Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

آلودہ پانی کی مروجہ تحلیل و تطہیر کا سائنسی و شرعی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید:

اللہ نے اس زمین اور اس سے متصل تمام چیزوں کو بغیر کسی نقص کے پیدا کیا ہے۔ایسا متوازن نظام بنایا ہے جس میں کوئی خلل نہیں ہے۔انسانی زندگی اور تمام جاندار حیات کے لئے نہایت مناسب اور صاف ستھرا ماحول میسر کیا ہے۔اور ہر چیز کو احسن طریقے سے بنایا ہے۔قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ [1]

"جس نے نہایت خوب بنائی جو چیزبھی بنائی"

ایک اور جگہ فرمایا:

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ[2]

"یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہےکہ اس نے ہر چیز حکمت کے ساتھ بنائی ہے"

پانی اس زمین پر زندگی کی بنیادہے۔معیار زندگی کا براہ راست پانی کے معیار سے تعلق ہے۔اچھے معیار کا پانی انسانی اور ماحولیاتی بقا کا ضامن ہے۔جبکہ آلودہ پانی انسان اور ماحول پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔گذشتہ پچاس سالوں سے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی تیزی سے آلودہ ہوتا جارہا ہے۔روزانہ کی بنیاد پردو ملین ٹن گندہ پانی صاف پانی میں شامل ہوتا ہے۔یہ مسئلہ ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ جہاں نوے فیصد گندہ پانی اور سترہ فیصد غیر تطھیر شدہ صنعتی پانی سطح زمین کے اوپر پائے جانے والے پانیوں میں پھینک دیا جاتا ہےآلودہ پانی سے ہونے والی بیمارئیاں دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 5۔1 ملین بچوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔[3]

آلودگی کی تعریف:

کسی ایسی چیز کا اضافہ(مائع،گیس،ٹھوس)یا توانائی کی کوئی بھی شکل(جیسے حرارت،آواز،تابکاری)اس شرح سے ذیادہ تیزی سے ماحول میں شامل ہوتی ہو جس شرح پر وہ گلتی،حل یا منتشر ہوتی ہوتو آلودگی کہلاتی ہے۔آلودگی کی خاص قسمیں فضا کی آلودگی،پانی کی آلودگی،شور کی آلودگی،پلاسٹک کی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔[4]

آلودہ پانی کی تعریف:

قدرتی یا انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی کی ماہیت یا اجزاء ترکیبی میں ہونے والی تبدیلی جو پانی کو پینے، گھریلو استعمال،صنعتی ،تفریحی ،جنگلی حیات،اور دوسری ضروریات کے لئے غیر موافق بناتی ہے۔ایسے پانی کو آلودہ پانی کہا جاتا ہے۔[5]

پانی میں ایسی غیر ضروری اشیاء کا اضافہ جو کہ انسان حیوان اور آبی زندگی کےلئے خطرناک ہویا پانی کے اندریا اس کے گردوپیش معمولات زندگی کو متاثر کرے۔[6]

آلودہ پانی کے ذرائع:

پانی کو آلودہ کرنے کے مختلف ذرائع ہیں بعض ان میں معلوم ذرائع ہوتے ہیں جیسے کارخانوں سے چھوڑا ہوا پانی اور بعض نامعلوم ذرائع ہوتے ہیں جیسے بارش کا پانی جو اپنے ساتھ مختلف قسم کی آلودگیاں سمیٹ لیتا ہے اور پھر پانی کے ذخائر میں شامل ہو جاتی ہے۔پانی کو آلودہ کرنے کے ذرائع مندرج ذیل ہیں۔

گھریلو اخراج:

یہ گندہ پانی گھروں اور کمرشل اداروں کے فاضل پانی پر مشتمل ہوتا ہےگھریلو فاضل پانی کے ذرائع تو چھوٹے ہوتے ہیں مگر یہ ایک وسیع علاقے کو آلودہ کرنے کے سبب بنتے جاتے ہیں۔یہ پانی جب دریاؤں میں پہنچ جاتا ہےتو اس کی وجہ سے دریا میں امونیا ،فاسفیٹ اور نائیٹریٹ کی مقدار بڑھ جاتی ہےجس سے آبی حیات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہےاور پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہتا۔[7]

صنعتی فاضل مادے:

ذیادہ تر میٹھا پانی صنعتی مواد سے تیزی سے آلودہ ہو رہا ہے۔ جس میں کاغذ، کپڑا، چینی، لوہے، فائبر، ربڑ، پلاسٹک، کھادوں اور تیل صاف کرنے کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں سے آنے والا زہریلا اور گندا موادجس میں دھاتیں،تیزاب،الکلی،الکحل،سنکھیا،پیٹرولیم ،کلورین اور باقی دوسرےزہریلے اجزاء صاف پانی میں شامل ہوکر پانی کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔[8]

کیمیائی کھادیں اور سپرے:

اس قسم کی آلودگی میں فصلوں کو ڈالی جانے والی کیمیائی اور قدرتی کھاد اور ان پر چھڑکنے والے سپرے ہیں۔ان کھادوں میں نائیٹریٹ،سلفیٹ اور فاسفیٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔آب پاشی کے دوران ان کھادوں کا بہت سا حصہ آبی ذخائر میں شامل ہو جاتا ہےاسی طرح کیمیائی مواد کی مقدار پانی میں بڑھ جاتے ہے۔کیڑے مار ادویات جو استعمال کی جاتی ہیں وہ دھیرے دھیرے زمینی سطح کے اندرموجود پانی کے ساتھ شامل ہو کر ندی نالون اور سمندر تک جا پہنچتی ہیں جو نہ صرف فائدہ مند کیڑوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے بلکہ آبی حیات کو بھی تلف کرتی ہے۔[9]

تیل کی آلودگی:

تیل کی آلودگی سمندر میں نباتاتی اور حیوانی زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں۔جب یہ تیل بہہ جاتا ہےتو سمندر کی سطح پرایک تہہ بنا لیتا ہے جو کہ آکسیجن ،کاربن ڈائی آکسائیڈ اور روشنی کو سمندر کے اندر جانے سے روکتی ہے جس سے ضیائی تالیف کا عمل رک جاتا ہےجبکہ ضیائی تالیف آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے۔یہ تہہ سورج کی روشنی اور گرمائش کو اندر جانے سے روکتی ہےجس سے مونگوں اور اسفنج وغیرہ کو نقصان پہنچتا ہے اور غیر مقری ،سمندری نباتات اور حیوانات کی زندگی کوخطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔[10]

غلاظت اور کوڑا کرکٹ:

پانی کے ذخائر کے قریب بسنے والے لوگ گندا پانی ،کوڑا کرکٹ،صنعتی فاضل مواد پانی میں پھینکتے ہیں۔اسی طرح کشتیوں کو صاف کرنے کا پانی جس میں تیل بھی شامل ہوتا ہےاور تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے جہازوں کا گندبھی پانی میں گرایا جاتا ہےجو بری طرح آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔[11]

گارکی آلودگی:

زمین کے کٹاؤ سے بننے والا گاربھی آلودگی کا ایک ذریعہ ہے۔گار جو کھیتی باڑی،تعمیرات ،انہدام عمارت اور کان کنی کی وجہ سے پانی میں شامل ہونے والے غیر نامیاتی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ مچھلیوں کی افزائش نسل کو متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ چشموں کی تہہ کو ڈھانپ دیتا ہے اور روشنی کو اندر جانے سے روکتا ہے جس کی وجہ سے خوراک تلاش کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ براہ راست گلپھڑوں کومتاثرکرتاہے۔[12]

آب و ہوا میں مختلف گیسوں سے پھیلنے والی آلودگی:

جب آب و ہوا میں نائیٹروجن ،ہائیڈروجن،کاربن دائی آکسائیڈ،امونیا،سلفر ڈائی آکسائیڈ،ہائیڈروجن سلافائیڈ،وغیرہ حل شدہ گیسوں کا تناسب فضا میں وافر مقدار میں بڑھ جائےاور جب بارش ہوتی ہے تو بارش کے پانی میں حل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پانی میں ان کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔عام طور پر شہر اور صنعتی علاقے کی آب و ہواگاڑیوں اور صنعتی اخراج کی بدولت زیادہ آلودہ ہوتی ہے۔[13]

تابکاری:

جوھری ایندھن،جوھری ہتھیار کی صنعت کاری،حیاتیاتی تحقیق اور اس کا استعمال،اور بہت سی صنعتیں تابکار فاضل مواد پانی میں چھوڑتی ہیں۔[14]

آلودہ پانی کے اثرات:

جب پانی مختلف ذرائع سے آلودہ ہو جاتا ہےتو اس کے برے اثرات تمام جاندار حیات پر ہوتے ہیں۔آلودہ پانی کے اثرات مندرجذیل ہیں:

1۔سیورج میں موجود جراثیم اکثر و بیشترمتعدی امراض پھیلاتے ہیں جو کہ پانی کے استعمال کے ساتھ آبی و ارضی حیوانات کو بیمار کرتے ہیں۔پانی کی جراثیمی آلودگی ترقی پذیر ممالک میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔جہاں بچوں کی اموات کی بنیادی وجہ پانی سے پھیلنےوالی بڑی بیماریاں جیسےہیضہ اور ٹائیفائیڈ ہیں۔[15]

2۔صنعتی فضلہ میں کچھ زہریلے مواد کا ہلکا اثر ہوتا ہےجبکہ بعض جان لیوا ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ قوت مدافعت کے انسداد ،تولیدی نقائص اور شدید بدہضمی جیسے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔[16]

3۔ روس میں 1986 کے دوران نیوکلئیر ری ایکٹر کے پھٹنے سے ہمارے سمندروں پر تابکاری شعاعوںکا عمل بہت بڑھا دیا تھا۔اس وقت جنوبی بحر الکاہل کے وہ جزائر جو کہ ایٹمی منصوبوں کی مشق کے لئے استعمال ہوتے ہیں وہ ایک بڑی تعداد میں تابکار شعاعیں پانی میں چھوڑ دیں تو خس و خاشاک تیزی سے اپنے اردگرد یہ تابکار آئیوڈین اپنے ارد گرد جمع کر دیتی ہیں اور مچھلیاں مختلف قسم کی تابکار اشیاء جذب کر لیتی ہیں۔ اس طرح تابکار اشیاء بھاری دھاتوں کی طرح آبی حیات میں جمع ہو جاتی ہیں۔آبی حیات میں اسی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات ہو جاتی ہیں۔انسانوں میں متعدد کینسر کی اقسام خصوصا بچوں میں لیوکیمیا تابکاری شعاعوں کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔[17]

4۔مختلف کیڑے مکوڑوں کو مارنے کے لیے جو سپرے کیا جاتا ہےوہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے ایک دفعہ اگر یہ سپرےماحول میں داخل ہو جائے تو اس کا مہلک اثر غذائیت کے ذریعےایک جاندار سے دوسرے جاندارتک منتقل ہوتا ہے۔کسی ندی کے کنارے اگر کیڈس مکھی پر زہریلا سپرے کیا جاتا ہے تو خوراک کے ذریعے یہ زہر جھیل کے اردگردموجود پرندوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔[18] اسی طرح یہ کیمیکل انسانی جسم میں داخل ہو جائےتو تحلیل ہونے یا ٹوٹنے کے بجائےجسم کی چکنائی اور ٹشوز میں جمع ہو کرنئی نئی شکلیں اختیار کرتا ہے۔[19]

5۔کوئلہ پر چلنے والی پاور پلانٹس نقصان دہ کیمیکل جس میں پارہ بھی شامل ہوتا ہے فضا میں چھوڑتے ہیں اور یہ دھوئیں کی شکل میں تبدیل ہو کر بالآخر جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں مل جاتا ہے۔جب ایک دفعہ پارہ پانی میں شامل ہو جائےتو بیکٹیریا کے ساتھ حل ہو کرمیتھائل پارے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ سخت نقصان دہ کمپاؤنڈ بن جاتاہےجس کو مچھلیاں آسانی کے ساتھ ہضم کر لیتی ہیں۔ہر مچھلی میں اس مادے کی مقدار پائی جاتی ہےجبکہ مچھلی کی کچھ اقسام جیسے ٹیونا،سورڈفش اور میکرل میں خاص طور پر اس مادے کی مقدار ذیادہ پائی جاتی ہے۔یہ مادہ انسان کے اعصاب کو متاثر کرنے والا زہر ہے جو خاص کر بچوں میں پایا جاتا ہےجس کی وجہ سے سیکھنے کا عمل اور ذہانت متاثر ہو جاتا ہے۔[20]

6۔آلودہ پانی میں تیراکی اور دیگر کھیل جلد کی بیماریوں ،حساسیت،درد سر ،قے ،بخار وغیرہ کا سبب بنتا ہےاس کے علاوہ زیادہ بڑی بیماریاں جیسے یرقان اور ہیضہ وغیرہ کا موجب بھی بنتا ہے۔[21]

7۔پلاسٹک بھی آلودگی پھیلانے کا بڑا ذریعہ ہے۔جس کے گلنے سڑنے میں500 سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔[22] اسی طرح جب یہ پانی کے اوپر تیرتے ہیں تو مچھلیوں ،پرندوںاور دیگر آبی جانوروں کے قتل یا انہیں ضرر پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔سمندری کھچوے اکثر اوقات پلاسٹک کے لفافوں کو اپنی پسندیدہ خوراک سمجھ کرنگل لیتے ہیں جس کی وجہ سےان کے عمل انہضام کی نالی بند ہو جاتی ہے اور ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔[23] یہی پلاسٹک وہیل مچھلی ،ڈالفن اوردریائی بچھڑوں کو مارنے کا موجب ہے۔[24]

8۔تیل کی آلودگی کی وجہ سے نہ صرف سمندر کے اندر والے آبی حیات سخت خطرات سے دوچار ہوتے ہیں جبکہ پرندے خصوصاً پانی پر تیرنے والے تیل کی سطح کے مضر اثرات کا ہدف بنتے ہیں۔یہ تیل کیمیائی طور پرپرندوں کے ان قدرتی تیلوں کی ہئیت بگاڑ دیتے ہیں جو کہ ان کے لئے غیر موصولی سطح کے طور پر کام کرتے ہیں۔آخر کار یہ پرندے اپنی غیر موصولیت کھو کرسردیوں میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر اور جم کر مر جاتے ہیں۔صرف Torry Canonبحری جہاز حادثے میں25000 پرندے مر گئے تھے۔ Exon Valdezکے حادثے میں150 نایاب عقاب ختم ہو گئے۔اسی طرح 1000 بحری اود بلاؤ مر گئے تھے۔اس کے بعد کے سانحوں میں لاکھوں ہزاروں پرندے اور مچھلیاں مر گئی تھیں۔تیل کے ساتھ رابطے کی صورت میں تنفسی بیماریوں اور جگراور گردوں کے نقصان میں مبتلا ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔[25]

9۔حرارتی آلودگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب صنعتی کاروائیوں کے دوران گرم پانی تازہ پانی کے ذخائر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔صنعتیں اضافی حرارت کے اخراج کے لئے پانی کا استعمال کرتی ہیں جس کے بعد اس پانی کوتازہ پانی میں شامل کرنے سے پہلے تھوڑا ٹھنڈا کیا جاتا ہےمگر اس کا درجہ حرارت اپنی اصلی حالت سے پھر بھی کافی اونچا ہوتا ہے۔پانی کے ذخائر کا درجہ حرارت بڑھنے سےکئی اثرات مرتب ہوتے ہی۔حرارتی آلودگی کی وجہ سےپانی میں حل شدہ آکسیجن کا پیمانہ نیچے ہو جاتا ہے۔مچھلیاں آکسیجن حاصل کرنے کے لئے اپنے گلپھڑے ذیادہ کثرت سے استعمال کرتی ہیں۔جو مچھلیوں پر بہت ذیادہ دباؤ ڈالتی ہیں۔آبی حیوانات اور نباتات کے دیگر روزمرہ کے عوامل میں حرارتی آلودگی کے ساتھ اور بھی بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں کیونکہ درجہ حرارت کی وجہ سےافزائش نسل،ہاضماتی شرح،شرح استراحت وغیرہ سب پر اثر انداز ہوتا ہے۔شدید حرارتی آلودگی کی صورت میں مچھلیاں اور دیگر آبی نظام کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔[26]

10 ۔گھریلو فاضل مواد اور صنعتی فضلہ جات تالابوں کی روئیدگی میں معاونت کرتی ہیں –[27]چونکہ ان میں فاسفیت اور نائیٹریٹ کی مقدار ذیادہ ہوتی ہےتو اس وجہ سے یہ مرکبات روئیدگی میں معاون ہوتی ہیں۔یہ آبی پودوں پر مضر نشونما پانے والے مواد کا موجب ہے جیسا کہ کائی۔یہ پانی کے معیار کی بگاڑ ،ذائقے، اور بو کے مسائل،آکسیجن کے اخراج میں کمی،ماہی گیروں کے زوال وغیرہ کاذریعہ بنتے ہیں۔ان وجوہات کی بنا پر پانی کے ذخائر کا استعمال ذیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔تازہ پانی میں روئیدگی مویشیوں میں سنجیدہ بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔[28]اگر یہی پانی سبزیوں کو ڈالا جائے تو اس میں نائیٹریٹ کی مقدار بڑھ جاتی ہےجو چھوٹے بچوں کی صحت کے لئےخطرہ بن جاتا ہے۔[29]

11۔ڈی ڈی ٹی جوکھیتوں ،باغات،جنگلات ،گھروں میں،مضر کیڑوں اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کے انتہائی مضر اثرات ہیں۔یہ نہ صرف مضر بلکہ فائدہ مند کیڑوں کو بھی مار دیتی ہے۔پرندوں کی کئی نسلوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور ندیوں میں مچھلیاں تیزی سے مرنے لگیں۔درختوں کے پتوں پر ایک مہلک اور زہریلی تہ جم جاتی ہے اور زمین کی اوپر کی سطح کو ڈھانپ دیتی ہے۔[30]بعض علاقوں میں جہاں یہ سپرے ذیادہ استعمال ہوتا ہے وہاں عورتیں سرطان کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔[31]

12۔بعض جگہوں میں پانی میں سوڈیم فلورائیڈ ملایا جاتا ہے کہ یہ دانتوں کے لیئے مفید ہے مگر تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ انسانی صحت کے لئے ایسا پانی انتہائی نقصان دہ ہے۔یہ انسان میں ہڈیاں ٹوٹنے کے خطرات کو بڑھاتا ہے۔خراب صحت ،بچوں میں دماغی نقص کا اضا فہ کرتا ہے اور کینسر کےخلیوں کو بڑھاتا ہے۔[32]

اللہ تعالٰی نے اس زمین پر ہمیں صاف پانی مہیا کیا ہےلیکن یہ صاف پانی انسانوں کی وجہ سے آلودہ ہو رہا ہے۔اندھا دھند صنعتی ترقی ،گیس و کوئلہ کا استعمال ،کیڑے مار ادویات اور انسانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے پانی نہ صرف انسانوں کے لئے مضر صحت بن رہا ہے بلکہ پانی کے اندر اللہ تعالٰی نے جو آبی حیات پیدا کی ہیں انسانی فائدوں کے لیے وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں۔پانی کے بغیر نہ اس زمیں پر زندگی ممکن ہےاور نہ ہی انسانی غذائیت پوری ہو سکتی ہے۔قران میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ[33]

"خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وه باز آجائیں۔"

پانی کو آلودگی سے بچانے کی اسلامی تعلیمات :

پانی اس زمین پر زندگی کی علامت ہے اس لئے اس کو آلودگی سے بچانا ہمارا فرض ہے۔قرآن پا ک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ[34]

اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو

حضور ﷺ کا ارشاد ہے:

"عن الرسول ﷺ انه نهي ان يبال في الماء الراكد"[35]

"رسول ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے "

ایک اور جگہ فرمایا :

"قال اطفؤا المصابیح اذا رقدتم و غلقوا الابواب اوکوا الماسقية و خمروا الطعام والشراب"[36]

" جب تم سونے لگو تو چراغ بجھا دو،دروازے بند کرو،مشکوں کے منہ باندھ دو اور کھانے پینےکے برتنوں کو ڈھانپ دو ۔"

یہ حکم اس لئے فرمایا ہے کہ کہیں پانی میں آلودگی نہ چلی جائے ،ہوا کے ذریعے کوئی کیڑا نہ گر جائے جو مختلف قسم کے وائرس منتقل کرتا ہو یا دوسری ضرر رساں بیماریوں کا سبب بنتا ہو۔

آلودہ پانی کی تحلیل و تطھیر کا سائنسی جائزہ:

زراعت میں سب سے پہلے گندے پانی کا استعمال آسٹریلیا ،فرانس،جرمنی نے کیا۔انیسویں صدی میں برطانیہ اور امریکہ نے بھی اس کا استعمال شروع کیا۔اکثر ملکوں میں آلودہ پانی کی تطہیر کر کے اس کا دوبارہ استعمال نمایاں طور پر وسیع ہو گیا ہےجن میں اسرائیل ،اردن،پیرو اور سعودی عرب بھی شامل ہے جہاں خاص طور پر کھیتوں کی آبپاشی کے لئےیہ پانی دوبارہ استعمال کرنا حکومتی پالیسی ہے۔چونکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز ترین صنعتی ترقی کی بدولت پانی کے وسائل کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ پانی کے ذخائر زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے فضلہ پانی کا دوبارہ استعمال ایک جاذب نقطہ نظر بن چکا ہے۔[37]

آلودہ پانی کی تحلیل و تطہیر:

انسانی صحت اور قدرتی ماحول کو کسی نقصان سے بچانے کے لئےگھریلو اور صنعتی استعمال شدہ پانی کا محفوظ بندوبست کرنے کی غرض سے عام طور پر گندے پانی کی تحلیل و تطہیر کی جاتی ہے اور اس کے مندرجہ ذیل مراحل ہیں:

1۔ابتدائی تحلیل

2۔بنیادی تحلیل

3۔ثانوی تحلیل

4۔ثالثی تحلیل

5۔فضلہ پانی کی جراثیم کشی

ابتدائی تحلیل:

سیورج کی ابتدائی تحلیل اس بڑے ٹھوس مواد کو الگ کرتی ہے جو نالیوں کے ذریعے اس تک پہنچا ہوتا ہے اور جو پلانٹ میں بہاؤ کے دوران رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے یا مشینی سامان خراب کر سکتی ہے۔یہ مواد لکڑی، نجاستی و فضلاتی اشیاء اور بجری کے بڑے ذرات کی طرح تیرتی ہوئی اشیاء پر مشتمل ہوتی ہے۔10 سے 60 ملی میٹر کے فاصلے پر بنی ہوئی سلاخوں سے سیورج گزار کر الگ کیا جاتا ہے۔رہ جانے والا مواد باقاعدہ وقفوں سے سلاخوں سے کریدا جاتا ہے۔[38]

بنیادی تحلیل:

سخت اور باریک ٹھوس اجزاء کو طبعی و کیمیائی عمل کے بعد تہہ اندوزی ،کیمیاوی انجماد اور تبخیر کے مراحل سے گزار کر الگ کیا جاتا ہے۔[39]

ثانوی تحلیل:

یہ منجمد اور حل شدہ نامیاتی اجزاء کے ہٹانے کا عمل ہےاور حیاتی توڑ پھوڑاور حیاتی جاذبیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک خالص حیایتیاتی طریقہ ہے۔[40]

ثالثی تحلیل:

فضلہ پانی میں پائے جانے والے ان خاص اجزاء کی تحلیل کے لئے جو کہ ثانوی تحلیل سے محو نہیں کیئے جا سکتے۔یہ عمل بروئے کار لایا جاتا ہے۔نائیٹروجن،فاسفورس،فاضل معطل ٹھوس اشیاء،دیگر نامیاتی اجزاء،بھاری دھاتیں اور حل شدہ ٹھوس اشیاء کی برطرفی کے لئےانفرادی مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔[41]

فضلہ پانی کی جراثیم کشی:

بنیادی،ثانوی یہاں تک کہ ثالثی تحلیل کے عوامل سے درپیش فضلہ کی سو فیصد تحلیل کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نتیجتا ًپانی میں بہت سے زہریلے عناصر رہ جاتے ہیں۔پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچنےکے لئے اور عوام کی صحت کے مسائل کو کم کرنے کے لئےپانی میں موجود خطرناک جراثیم کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے کلورین اور اوزون جیسے کیمیکل پانی میں ملائے جاتے ہیں۔[42]

ان تمام مراحل سے پانی کو گزار کر اکثر ممالک میں ایسا پانی زراعت ،صنعت اور فارم ہاؤس،گھریلو استعمال جیسے باغبانی وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور بہت کم علاقوں میں پینے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔

آلودہ پانی کی تحلیل و تطہیر کا شرعی جائزہ:

صنعتی و زراعتی ترقی ،بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پانی کا استعمال دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہےچونکہ اس زمین پر میٹھے پانی کی مقدار کم ہے اس لیئے یہ کوشش کی جا رہی ہےکہ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے۔اکثر ملکوں میں استعمال شدہ پانی کو مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے جس میں باریک اور سخت ٹھوس اجزاء،منجمد اور حل شدہ نامیاتی اجزاء کوطبعی، حیاتیاتی و کیمیائی طریقے سے ہٹایا جاتا ہے۔ ان مراحل کے باوجود اگر پانی میں کچھ زہریلے عناصر رہ جائیں تو ان میں کلورین اور اوزون گیس ملا کر ان جراثیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان تمام مراحل سے پانی کو گزار کر اکثر ممالک میں ایسا پانی زراعت ،صنعت اور فارم ہاؤس،گھریلو استعمال جیسے باغبانی وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور بہت کم علاقوں میں پینے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔

جو پانی دوبارہ تحلیل و تطہیر کیا جاتا ہے ان کے مراحل مندرج ذیل ہیں:

1۔گٹر کا پانی

2۔صنعتوں سے آنے والا پانی

3۔بعض ممالک میں بارش کا پانی ٹینکوں میں جمع کیا جاتا ہے۔

4۔برتن دھونے اور کپڑے دھونے کے ذرائع سے آنے والا پانی۔

اب شریعت کی رو سے یہ دیکھا جائے گا کہ ایسا پانی استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ،یا کن مقاصد کے لیئے استعمال ہوسکتا ہے اور یہ پانی پاک پانی میں شمار ہو گا یا نجس پانی میں شمار ہو گا۔

پانی کی اقسام:

فقہاء کرام نے پانی کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں اور ان کے احکامات کا ذکر کیا ہے:

ماءمطلق:

اس سے مراد بارش کا پانی ،کنوئیں کا پانی وغیرہ ہے۔

حکم:

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ پانی بذات خود بھی پاک ہے دوسری اشیاء کو بھی پاک کرنے والا ہےاس پانی کو پینا ،وضو کرنا،غسل کرنا،ناپاک کپڑوں اور برتنوں کو دھونا جائز ہے۔[43]

ماء مستعمل:

اس سے مراد وہ پانی ہے جو غسل ،وضو یا کسی پاک چیز کی دھلائی کے لیئے استعمال ہوا ہو۔

حکم:

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ پانی خود تو پاک ہے لیکن دوسری چیز کو پاک نہیں کر سکتا ہے۔اس پانی کو وضو اور غسل کے لئے نہیں استعمال کیا جا سکتا ہے البتہ زراعت و باغبانی وغیرہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔[44]

ماء نجس :

نجس کے لغوی معنی ہیں"وہ چیز جو کلیۃ نجس ہو جس کا کھانا ،پینا، چھونا،لگانا ممنوع اور ناجائز ہے"۔[45] یعنی وہ اشیاءجو ذات کے لحاظ سے نجس ہوں اور طہارت دینے کےعمل سے پاک نہ ہوں [46]اور یہ وہ پانی ہے جس میں ناپاک چیز ملی ہو ۔ جیسے خون، پیشاب وغیرہ ۔

حکم:

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ پانی نہ تو خود پاک ہے اور نہ ہی دوسری چیز کو پاک کر سکتا ہے۔اس پانی کو وضو اور غسل کے لئے نہیں استعمال کیا جا سکتا ہے البتہ زراعت و باغبانی وغیرہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔[47]

پانی اور استحالہ:

پانی کے ساتھ نجاست مل جائےتو پانی ناپاک ہو جاتا ہے پھر اس کو مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے اور اس پانی سے گندے اور بدبودار اجزاء نکال دیئے جاتے ہیں اب اس پانی کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کی اس عمل سے پانی پاک ہوجاتا ہے یا نہیں اور جو تبدیلی آرہی ہے وہ کس قسم کی ہے –اس تبدیلی کو اصطلاح میں" استحالہ"کہتے ہیں۔

فقہی اصطلاح میں اصل حقیقت کو اس طرح دوسرے معنی میں منتقل کرنا کہ اس کے بعض یا تمام معانی کے مفہوم کی نفی کی جائے[48] یاایک چیز کی فطری اور خصوصی ماہیت کو تبدیل کرنا ۔[49]

ڈاکٹر نزیہ حماد اپنی تصنیف میں بحوالہ ڈاکٹر محمد الھواری کے "استحالہ" سے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ سائنسی اصطلاح میں ہر اس کیمیائی عمل کو کہا جاتا ہے جو ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں اس طرح تبدیل کرنے کا نام ہے کہ گویا وہ ایک اصل چیز ایک دوسری اصل و منتقل چیز میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسے تیل اور چربیوں کا اپنے اصل مصادرکے اختلاف کے باوجودصابون میں تبدیل ہو جانا۔[50]

فقہی احکامات:

پانی اور استحالہ کے حوالے سے 1398 ھ میں سعودی عرب کے شہر طائف میں سینئر علماء کونسل کے 13 ویں اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا جس کا مفہوم کچھ یو ں ہے :

"پانی کو آلودگیوں سے پاک و صاف کرنے پر بہت سے وسائل خرچ کئے جاتے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق و تائید اس میدان میں تخصص رکھنے والے ماہرین نے کی اور یہ وہ ماہرین ہیں جن کے عمل ،تجربہ اور مہارت میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔اس لئے اس بورڈ کا اس پانی کےبارے میں خیال ہے کہ جب تک وہ تمام آلائشوں سے مکمل طور پر اس طرح پاک و صاف ہو جائے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں آجائےاس طرح کہ نجاست کی وجہ سے اس کے ذائقہ ،رنگ اور بو وغیرہ میں فرق نہ پڑا ہو تو اس کا وضو کے لیے استعمال کرنا جائز ہے اور اس کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جا سکتی ہےنیز اس کا پینا بھی جائز ہے بشرطیکہ اس کے پینے سے اس میں موجود ضرررساں اشیاء سے صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑتا ہو اور اس کا استعمال اس لیئے ممنوع ہے تاکہ جان کی حفاظت کی جائے اور ضرر کو دفع کیا جائے نہ کہ نجاست کی وجہ سے۔"[51]

پانی کے اس فلٹر والے عمل کے بارے میں مفتی جمیل احمد نذیری اپنے مقالہ "انقلاب ماہیت اور اس کے احکام"میں لکھتے ہیں:

"فلٹر کے عمل کو انقلاب ماہیت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کے نتیجہ میں خصوصیات تو بدل جاتی ہیں لیکن اس چیز کی حقیقت و ماہیت نہیں بدلتی، اس کو تحلیل تو کہا جا سکتا ہے لیکن تطہیر نہیں کہا جا سکتا۔تجزیاتی عمل سے ناپاک اجزاء تو نکال دیئے جاتے ہیں لیکن جو اثر پانی میں مل جاتا ہے وہ پانی کو ناپاک کر دیتا ہے اور اس کو پاک کرنے کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ اسے ماء کثیر میں ملا دیا جائے۔" [52]

چونکہ پانی تجزیہ کرنے سے اور فلٹر سے غالبا پانی کی حقیقت اور ماہیت نہیں بدلتی بلکہ صرف اس سائنٹفک طریقہ سے پانی سے گندے اور بدبودار اجزاء کو نکال کر صاف کردیا جاتا ہے جس سے پانی تو صاف ہو جاتا ہے لیکن پاک نہیں ہوتا اور شریعت میں صاف ہونا جدا چیز ہے اور پاک ہونا جدا چیز ہے مثلاً ایک ناپاک کپڑے کو اگر ایک مرتبہ دھو لیا جائے تو اس سے وہ صاف تو ہو جائے گا لیکن پاک نہیں ہو گا اس وجہ سے ماء نجس اور گٹر اور صنعتوں کا وہ پانی جس میں نجس اجزاء ملے ہوں اس تحلیل و تجزیے کے بعد صاف تو ہو جائے گا لیکن پاک نہ ہو گا۔ چنانچہ اس کو پینے کے لیے استعمال کرنا ،اس سے وضو اور غسل کرنا یا برتن دھونا وغیرہ جائز نہ ہو گا۔البتہ اس کو زراعت اور باغبانی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس استعمال کے لئے پانی کا پاک ہونا شرط نہیں ہے۔[53]

2۔بارش کا پانی فلٹر اور بغیر فلٹر کئے ہر قسم کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔[54]

3۔نجس پانی کے علاوہ جو دوسرے ذرائع سے آنے والا پانی ہے وہ پانی تو پاک ہو جائے گا لیکن دوسری چیز کو پاک نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے اس تحلیل و تطہیر کے بعد اس کو پینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے البتہ غسل اور وضو کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے پانی کی مُطہِّر ہو نا شرط ہے۔[55] اس کی دلیل مندرجہ ذیل ہے :

"اور مستعمل پانی وہ ہو تا ہے جس سے کوئی حدث دور کیا گیا ہو یا وہ بطور تقرب کے بدن میں استعمال کیا گیا ہو اور پانی مستعمل ہو جاتا ہےجوں ہی وہ عضو سے جدا ہو جائے [56]اور ہر وہ پانی جس میں نجاست گر جائے تو اس پانی کے ساتھ وضو جائز نہیں ہے خواہ نجاست تھوڑی ہو یا زیادہ [57]علمائے کرام نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے کی اگر نجس چیز کی ماہیت و حقیقت بدل دی جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے جیسے اگر کوئی جانور نمک کی کان میں مر کر نمک ہو جائے تو اس نمک کا استعمال جائز ہے –اس صورت میں مردہ جانور کی حقیقت اور ماہیت بدل گئی یا شراب سے سرکہ بنا لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ سرکہ بننے سے شران کی حقیقت بدل گئی۔"[58]

خلاصہ بحث:

نجس پانی کو چونکہ مختلف طریقوں سے پاک کیا جاتا ہے اس لیئے تحلیل و تطہیر کے بعد یہ پانی طہارت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں دو آراء ہیں:* طائف میں ہونے والے کبار علماء کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر نجس پانی تطہیر کے اس عمل سے گزارا جائے تو وہ پانی پاک ہو جاتا ہے اور اس کو وضو اور غسل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے علماء کی رائے کے مطابق تطہیر والے اس عمل کو انقلاب ماہیت نہیں کہا جا سکتا اس لئےاس پانی سے طہارت حاصل نہیں کی جا سکتی البتہ باقی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. سورۃ السجدہ:7 Surah al Sajdah: 7
  2. سورۃ النمل :88 Surah al Namal: 88
  3. Clean water for Healthy World, UN Water Day, (2010): 1
  4. http:www.encyclopediabrittanica pollution
  5. Goel,P.K, Water Pollution Causes Effect and Control, New Age International Publishers, India, (2006), 1
  6. Sharma,B.K, Water Pollution, (Shan Media, India, 2005), 34
  7. ماحول اور اسلام،نیشنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن ،پشاور،2003،ص: 41 Mahowl awr Islam, (Peshawar: National Research and Development Foundation, 2003), 41
  8. Mishra, S.N, Swarup, R, Encyclopedia of Ecology, Environment and Pollution Control, (Delhi: Mittal Publication, 1992), 184
  9. ماحول اور اسلام،ص:42 Mahowl awr Islam, 42
  10. Jamil, Muhammad Assayed, translated by Laheen Haddad, Study environmental issues with Quran and Sunnah, (Rabat: Islamic Educational, Scientific and Cultural Organization, Rabat, 1999), 66
  11. Dipper, Frances, Tait, R.V, Elements of Marine Ecology, (Butterworth Heinemann, UK, 1998), 397
  12. Jeffery Peirce, Environmental Pollution and Control, (Butterworth Heinemann, 1998), 33
  13. Agarwal, S.K, Water Pollution, (India: APH Publishing Corporation, 2009), 41-42
  14. Jeffery Peirce, Environmental Pollution and Control, 224
  15. Sujhata, C.H, River and Lake Pollution, Edited by, Tsehung, Yung, Handbook of Environment and Waste Management, (Singapore: World Scientific Publication, 2012), 908
  16. Ibid
  17. Dipper ,Frances ,Tait, R.V, Elements of Marine Ecology, 409
  18. Carson, Rachel, Silent Spring, Fawcett Publications, Greenwich , 100
  19. Carson, Rachel, Silent Spring, 101
  20. کیری،جان،کیری ،ٹریسا،مترجم،رامے،پروفیسر زاہد،ماحولیات اور ہماری زمین،تخلیقات ،لاہور،2008،ص:74 Kerry, John, Taresa, Maholiyāt awr Hamarī Zamīn, Urdu Translation by Professor Zahid Ramay, (Lahore: Takhlīqāt, 2008), 74
  21. Sayre, April Pulley, Sea Shore, (Twenty First Century Book, USA, 1996), 59
  22. ایضاً، ص: 22 Ibid., 22
  23. القرضاوی ،یوسف،رعایۃ البیئہ فی شریعۃ الاسلام،دار الشروق ،القاہرہ، 2001،ص:165 Al Qardhawi, Yuwsuf, Ri’āyah al Biy’ah fī Shari’āh al Islam, (Cairo: Dār al Shuruwq, 2001), 165
  24. Sayre, April pulley, Sea Shore, 64
  25. Sharma, B.K, Water Pollution, 71
  26. Raven ,Peter H, Zahid, Hassan, Environment, (USA: John Wiley and Sons, 2012), 446
  27. Eutrophication: Causes, Consequence, Correctives, (Washington, National Academy of Science, 1969), 4
  28. Agarwal,S.K , Water Pollution, 267
  29. Tyerly, T.C, Nitrogen Compound Used in Crop Productive, edited by Singer, S.F, Global Effect of Environmental Pollution, (Netherlands: Klouwer Academic Publishers, 1970), 104
  30. Carson Racheal, Silent Spring, 13
  31. کیری،جان،کیری ،ٹریسا،مترجم،رامے،پروفیسر زاہد،ماحولیات اور ہماری زمین، ص:49 Kerry, John, Taresa, Maḥoliyat awr Hamari Zamīn, Urdu Translation by Professor Zahid Ramay, (Lahore: Takhliyqāt, 2008), 49
  32. Bragg, Paul C, Bragg, Patricia, Water the Shocking truth that can Save Our Lives, (USA: Health Science), 18
  33. سورۃ الروم:41 Surah al Ruwm: 41
  34. سورۃ البقرۃ:60 Surah Al Baqarah: 60
  35. ابن ماجہ القزوینی،یزید، حافظ ابو عبداللہ محمد ،ترجمہ امین،محمد قاسم،سنن ابن ماجہ،مکتبہ العلم، لاہور ،سال اشاعت نامعلوم، باب النہی عن البول فی الماء الراکد،کتاب الطھارہ،حدیث: 35 Al Qazwiyni, Ibn e Majah, Ḥafiz Abu ‘Abdullah Muḥammad, Sunan Ibn e Majah, (Lahore: Maktabah al ‘Ilm), Ḥadith
    1. 35, Urdu Translation by Muḥammad Qasim Amin
  36. بخاری ، ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل،ترجمہ،دراز،مولانا محمد داؤد،صحیح بخاری،مرکز جمعیت اہل حدیث ہند،2004،باب تغطیۃ الاناء،کتاب الاشربہ،حدیث: 5623 Bukhari, Abu ‘Abdullah Muḥammad bin Isma’il, Ṣaḥiḥ Bukhari, (India: Markaz Jam’iyyat Ahl e Ḥadith, 2004), Ḥadith
    1. 5623, Urdu Translation by Mauwlana Muḥammad Daw’ud Daraz
  37. Health Guideline for the Use of Waste Water in Agriculture and Aquaculture, (Geneva: WHO Technical Report Series,778, 1989), 10
  38. Tebbut, T.H.Y, Principle of Water Quality Control, (UK: Butterworth-Heinemann Publications, 1998), 127
  39. Yadav,P.R, Environmental Biotechnology, (New Delhi: Discovery Publication House, 2006), 98
  40. Ibid
  41. Pescod, M.B, Waste Water Treatment and Use in Agriculture, (FAO Irrigation and Drainage, paper 47, FAO of UN, Rome, 1992), 43
  42. Abdel,Raouf, N, Al Homaidan, A.A, Ibrahim, I.B.M, Micro Algae and waste water treatment, Saudi Journal of Biological Sciences, King Sa’ud University, volume 19, issue 3(2012): 261
  43. الجزیری،عبد الرحمن،ترجمہ عباسی ،منظور احسن،کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ،علماء اکیڈمی شعبہ مطبوعات،محکمہ اوقاف،پنجاب، 2006، ص: 33 Al Jaziyri, ‘Abdur Raḥmān, Kitab al Fiqh ‘Ala Madhahib al A’rba’ah, (Oqāf Department Punjab: ‘Ulama’ Academy, 2006), 33, Urdu Translation by Manzuwr Aḥsan ‘Abbasi
  44. ایضاً،ص: 41 Ibid., 41
  45. فیروز الدین،مولوی،فیروز اللغات،لاہور،فیروزسنز لمیٹڈ،طبع وسن اشاعت ندارد،ص: 1352 Mawlawi, Feroz al Din, Feroz al Lughāt, (Lahore: Feroz Sons Limited), p;1352
  46. خان،تصنیف اللہ،اکبر،ڈاکٹر جنید،نجس العین کے استحالہ کے فقہی احکامات:ایک تجزیاتی مطالعہ، معارف اسلامی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، جون 2016، ص:162 Khan, Taṣnifullah, Akbar, Dr. Junaid, Najas al ‘Aiyn ky Istiḥalah ky Fiqhī Aḥkāmāt: Ek Tajziyatī Mutala’ah, Ma’ārif-e-Islāmī,Allama Iqbal Open University, Islamabad, (June 2016): 162
  47. الجزیری،عبد الرحمن،ترجمہ عباسی ،منظور احسن،کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ،علماء اکیڈمی شعبہ مطبوعات،محکمہ اوقاف ، پنجاب،2006،ص: 52,53 Al Jaziyri, ‘Abdur Raḥmān, Kitab al Fiqh ‘Ala Madhahib al A’rba’ah, (Oqāf Department Punjab: ‘Ulama’ Academy, 2006), 52,53, (Urdu Translation by Manzuwr Aḥsan ‘Abbasi)
  48. ابن عابدین،محمد امین بن عبد العزیز،رد المحتارعلی الدر المختار،دار الفکر،بیروت،1992،باب الانجاس،1:327 Ibn ‘Abidiyn, Muḥammad Amin bin ‘Abdul ‘Aziz, Radd al Muḥtār ‘Ala al Durr al Mukhtār, (Beirut: Dār al Fikr, 1992), 1:327
  49. احمد بن محمد بن علی،ابوالعباس،المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر،المکتبۃ العلمیہ،بیروت،باب ح و ل،1:157 Aḥmād bin Muḥammad bin ‘Ali, Abu al ‘Abbas, Al Miṣbāḥ al Munīr fī Ghārīb al Sharh al Kabīr, (Beirut: Al Maktabah Al ‘Ilmiyyah), 1:157
  50. حماد،الدکتور نزیہ،الموادالمحرمۃ و النجسۃ فی الغذاء والدواء،دار القلم،دمشق،2004،ص:16 Ḥammād, Dr. Naziyyah, Al Mawad al Muḥarramah wal Naḥbah fi al Ghaẓa’ wal Dawa’, (Damascus: Dār al Qalam, 2004), 16
  51. الامانۃ العامۃ لہیئۃ الکبار العلماء،المجلہ البحوث الاسلامیہ،العدد السابع عشر،دار اولی النھی،ریاض،1406ھ،ص: 40,41 Al Amanah al ‘Ammah li Hay’ah al Kibār al ‘Ulama’, Al Majallah al Buḥuws al Islāmiyyah, Riyadh: Dār Auwla al Nuha, Number: 17 (1406): 40,41
  52. نذیری،جمیل احمد،انقلاب ماہیت اور اس کے احکام ،جدید فقہی مباحث،ادارہ القرآن و العلوم الاسلامیہ،کراچی،2009،18:176 Naziri, Jamil Aḥmād, Inqalab e Mahiyat awr Us k Aḥkām, Jadeed Fiqhi Mabaḥith, (Karachi: Idarah al Qur’ān wal ‘Uluwm al Islamiyyah), 18:176
  53. دار الافتاء،جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ ،پشاور ،صدر،تاریخ 10 ستمبر 2014،فتوی نمبر: 16944 Darul Ifta’, Jami’a Imdad al ‘Uluwm al Islamiyyah, Peshawar, Fatwa
    1. 16944, Dated: 10 September 2014
  54. ایضاً Ibid.
  55. ایضاً Ibid.
  56. احمد،جمیل،اشرف الھدایہ،مکتبہ حقانیہ،ملتان ،سال اشاعت نا معلوم،کتاب الطھارۃ،1:164,165 Aḥmād, Jamil, Ashraf al Hidayah, (Multan: Maktabah Ḥaqqaniyyah), 1:164,165
  57. ایضاً،ص: 150 Ibid., 150
  58. الزحیلی،الدکتور وھبۃ ، الفقہ الاسلامی و ادلتہ،دار الفکر،دمشق،1985،کتاب الطھارۃ،1:100 Al Zuḥayli, Dr. Wahbah, Al Fiqh al Islami wa Adillatuhu, (Damascus: Dār al Fikr, 1985), 1:100
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...