Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Islamabad Islamicus

امام طبری کا تفسیری منہج اور ترجیحات کا تحقیقی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060033219_557

Pages

1-16

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Article1.pdf

Subjects

Tafsir Imām Ṭabarī Jāmiʿ al-bayānʿan taʾwīl āy al-Qurʾān Methodology to Interpret Holy Quran

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف موضوع:

امام طبریؒ کا شمار نہایت جید مفسرین میں ہوتا ہے ۔ آپ علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر کو بالخصوص طبقہ علماء کے لئے مرتب فرمایا جو قرآن میں اپنی ذاتی رائے کے دخول کو کلام الہی کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ اس کے بر عکس وہ طبقہ جو تفسیر بالرائے کو محمود سمجھتے ہیں وہ بھی امام طبریؒ کی تفسیر سے بالعموم استفادہ کرتے ہیں۔ تفسیر طبری جہات مختلفہ کو متضمن ہے ۔ آپؒ نے قرآن کے رموز کو مستند ذرائع سے واضح کرنے کے ساتھ محققین لغت اور فقھاء کرام کے لئے بھی نہایت نادر موتی دریافت فرمائے ۔ امام طبریؒ نے مفہوم باطنہ سے احتراز کیا اور مشکلات فی القرآن میں ظاہری معنی کو باطنی توجیہات پر ترجیح دی ۔ آپ نے نہ صرف اپنی تفسیر میں مستند ذرائع کا استعمال کیا بلکہ ہمہ جہت ماخذ علوم تفسیر کو جانچنے ،پرکھنے اور اس پر اپنی رائے قائم کرنے کے لئے شرعی و اخلاقی بنیادوں پر پیمانے بھی متعین کئے۔ یہ پیمانے قرآن کے حقیقی معنی کو پہچاننے ، مفسد افکار کی تردید کرنے اور مختلف الوجوہ افکار کی تطبیق میں مددگار ثابت ہوئے۔ انہی پیمانوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپؒ نے مختلف آراء و اقوال کے مابین ترجیح و تطبیق کا کام بھی عمل میں لایا ۔

 

تعارف اما م طبریؒ:

مفسر علیہ الرحمۃ کا نام محمدبن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب اور کنیت ابو جعفر ہے۔ آپؒ کا تعلق ایران کے شہر طبرستان سے تھا ۔ اسی علاقہ کی وجہ سے آپ کو نسبت طبری ملی جو کہ آپ کے اصل نام سے زیادہ مشہور و مسموع ہے ۔ بعض روایات کے مطابق آپؒ کی مکمل نسبت الطبری الآملی ہے تاہم نسبت الطبری کودوام آپ کی شہرہ آفاق تصنیفات تفسیر طبری اور تاریخ طبری کی وجہ سے حاصل ہوا۔ آپؒ کی پیدائش کے متعلق دو مختلف روایات مروج ہیں ۔ خطیب بغدادی کے مطابق امام طبریؒ کا سن پیدائش 224 ھ کا آخر یا 225 کا آغاز ہے تاہم جمہور مورخین کے مطابق آپؒ کا سن پیدائش 224ھ ہےجبکہ امام طبری سن 310 ھ میں اس دنیائے فانی سے دار فانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔ [1]

 

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے حصول علم کی گہری تمنائوں سے مالا مال تھے ۔ آپؒ نے 7 سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا اور آٹھ سال کی عمر میں رب تعالی نے آپ کو امامت جیسے اہم فریضہ سے سرفراز فرمایا ۔ تقریباً نو سال کی عمر میں کتابت حدیث کا آغاز کیا اور جب ذوق حدیث حد سے بڑھا تو اپنے علاقہ کو خیر آباد کہہ کر امام احمد بن حنبل کی زیارت کیلئے شہر بغداد کی طرف نکل پڑے۔ بعض مورخین و سوانح نگار کے مطابق امام صاحب پہلی مرتبہ حصول علم کیلئے خارج عن البلد ہوئے ،اُس وقت آپ کی عمر صرف 12سال تھی تاہم 0 2 سال کی عمر میں آپ نے بیشتر شہروں کا سفر اختیار کیا۔ علامہ ابو نصر تاج الدین سبکی اپنی کتاب طبقات شافعیہ میں امام طبریؒ کو (طوف الا قالیم لطلب العلم )[2] سے منسوب کرتے ہیں یعنی آپؒ نے علم کی تلاش میں کئی سلطنتوں کا سفرکیا جن میں مصر، شام، بغداد اور کوفہ بالخصوص شامل ہیں۔[3] مختلف علاقوں سے دولت علم اکھٹی کرنے کے بعد آپؒ نے سن 280ھ کو اپنے آبائی علاقہ طبرستان لوٹے مگر کچھ مدت کے بعد ہی حرارت علم نے آپ کو سفر بغداد پر دوبارہ آمادہ کر لیا ۔بعد ازاں قنطرۃالبردان میں جو کہ مرکز علم تصور کیا جاتا تھا مستقل سکونت اختیار کر لی۔ الغرض حصول علم کیلئے جتنےاسفار امام طبری نے کئے اتنے آپ کے زمانے میں کسی اور بزرگ نے نہیں کئے۔

 

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ خود ایک بڑےمجتہد تھےلیکن عملی طور آپ مسلک شافعیہ سےتعلق رکھنے والے تھے۔ مصر سےواپس آنےسے کچھ عرصہ بعد تک آپؒ مسلک شافعیہ سے منسلک رہے ۔ تقریباً دس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آپ نے اپناایک الگ دبستان قائم کر لیا جس کے پیروکار خود کو آپکے والد کی نسبت سے جریریہ کہتے تھے۔[4]

 

امام طبری ؒاپنے زمانے کی ہمہ جہت شخصیت اور جید علماء میں شامل تھے ۔آپ کے علمی تحائف مختلف عنوانات کے تحت کثیر تصنیفات میں موجود ہیں ۔آپ کی علمی وراثت تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہر ین و مبتدی محققین کے لئے انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؒ نہ صرف ایک مجتہد عا لم بلکہ محدث، فقیہ اور مفسر بھی تھے نیز آپ بہترین مو رخ بے بدل ہونے کا بھی ایک جداگانہ مقام رکھتے تھے۔ علامہ ابن جریر طبری ؒنے ہر طرح کے علوم و فنون میں کتابیں تصنیف کیں اور ایک خاص اعداد وشمار کے مطابق آپ نے تقریباً 43 کتابوں پر محیط علمی و تحقیقی ورثہ امت محمدیہ ﷺ کے حوالے کیا ۔ ان کتابوں کے احوال و اوصاف معجم الادبا ،تاریخ بغداد، السیر، ھدیہ العارفین اور الداودی میں نقل کئے گئے ہیں۔

 

امام طبری ؒ علماء کرام کی نظر میں :

علماءربانیین کی تمام صفات ابن جریر الطبری میں جمع تھیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذہانت اور قوت حفظ میں جداگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ آپ زہد و تقویٰ اور عصمت و ورع میں اپنی مثال آپ تھے۔آپؒ کے بارے میں الحافظ ابوبکرؒ خطیب البغددای نے لکھا ہے:

 

"ابن جریر اپنے ہم عصر علماء میں وہ واحد مرد مجاہد تھے  کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپؒ بیک وقت تمام علوم عالم یعنی حافظ الکتاب ، عارفاً بالقرآت ، فقیہ ی فی احکام القرآن ، عالما بالسنن و طرقھا و صحیحھا و ناسخھا و منسخوھا، عارفاً باقوال الصحابہ و التابعین تھے ۔ احکام ومسائل کی باہم مخالفت، حلال و حرام کی معرفۃ کے ساتھ آپ تاریخ نگاری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ رموز قرآن کو بیان کرنے میں بھی آپ نے ایسی تفسیر لکھی کہ اس سے پہلے کسی نے نہ لکھی۔ " [5]

 

ابن خزیمہ کہتے ہیں:

 

"میں نے کتاب جامع البیان عن تاویل ای القران کو ابو بکر بن بولیہ سے ادھار لیا اور دو سال کی مدت میں اسکا اول تا آخر مطالعہ کیا ۔ آپؒ کے افکار سے آشنائی حاصل کرنے بعد اقرار کرتا ہوں کہ میں نے روئے زمین پر ابن جریر سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔" [6]

 

ابو حامد الا سفری نے کہا :

 

"اگر آدمی چین کا سفر کرے تو جب تک وہ تفسیر ابن جریر کو نہ پائےگا تو گویا اس نے کچھ نہ پایا۔" [7]

 

امام ذھبیؒ فرماتے ہیں:

 

"ابن جریر ؒ ان افراد میں سے ہیں جو شروع سے ہی عالم و ذکی ہوتے ہیں۔ آپ علیہ الرحمتہ نے کثیر کتب تصنیف فرمائیں ۔ آپ ایک ثقہ ، سچے حافظ، تفسیر میں خود کفیل ، فقہ میں اجماع اور اختلاف کے امام تھے ، تاریخ میں علامہ تھے اور قرات ولغت میں معرفت رکھتے تھے ۔" [8]

 

تفسیر طبری کا تعارف :

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابن جریر کی عمدہ اور نایاب کتب سوائے چند ایک کےمفقود ہیں ، جن میں خاص طور پر تاریخ طبری اور تفسیر طبری جو تمام تصانیف کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ چونکہ تفسیر طبری میں مصنف علیہ الرحمہ نے تفسیر القران کے متعلق تمام قدیمی مواد کو جمع کیا ہے اس لئے تمام مفسرین کرام اپنی تفاسیر میں اس سے مکمل استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور مغربی علماء اور مستشرقین کیلئے بھی یہ تفسیر تاریخی اور تنقیدی معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے ۔ جو احادیث امام طبری نے خود جمع کی ہیں انکی تشریح زیادہ تر لسانیاتی ( لغات اور صرف و نحو) کے پہلو سے کی گئی ہے۔آپ نےان شرائع اور عقائد پر بھی بحث کی ہے جن کااستنباط قران کریم سے ہوتا ہے اور بعض جگہ تاریخی تنقید پر انحصار کیے بغیر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار بھی کیا ہے ۔ [9]

 

جامع البیان فی تفسیر ای القران کا شمار مشہور ترین کتب تفسیر میں ہوتا ہے ۔ مفسرین تفسیر بالماثور کے نزدیک تفسیر طبری کو اولین مصدر و ماخذ کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ہی عقلی تفاسیر میں خصوصی اہمیت کے درجہ پر بھی فائز ہے۔ یہ تفسیر 30 ضخیم مجلات پر مشتمل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تفسیر نادر الوجود تھی لیکن امراء نجد میں امیر حمور بن عبدالرشید کی ملکیت میں اسکا مکمل مخطوط دستیاب ہو گیا جس کو زیورطبع سے آراستہ کر دیا گیا ۔ اسطرح تفسیر بالماثورکے اس encyclopedia سے بہرہ مند ہونا آسان ہو گیا۔ [10]امام طبری ؒنے اپنی تفسیر کو تیس ہزار صفحات میں لکھا پھر اسے مختصر کر کے تین ہزار صفحات میں محیط کر دیا۔ ابن سبکی اپنی تصنیف الطبقات الکبری میں لکھتے ہیں:

 

"ابن جریر نے اپنے تلامذہ سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں تفسیر قرآن سے دلچسپی ہے ؟ تلامذہ نے عرض کیا کہ اسکی ضخامت کس قدر ہے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ تیس ہزار صفحات تقریباً ۔اس پر تلامذہ کہنے لگے ایسی تفسیر کو پڑھتے پڑھتے عمر ختم ہو جائیگی چنانچہ آپؒ نے اسے تین ہزار صفحات میں مختصر کر دیا۔" [11]

 

المختصرتفسیر طبری کو کتب تفاسیر کے مقابلے میں دو قسم زمانی اور فنی اعتبار سے شرف تقدم حاصل ہے ۔ زمانہ کے اعتبار سے تو یہ اولین تفسیری مجموعہ ہے جو مکمل طور پر ہم تک پہنچا اور فنی اعتبار سےاس تفسیر کو برتری اس وجہ سے ہے کہ اس میں جو اسلوب نگارش اختیار کیا گیا ہے وہ امام طبری کا خود اختیار کردہ ہے۔

 

منہج:

اما م طبریؒ کا اولین منہج تفسیر یہ ہے کہ اس میں تفسیر بالماثور کا اسطرح لحاظ رکھا گیاہے کہ اس میں نہ صرف روایت بلکہ درایت دونوں کو جمع کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام اور تابعین کی روایات کو بالاسنادبیان کیااور آیات کی تفسیر سے پہلے بعض دفعہ کلمات (القول فی تاویل قولہ تعالیٰ کذا و کذا) کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔اپنی بیان کردہ سند کے ساتھ صحابہ و تابعین کی روایات سے اسکی تاویل کرنے سے پہلے آیت کے اجمالی معنی بھی بیان کرتے اور پھر درایت اور روایت دونوں کا ذکر کرتے ہیں اور پھر نقل کردہ اقوال کی توجہیہ کرنے  سے اعراض کرتے ہوئے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دے دیتے ہیں ۔

 

جب روایات ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں تو کسی ایک کو دوسری روایت پر ترجیح دیتے ہوئے لغت، اعراب، ترکیب شعر، اور تاویل بالرائے سے اجتناب کرتے ہیں ۔ البتہ مستنددلائل کو بنیاد بناتے ہوئے قلیل مقامات پر تاویل بالرائے کو بھی اختیار کرتے ہیں ۔

 

امام طبری کے مطابق تفسیر میں نصوص قرآنی کو تفسیر بالرائے سےترک کرنا جائز نہیں کیونکہ صاحب رائے نے اپنا ظن استعمال کیا اور اللہ تعالی کے حکم کے بارے میں وہ کہاجسکا اسکو علم نہیں اور اسطرح کی تفسیر کو رب کریم نے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ رب تعالی کا فرمان ہے :

 

﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾ [12]

 

ابن جریر کی تفسیر کا مرکزی اسلوب اجمالی ہے اور آپ ؒ تاویل القران کی طرف مائل نہیں ہوتے جب تک کہ کسی ٹھوس وجہ کو بیان نہ کردیں۔ مفسرین کے لئے لازم ہے کہ وہ تاویلات قرآنیہ کی وجوہات کوبیان کریں کہ کس جحت کے تحت تاویلات کی گئیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کی گئی تاویلات بحیثیت دلیل کافی ہے اگرچہ حدیث مشہور ہی کیوں نہ ہو اور دلائل کو واضح کیا جائے۔ آپؒ نے اپنی تاویلات قرانیہ کو تین وجوہات میں منحصر کیا :

 

1_ نقل مستفیض کی صورت میں2_ نقل عدول الاثبات کہ صورت میں3_ دلالت منصوبہ کی صحت کی صورت میں

 

اس کیلئے بطور ثبوت اشعار، لغت، اقوال سلف، صحابہ ،آئمہ اور تابعین و علماء الامہ کے اقوال نقل کر تے ہیں۔ امام طبریؒ اپنی تفسیر میں فقہی مباحث کو بیان کرتے ہوئے ہر مسئلہ میں علماء کے اقوال نقل کر تے ہیں اور پھر ان میں بعض کو بعض پر اپنی خاص علمی رائے کی بنیاد پر ترجیح دیتے ہیں ۔ الغرض امام طبری کی تفسیر بغیر قیل و قال جمیع آئمہ کے نزدیک تفسیر بالماثورہ ہے ۔ اور امام ابن تیمیہ سے کسی نے سوال کیا کہ کونسی تفسیر قران و سنت کے نزدیک ہے تو انہوں نے کہا کہ جو تفسیر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے یعنی تفسیر طبری اور یہی صحیح ترین بات ہے۔ [13]

 

امام طبری کا اسلوب تفسیر:

امام ابن جریر علیہ الرحمہ کی تفسیر میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا  ہے کہ تفسیر بالماثورہ پر ہی اکتفاء کیا جائے تاہم اس کیلئے قوی ترین اقوال اور صرفی و نحو ی ابحاث میں صحیح ترین آراءکو مدنظر رکھا گیا ہے ۔اگرچہ بعض دفعہ آپ علیہ الرحمہ نے لغت میں سے اشعار کو بھی استعمال کیا لیکن اس کی تحدید معانی کی وضاحت تک ہے ۔فقہی احکام میں شافعیہ کے اقول غالب ہیں مگر باقی آئمہ کے اقوال سے بھی صرف نظر نہیں کیا گیا ۔بعض دفعہ اپنی اجتہادانہ صلاحتیوں کے تحت فقہی مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔

 

تفسیر بالماثور:

امام طبری علیہ الرحمہ نے تفسیر آیات القران کیلئے مستند روایات کو اخذ کیااورتفسیر بالماثورہ کے اہتمام کے لئے حضورﷺ کے اقوال مبارکہ، صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیھم کے اقوال بیان کئے ۔اگر دو روایات مختلف طرق سے ہوں تو اقوی ترین اور مشابہہ بالآیت روایت کو ترجیح دی گئی ہے ۔

 

التفسیر بالغۃ:

امام طبری نے ایک وجہ تاویل القران کی یہ بھی بتائی ہے کہ اہل لسان جانتے ہیں کہ یہ قران کس لئے نازل ہوا ہے اسلئے وہ زیادہ تر لغت کی مدد سے اسکی تاویلات کرتے ہیں اور بعض مفرادت القران بھی ہیں جنکی تفسیر کیلیے لغت کا سہارا لیا جاتا ہے جنکو بے شمار علماء نے بیان کیا ہے جیسا کہ یحیی بن زیادہ ،محمد، علی بن حمزہ اللکسائی اور النضر بن شمیل کے نام قابل ذکر ہیں۔ [14]

 

اہتمام بالنحو:

ابن جریر الطبری نے اپنی تفسیر میں نحوی قواعد کی مدد سے مدرسۃ البصرہ اور مدرسۃ الکوفہ کے مسائل نحویہ کے مطابق احکام القران کی تاویل بھی پیش کی ہے تاکہ اعرابی حالت کو بیان کیا جائے اور اگر اعراب میں اختلاف ہوتو دونوں مدرسوں کے اقوال سے اعراض کرتے ہیں اور اولیٰ کو ترجیح دیتے ہوئے صحیح ترین رائے کو لیتے اور پھر آیت کی تصحیح قرات اور تفسیر کرتے۔ [15]

 

اشعار سے استدلال:

بعض دفعہ امام طبری علیہ الرحمہ معانی مرادی کو واضع کرنے کیلئے اشعار بھی نقل کرتے ہیں اور اس میں وہ حضرت عبداللہ بن عباس کی اقتداء کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر معاویہ ؓ کی مجلس میں آیت قرآنی " وجدھا تغرب فی عین حمیۃ "[16]کے متعلق تفصیل دریافت کی گئی تو اسپر حضرت عبد اللہ ابن عباس نے شعر بیان فرمایا ۔ اسی مسلک کی اقتداء کرتے ہوئے امام طبریؒ بھی بعض جگہ قرآن کی آیت کی تفسیر و تفصیل میں اشعار بیان فرماتے ہیں۔ [17]

 

الترجیح بین القرآت:

جس طرح امام طبری علیہ الرحمہ علوم شریعہ کے تمام شعبہ جات میں ماہر تھے اس طرح آپ نے ایک جلیل القدر کتاب القراء ت بھی لکھی ہے اور اس میں قراءت مشہورہ کو ترجیح دی ہے ۔ اگرچہ آپ نے قراءت شاذہ کو بھی جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے ، لیکن ترجیح مشہور قراءت کو ہی دیتے ہیں۔ قراءت سبعہ پر یقین رکھنے کے باوجود ابن جزریؒ نے قراءت عشرہ کو بھی آپ علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا کہ آپ امام مجتہد ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن سات قرآتوں میں نازل ہوا ہے اور آئمہ سبعہ اور آئمہ عشرہ یا انکے علاوہ دیگر آئمہ کو قرآت متواترہی کو لینا چاہے اسی پر امت کا اجماع ہے۔ [18]

 

تفسیر بالرائے کی مخالفت:

امام طبری نے تفسیر بالرائے کی مخالفت کی ہے تاہم بعض مقامات پر رائے کا استعمال ہوا لیکن اگر رائے قول ثقات کی مخالفت میں ہو تو اسکا امام طبری نے رد فرما ہے اور اسکو حجت قرارنہیں دیا۔

 

مسائل فقہ میں اجتہاد:

امام طبری نے آغاز میں مذہب شافعیہ کو پڑھا یہاں تک کہ سبکیؒ نے طبقات الشافعیہ میں آپؒ کا مسلک شافعی بتایا ہے لیکن حقیقت میں آپ خود ایک صاحب مذہب تھے، اس لئے دیگر آئمہ کرام کی رائے سے اعراض کرتے۔ خود صاحب مذہب ہونے کی وجہ سے آپ علیہ الرحمہ اپنا ایک مستقل مطلق مذہب/ مسلک رکھتے تھے۔

 

مذہب سلفی سے استفادہ:

امام طبریؒ کو اہلسنت والجماعت میں ہی جانا جاتا ہے اور آپؒ کا عقیدہ سلف صالحین کے مطابق تھا تاہم آپؒ نے متکلمین میں سے معتزلہ کے اقوال لئے اور مذہب سلف صالحین کے تحت رد کئے کیونکہ دلیل قاطع اور واضع حجت ہونے کے بعد کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ۔البتہ بعض حضرات نے آپؒ پر اہل تشیع ہونے کی تہمت بھی لگائی جوکہ شاید جبراً یا بسبب ہم نام شیعہ آئمہ کے آپ اس تہمت کی زد میں آئے ،مگر یہ صرف اور صرف غلط فہمی کی وجہ سے ہوا یاپھر حسد اور عناد کی وجہ سے۔

 

اسرائیلیات:

قصص میں ابن جریر نے اسرائیلیات کا ذکر کیا ہے شاید اس لئے کہ وہ تاریخی مباحث میں اس طرح کے واقعات بیان کرنے کے عادی تھے۔ تاہم آپ نے ان پر نقد اور تبصرہ بھی کیا اور ان میں سے بعض کا رد بھی کیا کیونکہ آپ مستقل صاحب رائے ہونے کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اس لئے آپ نے سابقہ آراء اور تقلید محض کو ہی نہیں لیا بلکہ ضعیف قول کا رد بھی کیا اور ان آراء میں ترجیح اس رائے کو دی جو حجت قویہ کے ساتھ ثابت ہے اور یہ امام المفسرین کا حق ہے۔

 

مختلف اقوال و آراءکے درمیان ترجیح دینے کا طریقہ :

امام ابن جریر علیہ الرحمہ نے خود تفسیر القران لکھنے کے تمام اصول وضع کر دیئے ہیں۔ اور اپنا منہج تفسیر بھی بتایا اور اسکا اسلوب ان الفاظ سے ذکر کیا:

 

نحن فی شرح تاویله و بیان ما فیه من معانیه مفشون ان شاءالله ذالک کتا باً مستوعبا لکل ما بالناس الیه الحاجة من علمه جامعا و من سائر کتب غیرہ فی ذالک کافیاً و معجزون فی کل  ذالک بها انتهی الینا من اتفاق الحجة فیها اتفقت علیه منه واختلافها فی ما اختلف فیه منه و مبین و علل کل مذهب من مذاهبهم و موضحو الصحیح لدینا من ذالک باوجزماامکن عن الایجاز فی ذالک و اختصر ما امکن من الاختصار منه ۔ [19]

 

مندرجہ بالا عبارت کے آخری حصے کو دیکھیں تو امام ابن جریر نے کہا ہے کہ ہم تمام اختلافی اور اتفاقی دلائل کو نقل کرینگے اور پھر ہر مذہب کے علل بھی لکھیں گے، پھر اس کے بعد جو قول ہمارے لئے راجح ہو گا اسکو نہ صرف ترجیح دینگے بلکہ اسکی وضاحت بھی فرمائی جائیگی اور اس وضاحت میں ہر ممکنہ اختصار اور ایجاز کو مدنظر رکھا جائے گا۔ امام طبری نے مندرجہ ذیل الفاظ کے استعمال کے ساتھ اقوال ترجیح کو نقل کیا :

 

قال ابوجعفر [20]

 

ھو اعظم عندی [21]

 

واولیٰ التاویلات عندی [22]

 

اصح القراتین فی التلاوۃ عندی [23]

 

اجمع جمیع اھل التاویل [24]

 

اور خاص طور پر کسی بھی آیت کی تفسیر کرنے سے پہلے اسکی مختلف اجزاء میں الگ الگ دلائل قائم کرتےہیں اور اجزاء کی وضاحت کے شروع میں "القول فی تاویل قولہ تعالی" کا اضافہ کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تفسیر بالماثورہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہونے کے طور پر" القول فی تاویلہ، تاویل قولہ تعالیٰ کذا کذا" ذکر کرکےایک آیت کی تفسیر میں دیگر آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں ۔تفسیر طبری اپنے ان ترجیحات اقوال کے لیے اور جیسا کہ شروع میں بتایا گیا کہ جمیع علوم کا ایک لازوال اور بے مثل و بے مثال گوہر نایاب ہے کہ اس تفسیر کا مطالعہ کرنے ولا اس سے پہلے موجود تمام تفسیر سے غنی ہو جاتا ہے ۔ امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی تفسیر میں ترجیح اقوال کو مندجہ وجوہات کو مدنظر رکھتے ہیں۔

 

==ظاہری تنزیل کو باطنی تاویل پر ترجیح دینا==:

 

امام ابن جریر نے ایک خاص طریقہ سے تفسیر القرآن بالقرآن کا ترجیحی انداز اپنی تفسیر میں جا بجا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں آیت کے سیاق و سباق میں ظاہر نظم سے اگر ایک معنی سمجھ آ رہا ہو اور اگرچہ اس کے ساتھ کسی باطنی تاویل کی گنجائش و احتمال کیوں نہ ہو امام ابن جریر ظاہری اور قریب الفہم اور قریب المعنی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کہ آیت نمبر ۱۶۷  میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

﴿ کذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ﴾ [25]

 

اللہ رب العزت کافروں کو انکے اعمال حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ جہنم کی آگ سے نہیں نکل سکیں گے۔ یہاں امام ابن جریر نےدو قول پیش کئے ہیں اور انکے دلائل بھی نقل کیے ہیں ایک تو شیخ سدی کا قول ہے کہ اہل نار کو جنت دکھائی جائیگی اور فرمایا جائیگا کہ اگر تم ایمان لاتے اور اعمال صالحہ کرتے تو تمہیں یہاں جگہ ملتی، مگر اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے کیونکہ تم اعمال صالحہ سے محروم رہے ، دوسرا قول  یہ  ہے کہ اعمال سے مراد انکے اعمال خبیثہ ہیں جو انکے لئے داخلہ نار کا سبب بنیں گے اور بار بار  حسرت آمیز نگاہوں سے اپنے اعمال کودیکھ کر نادم ہونگے لیکن وہاں ندامت نفع نہ دے گی۔دونوں اقوال اسنا دکے ساتھ ذکر کرنے کے بعد ابن جریر فرما تے ہیں کہ:

 

فالذی هواولی بتاویل الآیة ما دل علیه الظاهر دون ما احتمله الباطن الذی لادلة علی انه المعنی بها والذی قال السدی فی ذالک و ان کان مذهبا تحتمله الآیة فانه منزع بعید و لا اثربان ذالک کما تقوم له حجه فیکم لها ولادلاله فی ظاهر الآیة انه المراد بها فاذا کان الامر کذالک لم یحمل ظاهر التنزیل الی باطن التاویل . [26]

 

یعنی اللہ تعالیٰ کے قول کذالک "یریھم اللہ اعمالھم حسرات" کی تفسیر میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اللہ کافروں کو انکےاعمال خبیثہ دکھا کر زیادہ حسرت اور ندامت میں مبتلا کریگا  اس کے مقابلے میں شیخ سدی کا قول اگرچہ درجہ احتمال میں درست ہے مگر ظاہری الفاظ میں نسبتاً کمزور ہے آیت کی ظاہری حالت میں اسکا کوئی امر نہیں کہ جو انکے قول پر دلالت کرے اور اس سے یہ معلوم ہو کہ یہی مقصود ہے، لہذا ظاہر تنزیل کو باطن تاویل کی طرف پھیرنا درست نہیں۔ امام ابن جریر کا سب سے اول اور سب سے قوی طریقہ تفسیر یہ ہی ہے کہ جب تک کتاب و سنت یا اجماع امت سے کوئی دلیل نہ  ملے ظاہر تنزیل کو باطن تاویل کی طرف پھیرنا درست نہیں سمجھتے۔

 

سند صحیح کے ساتھ حدیثِ تفسیر کا مل جانا:

تفسیر طبری میں یہ رنگ پوری طرح غالب نظر آتا ہے کہ تفسیری اقوال میں بہت سے اقوال مل جائیں اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو سند کو دیکھا جاتا ہے اور سند صحیح کو تفسیر آیت القرآن میں ترجیح دی جاتی ہے جیسا کہ:

 

﴿ الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [27]

 

طلاق دو مرتبہ ہے، اسکے بعد چاہو تو روک لو اچھے طریقے سے یا پھر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دو۔ اس میں امام ابن جریر نے تمام اقوال  کو اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے اور سدی اور ضحاک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عورت کو اسکے حال پر چھوڑ دو اگرچہ آیت کا ظاہر اس معنی پر واضح ہے مگر جب رسول اللہ ﷺنے اسکی تفسیر طلاق سے کر دی:

 

"الرجعتة مرتان تم الامر بعد ذلک اذا راجعوهن فی الثانیه اما امساک بمعروف و اما تسریح منهم لهن باحسان بالتطلیقة الثالثة" [28]

 

آیت کے ظاہر اور اسکی تفسیر میں صحیح حدیث مل جانے کے بعد کسی اور تاویل کی ضرورت نہیں۔

 

سلف صالحین کی اجماعی تفسیر کی موافقت:

امام ابن جریر سلف صالحین کی اجماعی تفسیر جو قران و سنت سے نہ ٹکرائے اسکو بھی ترجیح دیتے ہیں، اور اسکی موافقت میں دلائل دیتے ہیں، اور اسکی مخالفت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ "لا تسمع فیھا لاغیۃ" [29]کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تسمع کی ضمیر کا مرجع لفظ وجوہ ہے اور لاغیہکے معنی کلام ذی لغو کے ہیں۔مفہوم یہ ہوا کہ اس دن کوئی انسان بے ہودہ بات نہیں سنے  گا [30]پھر کوفہ کے نحویین کا قول بھی نقل کیا کہ یہاں لاغیہ سے مراد جھوٹی قسم ہے ۔ کوفہ کے نحویوں نے جو بات کہی اسکی توجیہہ ہو سکتی ہے مگر یہاں پر اہل تاویل صحابہ کرام اور تابعین عظام اس کے خلاف ہے اور انکی اجمالی بات کی مخالفت کرنا جائز نہیں۔ [31]

 

مفسرین صحابہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دینا:

امام ابن جریر علیہ الرحمہ کے اقوال ترجیح میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ الرحمہ مفسرین صحابہ کرام میں سے اکثر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد مجاہد ؒکے قول کو ترجیح دیتے ہیں لیکن بعض اوقات مجاہدؒ کے قول کو رد بھی کرتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جہاں مجاہد کا قول جمہور کے خلاف ہو تو انکے قول کو رد کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسکو ترجیح دیتے ہیں جیسے کہ:

 

و من الیل فتهجد به نافلته لک [32]

 

اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کی نماز پڑھیں۔ اس میں حضرت مجاہدؒ کا کہنا ہے کہ یہ نماز تہجد دوسرے لوگوں کیلئے پڑھنا بھی ضروری ہے اور اسطرح یہ نماز انکے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے اس میں مجاہد نے ایک دلیل یہ بھی دی ہےچونکہ اسکی خبر سورہ فتح میں دی گئی ہے کہ آپ ﷺکے گزشتہ اور آئندہ بظاہرخلاف اولیٰ سب کام معاف ہیں اس لئے حضور ﷺکے تمام گناہ معاف ہیں لہذا یہ نماز دیگر لوگوں کیلئے کفارہ گناہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ترقی درجات کا سبب ہے جبکہ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص عبادت صرف آپ ﷺکیلئے ہے اور یہ زائدہ عبادت ہے کیونکہ عبادت میں نافلہ بمعنی زائدہ کے ہیں اور یہ حضور ﷺکیلئے فرض ہے جبکہ دوسروں کیلئے نہیں۔ تو ابن جریر نے یہاں مجاہد کا قول نہیں لیا بلکہ حضرت ابن عباس کا قول لیا اور اسکو ترجیح دی۔ [33]امام ابن جریر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کو ظاہر قران سے زیادہ مناسبت کی بنیاد پر ترجیح دیتے ہیں۔

 

مختلف اقوال میں تطبیق ورنہ قول مختار کو دلائل کے ساتھ ترجیح:

امام ابن جریر کا منہج ترجیح میں یہ طریقہ بھی تھا کہ آپ علیہ الرحمہ کسی بھی آیت میں آنے والے مختلف اقوال میں تطبیق دینے کی کوشش کرتےاور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو پھر ان میں سب سے مختار قول کو دلائل قویہ سے ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ سورہ فاتحہ میں ہےکہ صراط مستقیم سے کیا مراد ہے ؟اس کیلئے یہ اقوال نقل کیے جن میں صراط مستقیم سے مراد پورا قرآن یا دین اسلام یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کریمین کا طریقہ ہے۔ امام ابن جریر نے ان سب کو اکٹھا کر کے یہ تفسیر فرمائی کہ اس سے مراد اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں ان میں انبیاء کرام، صدیقین، شھداء، صالحین  جس راستے پر گامزن رہے  اس راستے پر چلنے کی دعا ہم کرتے ہیں۔اس طرح دین اسلام کی بھی پیروی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اتباع ہو جاتی ہے۔ [34]

 

تعارض اقوال کی صورت میں ایک قول کو دلائل کے ساتھ ترجیح دینا:

اقوال کے اندر تعارض کی صورت میں عمومی طور پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دیتےلیکن بعض صورتوں میں کسی ایک قول کو دیگر دلائل کی بناء پر راجح قرار دیتے ہیں۔ جیسے آیت الکرسی کی تفسیر میں بے شمار معنی بیان ہوئے۔ اس میں امام ابن جریر علیہ الرحمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا: 

 

" واما الذی یدل علی صحته ظاهر القران فقول ابن عباس رضی الله عنه الذی رواه جعفر بن ابی المغیره عن سعید بن جبیر عنه انه قال هو علمه" [35]

 

یعنی اس سے مراد اسکا علم ہے جو تمام ارض و سماء کو گھیرے ہوئے ہے۔ 

 

الفاظ قرآنی کی تحقیق میں لغت (صرف و نحو) اور اشعار کے ساتھ وضاحت:

علامہ ابن جریر نے بے شمار مواقع پر الفاظ قرآنی کی وضاحت میں عربی ادب اور عربی لغت کو بھی استعمال کیا ہے اور اسکی وضاحت میں ترجیح کو مدنظر رکھا۔ جہاں تفسیر القرآن کیلئے تفسیر بالماثورہ کے اصول کو مدنظر رکھا ہے وہاں بعض مقامات پر لغت و ادب کی بنیاد پر معنی ترجیح کی وضاحت بھی کی ہے جیسے لفظ ند کی تحقیق میں حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعردرج کیا:

 

اتهجو و لست له بند

 

فشر کما لخیر کما فداء [36]

 

"تم میرے ممدوح کی ہجو کرتے ہو، حالانکہ تم اسکی مثل اور ہمسر نہیں ہو تمہارا برا تمہارے اچھا پر قربان ہو جائے۔"

 

اسی طرح شعری استشہاد سے معنی کو واضع کر دیا۔

 

نتیجۃ البحث :

امام طبری علیہ الرحمہ کی تفسیر تمام ترجہتوں سے قابل تحقیق ہے ایک مفسر کےلیے علوم القر آن کا وافر خزانہ جو تمام علوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے یقینا تفسیر طبری میں موجود ہے۔تفسیر بالماثورہ میں تمام تر تفاسیر سے سبقت بلاشبہ تفسیر طبری کو ہی حاصل ہے۔ امام صاحب نے جا بجا مدلل انداز میں ذکر کردہ منہج واسلوب کو نہ صرف واضع کیا بلکہ ان تمام سابقہ طرق تفسیر کا رد بھی کیا جو تفسیر بالماثورہ کے دائرہ میں نہیں آ تیں ۔اس مختصر تحقیق کا مقصد جہاں تشنگا ن علم کے لیے امام طبری کی خدمات تبلیغ واشاعت کو روشنا س کروانا ہے وہاں آپ کے نزدیک مختار اقوال آراہ کی نشاندہی کرنا بھی ہے جس پر مزید کا م کی ضرورت ہے۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت امام طبری علیہ الرحمہ کے درجات بلند فرمائے ‘ ان کے فیضان کو اسی طرح جاری وساری رکھے اور ہمیں بھی استفادہ کی سعادت عطا فرمائے۔

حوالہ جات

  1. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، (ہجرللطباعۃ والنشر والتوزیع والاعلان، القاہرہ،۲۰۰۱ ء)، ۱/۱۱۔۱۲
  2. السبکی ،لتاج الدین ابو نصر عبد الوھاب بن علی بن عبدلکافی ، طبقات الشافعیہ الکبری( دار احیاء الکتب العربیہ قاہرہ،س۔ن)،۳/۱۲۰
  3. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن،۱/۱۳
  4. احسان اللہ فہد، ڈاکٹر، امام طبریؒ اور انکی تفسیر جامع البیان ایک مطالعہ، (تحقیقات اسلامی جنوری تا مارچ، ۲۰۱۸ء)، ص:۷۲
  5. السبکی ،لتاج الدین ابو نصر عبد الوھاب بن علی بن عبدلکافی ، طبقات الشافعیہ الکبری، ۳/۱۲۲
  6. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۱/۱۵
  7. السبکی ،لتاج الدین ابو نصر عبد الوھاب بن علی بن عبدلکافی ، طبقات الشافعیہ الکبری، ۳/۱۲۳
  8. الذھبی ،امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ، سیر اعلام النبلاء، (موسسۃ الرسالۃ، البیروت۱۹۹۲م)، ۱۴/۲۶۹۔۲۷۰
  9. احسان اللہ فہد، ڈاکٹر، امام طبریؒ اور انکی تفسیر جامع البیان ایک مطالعہ، ص:۷۳
  10. حریری ،غلام احمد ،تاریخ تفسیر و مفسرین، (اے این اے پرنٹرز، لاہور،۱۹۹۹ء)،ص:۱۹۲
  11. حریری ،غلام احمد ،تاریخ تفسیر و مفسرین ، ص:۱۹۴
  12. سورۃالاعراف۳۳:۷
  13. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن،۱/۴۹۔۵۰
  14. الرومی،یاقوت الحموی، معجم الادباء ،(دارالفکر ،بیروت ، ۱۹۸۰م) ، ۱۸/۶۵
  15. ن۔م
  16. سورۃ الکہف۸۶:۱۸
  17. البغدادی ،خطیب ، الجامع البیان لاخلاق الراوی وآداب السامع ،(مکتبۃ المعارف ، الریاض، ۱۹۸۳م)، ۲/۱۹۸
  18. الجزری،محمد بن محمد، النشر فی القراءت العشر ،(دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،س۔ن)،۱/۳۴
  19. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۱/۷
  20. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۱/۱۰۷
  21. ن۔م، ص:۱۹۰
  22. ن۔م ، ص:۲۷۶
  23. ن۔م ، ص:۱۴۰
  24. ن۔م ، ص:۲۰۰
  25. سورہ بقرہ ۱۶۷:۲
  26. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ت۱/۳۳۔۳۵
  27. سورۃ ابقرہ۲۲۹:۲
  28. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن،۴/۵۴۷
  29. سورہ الغاشیہ۱۱:۸۸
  30. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن،۷/۵۱۱
  31. ن۔م، ۱۴/۳۳۵
  32. سورہ بنی اسرائیل۷۵:۱۷
  33. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۵/۵۸
  34. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۱/۱۷۱
  35. ن۔م، ۴/۳۵۵
  36. الطبری ،ابو جعفر محمد بن جریر ، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، ۱/۳۶۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...