Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Islamabad Islamicus

تکفیری جماعت داعش: افکارو اثرات: تجزیاتی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060033219_676

Pages

84-100

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Article5.pdf

Subjects

Muslims Halaku khan Genghiz Khan Terrorism.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

1۔تعارف موضوع ،پسِ منظر اور ضرورت و اہمیت

دینِ اسلام آسمانی ادیان میں سے آخری دین ہے ۔اِس دین ِ الہی میں میانہ رَوی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسی اہمیت کے پیشِ نظر اسلام نے اعتقاد و عمل دونوں میں اِفراط و تفریط کو مذموم قرار دیا ہے ۔ مرورِایام کے ساتھ کچھ ایسے فرقے معرضِ وجود میں آئے ،جواسلام کی میانہ رَوی سے اتنا دور ہو گئے کہ اسلامی لبادہ اوڑھنے کے باوجود اُن کو اِسلام سے خارج تصور کیا جانے لگا۔اِن فرقوں نے صحیح العقیدہ مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف قتال کو جائز بلکہ واجب قرار دیا اور مسلمانوں سے حاصل ہونے والے اموال کو اموالِ غنیمت کا درجہ دیا ۔زمانہ ماضی کی تکفیری جماعتوں کی طرح دورِ حاضر میں بہت سی ایسی جماعتیں موجود ہیں ،جو مسلمان کہلوانے کے باوجود اہلِ اسلام کے خلاف ہی برسرِ پیکار ہیں۔یہ لوگ مختلف اسلامی ممالک کی افواج کے جوانوں ،بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوئے لوگوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو اپنے مخصوص نظریات کی بنیاد پر بارود سے اُڑادیتے ہیں۔ اسلام کی حقیقی روح سے دُور ہونے کی وجہ سے یہ صرف انہی لوگوں کو مسلمان گردانتے ہیں ،جو ان کے مخصوص نظریات کی موافقت کرتے ہیں ۔قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث نبویہ کی تشریح اپنے باطل نظریات کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ "تحریک طالبان" ،"القاعدہ"،"حوثی باغی" ،"جماعۃ التکفیر والہجرۃ "اور "داعش" وغیرہ کاانہی جماعتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ "طالبان "سے مراد وہ لوگ ہیں جو افغانستان میں روس کے خلاف مجاہدین کے ساتھ مل کر لڑے۔بعد میں اِن کا آپس میں سخت اختلاف ہو گیا ۔جس کے نتیجے میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان معرض وجود میں آئی۔انہوں نے اپنے زیر اثر علاقوں میں امن تو قائم کر دیا لیکن میانہ رَو نہ رہ سکے ۔اِن میں تشدد کا پہلو غالب تھا ۔دین کے معاملے میں انہوں نے اس قدر غلو کیا کہ خود افغانی بھی ان کی حکومت کو بوجھ محسوس کرنے لگے ۔یہ لوگ اپنے مخصوص نظریات کی بنیاد پر اغوا برائے تاوان ،بم دھماکوں ،لوگوں کو قتل کرنے اور خود کش حملوں جیسے مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔بعد میں یہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو کرمختلف علاقوں میں پھیل گئے ۔ مختلف ممالک کے مخالفین کو پناہ دے کر انہوں نے باقی حکومتوں کو بھی ناراض کر لیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف ممالک کی افواج نے کاروائی کر کے طالبان کی حکومت کو ختم کر دیا۔

 

"القاعدہ" عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی "بنیاد "کے ہیں۔[1]اس کے شروع میں الف لام تعریف کا ہے ۔بعد میں القاعدہ ایک تنظیم کا عَلَم بن گیا۔۱۹۸۸ ء میں اس کی بنیاد اسامہ بن لادن نے اس کی بنیاد رکھی ۔[2]یہ لوگ خود کش حملوں،بم دھماکوں اور لوگوں کو قتل کرنے کے جرائم میں ملوث ہیں۔[3]ان لوگوں کے نظریہ کے مطابق پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے سرکاری افسران ،حکمران اور افواج ،مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے [4]اورجمہوری نظام قائم کرنے [5]کی وجہ سے سب کافر ہو چکے ہیں ۔"حوثی باغیوں "کا تعلق یمن کے حوثی قبیلہ سے ہے ۔یہ تحریک ۲۰۰۰ء میں یمن کے علاقے صعدہ میں معرض ِ وجود میں آئی ۔[6]"جماعۃ التکفیر والہجرۃ "جو پہلے جماعۃ المسلمین کے نام سے جانی جاتی تھی ،کے پہلے سربراہ شیخ علی اسماعیل تھے ۔ان کی جماعت سے لاتعلقی کےبعد شکری مصطفی کو سربراہ بنا دیا گیا۔یہ لوگ اقوال ائمہ اور اجماع کے قائلین کو کافر قرار دیتے ہیں اور گناہ کبیرہ کےمرتکب اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو بھی کافر کہتے ہیں ۔[7] ان تمام جماعتوں کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کر کے اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کیا جا رہا ہے ۔اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو بچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھایا جائے ۔ان تمام جماعتوں کو ایک ہی مقالہ کا موضوع سخن بنانا مشکل تھا ۔ اس لیے زیر نظر موضوع میں صرف داعش کا تعارف اور ان کے افکار واثرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔

 

لوگوں کی جان و اموال کو ضائع کرنے اور عوام الناس میں دہشت پھیلانے والوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔اسلام ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو اپنےمفاد کی خاطر لوگوں کی تکفیر کر کے اُن کے خلاف قتال کو جائز قرار دیتے ہیں ۔

 

سابقہ کام تحقیقی جائزہ

یہ موضوع چونکہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیےمسلم علماء نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے ۔زیر نظر موضوع کے مختلف پہلوؤں پر جو کتاب تصنیف کی جاچکی ہیں ان میں سے حافظ زبیر کی "ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج ایک تحقیقی جائزہ"[8] ،ڈاکٹر ذاکر نائیک کی" اسلام دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ "[9]،حافظ زبیر کی "ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج کی شرعی بنیادیں"[10]،محمد سعید رسلان کی" خوارج العصر "[11]،محمد رفیق طاہر کی "خارجی کون؟"[12]،"خود کش دھماکے شریعت کے میزان میں"[13]،"داعش اور اسلام"[14]،"داعش کا تسلط اور اسلامی خلافت"[15]،"داعش کی حقیقت"[16]،"داعش کا تسلط اور اسلامی خلافت"[17]،"داعش یا خوارج"[18]،"کافر کون؟"[19]اور "داعش یا خوارج"[20]، طارق اسماعیل ساگر کی "داعش دولت اسلامیہ عراق و شام "[21]، سجاد ظہیر نگار کی "مسلمانوں میں انتہا پسندی کا آغاز خوارج ایک مطالعہ "[22]،محمد بن رمزان الہاجری کی "اسباب احتواء الخوارج ابنائنا"[23]،ڈاکٹر محمد زبیر کی "عصر حاضر میں تکفیر ،خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج"[24]،الدکتور عمر عبد اللہ کامل کی "المتطرفون خوارج العصر "،الدکتور علی محمد محمد الصلابی کی "فکر خوارج ، خطرناک فتنوں کی حقیقت"[25]اورجولیس ولہاؤزن کی "عہد اموی میں سیاسی ومذہبی احزاب الخوارج "[26]شامل ہیں۔جو تحقیقی مضامین ان موضوعات پر لکھے گئے ان میں محمد عمار خان ناصرکا "کیا دستور پاکستان ایک کفریہ دستور ہے ؟"[27]،مفتی محمد زاہد کا "غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ "[28]،محمد مشتاق احمد کا "تکفیر اور خروج دستور پاکستان کے تناظر میں "[29]،عقیل یوسفزئی کا "اسلام کا تصور جہاد اور القاعدہ "[30]،زاہد صدیق مغل کا "عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ [31]"اورابو عمار زاہد الراشدی کا "حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث"[32]شامل ہیں۔ ان موضوعات پر سندی تکمیل کے لیے جامعات میں جو تحقیقی مقالات لکھے گئے ان میں شاہد افضال کا "خروج:شریعت و تاریخ :تجزیاتی مطالعہ"[33]،محمد شفیق ملک کا ،عصر حاضر کی جہادی تحریکات کے اثرات "[34]،حافظ محمد سلیم کا "اہم عصری ، الحادی ،تحریکات کا تنقیدی جائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں "[35]،حافظ محمد نوید کا "عصری خارجی تحریکات کا تجزیاتی مطالعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں [36]"اور محمد بابر علی کا "باغیوں سے مذاکرات کی شرعی و قانونی حیثیت (تحقیقی جائزہ)"[37] بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔درج بالا تحقیقی مقالات ، مضامین اور کتب میں زیر نظر مضمون کے بہت سارے مواد سے جزوی طور پر بحث ضرورکی گئی ہے لیکن داعش کے افکار و اثرات پر کوئی جامع مواد کو ذکر نہیں کیا گیا ۔داعش کے افکار و اثرات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے زیر نظر موضوع کو اختیار کیا گیا ہے ۔اس مقالہ کے چھ حصے ہیں ۔پہلے حصے میں موضوع کے تعارف ، ضرورت و اہمیت اور پسِ منظر کو بیان کیا گیا ہے ۔دوسرے حصے میں داعش کے تعارف ،تیسرے حصے میں داعش کے افکار و اثرات ، چوتھےحصے میں داعش کے افکار کا تجزیاتی مطالعہ ،پانچویں حصے میں بہتری کے لیے تجاویز اور چھٹے حصے میں موضوع تحقیق کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔

 

2۔داعش کا تعارف

ابتداء

داعش دولت اسلامیہ عراق و شام کا مخفف ہے۔یہ ابتداء میں القاعدہ فی العراق کے نام سے جانی جاتی تھی۔شروع میں ان کی سرگرمیاں صرف عراق تک محدود تھیں لیکن بعد میں انہوں نے شام تک اپنے نیٹ ورک کو وسیع کر لیا۔اس کے بعد انہوں نے ابو بکر البغدادی کی سربراہی میں اپریل ۲۰۱۳ء کو اس کا نام دولت اسلامیہ عراق و شام رکھا۔ اس کا مخفف داعش ہے ۔ انگلش میں اس کو آئی ایس آئی ایس کے نام سے اس کی پہچان کروائی جانے لگی۔[38]

 

داعش کا ذریعہ آمدن

دولت اسلامیہ عراق و شام یا آئی ایس آئی ایس کے پاس سرمایہ اور پیسہ کی کمی نہیں ہے ۔ ان کے پاس ۱۲ سے زائد تیل کی رفائنریاں ہیں ،جن سے وہ لوگ روزانہ کے ڈیڑھ لاکھ بیرل آئل پیدا کرتے ہیں ۔اس تیل سے فروخت اور سمگل کے ذریعے وہ روزانہ تیس لاکھ ڈالر کماتے ہیں جو کہ ماہانہ نو کروڑ ڈالر بنتے ہیں ۔ آمدن کا یہ ذریعہ ابھی تک برقرار ہے ۔[39]تکفیری جماعتوں میں داعش سب سے امیر ترین جماعت ہے ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس کےپاس ۲ ارب ڈالر نقدی موجود ہیں ۔[40]

 

داعش جدید ترین اسلحہ سے لَیس ایک دہشت گرد جماعت ہے ۔ان لوگوں کے پاس جدید ترین رائفلز،جہازوں کو گرانے والے میزائل ،مشین گنز،جنگی ٹینک ،بکتر بند گاڑیاں،توپیں ،طیارہ شکن گنز،راکٹ لانچر،مختلف قسم کے میزائل ،ہیلی کاپٹرز اور جنگی جہازوں کے علاوہ جدید ترین اسلحہ موجود ہے ۔[41]اس اسلحہ میں سے انہوں نے کچھ تو عراقی اور شامی فوجیوں کو شکست دے کر چھینا تھا جبکہ کچھ ہتھیار امریکہ کی طرف سے گرائے گئے تھے جو ان کے ہاتھ لگے ہیں ۔ [42]درج بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ داعش ایک سرمایہ دارانہ تنظیم ہے ۔

 

داعش ایک دہشت گرد اور جرائم پیشہ تحریک

داعش یعنی آئی ایس آئی ایس کی تشکیل میں اسرائیل ، امریکہ اور برطانیہ کی مہربانیاں شامل تھیں ۔[43]ایک رپورٹ کے مطابق ان کی تربیت کا انتظام اردن میں کیا گیا ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کےمطابق اوباما اور اس کی انتظامیہ نے اس جماعت کی تشکیل کی ہے ۔[44]اس کے قیام کا مقصد ہی مسلمانوں میں دہشت پھیلانا تھا۔اپنے قیام کے بعد انہوں نے بزورِ اسلحہ مختلف علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔اپنے مقصد کے حصول کے لیے مساجد، مزارات ،آثارِ قدیمہ اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے اور اہلِ اسلام کے قتلِ عام سے بھی گریز نہیں کرتے ۔عراق و شام میں انبیاء کرام علیہم السلام اور جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیسیوں مزارات کو بم سے اڑا چکے ہیں ۔ انہیں بداعمالیوں کو دیکھتے ہوئے جامعۃ الازہر نے اِن کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔۲۰۱۴ء کودرنا شہر ان کا شکار بنا۔اس کے بعد بھارت ، مصر،سعودی عرب ،انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات نے متفقہ طور پر ان کو دہشت گرد قرار دیا۔[45]مختلف ممالک کے علماءکرام اور مفتیان کرام کی ایک بڑی جماعت نے اس کو خارجی اور تکفیری جماعت قرار دیا ہے ۔ [46]

 

داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام)میں زیادہ نو جوان طبقے کو بھرتی کیا جاتا ہے ۔مختلف ممالک سے نوجوان اس جماعت میں اس لیے شامل ہونے لگے کہ وہ اپنے ملکوں کے حالات ٹھیک کر یں گے لیکن داعش میں داخلے کے بعد ان کی اس طرح کی ذہن سازی کی گئی کہ وہ داعش کے علاوہ کسی اور جگہ جانے کے تیار نہیں تھے۔[47]مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ اپنے ملک سے فرار ہو کر اس جماعت میں شامل ہو نے لگے ۔ اس میں آنے والے زیادہ تر افراد چونکہ اسلامی تعلیمات سے ناآشنا تھے ، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کی ذہن سازی کر کے اُن کو مختلف مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے کے باوجود یہ لوگ مسلمانوں کی ہی تکفیر کر کے اُن کے خلاف قتال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ صرف اُن لوگوں کو مسلمان گردانتےہیں، جو ان کے مخصوص نظریات کی پیروی کرتے ہیں ۔ اپنے مخالفین کو نہ تو اہلِ اسلام میں شمار کرتے ہیں اور نہ اُن کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں ۔

 

داعش پر وارد ہونے والے اشکالات

اہل علم کی جانب سے داعش(دولت اسلامیہ عراق و شام ) پر مختلف قسم کے اعتراضات و اشکالات وارد کیے گئے ہیں ۔ جن میں سے چند اہم اعتراضات ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں:

 

۱۔کفار کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے غفلت کی بنا پر داعش کے قائدین مسلم حکمرانوں سے سخت ناراض ہیں ۔اس کے ردِ عمل میں تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور ان کی حمایت کرنے والوںکو کافر گردانتے ہوئے ان کے قتل کو جائز و مباح سمجھتے ہیں۔ان کے نظریات سے اختلاف کرنے والوں کو بم دھماکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح کی جہادی تنظیمیں جہاد کی بجائے مسلمانوں کے خلاف ہی جہاد کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ لوگ اسی طریقے سے کام کرتے رہے تو کفار کی بنسبت مسلمان ان کے جہاد کا نشانہ بنیں گے۔

 

۲۔داعش شدت پسند اور انتہاء پسند رویے کی حامل جماعت ہے ۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ گذشتہ جہادی کامیابی کے بعد اس کے قائدین نے باقی تمام جہادی تحریکوں سے علیحدگی اختیار کر کے خلافت کا اعلان کر دیا ہے ۔خلافت کے اعلان کے ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی سامنے ا ٓ رہا ہے کہ خلیفہ کی اطاعت تب کی جائے گی جب خلیفہ معلوم اور دستیاب ہو گا ۔اس صورت حال میں اعتماد کےحصول کے لیے خلیفہ کے خیالات کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔[48]

 

۳۔داعش کے خلیفہ ابو بکر بغدادی پر ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ اسلامی خلیفہ کے لیے طاقت کے ساتھ علم کی فضیلت کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس اعتراض کے جواب میں میڈیا پر بتایا جانے لگا کہ ابوبکر بغدادی علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں ۔[49]

 

۴۔یہ لوگ دیگر جہادی تنظیموں سے قتال کرتے ہیں ۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے جہاد کی طاقت کمزور پڑ جائے گی ۔ اگر یہ جہاد کا یہ معیار مقرر کر لیا جائے کہ جو جہادی گروہ جس علاقے پر قابض ہو جائے وہاں خلافت کے اعلان کے ساتھ دیگر جہادی تنظیموں اور عوام کی تکفیر کر کے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دے تو پھر اس انتشار کی کہانی کہاں تک چلی جائے گی؟[50]

 

داعش کے قائدین کو چاہیے کہ وہ اتفاقِ رائے اور باہمی مشاورت سے امور کو سر انجام دیں تب ہی خلافت اسلامیہ حقیقی معنوں میں قائم کی جا سکتی ہے ۔ ان لوگوں اپنے درمیان سے شدت پسندانہ اور انتہاء پسندانہ رویے کو ضروری طور پر ختم کرنا چاہیے ۔اگر وہ اپنے جہادکا نشانہ مسلمانوں کو ہی بنا لیں تو پھر ان کے جہاد کو فساد کہنےمیں کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔

 

3۔افکار و اثرات

گزشتہ ادوار میں تکفیری تنظیموں او ر تحریکوں کے معرضِ وجود میں آنے کی دو وجوہات تھیں ۔تکفیری جماعتوںمیں سے کچھ کا جود سیاسی نظریات کی بناء پر ہوا جبکہ کچھ تحریکوں کا وجود مخصوص افکار و عقائد کی بناء پر ہوا۔ دورِ حاضر کی تکفیری جماعتوں کے وجود میں آنے کے مختلف اسباب و جوہات ہیں ۔ان تحریکوں کے وجود میں اپنوں کی بانسبت غیروں کی کاوشیں زیادہ ہیں ۔یہ جماعتیں جن افکار و نظریات کی بناء پر پروان چڑھیں ،اُن افکار و نظریات کو قرآن و سنت کی غلط تشریحات کی بنیاد پر گھڑلیا گیا ۔ان جماعتوں میں داخل ہونے والوں لوگوں کے ذہنوں میں اُن نظریات کو پختہ کر کے انہیں عالمِ اسلام کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ جن افکار ونظریات پر داعش کی بنیاد رکھی گئی ہے ،داعش کے نامور علماء نے ان پر کتب تحریر کی ہیں ۔ ذیل میں انہیں کتب سے ان کے چند ایسے افکار پیش کیے جا رہے ہیں جن کی بنیاد پر وہ عالم اسلام کی تکفیر کر کے ان کے خلاف ہی بر سرِ پیکار ہیں ۔

 

داعش( دولت اسلامیہ عراق و شام )کے ایک نامور عالم ابو عمر بغدادی کہتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک کا نظام کفریہ ہے اور ان ممالک کے حکمران ، افواج ، پولیس اور تمام سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کافر ہیں ۔[51]ان لوگوں کے کفر درج ذیل وجوہات ہیں :

 

۱۔ان لوگوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن کی اسلام کسی بھی حال میں اجازت نہیں دیتا۔

 

۲۔یہ لوگ غیر مسلموں کو دوست بناتے ہیں ۔ حالانکہ اسلام نے غیر مسلموں کو دوست بنانے سے منع کیا ہے ۔

 

۳۔یہ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے غیر مسلموں سے ہمدردی اور الفت رکھتے ہیں ۔

 

۴۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے خلاف جنگ لڑتے ہیں ۔

 

۵۔ یہ جمہوریت کے قائل ہیں ۔جمہوریت میں اکثریت کی بناء پر قانون سازی کی جاتی ہے ۔عوام کی قانون سازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو آسمانی حکم کےمطابق فیصلہ سنانے اور لوگوں کی پیروی کرنے سےمنع کیا ہے ۔

 

۶۔ دین کا مذاق اڑانے والوں کی پکڑ کرنےکی بجائے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کی بناء پر ایسی قانون سازی کی ہے ، جو قانون سازی ان کے حق میں ہوتی ہے ۔[52]

 

ان لوگوں کے نزدیک جو آدمی اسلامی ممالک کی افواج اور پولیس کی مدد کرےگا وہ بھی کافر ہو جائے گا اور اس کے خلاف قتال کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم امہ کا اتفاق ہے کہ جو آدمی اہلِ اسلام کے خلاف کفار کی مدد کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ لہذا ان کے نزدیک تمام اسلامی ممالک کے سکیورٹی اداروں کے لوگوں کے خلاف قتال واجب ہے، اور ہر اس سرکاری عمارات کو ڈھانا ضروری ہے جس میں یہ لوگ رہتے ہیں ۔[53]ان کے نزدیک غیر مسلموں کی اعانت کرنے والوں کی دو طرح کے لوگ ہیں ۔(۱)قولی مددگار ۔ (۲)فعلی مددگار۔قولی مددگاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے حق میں تقاریر کرتے ہیں یا ان کے حق میں کوئی کتاب یا مضمون لکھتے ہیں ۔ فعلی مددگاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے افعال کے ذریعے غیر مسلموں کی اعانت کرتے ہیں ۔ ان میں حکمران اور اسلامی ممالک کی افواج وغیرہ شامل ہیں ۔[54]

 

ان کے من گھڑت عقائد و نظریات کے بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ ان کے ذریعے غیر مسلم اپنے کئی مقاصد کے حصول میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ اسلام جو کہ امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ،ان لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ جہاد جو کہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے ہے ، عالمی دنیا میں اس کو ظلم و ستم کے نام سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور جہاد میں حصہ لینے والوں کو اسلامی دہشت گردوں کے نام سے پکارا جانے لگاہے ۔ وہ دین اسلام جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے عقائد و نظریات اور عبادت گاہوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ،ان لوگوں کی کارستانیوں کی وجہ سے اس پر شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا لیبل لگایا جا رہا ہے ۔ وہ ممالک جو امن و سلامتی کے قلعے ہوتے تھے ، ان لوگوں کی وجہ سے وہ بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ ان لوگوں کے عقائد و نظریات کی وجہ سے اسلام اور اہلِ اسلام کو جتنا نقصان ہوا ہے ،اس کو پورا کرنے کے لیے شاید بیسیوں سال لگ جائیں ۔

 

4۔داعش کے افکار کا تجزیاتی مطالعہ

داعش( دولت اسلامیہ عراق و شام )کے رویے میں انتہاء پسندی اور شدت پسندی بہت زیادہ پائی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ اپنے مخالفین کو کافر اور مرتد قرار دے کر ان کے خلاف قتال کو مباح سمجھتے ہیں ۔ شیخ ابو عمر بغدادی نے تمام ممالک کے حکمران اور ان کے حامیوں کی تکفیر کی چھ وجوہات بیان کی ہیں ۔ان چھ وجوہات کو اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے تو تین وجوہ بنتی ہیں ۔(۱)غیر مسلموں سے دوستی (۲)مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مددکرنا (۳)جمہوریت ۔ذیل میں ان تینوں وجوہات کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ پیش کیا جا رہا ہے :

 

۱۔غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کی ممانعت کے متعلق سورۃ المائدۃ کی ۵۱ نمبر آیت اور ان تمام آیات کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے ،جن میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے دوستی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ حالانکہ ان آیات کریمہ کے سیاق و سباق کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کریمہ کے مصداق وہ کفار ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی آڑ میں رہتے ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللّـٰهُ عَنِ الَّـذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَـرُّوْهُـمْ وَتُقْسِطُوٓا اِلَيْـهِـمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ [55]

 

"جن لوگوں نے دینی معاملات میں تمہارے ساتھ قتل و قتال نہیں کیا اور انہوں نے تم کو گھروں سے نہیں نکالا، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نیکی کرنے اور ان سے عدل کرنے سے تمہیں نہیں روکتا۔اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ "

 

یعنی جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور بغض نہیں رکھتے ،ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا انصاف کے تقاضوں کےمطابق ہے ۔ایمان لانے کی وجہ سے جن لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویہ میں سختی سے کام لیا اور مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنےپرمجبور کر دیا ،ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا مسلمانوں کا حق ہے ۔[56] دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ موالات ، مواسات اور مدارات تین طریقوں سے معاملات طے کیے جا سکتے ہیں ۔ان کے ساتھ موالات کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے ،مدارات تینوں صورتوں میں (نقصان کو دور کرنے ،ہدایت کی امید اور مہمان کی عزت داری کے لیے) جائز ہے۔مواسات کی غیر اہل حرب کے ساتھ اجازت دی گئی ہے جبکہ اہل حرب کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔[57]

 

دور حاضر میں تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انسانیت کی تکریم کے لحاظ سے تعلقات ہیں ۔ ان تعلقات کو مدارات پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔اسلامی ممالک کے تمام حکمرانوں کے متعلق مطلقاً کہنا غلط ہو گا کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے دوستی کرنے کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں ۔

 

۲۔مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مدد کرنے کے حوالہ سے تفصیل پائی جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مدد اگر اس وجہ سے کی جائے کہ اسلام مٹ جائے یا اسلام اوراہلِ اسلام کو نقصان پہنچایا جائے ،تو یہ مدد یقیناً کفر کا باعث بنے گی ۔اگر غیر مسلموں کی مدد کے پیچھے یہ دونوں نظریات نہ ہوں تو ایسی صورت میں یہ مدد کفر کا باعث نہیں بنے گی ۔اگر چہ اس کی وجہ سے مدد کرنے والے مسلمان سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ کتبِ فقہ میں اس کی نظائر میں سے ایک کو ابن قدامہ نے ذکر کیا ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں اہلِ ذمہ سے مدد لینے والے باغیوں کا ذمہ نہیں ٹوٹے گا،لیکن نقصان کی ذمیوں سے ضمان لی جائے گی۔[58]باغیوں کی عادل مسلمانوں سے لڑائی ہو جائے اور وہ باغی مسلمانوں کے خلاف اہل حرب سے مدد طلب کریں ۔عادل مسلمان حربیوں کو قید کرلیں تو باغیوں کے ان سے مدد مانگنے کی وجہ سے وہ مستامن نہیں ہو ں گے ۔ [59]

 

باغیوں کے مسلمانوں کے خلاف اہل ذمہ اور اہل حرب سے مدد کے باوجود ان پر کفر کا اطلاق نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام صورتوں میں مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم مدد کرنا کفر نہیں ہوگا بلکہ کچھ خاص صورتوں میں کفر کے درجہ تک پہنچے گا۔

 

۳۔جمہوریت ادور جمہوری نظام اسلامی قوانین کے مخالف نہیں بلکہ موافق ہے ۔اس کے ذریعے باہمی مشورہ کے ذریعے لوگوں کو ایوان اقتدار میں لایا جاتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں باہمی مشاورت سے کام کرنے کو احسن طریقہ قرار دیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

﴿وَاَمْرُهُـمْ شُوْرٰى بَيْنَـهُمْ﴾[60]

 

"اور ان کے کام آپس کے مشورے سے ہیں۔"

 

اسلامی تعلیمات میں سیاست کے ایک اہم قاعدے کو بیان کیا گیا ہے ۔وہ قاعدہ اور ضابطہ شورائی نظام کا ہے ۔ جس فعل کا عوام سے تعلق ہو ،اس میں عوام سے مشورہ کر لیا جائے ۔ اس سے عوام کو اپنی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔[61]اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہوتی ہے ، اس میں باہمی مشاورت سے حاکم کا انتخاب کیا جاتا ہے ،اسلامی تعلیمات کی وجہ سے یہ اصول پوری دنیا میں رائج ہے ۔اس حوالہ سے دین اسلام نے واثت کے اصول کو معطل کر کے حکمران کی تقرری اور معزولی جمہور کے حوالہ کر دی ہے ۔اسلامی تعلیمات نے ہی اس دلدل سے دنیا کو نکالا ہے ۔اسلامی تعلیمات کے اسی اصول کو آج جمہوریت کا نام دیا گیا ہے ۔ [62]

 

پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں قوانین اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیے جاتے ہیں ۔ آئین پاکستان میں اس کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے :

 

"اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا ۔" [63]

 

پہلے سے موجود قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

 

"تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے ، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔"[64]

 

کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا آخری حد ہوتی ہے ۔شریعت اسلامیہ نے اس حوالہ سے بہت زیادہ احتیاط برتی ہے ۔ ہمارے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان میں ننانوے صورتیں ایسی پائی جائیں جن سےاس کا کفر ثابت ہوتا ہے اور ایک صورت ایسی پائی جائے جو اس کے اسلام پر باقی رہنے پر دلالت کرتی ہے تو ایسی صورت میں اس ایک صورت پر عمل کیا جائے گا۔[65] اس قاعدہ کا استنباط فقہاء کرام نے نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے کیا ہے :

 

"اپنی طاقت کے لحاظ سے مسلمانوں سے حدود کو ساقط کرو۔اگر چھوٹنے کی کوئی راہ ہو تو اس کو چھوڑ دو۔حاکم کا سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ معاف کرنے میں غلطی کرے ۔ "[66]

 

درج بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران اور ان کی حمایت کرنے والے مسلمان ہی ہیں ۔ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا شمار گناہ کبیرہ میں ضرور ہوتا ہے لیکن ان کی وجہ سے ان کو مرتد اور واجب القتل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ورگرنہ داعش کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان کہلوانے کے قابل نہیں رہے گا۔

 

5۔سفارشات

i۔داعش کے قائدین کے لیے نہایت ضروری امر ہےکہ وہ ایسے قوانین مرتب کریں جن میں عوام کو پابندیوں کی بجائے سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ انہیں اپنی ترجیحات کی شروعات معاشرے کے نظم و ضبط ، سہولت اور امن و سلامتی سے کرنی چاہییں ۔انہیں چاہیے کہ وہ پابندیوں کو سہولتوں کے ساتھ چلائیں ۔ انہیں نظام عدل اور عبادت دونوں کو بڑی دانائی سے سرانجام دینے ہوں گے ۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے لیے آخری امید گاہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔

 

ii ۔داعش کے قائدین کو انتہاء پسندانہ اور شدت پسندانہ رویہ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اس سخت رویہ کی وجہ سے غیر تو غیر مسلمان بھی ان سے متنفر ہورہے ہیں ۔ لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری امر ہے کہ وہ اپنے رویہ میں نرمی پیدا کریں تاکہ اپنوں کی قربت کے ساتھ غیر وں کا اعتماد بھی ان پر بحال ہو۔ لوگوں کو دین کی دعوت کے لیے اس حکمتِ عملی کو اپنائیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے ۔ جبر و تشدد کی بجائے اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں ۔

 

iii۔داعش کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں اور ان کی اسلامی طریقوں کے مطابق تربیت کریں ۔ کارکنان کی اچھی تربیت ہی ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کودور کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اسلام جبر وتشدد کے بجائے ترغیب دلانے سے نافذ ہوتا ہے ۔یہ کام بغیر تعلیم و تربیت کے نا ممکن ہے ۔

 

iv۔ایک مسلمان کے لیے تکفیر کا فتویٰ آخری انتہاء ہوتا ہے ۔یہ فتویٰ کسی مسلمان پر اس وقت لگایا جاتا ہے جب وہ تمام حدود پار کر جاتا ہے ۔ لہذا گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے مسلمانوں کی تکفیر کر کے ان کے خلاف قتال کرنے سے گریز کیا جائے ،تاکہ لوگ داعش کے خوف کو ختم کر کے ان کے قریب آ سکیں ۔

 

v۔ اگر داعش کے قائدین ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو پھر ان کی قوت کے منتشرہونے میں دیر نہیں لگے گی۔کوئی بھی حکومت ان کے خلاف آپریشن کر کے ان کی قوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی ۔

 

vi۔اگر داعش کے لوگ اپنے تکفیری فتوؤں اور انتہاء پسندانہ سوچ سے باہر نہیں نکلتے تو پھر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ان سے مذاکرات کرکے انہیں سمجھانا چاہیے ،اگر مذاکرات کے بعد بھی حدود نہیں رہتے تو پھر اسلامی ممالک کو ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرنا ہوگا۔

 

6۔خلاصۂ بحث

گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کی دردناک لہر کی وجہ سے مسلم امہ پر انتہاپسندی اور شدت پسندی کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔ دور حاضر میں جہاں تمام مسلمان دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو دین اسلام کے منسلک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،وہاں چند لوگ اس کی حمایت کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔ دہشت گردی کے مختلف اسباب میں دین اسلام کے مخالف قوتوں کی ریشہ دوانیاں،مختلف عالمی قوتوں کے دہرے معیار اور مظلوم و محکوم طبقات سے ناانصافی جیسے امور کلیدی حیثیت کے حامل ہیں ۔ عالمی جارحیت کو بنیاد بنا کر پرامن ،بے گناہ اور غیر مسلح لوگوں کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ ایسی کاروائیوں کے لیے جب کسی مقدس مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوجاتی ہیں ۔ داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام )کے اگرچہ بہت سارے مقاصد اسلامی ہیں لیکن ان مقاصد کا حصول غیر اسلامی طریقوں سے کیا جاتا ہے ۔اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے غیر اخلاقی کاروائیاں کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ۔ ان کی کاروائیوں کا زیادہ نشانہ زیادہ تر مسلمان بن رہے ہیں ۔ ان کی غیر اخلاقی کاروائیوں سے آثار قدیمہ اور قبرستان بھی محفوظ نہیں رہے ۔ اپنے مخالفین کو دردناک طریقے سے قتل کرکے ان کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلا جاتا ہے اور ان کو دھڑوں کو درختوں پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ اگر یہ لوگ اسی روش پر کام کرتے رہے تو پھر لوگ چنگیز خان اور ہلاکوخان کو بھول کر داعش جیسی تنظیموں کی مثالیں دیا کریں گے ۔

 

حوالہ جات

  1. لویس معلوف ، المنجد ،ترجمہ از عبد الحفیظ(خزینہ علم و ادب ،لاہور،۲۰۱۰ء)،ص:۷۰۸
  2. جاوید چوہدری،زیرو پوائنٹ ،اب پاکستان ٹارگٹ ہوگا(عبد اللہ اکیڈمی ،لاہور،۲۰۰۷ء)،۴/۱۰۱
  3. روزنامہ جنگ،۲۲ اکتوبر،۲۰۰۹ء
  4. الظواہری،ایمن ،الولاء والبراء عقیدہ منقولہ وواقع مفقود ( منیر التوحید والجہاد،http://www.tawhed.ws)، ص:۲۲
  5. ناصر بن حمد،امریکیوں کی مدد کرنے والے کے کفر میں واضح بیان (مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ،پاکستان،س ن)،ص:۱
  6. اسرار بخاری ،یمن میں حوثیوں کی بغاوت کا تاریخی پس منظر،پاکستان روزنامہ ،۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء
  7. الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامی ،الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة(دار الندوة العالمية للطباعة والنشر والتوزيع،الریاض،۱۴۲۰ھ)،۱/۳۳۹
  8. دار النوادر ،الحمد مارکیٹ اردو بازار ،لاہور،۲۰۰۷ء
  9. ٹرو منہج ڈاٹ کام،م ن،س ن
  10. مؤسسۃ منہاج الانبیاء ، بیروت ،۲۰۱۵م
  11. مکتبہ اہل حدیث ،مکہ ٹاؤن، ملتان،۲۰۱۵ء
  12. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  13. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  14. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  15. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  16. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  17. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۹ء
  18. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۹ء
  19. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۹ء
  20. مکتبہ اہل حدیث ، مکہ ٹاؤن، ملتان ،۲۰۱۵ء
  21. ساگر پبلی کیشنز ،لاہور ،۲۰۱۵ء
  22. قرطاس پرنٹرز ، پبلشرز اینڈ بک سیلرز ،کراچی ،۲۰۱۴ء
  23. دار الصحابۃ دار المنہاج ،مصر ،۲۰۱۵ء
  24. مکتبہ رحمۃ للعالمین ،لاہور،۲۰۱۱ء
  25. الفرقان ٹرسٹ ،خان گڑھ ،۲۰۱۵ء
  26. قرطاس پرنٹرز اینڈ بک سیلرز ، کراچی ،۲۰۱۵ء
  27. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  28. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  29. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  30. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  31. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  32. ماہنامہ الشریعۃ ،گوجرانوالہ ،خصوصی اشاعت بعنوان جہاد ،کلاسیکی و عصری تناظر میں ،مارچ ۲۰۱۲ء
  33. تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور
  34. تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور
  35. تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور
  36. تحقیقی مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ ،محی الدین یونیورسٹی ،نیریاں شریف ،آزاد کشمیر،۲۰۱۸ء
  37. تحقیقی مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ ،نمل یونیورسٹی ،اسلام آباد ،۲۰۱۷ء
  38. ساگر ،داعش دولت اسلامیہ عراق و شام ،ص:۱۳
  39. ساگر ،داعش دولت اسلامیہ عراق و شام ،ص:۱۵
  40. شعیب واجد ، اظہار خیال :داعش کون ،کب اور کیسے؟،ایکسپریس نیوز، جمعرات ،۱۲ مارچ ،۲۰۱۵ء
  41. ساگر ،داعش دولت اسلامیہ عراق و شام ،ص:۱۹
  42. شعیب واجد ، اظہار خیال :داعش کون ،کب اور کیسے؟،ایکسپریس نیوز، جمعرات ،۱۲ مارچ ،۲۰۱۵ء
  43. ریاض چوہدری ، داعش کی تشکیل میں امریکہ و اسرائیل کا ہاتھ ، العربیہ ، ۲۷ فروری ،۲۰۱۵ء
  44. روزنامہ امت،کراچی ،۱۲ جنوری ،۲۰۱۷ء
  45. شعیب واجد ، اظہار خیال :داعش کون ،کب اور کیسے؟،ایکسپریس نیوز، جمعرات ،۱۲ مارچ ،۲۰۱۵ء
  46. العربیہ،۲۰ ستمبر،۲۰۱۴ء؛روزنامہ پاکستان ، ۱ مئی ،۲۰۱۵ء
  47. شعیب واجد ، اظہار خیال :داعش کون ،کب اور کیسے؟،ایکسپریس نیوز، جمعرات ،۱۲ مارچ ،۲۰۱۵ء
  48. محمد بابر علی ،باغیوں سے مذاکرات کی شرعی و قانونی حیثیت (تحقیقی جائزہ)،نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ، اسلام آباد ،۲۰۱۷ء،ص:۱۶۹۔۱۶۸
  49. سہ ماہی جرید تجزیات ، مدیر :محمد عامر رانا، ۱۰ اپریل ،۲۰۱۵ء
  50. محمد بابر علی ،باغیوں سے مذاکرات کی شرعی و قانونی حیثیت (تحقیقی جائزہ) ،ص:۱۶۹۔۱۶۸
  51. خراسانی ،عبد القاہر ، ابو یزید ، دولت اسلامیہ کے عقیدے کے متعلق شیخ ابو یزید عبد القاہر خراسانی کی وضاحت(ادارہ ابطال الاسلام برائے نشرو اشاعت ،www.abtalulislam.jimdo.com)،ص:۱۶
  52. ن۔م،ص:۱۷
  53. خراسانی ، دولت اسلامیہ کے عقیدے کے متعلق شیخ ابو یزید عبد القاہر خراسانی کی وضاحت ،ص:۱۸
  54. ن۔م،ص:۲۲
  55. سورۃ الممتحنہ ۸:۶۰
  56. مودودی، ابوالاعلیٰ ،تفہیم القرآن (ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور،۲۰۰۷ء)،۵/۳۳۲
  57. تھانوی ، اشرف علی ، تفسیر بیان القرآن ( مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء)،۱/۲۲۷
  58. ابن قدامہ ، المغی (دار الکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۸م)،۱۲/۲۶۱
  59. سرخسی ، کتاب المبسوط (دار الکتب العلمیہ ، بیروت،۲۰۰۱م)، ۱/۱۳۶
  60. سورۃ الشوریٰ ۳۸:۴۲
  61. الازہری ، محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن (ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۰ء)،۴/ ۳۸۴
  62. محمد شفیع ، مفتی ، معارف القرآن (مکتبہ معارف القرآن ،کراچی ، ۲۰۱۴ء)،۲ /۲۲۳
  63. اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغات ،۷جنوری ،۲۰۱۵ء،آرٹیکل:۲،ص:۳
  64. ن۔م،آرٹیکل:۲۲۷،ص:۱۴۵
  65. علی القاری ، ملا ،شرح الشفاء (دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۲۰۰۸م)،۲/۵۰۲؛ابن عابدین شامی ،رد المختار علی الدر المختار(مکتبہ رشیدیہ ،لاہور،۲۰۰۹ء)،۴/۲۲۴
  66. ترمذی، محمد بن عیسیٰ ، الجامع ،ابواب الحدود ،با ماجاء فی درء الحدود ،حدیث:۱۴۲۴
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...