Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

اسلامی فوجداریت کا ضابطۂ قرائن |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید:

فقہ اور قانونی اصطلاح میں قرینہ اس معاون دلیل کو کہا جاتا ہے جو کسی فوجداری مقدمہ میں جرم، طریقۂ جرم اور جائےواردات کے ساتھ منسلک آرہی ہوتی ہے اور اپنی جداگانہ حیثیت میں عدالت کے ساتھ معاونت کرتی ہے۔ اسے انگریزی میں "Circumstantial Evidence" کہا جاتا ہے۔ قدیم اور جدید قوانین میں قرینہ کو بطورِ دلیل قبول کرنے کے لئے نپے تلے ضوابط (Procedures) مقرر ہیں۔ زیرِ نظر موضوع قرینہ کو بطورِ دلیلِ جرم قبول کرنے سے متعلق اسلامی ضابطہ کو اجاگر کرتا ہے۔

قدیم و جدید مسلمان فقہا اور قانون دانوں نے قرینہ اور اس کی قانونی حیثیت کے بارے بحث کی ہے۔ امام ابن القیمؒ، فاضل جسٹس انوار اللہ اور معاصر محقق علی الرکبان وغیرہ نے قرائن سے متعلق قابلِ قدر مواد فراہم کیا ہے۔ مقالہ زیرِ نظر میں مسلمان فقہاء اور ماہرینِ قانون کی آراء کی روشنی میں اسلامی فوجداریت کے ضابطہ قرائن کو اجاگر کرنے، ضابطہ قرائن کے تحت مقدمات کو آگے بڑھانے و نمٹانے اور قرائن کے جدید قضایا (DNA وغیرہ) زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ مغربی ماہرین قانون کی آرا کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔

بنیادی سوالاتِ تحقیق:

یہ تحقیقی مقالہ ان سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے:

  1. قرینہ کی اصطلاح کا قانونی مطلب و مفہوم کیا ہے؟
  2. اسلامی فوجداریت میں ضابطہ قرائن کا قانونی مقام کیا ہے؟
  3. جرم و سزا کے اثبات یا نفی میں قرینہ کس حد تک مؤثر اور معتبر ہوتا ہے؟

منہجِ:

مقالہ کا اسلوب بیانیہ اور تجزیاتی ہے۔ بحث کے آخر میں نتائج ذکر کئے گئے ہیں۔

قرینہ کا مفہوم:

لفظِ قرینہ/ قرائن عربی مادہ "قرن" کی ایک اشتقاقی صورت ہے، جو مقارنۃ کے وزن پر مفاعلہ کے باب سے ہے جس کے لغوی معنی مصاحبت (Companionships) کے ہیں۔ اسی بنا پر ساتھی اور مصاحب کو قرین کہا جاتا ہے[1] یا جب تاریخ کے متعدد ادوار باہم متصل ہوں تو ہر دور دوسرے کا قرن (جمع قرون) گردانا جاتا ہے۔

از روئے فقہ پیش آمدہ فوجداری واقعہ کے ساتھ کبھی کچھ مخفی عوامل لاحق ہوتے ہیں جو بظاہر تو امر واقعہ کے وقوع پر دلالت نہیں کرتے، لیکن اگر ان عوامل کو استقصائی مراحل سے گزارا جائے تو ممکن ہے کہ پیش آمدہ مقدمہ سے متعلق ظاہری اِشکال کے مقابلے میں اس قسم کے مخفی عوامل زیادہ با اعتماد ثابت ہوں[2] یا یہ کہ قرینہ کسی امر کے وقوع یا عدم وقوع پر دلالت کرنے والی کوئی ایسی نشانی ہے جو بظاہر موجود نہ ہونے کے باوجود متعلقہ امر واقع کے ساتھ لگی رہتی ہے۔

فقہاء کے نزدیک قرینہ اثبات اور نفی دونوں میں مؤثر گردانا جاتا ہے۔ کبھی قرینہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ امر واقع سے متعلق قطعیت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اتنا کمزور کہ اسے محض احتمال گردان کر ردّ کیا جاتا ہے۔ اول الذکر قرینہ قاطعہ کہلاتا ہے یعنی ایسی نشانی جو کسی امر کے واقع ہونے یا نہ ہونے سے متعلق مشاہدہ کے برابر ہونے کا ثبوت مہیا کرتی ہے۔ فقہاء کے ہاں قبولیت ِ قرائن پر کافی دلائل اور مواد موجود ہے۔ ان کے نزدیک خود قرآن کریم کی رو سے حضرت یوسف ؑ کی قمیص کے پیچھے سے پھٹ جانے کو ان کے حق میں اور متعلقہ خاتون کے خلاف بطور قرینہ لیا گیا ہے۔[3] اسی طرح قرآن کریم نے ضابطۂ لعان میں انکار از لعان کو کسی بھی متلاعن کے خلاف ارتکاب قذف یا ارتکاب زنا کے قرینہ کے طور پر قبول کیا ہے۔[4]

نیز متعدد احادیث صراحتاً اقرار اور شہادت کے عدم دستیابی کی صورت میں قرائن کی قبولیت پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا :

"جب تم خیبر جاؤ، وہاں تجھے میرا وکیل ملے گا تو اس سے پندرہ وسق کے (کچھ اجناس) وصول کرو اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ہنسلی کی ہڈی (Collar bone) پر رکھ دو۔"[5]

اس کا مطلب یہ ہے کہ جابرؓ کی روانگی سے پہلے نبی کریم ﷺ نے اپنے وکیل کو یہ خفیہ نشانی بتائی تھی جو صرف حضرت جابرؓ کو بتائی گئی ، تاکہ آپﷺ کا وکیل اسے ادائیگی جنس کے لئے بطور قرینہ قبول کرے۔ دیکھا جائے تو جدید Easy Paisa میں بھی وصول کرنے والے، رقم بھیجنے والے اور وصول کرنے والے کو کمپنی ایک خاص کوڈ دیتی ہے یا جس طرح کریڈٹ لیٹر یا ATM میں ایک خاص عدد کو دبا کر رقم وصول کی جا سکتی ہے۔

قرینہ کبھی آغاز جرم سے پہلے کبھی بیچ مقدمہ اور کبھی بعد از مقدمہ برآمد ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ مصری قانون دانوں کا کہنا ہے کہ قرینہ کوئی ایسا مجہول امر ہے جو کسی معلوم واقع کے اندر سے یا تو برآمد ہوتا ہے یا ذرائع تفتیش کے بل بوتے برآمد کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے عمل کی تین صورتیں ممکن ہیں۔

اولاً :قرینہ سابقہ: یعنی عدالت کے علم میں اس بات کا آنا کہ مجرم اور شخص مقتول یا شخص متضرر کے درمیان پہلے سے عداوت چلی آرہی ہے (جیسا کہ ضابطہ قسامت میں "لوث" کے تحت تصریح کی گئی) یا مجرم ماضی سے ہی عادی جرائم پیشہ ہے (کبھی اس قسم کے مجرموں کا مستقل ڈیٹا تھانے میں پڑا رہتا ہے) یا اس نے شخص مقتول یا شخص متضرر کو مبینہ طور پر دھمکی دی تھی اور ان سب یا ایک کے بعد وقوعہ پیش آیا۔

ثانیاً قرینہ وسطیٰ: مثلاً کبھی کچھ آثار اور اثرات ثبوت نہ ہو کر بھی خود بولتے ہیں۔ مثلاً بروم کہتا ہے:

. . . . . Things speak of themselves[6].

"کبھی اشیا ء خود بولتی ہیں۔ "

امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک کسی کے اوپر بھاری بھرکم پتھر گرانے کی صورت میں بھاری پتھر خودنیتِ قتل پر دلالت کرتا ہے[7] یا بروم کے نزدیک اگر بالائی منزل سے شخص مقتول کے اوپر چینی کی بوری کا گرانا ثابت ہو تو چینی کی بوری خود نیتِ قتل پر بولے گی۔[8] لہٰذا زیرِ نظر صورت میں جائے واردات پر ملزم کے نام سے موسوم اسلحہ یا اس کے معروف لباس یا اس کا کچھ حصہ ، یا رومال یا کوئی شناختی کارڈ یا جوتے یا ٹوپی کا پایا جانا یا مالِ مسروق کا ملزم کے قبضے سے برآمد ہونا یا اسے اسلحہ اور مالِ مسروق سمیت گرفتار کیا جانا، یہ سب وقوع کے ہمعصر قرائن گنے جاتے ہیں۔

ثالثاً قرینہ لاحقہ: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ملزم جائے واردات کے قریب سے بھاگتے گرفتار ہوتا ہے۔ یا کبھی بعد از وقوع ملزم کے خلا ف گواہانِ وقوع کو ورغلانے، خاموش کرانے، لالچ دینے یا دھمکی دینے کا الزام پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے تو اس صورت میں عدالت کو ملزم کے خلاف ایک قرینہ ہاتھ آتا ہے جو اسے بطور قرینہ لاحقہ آگے بڑھاتی ہے۔

دیکھا جائے توقرینہ مقدمہ کے متعدد پہلو یا ایک پہلو سے برآمد شدہ کوئی ایسا امر ہے جس کے متعلق عدالت کو اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا مقدمہ کے ساتھ گہرا اتصال اور گہری نسبت ہے۔ یہ امر کبھی دلیل اور کبھی نشانی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے قرینہ کا مادی رکن کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذاجب عدالت کے پاس جرم سے متعلق اصل دلیل موجود نہ ہو تو وہ وقائع مقدمہ سے کسی امر کوچن کر اسے دلیل قرار دے سکتی ہے تاکہ اس کی طرف اپنے حکم کو مستند کرکے مقدمہ کا تصفیہ کرے۔ اسی کے تحت قرینہ کا معنوی رخ وہ ہوتا ہے جب عدالت کسی امر ثابت کی بنیاد پر محتاج ثبوت امر کی طرف رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے بشرطیکہ عدالت کو اطمینان ہو کہ بطن مقدمہ سے نکلا ہوا امر ثابت امر غیر ثابت کے اثبات میں معاون بن سکتا ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ امر ثابت امرِ غیر ثابت کو ثابت کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے[9]۔

کچھ ماہرین ِ قانون نے قرینہ دلیل اصلی سے زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر انواراللہ کا کہنا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عام شہادت کی بنیاد پر لی گئی دلیل اپنے اندر کچھ نہ کچھ شکوک و شبہات تو رکھتی ہے جبکہ قرینہ کا تعلق حقیقت ظاہری کے طور پر شکوک و شبہات سےبالاتر ہوتا ہے۔فاضل ڈاکٹر کہتے ہیں:

Evidence from testimony by witness is sometime more unceptible to concoction and fabrication. As such, Qarinah may be seen as more compelling and stronger than Shahadah (Testimony of witnesses) and Iqrar (confession) because the real fact does not tell lies. [10]

پروفیسر رابرٹ پریچ نے بھی کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ عمومی طور پر فوجداریت کی جزئیات زیادہ تر قرائن سے اخذ کی جاتی ہیں، اور کامیابی سے متعلقہ مقدمہ کو نمٹایا جاتا ہے۔ مثلاً امریکی بمبار Timothy Mc Veigh کو محض قرائنی ثبوتوں کی بنیاد پر سزا دی گئی۔ بالکل اسی طرح 2004 میں Scott Peterson کے خلاف فوجداری مقدمہ کا محض قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا ، جو امریکہ میں ایک مشہور زمانہ (High Profile) فوجداری مقدمہ تھا۔ انہی مقدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے رابرٹ کہتا ہے۔

Circumstantial evidence can be, and often is much more powerful than direct evidence. [11]

مغربی قوانین، خصوصاً کیلی فورنیا کے مجموعہ تعزیرات کی دفعہ نمبر 223 کے تحت کسی واقعہ سے متعلق دلیل بلا واسطہ (Direct Evidence) اور دلیل بالواسطہ (Indirect Evidence) صحت، حجیت، قدر، معیار اور وزن میں ہم پلہ ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص بنظر خود بارش کو برستے دیکھتا ہے تو یہ بارش سے متعلق دلیل بلا واسطہ ہے اور اگر وہ گیلی چھتری اور گیلے کپڑوں کے ساتھ کسی کو اندر داخل ہوتے دیکھتا ہے تو یہ بارش سے متعلق بالواسطہ دلیل ہوگی۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں اس لئے اگر فوجداریت میں کوئی امر دلیل بالواسطہ سے ثابت ہوتا ہو تو کوئی ضرورت نہیں کہ عدالت ایک دلیل کے اصلی اور دوسرے کے غیر اصلی ہونے کے مخمصہ میں پڑ جائے۔ اس ضمن میں دفعہ مذکورہ 223 کا آخری پیراگراف بتاتا ہے:

Both direct and circumstantial evidences are acceptable types of evidence to prove or disprove the elements of a charge to . . . . . . . to a conviction. . . . . .Neither is entitled to any great weight than the other.

تاہم جیسا کہ اسی قانونِ تعزیرات کی دفعہ نمبر 224 میں کہا گیا ہے کہ اگر اندرونِ مقدمہ سے متعدد قرائن برآمد ہوتے ہو ں جن میں کچھ ملزم کے مجرم اور کچھ اس کے غیر مجرم ہونے پر دلالت کرتے ہوں تو اس صورت میں ہر اس قرینہ کو سامنے رکھ کر مقدمہ کو نبھایا جائے گا جو اس کے غیر مجرم ہونے پر دلالت کرتا ہو۔ اس دفعہ میں کہا گیا ہے:

If you can draw two or more reasonable conclusions from the circumstantial evidence and one of those reasonable conclusion point to innocence and other to guilt, you must accept the one that points to innocence. [12]

اسلامی فوجداریت میں سزائے اصلی کے نفاذ کے حوالے سے قرینہ اور دیگر بالواسطہ دلائل کو غیر مؤثر گردانا جاتا ہے الّا یہ کہ قرینہ کی بنیاد پر تعزیری یا کوئی تبعی سزا نافذ کی جا سکے گی،مثلاً مقدمہ قصاص میں اگر اقرار یا مطلوبہ شہادت دستیاب نہ ہو تو اس صورت میں ملزم کےخلاف کوئی بھی قرینہ ٔ قتل (امر ثابت) قصاص کو واجب نہیں کر ے گا یا حدود کے مقدمات میں اقرار یا شہادت کی عدم موجودگی میں متعلقہ حد تو ساقط ہوگی ، تاہم عدالت قرینہ جرم کے موجود ہونے کی بنیاد پر دونوں قسم کے مقدمات میں تعزیری سزا نافذ کر سکے گی۔ اس ضمن میں فقہاء کی تین آراء پائی جاتی ہیں۔

ایک رائے حنبلی فقہاء میں سے ابن القیم جوزیہؒ کی ہے جو تمام دیوانی اور فوجداری مقدمات میں قرائن کو قبول کرنے کے قائل ہیں۔ ان سے پہلے قاضی شریحؒ اور ایاس بن معاویہؒ نے بھی تمام مقدمات میں قرائن کو قبول کرنے کی رائے دی تھی ۔ ابن القیمؒ کے نزدیک شرع اسلامی میں بینہ (Evidence) کا اطلاق صرف کسی مرد یا عورت کے زبانی یا تحریری اقرار یا ان کی زبانی یا تحریری گواہی پر نہیں ہوتا بلکہ اثباتی ذرائع کے حوالے سے اس سے مراد کوئی بھی ایسی دلیل یا حجت ہے جو کسی غیر ثابت امر کو ثابت کرنے میں مدد دے سکے، مثلاً نبی کریمﷺ اگر عام مقدمات میں بینہ (بارثبوت) کو مدعی کے ذمہ ڈالتے ہیں تو یہ صرف زبانی گواہی تک محدود نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ امر ہے جو مدعی کے دعوی کو کھل کر واضح کردے۔ کیونکہ خود لفظ بینہ کے اندر "کھلی اور صریح وضاحت" کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مدعی کے دعوی سے متعلق دلالت ِ حال یا پس منظر و ماحولِ دعوی، اس سے متعلق کسی فعل کا تحقق و ظہور اور اس قسم کی متقارب الدعوی نشانیاں اپنی حیثیتوں میں مدعی کے حق میں بیّنہ شمار ہوں گی۔ اس قسم کی علامتیں خود اخبار بصورت شہادت سے زیادہ قوی ہوتی ہیں۔[13]

ابن قیم جب بیّنہ اور دلالتِ حال کے لفظ کو مزید آگے بڑھاتے ہیں تو ان کے نزدیک اگر مدعیٰ علیہ کے خلاف چوری کا دعوی دائر ہو جبکہ مالِ مسروق اس کے قبضہ سے برآمد ہو تو یہ اس کے خلاف چوری کی کھلی دلیل ہوگی ، قطع نظر اس سے کہ اقرار یا شہادت میسر نہ ہو، الّا یہ کہ ملزم اپنے ہاں مالِ مسروق کی موجودگی اور دریافتگی پر کسی معقول توجیہ سے عدالت کو مطمئن کر سکے۔[14]

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عدالت کسی فوجداری مقدمہ میں دلالتِ حال سے ہی چمٹ جاتی ہے اور اسے پورے استقصائی مراحل سے گزار کر ہی دم لیتی ہے۔ دیکھا جائے تو نبی کریمﷺ نے فتح خیبر کے بعد یہودی سردار حیی بن اخطب کے ان اموال کے بارے میں پوچھا جو بوری میں سونے اور چاندی کی صورت میں وہ مدینہ سے لاد کر لائے تھے، تو حیی کا جواب تھا کہ وہ اسے جنگی اخراجات میں خرچ کر چکے ہیں۔ آپﷺ کو تسلی نہیں ہوئی ، آپﷺ کا اپنا خیال تھا کہ اتنی وافر مقدار میں سونے چاندی کا اتنی قلیل مدت میں خرچ ہونا ممکن نہیں ، ضرور اس نے اس مال کو چھپایا ہے اور اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہود اپنے اموال کی تشخیص (Assessment) میں دروغ گوئی سے کام نہیں لیں گے۔ پھر جب حضرت زبیرؓ نے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تب اس نے اعتراف کیا کہ وہ مال فلاں جگہ بوری میں محفوظ کرکے رکھا گیا ہے۔[15]

مغربی ماہرینِ قانون کے نزدیک بھی جہاں جرم سے متعلق بلا واسطہ دلیل دستیاب نہ ہو وہاں عدالت ایسے قرائن تلاش کرے گی جو وقوعِ جرم پر دلالت کرتے ہوں۔ چنانچہ عدالت کے سامنے اگر یہ ثابت ہو کہ چوری کے مقدمہ میں نامزد مفلس ملزم یا ملزمین کو بعد اس واردات کسی مہنگے سٹور میں مہنگی اشیاء کو خریدتے دیکھا گیا تھا، تو زیر نظر مقدمہ میں عدالت اسے ارتکاب جرم پر بطور قرینہ یا بطور دلالتِ حال سامنے رکھ کر مقدمہ کو آگے بڑھائے گی تاآنکہ فرضیہ تفتیش(Hypothesis based Investigation) یقین کی حد تک پہنچے کہ مفلس مدعی علیہ کی اس قسم کی خریداری اس کے خلاف اور مدعی کے حق میں ضرور ارتکاب جرم پر دلالت کرتی ہے۔ گو کہ بعد از واردات اس قسم کی حرکت اناڑی اور غیر پختہ ذہن کے مجرم کرتے ہیں۔ رہے عادی اور تربیت یافتہ مجرم تو وہ بعد از واردات اس قسم کی خریداری کو اپنے پیچھے نشانِ جرم کے طور پر نہیں چھوڑتے، بلکہ اس حوالے سے ہر قسم کی ظاہری اور غیر ظاہری نشانی کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کرتے ہیں گو کہ کبھی کبھی "مٹانے اور چھپانے" کا یہ عمل خود نشانِ جرم بن جاتا ہے۔[16]

دلالتِ حال (Corollary Indication)کے ذریعے غیر ثابت کے تحقق کے بارے میں ایک مغربی قانون دان کہتے ہیں:

When one or more things are proved, from which our experience enables us to ascertain that another, not proved, most have happened, we presume that did happen, as well as in criminal and in civil cases.

دلالتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے Justice Maul (1857ء) نے لکھا:

If a man go into the London Docks sober without means of getting drunk, and comes out of one of the wine cellars very drunk. . . . . I think it would be reasonable evidence that he had stolen some of the wine in that cellar. . . [17]

بہر حال ابن قیم اس بات پر مصر ہیں کہ قرائن کو فوجداریت میں روبہ عمل لانا ہی خدائی انصاف کے عام ہونے کی ضمانت فراہم کرتا ہے[18] اور یہ تب ممکن ہوگا جب بیّنہ کے لفظ کو علی الاطلاق(بشمول قرائن) دیوانی اور فوجداری (حدود و قصاص) تمام مقدمات میں مؤثر مانا جائے۔

اس کے برعکس حنفی فقہاء علی الاطلاق حدود اور قصاص میں قرائن کی عدم تاثیر کی رائے دیتے ہیں، جبکہ مالکی فقہاءزنا کے مقدمہ میں غیر شادی شدہ خاتون کے حمل اور شراب نوشی کے مقدمہ میں شراب کی قے اور کچھ دیگر فقہاء چوری کے مقدمات میں مدعی علیہ کے ہاں مال مسروق کی برآمدگی کو قرینہ موجِب حد گردانتے ہیں۔

اس ضمن میں فقہاء کے نزدیک ایک اہم مسئلہ نو مولود کے رنگ وشکل کا والد کے ساتھ مختلف ہونا ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ حنبلی فقہاء ، رنگ اور شکل میں اختلاف کوزنا کی حتمی دلیل کے طور پر تسلیم تو نہیں کرتے، تاہم ان کے نزدیک اس اختلاف کی بنیاد پر ملزمہ کا شوہر متعلقہ نومولود کے اپنی طرف منسوب ہونے سے انکار کر سکتا ہے یہاں تک کہ بیوی کے خلاف زنا یا شوہر کے خلاف قذف یا دونوں کے خلاف لعان کا مقدمہ درج ہو۔ اس ضمن میں انہوں نے ھلال بن امیہؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا میں ملوث ہونے کا الزام لگانے کے بعد جب دونوں ضابطۂ لعان کے عمل سے گزرے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا اب دیکھو اگر وضع حمل کے بعد نومولود کالی آنکھوں والا پیدا ہو تو وہ شریک بن سحماء سے ہوگا۔ ایسا ہی ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:

"اگر کتاب اللہ (کے مطابق دونوں کے درمیان لعان) نہ ہواہوتا تو میں اس خاتون سے نمٹ لیتا۔"[19]

مذکورہ حدیث کی بنیاد پر حنبلی فقہاء کہتے ہیں کہ اگر پہلے سے لعان نہ ہوا ہوتا تو نو مولود کے شریک بن سحماء کا ہم شکل ہونے کی بناء پرنبی کریمﷺ ملزمہ کو رجم کرتے۔ مذکورہ واقعہ کی جزئیات پر غور کیا جائے تو نو مولود کی ولادت سے پہلے ھلال بن امیہ اپنی بیوی کے خلاف ایک معروف اور متعین شخص شریک بن سحماء کے ساتھ زنا میں ملوث ہونے کا دعوی دائر کر چکے اور نبی کریمﷺ کی موجودگی میں دونوں کے درمیان ضابطۂ لعان کو بروئے عمل لایا بھی جا چکا تھا، اب صرف یہ دیکھنا باقی تھا کہ نومولود شکل و شباہت میں کس کا ہم شکل ہو سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ شافعی فقہاء نے بھی کہا ہے کہ اگر بعد از الزامِ زنا نومولود ملزمِ زنا کا ہم شکل ہو تو یہ زنا پر قرینہ تو ہوگا لیکن اس کی بنیاد پر صرف نسب کی نفی کی جائے گی ، اصل سزا نافذ نہیں ہوگی[20]۔

اس کے برعکس مالکی اور ان کے ہم فکر فقہاء نومولود کے رنگ وشکل میں والد سےمختلف ہونے کو حد اور نفی نسب دونوں کا موجب نہیں سمجھتے، ان کا کہنا ہے کہ اختلاف الوان و اشکال ایک جینیاتی عمل کے اتار وچڑھاؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم اگر اس عمل کے اختلاف کو ایک کے خلاف اور دوسرے کے حق میں قرینہ ٔ سزا وجزا سمجھیں تو فوجداری اور وراثتی مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائےگا۔ اس ضمن میں انہوں نے بنو فزارہ کے ایک(سفید رنگ والے) دیہاتی کےواقعہ سے استدلال کیا ہے جو اپنی بیوی پر صر ف اس بنیاد پر زنا کا الزام لگانا چاہتا تھا کہ پیدا ہونے والے بچے کا رنگ کالا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا تمہارے اونٹوں کا رنگ کیسا ہے ۔ اس نے کہا سب کالے ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ ان کے بچوں میں کوئی سرخ رنگ کا بچہ بھی ہے، اس نے کہا ہاں، آپﷺ نے پوچھا پھر ایسا کیوں ہوا۔ اس نےکہا، ممکن ہے اس کا رنگ اوپر کی نسل کی طرف کھنچ گیا ہو۔ آپﷺ نے فرمایا تب تو یہاں (کالے بچے) کا رنگ بھی اوپر کی طرف کھنچ گیا ہوگا۔[21]

اسی طرح جیسا کہ انہوں نےدلیل دی ہے،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ایک بار جب زید بن حارثہ ؓ اور اس کا بیٹا اسامہؓ دونوں ایک ہی چادر اوڑھ کر سو رہے تھے کہ اتنے میں عرب کے مشہور قیافہ شناس (Physiognomist) مجزز المدلجی آگئے۔ اس وقت دونوں کےصرف قدم نظر آرہے تھے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ مسکراتے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمایا: دیکھا تو نے؟ آج مجزز نے زیدؓ اور اسامہؓ (کے قدموں) پر نظر دوڑائی تو کہا:

"إن بعض هذه الأقدام لمن بعض"

"ان قدموں میں کچھ قدم انہی میں سے کچھ دوسرے قدموں سے پیدا ہوئغ ہیں۔"[22]

واضح رہے کہ زیدؓ بن حارثہ کا رنگ سرخ وسفید اور اسامہؓ بن زید رنگ کے کالے تھے۔ اس واقعہ سے کچھ منافقین حضرت اسامہؓ کے نسب کے زیدؓ بن حارثہ کی طرف منسوب ہونے کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ لہٰذا جب قیافہ شناس نے دونوں کے باہم ہم نسب ہونے کی تصدیق کی تو نبی کریمﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ اب منافقین کے منہ بند ہو جائیں گے۔ خود نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ کو اس حوالے سے کوئی شک نہیں تھا اور نہ کبھی انہوں نے اس قسم کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے ایک واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ سعد ؓ بن ابی وقاص اور عبد ؓ بن زمعہ دونوں نے ایک لڑکے سے متعلق نبی کریمﷺ کے ہاں دعوی داخل کیا۔ سعدؓ کہہ رہے تھے کہ عبد بن زمعہ کے ہاں یہ لڑکا اس کے بھائی عتبہؓ بن ابی وقاص کا ہے جب کہ عبدؓ بن زمعہ کا دعوی تھا کہ وہ لڑکا اس کے والد سے اس کی لونڈی نے جنا ہے۔ سعدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ : آپ ﷺ لڑکے کی شکل و شباہت کو خود دیکھیں تب آپﷺ نے اس لڑکے میں عتبہ کے ساتھ ملتی جلتی ایک واضح نشانی دیکھی ۔ آپﷺ نے لڑکے کو عبد بن زمعہ کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا: لو عبد یہ لڑکا تمہارا (بھائی ) ہے کیونکہ بچہ اسی کا ہوگا جس کے بستر پر وہ پیدا ہواور زانی کے لئے پتھر ہی ہیں۔ اور ہاں سودہؓ (بنت زمعہ) آج کے بعد تم اس سے پردہ کروگی پھر اس لڑکے نے سودہ ؓ کو نہیں دیکھا[23]۔(واضح رہے کہ عبد بن زمعہ ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ کے بھائی تھے۔)

ہم اگر ھلال بن امیہؓ ، سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن زمعہ کے مقدمہ کو دیکھیں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ھلال کے مقدمہ میں نبی کریمﷺ نے ہم شکلیت کا اعتبار نہیں کیا کہ اس مقدمہ میں پہلے سے ضابطہ لعان کو متحرک کیا جا چکا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مقدمہ میں بعد از نفاذ قانون کو دوسری بار متحرک نہیں کیا جا سکتا ۔ سعد اور عبد کے مقدمہ میں بھی آپﷺ نے فوجداریت میں ہم شکلیت کا اعتبار نہیں کیا، کہ پہلے سے"الولد للفراش" کا ضابطہ موجود تھا کہ بچہ اس کا ہوگا جس کے بستر پر وہ پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہی ہیں۔ اس لحاظ سے نبی کریمﷺ نے ہم شکلیت کے قرینہ کو اس حد تک تو مؤثر سمجھا کہ ام المؤمنین حضرت سودہؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا ، لیکن ضابطہ "الولد للفراش" کا اعتبار کرکے اسے عتبہ کے حوالے نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ضابطہ ٔ قانون قرینہ سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ قرینہ کچھ بھی ثابت کرے پھر بھی اس کی بنیاد پر پہلے سے فیصلہ شدہ مقدمہ کو دوبارہ کھولا (Reopen) نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح بنو فزارہ کے دیہاتی اور زید بن حارثہ کے واقعہ میں آپ ﷺ نے اختلافِ رنگ کو وقعت نہیں دی۔

زنا کے حوالے سے فقہاء غیر شادی شدہ یا بعد از شادی قلیل مدت کے اندر کسی شاد ی شدہ خاتون کے ظہور حمل کو بطور قرینہ لینے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ چنانچہ مالکی اور حنبلی مکتب فکر کے چند فقہاء ظہور حمل کو وطی یا مباشرت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے اگر یہ ثابت ہو کہ متعلقہ خاتون غیر شادی شدہ ہے یا بعد از نکاح قلیل ترین مدت کے دوران حمل ظاہر ہوا ہے یا اس کا شوہر اتنا نابالغ یا مجبوب الذکر (Cut- penis) ہے کہ اس سے احبال (Pregnancy) یا ایلاج(Entry) کا صدور ممکن نہیں، تو اس صورت میں اس قسم کے حمل کو حاملہ کے خلاف حرام وطی (زنا) کے ارتکاب کا قرینہ سمجھا جائے گا۔ تاہم مندرجہ ذیل چارصورتوں میں ملزم کو اسقاطِ حد کی ریلیف دی جا سکے گی۔

اولاً:یہ کہ ملزمہ غیر معروف اجنبی اور پردیسی ہو اور وہ زوجیت کا دعوی کرتی ہو درآنحالیکہ وہ مسافت کی طوالت کی وجہ سے گواہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہو اور عدالت کے پاس بھی تصدیق نکاح کا کوئی ذریعہ نہ ہو ، تو اس صورت میں اس کے دعوی زوجیت کو موثر مانا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان کے نزدیک اگر اس قسم کا دعوی زوجیت مقیم اور معروف ملزمہ نے داخل کیا ہو تو اس صورت میں جب تک وہ نکاح پر شہادت پیش نہ کر سکے تب تک وہ مرتکبِ زنا متصور ہوگی۔[24]

ثانیاً:یہ کہ طبی لحاظ سے ملزمہ کا جنونِ طاری میں مبتلا ہونا ثابت ہو، چونکہ جنون طاری کا مریض کبھی جنون اور کبھی افاقہ کی حالت سے دوچار ہوتا ہے، اس لئے اب وجہ فتور عقلی اس کی طرف زنا یا کسی اور فوجداری جرم کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔

ثالثاً:یہ کہ پہلے سے ملزمہ کی طرف سے دعوی اکراہ علی الزنا داخل کیا گیا ہو۔ اس صورت میں یا تو ملزمہ کے پاس اکراہ کا عینی ثبوت موجود تھا یا وہ دکھا چکی ہو کہ اس کے اندام نہانی سے خون بہہ رہا تھا اوریا اس کا پردہ بکارت پھٹ چکا تھا اور وہ کسی شخص کو نامزد کر رہی تھی یا ظہور حمل سے قبل ہی عدالتی ریکارڈ اس کی طرف سے مدعا علیہ کے خلاف استغاثہ اکراہ کو ظاہر کر رہا ہو تو متذکرہ صورتوں میں اس کے خلاف زنا کا مقدمہ قائم نہیں ہوگا۔

رابعاً:یہ کہ ایلاج کے بغیر مرد کا مادہ منویہ اس کے اندر داخل ہوا ہے جبکہ وہ اس کی دونوں رانوں کے درمیان اپنے آلہ تناسل کو رگڑرہا تھا۔[25]

مذکورہ چاروں صورتیں مالکی فقہاء نے ذکر کی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے دو اقوال سے استدلال کیا ہے کہ ان حضرات نے فرمایا کہ جہاں اعتراف اور شہادت ملزم کے خلاف زنا کو ثابت کرتے ہیں وہاں غیر شادی شدہ خاتون کا ظہورحمل بھی اس کے خلاف زنا کو ثابت کرے گا۔[26] مذکورہ رائے کے برعکس حنفی، شافعی اور کچھ حنبلی فقہاء ظہور حمل کو ثبوت زنا پر بطور قرینہ تسلیم نہیں کرتے ۔[27] ان کے نزدیک ایک تو قرینہ اپنے پیچھے کافی اور متعدد شبہات کا حامل ہوتا ہے ، جن کے ہوتے کوئی حد نافذ نہیں کی جا سکتی کیونکہ اسقاطِ حدبہ سببِ شبہ اسلامی فوجداریت کا بنیادی نکتہ ہے۔نیز خود حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مقدمہ میں اگر "شاید"، "ممکن ہے"، "احتمال ہے" اور اس قسم کے دیگر التباسی ، شبہاتی اور غیریقینی الفاظ وارد ہوں تو اس مقدمہ کو خارج ہی کردو۔[28] اسی طرح حضرت عمرؓ نے مکہ میں ایک غیر شادی شدہ حاملہ خاتون کے اس بیان کو قبول کیا جس نے کہا کہ ایک رات جب وہ سوئی ہوئی تھی کہ ایک شخص آیا اور اس کے رانوں کے درمیان بیٹھ کر اپنا مادہ منویہ چھوڑ گیا اور اسے نہ صرف سزا سے مستثنیٰ قرار دیا بلکہ ساتھ ہی حکم بھی دیا کہ آئندہ ان کے علم میں لائے بغیر اس قسم کے مقدمات میں سزا کا کوئی حکم نہ دیا جائے۔[29] مذکورہ حوالے سے ہمارے پیشرو ڈاکٹر علی رکبان بھی کہتے ہیں کہ قدیم اور جدید (طبی) وقائع ثابت کرتی ہیں کہ کبھی پردہ بکارت کی بقا کے باوجود کوئی خاتون حمل پا سکتی ہے۔یا یہ کہ جانداروں میں خود افزودگی(Self-Fertilization) نا ممکنات میں سے نہیں۔ [30]

ثبوتِ سزا بذریعہ اختبارِ عمل واثر جنیات انسانی (DNA- Deoxyribo Nucleic Acid-Test) ایک اور علمی قضیہ ہے۔

1985ء میں لیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر Alec Jaffrey’s نے ثابت کیا کہ بدن ، جلد، مائعات بدنِ انسانی، خون، ناخن اور بالوں کے حوالے سے ہر انسان کا DNA دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، الّا یہ کہ دو جڑواں (Twins) کے درمیان اس قسم کا تنوع نہیں پایا جاتا۔ زنا کے حوالے سے DNA کا جنیاتی ثبوت (Genetic Evidence) بچے اور باپ کے درمیان رشتہ پدریت کے اثبات اور نفی میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ 1986ء میں اسے اس وقت عدالتی پذیرائی ملی جب انگلستانی پولیس نے Alec Jaffrey’s سے رابطہ کیا جو اس وقت عدالتی قضیہ جات (Forensics) میں تفتیش بذریعہ DNA کی تاثیر کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ ایک سترہ سالہ لڑکا قتل و زنا (Rape-Murders) کے دوہرے جرم کا اعتراف کر رہاہے۔بعد ازاں DNA سے پتہ چلا کہ سترہ سالہ لڑکا اصل مجرم نہیں ہے وہ کوئی اور ہے جس کے جنیات کے ساتھ جائے واردات سے حاصل شدہ خونی جزئیات مطابقت رکھتی تھیں۔ عدالت کا کہنا تھا:

The process matching a suspect’s DNA with DNA found at a crime scene provides both law enforcement and court officials with a higher probability of convicting the criminal offender[31].

"تجربہ گاہ کے اندر کا زیر تجربہ مشکوک خون اور جائے واردات سے برآمد شدہ خون کا آپس میں ملاپ اور جوڑ کا عمل قانون نافذ کرنے والوں کے لئے اصلی مجرم تک رسائی کے امکان کو پیدا کرتا ہے۔"

1987ء میں فلوریڈا میں Tommy Lee Andrew کے خلاف اس بنیاد پر زنا کا مقدمہ قائم کیا گیا کہ اس کے خون کا DNA متعلقہ خاتون سے برآمد شدہ مادہ منویہ (Semen) کے موافق پایا گیا تھا۔ تاہم بہت جلد مغربی عدالتوں کے وکلائے دفاع (Defense Attorneys) نے جرم و سزا کے امور میں DNA کی حجیت(Admissibility) کو چیلنچ کرنا شروع کیا۔ مغربی ماہرین قانون کے مطابق جب تک DNA کا ٹیسٹ سائنسی اصولوں کے مطابق مستند ترین تجربہ گاہ میں مکمل نہ ہو تب تک یہ مشکوک ہی رہے گا اور اس کی روشنی میں مدعا کو ثابت کرنا یا اس کو ردّ کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ مثلاً 1989ء میں مینی سوٹا (Minnesota) کی سپریم کورٹ نے ایک کیس میں اصولاً DNAکی صحت کو لیبارٹری کے آلات اور عملِ اختبار کے معیار کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے،اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس صورت میں جبکہ صحتِ ثبوت و عدم ثبوت کا تمام تر دارومدار تجربہ گاہ کے آلات اور اس کے معیار پر ہے تو معیار کے حوالے سے زیرِ نظر DNA رپورٹ عدالت کو مطمئن نہیں کرتی۔اور یوں مقدمہ تحلیل کیا جاتا ہے، عدالت نے لکھا:

... because the laboratory in this case did not comport with these guidelines, the test results lack foundational adequacy and, without more, are thus inadmissible... [32]

مسلمان فقہاء اسقاطِ سزا کے لئے قرینہ کو مؤثر مانتے ہیں لیکن اثباتِ سزا کے لئے نہیں یا یہ کہ قرینہ کی بنیاد پر مقدمہ خارج کیا جا سکتا ہے یا یہ کہ قرینہ اثبات میں نہیں بلکہ نفی میں مؤثر ہے ، لہٰذا اگر زنا کے گواہوں کی موجودگی میں میڈیکل رپورٹ پردہ بکارت کے قائم ہونے پر دلالت کرے تو یہ رپورٹ بطور قرینہ ملزمہ سے حد کو تو ساقط کر سکتی ہے لیکن اس کی بنیاد پر گواہوں پر حدّ قذف نافذ نہیں کیا جا سکتی۔

اسی حوالے سے نیو یارک کی عدالت عظمیٰ میں Castro کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر ہوا، جہاں جائے واردات سے اس کی خون آلود گھڑی برآمد ہوئی تھی۔ عدالت کو احساس تھا کہ متعلقہ تجربہ گاہ صحیح نہج پر DNA کو آگے نہیں بڑھا رہی ہے ، وہ گھڑی کے اوپر کا خون DNA ٹسٹ کے ذریعے مقتول کی طرف منسوب بھی نہ کر سکی۔ پھر بھی عدالت نے DNA رپورٹ کو برقرار رکھا کہ خون اگر مقتول کا نہیں تو ضرور Castro کا ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر مقدمہ کو خارج کیا گیا ، یا بالفاظ دیگر Castro کو بری الذمہ قرار دیا گیا۔[33] اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا:

Interestingly, the court did allow the DNA test that ruled out the blood as that of Castro- upholding the DNA tests for exclusion but not inclusion since the process for determining a match is more complex than ruling out a match[34].

مذکورہ حوالے کو مد نظر رکھ کر دیکھاجائے تو اسقاط سزا کے حوالے سے انگلستانی عدالت نے سترہ سالہ لڑکے کے اعترافِ جرم کے باوجود DNA ٹسٹ کی بنیاد پر اس سے سزا ساقط کی یا یہ کہ نیو یارک کی عدالتِ عظمیٰ نےDNAکو Castro کے حق میں دلیل قرار دے کر مقدمہ خارج کیا اور قرار دیا:

. . . . upholding DNA test for exclusion but not inclusions[35].

یعنی عدالت نے DNAکو Castro کو مجرم ٹھہرانے کے لئے نہیں بلکہ اسے بری الذمہ کرنے کے لئے بطور دلیل لیا۔

جب کسی جرم میں متعدد اور متنوع قرائن میں سے کچھ اثبات اور کچھ قرائن نفی جرم پر دلالت کرتے ہوں تو اس صورت میں ملزم کو ریلیف دینے کے لئے مؤخر الذکر کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اسلامی فوجداریت میں خطا سے کسی کو معاف کرنے کو خطا سے کسی کو سزا دینے پر فوقیت حاصل ہے ۔ نبی کریمﷺ نے بھی فرمایا:

" مقدور بھر حد کو ساقط کرنے کی کوشش کرو، اگر کوئی راہ نکلتی ہو تو مجرم کو جانے دو، کیونکہ امام کے لئے خطا سے معاف کرنا خطا سے سزا دینے سے بہتر ہے۔"[36]

یہ حدیث اس فوجداری قاعدہ کی روح ہے ،کہ حد کو شبہ کی بنیاد پر ساقط کرو [37]یایہ کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔[38] اس سے پہلے کیلی فورنیا کے قانون کی دفعہ 224 کے تحت بھی اس پر بحث ہوئی ہے ۔نیز فوجداری اصول کےتحت جب ملزم نے ایک ہی شخص کو پہلی بار خطا اور دوسری بار قصد سے بندوق چلا کر گولی مار دی اور بعد ازاں وہ دونوں زخموں کی تاب نہ لا کر مجروح مرگیا تو اول الذکر فعل دیتِ جرح جبکہ ثانی الذکر قصاصِ جرح کوواجب کرے گا۔پھر مجروح کی موت کو اول الذکر کی طرف منسوب کیا جائے گا کیونکہ اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ موت کس جرح کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے تاکہ شبہ کا فائدہ فعل خطا کے ملزم کو دیا جاسکے۔ اس حوالےسے اصول فقہ کا یہ قاعدہ بطور اساس کام کرتا ہے:

"إذا تعارض المانع والمقتضی قدّم المانع"[39]

"جب مانع(سزا) اور مقتضیِ(سزا) میں تعارض ہو تو مانع کو مقدم سمجھا جائے گا۔"

فقہاء کے نزدیک اگر قتل یا زنا سے متعلق کوئی قرینہ زیرِ غو ر ہو اور اس وقت کوئی اور موثق اور مضبوط امر اس کو ردّ کرنے سامنے آئے تو اس کا اعتبار کیا جائےگا۔ مثلاً ایک غیر آباد مکان کے اندرسے لاش برآمد ہوئی ۔ ایک شخص کو خون آلود چھری کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ لاش، چھری اور چھری پر لگا خون بلا شبہ قرینہ قتل ہوگا[40]، لیکن اگرملزم نے ثابت کیا کہ وہ قصاب ہے گھر میں اس نے بکری ذبح کی اور اسی ویران مکان میں پیشاب کرنے گیا، جہاں سے لاش برآمد ہوئی تھی تو اس کے بیان کی تصدیق کی جائے گی، کیونکہ عوام کی نظروں میں کسی شخص کا قصاب ہونا، گھر میں بکریوں کا ذبح کرنا اور حسبِ دستور چھری کو اپنے نیفے میں لٹکا کر باہر نکلنا پہلے سے منقح امر ہے۔

کیا وہ واقعی قصاب تھا؟ کیا وہ واقعی گھر میں بکریاں ذبح کرکے باہر دکان پر گوشت فروخت کرتا تھا؟ کیا وہ چالاک مجرم تھا؟ وہ ذہن مجرمانہ (Mens rea)کا حامل تھا؟ کہ نشانِ قتل کو مٹانے کے لئے قصاب کا روپ اختیار کرکے لوگوں کی آراء اپنے حق میں مبذول کرنے میں کامیاب ہو ا تھا۔ ممکن ہے وہ قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد بکری ذبح کر چکا ہو۔ کیا کوئی قصاب قاتل نہیں ہوسکتا؟ یہ تمام معروضی سوالات عدالتی کاروائی کے دوران زیرِ سماعت مقدمہ کے ہر گوشہ کو منقح کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے زنا کے ایک مقدمہ کا ذکر بھی ضروری ہوگا جو حضرت عمر ؓ کی عدالت میں پیش ہوا تھا۔ملزمہ اپنے کپڑوں پر لگا ہوا مرد کا مادہ منویہ (Semen) ایک نوجوان کے خلا ف ثبوتِ زنا کے طور پر پیش کر رہی تھی ، جبکہ نوجوان اس کا انکاری تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت علیؓ نے کپڑے پر لگے مادہ منویہ کا معائنہ کیا۔ حضرت علیؓ کچھ متجسس لگ رہے تھے، حضرت علیؓ نے پانی ابالنے کی ہدایت کی، ابلتا پانی کپڑے پر لگے مادہ منویہ پر ڈالتا گیا اور وہ سفید ہوتا گیا یہاں تک کہ کپڑے پر ایک سفید تہہ بن گئی۔ وہ دراصل انڈے کی سفیدی تھی جسے ملزم کو پھنسانے کے لئے ملزمہ کے کپڑوں پر لیپ دیا گیا تھا۔ وہ مادہ منویہ ہوتاتو گرم پانی پڑنے سے تحلیل ہو جاتا [41]۔ اس سے معلوم ہو ا کہ مقدمہ کے اندرسے نکلنے والا قرینہ خود بول کر کبھی ملزم کی تائید کرتا ہے اور کبھی اس کو پھنساتاہے۔

جب تک کسی قرینہ کے ساتھ بیّنہ شامل نہ ہو تب تک قرینہ غیر مؤثر ہوگا ۔ باالفاظ دیگر قرینہ بطور خود ایک معاون اور امدادی دلیل ہے جو بیّنہ کے ساتھ منسلک ہو کر جرم کے وقوع اور عدم وقوع کے حوالے سے عدالت کے اطمینان میں اضافہ کرتا ہے۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں لوگ ایک عورت کے گھر میں عام لوگوں کے آنے جانے سے متعلق شک کا اظہار کر رہے تھے۔ بلا شبہ اس قسم کا آنا جانا ایک قسم کا قرینہ ہے جو بدکاری پر دلالت کر سکتا ہے، لیکن اصل جرم پر بیّنہ (شہادت) میسر نہیں تھی۔ لہٰذا نبی کریمﷺ نے فرمایا:

"لو کنت راجماً احداً بغیر بیّنة لرجمت فلانة"[42]

"میں اگر بیّنہ کے بغیر کسی کو سنگسار کرتا تو اس خاتون کو سنگسارکرتا۔"

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف قرینہ دلیلِ زنا نہیں بن سکتا جب تک بیّنہ موجود نہ ہو۔ اس سے یہ بات بھی منقح ہو جاتی ہے کہ ماورائے عدالت کسی جرم سے متعلق کوئی بھی امر اس وقت تک قانونی قرینہ نہیں بن سکتا جب تک قانونی چارہ جوئی کا آغاز نہ ہو۔ نبی کریمﷺ کا مطلب بھی یہی تھا کہ متعلقہ خاتون کے گھر لوگوں کا آنا جانا اس وقت تک ایک معمول متصور ہوگا جب تک اس کے خلاف زنا کا مقدمہ درج نہ ہو۔ بعد از اندراج مقدمہ اس قسم کا آنا جانا قرینۂ قانونی کی شکل اختیار کر سکے گا۔

مذکورہ حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

. . . . From the above hadith itself we could see that the prophet Muhammad refrained from imposing hudud based on suspicious evidence. Any suspicious or any doubt to the case does not justify for the imposition of hudud punishment. . . . . . Nevertheless, based on the above argument, we could deduce that in general, majority of Islamic scholars recognized Qarinah as a mean of proof under Islamic law . . . .However, the only question remains is to what extent this type of evidence should be applied and whether it can also be used to prove hudud offences? Technically, Islamic scholars are divided in this issue although they unanimously agreed that there is no objection with regard to use Qarinah in proving ta’zir offences[43].

یعنی مذکورہ حدیث بتاتی ہے کہ پیغمبر حضرت محمدﷺ ایک احتمالی امر کی بنیاد پر حد نافذ کرنے سے باز رہے کہ حدود کے نفاذ میں اس قسم کے احتمالی امور قابل حجت نہیں ہوتے۔ گو کہ اس حدیث کی اساس پر فقہاء قرینہ کو ایک ذریعہ اثبات تو سمجھتے ہیں تاہم حدود کے مقدمات کے حوالے سے ان کی آراء مختلف ہیں۔بایں ہمہ تمام فقہاء قرینہ کی بنیاد پر علی الاتفاق نفاذِ تعزیر کو جائز سمجھتے ہیں۔

مالکی، کچھ حنبلی فقہاء اور فقہائے زیدیہ نے ملزم کے منہ سے شراب کی بو آنے یا اس کے شراب کی قے کرنے یا اس کے نشے میں مدہوش پائے جانے کو وجوب حد کے لئے مطلوبہ دلیل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔[44] اس کے برعکس حنفی ، شافعی اور کچھ حنبلی فقہاء نے شراب کی بو ، قے اور ملزم کے نشہ کی حالت میں پائے جانے کو موجب حد قرار نہیں دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ان سب عوارض کی دیگر توجیہات ممکن ہیں، الّا یہ کہ اقرار یا شہادت کے وقت ملزم کے منہ سے بو آرہی ہو یا اسے شراب کی قے کرتے دیکھا گیا یا شہادت کے وقت وہ نشہ کی حالت میں ہو، تو ان تمام صورتوں میں یہ تینوں امدادی قرائن متصور ہوں گے۔[45]

ایک اور قضیہ جائے واردات سرقہ، حرابہ اور قتل اور اس قسم کے دیگر فوجداری مقدمات میں جائے واردات سے برآمد شدہ نقش کف Palm Print یا نقشِ اصابع Finger print اور نقش قدم Foot print کو بطور قرینہ جرم لینے سے متعلق ہے۔ طبی لحاظ سے انگلیوں ، ہتھیلی اور قدموں کی لکیریں دوران حمل تشکیل پاتی ہیں اور حتی الوفات باقی رہتی ہیں۔ ہر شخص کے ہاتھ اور پاؤں کی یہ لکیریں دوسرے انسان سے ، یہاں تک کہ خود ایک انسان کی ایک انگلی کی لکیریں اس کی دوسری انگلی سے مختلف ہوتی ہیں۔[46] ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ بعض عرب قبائل قدم شناسی میں اتنے ماہر تھے کہ وہ قدم دیکھ کر صاحب قدم کے طویل ہونے، چھوٹا ہونے، مرد ہونے ، عورت ہونے ، یہاں تک کہ اس کے بیمار ہونے تک کے بارے میں بتا سکتے تھے۔[47]

نشان ِ اصابع (Finger print) کی عمومی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دو ہزار سال قبل مسیح بابل اور روم میں تصدیق وقائع کےلئے اس کا سہارا لیا جاتا تھا۔ 851ء میں ایک عرب تاجر ابو زید حسن نے چین میں تجارتی معاہدہ کے کاغذ پرنشان انگوٹھا ثبت کیا۔ 1880ء میں ٹوکیو کے ایک ڈاکٹر Henery Fauld نے فوجداری مقدمات میں نشانِ اصابع (Finger print) سے مدد لینے کی تجویز دی تھی۔ تاہم فوجداری مقدمات میں اس قسم کے نشانات کے سہارے پہلی بار ارجنٹائن کے ایک پولیس چیف Juan Vucetich اور اس کے ساتھی انسپکٹر Alvarez نے قتل کے ایک مقدمہ کو نمٹایا۔ ہوا یو ں کہ نکو چیا کے شہر میں Francisco Rajas اپنے گھر میں گردن پر زخموں کے نشانات کے ساتھ اس حالت میں پائی گئی کہ اس کے دوبیٹے خون میں لت پت پڑے تھے جن کی گردنیں کاٹ دی جا چکی تھیں۔ Rajas نے اپنے ہمسایہ کے خلاف قتل کی رپورٹ درج کی۔ طویل تشدد آمیز تحقیقات کے باوجود ملزم جرم کا اعترا ف نہیں کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں پولیس چیف کا ساتھی Alvarez ایک دروازے پر لگے خون آلود انگوٹھے کے نشان کا عکس لینے میں مصروف تھا ۔ نشان کا عکس حاصل کرنے اور Rajas کے انگوٹھے سے مقابلہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ خون آلود انگوٹھا Rajas ہی کا تھا ۔ تب Rajas نے اپنے بیٹوں کے قتل کا اعتراف کیا۔[48]

پھر نشانات اصابع و اقدام کے کلیۃً مختلف ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اس شعبہ کے ماہر اور Charles Darwin کے عم زاد بھائی Francis Galton نے اپنی کتاب Finger print میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ چونسٹھ بلین لوگوں میں صرف دو افراد کے نشانات اصابع باہم مماثل ہو سکتے ہیں۔[49] لہٰذا فوجداریت کے حوالے سے اگر نشانات اصابع کا تنوع حتمی نہیں یا اتنی بڑی تعداد میں صرف دو افراد کے نشانات مماثل ہو سکتے ہیں تب بھی یہ ملزم کے حق میں شبہ پیدا کرتے ہیں ، کیونکہ چونسٹھ بلین کے متعلقہ قضیہ میں حاضرِ عدالت ملزم کا شامل ہونا نا ممکنات میں سے نہیں۔ مسئلہ کی یہی صورت سراغ رساں کتوں کےعملِ تشمیم اور دیگر ذرائع تفتیش جرم، ویڈیو اور متحرک تصاویر کی بھی ہوگی۔ لہٰذا مذکورہ تمام صورتوں میں بیّنہ کی ضرورت ہوگی اور بصورتِ بیّنہ مذکورہ تمام تفتیشی صورتیں بطورِ قرائن معاون دلائل متصور ہوں گی۔

نتائج:

  1. قرینہ کسی امر کے وقوع یا عدم وقوع پر دلالت کرنے والی کوئی ایسی نشانی ہے جو بظاہر موجود نہ ہونے کے باوجود متعلقہ امر واقع کے ساتھ لگی رہتی ہے۔
  2. مغربی قوانین کے تحت کسی واقعہ سے متعلق دلیل بلا واسطہ (Direct Evidence) اور دلیل بالواسطہ (Indirect Evidence) صحت، حجیت، قدر، معیار اور وزن میں ہم پلہ ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک جہاں جرم سے متعلق بلا واسطہ دلیل دستیاب نہ ہو وہاں عدالت ایسے قرائن تلاش کرے گی جو وقوعِ جرم پر دلالت کرتے ہوں۔ تاہم متعدد قرائن کی صورت میں اُن قرائن کو سامنے رکھ کر مقدمہ کو نمٹایا جائے گا جو ملزم کے غیر مجرم ہونے پر دلالت کرتے ہوں۔
  3. فقہاء قرینہ کو ایک ذریعہ اثبات تو سمجھتے ہیں تاہم حدود کے مقدمات کے حوالے سے ان کی آراء مختلف ہیں۔بایں ہمہ تمام فقہاء قرینہ کی بنیاد پر علی الاتفاق نفاذِ تعزیر کو جائز سمجھتے ہیں۔
  4. اسلامی فوجداریت میں سزائے اصلی کے نفاذ کے حوالے سے قرینہ اور دیگر بالواسطہ دلائل کو غیر مؤثر گردانا جاتا ہے الّایہ کہ قرینہ کی بنیاد پر تعزیری یا کوئی تبعی سزا نافذ کی جا سکے گی۔
  5. مسلمان فقہاء اسقاطِ سزا کے لئے قرینہ کو مؤثر مانتے ہیں لیکن اثباتِ سزا کے لئے نہیں یا یہ کہ قرینہ کی بنیاد پر مقدمہ خارج کیا جا سکتا ہے۔
  6. ضابطہ ٔ قانون قرینہ سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ قرینہ کچھ بھی ثابت کرے پھر بھی اس کی بنیاد پر پہلے سے فیصلہ شدہ مقدمہ کو دوبارہ کھولا، (Reopen) نہیں کیا جا سکتا۔
  7. کسی جرم سے متعلق متعدد قرائن میں سے کچھ اثبات اور کچھ قرائن نفی جرم پر دلالت کرتے ہوں تو اس صورت میں مؤخر الذکر کا اعتبار کیا جائے گا۔
  8. جب تک کسی قرینہ کے ساتھ بیّنہ شامل نہ ہو تب تک قرینہ غیر مؤثر ہوگا ۔ باالفاظ دیگر قرینہ بطور خود ایک معاون اور امدادی دلیل ہے جو بیّنہ کے ساتھ منسلک ہو کر جرم کے وقوع اور عدم وقوع کے حوالے سے عدالت کے اطمینان میں اضافہ کرتا ہے۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == ابن منظور محمد بن مکرم، لسان العرب، دار صادر، بیروت، ۱۴۱۴ھ، بذیل " ق ر ن" / القرآن، ۲۵:۴۱، ۳۶:۴۳ Ibn Manẓūr, Muḥammad bin Mukarram, Lisān al ‘Arab, (Beurit: Dār Ṣadir, 1414), 25:41, 36:43.
  2. قطب مصطفی سانو، معجم مصطلحات اصول الفقہ، دارلفکر، دمشق، ۲۰۰۰ء، بذیل "القرینۃ" Quṭb Muṣṭafa Sānū, Mu’jam Muṣṭalaḥāt Uṣūl al Fiqh, (Beirut: Dār al Fikr, 2000).
  3. سورۃ یوسف،۲۶-۲۸ Sūrah Yūsuf, 26-28.
  4. سورۃ النور، ۶-۱۰ Sūrah Al Nūr, 6-10.
  5. ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابو داؤد، المکتبۃ العصریۃ، بیروت، کتاب الاقضیہ، باب الوکالۃ، رقم: ۳۶۳۲ Abī Dāwūd, Sulaymān bin Ash’ath, Sunan Abī Dāwūd, (Beirut: Al Maktabah al ‘Aṣriyyah), Ḥadīth
    1. 3632.
  6. Herbert Broom, A Selection of Legal Maxims, (Lahore: Pakistan Law House, 10th Edition, 2012), p:204.
  7. برهان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی، الهدایہ شرح بدایۃ المبتدی ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۴:۴۴۲،۴۴۳ Al Marghīnānī, ‘Alī bin Abī Bakr, Al Hidayah, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī) 4:442,443.
  8. Broom, A Selection of Legal Maxims, p.204.
  9. عبد اللہ العلی الرکبان، اثبات موجباتِ الحدود، مؤسسۃ الرسالۃ، طبع دوم ، ۱۹۸۱ء، ۲:۲۱۲ ‘Abdullah Al ‘Alī Al Rukbān, Ithbāt Mūjibāt al Ḥudūd, (Beirut: Mo’assasah al Risālah, 2nd Edition, 1981), 2:212.
  10. Mohd Munzil bin Muhamad et al., Qarinah: Admissibility of Circumstantial Evidence in Hudud and Qisas Cases”, Mediterranean Journal of Social Sciences, 6, no. 2, (March 2015), pp: 141-150.
  11. WayBack Machine Internet Archive, accessed on December 21n 2018, https://web.archive.org/web/19990423153905/http://www.pub.umich.edu/daily/1997/jun/06-04-97/news/news3.html.
  12. Judicial Council of California Advisory Committee on Criminal Jury Instructions, Judicial Council of California Criminal Jury Instructions, (LexisNexis Matthew Bender, ed. 2017). CALCRIM 224. Circumstantial Evidence: Sufficiency of Evidence, p. 52. Accessed online on December 21, 2018. https://www.justia.com/criminal /docs/calcrim/200/224/ .
  13. ابن القیم الجوزیہ، الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ، ت: نایف بن احمد الحمد، مکۃ المکرمۃ، دار عالم الفوائد، ۱۴۲۸ھ، ص :۲۵،۲۶،۶۴ Ibn al Qayyim Al Jawziyyah, Al Ṭuraq al Ḥikamiyyah fil Siyāsah al Shar’iyyah, (Makkka: Dār ‘Ālam al Fawā‘id, 1428), p: 25,26,64.
  14. ایضاً Ibid.
  15. الرکبان، اثبات النظریۃ العامۃ لاثبات موجبات الحدود، ۲:۲۱۴ Al Rukbān, Ithbāt al Naẓariyyah al ‘Āmmah Li Ithbāt Mūjibāt al Ḥudūd, 2:214.
  16. http://en.wikipedia.org/wiki/circumstantial evidence-accessed 09.03.2016
  17. http://www.duhaime.org/legal dictionary/e/circumstantial evidence/aspk-accessed 03.09.2016.
  18. الرکبان، اثبات النظریۃ العامۃ لاثبات موجبات الحدود مذکور،۲:۲۱۴ Al Rukbān, Ithbāt Mūjibāt al Ḥudūd, 2:214.
  19. سنن ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب اللعان، رقم: ۲۲۵۴ Sunan Abī Dāwūd, Ḥadīth
    1. 2254.
  20. محمد بن علی الشوکانی، نیل الاوطار، ت: عصام الدین الصبابطی، دار الحدیث، مصر، ۱۴۱۳ھ، ۶:۳۲۴۴ Al Shawkānī, Muḥammad bin ‘Alī, Nayl al Awṭār, (Egypt: Dār al Ḥadīth, 1413), 6:3244.
  21. مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، بیروت، رقم: ۱۵۰۰ Muslim bin Ḥajjāj, Ṣaḥīḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī), Ḥadīth
    1. 1500.
  22. ایضاً، رقم: ۱۴۵۹ Ibid., Ḥadīth
    1. 1459.
  23. ایضاً، رقم:۱۴۵۷ Ibid., Ḥadīth
    1. 1457.
  24. ابن فرحون، تبصرۃ الحکام فی اصول الاقضیۃ و مناہج الاحکام، دار عالم الکتب، الریاض، ۱۴۲۳ھ، ۲:۸۸ Ibn Farḥūn, Tabṣirah al Ḥukkām fī Uṣul al Aqziyah wa Manāhij al Aḥkām, (Riyadh: Dār ‘Ālam al Kutub, 1423), 2:88.
  25. ایضاً۔ بلا ادخالِ آلۂ تناسل اور بلا انشقاق پردہ بکارت کے مادہ منویہ رحم میں لے جانا ایک طبی قانونی (Medico-legal) قضیہ ہے، جس کے تحت خون کے ساتھ مادہ منویہ کی آمیزش یا بغیر انشقاقِ بکارت مادہ منویہ کے ادخال کی ممکنہ صورتوں میں طبی اختبارات (Tests) کے لئے رجوع کیا جائے گا۔ تاہم اس قسم کی طبی رپورٹ سزائے اصل کو ثابت نہیں کرسکے گی۔ Ibid.
  26. صحیح مسلم ، رقم:۱۶۹۱، السنن الکبریٰ ، رقم:۱۶۹۰۹ Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth
    1. 1691; Al Sunan al Kubra, Ḥadīth
    2. 16909.
  27. ابن الہمام، فتح القدیر، دارالفکر ، ۴:۲۹۳،۲۹۴۔ المغنی ، ۹:۵۱۔ الاُم ، ۷:۴۱ Ibn al Humām, Fatḥ al Qadīr, (Dār al Fikr), 4:293-294. Al Mughnī, 9:51. Al Umm, 7:41.
  28. ابنِ مفتاح، عبداللہ، شرح الازھار، ۵:۳۷۵ Ibn Miftāḥ, ‘Abdullah, Sharḥ al Azhār, 5:375.
  29. السنن الکبریٰ ، رقم:۱۷۴۰۴ Al Sunan al Kubra, Ḥadīth
    1. 17047.
  30. الرکبان ، اثبات النظریۃ العامۃ لاثبات موجبات الحدود، ۲:۲۷۶۔ اس ضمن میں نظریۂ تخلیق بلا ملاپ (Parthenogisis) بھی عدالت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے کہ جاندار اشیاء میں کبھی عملِ تخلیق و نمو نر کے ملاپ کے بغیر بھی ممکن ہے۔ مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب اسلام کا فوجداری قانون دفعہ نمبر (۲۶) بابت حد زنا کا تشریحی اور ذیلی نوٹ دیکھا جا سکتا ہے۔ Al Rukbān, Ithbāt al Naẓariyyah al ‘Āmmah Li Ithbāt Mūjibāt al Ḥudūd, 2:276.
  31. The Black’s Law Dictionary Online, s.v. “History of DNA Testing”, accessed on December 22, 2018, https://thelawdictionary.org/article/history-of-dna-testing-in-criminal-cases/.
  32. National Research Council (US) Committee on DNA Technology in Forensic Science, DNA Technology in Forensic Science, (Washington DC: National Academies Press 1992), https://www.ncbi.nlm.nih.gov/books/NBK234535/, Accessed online on 22-12-2018.
  33. Stephen M. Patton, DNA Finger Printing: The Castro Case, (Harvard Journal of Law & Technology 3, Spring Issue, 1990), pp.223-240.
  34. Forensic Magazine, http:/www.forensicmag.com/article/2005/01/evaluation-dna-evidence-crime-soloving-judicial-and-legistaltive-history-accessed. Accessed on 18-09-2016.
  35. دیکھیں حوالہ نمبر: ۳۰،۳۲ See Reference
    1. 30, 32.
  36. السنن الکبریٰ ، رقم:۱۷۰۵۷ Al Sunan al Kubra, Ḥadīth
    1. 17057.
  37. ابن ابی شیبہ ، المصنف ، رقم: ۸۵۴۲ Ibn Abī Shaybah, Al Muṣannaf, Ḥadīth
    1. 8542.
  38. جسٹس تنزیل الرحمن ، قانونی لغت ، بذیل، "Benefit of Doubt " Justice Tanzeel ur Rahman, Qānūnī Lughat.
  39. گنگوہی، محمد حنیف، غایۃ السعایۃ فی حل غوامض الہدایۃ، المکتبۃ الاشرفیہ، لاہور، ۱:۸۹ Gangohī, Muḥammad Ḥanīf, Ghayah al Si’āyah fī Ḥall Ghawāmiḍ al Hidāyah, (Lahore: Al Maktabah al Ashrafia), 1:89.
  40. الجزیری، عبد الرحمن، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۲۴ھ، ۵:۳۴۴ Al Jazīrī , ‘Abd al Raḥmān, Al Fiqh ‘Ala al Madhāhib al Arba’ah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1424), 5:344.
  41. الطرق الحکمیۃ ، ۱:۹۳ Al Ṭuruq al Ḥikamiyyah, 1:93.
  42. ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت، کتاب الحدود، باب من اظہر الفاحشۃ، رقم: ۲۵۵۹ Ibn Mājah, Muḥammad bin Yazīd, Sunan Ibn Mājah, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Kutub al ‘Arabī), Ḥadīth
    1. 2559.
  43. Mohd Munzil bin Muhamad et al, Qarinah: Admissibility of Circumstantial Evidence in Hudud and Qisas Cases”, Mediterranean Journal of Social Sciences, 6, no. 2, (March 2015), pp. 141-150.
  44. تبصرۃ الحکام ، ۲:۸۹۔ المغنی ، ۴:۱۴۳۔ الفروع ، ۶:۸۲ Tabṣirah al Ḥukkām, 2:89. Al Mughnī, 4:143. Al Furū‘, 6:82.
  45. فتح القدیر ، ۵:۳۰۸،۳۰۹۔ مغنی المحتاج ، ۴:۱۹۰۔ المغنی ، ۹:۱۴۳ Fatḥ al Qadīr, 5:308,309. Mughnī al Muḥtāj, 4:190. Al Mughnī, 9:143.
  46. "بصمات الید" https://www.eajaz.org/index.php/Scientific-Miracles/Medicine-and-Life-Sciences/11396-Fingerprints. Accessed on December 22, 2018.
  47. الطرق الحکمیۃ ، ۱:۱۹۲،۱۹۳ Al Ṭuruq al Ḥikamiyyah, 1:192,193.
  48. Edward R. Sir, Classification and Uses of Finger Prints, (London: Georgs Rathlege and Sons, 1900), p: 299. F. Zabell, Sandy, “Finger Print Evidence” Journal of Law and Policy.
  49. حوالہ جات مذکور Ibid.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...