Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > International Research Journal on Islamic Studies > Volume 1 Issue 1 of International Research Journal on Islamic Studies

ہماری دینی ترجیحات، ایک لمحہ فکریہ |
International Research Journal on Islamic Studies
International Research Journal on Islamic Studies

ہماری دینی ترجیحات، ایک لمحہ فکریہ

اگر دینی ترجیحات کا تعین صحیح ہو تو دین بھی اپنی اصلی حالت میں باقی رہتا ہے اور دین کے ثمرات بھی واضح اور نمایاں نظر آتے ہیں اور اگر ترجیحات کا تعین غلط ہو جائے تو انسان حقیقت دین سے بہت دور چلا جاتا ہے اور دینی سوچ کے حاصل افراد کا رویہ دین کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے اور پیر حرم کی کم نگاہی حرم کی رسوائی کا باعث بھی بن جاتی ہے قبل اس کے کہ ہم اپنے دینی ترجیحات کے تعین پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ زندگی میں ترجیحات کی اہمیت کیا ہے اور دینی ترجیحات سے مراد کیا ہے؟

زندگی میں ترجیح کی اہمیت

ترجیح کا لغوی مفہوم ایک چیز کو دوسری چیز پر اہمیت یا فوقیت دینا ہے مثلاً ایک انسان بہت ہی مصروف ہے اور اسی عالم میں اسے شدید بھوک لگ جاتی ہے اور وہ اپنی مصروفیات کو ایک طرف رکھ کے کھانا کھاتا ہے تو کہا جائے گا کہ اس نے اپنی مصروفیات پر کھانا کھانے کو ترجیح دی ہے زندگی میں ترجیحات کا تعین اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ زندگی گزرتی ہے نہ گزر سکتی ہے زندگی میں ترجیحات کا تعین ایک حکیم، فلسفی اور دانشور بھی کرتا ہے اور حروف ابجد سے ناخواندہ ایک کسان اور مزدور بھی۔ اگرچہ اسے لفظ ترجیح کا مفہوم بھی معلوم نہ ہو اور ترجیحات کا تعین فوائد و ثمرات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے مثلاً انسان کو پیسہ بہت محبوب ہے لیکن جب وہ بیمار ہو جائے تو وہ پیسہ خرچ کر کے اپنا علاج کرواتا ہے تو اس نے اپنی جان کو پیسے پر ترجیح اس لیے دے دی کہ وہ سمجھتا ہے پیسے سے اس کی جان کی اہمیت زیادہ ہے اور اگر کبھی کسی غیرت مند انسان کے لیے اس کی عزت اس کی جان کے مقابلے میں آ جائے تو وہ اپنی عزت بچا لیتا ہے اور جان قربان کر دیتا ہے اس نے اپنی عزت کو اپنی جان پر ترجیح اس لیے دے دی کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی عزت کا تحفظ اس کی جان سے بھی بڑھ کر ضروری ہے کیونکہ جان تو بہرحال جانے والی ہی چیز ہے لیکن اگر میں نے اپنی عزت کا تحفظ کر لیا تو یہ میری آئندہ نسلوں کے لیے بھی وقار کا سبب بنے گی ایسے ہی انسان کو اپنی عزت بہت پیاری ہے لیکن وہ اپنا ایمان بچانے کے لیے اپنی عزت قربان کر دیتا ہے ؎

اس نے اپنی عزت پر اپنے ایمان کو ترجیح اس لیے دے دی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا ایمان اس کی عزت سے بہت ہی قیمتی ایک متاع بے بہا ہے تو انسان جس چیز کو زیادہ فائدہ مند سمجھتا ہے اسے اسی چیز پر ترجیح دے دینا فائدہ مند سمجھتا ہے ہر انسان کو اپنا آرام محبوب ہے لیکن وہ تلاش رزق میں اپنا آرام قربان کر دیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بیٹے کی تعلیم اسکے آرام پر مقدم ہے اس لیے وہ حصول تعلیم کو آرام پر ترجیح دے دیتا ہے اس طرح انسان پوری زندگی میں اپنی ترجیحات کا تعین کرتا ہے اس کے بغیر نہ زندگی گزرتی ہے نہ گزر سکتی ہے۔

دینی ترجیحات کا مفہوم

دینی ترجیحات سے مراد وہ ترجیحات ہیں جن میں دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دی جاتی بلکہ ان تمام معاملات کو دین سمجھتے ہوئے ہی ایک چیز کو دوسری چیز پر ترجیح دی جاتی ہے اور اگر یہ تعین درست نہ رہے تو یہ سب سے بڑھ کر خطرناک چیز بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا انسان کے لیے ایک تباہ کن چیز ہے اور یہ انسان کو روحانی کیفیات سے مکمل طور پر محروم کر کے ایک مادیت پرست انسان بنا دیتا ہے اور یہ انسانی حماقت کی واضح دلیل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۔[1]

یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کے نام کو یاد کیا پھر نماز پڑھی بلکہ تم دنیوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا انسان کو تزکیہ قلب، یاد الٰہی اور نعمت نماز سے محروم کر دیتا ہے اور یہ اس کی حماقت پر دلیل اس لیے ہے کہ دنیا تو آخرت کے مقابلہ میں ایک متاع قلیل اور بالکل ناپائیدار چیز ہے تو اس نے ایک متاع قلیل اور فانی چیز کو اختیار کیا لیکن اس آخرت کو چھوڑ دیا جس کی نعمتوں کا تصور کرنے سے بھی انسانی عقل عاجز ہے اور جو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی ان تمام بربادیوں کے مسلم ہونے کے باوجود دینی ترجیحات کا غلط تعین اس سے کہیں بڑھ کے تباہ کن اور ہلاکت خیز نتائج کا حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی غلطی واضح ہوتی ہے لیکن دینی ترجیحات کے غلط تعین میں ایک شخص دین کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے اور وہ اس چیز کو دین سمجھ لیتا جو یا سرے سے دین ہوتی ہی نہیں یا اس کی دین میں اہمیت کم ہی ہوتی ہے۔

ایک دانشور کا قول ہے کہ دین کے مقابلے میں لا دینی اس قدر خطرناک نہیں ہوتی جس قدر دین کے مقابلے میں خود ساختہ دین خطرناک ہوتا ہے مثلاً کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے اگر کوئی بندہ اپنے کسی مادی مفاد یا کسی بھی وجہ سے طیش میں آ کر کسی بے گناہ انسان کو قتل کر دے تو کوئی بھی اس کی تائید نہیں کرے گا اور عین ممکن ہے جلد یا بدیر اسی بھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے لیکن اگر کوئی شخص عقیدہ ہی یہ بنا لے کہ بازار میں خودکش حملہ کر کے لوگوں کو مارنا بہت بڑی نیکی ہے تو اس سوچ کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہوں گی کیونکہ اس نے غیر دین کو دین سمجھ لیا ہے۔ اسی طرح کی فکری یا اعتقادی خطا دینی ترجیحات کے غلط تعین میں بھی پائی جاتی ہے جس وجہ سے ایک انسان حقیقی دین کا حلیہ بگاڑ لیتا ہے اور اس چیز پر اپنی تمام دینی عقیدتیں نچھاور کر دیتا ہے جس کا یا تو دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا یا بالکل معمولی سا تعلق ہوتا ہے لیکن انسان اسے حقیقی دین پر غالب کر دیتا ہے۔

مثلاً اسلام میں مسجد حرام کی خدمت بھی بہت بڑی سعادت ہے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی بھی۔ لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ چونکہ میں حاجیوں کی خدمت کر رہا ہوں اور مسجد حرام کی آبادی کا سامان کر رہا ہوں۔ اس لیے مجھے نہ اسلام قبول کرنے کی ضرورت ہے نہ جہاد کرنے کیونکہ میں بھی تو دین کے کام ہی کر رہا ہوں تو اس کی یہ سوچ غلط اور مردود ہو گی کیونکہ اس نے دینی حوالے سے ترجیحات کا غلط تعین کیا ہے اور ایمان و جہاد پر حاجیوں کی خدمت کو ترجیح دی ہے قرآن کریم میں اسی سوچ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا:

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنۡدَ اللہِ ؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیۡنَ [2]

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام آباد کرنے کو اس شخص کی طرح سمجھ لیا جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے راہِ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

یہ آیہ کریمہ نازل بھی اس وقت ہوئی تھی جب ایک شخص نے کہا کہ مجھے حاجیوں کو پانی پلانے کے بعد کسی اور عمل خیر کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے نے کہا کہ مسجد حرام کی تعمیر کے بعد مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کوئی اور کارخیر کروں یا نہ کروں۔ [3]

چونکہ انہوں نے ایک مستحب کام کو فرائض و واجبات پر ترجیح دے دی تھی تو اس آیہ کریمہ میں اسی سوچ کی تردید فرما دی گئی، خلاصہ کلام یہ ہے کہ دینی ترجیحات سے مراد وہ ترجیحات نہیں جو غیر دین کو دین پر دی جاتی ہیں بلکہ وہ ترجیحات ہیں جو ایک چیز کو دین سمجھتے ہوئے دوسری دینی چیز پر ہی دی جائیں۔ اگرچہ ان کا دین سے سرے سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے خودکش حملہ کر کے بے گناہوں کو مار دینا یا دین میں ان کی اہمیت بہت کم ہو اور اسے اس سے ضروری چیزوں پر ترجیح دے دی جائے جیسے کسی مباح یا مستحب عمل کو فرائض و واجبات ترجیح دینا۔

دینی ترجیحات میں غلط تعین پر چند صورتیں

لوگوں کے دینی رویوں پر غور کرنے سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارا ایک بہت بڑا حصّہ ان ترجیحات کا تعین کرنے میں حقیقت سے دور رہا جس کے نتائج بہت ہی خطرناک اور بھیانک شکل میں نکلے ۔دینی ترجیحات میں غلط تعین کی چند صورتیں ملاحظہ ہوں تاکہ ہم ایسی غلطیوں کا تدارک کر سکیں دینی ترجیحات کے بگاڑ کی چند صورتیں درج ذیل پہلوؤں سے واضح ہیں۔

احکام کی حیثیت کے برعکس معاملہ کرنا

دینی ترجیحات کے غلط تعین کی ایک اہم صورت احکام کی حیثیت کو بدلنا ہے دین میں بعض چیزیں فرض اور واجب کی حیثیت رکھتی ہے جیسے نماز ، زکوٰۃ وغیرہ اور بعض مستحب یا مباح ہیں جیسے کسی دینی محفل میں شرکت کرنا وغیرہ، اگر کوئی صرف عملی طور پر بھی مستحب یا مباح کو فرض و واجب پر ترجیح دیتا ہے تو وہ بہت بڑی حماقت کا مظاہرہ کرتا ہے واضح رہے کہ اس سے مستحب کی اہمیت کو کم کرنا مقصود نہیں بلکہ فرض و واجب کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے یعنی اس کا یہ مقصد نہیں کہ جو مستحب وہ کر رہا ہے اسے بھی چھوڑ دے بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ وہ مستحب سے کہیں بڑھ کے فرض و واجب کو اہمیت دے۔ اور مستحب سے فرض والا معاملہ کرنا اور فرض سے مستحب والا یہ حقیقت دین سے دوری اور پرلے درجے کی حماقت ہے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں۔

ینبغی للمومن ان یشفل اولا بالفرائض فاذا فرع منھا اشتغل بالسنن ثم یشفل بالنوافل و فضائل ممالم یفرع من الفرائض فالاشتغال بالسنن حمق و رعونۃ فان اشتفل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ و اھین ۔ [4]

مومن کو چاہیے کہ پہلے فرائض ادا کرے۔ فرائض کے بعد سنتیں ادا کرے پھر نوافل میں مشغول ہو لیکن فرائض ادا کیے بغیر سنن و نوافل میں مشغول رہنا حماقت اور رعونت ہے۔ اگر فرائض سے پہلے سنن و نوافل میں مشغول ہو گا تو اس کی یہ عبادت قبول نہیں کی جائے گی اور اسے رسوا کر دیا جائے گا۔

شاہ جیلان کے اس فرمان کی شرح میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

مشائخ کرام نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کے نزدیک فرائض کی بجائے نوافل زیادہ اہم ہوں وہ مکر و فریب خوردہ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بندے کی ہلاکت ان دو چیزوں میں ہے فرائض کو ضائع کرتے ہوئے نوافل کی ادائیگی اور دل کی موافقت کے بغیر عمل جوارح ۔ [5]

اس سے واضح ہوتا ہے کہ دینی ترجیحات میں ان کی حیثیت متعین کرنے کی غلطی بہت بڑی حماقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی طور پر فرائض و واجبات پر مستحب یا مباح کو ترجیح دینے والا بے شک حسن نیت سے ہی کام لے رہا ہوتا ہے لیکن نجات کے لیے صرف حسن نیت سے کام لینا کافی نہیں بلکہ عبادات کا شریعت کے مطابق ہونا بھی شرط ہے ورنہ کسی بڑے سے بڑے کافر گروہ میں بھی بہت سے لوگ حسن نیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الْغَاشِیَۃِ ؕ﴿﴾ وُجُوۡہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿﴾ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿﴾ تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً [6]

قیامت کے دن بہت سے چہرے اداس اور اترے ہوئے ہوں گے وہ مشقت اٹھانے والے اور تھکن سے چور ہوں گے۔ وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔

یہاں عاملۃ ناصبۃ کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے خیال میں دین کے لیے بہت کام کرتے تھے لیکن ان کے کام کرنے کا رخ صحیح نہیں تھا۔ اس لیے انہیں اس دن اس کام کا کوئی ثمرہ نہیں ملے گا وہ دنیا میں اپنے خیال میں دینی کام کر کے تھک گئے لیکن چونکہ ان کی محنت کا رخ صحیح نہیں تھا اس لیے وہ آخرت میں اجر سے محروم رہیں گے دنیا میں اعمال بجا لاتے ہوئے تھکتے رہے اور آخرت میں عذاب انہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ اسی لیے حضرت ابن عباسؓ نے اس سے مراد نصاریٰ لیے ہیں َ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ ایک راہب کے پاس سے گزرے اور آپ نے اسے آواز دی۔ جب وہ آپ کی طرف جھکنے لگا تو حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تو آپ سے عرض کی گئی اے امیر المؤمنین

ما ییکیک من ھذا؟ قال ذکرت قول اللّٰہ عزوجل فی کتابہ عاملۃ ناصبۃ۔ تصلی ناراحاصیۃ فذلک الذی ابکانی ۔ [7]

اس بات میں آپ کو کسی چیز نے رلا دیا فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آیا کہ قیامت کے دن کچھ چہرے مشقت اٹھانے والے اور تھکن سے چور ہوں گے وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ تو اسی چیز نے مجھے رلا دیا۔

آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ راہب اس دنیا میں شب و روز عبادات کی مشقتیں تو اٹھا رہا ہے لیکن چونکہ اس نے دین میں سب کاموں سے اہم کام کو چھوڑ رکھا ہے جو ایمان لانا ہے اس لیے اس کی تمام حسن نیت کے باوجود اس کی عبادتیں اس کے کسی کام نہیں آئیں گی یہ دنیا میں عبادتوں میں تھکے گا اور آخرت میں عذاب اس کی کمر توڑ دے گا اس کی اسی حالت پر مجھے رونا آ گیا۔

اس واقعہ سے کوئی کلی مشابہت مقصد نہیں صرف یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ اُخروی نجات کے لیے صرف حسن نیت کافی نہیں بلکہ اس کام کا دینی احکام کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی کسی محفل میں شب بیداری کرتا ہے لیکن ان چیزوں کو چھوڑے ہوئے ہے جو فرائض و واجبات کی حیثیت رکھتی ہیں تو اس کا یہ طرز عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف اور اسلامی نظام عبادات کا تمسخر اڑانے کے مشابہ ہو گا۔

دین میں احکام کی حیثیت کو عملی طور پر بدلنا فرض کے ساتھ مستحب اور مستحب کے ساتھ فرض والا معاملہ کرنا یہ کسی ایک مسلک کا المیہ نہیں بلکہ ذوقی اختلاف کے ساتھ یہ چیز ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے کہ کوئی کسی مخصوص لباس میں مجالس محرم میں ضرور شریک ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر تو میری نجات ہو ہی نہیں سکتی لیکن نماز اور روزے جیسے فرائض کا ترک اس کے نزدیک عام سی بات ہے یا مخصوص دنوں میں مخصوص لباس تو بڑی پابندی اور التزام سے پہنتا ہے لیکن داڑھی جیسی عظیم سنت اس کے نزدیک اہم نہیں اور عفت قلب و نگاہ کی حفاظت کو وہ ضروری چیز نہیں سمجھتا تو اس کی دینی ترجیحات کا یہ غلط تعین اسے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ اس طرز عمل سے اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن بنا رہا ہے اور اس کی خوش فہمیاں اسے عذاب الٰہی سے بچا نہیں سکیں گی۔

اگر کوئی شخص محافل میلاد کا انقعاد تو بڑے التزام سے کرتا ہے یا عرس مقدس کی تقریب میں بڑی عقیدت سے جاتا ہے لیکن حضورﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کا تارک ہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتا ،قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ کے لیے ٹھوس بنیادوں پر امکانی حد تک کوشش نہیں کرتا تو اس کا یہ طرز زندگی حضور سید عالمﷺ کو خوش نہیں کرے گا اور اگر کوئی شخص پوری زندگی کسی مستحب عمل کو بجا نہ لائے لیکن فرائض و واجبات ادا کرتا رہے تو مستحب عمل نہ کرنے پر اس کی گرفت نہیں ہو گی لیکن اگر وہ ایک مستحب عمل تو برے التزام سے پوری زندگی کرتا رہا اس پر لاکھوں روپیہ بھی لگاتا رہا لیکن وہ کسی فرض یا واجب کا تارک رہا تو اسے اللہ تعالیٰ کو اس ترک کا جواب دینا ہو گا اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ کسی کا پابند نہیں جو چاہے کر سکتا ہے لیکن اس نے جو ہمیں ضابطے دیئے ہیں ان کے مطابق ترجیحات کا یہ غلط تعین انسان کی تباہی کا سبب ہے اگر کوئی امیر شخص پوری زندگی عمرہ نہ کرے تو وہ خدا کا مجرم نہیں ہو گا لیکن اگر اس نے کسی کا حق مارا یا فرائض و واجبات ادا نہ کیے تو اسے ان کا جواب ضرور دینا ہو گا اگر اللہ تعالیٰ نے اسے استطاعت دی ہے وہ ہر سال عمرہ کرے سبحان اللہ، اپنے گھر میں محافل سجائے ماشاء اللہ اور خدا کی نعمتوں پر جشن منائے الحمدللہ لیکن اس پر لازم ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو ان چیزوں سے بڑھ کر اہمیت دے اور کسی کا حق غصب کرنے سے اس سے کہیں زیادہ ڈرے جتنا وہ انعقاد محافل کے ترک سے ڈرتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص کسی تبلیغی گشت یا اجتماع میں تو بڑی پابندی اور عقیدت سے جاتا ہے لیکن واپس آ کر مال میں ملاوٹ کرتا ہے، میراث میں انصاف نہیں کرتا، مسلمانوں کو نہ صرف حقارت سے دیکھتا ہے بلکہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان سمجھتا ہی نہیں اور اپنے دفتر کی ڈیوٹی میں بھی کام چوری کرتا ہے تو یہ سب کچھ اس کی دینی ترجیحات کے غلط تعین کے مظاہر ہیں کیونکہ دین میں جن چیزوں کو فرض قرار دیا تھا اس نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور جو چیزیں دین میں مباح یا مستحب کا درجہ رکھتی تھیں اس نے ان سے فرض والا معاملہ کیا۔

اگر کوئی شخص اپنے گھر میں کسی جلسے یا محافل کے انعقاد پر تو لاکھوں روپے لگا دیتا ہے لیکن مساجد و مدارس کے انتظام و انصرام اور دینی لٹریچر کی نشرواشاعت یا ایسے ہی دیگر اہم دینی امور کی طرف اس کی کوئی توجہ ہی نہیں تو اس کے اخلاص اور دینی محبت میں تو شک نہیں کرنا چاہیے لیکن اسے اپنی ان دینی ترجیحات پر ضرور غور کرنا چاہیے اور اسے سمجھ لینا چاہیے کہ دین کے لیے مستقل بنیادوں پر ہونے والے کام وقتی کاموں سے کہیں بڑھ کر اس کی توجہ کے مستحق ہیں ۔

جب یہود کے علماء و فقہاء نے دینی ترجیحات کو بدل دیا ان کا دین حقیقتوں سے محروم ہو کر صرف رسوم و رواج کا مجموعہ بن کر رہ گیا تو حضرت عیسیٰ ؑ نے ان کی اس روش پر انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اے ریا کار فقیہو اور زیسیو! تم پر افسوس! تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو تمہیں زیادہ سزا ہو گی۔[8]

آپؑ نے یہ بھی فرمایا:

اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تووہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کو زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔[9]

تو دینی ترجیحات میں غلط تعین کی پہلی صورت احکام کی حیثیت کو بدل دیتا ہے جس کے سبب انسان فرض کے ساتھ مستحب یا مباح اور مستحب یا مباح کے ساتھ فرض والا معاملہ کرتا ہے یہ اگرچہ نظریاتی طور پر نہ بھی ہو صرف عملی طور پر ہو تب بھی انسان حقیقت دین سے بہت دور چلا جاتا ہے اور وہ بظآہر بہت کچھ کرنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کر پاتا۔

شخصیات کو دین پر ترجیح دینا

دینی ترجیحات کے غلط تعین کی ایک اور اہم اور بنیادی صورت عملی طور پر شخصیات کو دین پر مقدم کرنا ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مقدسین الٰہی کے ساتھ محبت اور عقیدت کا رشتہ ایمان کی علامت بھی اور ایمان کیفیات میں اضافوں کا سبب بھی اور محبوبان الٰہی سے نسبتیں بندہ مومن کا سرمایہ ہیں لیکن جس طرح خود اعتمادی اور تکبر میں ایک غیر مرئی پردہ حائل ہوتا ہے جسے ہٹانے سے خود اعتمادی تکبر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے اسی لیے مقربین کے احترام اور انہیں حق پر غالب کرنے میں بھی ایک غیر مرئی پردہ حائل ہوتا ہے جسے ہٹانے سے انسان اکابرین کے احترام کی حد کو عبور کر کے انہیں حق پر غالب کرنے کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ شخصیات حق کی محتاج ہیں حق شخصیات کا محتاج نہیں۔ اس غلط تعین کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلم دینی کام پیچھے رہ جاتے ہیں اور شخصیات مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہیں۔

اس زاویہ نگاہ میں بڑے ٹھنڈے دل اور مثبت سوچ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اکژ افراد کی سوچ بلاشبہ ایک دینی جذبے کی عکاس ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندوں کی خدمت بلاشبہ ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن ترجیحات کا یہ غلط تعین تباہ کن اثرات چھوڑتا ہے اور اس کے ثمرات انتہائی خطرناک ہوتے ہیں یہ سوچ نہ خدا و رسول کو پسند ہے نہ مقربین الٰہی کو۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے تو اپنی ذات کو بھی دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں وہ اپنے منصب کو جلب زر کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ دین کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بناتے ہیں۔

یہ حقیقت محتاج بیاں کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی مذہبی شخصیت سے بلا کی عقیدت اور محبت رکھتا ہے یہ سوچ لائق صد تحسین اور دینی مزاج کی عکاس ہے اور مقربین الٰہی سے نسبتیں ایک بندہ مومن کا سرمایہ ہیں لیکن ہر شخص کو یہ تو ضرور دیکھنا چاہیے کہ دین کا ٹھوس بنیادوں پر کام کہاں ہو رہا ہے۔ بد مذہب اور لا دین لوگوں کے افکار باطلہ کا ردّ کرنے والے مجاہدین کہاں تیار ہو رہے ہیں وہ شخصیات سے اظہار عقیدت ضرور کرے لیکن دین کے ٹھوس بنیادوں پر ہونے والے کام کی طرف ہر چیز سے بڑھ کر توجہ دے۔ شخصیات سے عقیدت کی بنیاد دینی جدوجہد ہونی چاہیے کوئی ذاتی تعلق نہیں۔ حق ہی ہر کسی کو عزت دیتا ہے حق اپنی عزت کے لیے کسی کا محتاج نہیں اگر شخصیات کو دینی کام پر مقدم کرنے کی سوچ نہ بدلی تو آئندہ نسلیں بھی ان شخصیات کی باغی ہو جائیں گی اور شاید ان کی اپنی اولاد بھی ان کے نظریات کی تائید نہ کرے کیونکہ تحفظ اور بقا کا ذریعہ دینی کام ہے مال و زر نہیں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ سے فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ [10]

اے رسول (معظم!ﷺ) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر بالفرض آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے پیغام الٰہی نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

اس سے واضح ہے کہ تحفظ اور بقا کا راز دینی کام میں مضمر ہے ورنہ اللہ مال و دولت کو عذاب بھی بنا دیتا ہے ار جب سیدنا فاروق اعظمؓ سے معاہدہ بیت المقدس کے وقت اچھے کپڑے پہننے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں عزت کپڑوں کی وجہ سے نہیں ملی دین کی وجہ سے ملی ہے اگر ہم دین سے وفادار رہے تو معزز رہیں گے اور اگر دین سے وفادار نہ رہے تو کپڑے ہمیں معزز نہیں بنا سکیں گے۔

اگر شخصیات کو عملی طور پر ہی سہی دین پر ترجیح دی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ شخصیات تو مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گی لیکن دینی کام رکتا جائے گا لوگ فہم دین سے محروم ہوتے جائیں گے اور ایک دن ایسا آئے جب مذہبی عقیدتیں سمیٹنے والوں کی اولادیں بھی ان کے افکار سے بغاوت کر دیں گی اور یہ کوئی مستقبل کی پیشین گوئی نہیں ہے اس دور میں بھی اس کی بہت سی مثالیں کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہمیں رضائے خداوندی کے لیے دیتے ہوئے اپنی ترجیحات پر ٹھنڈے دل اور جذبات سے غور کرنا چاہیے تاکہ ہمیں وقتی کام پر ٹھوس بنیادوں پر کیے جانے والے کام کو ترجیح دینے کا شعور ملے اور ذوق پر مقصدیت کو غالب کرنے کا احساس ہو اگر ان دینی ترجیحات کو نہ بدلا گیا تو پھر وہی ہو گا کہ شخصیات یا مقربین الٰہی کے پاس تو پانچویں گاڑی کے بعد چھٹی گاڑی آ جائے گی لیکن مدارس اسلامیہ کی انتظامیہ کے پاس نہ اساتذہ کی محدود تنخواہوں کے وسائل ہوں گے اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بل دینے کی گنجائش۔ ذوقی تسکین اور خوش فہمیوں کے کام تو ہوتے رہیں لیکن نہ ناصبیت کے ردّ کا اہتمام ہو گا نہ باطنیت اور قادیانیت کی سازشوں کا ۔

اصول پر فروع کو ترجیح دینا

ہماری دینی ترجیحات میں غلط تعین کا ایک اور بہت بڑا مظہر اصول پر فروع کو ترجیح دینا ہے دین میں بعض چیزیں اصل ہیں جیسے نماز، روزہ وغیرہ اور بعض فروع ہیں جیسے نماز میں ہاتھ کہاں باندھتے ہیں، رفع یدین یا آمین بالجہر کے معاملات ہمارا المیہ یہ بن گیا ہے کہ لوگوں کو نماز کی طرف مائل کرنے میں یا لوگوں پر نماز کی حقیقت آشکارا کرنے میں ہمارا جتنا وقت صرف ہوتا ہے اس سے کہیں بڑھ کے وقت اور محنت نماز کے فروعی مسائل میں صرف ہوتا ہے اور نوبت جنگ و جدل یا مناظرہ تک بھی جا پہنچتی ہے اور اسے حق و باطل کی جنگ کا روپ ہی دے دیا جاتا ہے۔ دین کے ہر ہر عمل کی اپنی حیثیت ہے اور کسی بھی اہمیت کا انکار ممکن نہیں لیکن یہ اعمال نماز کے فروعی اجزا ہیں اصل نماز نہیں اگر تارکین نماز کے نماز کی طرف لانے میں یا روح نماز سے غافل لوگوں پر حقیقت نماز آشکارا کرنے میں بہت ہی کم محنت اور وقت صرف کیا جائے یا اکثر لوگوں کے شیڈول سے ہی خارج ہو اور رفع یدین، آمین بالجہر یا نماز کے بعد ذکر جلی یا خفی پر سارا زور صرف کر دیا جائے تو دینی ترجیحات کا یہ تعین حقیقت دین کے منافی ہے نماز جنازہ اصل ہے اور اس کے بعد دعا مانگنے یا نہ مانگنے کا مسئلہ فروعی ہے کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ نماز جنازہ کی صحت کا انحصار ہی اس دعا پر ہے ، کسی کے نزدیک وہ دعا سنت سے ثابت ہے کسی کے نزدیک یہ اس طرح ثابت نہیں ہے لیکن فریقین میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ نماز جنازہ کی صحت یا عدم صحت کا مدار اس دعا پر ہے اب اگر صورت حال یہ ہو کہ لوگوں کو نماز جنازہ پڑھنے کا طریقہ ہی نہ آتا ہو، وہ بے وضو نماز جنازہ پڑھنے کی قباحتوں سے ہی آگاہ ہی نہ ہوں اور وارثان منبر و محراب سارا زور اسی دعا کے جواز و عدم جواز پر لگاتے رہیں تو ان کی تمام تر محنتوں اور اخلاص کے باوجود ترجیحات کا یہ غلط تعین اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی ہو گا اور اس کے ثمرات منفی ہوں گے ۔

رسول کریمﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ کو آخری نبی ماننا اصل ہے ان کا انکار کفر ہے اور آپ کی ذات اقدس کے متعلق بہت سے مباحث فروع کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے محافل میلاد کے انعقاد کی نوعیت، درود و سلام کے صیغے اور پڑھنے کی حالت اور مسئلہ حاضر و ناظر وغیرہ۔ ہمارے نزدیک یہ چیزیں جتنی بھی محبت کا اظہار ہیں اور ہمارے پاس ان کے اثبات کے لیے جتنے بھی قوی دلائل ہیں بہرحال یہ مسائل اصولی نہیں ہیں فروعی ہیں۔ اب اگر کوئی وارث منبر و محراب سیرت طیبہ کے جملہ پہلو اور حضورﷺ کے اخلاق و کردار کی بصیرت افروز باتوں پر تو کلام نہیں کرتا سارا زور انہیں مسائل کے اثبات یا ان کی نفی ثابت کرنے میں لگا دیتا ہے تو اس کی نیت جتنی بھی اچھی ہو اور وہ اسے جتنا بھی اہم سمجھتا رہے لیکن اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ وہ اصول کو چھوڑ کر فروع کو اپنی توجہات کا مرکز بنا رہا ہے اور دینی ترجیحات کا یہ غلط تعین نہ پہلے مثبت نتائج لے کے آیا نہ اب لائے گا فروع کو فروع کا مقام ضرور دینا چاہیے لیکن انہیں اصول پر ترجیح نہیں دینی چاہیے اگر مذہبی لٹریچر اور دینی خطبات و مذاکرات کا تجزیہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ اصول کے ساتھ فروع والا معاملہ کیا جا رہا ہے اور فروع کے ساتھ اصول والا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہ المیہ کسی ایک مسلک کے ساتھ خاص نہیں ذوقی اختلاف کے ساتھ کم و بیش ہر جگہ پایا جاتا ہے اگر کسی کی تقریر کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ مردے نہیں سنتے یا فلاں بھی مشرک ہے اور فلاں بھی وہ اسے جو بھی سمجھتا رہے لیکن وہ ترجیحات کے غلط تعین کے سبب لوگوں کو حقیقت دین نہیں بتا رہا بلکہ خود ہی ایک بات طے کر کے اس پر دلائل دے رہا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس بندے کی طرف توجہ نہیں کرتے جو بتوں کی پوجا کر رہا ہے اور بت پرستی پر نازاں ہے لیکن اس بندے کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پوری زندگی کھپا دیتے ہیں جو شرک سے بے زار ہونے کی قسمیں کھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے واحدہ لا شریک ہونے کا اعلان کرتا پھرتا ہے جو بندہ سینہ تان کے کہتا ہے میں مسلمان نہیں ہوں میں اسلام کو نہیں مانتا اگر اس کافر کی اصلاح تو ہمارے شیڈول میں بھی نہ ہو لیکن کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے والوں اور مسلمان ہونے پر فخر کرنے والوں کو کافر ثابت کرنے پر زندگیاں کھپا دی جائیں تو کیا یہ ترجیحات قابل توجہ نہیں؟ اور کیا یہ اصولوں سے انحراف کر کے فروعات پر توجیہات کا مرتکز کرنا نہیں؟ کیا یہ اسی کا نتیجہ تو نہیں کہ الاماشاء اللہ ہماری قوم کی سوچ بدل گئی اور ہمارا ایک بہت بڑا حصہ مخالف مسلک کو ریدنے کو ہی دین سمجھ رہا ہے اور واضح منہیات کا مرتکب ہو رہا ہے ۔

کچھ لوگوں نے اپنی مخصوص افتاد طبع یا اپنے معین کردہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ملت اسلامیہ کو فروعات میں الجھانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس کا لازمی نتیجہ اصولوں سے اعراض کی سوچ کو پروان چڑھانا تھا کیونکہ اصول ان کے بطلان میں واضح تھے اور انہیں اپنی بقا اسی طرز فکر میں نظر آتی تھی۔ مثلاً قادیانیت کی بنیاد ایک نص سے انکار پر مبنی ہے کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ کے آخری نبی ہونے کا انکار کیا جو قرآن مجید کی نصّ خاتم النبین کا انکار ہے جس کا معنی تواتر اور اجماع امت سے ایسے ہی آخری نبی ہے جیسے صلوٰۃ کا معنی نماز ہے اور بانی قادیانیت نے انبیاء کرام کی جو توہین کی اس کے کفر ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں لیکن جونہی کسی قادیانی سے بحث ہو گی تو وہ رفع مسیح، امام مہدی اور معراج کے جسمانی یا روحانی ہونے کی طرف گفتگو کا رخ پھیرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کی بقا انہیں فروعی مسائل کے الجھاؤ میں ہے۔ علامہ اقبال ان لوگوں کی اس گہری سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے ؎

ابن مریم مر گیا یا زندہ و جاوید ہےہیں صفات ذات حق حق سے جدا یا عین ذات

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہےیا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات

ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیمامت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سےتا بساط زندگی میں اس کے سب مرے ہوں مات (اقبال)[11]

اس سے واضح ہوتا ہے کہ امت کو فروعی مسائل میں الجھا کے عالم کردار سے بیگانہ رکھنا اور بساط زندگی میں اس کے سب مہروں کو مات دینا ایک گہری شیطانی سازش ہے اور شیطانی کارندے امت کو انہیں چیزوں میں الجھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں اور ان مسائل میں اہل حق کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کے مطابق ان مسائل میں امت مسلمہ کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں شیطانی قوتوں کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کے جال تار تار کر دیتے ہیں لیکن ان چیزوں کو حالات کا تقاضا سمجھتے ہیں اصل دین نہیں۔ مثلاً امام احمد بن حنبل ؒ معتزلہ کے پھیلائے ہوئے فتنہ خلق قرآن میں سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں اور کلمہ حق کے لیے کوڑے بھی کھاتے ہیں لیکن وہ امت کو مسند الامام احمد بن حنبل جیسا احادیث مبارکہ کا تحفہ بھی دے کے جاتے ہیں۔

فروعی مسائل کی طرف اتنی توجہ تو ضرور دی جائے جتنا دین میں ان کا مقام ہے اور حالات کے مطابق ان کی حقیقت بھی واضح کی جائے لیکن یہ عمل ایک اضطراری نوعیت کا ہونا چاہیے مقصد حیات نہ بنے ورنہ انسان کی زندگی بے پناہ وسائل اور بلا کی صلاحیتوں کے باوجود ایک بہت ہی محدود دائرہ میں کھپ جاتی ہے انسان کی ترجیح ایسا دینی کام ہونا چاہیے جسے غیر مسلم بھی فہم دین کے لیے پڑھیں یا سنیں اور جس سے کوئی بھی دین کو سمجھنے والا فائدہ حاصل کرے خواہ اس کا تعلق کسی مسلک یا کسی مذہب سے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر میڈیا پر بھی فہم دین کے نام سے انہیں فروعی مسائل کو موضوع بحث بنایا جائے جس میں امت صدیوں سے الجھی ہوئی ہے اور ان گنت مناظروں اور مباحثوں کے باوجود سوائے نفرت اور حقارت کے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اسے دینی ترجیحات کا غلط تعین نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس بڑے فورم پر ایسے مسائل زیر بحث لائے جاتے کہ امت کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ ان کا تدارک کیسے ہو گا؟ ہمارا کردار اپنی عظمت کیوں کھو گیا؟ امت میں وحدت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ عبادات رسمیں کیوں بن گئیں؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اصلاح معاشرہ کیسے ہو گی؟ ہماری نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا حصّہ دین سے دور کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ ریاست کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ افراد کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اسلام کے معاشی، سیاسی اور دیگر نظام زیر بحث لائے جاتے وغیرہ لیکن اگر فرق صرف یہ ہو کہ فروعی مسائل پر مناظرے کو چوک کی بجائے ٹی وی کا فورم مل جائے۔ تو اسے دینی ترجیحات کا غلط تعین نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے گا؟

دین اپنی بقاء کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ہم اپنی بقا کے لیے دین کے محتاج ہیں ۔ زندگی میں اللہ تعالیٰ انسان کو جو کچھ بھی عطا کر ے وہ قابلیت ہو، علم و فضل ہو، لوگوں کی عقیدتیں ہوں، وسائل ہوں یا کوئی بھی اور نعمت ہو۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کا جواب دینا ہو گا کہ اس نے ان نعمتوں کا استعمال کیسے کیا ،کیا علم و فضل، قابلیت اور رسائل کی نعمت لوگوں کو دین کے قریب لانے کے لیے استعمال کی یا ان مسائل میں یہ نعمتیں کھپا دیں جن کے متعلق قیامت کے دن انسان سے سوال ہی نہیں ہونا تھا، کیا جو انسان خلق قرآن، حیات مسیح اور امام مہدی جیسے مسائل سے سرے سے واقف ہی نہیں اور وہ تصرفات اور حاضر و ناظر جیسے مسائل سے مکمل طور پر ناواقف ہے تو کیا یہ عدم واقفیت اس کی نجات کی راہ میں رکاوٹ بنے گی؟ تو جن مسائل کے متعلق اللہ تعالیٰ بندے سے سوال ہی نہیں کرے گا کیا بہتر اور ضروری نہیں کہ اصحاب منبر و محراب اپنی کاوشیں ان مسائل کے ابلاغ میں صرف کریں جن کے بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسانوں سے سوال کرے گا؟ ایک رشوت خور، غاصب اور تارک صوم و صلوٰۃ کو تصرفات، استمداد اور مشاجرات صحابہؓ میں الجھانا حکمت دعوت سے مکمل محرومی نہیں تو اور کیا ہے؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دینی ترجیحات کے غلط تعین کی ایک اہم صورت اصلوں پر فروعات کو ترجیح دینا ہے جس کی تباہ کاریوں کا کوئی بھی دانشمند انکار نہیں کر سکتا۔

ذوقی اور وقتی چیزوں کو دیرپا چیزوں پر ترجیح دینا

دینی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک اور اہم مظہر ذوقی اور وقتی چیزوں کو دیرپا اور باقی رہنے والی چیزوں پر ترجیح دینا ہے بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے ہمارے ذوق کی تسکین تو ہو جاتی ہے اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن وہ فائدہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا فائدہ دیرپا اور باقی رہنے والا ہوتا ہے مثلاً اگر ایک محفل، مجلس یا اجتماع کوئی صاحب ثروت آدمی اپنے گھر میں منعقد کرے اور اس پر کئی لاکھ روپیہ لگا دے اور اخلاص اور للہیت کے ساتھ میں پروگرام کرے تو اس کے کارخیر ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور ان شاء اللہ اسے بارگاہ الٰہی سے اجر بھی ملے گا لیکن اس کا فائدہ دائمی نہیں ہو گا دینی ذوق کی تکمیل بھی ضرور ہو گی، کیفیات کا اظہار بھی نعروں اور کئی دوسری صورتوں میں ہو گا اور دینی بھائیوں سے ملاقاتیں بھی ہوں گی یہ سب کچھ اپنی جگہ خیر ہی خیر ہے لیکن اگر وہ یہی پیسہ وہاں خرچ کرتا جہاں سے دینی علماء و دامنشور پیدا ہوتے ہیں یا مذہب کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے لیے کوئی دینی لٹریچر تیار کرواتا اور اسے تقسیم کرتا اسے مساجد و مدرس کی تعمیر و ترقی میں خرچ کرتا تو بے شک اس کا کسی کو بھی پتہ نہ چلتا لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اس کا اجر بہت زیادہ ہوتا کیونکہ یہ کام وقتی نہیں دیرپا اور دائمی ہے۔

ہمارے معاشرے میں چہلم کے بہت بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں جن کا مقصد میت کو ایصال ثواب ہوتا ہے فی نفس تو یہ ایک مستحسن چیز ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ انہیں ان کی روح اور مقصد کے قریب تر کیا جائے اور وہ چہلم رہیں ولیمہ نہ بنیں لیکن اس سے زیادہ اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ان پروگراموں کو اعتدال پر رکھتے ہوئے میت کے ایصال ثواب کے لیے کوئی ایسا کام بھی کیا جائے جو دیرپا اور باقی رہنے والا ہو اور میت کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے اور ہمیشہ میت کو اس کا ثواب ملتا رہے کسی طالب علم کی تعلیم کا اہتمام کر دیا، مساجد کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصّہ ڈال دیا۔ فہم دین کے لیے کوئی لٹریچر تقسیم کردیا اور غرباء پروری کا کوئی مستقل سامان کر دیا۔ یہ چیزیں میت کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گی۔ اگر کوئی اپنے باپ کا چہلم تو بڑی دھوم دھام سے کرتا ہے جس سے لوگوں پر اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے لیکن وہ اپنے باپ کے ایصال ثواب کا کوئی مستقل ذریعہ اختیار نہیں تو اس نے اپنے باپ سے انصاف نہیں کیا اور شاید اس کے چہلم سے بھی اپنے ہی فوائد حاصل کرتا رہا۔

دین کے لیے کیے گئے ہر عمل کی اپنی اہمیت ہے ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے لیکن ذوقی اور وقتی فائدہ پر رک جانا بہت محدود سوچ ہے اس لیے ایسے کاموں پر ان کاموں کو ترجیح دینی چاہیے جن کا فائدہ دیرپا اور باقی رہنے والا ہو، یہی دین کا مزاج ہے اور یہی دانشمندی کا تقاضا ہے جو بھی قوم ذوقی تسکین میں مگن ہو جائے دیرپا اور باقی رہنے والے کام اس کے شیڈول سے خارج ہو جائیں وہ قوم علم و عمل سے دور رہتی چلی جاتی ہے اس قوم میں فنکار عروج پاتے ہیں محقق اور دانشور اپنا مقام نہیں پاتے۔

رسول کریمﷺ کی ایک سنت مبارکہ یہ بھی ہے کہ آپ دیرپا کام کو وقتی کاموں پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی أَدْوَمُہَا وَإِنْ قَلَّ۔ [12]

"اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو"

اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کو وقتی کام سے بڑ ھ کر دائمی ہونے والا کام پسند تھا اس لیے جو بندہ حضور اکرمﷺ کو خوش کرنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ وقتی اور ذوقی کاموں پر دیرپا اور باقی رہنے والی چیزوں کو ترجیح دے جو بھی بندہ دین کے لیے کوئی بھی کام کرے نہ اس کی نیت پر شبہ کر سکتے ہیں نہ اخلاص پر اور نہ ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے کے جذبہ پر لیکن اسے ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ میرے اس کام کا فائدہ وقتی ہے یا دیرپا۔ اس سے لوگ صرف اپنے ذوق اور گروہی تفاخر کی تسکین کر کے جائیں گے یا اس سے انہیں عمل کی غذا ملے گی؟ جس نے دیر پا عمل کیا وہی رضائے خداوندی کی نعمت پائے گا کیونکہ حضورﷺ کو وقتی کی بجائے دیرپا عمل پسند ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ محافل و مجالس اور اجتماعات کو اعتدال پر رکھتے ہوئے دیرپا اور باقی رہنے والے کاموں کو ترجیح دی جائے ورنہ قربانیاں بہت ہوں گی اور فائدہ بہت محدود ہو گا۔

مسلمات پر شخصی رائے کو ترجیح دینا

دینی ترجیحات میں غلط تعین کی ایک صورت کسی بھی مسلک کے مسلمات پر شخصی آراء کو ترجیح دینا اور پھر اپنی دینی جدوجہد کا بہت بڑا حصّہ اسی میں خرچ کر دینا ہے یہ المیہ دراصل عوام کا نہیں علماء کا ہے اور اسے عموماً ایسے لوگ اختیار کرتے ہیں عموماً جن کا علمی زعم ان کے علم سے بہت بڑا ہوتا ہے جس طرح دین میں بہت سی باتیں مسلمات میں سے ہوتی ہے جن سے انحراف نہ صرف غلط بلکہ تعجب ناک چیز ہوتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا عادل ہونا مسلمات دین میں سے ہے اب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے اور یہ بھی کہے کہ فلاں فلاں دلیل کی بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات میں عدل نہیں کرتا تو اس کی سوچ غلط تو ہے ہی تعجب ناک بھی ہے اس کی دلیل کا ردّ کیے بغیر ہی اس کی غلطی واضح ہے کہ وہ مسلمات سے انحراف کر رہا ہے۔ ہاں! اگر کوئی ایسا شخص یہی بات کہے جو دین کو مانتا ہی نہیں تو اس کی دلیل کا جواب دیا جائے گا لیکن اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور اسلام کے مسلمات سے انحراف کرنا غلط ہونے کے ساتھ ساتھ باعث تعجب بھی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اور خطرناک بات یہ ہو گی کہ اس شخص کے ماننے والے دین کے نام پر کی جانے والی اپنی ساری کاوشیں اسی کے دفاع میں دلائل دینے پر صرف کر دیں اور اسے دین کی بہت بڑی خدمت سمجھنے لگیں ، شخصی رائے کو مسلمات پر ترجیح دینے کا یہ غلط تعین انتہائی غلط اور باعث مذمت ہے۔[13]

اگر بات شخصی یا انفرادی رائے تک محدود رہے تو اور بات ہے مگر بہت سی انفرادی آراء کتابوں میں درج ہیں جو کہ امت میں فتنہ کا باعث ہیں کیونکہ یہاں بات صرف انفرادی رائے پر نہیں رکتی اس رائے کا حامل اسے ہی دین بنا کے پیش کرتا ہے اور اس کے پیروکار بھی۔ چونکہ حق پرستی کی بجائے شخصیت پرستی کی وبا عام ہے اس لیے اگر کوئی شخص اپنی کوئی انفرادی رائے اختیار کر لے جو مسلمات کے خلاف ہو تو ظاہر ہے ایسی رائے کوئی عام بندہ تو پیش نہیں کرے گا ایسی چیزیں کسی صاحب علم سے ہی صادر ہوتیں ہیں تو اس کے مرید، متعلقین اور شاگرد اپنی دینی جدوجہد کا بہت سا حصہ اسی بات کے دفاع میں صرف کرنے لگتے ہیں اور وہ اسے ہر دوسرے علمی کام پر ترجیح دے دیتے ہیں اور اسی چیز کو وہ اپنا امتیاز اور تشخص بنا لیتے ہیں اور ان کی ہر تحریر اور تقریر کی تان اسی پر آ کر ٹوٹتی ہے اور دینی ترجیحات کا غلط تعین انہیں ایک بہت ہی محدود لڑی میں بند کر دیتا ہے اور وہ اپنے تمام علم و فضل اور بے پناہ وسائل کے باوجود کوئی ایسا کام نہیں کر پاتے جس سے کسی غیر مسلم پر محاسن اسلام واضح ہوں اور جسے مسلک کی تفریق کے بغیر سب لوگ پڑھیں اور فہم اسلام میں اس سے مدد لیں۔

ایسے اشخاص کے علم و فضل اور قابلیت میں کوئی کلام نہیں ہوتا اور دین کی نسبت سے قدرت نے انہیں بے پناہ وسائل سے بھی نوازا ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود نہ صرف وہ اپنی زندگی انفرادی آراء کے خول میں گزار دیتے ہیں بلکہ اپنے تمام متعلقین کی سوچ بھی ایسی بنا دیتے ہیں کہ وہ اس خول سے باہر آنا دین سے بغاوت سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی انہیں انفرادی آراء کے تحفظ میں گزار دیتے ہیں۔ وہ اس کام کو جتنی بھی صاف نیتی سے کریں، ان پر جتنی بھی محنت اور وسائل خرچ کریں ان کی کاوشیں اسلام کے لیے مفید نہ ہوئیں کہ انہوں نے فہم اسلام کے لیے کام نہیں کیا بلکہ عملی طور پر مسلمات کے خلاف انفرادی آراء کے تحفظ میں لگے رہے دینی ترجیحات کے اس غلط تعین کے سبب وہ بہت کچھ کرتے رہنے کے باوجود کچھ نہ کر پائے ان کے علم و دانش میں کلام نہیں لیکن ان کی ترجیحات کے اس غلط تعین سے اتفاق کسی بھی طور پر ممکن نہیں اور یہی سوچ مسلم معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ [14]

دینی ترجیحا ت کے غلط تعین کے اسباب و محرکات

ویسے تو ہر انسان اپنے خیال کے مطابق ہر کام اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے لیکن ادراک حقیقت تک رسائی نہ ہونے کے سبب وہ ناکامی کو کامیابی اور زہر ہلاہل کو آب حیات سمجھ لیتا ہے اور کسی چیز کو فائدہ مند سمجھتے ہوئے ہی حاصل کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنا بہت سا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ دینی ترجیحات کے غلط تعین کے سبب بھی انسان حقیقتوں سے بہت دور چلا جاتا ہے اس کی نیت جتنی بھی صحیح ہو، اس کی محنت جتنی بھی زیادہ ہو اور اس پر جتنا بھی سرمایہ لگائے لیکن سوچ کی خطا اسے بہت بڑے فوائد سے ایک محدود فائدے تک لے آتی ہے اس طرح وہ اپنے لیے بہت گھاٹے کا سودا کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انسان ترجیحات کا غلط تعین کیوں کرتا ہے؟ اس کے اسباب و محرکات کیا ہیں؟ تو گہرے شعور کے ساتھ اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا کوئی ایک سبب نہیں بلکہ مختلف افراد مختلف محرکات کے تحت اس کے مرتکب ہوتے ہیں جیسے علامہ ابن جوزی نے اپنے معروف کتاب تبلیس ابلیس میں وضاحت سے لکھا ہے کہ شیطان بندوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے بندوں کے مزاج کے مطابق چال چلتا ہے وہ زاہدوں پر ان کے مزاج کے مطابق حملہ کرتا ہے عوام اور علماء پر حملے کا طریقہ ان کے مزاج کے مطابق اختیار کرتا ہے اور تاجروں اور بادشاہوں کو ان کے مزاج کے مطابق گمراہ کرتا ہے اس طرح ترجیحات کے غلط تعین کے اسباب و محرکات بھی ہرگروہ کے الگ الگ ہوتے ہیں بہت گہرائی میں جا کر شاید ایک یکسانیت بھی نظر آئے لیکن بات کو واضح کرنے اور عام فہم بنانے کے لیے لوگوں کے مزاج کے مطابق ان ترجیحات کو مختلف اسباب و محرکات کی تقسیم سے واضح کیا جاتا ہے۔ انسان جتنا بھی کم حیثیت یا بے حیثیت ہو لیکن اس کے سبب کوئی لوگوں میں مقبول ہو جائے ایسے کام کو دوسرے کاموں پر ترجیح دینا ایک عام انسانی کمزوری ہے لیکن اس کا زیادہ امکان اہل علم میں ہوتا ہے اور انہی کا رویہ لوگوں کی سوچ بناتا ہے اور یہ بات محتاج بیان نہیں کہ تقریر و تحریر کا ایسا انداز جس سے لوگوں کو عمل کی غذا ملے۔ اکثر یہ لوگوں کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتا اور وہ ایسا اسلوب اختیار کرنے والے کو واعظ خشک کے طنزیہ لقب سے پکارتے ہیں لیکن اگر ایسا اسلوب اختیار کیا جائے جس میں قران و سنت کے مجموعی مزاج سے ہٹ کر خود ساختہ قسم کی روایات سے چھوٹے چھوٹے عمل پر بڑی بڑی بشارتیں دی جائیں یا مخالف مسلک کی تنقیص اور تحقیر کر کے انہیں گروہی تفاخر کی غذا دی جائے یا من گھڑت قصے کہانیاں سنا کر لوگوں کے جذبات کو ابھارا جائے تو لوگوں میں ایسے لوگ بہت جلد اور بہت زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں اور آپ کو اس کی بہت واضح مثالیں ہر طرف نظر آئیں گی۔

اب اصحاب منبر و محراب کے سامنے دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی تقریر و تحریر میں وہ انداز اختیار کریں جو دین کا حقیقی تقاضا ہے اور جو طریقہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محتشمﷺ کو مطلوب ہے جس میں وہ لوگوں کو دین کی حقیقت بتائیں، انہیں فہم سیرت کی غذا دیں اور ان کی توجہ ان سوالات کی طرف مبذول کریں جن کا انہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے اور تقریر و تحریر میں اسی اسلوب کو اختیار کرنا ہر داعی کی ترجیح ہونی چاہیے اس اسلوب کو اختیار کرنے سے شاید وہ لوگوں میں بیشک زیادہ مقبول نہ ہو اور اسے حسب منشا لوگوں میں پذیرائی نہ ملے لیکن وہ لوگوں کی مدح و ذم سے بے نیاز ہو کر رہ جائے خداوندی کا طلبگار بن کر اسی اسلوب پر ڈٹا رہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور لوگوں میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کرے اور لوگوں کو حقیقت دین سے دور کرکے خوش فہمیوں میں ڈال دے، ان کے گروہی تفاخر کو ہوا دے اور ملت اسلامیہ میں نفرتوں کو پروان چڑھائے۔ اس کی ترجیح دین کا ابلاغ نہ ہو اپنی ذات کی مقبولیت اور پذیرائی ہو اگرچہ لوگ حقیقت دین سے جتنے بھی دور ہو جائیں اور ملت میں نفرتوں کی آگ جتنی بھی تیز تر ہوتی رہے ؎۔ [15]

امیر کرواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کوکہ دانستہ بھی انجام سفر ہونے نہیں دیتا

تو اس سوچ کے حامل افراد دینی ترجیح کا یہ غلط تعین اپنی ذات کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کرتے ہیں ان کا مقصود دین کا ابلاغ نہیں ہوتا اپنی ذات کی مقبولیت بڑھانا اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا ہوتا ہے؎

ہوس بالائے متبر ہے تجھے رنگین بیانی کینصیحت بھی تیری صورت ہے آک افسانہ خوانی کی(اقبالؒ)

فن خطابت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے لیکن اس کا ان گھٹیا مقاصد کے لیے استعمال دنیا اور آخرت کی ذلت ہے حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَائَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَائَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ ۔[16]

جس نے علم اس لیے سیکھا کہ وہ علماء سے الجھتا رہے بیوقوفوں پر اپنی دھاک بٹھائے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا۔

مراد یہ ہے کہ دینی ترجیح کے اس غلط تعین کا ایک سبب اپنی ذات کو مقبول بنانا اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی سوچ ہوتی ہے۔

ذوقی تسکین

دینی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک سبب ذوقی تسکین ہے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ ”جب انسان حقیقی دین سے انحراف کرتا ہے تو پھر وہ ایک ایسا دین بنا لیتا ہے جو اس کے ذوق کے عین مطابق ہوتا ہے پھر وہ اپنی ساری دینی عقیدتیں وہاں ڈھیر کر دیتا ہے۔“ ایمان کا کمال تو یہ ہے کہ انسان کا ذوق بھی شریعت کے تابع ہو جائے جیسا کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ. حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ۔ [17]

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔

انسان کو چاہیے کہ وہ کم از کم اپنے ذوق پر جبر کر کے ہی اسے شریعت کے تابع کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اگر انسان کو اپنا ذوق اتنا محبوب ہو جائے کہ وہ اسے شریعت کے مجموعی معراج پر ہی غالب کر دے تو یہ بندہ مومن کا طریقہ نہیں ہے۔

ہر انسان طبعی اور ذوقی طور پر حسن صورت کو پسند کرتا ہے اسے گروہی تفاخر سے ایک قلبی تسکین محسوس ہوتی ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے یہ چیز طبعی اور فطرتی ہیں فی نفسہٖ بری نہیں ہیں ان تمام چیزوں کا استعمال ایمانی حالوتوں کو جلا بخشنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے مثلاً وہ حسن صوت کی تسکین تلاوت قران سے کرے یا خوبصورت نعت سن کے اپنی ایمانی حرارتوں کو تیز تر کرے۔ وہ حزب اللہ کے حزب الشیطان پر غلبے سے گروہی تفاخر کی غذا پائے وہ اپنے وقار اور اپنی شان و شوکت کو دینی غلبے کے لیے استعمال کرے۔ لیکن اگر ذوقی تسکین اسے مقصدیت سے دور لے جائے ار اس کی دینی ترجیحات کا تعین ہی غلط ہو جائے تو اس کی یہ سوچ اسلامی مزاج کے خلاف اور بہت ہی خطرناک ہو گی۔

اگر کوئی دین کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اور دیرپا کام نہیں کرتا مثلاً نہ وہ دینی لٹریچر عما کرنے میں اپنا حصّہ ڈالتا ہے نہ مساجد و مدارس کے انتظامات میں کوئی رول ادا کرتا ہے نہ کسی غریب طالب علم کی مدد کرتا ہے نہ کسی لاچار اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرتا ہے لیکن وہ محفل، مجلس یا اجتماع کے انعقاد پر کئی لاکھ لگا دیتا ہے جس سے اس کا ذوق بھی پورا ہو جاتا ہے اس کی دینی وابستگی کا شہرہ بھی زبان زد عام ہو جاتا ہے اور اس پروگرام میں اپنے مخالفین کو رگید کے اس کی گروہی تفاخر کی غذا کا سامان بھی ہو جاتا ہے تو اس بندے کی نہ نیت میں شبہ ہے نہ دینی وابستگی میں۔ وہ اپنے خیال میں یہ سب کچھ دینی محبت میں کر رہا ہے لیکن دراصل اس نے ذوقی تسکین کے ہاتھوں شکست کھا کر دینی ترجیحات کا تعین غلط کر دیا ہے جس وجہ سے اس نے اپنے اجر کو بہت محدود کر دیا ہے۔

ایسے ہی کسی شخص کو اپنے نظریاتی مخالفین کو رگیدنے سے ذوقی تسکین ملتی ہے وہ جذبہ ابلاغ اور دین کا پیغام پہنچانے سے یکسر انحراف کر لیتا ہے اور سارا زور اپنے نظریاتی مخالفین کو رگیدنے اور انہیں دنیا کے بدترین کافر و مشرک ثابت کرنے پر لگا دیتا ہے خود بھی خوش ہوتا ہے اور سامعین و قارئین کو بھی خوش کرتا ہے لیکن اس کی جدوجہد کا حاصل عمل کی غذا، فہم دین یا دینی محاسن کا ادراک نہیں تو ایسا شخص نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری امت کے لیے بہت ہی نقصان کا معاملہ کر رہا ہے اس کا سبب نہ اس کی جہالت ہے، نہ محنت میں کمی، نہ قابلیت میں کمی اور نہ ہی اس کے دینی جذبوں میں کمی، سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہ کر سکنے کا سبب صرف یہ ہے کہ اس نے اپنے ذوقی تسکین کو دینی روح پر غالب کر دیا۔ اور وہ دین پھیلانے کے نام پر دانستہ یا نادانستہ اپنے ذوق کی تسکین میں ہی لگا رہا۔ اور حق کے حضور سجدہ ریز ہونے کی بجائے اپنی ذات کی ہی بندگی میں لگا رہا۔ دوسروں کو شکست دینا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا مشکل اپنے آپ کو شکست دینا ہوتا ہے ؎

اس سے واضح ہے کہ دینی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک بنیادی سبب دینی روح پر ذوق کو غالب کرنا ہے۔ جبکہ کمال ایمان ذوق کو دین کے تابع کرنا ہے یا کم از کم بندہ ذوق کو دین کے تابع کرنے کی جدوجہد تو کرتا رہے کیونکہ مانگنے والے کی جھولی بھر ہی دی جاتی ہے ؎

در اطاعت کوش اے غفلت شعارفی شود از جبر پیدا اختیار(اقبالؒ)

شہرت و ناموری کا حصول

کسی بھی کام میں بندے کی نیت صاف ہے یا نہیں وہ کوئی کام رضائے خداوندی کے حصول کے لیے کر رہا ہے یا اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ایسے ہی نیت کے تمام تر معاملات اللہ اور بندے کا معاملہ ہے نہ کسی بندے کو کسی کی نیت میں شک کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی اس کے متعلق بدگمانی کرنے کا۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ شواہد بہت کچھ بتا دیتے ہیں دین میں بد گمانی سے روکا گیا لیکن اخلاص اختیار کرنے اور ریاکاری سے بچنے کی تلقین پوری شدتوں سے فرمائی گئی تاکہ ہر کوئی اپنے رویوں پر غو ر کرے اور اپنے آپ کا محاصبہ کرتا رہے۔

شہرت و ناموری فی نفسہ کوئی مذموم چیز بھی نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے رفع ذکر کو اپنے خصوصی انعامات میں شمار فرمایا ہے لیکن یہ چیز نعمت اور احسان خداوندی اسی وقت تک ہے جب تک اس کے لیے تکلف نہ کیا جائے اور رضائے خداوندی کی بجائے اسے ہی مطمع نظر نہ بنا لیا جائے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ بندہ ٹھوس او دیرپا کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے اور باقی سارے معاملات اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دے وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے بندے کو کیا عطا کرنا ہے ؎

بندگی چوں گدایاں بشرط مراد مکنکہ خواجہ خود رسم بندہ پروری داند

بندے کا کام نمود و نمائش سے بچنا ہے حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا

ان اللّٰہ یحب العبد التقی الغنی الخطی۔ [18]

کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا، بے نیاز اور لوگوں سے پوشیدہ ہو۔

جب بندہ نمود و نمائش اور شہرت و ناموری سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود جبریل امین سے اس کی محبت کا اعلان فرماتا ہے اور پھر زمین و آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں اور مخلوق خدا اس کی طرف کھچی کھچی آتی ہے لیکن یہ دائمی اور سرمدی عزتیں صرف اسے ملتی ہیں جس کا مقصود نمود و نمائش اور شہرت و ناموری نہیں ہوتا وہ اپنے ہر کام سے صرف اور صرف رضائے خداوندی کا طالب ہوتا ہے۔

اس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ جو شخص نمود و نمائش کے لیے تو کوئی کام کرتا ہے بے شک اس کی جتنی بھی محنت اور جتنا بھی وقت اور سرمایہ خرچ ہو جائے لیکن یہاں اس کی نمود و نمائش کا سامان نہ ہو اور اس کی شہرت و ناموری کے جذبے کی تسکین نہ ہو وہاں وہ ایک منٹ اور پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا تو ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنے کا اختیار تو نہیں لیکن شواہد بتا رہے ہیں کہ ایسا شخص رضائے خداوندی کا طالب نہیں ہے بلکہ اپنی خواہش کی بندگی میں لگا ہواہے۔

دینی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک بہت بڑا سبب بھی یہی ہے کہ ایک شخص یہاں اس کی نمود و نمائش کے جذبے کو غذا مل رہی ہو وہ بہت سا پیسہ اور وقت لگا دیتاہے اگرچہ وہ کام جتنا بھی وقتی اور مجموعی دین میں کم حیثیت ہی کیوں نہ ہو لیکن یہاں اسے یہ چیزیں نہ ملیں وہاں وہ کچھ بھی نہیں کرتا اگرچہ وہ کام دین میں جتنی بھی اعلیٰ حیثیت رکھتا ہو، دین اس کا جتنی بھی شدت سے مطالبہ کرتا ہو، اور وہ کام جتنا بھی ٹھوس بنیادوں پر اور تادیر رہنے والا ہو۔ ترجیحات کا یہی غلط تعین نہ صرف اسے بہت بڑے گھاٹے میں رکھ رہا ہے بلکہ اس کا یہ رویہ امت کے مجموعی وجود کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان کر رہا ہے۔ شہرت و ناموری کی خواہش کے ہاتھوں بے بس انسان اپنے ان کاموں کو جو بھی سمجھتا رہے اور وہ اپنے آپ کو جو بھی بنا کے پیش کرتا ہے اور اپنے مفاد کے لیے علم کے سوداگر اسے جو بھی یقین دہانیاں کرواتے رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ شخص رضائے خداوندی کے ہیرے اور جواہرات چھوڑ کر خذف اور سنگریزے اکٹھے کرنے میں مشغول ہے اور اس کی یہ سوچ محبت الٰہی سے محرومی کا مظہر ہے اور مزید محرومیوں کا سبب بھی اور جن کے دل میں محبت الٰہی کا چراغ روشن ہو جائے وہ شہرت و ناموری کے لیے نہیں صرف رضائے خداوندی کے لیے کام کرتے ہیں ؎۔ اور اس بندہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ صرف اپنے رب کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔

چڑیوں کی طرح دانے پر گرتا ہے کس لیےپرواز رکھ بلند کر بن جائے تو عقاب

جب صحابہ کرامؓ نے موائن فتح کیا تو ایک مجاہد بہت قیمتی مال غنیمت لے کر امیر لشکر کے پاس آیا لوگوں نے پوچھا مال غنیمت میں سے کچھ اپنے لیے بھی رکھا ہے یا سارا کچھ لے کے آ گئے ہو تو وہ کہنے لگا اللہ کی قسم! اگر خدا کا معاملہ نہ ہوتا تو تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہوتی۔ لوگوں نے کہا بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟ کہنے لگا میں تمہیں نہیں بتاؤں گا اگر میں تمہیں اپنا نام بتا دیا تو تم لوگ میری تعریف کرو گے اور تعریف صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے میں اس اجر پر راضی ہوں جو میرا رب مجھے عطا کرے گا بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا نام عامر تھا اور ان کا تعلق عبدقیس قبیلے سے تھا۔ [19]

بندہ مومن کی یہی شان ہے وہ مدح و ذم اور نمود و نمائش سے بے نیازہو کر صرف اپنے رب کی رضا کی نعمت پانے کے لیے کام کرتا ہے اگر بالفرض دنیا میں اس کے کام کو کوئی بھی نہ جانے تو اللہ کے ہاں جو مخلصین کے رجسٹر ہیں ان میں اس کا نام سرفہرست ناموں میں ضرور ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ جسموں کو نہیں دلوں کو دیکھتا ہے اب اگر کوئی کسی دینی پروگرام میں صرف اس لیے شرکت نہ کرے کہ اشتہار میں اس کا نام فلاں کے نام سے باریک یا اس کے نیچے کیوں لکھا گیا تو بتایا جائے کہ اس بندے کے ”اخلاص“ کو کن لفظوں سے تعبیر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ان کاموں سے ملتی ہے جنہیں نمود و نمائش اور فوٹو مشین سے بے نیاز ہو کر صرف رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا ان میں سے ایک وہ ہو گا۔

وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَی حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ ۔ [20]

اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

تو اگر کوئی ان وقتی اور معمولی کاموں پر تو بہت کچھ لگا دیتا ہے یہاں اس کی نمود و نمائش کا سامان ہو جاتا ہے اور اس سے بہت ہی اہم اور دیرپا کاموں پر کچھ نہیں لگاتا کیونکہ وہاں اس کی نمود و نمائش نہیں ہوتی تو ترجیحات کا غلط تعین ہے جس سے وہ اپنا بھی نقصان کر رہا ہے اور ملت اسلامیہ کا بھی۔ اسے چاہیے کہ اپنے اس رویے پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اسے بدلے تاکہ اسے رضائے خداوندی کی نعمت عظمیٰ بھی ملے اور دارین کی برکتیں بھی۔ وہ فانی شہرتوں کی بجائے ابدی مقبولیت کو اپنا مقصود بنائے ؎

اس روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جاکہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (اقبالؒ)

ضد اور انا پرستی

ہمارے دینی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک اور بڑا بنیادی سبب ضد اور انا پرستی ہے کہ ایک شخص نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو درست نہیں تھی پھر اس نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور وہ اسی بات پر ڈٹ گیا بے شک دین کے مجموعی مزاج میں وہ بات کتنی ہی معمولی اور نچلے درجے کی تھی لیکن اس شخص نے اس کے دفاع میں اپنی صلاحیتوں اور وقت کا ایک بہت بڑا صرف کر دیا اور اس سے اختلاف رکھنے والوں نے اس کی تردید میں بے پناہ صلاحیتیں لگا دیں۔ اس طرح ترجیحات بدل گئیں۔ بنیادی اور اہم چیزیں نظر انداز کر دی گئیں اور بہت معمولی چیزیں بہت سا وقت، صلاحیتیں اور وسائل کھا گئیں واضح رہے کہ معمولی چیز سے یہاں مراد دین کے مجموعی مزاج میں اس کی حیثیت ہے اور یہ المیہ صرف آج کا نہیں ہمیشہ سے رہا ہے اہل کتاب کے متعلق فرمایا گیا:

وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلاَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ۔ [21]

کہ ان لوگوں نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد ضد کی وجہ سے اختلاف کیا ۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیۡنَہُمْ ؕ [22]

تو اپنے پاس واضح دلائل آ جانے کے بعد جن لوگوں نے اختلاف کیا تو اس کا سبب باہمی ضد اور انا پرستی تھی۔

جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو پھر مسائل مزید الجھتے جاتے ہیں حل نہیں ہوتے کیونکہ غلط فہمی اور دلیل کے جھگڑے حل ہو جاتے ہیں انا کے نہیں۔ ترجیحات کے اس غلط تعین کا بھی ایک بہت بڑا سبب ضد اور انا پرستی ہے جس کے مختلف مظاہر واضح نظر آتے ہیں اس کے نقصانات پر دور میں ملت کے لیے تباہ کن رہے ہیں آج بھی اس کی متعدد صورتیں معاشرے میں پائی جاتی ہیں مثلاً دین کے نام پر ہونے والے جس پروگرام کا ماحاصل فہم دین نہیں صرف اپنے نظریاتی مخا لفین کو رگیدنا ہے وہاں بھی دراصل انا کا بت پوجا رہا ہوتا ہے مقامات نبوت و رسالت یا عظمت صحابہؓ کے تناظر میں ایسے مباحث چھیڑنا جو بالکل ظنی، فروعی اور ذوقی قسم کے ہوں اور پھر ان مباحث کا جواب اور جواب الجواب کی صورت میں پھیلتے ہی چلے جانا بھی شاید اپنے علمی تفوق کے احساس کا ہی مظہر ہوتا ہے اگرچہ جو طریقہ تحقیق کے سبب نبوت و رسالت اور شرف صحابیت کے تناظر میں بے پناہ علم و فضل اور بلا کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے باوجود کوئی ایسا کام نہ ہو سکے جس سے کوئی لا دین یا غیر مسلم شخص اپنے شبہات کا ازالہ کر سکے اور اپنے دور کا مداوا کر سکے۔ عظیم لوگوں کا طریقہ کار ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد اور محنت کے ثمرہ اور مقصدیت پر نظر رکھتے ہیں یہی چیز ضد اور انا پرستی سے بچا کر ترجیحات کے درست تعین کا محرک ہے کاشً ہم بھی اپنے اکابرین کی اس روش کا دامن تھامے رکھتے!

جس قوم کی تقریر و تحریر کا ایک بہت بڑا حصہ صرف اپنے نظریاتی مخالفین کو زیر کرنے اور ان کی تضحیک پر صرف ہو جائے تو وہ بال کی کھال نکالنے میں تو بہت مشاق ہو جاتی ہے لیکن ترجیحات کے اس غلط تعین کے سبب وہ مقصدیت سے بہت دور چلی جاتی ہے ۔ انسانیت دین فطرت کو ترستی ہے اور وہ اپنے نظریاتی مخالفین کو زیر کرنے میں اپنی محنت، صلاحیت اور وسائل کھپاتے رہتے ہیں اور نوجوان دین سے دور ہو کر اپنے من پسند نظریات کو ہی حقیقی دین سمجھنے لگتے ہیں لیکن دین کے نام پر انا پرستی کا شغل بڑے اطمینان سے جاری رہتا ہے ؎۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترجیحات کے غلط تعین کے بنیادی محرکات میں سے ایک اہم محرک اور سبب انسان کی انا پرستی اور باہمی ضد ہے۔

ادراک حقیقت سے محرومی

نا واقفیت اور ادراک حقیقت سے محرومی بھی ترجیحات کے غلط تعین کا ایک بہت بڑا سبب ہے کہ انسان اس چیز کو سمجھتا نہیں کہ میرے لیے زیادہ فائدہ مند چیز کون سی ہے اور میں کس چیز کے کرنے سے ایک بہت بڑا فائدہ چھوڑ کر ایک معمولی اور عارضی فائدہ پر اکتفا کر رہا ہوں بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ المیہ صرف عوام کا ہے اصحاب منبر و محراب کا نہیں کیونکہ عموماً عوام ہی نہیں سمجھتے کہ دین میں فرض و واجب کی کیا اہمیت ہے اور مستحب و مباح کا مقام کیا ہے اس لیے وہ ایسا بھی کر گزرتے ہیں کہ مستحب پر لاکھوں لگا دیتے ہیں جبکہ فرائض کو ترک تک بھی کر دیتے ہیں وہ شخصیت پرستی کو ہی خدا پرستی سمجھ کر اپنی ساری مذہبی عقیدتیں وہیں ڈھیر کر دیتے ہیں انہیں کی طرف سے زیادہ امکان ہے کہ وہ جذباتیت کے سبب ترجیحات کا غلط تعین کریں اور فرائض و واجبات کو چھوڑ کے مستحبات اور مباحات پر بے پناہ محنت اور سرمایہ خرچ کریں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ المیہ عوام کی طرح اصحاب منبر و محراب کا بھی ہے اگر کوئی دنیوی مفاد کے لیے اخروی مفاد قربان کر دے، عارضی فائدے کے لیے سرمدی اجر و ثواب کھو دے اور قوم کو راست پر لانے کے صدقہ جاریہ کو چھوڑ کر انہیں خوش فہمیوں اور باہمی نفرتوں کے جرائم میں ڈال دے تو وہ نہ صرف ادراک حقیقت سے محروم ہے بلکہ لوگوں کو اس ڈگر پر ڈالنے کا مجرم ہے وہ جس بھی روپ میں ہو اور جن بھی القابات سے اسے پکارا جاتا ہو وہ اپنی اس روشں سے خدا کا بھی مجرم ہے اور عوام کا بھی اور ایسے ہی طرز فکر کے حاصل دینی شناخت کے یہ لوگ لوگوں کو دین سے دور رکھنے کا سبب ہے اور دین کے لیے کفر اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا جتنا خود ساختہ دین نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ کفر اور الحاد کی برائیاں، قباحتیں اور خباثتیں بالکل واضح ہوتی ہیں جبکہ دین کے مقابلے میں خود ساختہ دین دینی روپ میں ہی الحاد اور لا دینیت پھیلاتا ہے اور دین کے نام پر دین کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ یہود کے جن علماء نے اپنے مفادات کے لیے اخروی اجر و ثواب کو برباد کیا اور لوگوں کو دین کی وفاداری سکھانے کی بجائے اپنی ذات سے ہی وفاداری کا درس دیتے رہے تو قرآن مجید میں ان کی اس روش پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحْبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡكُلُوۡنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ یَكْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ [23]

اے ایمان والو ! (یہودی) احبار اور (عیسائی) راہبوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کر کے رکھتے ہیں، اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ؕ [24]

جن لوگوں کو حاملین تورات بنایا گیا پھر انہوں نے اس ذمہ داری کو نہیں نبھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔

ان لوگوں نے اپنے پاس علم ہوتے ہوئے اگر اپنی ترجیحات کو اتنا بدل لیا تھا کہ یہ دین کے نام پر اپنی ذات کے بت ہی پالتے رہے تو اس کا ایک بنیادی سبب ادراک حقیقت سے محرومی بھی تھا کہ انہوں نے عارضی فائدہ کے لیے سرمدی اور دائمی اجر و ثواب کو برباد کر دیا اور یہ عالم و فاضل کے روپ میں جہالت کے سفیر بنے رہے نہ صرف خود ادراک حقیقت سے محروم رہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی سوچ کی تلقین کرتے رہے۔ ترجیحات کے اس غلط تعین میں عوام کا قصور اپنی جگہ پر لیکن ان لوگوں کا قصور عوام سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ وہ لوگوں کو بھی اسی ڈگر پر چلاتے رہے اور انہیں بھی راہِ خدا سے روکتے رہے اور عوام کا یہ کہنا انہیں معصوم ثابت نہیں کرے گا کہ ہمیں تو انہوں نے بتایا تھا کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کی بات صرف اس لیے مان لی تھی کہ وہ ان کے ذوق، مزاج اور مفاد مطابق تھی ورنہ اللہ تعالیٰ نے تمام حقیقتوں کو آخری حد تک واضح کر دیا تھا اور ہدایت کے ایسے چراغ بھی ہر دور میں روشن رہے جن کی روشنی حق کو پوری طرح واضح کر دیتی تھی۔

ادراک حقیقت سے محرومی دینی ترجیحات کا تعین غلط کروا دیتی ہے تو نہ جاننے والوں کو چاہیے کہ وہ جاننے والوں سے حق دریافت کرتے رہیں اور جاننے والوں کو چاہیے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے نہ جاننے والے نہ بنیں ورنہ حقیقت بالکل ہی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گی اور سخت محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ حسرتوں کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔

چند ضروری توضیحات

آخر میں سطور بالا کے متعلق چند توضیحات عرض کرنا بہت ضروری محسوس ہوتا ہے۔ تاکہ صورت حال مزید واضح ہو جائے۔

سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ ان سطور کا مطلب نہ کسی کی تنقیص کرنا ہے اور نہ ہی کسی پر طعن کرنا اس کا مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اپنے دینی کاموں کی ترجیحات پر ٹھنڈے دل اور وسیع سوچ سے غور کریں ایسا نہ ہو کہ ہم مباحات اور مستحبات پر تو بہت سا سرمایہ اور محنت صرف کرتے رہیں لیکن فرائض اور واجبات کی طرف توجہ ہی نہ دیں فرض کے تارک کی اصلاح تو ہمارے شیڈول میں نہ ہو۔ لیکن مستحب کے تاریک پر ہمارے وعیدوں کی تلواریں چلتی رہیں واضح حرام کے مرتکب تو ہماری نظر میں کسی برائی کا ارتکاب کرنے والے نہ ہوں لیکن ہم کسی مکروہ کے مرتکب کا جینا مشکل کر دیں اگرچہ وہ چیز اس کے نزدیک مکروہ بھی نہ ہو۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ سطور بالا کا مدعا کسی مباح یا مستحب کام کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے بلکہ مباحات یا مستحبات کے مقابلے میں فرائض و واجبات کی اہمیت کو و اضح کرنا ہے کہ جو مستحب پر اتنی محنت اور سرمایہ لگا رہا ہے اسے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں اس سے کہیں بڑھ کر محنت اور سرمایہ لگانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کسی محفل یا شب بیداری کے پروگرام میں تو پوری رات جاگتا رہے اور فجرکی نماز کے وقت سو جائے وہ کسی مباح یا مستحب کام پر تو لاکھوں روپیہ لگا دے لیکن زکوٰۃ ادا نہ کرے یا کسی غریب کا حق مارتے ہوئے اسے خوف خدا ہی نہ آئے۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ نیتوں کے حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہمیں کسی کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن ایک تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاصی میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ڈاکہ اس لیے مارتا ہوں کہ میں ان پیسوں کو غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں تو یہ حسن نیت اسکے ڈاکے کو جائز نہیں کر دے گا اس کا ڈاکہ حرام ہی رہے گا اور حرام چیز کو ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا تو اسلام میں سخت ناپسند اور غارت گر ایمان ہے نیت کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن شواہد بہت کچھ بتا دیتے ہیں اہل محبت کا قول ہے کہ نیک وہ نہیں جو صرف جلوت میں نیک ہو بلکہ نیک وہ ہے جو خلوت میں بھی نیک ہی رہے ہر بندہ اسی کسوٹی پر اپنے اخلاص کو پرکھ سکتا ہے اگر کوئی شخص جہا ں لوگ دیکھیں وہاں تو بہت کچھ لگا دے اور جہا ں لوگ نہ دیکھیں وہاں ایک پیسہ نہ لگائے تو اسے اپنے اس طرز عمل کے محرکات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔

اور آخری گزارش یہ ہے کہ اعمال بجالانا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا سوچ اور ذوق کو بدلنا مشکل ہوتا ہے کسی شخص کا شخصیت پرستی کی بجائے حق پرستی کی راہ اختیار کرنا اور اپنے ذوق کو شریعت کے تابع کرنا آسان کام نہیں ہوتا اس نہج پر اٹھائی گئی آوازیں عموماً صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں اور کبھی ان کے قائل کو مضحکہ خیز رویوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی بھی داعی کی یہ ذمہ داری نہیں لگائی کہ اس نے لازمی طور پر لوگوں کو تبدیل کرنا ہے بلکہ داعی کا کام صرف لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے فرض منصبی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیۡنُ ۔ [25]

رسولوں کی ذمہ داری صرف واضح طور پر پیغام پہچانا تھا۔

خلاصہ

کسی بھی داعی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دعوت اس رنگ میں پیش کرے جس رنگ میں لوگ چاہتے ہیں اور وہ لوگوں کے مزاج کے مطابق بات کرے بلکہ داعی کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے رویوں سے بے نیاز ہو کر دعوت اس طرح پیش کرتا ہے جس طرح دین کا تقاضا ہے وہ لوگوں کی رضا کا طالب نہیں ہوتا خدا اور رسول کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اس لیے اسے یہ نہیں سوچنا چاہے کہ یہ بات تو صحیح ہے لیکن لوگ اسے مانیں گے نہیں اس لیے اسے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکمت دعوت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دین کے حقیقی پیغام کو ترجیح دینا ہر داعی کی شان ہے اگر داعی ابلاغ کی بجائے داد کا طالب بن جائے وہ لوگوں کو دین کی طرف موڑنے کی بجائے دین کو لوگوں کے مزاج کے مطابق ڈھالنے لگے تو پھر دینی ترجیحات کے اس غلط تعین پر تعجب ہی کرنا چاہیے۔

حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساززمانہ یا تو نسازو، تو باز مانہ ستیز(اقبالؒ)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی دینی ترجیحات کا درست تعین کرنے کی سعادتیں نصیب فرمائے آمین ثم آمین بحرمۃ طٰہٰ و یٰسﷺ و اصحابہ وسلم کثیرا کثیرا دائما ابدا

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہےوہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حجیہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے(اقبالؒ)

This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)

حوالہ جات

  1. سورۃ اعلیٰ: 17-14
  2. ۔ سورۃ التوبہ:19
  3. ۔ اسباب النزول، ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیساپوری، دار الاشاعت کراچی، ص ۹۲۲
  4. ۔ فتوح الغیب، شیخ عبدالقادر الجیلانی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ص۴۱۱
  5. ۔ شرح فتوح الغیب، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، صفہ اکیڈمی، لاہور، ص ۲۱۵
  6. ۔ سورۃ الغاثیۃ: 2-4
  7. ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، دارالحدیث، القاہرہ، ج4، ص 405
  8. ۔ متی 32/41
  9. ۔ نفس مصدر، ج32، ص32، 42
  10. ۔ سورۃ المائدہ: 67
  11. ۔ ارمغان حجاز (اردو)، علامہ محمد اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص41
  12. ۔ مسلم في کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب: فضیلۃ العمل الدائم، رقم : 1828
  13. ۔ تمہید ابی شکور سالمی، امام ابوشکور محمد بن عبدالسعید سالمی، النوریۃ رضویۃ پبلشنگ، لاہور، ص561
  14. ۔ شرح العقائد النسفیۃ، العلامۃ سعد الدین تفتازانی، کتبہ رحمانیہ، لاہور، ص 491
  15. ۔ العقیدۃ الطحاویۃ، امام ابوجعفراحمد بن محمد الطحاوی، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ص۲۱
  16. ۔ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 563
  17. ۔ رَوَيْنَاهُ فِي كِتَابِ الْحُجَّةِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ
  18. ۔ مسلم، کتاب الزھد، 4/2277 ، برقم 2965
  19. ۔ تاریخ طبری، ج4، ص 61
  20. ۔ بخاری، جلد اول ، حدیث 633
  21. ۔ البقرہ، 2:213
  22. ۔ الشوری، 42:14
  23. ۔ التوبہ ، 9:34
  24. ۔ الجمعہ، 62:5
  25. ۔ النحل ، 16:35
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...