Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 2 of Islamabad Islamicus

کسب حلال کی راہ میں حائل معاشرتی رکاوٹیں: قرآنی نکتہ نظر سے ایک تجزیاتی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060033219_1274

Pages

17-45

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/Article2.pdf

Subjects

Earning lawful halal obstacles

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Earning lawful is considered as a worship in the Holy Quran and traditions of Holy Prophet (Peace Be Upon Him). But unfortunately, it has become very difficult to earn halal in present age due so many obstacles into the society.The purpose of this research article is to uncover the social obstacles and hurdles in the way of lawful earning. Qualitative and descriptive research approach is employed for the collection, demonstration, and analysis of data. The review of literature revealed that there are so many hurdles in the society in the way of halal earning. For instance, Wrong wishes of lowerself, lust, bad social practices, influence of media are the most common among them. It is therefore recommended that Quranic messures should be taken in order to diminish these obstacles and to make the way of lawful earning easy.

 

باب اول :کسبِ معاش اور اسلامی معاشرہ:

اسلام کے نظام معاشیات کو اپنانے میں انسانیت کا بھلا ہے ورنہ فقر و فاقہ بظاہر دولت کی فراوانی کے باوجود ختم نہیں ہو سکتا۔اسلام نے رزقِ حلال کے حصول کو لازم قرار دیا اور ضرورت سے زائد دولت کو ناداروں پر خرچ کرنے کیلئے اصحابِ ثروّت پر زکوٰۃ و خیرات کی صورت میں واجب قرار دیا ہے تا کہ معاشرہ سے زر پرستی اور ہوسِ مال میں اندھے ہو کر گردشِ دولت کے قدرتی قانون کو روک کر دیگر افرادِ معاشرہ کو اس سے بالکل محروم نہ کریں۔ اگر اس کی بر وقت اصلاح نہ کی جائے تو محتاج احساسِ محرومی کی وجہ سے دولت کے حصول کیلئے نا جائز و حرام ذرائع رزق کو اپنانے کی کوشش کریں گے جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں بد قسمتی سے دولت کی نا ہمواری سے اس طرح کی بے شمار خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں ، جن کا تدارک ضروری ہے۔

 

انسان رزق کمانے میں حلال کا مکلف ہے۔ حرام سے بچنا اور حلال کو اختیار کرنا انسان کیلئے ضروری ہے کہ اعتقادات اور عبادات کی طرح معاملات کااچھا یا برا اثر انسانی زندگی پر ہوتا ہے۔مفتی سید صابر حسین صاحب رزقِ حلال کی اہمیت کو اس انداز سے بیان فرماتے ہیں:

 

" اللہ تعالیٰ نے رزقِ حلال کے حصول کو ہر ایک پر لازم قرار دیا ہے اور اس لیے ضابطۂ اخلاق بیان کر کے ہر قسم کے ظلم و ستم و استبداد، استحصال اور ارتکازِ دولت کو منع فرمایا تا کہ معاشرے میں تجارت کے ذریعے نہ صرف ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے بلکہ آخرت کی ابدی و سرمدی فلاح کا حصول بھی ممکن ہو سکے۔"[1]

 

حرام کا شرعی معنیٰ:

الحرام ما منع عنه بدلیل قطعی و تركه فرض کشرب الخمر۔[2]

 

"جس شیٔ سے منع دلیل قطعی سے ثابت ہو اور اس کا چھوڑنا فرض ہو جیسے شراب نوشی وغیرہ۔"

 

مال حرام کا قرآنی نظریہ:

قرآنِ کریم ہر اس مال کو جو دھوکہ بازی، چوری کسی کو ضرر دے کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہو کر حاصل کیا جائے حرام و ناجائز کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مالِ حرام کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

 

﴿قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾[3]

 

"کہنے لگے بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام فرمایا ہے۔"

 

﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾[4]

 

”اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بولتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔"

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾[5]

 

"اے ایمان والو شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک اور شیطانی کام ہیں ان سے بچتے رہنا کہ کامیاب ہو جاؤ۔"

 

سود کی تمام اقسام کو حرام فرما دیا گیا:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُو﴾[6]

 

”اے ایمان والو سود کو بڑھا چڑھا کر مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔"

 

جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام فر دیا اس کوئی حلال نہیں فرما سکتا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرما دیا اس کو کوئی حرام نہیں کر سکتا ۔

 

﴿قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ﴾[7]

 

"تم فرماؤ کہ تم ذرا بتاؤ کہ جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے رزق اتارااس میں تم نے اپنی طرف سے حرام و حلال ٹھہرا دیا۔"

 

﴿قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾[8]

 

"آپ فر مادیجئے کہ گندہ اور ستھرا برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ تمھیں گندہ اچھا لگے ۔ اللہ سے ڈرو ۔اے عقل والو! تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔"

 

یہود جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال بناتے اور احکام شرع کو بدل ڈالتے، ان کے بارے میں فرمایا:

 

﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ﴾[9]

 

"بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور۔"

 

باہمی رضا مندی کے بغیر حاصل کیے ہوئے مال کو باطل فرمایا گیا :

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾[10]

 

"اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت کے ذریعے ہو۔"

 

سود اور حرام میں برکت نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت ہے بلکہ اللہ اس سے سخت ناراض ہوتا ہے۔

 

﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ﴾[11]

 

"اور جو چیزیں زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھیں گی۔"

 

کسبِ حلال کا قرآنی نظریہ:

انسان کا کام رزقِ حلال میں سعی کرنا ہے ، عطافرمانے کا ذمہ خود پروردِ گارِ عالم جو حقیقی اِلٰہ ہے اس کے دستِ قدرت میں ہے۔

 

﴿إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ﴾[12]

 

"بے شک وہ جنھیں تم اللہ کے علاوہ پوجتے ہو تمہاری روزی کے ذرا بھی مالک نہیں تو اللہ ہی کے پاس رزق ڈھونڈو۔"

 

﴿وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾[13]

 

"اور اللہ سب سے بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔"

 

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو رزقِ حلال کے حصول میں کوشش کرتے رہتے ہیں:

 

﴿وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ﴾[14]

 

"اور کچھ زمین میں سفر کریں گے اللہ کا فضل تلاش کرنے کیلئے۔"

 

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو فقط رزقِ حلال ہی طلب کرنے اور کھانے کا حکم فرمایا ہےاور جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں وہ اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے حرام کو قریب بھی نہیں آنے دیتے:

 

﴿وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ﴾[15]

 

"اور جو اللہ نے تمھیں رزق حلال و طیب دیا اس میں سے کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔"

 

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ﴾[16]

 

"اے لوگو! جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے اس میں سےکھاؤ اور شیطان کے پیچھے مت چلو بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔"

 

﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ ﴾[17]

 

"اور حلا ل کر دیں ان کیلئے پاکیزہ چیزیں۔"

 

﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا﴾[18]

 

" اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جسکا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔"

 

﴿وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾[19]

 

"اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطاء فرماتا ہے۔"

 

﴿وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾[20]

 

"کہنے لگے عجیب بات ہے اللہ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے۔"

 

﴿إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ﴾[21]

 

"بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہےجو قوت والا ، قدرت والا ہے۔"

 

﴿وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ﴾[22]

 

"اور بے شک ہم نے تمھیں زمین میں ٹھکانا دیا اور ہم نے تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے، بہت کم شکر کرنے والے ہیں۔"

 

جس خالق نے ہمیں بنایا ہے اس نے ہمارے لیے اسبابِ رزق بھی پیدا فرما دیے ہیں اس لیے انسان کو اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے رزقِ حلال ہی کی تلاش میں لگا رہنا چاہیے۔

 

رزقِ حلال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة۔[23]

 

"رزق حلال کی تلاش فرض کے بعد سب سے بڑا فرض ہے۔"

 

کسب میں حلال و حرام میں فرق:

اسلامی تعلیمات کی یہ خوبصورتی ہے کہ انسان کو نہ بالکل آزاد چھوڑتا ہے کہ سرکشی پہ اتر آئے اور نہ ہی اس قدر پابند کرتا ہے کہ قانون سے بغاوت پر مجبور ہو جائیں بلکہ اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے ۔ اسلام رزق کے معاملہ میں بھی مکمل ضابطۂ اخلاق رکھتا ہےجس کی خوبصورتی کو ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیں:

 

" کمانے کے سلسلہ میں عام اصول یہ کہ اسلام اپنے فرزندوں کو اس بات کی کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ وہ جو مال چاہیں کمائیں اور جس طریقہ سے چاہیں کمائیں بلکہ وہ اجتماعی مصالح کے پیشِ نظر کسبِ معاش کے مشروع اور غیر مشروع طریقوں میں فرق کرتا ہے۔ یہ فرق ایک کلیہ پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسبِ مال کے وہ تمام طریقے جن سے افراد دوسروں کو نقصان پہنچا کر فائدہ حاصل کرتے ہوں غیر مشروع ہیں۔ اس کے بر خلاف ایسے طریقے جن سے افراد باہمی رضا مندی سے عدل کے ساتھ منفعت کا تبادلہ کرتے ہوں مشروع ہیں"[24]

 

باب دوم:کسبِ حلال کی راہ میں حائل معاشرتی رکاوٹیں اور ان کا حل

اب ہم مرحلہ وار ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے معاشرہ میں رزقِ حلال کے کسب میں دشواریاں اور رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل بھی پیش کریں گے:۔

 

محتاجوں کی حوصلہ شکنی:

محتاجی اور بے بسی فکری انتشار کا سبب بنتی ہے۔ ان نادار لوگوں کی داد رسی ان کو راہ حق پر لانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ صاحبِ استطاعت لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے محروم طبقہ پر توجہ دیں جو ناداری کو چھپانے کیلئے چوری، ڈکیتی اور جسم فروشی تک کا روبار کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے محتاجی سے پناہ مانگی ہے:

 

اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ- [25]

 

" اے اللہ میں محتاجی قلت اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ظلم سے اور ظلم کرنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔"

 

حضور ﷺ کی دعائیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ تنگ دستی اور محتاجی انسان کو کفر و گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

 

فقر و محتاجی انسانی کے ایمان پر اثر انداز ہوتی ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا- [26]

 

"قریب ہے کہ محتاجی کفر بن جائے۔"

 

اللہ تعالیٰ کو روزی حاصل کرنے کیلئے محنت کرنا پسند ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو بغیر محنت و مشقت کے عطا فرما سکتا ہے لیکن کسبِ معاش کو اس رزاق نے محنت کے ساتھ اللہ کی ذات پر بھروسہ کے اندر پوشیدہ رکھا ہے ۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کو معاشی جدو جہد میں حصہ لینے کیلئے فرماتے :

 

" تم میں سے کوئی بھی آدمی طلبِ رزق کے ذرائع کو چھوڑ کر نہ بیٹھ جائے اور یہ کہے کہ اے اللہ ! مجھے رزق عطا فرما اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ بے شک آسمان سونا چاندی نہیں برساتا اور بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول:"پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ"[27]-[28]

 

ایک شریف انسان کے رویے میں منفی تبدیلی اس سخت خطرناک صورت اختیار کر جاتی ہے جب فقر و فاقہ اور غربت و تنگ دستی آڑے آتی ہے ایسی صورت حال میں اپنے پرائے سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر اخلاقی حدوں کو عبورکرنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے اور اخلاقی اقدار بھی یوں مشکوک بن جاتی ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے شدت و فقر و فاقہ کے انسانی اخلاق و کردار پر منفی اثرات کو اس انداز سے واضح فرمایا ہے :

 

خُذُوا الْعَطَاءَ مَا دَامَ عَطَاءً، فَإِذَا صَارَ رِشْوَةً فِي الدِّينِ فَلا تَأْخُذُوهُ، وَلَسْتُمْ بِتَارِكِيهِ، يَمْنَعْكُمُ الْفَقْرَ وَالْحَاجَةَ-[29]

 

"عطا کو لے لو جب تک عطا ہے اور جب وہ رشوت بن جائے دین میں تو نہ لو تم اس کو چھوڑنے والے نہیں ہو کہ تمہارے فقر و محتاجی کو دور کرتا ہے۔"

 

منفی رَوَیّوں کو فقر و محتاجی کو دور کر کے مثبت رویوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ حدیثِ رسول ﷺ میں اس اہم بات کی طرف واضح اشارہ ہے:

 

قَالَ رَجُلٌ لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ . فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِى يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ . فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ . فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِى يَدَىْ زَانِيَةٍ ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ . فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ ، لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ . فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِى يَدَىْ غَنِىٍّ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِىٍّ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ ، عَلَى سَارِقٍ وَعَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِىٍّ . فَأُتِىَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ ، وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا ، وَأَمَّا الْغَنِىُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ-[30]

 

"ایک شخص کہنے لگا صدقہ ضرور کروں گا ، وہ صدقہ کرنے کیلئے گھر سے نکلا اس نے صدقہ ایک چور کے ہاتھ دے دیا ، صبح ہوئی تو لوگ باتیں کر رہے تھے کہ چور کو صدقہ دیا گیا ۔ اس نے دعا کی:"اے اللہ !تیری ہی حمد ہے ،میں ضرور صدقہ کروں گا۔"جب اس نے صدقہ کیا تو وہ ایک زانیہ کو دے دیا، جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کر رہے تھے رات کو کسی نے زانیہ کو صدقہ دے دیا ہے۔ اس نے کہا" "اے اللہ! تیری حمد ہے زانیہ کو صدقہ چلا گیا، میں اب ضرور صدقہ کروں گا۔ " وہ نکلا صدقہ لے کر تو ایک غنی کے ہاتھ میں رکھ دیا صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی کو صدقہ دے دیا گیا اور کہنے لگا:" اے اللہ! تیری ہی حمد ہے ، چور ، زانیہ اور غنی کو صدقہ کا مال چلا گیا۔" اس کے پاس ایک آنے والا آیا اس نے کہا : چور کو صدقہ دینے کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ چوری چھوڑ دے گا اور زانیہ کو صدقہ دینے کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ممکن ہے زنا سے بچ جائے، اور غنی ممکن ہے کہ وہ عبرت حاصل کرے اور جو اس کو اللہ نے دیا اس میں سے خرچ کرے۔"

 

یعنی اس مال سے چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک سکتے ہیں۔

 

قرآن محتاجوں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دلاتا ہے اور ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم فرماتا ہے:

 

﴿أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ﴾ [31]

 

"کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔اور مساکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ تو ایسے نمازیوں کیلئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں کو بھلائے بیٹھے ہیں۔وہ دکھاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیز برتنے کو نہیں دیتے۔"

 

اللہ کریم غرباء مساکین میں خرچ کرنے کو احسان فرمایا ہے:

 

﴿وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾[32]

 

"اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت پڑو اور نیکی کرو کہ بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے۔"

 

ضرورت مندوں کی مدد کرنے سے مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت عطا فرما دیتا ہے اور مال خرچ کرنے سے مزید بڑھ جاتا ہے:

 

﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾[33]

 

"جو کوئی اللہ کو قرض حسنہ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے اور اللہ کمی اور کشادگی فرمانے والا ہے اور اسی کی تم لوٹائے جاؤ گے۔"

 

راہ خدا میں غرباء کی حاجت روائی کرنے کو اللہ نے پسند فرما کر ان کو اپنی محبت کا مژدہ بھی سنایا ہے:

 

﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ﴾[34]

 

"جب تک اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرلو تم ہر گز بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے تم جو بھی چیز خرچ کرو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔"

 

دین تو ہمیشہ اپنے بھائیوں کے ساتھ خیر خواہی کی ترغیب دلاتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اس بات پر گواہ ہیں کسی کو اپنے نفع کی خاطر نقصان دینا اسلام میں کسی طور پر روا نہیں ہو سکتا۔

 

عن جرير قال :بايعت رسول الله صلى الله عليه و سلم على النصح لكل مسلم -[35]

 

"حضرت جریر ؓ کہتے ہیں :میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔"

 

اہلِ ایمان کی علامات میں سے ایک علامت اپنے بھائیوں کے ساتھ محبت و رواداری سے پیش آنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایمان والا پیٹ بھر کر کھائے اور سو جائے جبکہ اسی کے پڑوس میں اس کا مسلمان بھائی بھوکا رہے اسلام ایسی روش کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ اور بھائی چارے کو رواج دیتا ہے۔ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہی چیز اپنے بھائی کیلئے پسند کرے۔نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

لا یؤمن أحدکم حتی یحبّ لأخیه ما یحبّ لنفسه-[36]

 

تم میں کوئی مومن کامل نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی مسلمان کیلئے وہی نہ چاہے جو خود اپنے لیے چاہتا ہے۔

 

جب اس انداز کے ساتھ ایک مسلمان زندگی گزارے تو معاشرہ میں بے راہ روی کا سدِ باب ممکن ہو سکتا ہے ۔ اور ناداروں کی حوصلہ افزائی ان کے ساتھ تعاون کر کے ان کو حرام مال کی طرف مائل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ورنہ ان کی اس حالت کو بدلنے پر قادر ہونے کے باوجود ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو کل اس برائی کو نہ روکنے والےسے باز پرس ہو سکتی ہے۔عین ممکن ہے کہ ہماری تھوڑی سے کاوش سے حرام مال کا سہارا لینے والا شخص رزقِ حلال کو تلاش کرنے والا بن جائے۔

 

رشتوں میں رکاوٹیں:

ہمارے اس معاشرے میں نکاح جیسا اہم معاملہ بھی جھوٹی انا اور رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے والے متمول خاندان کی لڑکی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں تا کہ جہیز سے گھر بھر جائے۔ اور لڑکی والے بھی امیر زادہ اور زمین و جائداد کا مالک تلاش کرتے ہیں۔ دونوں طرف سے غیر ضروری امور میں کوششوں کا سلسلہ اس قدر تیز ہو جاتا ہے کہ حلال و حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ قرآن نے اس روش کو بدلنے اور خیر و فلاح کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔جب تک ہمارے جھوٹے معیاراتِ زندگی تبدیل نہیں ہونگے ہم رزقِ حلال کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾[37]

 

"اور نکاح کرو اپنو ں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انھیں غنی کر دے گا۔"

 

رشتوں کی تلاش میں پریشان ہونے اور حرام ذرائع رزق اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھ کر نکاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت کے دروازے کھول دے گا اور خزانہ غیب سے رزق عطاء فرمائے گا۔اپنی غربت کا بہانہ بنا کر شادی سے پیچھے بھی نہ ہٹیں اور شادی کیلئے حرام مال حاصل کر کے اللہ کے غضب کو دعوت بھی نہ دیں۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں:

 

" اکثر لوگ افلاس اور غربت کو شادی نہ کرنے کا سبب بنائے رہتے ہیں ۔ لڑکی والے چاہتے ہیں کہ لڑکا بڑا متمول ہو۔ لڑکے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کے والدین بڑے امیر ہوں تا کہ خوب جہیز ملے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فقر و فاقہ و تونگری عارضی چیزیں ہیں۔ اگر شریف قابل اور نیک رشتہ مل رہا ہو تو قبول کر لو۔باقی رہا افلاس تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو وہ اس افلاس کو چاہے تو آنِ واحد میں دور بھی کر سکتا ہے"[38]

 

حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

اطلبوا الغنی فی التزوج-[39]

 

"غناء کو نکاح میں تلاش کرو۔"

 

اسلام ایک سادہ اور آسان دین ہے جس کو عمل کیلئے بنایا گیا ہے اس میں امیر غریب سب عمل پیرا ہو کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔محتاجی کو بہانہ بنا کر نکاح کرنے کیلئے حرام ذرائع رزق کو اختیار کرنا انتہائی مذموم ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھے اور اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے نکاح سادگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس نکاح کی برکت سے اس کیلئے اپنے رزق کے دروازے کھول دے گا ۔ وہ انسان نادان ہے جو اللہ کے کلام اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ہوتےہوئے بھی پریشان رہے اور اپنی پریشان کو شیطانی رستے پر چل کر دور کرنے کی کوشش کرے ۔ شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے جو انسان کو راہ راست سے ہٹانے کیلئے کوئی بھی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اللہ تعالیٰ نے نکاح کے ذریعے انسان کو غنی کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔

 

ابن ابی حاتم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا:

 

اطیعوا الله فیما امرکم به من النکاح ینجزلکم ما وعدکم من الغناء-[40]

 

"اللہ تعالیٰ نے جو تمھیں نکاح کا حکم فرمایا، تم اسکی اطاعت کرو اس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پوارا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔"

 

نکاح کرنے والے کی مدد کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

" تین شخصوں کی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا اور مکاتب کہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا"[41]

 

اللہ کتنا کریم ہے ، نکاح کو سادگی اور پارسائی کے ارادے سے اختیار کرنے والے کے رزق کا ذمہ اپنے ذمہِ کرم پر لے لیا ہے۔ اللہ تو نیکو کاروں سے پیار و کرم فرمانے والا ہے ۔ اللہ کریم کے اس قدر احسان کے وعدے کے باوجود جو شخص نکاح کی خواہش کیلئے حرام ذرائع رزق اختیار کرے وہ بد نصیب شخص ہے۔ایک ایمان والے کو اللہ کی ذاتِ پاک پر بھروسہ کرتے ہوئے ہمیشہ رزقِ حلال ہی کی تلاش میں لگے رہنا چاہیے اور پارسائی اور نیکو کاری کو دامن سے لگائے رکھے اللہ تعالیٰ اس کیلئے رزق کے دروازے کھول دے اور اللہ بے حساب رزق عطاء فرمانے والا ہے۔

 

دولت کی غیر منصفانہ تقسیم:

رزق کی کمی کا سبب قدرتی ہو جیسے افرادکی زیادتی ، حکومتی جنگیں، قدرتی آفات ، تو اس صورت میں انسانی طبائع پر اثرات اس قدر شدید نہیں ہوتے جتنے شدید اور منفی اثرات دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائلِ رزق کی غلط تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی اخوت او ر اخلاقیات کے سارے بند اس وقت ٹوٹ جاتے ہیں جب مالدار غریبوں کا جائز حق دبا لیں۔ناداروں پر ظلم عام ہو جائے ۔ معاشرے میں اکثریت کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ایک مخصوص طبقے کے مفاد کو ترجیح دی جائے تو غریب فقر و فاقہ سے تنگ آ کر اضطراب و اشتعال میں غلط فیصلے کرتے ہوئے حرام ذرائع ِ رزق کو اختیار کرتا ہے۔

 

قرآن کریم نے اس انداز کو گمراہی قرار دیا ہے:

 

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ﴾[42]

 

"اور جب کہا جائے ان سے کہ جو اللہ نے تمھیں دیا ہے اس سے خرچ کرو تو کہتے ہیں کافر ایمان والوں سے کیا ہم کھلائیں اس کو کہ اگر اللہ چاہے تو اس کو کھلائے، تم تو کھلی گمراہی میں ہو۔"

 

حرص و لالچ طبعا انسان میں پائی جاتی ہے ۔ مال کی تمنا میں اس قدر کوشش کرتا ہے کہ کبھی سیر نہیں ہوتا ۔ انسان کی حرص مرتے دم تک قائم رہتی ہے۔ انسان کی اس طبیعت کو اعتدال پر لانا ضروری ہے جو دینی ہدایات ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ کیونکہ دینِ اسلام ہی طبیعتوں کو اعتدال پر لا کر انسانی زندگی میں توازن پیدا کرتا ہے۔ تا کہ انسان رزقِ حلال کے ذرائع استعمال کرے اور حرام سے بچے۔ افراط و تفریط کا شکار روح و بدن دونوں کو کمزور کر دیتا ہے۔

 

﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى﴾[43]

 

"اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان کافروں کو برتنے کیلئے دے رکھی ہے کہ ہم ان کو اس سبب سے آزمائش میں ڈالیں اور تمہارے رب کا رزق ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔"

 

﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾[44]

 

"لوگوں کیلئے آراستہ کی گئی ان خواہشات کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیراور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ تم فرماؤ کیا میں تمھیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ، پرہیزگاروں کیلئے آپ کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی اور اللہ بندوں کو دیکھتا ہے۔"

 

جس طرح انسان کی طبائع اور صلاحیتوں میں فرق ہے اسی طرح درجاتِ رزق میں بھی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے مطابق فرق ہے ۔ البتہ دونوں طرح کے انسان کی آزمائش ہے۔ رزق کسی کو زیادہ، کسی کو کم ، اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اگر رزق زیادہ عطا فرمایا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اس میں کیا حکمت ہے۔ اور اسی طرح رزق کی کمی کی حکمت بھی اسی حکیم ذات اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ ہمارے پوشیدہ حالات سے باخبر ہے۔ انہی پوشیدہ حالات کے تقاضوں کے مطابق وہ درجاتِ رزق میں تفاوت رکھتا ہے۔ جو ظاہر بین انسان کی سمجھ سے بالا ہے۔

 

﴿وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ﴾[45]

 

"اور اللہ تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرماتاہے۔"

 

﴿إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾[46]

 

"بے شک آپ کا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور دیکھ رہا ہے۔"

 

کیا ایک انسان کیلئے یہ شرف کم ہے کہ پروردِ گارِ عالم نے اس کو اپنی نیابت کیلئے منتخب فرما لیا ہے ۔ وہ پروردِ گار جس انسان کو اپنی خلافت عطا فرما کر عزت و شرف سے نوازاہے اس ذات کے پاس آزمائش کا بھی اختیار ہے اور آزمائش پر پورا اترنے والوں پر وہ اپنے کرم و فضل کے در کھول دیتا ہے۔

 

﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾[47]

 

"وہی ہے جس نے تمہیں زمین کی خلافت دی اور تمہارے بعض کے بعض پر درجات بلند کیے تا کہ جو اس نے تمہیں دیا اس میں تمہاری آزمائش کرے۔"

 

اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کے تفاوت پر شکر ادا کرتے ہوئے صبر کے دامن کو تھامے رکھے ۔البتہ مصنوعی تفاوت جو ظلم و زیادتی پر مشتمل ہو اور اس سے اجتماع کے منافع کے ضائع ہو رہے ہوں ، اسلام اس کو پسند نہیں کرتااسی وجہ سے مصنوعی تفاوت معاشرہ میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور لوگ اس تفاوت کو ردِ عمل کے طور پر نا جائز ذرائع سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش:

ہمارے معاشرہ میں اس روش نے اس قدر انسان کو اندھا کر دیا ہے کہ ان میں احساس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جس کا لازمی نتیجہ معاشی بدحالی خود غرضی اور لا تعداد مفاسد ہونگے۔ اسلام نے ان مفاسد کے سدِ باب کیلئے ایسے تمام ذرائع کو حرام قرار دیا ہے۔ اور لالچ و ہوس جیسے اخلاقی و روحانی امراض جو کہ ایمان کیلئے بھی زہرِ قاتل ہیں حوصلہ شکنی کی ہے۔ قرآن نے خود غرضی اور لالچ کو شیطان کی حیلہ سازی قرار دیا ہے۔

 

دنیا میں انسان کو ایک مسافر کی طرح رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

 

الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ -[48]

 

"دنیامؤمن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت۔"

 

لا يزال قلب الكبير شابا في اثنتين في حب الدنيا وطول الأمل -[49]

 

بوڑھے کا دل دو چیزوں یعنی نفسانی خواہش اور لمبی امید میں جوان ہی رہتا ہے۔

 

عن سالم أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال سمعت عمر يقول : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يعطيني العطاء فأقول أعطه من هو أفقر إليه مني . فقال:خذه إذا جاءك من هذا المال شيء وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك ۔[50]

 

"حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ : حضورﷺ مجھے عطا فرمایا کرتے تو میں عرض کرتا یہ چیز اس شخص کو عطا فرمائیے جو مجھ سے زیادہ اس کا محتاج ہو تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا لے لو جب اس مال میں سے کوئی چیز تمہارے پاس آئے اور تمھیں نہ اس کی خواہش ہو نہ ہی تم اس کا سوال کرو تو اسے لے لو اور جمع کر لو پھر اگر چاہو تو اسے کھا لو اور چاہو تو صدقہ کر دو ۔ اور جو مال اس طرح حاصل نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ "

 

امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:

 

اعلم اَعْدٰی عُدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ -[51]

 

"جان لےتیراسب سےبڑادشمن تیرانفس ہے،جوتیرےپہلوؤں کےدرمیان ہے۔"

 

عیاشی کی عادت انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے شیطان اس کا کھل کر ساتھ دیتا ہے حرام و حلال کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔

 

" گناہوں اور نفسانی خواہشات میں شیطان اگر اس طرح کی کشش و دلچسپی پیدا نہ کرے تو نفس امّارہ کو گناہوں کی چکنی چپڑی زمین پر کون کھینچ سکتا ہے۔ ان عارضی لذتوں کا پیمانہ و جام نفس و شیطان جب کسی انسان کے لبوں سے لگا دیتے ہیں تو پھر اس کی حرص و ہوس کی پیاس مزید بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اور رزقِ حرام کی لذت و کشش کی حالت یہ ہو جاتی ہےکہ

 

چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ہوئی

 

اس کے بعد انسان اپنے فرائض ِ منصبی ِ خلافت سر انجام دینے کے بجائے لذائذِ نفس کی دلفریبیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ زند گی کے اعلیٰ مقاصد سےگر کر پست مقاصد کے کانٹوں میں الجھ جاتا ہے۔ گناہوں میں طلب و لذت کا یہی فلسفہ کام کرتا ہے۔ شیطان ایسے لوگوں کو ہمیشہ فریب کا رانہ اطمینان دلاتا ہے کہ نماز روزہ اور عبادات وغیرہ اپنی جگہ ہیں اور تجارتی لین دین، دنیا کمانے اور پیٹ پالنے کے طور طریقے اپنی جگہ ہیں، ذرائع معاش کیسے ہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہوں"[52]

 

نفس و شیطان کا غلام اس قدر حرام مال کی نحوست میں پھنس جاتا ہے کہ پھر اسی دلدل میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔کروڑ پتی بننے کی خواہش میں تاجروں کو دیکھا ہے کہ اس نا جائز مقصد کے حصول کیلئے دیگر ناجائز حربے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس خواہش میں لوگوں پر ظلم و ستم سے بھی باز نہیں آتے ۔ عام لوگوں کی بنیادی ضروریات کی اشیاء کو گوداموں میں روک دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں شدید اضطراب و بے چینی پیدا ہو جاتی ہے، لوگ مجبوری کی وجہ سے منہ مانگی قیمت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں اور مال کے حلال و طیب ہونے کیلئے اس طرح کی رضا مندی کافی نہیں ہے یہ ظلم ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حرام ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 

﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ﴾[53]

 

"اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی۔ جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزہ اس جوڑنے کا۔"

 

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے دولت گردش میں رہے تا کہ دولت چند ہاتھوں میں ہی نہ رہے اور معاشرہ میں آسودہ حالی سے اضطراب و بے چینی کا خاتمہ ہو جائے۔

 

﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ﴾[54]

 

" تا کہ دولت تمہارے اغنیاء کے درمیان ہی نہ گردش کرتی رہے۔"

 

ورنہ عام لوگوں تک دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں غربت و افلاس ان کو چوری اور ان گنت حرام ذرائع دولت اختیار کرنے پرمجبور کر دے گی۔ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری صاحب نے گردش دولت کے قدرتی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں ہونے والےمعاشرتی بگاڑ پر خوبصورت تبصرہ فرمایا:

 

" اسلام نےدولت کو چند ہاتھوں میں مجتمع و مرتکز ہونے سے روکا اور اس سلسلے میں ایسے حفاظتی بند باندھے کہ اس سے دولت نہ تو چند ہاتھوں میں جمع ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کی افادیت چند افراد تک محدود رہ سکتی ہے ۔ بلکہ اس کی حرکت و گردش تمام افراد ِ ملک و ملت میں جاری رہتی ہے۔ لہذا اس میں غربت و افلاس کا قلع قمع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ باہمی طبقاتی آگ اور تحاسد و تباغض کی بھٹی ہمیشہ کیلئے سرد ہو جاتی ہے جس سے غریب و مفلس لوگ آمادۂ بغاوت ہو کر اپنی ہی قوم کے خون کا دریا بہا دیتے ہیں"[55]

 

عیش کوشیوں کی عادت انسان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی فرماتے ہیں:

 

" اگر ایک فرد سماج کے عام معاشی حالات سے بے نیاز ہو کر اپنے آرام و آسائش کا اہتمام کرے گا تو سماجی حالات اور انفرادی حالات کا توازن بگڑ جائے گا، اور سماج میں احساسِ محرومی، احساسِ کمتری اور حرص و ہوس کے مہلک امراض جڑ پکڑ نے لگیں گے"[56]

 

غلط سیاسی پالیسی:

فلاحِ عامہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تا کہ کوئی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے امراء و اغنیاء کے مال میں سائلین و مستحقین کا حصہ بھی رکھا ہے۔

 

سیاسی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ ملک کا معاشی نظام مستحکم نہ ہو۔ ماضی کے بڑے بڑے سیاسی انقلابات اس بات کے گواہ ہیں کہ جس حکومت نے بھی معاشی مسائل کی طرف توجہ نہ دی عوام نے اس کا تختہ الٹ دیا اور موجودہ دور میں بھی مضبوط سیاسی راہنما وہی ہو سکتا ہے جو سیاسی سمجھ بوجھ کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کی نوعیت کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی اہلیت سے بھی بہرہ ور ہو"[57]

 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 

﴿وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾[58]

 

"اور ان کے مالوں میں سائل اور محتاج کا حق ہے۔"

 

﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾[59]

 

" ان کے مالوں میں صدقہ لے کر ان کو اس سےستھرا اور پاکیزہ کریں اور ان کیلئے دعائے خیر کریں۔"

 

بادشاۂ اسلام کی شرعی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے غرباء کی ضروریات کا خیال رکھے اور اغنیاء کے مال کے ایک مخصوص حصہ سے لے کر مستحقین میں تقسیم کرے ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

أِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِى فُقَرَائِهِمْ-[60]

 

"اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ کو لازم کیا ہے ان کے اغنیاء سے لے کر فقراء کو دیں۔"

 

رحمتِ عالم ؤﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

فإن السلطان ولي من لا ولي له-[61]

 

"جس کا کوئی ولی نہیں اس کا ولی سلطان ہے۔"

 

نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

أَنَا وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَهُ-[62]

 

"جس کا کوئی وارث نہیں میں اسکا وارث ہوں۔"

 

سیاسی جماعتوں کے منصوبوں میں اہم ترین معاشی خود کفالت کا منصوبہ ہے جیسا کہ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ:

 

" اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ایک اہم فرض زکوٰۃ کی تنظیم ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حدود کے اندر تمام ان لوگوں کی کفیل بنے جو مدد کے محتاج ہوں اور وسائل رزق سے محروم رہ گئے ہوں۔"[63]

 

اسلام میں حکومت کی ذمہ داریوں میں ایک شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا ہے تا کہ کوئی حاجت مند محروم نہ رہے یہاں تک کہ بنیادی ضروریات کے بہم پہنچانے کیلئے مسلمان اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا اور اسلامی ریاست اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ مملکت میں کوئی شخص بھوکا، ننگا اور بے گھر نہ رہے۔ بنیادی ضروریات سے محرومی انسان کو بھیک مانگنے جیسے ذلیل فعل پر مجبور کر دیتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر چوری ، ڈاکے اور رشوت جیسے افعالِ بد کا عادی ہو جاتا ہے۔ انھیں افعالِ بد سے معاشرہ کو بچانے اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے اسلام نے زکوۃ اور دیگر صدقات ِ نافلہ و واجبہ کے نظام کو نافذ کیا ہے۔

 

پر تعیش اندازِ زندگی:

شاہانہ اندازِ زندگی بظاہر پرکشش نظر آتی ہے، حقیقت میں لا تعداد الجھنوں اور دشواریوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔بڑے بڑے محلات اور کروڑوں روپوں کی شاندار گاڑیاں پھر ان کو رکھنے کیلئے اسی قدر اہتمام کہ ضرورت سے ہزاروں گنا تعیشات کے اہتمام پر روپیہ خرچ ہو جاتا ہے۔ایک ایسا وقت آتا ہے کہ یہ انسان کی عادت بن جاتی ہے اور وہ اس عادت کو اپنے خیال میں ضرورت سمجھ رہا ہوتا ہے۔اور اسی پر تعیش زندگی کو اپنے موت و حیات کا مسئلہ بنا کر کمی اور نقصان کے ڈر سے اندھا دھند ہاتھ پاؤں مارتا ہے پھر حرام و حلال کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔اس قدر بے باک ہو جاتا ہے کہ حرام کو اپنا حق کہہ کر اس کے حصول میں لگ جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

 

﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾[64]

 

"کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔"

 

﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ﴾[65]

 

" اور فضول نہ اڑاؤ ، بے شک فضول اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں۔"

 

اسلام نے اس روش سے منع فرما کر درست روش راہِ اعتدال کی ترغیب دلائی ہے تا کہ متوقع نقصان سے محفوظ ہو جائے۔

 

﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا﴾[66]

 

"اور وہ کہ جب خرچ کریں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال میں رہیں۔"

 

مصنوعی ضروریات کے حصول کیلئے انسان اپنے خدا کو بھی بھلا بیٹھتا ہے ، اس سے اور کسی نیکی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہےجس نے اپنے بنانے والے مالک ، ربِ ذولجلال کی یاد کو پسِ پشت ڈال دیا۔ شیطان اس کے کرتوتوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔ شیطان نے اس انداز سے اللہ تعالیٰ کے سامنے اعلان کیا:

 

﴿لَاُزَيِّنَنَّ لَـهُـمْ فِى الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّـهُـمْ اَجْـمَعِيْنَ﴾ [67]

 

" میں زمین میں ان کیلئے دلفریبیاں پیدا کر کے انکو بہکا دوں گا۔"

 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 

﴿فَزَيَّنَ لَـهُـمُ الشَّيْطَانُ اَعْمَالَـهُـمْ﴾[68]

 

"شیطان ان کیلئے انکے کرتوتوں کو خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے۔"

 

ایسی صورت حال میں جبکہ شیطان کے جال میں مکمل طور پر جو پھنس چکا ہو اصلاح احوالِ رزق کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔حکیم محمد اسحاق ایسے شخص کی صورتحال پر اس انداز سے تبصرہ فرماتے ہیں:

 

" یہ قوم کے اخلاقی اور ایمانی ضعف و انحطاط کا نتیجہ ہے کہ عوام میں دنیوی معاملات یا تلاشِ معاش میں اسلامی احکام و حدود کا شعور بھی دب کر رہ گیا ہے۔ اور کمائی کے جدید از جدید ذرائع اختیار کرنے کے باوجود اپنی مصنوعی اور فرضی ضروریات کا جہنم بھی پر نہیں کر پاتے۔ اپنے ناجائز کاروبار کو چھپانے کیلئے مزید برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، اس طرح برائیوں اور گناہوں کی تہہ در تہہ تاریکیاں دل پر جمتی چلی جاتی ہیں۔ مادی دولت کی فراوانی انسانی زندگی کی رگِ حیات کو صالح خون مہیا نہیں کر سکتی جسکے نتیجہ میں اطمینان و قناعت اور صبر و شکر سے محرومی، معاشی سکون چھین لیتی ہے۔ سدا گناہوں سے کھیلنے کا عمل روح کی ویرانی کا ردِ عمل پیدا کر دیتا ہے۔"[69]

 

امراء و وزراء کی عیش کوشیاں اور شاہانہ زندگی کے منفی اثرات عام فردِ معاشرہ پر اس انداز سے رونما ہوتے ہیں کہ سادہ زندگی گزارنے والا بھی اندازِ زندگی کو بدلنے کیلئے حرام کا سہارا لیتا ہے۔ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری صاحب فرماتے ہیں:

 

" وہ لوگ جو حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور مناصبِ عالیہ پر فائز ہیں ، ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہیں اور دیگر ہمہ قسم کی مراعات مفت میں حاصل کرتے ہیں ، یہ لوگ بھی عیاشی کی دوڑ میں برابر کے شریک ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی اور ریس میں نچلے طبقے کے لوگ بھی عیاشی کی طرف بڑھنے کی کوشش میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے رشوت ستانی وغیرہ ایسی خرابیاں ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں ۔"[70]

 

مال پر تکبر اللہ کو پسند نہیں ، جس مالک نے مال کی فراوانی عطاء فرمائی وہ اس کو واپس لینے کی طاقت رکھتا ہے پچھلی قوموں نے مال اور معیشت کی فضیلت پر تکبر کیا تو اللہ نے ان کو مال و دولت سے محروم کر کے ان کو ان کے کیے کی سزا دی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ﴾[71]

 

"اور کتنے ہی شہر ہم نے ہلاک کر دیے جو اپنے عیش پر اترا گئے تھے، اور یہ ہیں ان کے مکان کہ انکے بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم، اور ہم ہی وارث ہیں۔"

 

جو مال کو بغیر محنت اور ناجائز طریقے پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا مال بڑھ جائے گا اور خوشحال ہو جائیں گے ان کی اس فاسد خیال کی تردید کی گئی ہے:

 

﴿وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾[72]

 

"اے قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو او لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔"

 

مال و دولت انسانی ضرورت تک تو اسلام نے اجازت دی ہے لیکن اس قدر مال کی محبت میں مبتلا ہو جانا کہ مال کے ہوتے ہوئے صاحبِ مال بخیل بن جائے اور مال کو اللہ کی راہ میں فقراء و مساکین میں خرچ نہ کرے اس سے منع کیا گیا ہے:

 

﴿وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾[73]

 

"اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو۔"

 

﴿وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴾[74]

 

"اور بے شک وہ مال کی محبت میں ضرور تیز ہے۔"

 

جو ہر وقت مال کے حصول میں لگے رہتے ہیں مال جوڑنےکے علاوہ کچھ انھیں سوجھتا ہی نہیں وہ خود اپنے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں:

 

﴿وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ﴾[75]

 

"خرابی ہے اس کیلئے جو منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔"

 

مال کی کثرت سے عارضی عزت تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اللہ کی بارگاہ میں اس شخص کی کوئی عزت نہیں جس نے فقط دنیا کمانے میں اپنی عمر بسر کر دی :

 

﴿وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى﴾[76]

 

"اور اسکا مال اسے کام نہ آئے گا جو ہلاکت میں پڑے گا۔"

 

مال کو جمع کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے کیلئے جہنم کی وعید ہے:

 

﴿الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا﴾[77]

 

"جو خود بخل کریں اور دوسروں کو بخل کا کہیں اور اللہ نے جو انکو اپنے فضل سے دیا ہےاسے چھپائیں اور کافروں کیلئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔"

 

خلاصہ تحقیق:

اللہ تعالیٰ نے رزقِ حلال کا کسب فرض قرار دیا ہے اور ساتھ حرام ذرائع رزق سے سختی سے منع فرمایا ہے۔مالِ حرام دنیا و آخرت کیلیے نقصان و خسران کا سبب ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر حرام سے بچنا اور دوسروں کو بچانا حتٰی المقدور ضروری ہے۔محتاجوں کی حوصلہ شکنی، رشتوں میں رکاوٹیں، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش، غلط سیاسی پالیسیاں اور پر تعیش اندازِ زندگی وہ اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے افرادِ معاشرہ کیلئے حلال رزق کا کسب مشکل ہو جاتا ہے۔

 

سفارشات:

  1. حلال و حرام ذرائعِ رزق میں فرق کی پہچان کیلئے جید علماء سے وقتاً فوقتاً تربیتی اجتماعات کرائے جائیں۔
  2. اسلام کے معاشی اخلاقی معیار کو بلند و عام کرنے کی ضرورت ہے۔
  3. عیش پرستی ، ہوس و لالچ اور رشوت جیسے مہلکات سے قوم کو بچانے کیلئے مؤثر قانون سازی کی جائے۔
  4. برسرقتدار بالخصوص اور حزبِ اختلاف و دیگر سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی منشور میں اسلامی معاشی نظام کو اولین ترجیح دیں اور عملی طور پر اس نظام کو فوراً رائج و نافذ کریں۔
  5. اس سارے نظام کی درستگی کیلئے قلب میں صحیح اسلامی روح کا ہونا سے زیادہ اہم و ضروری ہے۔

 

 

حوالہ جات

  1. مفتی سید صابر حسین ،سرمایہ کاری کے شرعی اصول(المنیب شریعہ اکیڈمی، کراچی، ۱۴۳۱ھ)، ص:۴۵
  2. عبد الرحمن شیخ زادہ ،مجمع النھار فی شرح البھار( دار الکتب العلمیہ، بیروت لبنان، ۱۴۱۹ھ)، ۴/۱۸۷
  3. سورۃالبقرۃ۷۵:۲
  4. سورۃ النحل۱۱۶:۱۶
  5. سورۃ المائدۃ ۹۰:۵
  6. سورۃ آل عمران۱۳۰:۳
  7. سورۃ یونس ۵۹:۱۰
  8. سورۃ المائدۃ ۱۰۰:۵
  9. سورۃ المائدۃ ۴۲:۵
  10. سورۃ النساء۲۹:۴
  11. سورۃالروم ۳۹:۳۰
  12. سورۃ العنکبوت ۱۷:۲۹
  13. سورۃ الجمعۃ ۱۱:۶۲
  14. سورۃ المزمل ۲۰:۷۳
  15. سورہ المائدۃ ۸۸:۵
  16. سورۃ البقرۃ ۱۶۸:۲
  17. سورۃ الاعراف ۱۵۷:۷
  18. سورۃ ھود ۶:۱۱
  19. سورۃ النور۳۸:۲۴
  20. سورۃ القصص ۸۲:۲۸
  21. سورۃ الذٰریٰت ۵۸:۵۱
  22. سورۃ الاعراف ۱۰:۷
  23. قضاعی ،ابو عبد اللہ محمد بن سلامۃ ، مسند الشہاب (مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ، ۱۴۰۷ھ)،حدیث:۱۲۱ ،۱/۱۰۴
  24. قرضاوی ،علامہ یوسف ،الحلال والحرام فی الاسلام(مترجم:اسلام میں حلال و حرام ،ترجمہ ازشمس پیر زادہ) (اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ستمبر ۲۰۱۰ء)،ص:۱۸۰
  25. السجستاني ،أبو داود سليمان بن اشعث ، السنن، کتاب الوتر، باب فی الستعاذۃ(دار الكتاب العربي ،بيروت،۲۰۰۸م)، حدیث:۱۵۴۶، ۱/۵۶۶
  26. البہیقی ،ابو بکر احمد بن حسین ،شعب الایمان (دار الکتب العلمیہ،بیروت، ۱۴۱۰ھ)، الحدیث:۶۶۱۲، ۵/۲۶۷
  27. الکتانی ،محمد عبد الحئ بن عبد الکبیر ،نظام الحکومۃ النبویۃ المسمی الترتیب الاداریۃ(دار الکتب العلمیۃ،بیروت، ۱۴۲۲ھ)، ۲/۲۳
  28. سورۃالجمعۃ ۱۰:۶۲
  29. الطبراني ،سليمان بن أحمد ،الْمُعْجَمُ الصَّغِيْرُ ، ( دار عمار ، بيروت ، ۱۴۰۵هــ ۱۹۸۵م)، حدیث:۷۴۹،۲/۴۲
  30. البخاری،محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح ،کتاب الزکاۃ، باب اذا تصدق علی غنی و ھو لا یعلم (دار ابن كثير ، بيروت، ۱۹۸۷ء)، حدیث:۱۴۲۱، ۲/۵۱۶
  31. سورۃ الماعون ۱:۱۰۷۔۷
  32. سورۃ البقرۃ ۱۹۵:۲
  33. سورۃ البقرۃ ۲۴۵:۲
  34. سورۃ آل عمران ۹۲:۳
  35. النسائي ،أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن ،السنن ( دار الكتب العلمیہ , بيروت، ۱۹۹۱ء)، الحدیث:۷۷۷۷، ۴/۴۲۳
  36. البخاری، الجامع الصحیح ،کتاب الإیمان،باب من الإیمان أن یحب لأخیہ مایحب لنفسہ،حدیث: ۱۳، ۱/۱۴
  37. سورۃ النور ۳۲:۲۴
  38. الازہری ،پیر محمد کرم شاہ ،ضیاء القرآن(ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور ۱۳۹۹ھ) ،۳/۳۲۱
  39. الصاوی، احمد بن محمد ،حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین(مکتبۃ روضۃ القرآن، پشاور،۱۹۹۵ء)،۳/۱۴۰۲
  40. برہان پوری ،علی متقی بن حسام الدین ہندی ،کنز العمال( متوفی ۹۷۵ھ)، کتاب النکاح(دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، ۱۴۱۹ء )، حدیث:۳۵۵۷۶، ۱۶/۲۰۳
  41. الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ (متوفیٰ ۲۷۹ھ)، الجامع ،ابواب فضائل الجھاد، باب ما جاء فی المجاھدالخ (دار الفکر ،بیروت، ۱۴۱۴ھ)، حدیث:۱۶۶۱، ۳/۲۴۷
  42. سورۃ یٰس ۴۷:۳۶
  43. سورۃ طہٰ ۳۱:۲۰
  44. سورۃ آل عمران ۱۳:۳۔۱۴
  45. سورۃ النحل ۷۱:۱۶
  46. سورۃ الاسراء ۳۰:۱۶
  47. سورۃ الانعام ۱۶۵:۶
  48. القشيري ،مسلم بن الحجاج ،الجامع الصحیح ،کتاب الزہد و الرقائق(دار الجيل بيروت بيروت،س۔ن)،حدیث:۷۶۰۶، ۸/۲۱۰
  49. البخاری ،الجامع الصحیح ،کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃالخ،حدیث:۶۰۵۷، ۵/۳۳۶۰
  50. ن۔م،حدیث:۱۴۰۴، ۲/۵۳۶
  51. الغزالي ، محمد بن محمد ،أبو حامد،إحياء علوم الدين، بیان حقیقت المحاسبہ بعد العمل( دار االمعرفة ، بيروت،س۔ن)،۴/۴۱۶
  52. محمد اسحاق ، حکیم ،اسلام کا معاشی معیارِ اخلاق،(میٹرو پرنٹرز حویلیاں، ایبٹ آباد ، ۲۰۰۰ء)،۲/۲۴
  53. سورۃ التوبۃ ۱۴:۹۔۱۵
  54. سورۃ الحشر ۷:۵۹
  55. قادری ،ڈاکٹر مفتی غلام سرور ،معاشیات نظامِ مصطفےٰ( مکتبہ رضویہ ، لاہور،۲۰۰۷ء)،ص:۷۸
  56. صدیقی ،ڈاکٹر جنات اللہ ،اسلام کا نظریۂ ملکیت(سلامک پبلی کیشنز ، لاہور، فروری ۲۰۰۶ء) ، ۱/۲۲۷
  57. القادری ،ڈاکٹر محمد طاہر ،اقتصادیاتِ اسلام (منہاج القرآن پرنٹرز، لاہور، مارچ۲۰۰۷ء)، ص:۱۳۶۔۱۳۵
  58. سورۃ الذاریات ۱۹:۵۱
  59. سورۃ التوبۃ ۱۰۳:۹
  60. القشیری ،الجامع الصحیح ،حدیث:۱۳۰، ۱/۳۷
  61. أحمد بن حنبل، أبو عبدالله ، المسند،( مؤسسة قرطبة ، القاهرة،س۔ن)، حدیث:۲۵۳۶۵، ۶/۱۶۵
  62. السجستانی ،السنن،کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث ذوی الارحام، حدیث:۲۹۰۳، ۳/۸۳
  63. مودودی ،ابو اعلیٰ ،اسلامی ریاست (اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۲۵جنوری،۱۹۶۷ء)، ص:۴۱۵
  64. سورۃ الاعراف ۳۱:۷
  65. سورۃ الاسراء ۲۷:۱۷۔۲۶
  66. سورۃ الفرقان ۶۷:۲۵
  67. سورۃ الحجر۳۹:۱۵
  68. سورۃ النحل۶۳:۱۶
  69. محمد اسحاق،اسلام کا معاشی معیارِ اخلاق ،۲/۲۴
  70. قادری ، ڈاکٹر مفتی غلام سرور ،معاشیات نظامِ مصطفےٰ،ص:۲۸۰
  71. سورۃ القصص ۵۸:۲۸
  72. سورۃ ھود ۸۵:۱۱
  73. سورۃ الفجر ۲۰:۸۹
  74. سورۃ العٰدیٰت ۸:۱۰۰
  75. سورۃ الھمزۃ ۱:۱۰۴۔۲
  76. سورۃ اللیل ۱۱:۹۲
  77. سورۃ النساء ۳۷:۴
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...