو أعزہ واقارب کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ عدل واحسان اور صلہ رحمی کو ایک لڑی میں پرویا جائے تو منظم و مربوط معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

انسانی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستوں کے استحکام کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستوں کے قیام کا مقصد بھی عدل و انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے عدالتی نظام میں اصلاح کی بہت گنجائش موجود ہے۔آج کے دور میں کئی سال تک مقدمات عدالتوں میں لٹکے رہتے ہیں۔دادا کے دور میں دائر مقدمے کا فیصلہ پوتے کے دور میں ہوتا ہے۔انصاف کے حصول کے لیے ہمارے ملک میں صبر ایوب، عمر نوح اور دولت قارون کی ضرورت ہوتی ہے۔اس صورتحال کی تبدیلی لازمی ہے۔ایک مشہور مقولہ ہے کہJustice delayed, Justice denied جس کا مطلب ہے انصاف میں تاخیر کرنا ناانصافی کے مترادف ہے۔

انسانی رویوں پرمثبت اثرات رکھنے والے پاکیزہ معاشرتی ماحول قائم کرنے کا اصول

معاشرتی ماحول انسان کو فکرو عمل کی دعوت دیتا ہے۔انسان کوجس طرح کاماحول میسرہوتا ہے ویسا ہی انداز فکر اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نےخدا خوفی ، احساس ذمہ داری ،ایثار و قربانی اور صلہ رحمی پرمعاشرے کی بنیاد رکھی۔آپ ﷺ نےاخلاق حسنہ اور عفو در گزر پر جس معاشرے کی بنیاد رکھی اس کی اخلاقی اقدار معاصر سماجی ماہرین اورمعاشرتی فلاح وبہبود کے اداروں کے لئے سنگ میل اورمشعل راہ ہے۔آپ ﷺ کی منظم کوششوں سےایساپاکیزہ اورمنظم معاشرہ وجود میں آیاکہ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو اس نے خود آکر اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردیا۔[35]اسلام میں بے حیائی پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آَمَنُوالَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَاوَالْآَخِرَةِ۔ [36]

"جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کیلئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ "

فلاحی ریاست کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اصلاح معاشرہ کیلئےسنجیدہ کو شش کرے اورمعاصر ذرائع ابلاغ معاشرے کے پاکیزہ ماحول کو بر قرار رکھنے میں حکومت کی معاونت کر یں۔مخلوط نظام تعلیم اور مخلوط محافل کی حوصلہ شکنی کی جائےتاکہ معاشرے میں تعلیمی انحطاط اور معاشرتی بحران پیدا نہ ہوسکے۔عوام الناس میں سماجی شعور پید ا کیے بغیر معاشرے میں سماجی نظم وضبط کے ماحول کو پروان نہیں چڑھایا جاسکتا ۔ عوام الناس کونظم و ضبط کا پابندبنانے کے لیے ان کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔اخلاقی تربیت کا مسئلہ ایک ریاست کے بنیادی مسائل میں سے ہےاور یہ تربیت نظام تعلیم میں اصلاح کے ذریعے ہوسکتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کافرض منصبی اور مقصد بعثت ہی اخلاقیات کی تکمیل ہے۔آپ ﷺ نے فر مایاکہ"کامل مومن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو،اور مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔"[37]

احساس ذمہ داری اور حقوق وفرائض کی ادئیگی کا اصول

شریعت اسلامیہ میں حقوق وفرائض کے تعین میں توازن رکھا گیا ہے ،لیکن اصل توجہ اور زور فرائض کی ادائیگی پر دیا گیا ہے،اس لئے کہ ادائیگی فرض کا احساس وشعور انسان میں مثبت اور تعمیری اندازفکر پیدا کرتاہے جو معاشرہ کی تعمیر واصلاح اور وحدت و یکجہتی کے لئے بہت ضروری ہے۔تعلیمات نبویﷺ کا ماحاصل یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی عظیم امانت ہے اور کوئی شخص اس امانت سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ"جس شخص کو اﷲ تعالیٰ رعیت کی نگہبانی سپرد کرے اوروہ بھلائی اور خیر خواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو وہ بہشت کی مہک بھی نہ پائے گا۔" [38]عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:

"قال رسول اﷲﷺأ َٔلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ فَالْأَمِیرُالَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِ بَیْتِہِ وَہُوَ مَسْئُول عَنْہُمْ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلَی بَیْتِ بَعْلِہَا وَوَلَدِہِ وَہِیَ مَسْئُولَۃٌعَنْہُمْ وَالْعَبْدُرَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُ أَلَافَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ"[39]

"رسول اﷲﷺنے فرمایاکہ تم میں سے ہر شخص اپنے زیردستوں کا راعی اور نگہبان ہے ہر شخص سے اس کی ماتحت رعیت کی بابت باز پرس ہوگی۔ امام، خلیفہ، حاکم اور امیر سے جو اپنے علاقہ کے لوگوں کا نگہبان و راعی ہے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام جو اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ خبردار تم میں سے ہر شخص سے متعلقہ امور کی باز پرس ہوگی۔ "

مرکزیت کافقدان ہی تمام تر معاشرتی بگاڑ اور سماجی برائیوں کا اصل باعث ہوتا ہے۔منتشراورغیر منظم افراد کی اصلاح کے لئےکسی قانون کے نفاذ اور کسی انتخابی ہنگامہ آرائی کی نہیں بلکہ انہیں مناسب خطوط پر منظم کرنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ ایک قوم بن کر قومی نقطہ نظر سے سوچنے کے قابل ہوسکیں۔پورا عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان میں اجتماعیت اور نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے،قطار اور انتظار کے ہم قائل ہی نہیں، شور شرابا بھی ہمیں بہت پسند ہے ، عوام الناس کے اعصاب متاثر ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا "مسلمان تووہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"[40]موجودہ صورتحال یہ ہے کہ قدم قدم پر عوام الناس کے جائز حقوق پامال یا سلب کئے جا رہے ہیں ۔ کہیں اس کی حکومت ذمہ دار ہے توکہیں معاشرہ ۔آپ ﷺنے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا:

"وَاللَّهِ لاَیؤْمِنُ،وَاللَّهِ لاَیؤْمِنُ،وَاللَّهِ لاَ یؤْمِنُ، قِیلَ: وَمَنْ یا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الَّذِی لاَ یأْمَنُ جَارُهُ بَوَایقَهُ" [41]

"اللہ کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں، اللہ کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں ، اللہ کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں، دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ ! کون؟فرمایا : وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ۔ "

جس قوم کے افراد میں اجتماعیت اور نظم و ضبط نہیں وہ سرے سے قوم ہی نہیں رہتی۔ نظم و ضبط اور اجتماعیت سے عوام الناس میں باہمی اعتماد پیدا ہو تا ہے۔رسول اللہ ﷺنے غیر منظم معاشرے کو سدھار نے کے لئےانسانوں کی خود سری کو ختم کر کے انہیں اطاعت سکھائی اورعوامی سوچ کا رُخ انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کی طرف موڑ دیا۔ عوام کو ان کے حقوق وفرائض سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں معاشرتی آداب سکھائے اور پھر جب ان تربیت یافتہ عوام کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی معاشرہ عدل و انصاف کی خوش گواریوں سے جھلک اٹھا۔منظم و مر بوط معاشرتی نظام کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ ہر فرد احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے حقوق و فرائض ادا کرے۔

مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کا اصول

رسول اللہ ﷺ نے عوام الناس کو نہ صرف مذہبی و سیاسی آزادی کا حق دیا بلکہ اجتماعی معاملات میں شوریٰ کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں اور مدینہ کے دیگر قبائل کے مابین جو معاہدہ( میثاق مدینہ)کیا اس میں تمام قبائل کو نہ صرف مذہبی اور سیاسی آزادی دی بلکہ آخر وقت تک اس معاہدے کاپاس بھی رکھا ۔ [42]آپ ﷺنے ایسا منظم معاشرہ قائم کیا جس سے بلاتخصیص مذہب وجنس سب فیض یاب ہوئے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں ایک پادری نے اپنے ایک دوست کے نام خط لکھا کہ:

"یہ طائی یعنی عرب جنہیں خدانے آج کل حکومت عطا فرمائی ہے اور یہ ہمارے مالک بن بیٹھے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ عیسائی مذہب سے بالکل بر سر پیکار نہیں ہیں بلکہ اس کے بر عکس یہ ہمارے دین کی حفاظت کرتے ہیں اور ہمارے گرجاؤں اور کلیساؤں کو جاگیریں عطا کرتے ہیں۔" [43]

رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت حکمران دیگر قبائل اور اقوام سےجو معاہدات کئے وہ آپ ﷺ کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کی ایسی تاریخی دستاویز ہیں جن سے مذہبی رواداری،احترام آدمیت،تحمل و بردباری اور برداشت کا پتہ چلتا ہے۔ انسانی رواداری کی ایسی ہی تاریخی دستاویزات میں سے ایک وہ معاہدہ بھی ہے جو آپﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ کیا ۔آپ ﷺ نے تحریرفرمایا کہ:

"نجران اور اس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں، مذہب، زمینیں، اموال، غائب و حاضر، قافلے، قاصد اور مورتیں سب اللہ کی امان اور اس کے رسول کی ضمانت میں ہیں۔ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہیں کیا جائے گا۔نہ ان کے حقوق میں دخل اندازی کی جائے گی اور نہ مورتیں بگاڑی جائیں گی۔کوئی پادری اپنی پادریت سے، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی راہبانیت سے اورکنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا ۔ جب تک وہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ جو شرائط طے کی گئی ہیں ہم ان کی پا بندی کریں گے اوران کو ظلماً کسی بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔" [44]

مذکورہ شرائط اس سند نامے کی ہیں جو رسول اللہ ﷺنے عیسائیوں کو عطا کی تھی۔سیاسی و مذہبی سطح پر حریت اور آزادئ ضمیر سے متعلق یہ ایک ایسی وقیع اور عظیم الشان یادگار ہے جو نہ صرف قرون اولیٰ میں معاشرتی نظم و ضبط کے قیام و بقاء کا سبب بنی بلکہ موجودہ دور میں بھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظم و ضبط قائم کیا جا سکتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے منظم و مربوط معاشرے کی مثال سمندر میں رواں ایسی کشتی سے دی ہے جس میں سوار ہرشخص اس کی سلامتی کا ذمہ دارہے اور کسی کو انفرادی آزادی کے نام پر اپنی جگہ پر سوراخ کردینے کا حق نہیں ہے۔ [45]

اس تمثیل میں بڑی عمدگی کے ساتھ یہ بیان کیاگیاہے کہ فرد اور جماعت دونوں پر ایسے حالات میں کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے افراد کے مفادات و مصالح کے باہم مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہونے کی ایسی عمدہ اور اچھوتی تصویر پیش کی ہے جو اس انفرادیت پسندانہ طرز فکر کے مقابلے میں پیش کی گئی ہے۔ = خلاصہ بحث =

انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں مختلف ادوار میں بے شمار عظیم الشان سلطنتیں قائم کرنے والے حکمران،جنگجو فاتحین اور مختلف مذاہب کے بانیان آتے رہے ہیں جن کے کارناموں کے پیدا کردہ نتائج کے اثرات زندگی کے صرف ایک گوشے پر جزئی قسم کے نظر آتے ہیں۔یہ شرف صرف حضرت محمدﷺ کو حاصل ہے۔آپﷺنے انسانی اجتماعی نظام کو مسجد سے بازار، مدرسہ سے عدالت، گھریلومعاملات سے بین الاقوامی امور سمیت زندگی کے ہر گوشے اور زاویے کی طرف رہنمائی کے ایسے سنہری اصول عطا فرمائے جو ہر خیر و فلاح کی سو فیصدضمانت فراہم کرتے ہیں۔آپﷺنے رسوم و رواج، حقوق و فرائض کی تقسیمیں، خیر و شر کے معیارات، حلال و حرام کے پیمانے، اخلاقی اقدار، جنگ و صلح کے قانون اور معیشت وتمدن کے اطوار بدل کر انسانیت کو حیاۃ ثانیہ عطا فرمائی ۔

ریاست مدینہ کا قیام ایسے وقت میں ہواجب پوری انسانی دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔مصر، ہندوستان، بابل، نینوا، یونان اور چین میں انسانی تہذیب کی شمعیں بجھ چکی تھیں۔خود جزیرہ عرب میں عاد و ثمود کے ادوار میں سبا، عدن اور یمن کی سلطنتوں کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی تہذیب اپنا وجود کھو چکی تھی۔قریش مکہ نے مشرکانہ مذہب کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چمکایا ہوا تھا۔بنی نوع انسان خواہش پرستی کا شکار ہو کر درندوں اور جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ان حالات میں حضور اکرمﷺ تن تنہا عظیم تبدیلی کا پیغام لے کر آتے ہیں اور انسانیت کی ڈوبتی کشتی کے لیے سہارے کا باعث بنتے ہیں۔ ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والی انسانیت کے لیے سکون و اطمینان کی نوید لاتے ہیں۔روم و ایران جیسی دوہری طاقتوں کے پیدا کردہ بحران کے خاتمے کے لیے ایک ایسی تیسری طاقت ریاست مدینہ کا قیام عمل میں لاتے ہیں جس کے سنگ ِمیل کو عبور کرناان کے لئے ممکن نہ تھا۔

فلاحی ریاست سے مراد ایک ایسی ریاست ہے جو تمام انسانوں کے مذہبی، گروہی، لسانی اور نسلی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق کی محافظ ہو۔ فلاحی ریاست نہ تو خود حقوق انسانی پامال کرتی ہے اور نہ کسی طاقتور کو سلب کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ فلاحی ریاست ایک ماں جیسا درجہ رکھتی ہے جس میں بسنے والے تمام انسانوں کو بلا امتیاز ریاست کی آغوش میں پناہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔فلاحی ریاست اعلیٰ اخلاقی ستونوں پر قائم ہوتی ہےکیونکہ قوموں کا عروج و زوال اخلاقیات پر منحصر ہوتا ہے جو قومیں اخلاقی اعتبار سے جتنا ذیادہ بلند ہوں گی اتنا ہی دنیا میں ان کا وقار اونچا ہوگا اور اخلاقی لحاظ سے جتنی کمزور ہوں گی اتنا ہی پستی اور ذلت میں ڈوبی ہوئی ہوں گی۔اسلام نے اعلیٰ اخلاقیات کو حقوق العباد کے ساتھ جوڑ دیا ہے کیونکہ دین اسلام میں انسانیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اسلامی تاریخ میں بنیادی انسانی حقوق کے وضع کرنے کی مثالیں میثاق مدینہ اور حجۃ الودوع کے موقع پر ملتی ہیں۔میثاق مدینہ کو اسلامی دنیا کا پہلا تحریری دستور بھی کہا جاتا ہے جو ہجرت مدینہ کے تقریباً چھ ماہ بعد پانچ طبقوں کے درمیان ہوا تھا۔پہلا طبقہ خود محمد ﷺ دوسرا دوسرا مکہ کے مہاجر صحابہ کرام،تیسرا مدینہ کے انصار صحابہ کرام چوتھا مدینہ کے یہودی اور پانچواں مدینہ کے عیسائی اور غیر مسلم لوگوں پر مشتمل تھا۔اس معاہدہ کی رو سے فکر وخیال کی آزادی اور اہل مدینہ کی حفاظت سمیت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہو گیا۔ اس دستوری معاہدہ کو حضور اکرمﷺ کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ مہارت کی عمدہ مثال قرار دی جاتی ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایااسے بجا طور پر انسانی حقوق کا چارٹر کہا جاسکتا ہے۔جس میں آپﷺ نے اطاعت الٰہی، اطاعت امیر، تحفظ جان، تحفظ مال، تحفظ عزت، مساوات، عورتوں اور غلاموں کے حقوق کے علاوہ حرمت سود کے متعلق ارشادات فرما کر انسانی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئےیہ ثابت کر دیا کہ کوئی ریاست بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے بغیر فلاحی ریاست کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔

آج بنیادی انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی حکومتیں اور تنظیمیں تو بے شمار نظر آتی ہیں لیکن جہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہو وہاں ان کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ فلسطین،کشمیر،شام ،افغانستان اورعراق میں یہ صورتحال ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔قانون فطرت ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے جتنی محنت کرتا ہے اتنا ہی اسے دنیا میں ترقی دی جاتی ہے اگرچہ آخرت میں اس کے لیے کچھ بھی حصہ نہ ہو۔مغربی ممالک نے باہمی دیانتداری کو اپناکر ترقی کو پالیا جبکہ مسلمانوں نے اسے چھوڑ دیا جس کی وجہ سے انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر اسلامی ملکوں کے سربراہان سمیت متعدد اعلیٰ عہدے داروں پر کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں جبکہ یہ سرکاری وسائل ان کے ہاتھوں میں قوم کی امانت تھے جن کے تحفظ کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی تھی۔ اگر کسی کے پاس کوئی حکومتی منصب ہے تو وہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ذمہ داری کا ایک پھندہ ہے۔

فلاحی ریاست کے ذمہ داروں کو چاہیےکہ وہ اسراف کی بجائے اعتدال کی راہ اختیار کریں۔ شریعت اسلامیہ میں فضول خرچی سے بچنے کا مزاج پیدا کرنے کیلئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بہتے دریا یا ندی پر وضو کر رہے ہو تو پھر بھی پانی کے استعمال میں اسراف نہ کرو کیونکہ جب کسی قوم کا مزاج چیزوں کو بلا ضرورت خرچ کرنے کا بن جاتا ہے تو پھر بہتے دریا بھی ناکافی ہو جاتے ہیں۔ ہرشہری قومی وسائل کو بہتر طریقے سے سوچ سمجھ کر خرچ کرے اور قومی دولت کو ضائع ہونے سے بچائے۔عہدشکنی، چوری، دھوکہ، دہشت گردی، کرپشن، ملاوٹ اور قتل وغارت گری کفر کا شیوہ تو ہو سکتا ہے اسلام اور مسلمانوں کا نہیں۔ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور شمار ہوتا ہے۔مسلم امہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے عظمت اسلاف کی تصویر بن جائے۔ انسانی زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ کوشش سے انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ہر شہری کو ریاست کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے میں پائی جانے والی ہر برائی اور خرابی کے تدارک کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔

وطن پاکستان وہ خداداد سلطنت ہے جسے قائداعظم محمد علی جناحؒ نےبرطانوی طاغوت اور ہندو سامراج کی شدید مخالفت کا سامنا کرتے ہوئےتائید خداوندی سے 14اگست 1947ءکو قائم کیا۔تحریک آزادی کے دوران بابائے ملت نے ایک برطانوی نمائندے کے سوال کہ پاکستان کب معرض وجود میں آئے گا کے جواب میں فرمایا کہ پاکستان تو اس وقت معرض وجود میں آگیا تھاجب برصغیر میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔[46] دنیا میں اسلام کے نام پر صرف دو ریاستیں قائم ہوئی ہیں۔ایک ریاست مدینہ اور دوسری ریاست پاکستان۔ریاست مدینہ کی پہچان اسلام ہے اور پاکستان کی پہچان بھی اسلام ہے۔وہی اولین اسلامی ریاست پاکستان کی آئیڈیل ہے۔قائداعظمؒ نے ہمیشہ ریاست مدینہ کو پیش نظر رکھا۔ایک انگریز صحافی کے سوال پر کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا آپؒ نے کہا کہ پاکستان کا دستور تو چودہ صدیاں قبل وجود میں آچکا ہے اور وہ ہے قرآن مجید۔[47]

ریاست مدینہ اپنے وقت کی واحد ریاست تھی جس نے اسلام کا دفاع کیا اور ریاست پاکستان اس وقت ستاون اسلامی ممالک میں سے واحد ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاست ہے ۔جوتمام اسلامی ممالک کےدرمیان دفاعی لحاظ سے اہم حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارض پاکستان تمام مسلمانوں کے ہاں حرم کی مانند عزیز ہے۔ یہ ملک صرف ہمارا فکری اور عملی سرمایہ نہیں بلکہ عالم اسلام کی آنکھوں کا نور ہے۔یہ ملک عطاکر کے اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کے فرزندان توحید کو شوکت ایمانی کا ایک عظیم قلعہ عطافرمایا ہے۔حق تو یہ تھا کہ ریاست پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلاتے ہوئے اسلامی شان وشوکت کا گہوارہ بنایا جاتا لیکن بدقسمتی سے قائداعظمؒ کی وفات کے بعد آنے والے اکثر حکمرانوں نے اسلام اور پاکستان کے نام کو ذاتی نفع کے حصول میں استعمال کیا۔نفاذ اسلام کے لیے عملی اقدامات کا مظاہرہ نہ کیا۔موجودہ حکومت اس لحاظ سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے نفاذ اسلام کے لیے عملی جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ریاست پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا اعلان کیا ہے۔ہر محب وطن شہری کی یہ دلی تمنا اور دعا ہے کہ پاکستان اسلامی شان وشوکت کا ایسا قلعہ بن جائے کہ جسے دیکھتے ہی اسلامی شوکت رفتہ کی واپسی کا یقین ہو جائے۔

جس طرح ستاروں کی روشنی سے آسمان جگمگا اٹھتا ہے اسی طرح افراد کی ترقی سے معاشرہ ترقی کا روپ دھار لے گا۔مذکورہ بالا تمام اقدام نئے پاکستان کی بنیاد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کل یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ جب تک پورا نظام نہیں بدلے گا اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر ہر شہری اپنی جگہ یہی سوچتا رہے تو پھر معاشرہ کبھی نہیں بدلے گا ۔بعثت نبویﷺ کے وقت معاشرتی خرابیاں اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔ اگر نعوذباللہ آپﷺہمت ہار کر بیٹھ جاتے تو آج دنیا میں مسلمانوں کا نام و نشان نہ ہوتا۔ آپﷺ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ جب کوئی بندہ خدا فرد ہو کر اپنی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے تو پھر اس چراغ کو دیکھ کر دوسرا چراغ ،دوسرے سے تیسرا چراغ اور یوں افراد کے بدلنے سے معاشرہ بدل جاتا ہے۔

تجاویزوسفارشات

  • فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہےجس کی درستگی معاشرے کی اصلاح ہے۔ہر فرد دوسروں کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرے تاکہ جب قومی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ آئے توصالح افراد منتخب ہوکر قومی قیادت کا فریضہ سر انجام دیں۔
  • افراد کے ذہنوں میں خدا کا صحیح تصور اور عقیدۂ آخرت کی اہمیت پر زور دیا جائے۔تاکہ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے تصور کو مردہ نہ ہونے دیں اور صحیح نصب العین اور اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کے حصول کی خاطر کوشاں رہیں۔
  • دورِ حاضر میں ذرائع ابلاغ عوامی رجحانات کو بدلنے اور نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہذا ان ذرائع کےذریعے دینی اقدار اور اسلامی طرزِ حیات کی تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جائےاورمعاشرے کا اجتماعی شعور بیدار کیا جائے۔
  • امت مسلمہ کا صالح عنصر مجتمع ہو جائے اور اس کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستبازی، انصاف، حق پسندی، خلوص اور دیانت پر قائم ہو جائے تو منظم نیکی کے سامنے منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت کے باوجود شکست کھا جائے گی۔
  • اصلاح معاشرہ کے لئے مسجد کو مرکزی حیثیت دی جائے اورمسجد کی دینی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا جائے۔عوام الناس مسجد سے اپنا تعلق مضبوط کر ےاوران میں پورے معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔
  • معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقاء کا دارومدار تعلیمی اداروں پرہوتا ہے۔مناصب کے ذمہ دارانہ استعمال سے متعلق تعلیمات نبویﷺ کوپرائمری سے لیکر اعلیٰ ترین سطح تک تعلیمی نصاب میں شامل کرکے نصاب تعلیم کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
  • انتخابات کے طریقہ کار میں اصلاحات اوردستور کےآرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ پرسختی سےعمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے
  • قومی قیادت کے مقدس فریضہ میں بد دیانتی بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سخت اور فوری سزا دی جائے۔اس مقصد کے لئے مؤثر قانون سازی اور قومی ادارۂ محتسب کے کردارکو مؤثر بنانے اور اس کی تشکیل نو کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
  • امت مسلمہ کے قائدین کو اقوام متحدہ میں مؤثر کردار اداکرنےکے لئے پالیسی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
  • پاکستان میں معاشرتی اصلاح مخلص قیادت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مروّجہ ناقص جمہوری نظام کی بدولت صالح قیادت کا قانون ساز اداروں میں پہنچناتقریباً ناممکن ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی بجائے جمہوری رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

 

حوالہ جات

  1. فیروزالدین،مولوی،فیروزاللغات،ص666،فیروزسنزلاہور،پاکستان،1975ء
  2. فراہیدی،خلیل بن احمد،کتاب العین،ص 636،مطبع باقری،ایران،1414ھ
  3. خورشید احمد،پروفیسر،اسلامی نظریہ حیات، ص466، شعبہ تصنیف و تالیف،جامعہ کراچی،س،ن
  4. ابن خلدون،مقدمہ ابن خلدون،ص۱۱۳،طبع بیروت
  5. (القرآن 30:2)
  6. البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح البخاری، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث:672
  7. (القرآن 26:3)
  8. (القرآن 38:42)
  9. (القرآن 13:49)
  10. (188:2)
  11. (القرآن 38:28)
  12. کتاب مقدس، نیا اور پرانا عہد نامہ، میکاہ، 6: 10،11
  13. (القرآن 79:20)
  14. (القرآن 4:28)
  15. القرآن ،الفتح 28:48 ،الصف 9:61 ،التوبہ 33:9
  16. ندوی، سید سلیمان، علامہ، ارض القرآن، ج 1، ص82، اردو بازار لاہور،2009، دارالاشاعت کراچی، س،ن
  17. عبدالمعبود، محمد ، تاریخ مدینہ منورہ، ص27، مکتبہ رحمانیہ لاہور،س،ن
  18. (القرآن 35:14)
  19. بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح ، حدیث 1889
  20. حمید اللہ، محمد، ڈاکٹر، عہد نبویﷺ میں نظام حکمرانی، ص244، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، 1987
  21. محمد حمیداللہ، ڈاکٹر،مقالاتِ حمیداللہ ، مرتبہ زیبا افتخار ،قرطاس ، 2004ء ،ص76
  22. القرآن(3 : 159)
  23. االقرآن ( 42 : 38)
  24. جامع الترمذی،کتاب الفتن عن رسول اللہﷺ، باب 78 متی یکون ظہرالارض، رقم الحدیث 2666
  25. السیوطی،عبدالرحمٰن بن أبی بکر،جلال الدین،جامع الاحادیث،الہمزۃ مع الیاء ،رقم الحدیث 1056
  26. البخاري، صحیح البخاری ،کِتَابُ العِلْمِ ،بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَہُوَ مُشْتَغِلٌ فِی حَدِیثِہِ،رقم الحدیث 59
  27. محمد بن محمد بن سلیمان ،جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد ، طاعۃ الإمام ولزوم الجماعۃ ، رقم الحدیث6058، مکتبۃ ابن کثیر، الکویت ،الطبعۃ: الأولی، 1418 ہـ/ 1998 م ،2/461
  28. ابن کثیر ،أبو الفداء إسماعیل بن عمر،مسند أمیر المؤمنین أبی حفص عمر بن الخطاب ؓ وأقوالہ علی أبواب العلم،کتاب الامارۃ ،دار الوفاء ،المنصورۃ،الطبعۃ: الأولی، 1411ہـ/ 1991م ،2/537
  29. انظر: الواقدي ، محمد بن عمر، أبو عبد الله ،الردة مع نبذة من فتوح العراق وذكر المثنى بن حارثة الشيباني، المحقق:يحيى الجبوري ، دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1990 م، ذِكْرُ خُرُوجِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ،1/54۔
  30. مسلم ،صحیح مسلم ،کتاب الحدود، باب قطع السارق الشریف ،رقم 4410
  31. الموصلي،أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى مسند أبي يعلى ،دار المأمون للتراث - دمشق 1404 – 1984، مسند عبداللہ بن عمر ،رقم الحدیث 5773۔
  32. القرآن (25:57)
  33. مودودی، ابو الاعلیٰ ،سید، تفہیم القرآن ، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، 2000ء،322/5
  34. القرآں ( 16:90 )
  35. أبو داودسليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،كِتَاب الْحُدُودِ،بَابٌ فِي السَّتْرِ عَلَى أَهْلِ الْحُدُودِ،رقم الحدیث4377 ؛ الطبراني،سليمان بن أحمد،المعجم الكبير،رقم الحدیث 5191، عُبَيْدٌ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،5/235
  36. القرآن (19:24)
  37. أبو محمد عبد الله بن وهب،الجامع في الحديث لابن وهب،دار ابن الجوزي الرياض،1995 م،رقم الحدیث 484
  38. البخاری،صحیح البخاری،ِتَابُ الأَحْکَامِ،بَابُ مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ،رقم الحدیث 7150
  39. البخاری،صحیح البخاری،ِتَابُ الأَحْکَامِ،بَابُ مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ،رقم الحدیث 7150
  40. ایضاً ،كِتَابُ الإِیمَانِ،بَابٌ :المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیدِهِ،رقم الحدیث10
  41. ایضاً ، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ إِثْمِ مَنْ لاَ یأْمَنُ جَارُهُ بَوَایقَهُ،رقم الحدیث6016
  42. دیکھئے : السیرۃ النبویۃ ،لابن ہشام،۲/۹۵، المکتبۃ الشاملۃ
  43. قریشی ،عتیق الرحمن ، افکار معلم ، مذہب ، معاشرتی امن اور انسانی رواداری ،ص ۴۸،ستمبر ۲۰۱۲ ،
  44. محمد مسعد یاقوت، نبی الرحمۃ، الزہراء للإعلام العربی،الطبعۃ الأولی 2007 ، القاہرۃ ،ص ۱۱۲۔
  45. صحیح البخاری،کتاب الشرکۃ ،بَاب ہَلْ یُقْرَعُ فِی الْقِسْمَۃِ،رقم الحدیث2493
  46. محمد اکرم رضا، پروفیسر، انعام یافتہ تقریریں، ص99، مکتبہ حنفیہ گنج بخش روڈ، لاہور، 2009ء
  47. ایضاً، انعام یافتہ تقریریں ،ص101
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...