Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

برصغیر میں اصول تفسیر: ارتقاء، تنوع اور اس کے اسباب |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

موضوع تحقیق کا تعارف

اصول تفسیر کی تدوین نے کئی ارتقائی مراحل طے کیے ہیں اور تاحال مفسرین اس میدان میں کام کررہے ہیں۔دور نبویﷺ، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کے دور میں اصول تفسیر کا باقاعدہ نام نہیں ملتا لیکن قرآن مجید کی تفسیر کے لیے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے ذہنوں میں کچھ اصول و قواعد راسخ تھے جن کی مدد سے تفسیری مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاتی تھیں۔جو اصول ان ادوار کے تفسیری ذخیرہ سے اخذ کیے جاسکتے ہیں ان میں تفسیر القرآن بالقرآن، تفسیر القرآن بالسنۃ، تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ اور تفسیر القرآن باللغۃ وغیرہ شامل ہیں۔متقدمین مفسرین نے اپنی تفسیر کے مقدمات میں ان اصول تفسیر کا ذکر کیا ہے، تاہم اولین کتاب جو اس فن پر لکھی گئی وہ علامہ ابن تیمیہ کی"مقدمہ فی اصول التفسیر" ہے۔ اس طرح یہ ارتقائی سلسلہ علامہ ابن تیمیہ کے دور میں باقاعدہ تدوین کے مراحل میں پہنچ جاتا ہےاور کتابی شکل میں اصول تفسیر پر کام نظر آتا ہے۔خطۂ برصغیر بھی اصول تفسیر کی تدوین میں زرخیز رہا ہے۔زیر نظر مقالہ میں برصغیر میں اصول تفسیر کا ارتقائی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ اس مجال میں تنوعات اور اس کے اسباب کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔

علم تفسیر اور اصول تفسیر کا آغازوارتقاء

تفسیر قرآن مجید کا آغاز نبی اکرمﷺ کی ذات سے ہوا۔ آپﷺ سب سے پہلے مفسر ہیں۔جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ہے:

"عن عامر یقول سمعت رسول اللهﷺ وهو علی المنبر یقول "وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ"[1] ألا إن القوة الرمي إلا إن القوة الرمي ألا إن القوة الرمي"[2]

"عامر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سےمنبر پر فرماتے ہوئے سناکہ "وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ" قوت سے مراد رمی ہے، قوت سے مراد رمی ہے۔"

آیت کریمہ میں قوت کی وضاحت نبی اکرم ﷺ نے رمی یعنی دور سے پھینکنے سے فرمائی جس سے تیر، گولی اور میزائل وغیرہ مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالوں سے حدیث اور تفسیر کا لٹریچر بھرا پڑاہے۔[3] عہد رسالت کے بعد صحابہ کرام ؓ سے متعدد تفسیری روایات منقول ہیں۔صحابہ کرامؓ میں اکثر تفسیری اقوال خلفاء راشدین، عبداللہ بن عباسؓ ، عبداللہ بن مسعودؓ، زیدبن ثابتؓ،ابو موسی الاشعریؓ، ابی بن کعبؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓسے منقول ہیں۔دیگر صحابہؓ ابوھریرۃؓ،جابربن عبداللہؓ، انس بن مالکؓ اور عبداللہ بن عمرؓسے بھی تفسیری اقوال منقول ہیں لیکن وہ بہت قلیل ہیں۔[4] صحابہ کرامؓ کا تعامل تفسیر قرآن کے بارے میں بہت احتیاط والا تھا۔

صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کا دورتفسیر کے حوالہ سے درخشاں ستارے کی مانند ہے۔تابعین میں نامور مفسرین مجاہد بن عطاء ابی رباح ، عکرمہ، سعید بن جبیر، حسن بصری ، ابو العالیہ ضحاک اور قتادہ ہیں۔ سب سے پہلے اس فن کی ابتداء جناب سعید بن جبیر نے کی۔ عبدالملک بن مروان نے ان سے تفسیر لکھنے کی درخواست کی جس پر انہوں نے ایک تفسیر لکھ کر عبدالملک بن مروان کو پیش کی۔ عطاء بن دینار کے نام سے مشہور تفسیر دراصل یہی تفسیر ہے۔[5]

دورِ تابعین کے بعد تفسیر میں باقاعدہ تدوین کا دور شروع ہوتا ہے جو تیسری صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری تک کا وسیع زمانہ ہے۔ اس دور میں علم تفسیر ایک جداگانہ فن کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔اس زمانے کی مشہور تفاسیر میں تفسیر طبری،قرطبی، ابن کثیر وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔اس دور میں تمام تفسیری روایات سند کے ساتھ ذکر کی جاتیں تھیں۔

اس دور کے بعد، جس کو عصر تدوین کے بعد کا دور کہا جاسکتا ہے، تفاسیر کو نقل سے ہٹ کر عقلی دلائل اور دوسرے فنی علوم صرف و نحو اور عربیت وغیرہ کی بنیاد پر بھی لکھا جانے لگا، جس میں ابتدائی دورکی تفاسیر البحر المحیط اور مفاتیخ الغیب وغیرہ اپنی مثال آپ ہیں۔اب تفسیر کے میادین بہت پھیل گئے اور فقہی ، کلامی، ادبی، تاریخی، نحوی اور کلامی وغیرہ رجحانات کی تفاسیر لکھی جانے لگیں۔یہی وہ دور ہے کہ علم تفسیر عرب سے عجم میں پہنچا اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تفسیری کام کی ابتداء ہوئی۔ اگرچہ ابتدائی مساعی عربی زبان میں ہی تھیں مگر شاہ ولی اللہؒ کے زمانےیعنی بارہویں صدی ہجری سے فارسی اور اردو میں بھی تفسیری کام کا آغاز ہوگیا جس سے ایک بےپایاں ذخیرہ تفسیر وجود میں آیا۔

برصغیر میں تفسیری کام کا آغاز و ارتقاء

برصغیر میں تفسیری کام کی ابتداء کشمیر کے ایک راجہ [6]نے کی جس نے قرآن مجید کی تفسیر مقامی زبان میں تصنیف کرائی تھی۔[7]عراقی [8]نے ۲۷۰ھ میں قرآن حکیم کا ترجمہ یا تفسیر سندھی زبان میں لکھا ہے۔ ہندوستان میں قرآن کریم کا یہ پہلا ترجمہ ہے۔[9] پھر علامہ مخلص بن عبداللہ دہلوی (متوفی ۷۶۶ھ)[10]نے قرآن مجید کی ایک تفسیر بنام "کشف الکشاف" لکھی۔ امیر کبیر تاتار خان دہلوی (متوفی ۷۹۹ھ )[11] نے قرآن مجید کی ایک تفسیر "تاتارخانی " لکھی۔ پہلا فارسی ترجمہ آٹھویں صدی ہجری میں نظام الدین قمی شافی نیشاپوری نے کیا، جو دولت آباد آکر مقیم ہوگئےتھے۔

شیخ اشرف جہاں گیر سمنامی (متوفی ۸۰۸ھ) ۲۳سال کی عمر میں ہندوستان آئے، انہوں نے قرآن مجید کی ایک تفسیر بنام "نوربخشیہ" لکھی ۔حضرت گیسودراز (متوفی ۸۲۵)نے تفسیر کشاف کا حاشیہ اور علیحدہ تفسیر لکھی ۔شیخ احمد بن علی المہائمی نے قرآن مجید کی جامع تفسیر بنام "تفسیر رحمانی " لکھی۔ شیخ مہائمی کی یہ تفسیر مصر میں شائع ہوئی اور اس وقت کے جلیل القدر علماء سے خراج تحسین حاصل کیا۔قاضی شہاب الدین دولت آبادی (متوفی ۸۴۰ھ) نے قرآن مجید کی تفسیر فارسی زبان میں لکھی جو مشہور اور جامع ہے تفسیر کا نام "بحرمواج " ہے۔

خواجہ حسین ناگوری( متوفی ۹۰۱ھ )نے قرآن شریف کی ایک تفسیر تیس جلدوں میں بنام "نورالنبی" لکھی۔ مولانا اللہ داد جونپوری (متوفی ۹۲۳ھ)نے قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھی جو تفسیر کے حواشی پر مشتمل ہے۔ شیخ محمد بن عاشق چڑیا کوٹی نے قرآن مجید کی ایک تفسیر بنام "تفسیر محمدی"لکھی۔شیخ حسن محمد المعروف بہ شیخ احمد گجراتی (متوفی ۹۸۲ھ) نے قرآن مجید کی تفسیر بنام "تفسیر محمدی " لکھی۔مولاناوجیہ الدین بن نصراللہ گجراتی نے تفسیر بیضاوی کا حاشیہ لکھا ۔شیخ طاہر سندھی برہانپوری نے قرآن مجید کی تفسیر بنام "مجمع البحرین " لکھی، شیخ کا وصال دسویں صدی کے آخر میں ہوا۔شیخ عبدالحق دہلوی (متوفی ۱۰۵۲ھ) نے جس طرح حدیث کی خدمت کی، اسی طرح تفسیر قرآن مجید کی بھی خدمت بھی فرمائی۔ اورنگزیب عالمگیر کے استاذ ملا جیون جونپوری کی "تفسیر احمدی" بھی عربی زبان میں عالم اسلام میں مستند تفسیر مانی جاتی ہے ۔

آخر کار حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی برصغیر میں ترجمۃ القرآن اور تفسیر کے امام بن کر آئے۔ آپ نے فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ "فتح الرحمن" لکھا، جس پر مختصر مگر جامع تفسیری فوائد تحریر فرمائے۔ اس وقت ہندوستان میں دفتری اور تعلیمی زبان فارسی تھی لیکن اس زبان میں قرآن مجید کا کوئی ترجمہ رائج نہ تھا ۔

شاہ ولی اللہ (متوفی۱۱۷۶ھ) کے شاگرد اور شیخ طریقت مرزا مظہر جانجاناں دہلوی (متوفی ۱۱۹۵ھ ) کے خلیفہ طریقت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفی ۱۲۲۵ھ)نے تفسیر مظہری عربی زبان میں لکھی۔ نواب صدیق حسن خان (متوفی ۱۳۰۷ھ) نے قرآن کریم کی قابل قدر خدمت انجام دی ہے اور تفسیر میں " فتح البیان" اور احکام القرآن میں "نیل المرام" عربی زبان میں لکھیں۔

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

بر صغیر پاک و ہند میں اردو ترجمہ و تفاسیر کا آغاز

بر صغیر پاک و ہند میں اردو ترجمہ و تفاسیر کا آغاز سولھویں صدی عیسوی میں ہوا لیکن یہ متفرق سورتوں اور پاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اردو زبان میں سب سے پہلا تشریحی ترجمہ حکیم محمد شریف خان بن محمد اکمل خان(م۱۲۲۲ھ) نے لکھا۔ یہ ترجمہ شائع نہیں ہوا اور ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔[12] بقول قاضی عبدالصمد صارم، ہندوستان میں پہلی اردو تفسیر "چراغ ابدی" ہے جو مولوی عزیز اللہ ہمرنگ  اورنگ آبادی نے ۱۲۲۱ھ میں لکھی۔ یہ صرف تیسویں پارے کی تفسیر ہے۔ اسی طرح شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تصنیف "خدائی نعمت" المعروف "تفسیر مرادی" بہت مقبول ہوئی۔ یہ بھی تیسویں پارے کی تفسیر ہے اور تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ۱۱۸۵ھ میں مکمل ہوئی۔ [13]

اس کے بعد سے آج تک سینکڑوں تفاسیر و تراجم قرآنی منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اس مقالہ کی حدود اور وسعت کے اعتبار سے اس کی تفصیل بیان کرنا مشکل ہے۔ یہاں پر صرف اصول تفسیر سے متعلق اہم مباحث سے تعرض کیا جارہا ہے۔== برصغیر میں اصول تفسیر کا ارتقاء ==

اصول تفسیر کے آغاز و ارتقاء کی روداد صحابہ کرام ؓکے دور سے شروع ہوتی ہے۔ اورتدوین کا دور چھٹی صدی ہجری سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلہ کی سب سےنمایاں کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ ) کی "مقدمہ فی اصول التفسیر" ہے جو اس فن میں بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے بعد ہر مفسر نے اصول تفسیر کو اپنی تفسیرکے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔

برصغیر میں اصول تفسیر کا ارتقاء تفسیر نویسی کے ساتھ ہی عمل میں آیا۔ برصغیر کے تفسیری ادب میں اصول تفسیر کے بنیادی مباحث کے ساتھ ساتھ اصول تفسیر کی نئی جہات بھی سامنے آئیں۔ جن میں علماء برصغیر کے علمی و فکری رجحانات شامل ہیں۔ نیز برصغیر کے مخصوص ماحول، تکثیری معاشرے اور استعماری دور کے اثرات کی اثر پذیری بھی بہت نمایاں ہے۔ برصغیر میں اصول تفسیر کی با قاعدہ تدوین کا کام شروع ہوا اور مختلف مکتبہ فکر کے حامل مفسرین نے اصول تفسیرپر کتب و مقالات منصۂ شہود پر لائے۔ اس سلسلہ کے نمایاں کام درج ذیل ہیں:

  1. برصغیر سے تعلق رکھنے والے شیخ منوربن عبدا لحمید لاہوری(۱۰۱۱ھ) نے سب سے پہلے اصول تفسیر کے حوالہ سے نظم قرآن پر "الدر النظیم" کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآنی آیات کے باہمی ربط کے اصول پر بات کی ہے۔[14]
  2. ان کے بعد شیخ عبدالحق دہلوی نے مقدمہ تفسیرحقانی "البیان فی علوم القرآن" لکھا جس میں اصول تفسیر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
  3. اس کے بعد برصغیر پاک و ہند کے عظیم محقق امام الہندشا ہ ولی اللہ(۱۱۷۶ھ)نے اصول تفسیر کے میدان میں ایک وقیع اور بعد میں آنے والوں کے لیے بنیادی ماخذ کا درجہ رکھنے والی تصنیف "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر"تحریر کی۔الفوزالکبیرمختصر ہونے کے باوجود نکات علمیہ سے بھر پور ایک مکمل رسالہ ہے۔
  4. چودھویں صدی ہجری میں مولانا معین الدین کاظمی کڑوی(۱۳۰۴ھ) نے "جلاءالاذہان فی علوم القرآن" لکھی جو تمام تر الفوز الکبیر اور الاتقان سے ماخوذ ہے۔اس کتاب میں ایک جدت اور خوبی یہ ہے کہ موصوف نے آخر میں ہر سورۃ کا نام مکی ، مدنی کی تفصیل ، کلمات کا شمار، نقشہ اور جدول میں سمجھایا ہے۔
  5. اس کے بعد قابل ذکر کتاب "الاکسیر فی اصول التفسیر" کے نام سے نواب صدیق خان(۱۲۴۷ھ۔۱۳۰۷ھ)[15]نے اپنی عربی تفسیر "فتح البیان فی مقاصد القرآن" کے مقدمہ کے طور پر فارسی میں لکھی۔ اس مقدمے میں بھی اصول تفسیر لکھے گئے ہیں جو الفوز الکبیرسے ماخوذ ہیں۔
  6. سرسید احمد خان(۱۸۹۸ء)، جو عقلی مدرسہ کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، نے اپنی تفسیر کے حوالہ سے پندرہ اصول بیان کیے ہیں۔ سرسید نے "تحریر فی اصول التفسیر" کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ کا نظریہ پیش کیا گیا اور تفسیر کا یہ بنیادی اصول اپنایا گیا کہ اللہ کا کلام اللہ کے کام کی نفی نہیں کرسکتا۔ سرسید کی تفسیر کی طرح ان کے اصولوں پر بھی کڑی تنقید کی گئی۔
  7. مولانا حمید الدین فراہی (متوفی۱۳۴۹ھ)جو نظم قرآن کے ماہر تسلیم کیے جاتے ہیں، نے بھی علوم القرآن پر کام کیا مولانا فراہی کے ہاں نظم قرآن پر زیادہ زور دیا گیا۔ آپ نے "نظام القرآن ، دلائل النظام، أسالیب القرآن ، مفردات القرآن ، حجج القرآن اور التکمیل فی أصول التأویل وتأویل الفرقان ، أقسام القرآن، حکمت قرآن" تحریر فرمائیں۔ مولانا فراہی کے ہاں اصول تفسیر کا جامع خاکہ مولانا امین احسن اصلاحی کی "مبادی تدبر قرآن" اور جناب خالد مسعود کی کتاب"تفسیر قرآن کے اصول" میں بیان ہوا ہے۔
  8. شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیریؒ(م۱۳۵۴ھ) نے مناسبات کی بعض دقیق اور مشکل وجوہ فواصل تلاش کیں اور اہم نکات کا اضافہ کیا۔ ابن العربی اور امام رازی کی طرح، آپ قرآن کے مفردات، ترتیب ، ترکیب اور حقائق و مقاصد سب ہی وجوہ سے قرآن مجید کے اعجاز کے قائل ہیں۔آپ نے مشکلات القرآن تحریر فرمائی جسے بعد ازاں آپ کے شاگرد مولانا یوسف بنوریؒ نے کچھ اضافہ کے ساتھ "یتیمۃ البیان لمشکلات القرآن" کے نام سے ترتیب دیا۔
  9. مولانا اشرف علی تھانوی نے نظم قرآن پر اردو زبان میں "سبیل النجاح" اور عربی میں "سبق الغایات فی نسق الآیات" کے عنوان سے دو رسالے تحریر فرمائے اور سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک الگ الگ فصلوں میں ارتباط آیات پر گفتگو کی۔
  10. مولانا حسین علی (۱۳۶۲ھ)نے "بلغۃ الحیران فی ربط آیات القرآن"تحریر کی۔ جس میں نظم قرآن کے حوالے سے تفسیر کے اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔
  11. مولانا محمد طاہر نے "سمط الدرر فی ربط الآیات والسور و خلاصتھاالمختصر لمن أرادأن یتذکر أو یتدبر" تحریر کی۔
  12. مولانا عبد لسلام بن عبد الرؤف نے "تنشیط الأذھان ومقدمۃ التبیان فی أصول تفسیر القرآن" لکھی۔
  13. اس کے بعد قابل ذکر کتا بوں میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی "فہم قرآن" اور مولانا عبداللہ بہلوی کی تفسیر بہلوی ہے جس کے مقدمہ میں بھی اصول تفسیر کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
  14. مولانا امین احسن اصلاحی(متوفی۱۹۹۷ء)نے اپنی تفسیر "تدبرقرآن" میں تفصیل سے اصول تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے "مبادیٔ تدبر قرآن " اور "اصول فہم قرآن" کے نام سے بھی کتا بیں تصنیف کی ہیں۔
  15. مولانا ابو الحسن علی ندوی(متوفی۱۹۹۹ء)نے "مطالعہ قرآن کے اصول و مبادی "کے نا م سے کتاب لکھی۔
  16. مولانا محمد مالک کاندھلوی کی "منازل العرفان فی علوم القرآن" میں حضرت شاہ ولی اللہ کے بیان کردہ اصول تفسیر کی شرح بھی کی گئی ہے۔
  17. مولانا شمس الحق افغانی نے "علوم القرآن" کے نا م سے کتاب لکھی۔ جس میں اصول تفسیر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
  18. جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی نے "علوم القرآن" کے نا م سے کتاب لکھی۔
  19. مولانا حنیف ندوی نے "مطالعہ قرآن" کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں شاہ ولی اللہ کی کتاب الفوز الکبیر کی شرح کے ساتھ ساتھ اصول تفسیر کے ضمن میں دیگر مباحث پر تحقیقی مقالات پیش کیے گئے ہیں۔
  20. مولانا گوہر رحمٰن نے"علوم القرآن" کے نا م سے کتاب لکھی۔
  21. قاضی محمد زاہد الحسینی نے "تذکرۃ المفسرین" کے نام سے کتاب لکھی جس میں اصول تفسیر کے موضوع پر بالتفصیل بحث کی گئی ہے۔
  22. ڈاکٹر عنایت اللہ اسد سبحانی نے "امعان النظر فی نظام الآی و السور" کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔
  23. ڈاکڑ عبیداللہ فہد فلاحی نے "قرآن کریم میں نظم و مناسبت" کے نام سے کتاب تحریر کی جس میں تاریخ نظم کو بیان کیا گیا ہے۔
  24. مولانا ابو نصر منظور احمد شاہ نے "علم القرآن" کے نام سے کتاب لکھی۔
  25. مولانا سعید احمد اکبر آبادی (متوفی ۱۹۸۵ء) نے "فہم قرآن" کے نام سے ایک جامع کتاب مرتب کی جس میں فہم قرآن کے لیے جن علوم سے واقفیت اور مہارت تامہ لازمی ہے، ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
  26. "المفردات فی غریب القرآن" از حافظ ابو الحسن، "معجم القرآن" از ڈاکٹر غلام جیلانی برق، اور "لغات القرآن" از تاج الدین دہلوی،[16] بھی قابلِ ذکر کتب ہیں۔
  27. اس کے علاوہ قرآنی عربی اور قرآنی گرائمر وغیرہ پر مشتمل کافی مواد چھپ چکا ہے۔جیسے "تیسیر القرآن" از عطاء الرحمن، اور "مصبا ح القرآن"، "مفتاح القرآن" از پروفیسر عبد الرحمن طاہر وغیرہ۔

برصغیر میں علم اصول تفسیر کا ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ حال ہی میں تغلق آباد، نئی دہلی انڈیا کے مولانا الطاف احمد اعظمی نے "تفسیر قرآن کے اصول و مسائل " کے نام سے کتا ب تحریر کی جو لاہور پاکستان سے ۲۰۱۵ء میں چھپ چکی ہے ۔ یہ کتاب دراصل مولانا کی تفسیر "میزان القرآن" کا مقدمہ ہے۔اس میں مولانا نے وحی اور اس کے متعلقات ، قرآن مجید کی علمی و لسانی خصوصیات، تفسیر ماثور اور غیر ماثور، احسن طریقہ تفسیر اور تفسیر کے ثانوی مأخذ کے نام سے ابواب باندھے ہیں اور اس کتاب میں شاہ ولی اللہ سے لے کر سرسیدو غلام احمد پرویز تک اور جمہور کے نظریات بالخصوص وحی اور نظم قرآن سے متعلق نظریات، پر نقد کیا گیا ہے اور مقابلۃً فراہی مکتبہ فکر کے نظریات کی تائید کی گئی ہے۔

بنیادی سوال

  1. برصغیر میں اصول تفسیر کے حوالے سے کیا تنوعات پائے جاتے ہیں؟
  2. اصول تفسیر میں اختلاف کے کیا بنیادی اسباب ہیں؟

منہج تحقیق

زیر نظر مقالہ میں تاریخی وتجزیاتی حوالہ سے اصول تفسیر پر کام کیا گیا ہے۔ جس میں اصول تفسیر کی تاریخ وارتقاء کو بنیادی مصادر کی مدد سے بیان کیا گیا ہے۔ نیز برصغیر میں اصول تفسیر میں تنوع کے حوالہ سے ارتقائی وتاریخی جائزہ کے مرحلے میں وضاحتیں سامنے آئی ہیں، جس سے ان تنوعات کا تجزیہ، باہم تقابل کی مدد سے کیا گیا ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔

برصغیر میں اصول تفسیر پر کیے گئے کام میں تنوع اور اس کے اسباب

اس بحث کا حاصل یہ ہےکہ برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اصول تفسیر کے میدان میں پہلی کتاب "الفوز الکبیر فی اصول التفسیر " کے نا م سے تصنیف کی۔[17] جس میں متقدمین کے اصولوں سے ہٹ کر جدت کا پہلو بھی تھا۔شاہ صاحب کی اس کتاب کو بجا طور ایک ایسی اولین کتا ب کہا جا سکتا ہے جس کی غرض و غا یت صرف قرآن فہمی ہی تھی۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے ہی قرآن مجید کےعلوم خمسہ کو سب سے پہلے متعارف کروایا، ناسخ ومنسوخ کے حوالہ سے بھی تطبیقی نقطہ نظر اپنا کر صرف پانچ آیات قرآنی کو منسوخ قرار دیا۔

اس کتاب کے ذیلی عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ علوم القرآن کے مباحث کے ساتھ ساتھ کچھ مباحث خاص طور پر ایسے ہیں جو اصول تفسیر کے ساتھ مختص ہیں۔ مثلاً قرآن مجید کے علوم پنجگانہ کی تفصیلات اور الفاظ کے مدلولات کے مباحث وغیرہ۔ اس کتا ب کی تالیف کا بنیادی سبب برصغیر کے علماء اور عوام میں قرآن فہمی کا ذوق اور تحریک کو پیدا کرنا ہے۔تاکہ لوگ قرآن مجید کے اصل مدعا کو سمجھ سکیں اور اس کے احکام کی اصل حکمتیں ان پر روشن ہو جائیں۔ اسی وجہ سے اس کتاب میں کسی تحریک یا فرقہ کا نہ تو رنگ نظر آتا ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی مواد پایا جاتا ہے۔ خود شاہ صاحب نے اس کتاب کی وجہ تألیف بیان کی ہے:

"جب اس فقیر پر کتاب اللہ کے سمجھنے کا دروازہ کھولا گیا تو میں نے چاہا کہ بعض مفید نکات جو کتاب اللہ کے سمجھنے میں دوستوں کو کارآمد ہو سکتے ہیں ایک مختصر رسالہ میں منضبط کروں۔ خداوند تعالیٰ کی عنایتِ بے غایت سے امید ہے کہ طالب علموں کو صرف ان قواعد کے سمجھ لینے سے ایک وسیع شاہراہ کتاب اللہ کے سمجھنے میں کھل جائے گی کہ اگر وہ ایک عمر کتب تفاسیر کا مطالعہ کرنے یا ان کو ،مفسروں سے، جن کی تعداد اس زمانہ میں بہت کم ہوگئی ہے، پڑھنے میں صرف کریں تو اس قدر ضبط کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتی اور میں نے اس رسالہ کا نام الفوز الکبیر فی اصول التفسیر رکھا۔"[18]

برصغیر میں اس آغاز کے بعد متعدد کا وشیں ہوئی جیسے جیسے علم تفسیر نے ترقی کی ، ساتھ ساتھ اصول تفسیر پر بھی کام ہونے لگا۔ برصغیر میں اصول تفسیر کے حوالے سے جو کام ہوا اس کا تحلیل وتجزیہ کیا جائے تو تین مکاتب فکر وجود میں آتے ہیں۔

اصول تفسیر کے حوالہ سے جو مکاتبِ فکر وجودمیں آئے، ان میں سرسید احمد خاں کاعقلی مدرسہ، مکتبہ فراہی اور ماثوری مکتبہ فکرقابل ذکر ہیں ۔ یہی وہ تین مکاتب ہیں جنہوں نے باقاعدہ اصول تفسیر پر کام کیا اور کتابیں لکھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کے تفسیری ادب کی تشکیل ان ہی مکاتب فکر کے قائم کردہ اصولوں کے تحت ہوئی۔ہر مکتبہ فکر کے ہم خیال علماء نے انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر تفاسیر لکھیں۔ان تفاسیر پر نقدبھی اصولوں کےہی پیش نظر ہوا۔ان کے علاوہ تفاسیر کا کچھ ذخیرہ ایسا بھی ہے جس کے مصنفین کو ہم غیر اصولی مکتبہ فکر قرار دے سکتے ہیں کہ نہ تو انہوں نے اصول قائم کیے اور نہ ہی باقاعدہ کسی اصول کی پابندی کی ۔لہذا ایسی تفاسیر پر نقد بھی ان کی عبارات اور مفاہیم کو بنیاد بنا کر کیا گیا۔

برصغیر میں اصول تفسیر کے مدارس(اسکول آف تھاٹ) اور تنوع

برصغیر میں اصول تفسیر کے میدان میں ایک طبقہ تفسیر بالماثور کے طریقہ کو ہی صحیح سمجھتا ہے اوراس کے مطابق ہی تفسیر میں اپنی مساعی کو جاری رکھے ہوئے ہےجبکہ ایک گروہ عقلی منہج پر گامزن ہے اور اس طریقہ تفسیر میں تفسیر بالماثور کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ایک تیسرہ گروہ تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کو ساتھ ساتھ چلا کر نظم قرآن کا نظریہ دیتا ہےجس کے مطابق پورا قرآن مجید اپنی سور، آیات اور الفاظ سمیت ایک نظام میں پرویا ہوا ہے اور اسی بنیادی نظریے کو اہمیت حاصل ہے اور وہی تفسیر صحیح ہو گی جونظم قرآن کے نظریہ کے تحت کی جائے گی۔ با قاعدہ مدون مدارس فکر میں تو یہ تینوں ہی شمار کیے جاتے ہیں اور ان سے ہی تعرض کیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے باقاعدہ طور پر تین مناہج کوذکر کیا ہے۔ڈاکٹر عبیدا لرحمن محسن اس حوالے سے لکھتے ہیں:

"ارتقا و تغیر کے اس موڑ پر تین واضح اور متعین مدارس فکر وجود میں آئے جنہیں ہم برصغیر کے اساسی و بنیادی نوعیت کے مناہج اصول تفسیر قرار دے سکتے ہیں۔ ۱۔ منہج تفسیر بالمأثور،۲۔ فراہی مکتب فکر،۳۔ انحرافی مکتب فکر"[19]

ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں جن مکاتب فکر کا ذکر کیا ہے اگرچہ وہ ان تین کی بنیادی تقسیمات میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن علمی ذوق ان کی اس پیش کش کو ذکر کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے نزدیک شاہ ولی اللہ کا مکتب فکر، تفسیر قرآن کے میدان میں علماء دیوبند کی مساعی جمیلہ، برصغیرمیں اہل حدیث مکتب فکر کے تفسیری افکار، سرسید احمد خان کی قرآنی سوچ، غلام احمد قادیانی کا مکتب فکر ،مولوی محمد علی لاہوری کا مکتب فکر، مولانا ابولکلام آزاد تفسیر اور فہم قرآن کے میدان میں، بریلوی مکتب فکر اور ان کا تفسیری منہج، تفسیر حقانی ، مولانا حسین علی کا مکتب فکر، مولانا عبیداللہ سندھی کا مکتب فکر، مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا مکتب فکر اور غلام احمد پرویز کا مکتب فکر۔[20] ان تمام نے اپنے اپنے فہم قرآن اور نظریہ کی بناء پر اصول تفسیر کواپنی تفاسیر کے مقدمات میں ذکر کیا ہے۔

ذیل میں ہر ایک مکتبہ فکر کے اصول تفسیر کو اجمالاً قلمبند کیا جاتا ہے جو اس مکتبہ فکر کے مشاہیر کے اقلام سے صادر ہوئے ہیں۔ تاکہ تنوع کی ایک واضح صورت سامنے آسکے۔تفسیر بالماثور کے منہج پر اصول تفسیر کے میدان کے مؤلفین میں سب سے پہلا نام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہے، پھر نواب صدیق حسن خان، مولانا اشرف علی تھانوی، سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا محمد مالک کاندھلوی، مولانا عبداللہ محدث روپڑی اور مولانا عبدالحق سیالکوٹی کے اسماء گرامی نمایاں ہیں۔

منہج تفسیر بالماثور کے اصول تفسیر

  1. تفسیر القرآن بالقرآن[21]
  2. تفسیر القرآن بالاحادیث[22]
  3. تفسیر القرآن بأقوال الصحابہ و التابعین[23]
  4. اسباب نزول کی معرفت اور تطبیق[24]
  5. لغت عرب کی معرفت[25]
  6. متأخرین کے اقوال جو سلف کے خلاف ہوں، ان کو نہیں لیا جائے گا۔[26]
  7. مفسرین کے متعدد اقوال کی صورت میں جو روایت یا ذوق عربیت سے قریب تر ہو اسی کو اختیا ر کیا جائے گا۔ [27]
  8. مفسر خود بھی اعتقاد میں سلف صالحین کے مطابق ہو اور اعمال میں ثقہ ہو۔[28]
  9. محض عقل و رائے اور محض لغت دانی کی بنیاد پر تفسیر کرنا حرام ہے۔[29]

فراہی مکتب فکر کے اصول تفسیر

فراہی مکتبہ فکر کے بانی مولانا حمید الدین فراہی کے نزدیک تفسیر کے اصول تین قسموں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں:

۱۔ بنیادی اصول

الف۔ نظم کلام اور سیاق و سباق کا لحاظ

ب۔ نظائرقرآن کی روشنی میں مفہوم کا تعین

ج۔ کلام میں مخاطب کا صحیح تعین

د۔ الفاظ کے شاذ معانی کا ترک[30]

یہ وہ بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں جن کا سہارااس وقت لیا جاتا ہے جب عبارت کے ایک سے زیادہ معنی لینے کا احتمال نہ ہو ں۔ ان کو بالعموم اختیار کیا جانا ضروری ہے۔

۲۔ ترجیح کے اصول

جب کلام میں متعدد معانی کا احتمال ہو تو ان اصول مرجحہ کو اختیار کیا جائے گا:

الف ۔ وجوہ کے اختلاف کے وقت جو معنی سیاق و سباق اور عمود کلام کے زیادہ قریب ہوگا وہ لے لیا جائے گا۔

ب۔ کلام میں احتمالات کی صورت میں اس احتمال کو لیا جائے گا جس کی نظیر باقی قرآن سےملتی ہو ، جس کی موافقت قرآن سے نہ ہو اسے ترک کردیا جائے گا۔

ج۔ کلام میں موجودعبارت کے علاوہ اگر کوئی مفہوم کسی عبارت کا تقاضا کرے تو وہ مرجوح ہو گا۔

د۔ احسن پہلو رکھنے والی تفسیر کو لیا جائے گا۔

ر۔ لغوی طور پر ثابت شدہ معانی کو اختیار کیا جائے گا ۔الفاظ کے معروف معانی لینا بھی لغوی ثا بت شدہ معانی اختیار کرنے میں شامل ہے۔ اسی طر ح شاذ اور منکر لفظ کو ترک کر دیا جائے گا۔[31]

۳۔جھوٹے یا غلط اصول

علامہ فراہی نے دو جھوٹے اصول بیان کیے ہیں اور ان کی بابت کہا ہے کہ جھوٹے اصولوں پر لوگوں نے اعتماد کر رکھا ہے حالانکہ ان کی کچھ حیثیت نہیں ، ہم ان کا ذکر محض اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ان سے اجتناب کیا جائے۔

الف۔ کیا حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے یا اس کے برعکس؟یعنی احادیث کو پڑھنا اور پھر ان کی روشنی میں قرآن کو سمجھنا۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن مجید پر احادیث نے کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کے مخفی گوشوں کی مبین ہےجو تدبر نہ کرنے والے پر مخفی رہ جاتے ہیں۔احادیث کی حیثیت فقط ایک اضافی تائید کی ہے۔

ب۔ سلف صالحین سے منقول اقوال کی روشنی میں ، اگرچہ وہ ضعیف ہی ہوں قرآن کو سمجھنا۔[32]

اس کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی اصول کے نا م سے بھی کچھ اصول ذکر کیے گئے ہیں ، جو اصل میں نظم قرآن، احادیث سےبے اعتنائی، لغت سے تفسیراور سنت متواترہ، احادیث و آثار صحابہ، شان نزول، کتب تفسیر، آسمانی صحیفے، تاریخ عرب وغیرہ ہی ہیں۔

داخلی اصول:

۱۔ تفسیر کے تین داخلی اصول بیان کیے گئے ہیں:

الف۔تفسیر قرآن بذریعہ نظم قرآن، علامہ فراہی فرماتے ہیں صحیح سمت کو متعین کرنے والی واحد چیز نظم قرآن ہے۔ جس کے ذریعے ہی اہل بدعت وضلالت اور اصحاب تحریف کی کجرویوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔[33] فراہی مکتب فکرنظام القرآن کی تشریح یہ کرتا ہے کہ ہر سورت کی تاویل اس طرح کی جائے کہ پوری سورت ایک کلام کے قالب میں ڈھل جائےاور وہ سورت اپنی سابق و لاحق سورتوں سے، جو باعتبار نظم اس سے دور پہلے یا پیچھے واقع ہوں ، مربوط ہوجائےجس طرح بعض آیات بطور جملہ معترضہ آجاتی ہیں اس طرح بعض سورتیں بھی بیچ میں بطور جملہ معترضہ آجاتی ہیں۔اس نکتہ کو نگاہ میں رکھ کر قرآن پر غور کرو تو تمھیں سارا قرآن ایک منظم کلام کی شکل میں نظر آئے گااور شروع سے آخر تک اس کے تمام اجزاء میں نہایت ہی محکم،مضبوط مناسبت وترتیب معلوم ہوگی۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ نظام کا اصول یا علم اجزاء کی ترتیب و مناسبت کے علم کے علاوہ ایک اور علم ہے۔ جسےفراہی صاحب ربط و مناسبت کے علم سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ قرار دیتےہیں۔

ب۔مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ پہلا اصول یہ ہے کہ تفسیر کا ماخذ اول اس زبان کو بنا یا جائے جس میں قرآن پاک اترا ہے۔ مراد عام عربی زبان نہیں جو آج کل بولی سمجھی جاتی ہے، بلکہ اس سے مراد امرؤ القیس ، لبید ، زہیر ، عمروبن کلثوم اور حارث وغیرہ، عرب کے خطبائے جاہلیت، کے کلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اس کلام کی آپ کو اس حد تک ممارست بہم پہنچانی پڑے گی کہ آپ اس کے اصلی و نقلی میں امتیاز کرسکیں۔[34]

ج۔ فراہی مکتب فکر کا تیسرا داخلی اور قطعی اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے۔ قرآن مجید میں ایک بات کہیں اجمال کے ساتھ آتی ہے تو کہیں تفصیل کے ساتھ کہیں کسی چیز کے ساتھ آتی ہے تو کہیں کسی چیز کے ساتھ۔ اگر کوئی شخص قرآن کی مشکلات خود قرآن سے حل کرنے کی کوشش کرے تو ایک جگہ اگر کسی چیز کا نظم واضح نہیں ہوتا تو دوسری جگہ اس کا نظم واضح ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات اس کے اسالیب و محاورات تک کی مشکلات مختلف صورتوں میں بار بار نمایاں ہونے کی وجہ سے واضح ہو جاتی ہیں۔[35]

۲۔فراہی مکتبہ فکر کےہاں اصل کےبعدفرع کی حیثیت سے جو تفسیر کے مأخذ مانے جاتے ہیں ان میں احادیث نبویہ جن کو علماء امت نے قبول کیا،قوموں کے ثابت شدہ و متفق علیہ حالات اور گذشتہ انبیاء کے صحیفےجو محفوظ ہیں۔۔۔اگر ان تینوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔[36] حدیث کو بھی فرع کی حیثیت سے لیا جاتا ہے اور احادیث و روایات کو بطور تائید کے پیش کیا جاتا ہے۔جمہور [37]کے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ بیان ومبین مساوی المرتبت ہوتے ہیں ۔ اس لیے اگر احادیث روایات صحیحہ سے ثابت ہوں ، مثلاًخبر مشہور وغیرہ تو ان کا بھی قرآن والا حکم ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"[38]

" سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔"

۳۔ قرآن مجید کا ہر ہر لفظ قطعی الدلالۃ ہے۔[39]

خارجی اصول:

تفسیر قرآن کے خارجی ذرائع: سنت متواترہ، احادیث و آثار صحابہ، شان نزول، کتب تفسیر، آسمانی صحیفے، تاریخ عرب۔[40]

سرسید احمد خان کے عقلی مکتب فکر کے اصول تفسیر

اس مکتبہ فکر کو معتزلی یا انحرافی مکتب فکر کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس مکتب فکر کے تاریخی پس منظر کو فرقہ معتزلہ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔معتزلہ چونکہ تقدیر کے منکر ہیں اس لیے انہیں قدریہ فرقہ کی طرف نسبت کرکے قدریہ بھی کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے بنیادی اصول تفسیر میں سے پہلا اصول علم وحکمت کا سرچشمہ عقل کا ہونا ہے نہ کہ نقل کا۔[41] دوسرا اصول اپنے مزعومہ عقائد اور عقل کے خلاف ہر چیز کی تاویل یا انکا ر کرنا ہے۔[42] تیسرا اصول احادیث و آثار صحابہ کا عقل کی بنیاد پر قبول و رد[43]چوتھا اصول تفسیر اسلاف کی تحقیر کرناہے۔[44] جس طرح قدیم فرقہ معتزلہ ایک بیرونی اثر (یونانی فلسفہ ) کی بنیاد پر ان سے مرعوب ہو کر وجود میں آیا بالکل اسی طرح جدید معتزلہ ، انحرافی مکتب فکر بھی جدید مغربی افکار ونظریات کے ردعمل کے طورپر سامنے آیا۔اس مکتبہ فکر کے بانی اور سرخیل سرسید احمد خان کو قرار دیا جاتا ہےاور اس کی آبیاری کرنے میں سب سے فائق نام غلام احمد پرویز کا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ عبداللہ چکڑالوی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، اسلم جیراج پوری اورتمنا عمادی کے نام بہت نمایاں ہیں۔انحرافی مکتب فکر کے اصول تفسیر کو سرسید اور غلام احمد پرویز کے اصول تفسیرتک ہی بیان کیا جاتا ہے کہ باقی تمام کے اصول ہردو میں سے ایک سے مماثلت رکھتے ہیں۔

سرسید اور اصول تفسیر

برصغیر کے سیاسی و سامراجی حالات جو انگریز قوم کے قبضے کی وجہ سے پیدا ہوئے اور اس محکومی کی فضا میں ردعمل یا پھر ہم آہنگی کے افکار کی بنا پر بھی قرآن مجید کی تفسیر کی گئی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہونے کے بعد جب عیسائی مشنری شخصیات اور اداروں نے الحاد اور تشکیک کا بازار گرم کیا تو مسلمان علماء نے اس تحریک کا جواب تقریر و تحریر دونو ں صورتوں میں دیا ۔ یہی وہ دور تھا جب سرسید احمد خان سرولیم میور کی کتاب دی لائف آف محمد پڑھ کر افسردہ ہوئے اور اس کا مستقل جواب دینے کی خاطر خطبات احمدیہ کا کام شروع کیا۔ قرآن فہمی کے حوالہ سے سرسید نے اپنے تئیں یہ ضرورت محسوس کی کہ لوگ مشنریوں کے اٹھائے ہوئے اعتراضات سے ملحد ہورہے ہیں اور قرآن مجید کی حقانیت و حفاظت پر حرف آنے کا احساس پیدا ہونے لگا تو انہوں نے از خود تفسیر لکھنا شروع کی۔

اس تفسیر میں بیان کردہ تاویلات پر اعتراضات ہوئے تو سرسید احمد خان نے اپنے تفسیری اصولوں کی وضاحت کی۔ ایک استفسار کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اپنے تفسیری اصولوں کو بیان کیا جسے بعد میں "مقدمہ تفسیر" اور "تحریر فی اصول التفسیر" کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ تحریر جمہور امت کے مسلک اور رائے سے ٹکرا رہی تھی اور ان اصولوں میں بہت سے مسلمات کے انہدام کا سامان نظر آرہا تھا لیکن سرسید احمد خان کے ہاں ان اصولوں کی توجیہ ان کا فہم قرآن تھاجس کو وہ ان اصولوں کی مدد سے منظم انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ بہرکیف تفسیر اور اصول تفسیر میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا چونکہ ان کے اصول تفسیر جمہور امت کے لیے قابل قبول نہیں تھے، اسی بنا پر سرسید احمد خان کی تفسیر کو تفسیر بالرائے المذموم میں شمار کیا جاتا ہے۔

سرسید احمد خان نے بنیادی طور پر پندرہ اصول تفسیر بیان کیے ہیں جو التحریر فی اصول التفسیر کی شکل میں چھپ چکے ہیں۔ جن کو دو بنیادی اصولوں کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔

۱۔ قرآن اور فطرت میں لازمی مطابقت اور خلاف قانون فطرت آیات کی تاویل ، کیونکہ قرآن کلام خداوندی اور کائنات کام خداوندی اور ان دونوں میں تعارض نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید میں مذکور تام معجزات و خوارق عادت امور کا انکار سرسید نے اس اصول پر کیا ہے۔

۲۔ عقل کی برتری اور اگر کوئی آیت عقل سے ٹکرا رہی ہو تو اس کی ایسی تاویل کہ وہ مطابق عقل ہوجائے۔ خود سرسید صاحب نے بھی نواب محسن الملک کے نام مکتوب میں ان اصولوں کو تفسیر قرآن کے سب سے مقدم اصول تسلیم کیا ہے۔[45]

غلام احمد پرویز اور اصولِ تفسیر:

غلام احمد پرویز نے اپنے اصول تفسیر میں سب سے پہلا اصول تفسیر القرآن بالقرآن کا ذکر کیا ہے لیکن اس کی تشریح یا عملی صورت جمہور سے مکمل اختلاف ہے۔ دوسرا اصول تفسیر بالروایت سے مکمل اجتناب کا ہے۔[46] ان کا تیسرا اصول اختلاف قرأت سے مکمل گریز کا ہے۔[47]چوتھا اصول الفاظ قرآنی کی حدود سے عدم تجاوز ہے۔[48] اس کے علاوہ الفاظ قرآن کے معانی مطابق زبان مراد لینا، تعارض قرآن بننے والی تفسیر ناقابل قبول وغیرہ ان کے بنیادی اصول ہیں۔

سطور بالا میں ذکر کردہ مناہج اصول تفسیر میں کچھ مشترک اصول پائے جاتے ہیں جبکہ کچھ مختلف ہیں اشتراک میں بھی لفظی اشتراک کا سہارا زیادہ لیا گیا ہے جب کہ لفظ کی تشریح و توضیح میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسے تفسیر القرآن بالقرآن کا اسلوب نہ صرف تفسیر بالماثور کرنے والوں کا خاصہ ہے بلکہ فراہی اورعقلی مکتبہ فکر بھی ان اصولوں کو مانتے ہیں لیکن تشریح و توضیح میں پہلا گروہ قرآنی آیات کی تطبیق احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں کرتا ہے جبکہ فراہی مکتبہ فکر کے ہاں احادیث کو صرف تائید کے لئے لیا جائے گا۔ اسی طرح عقلی مکتبہ فکر تفسیر القرآن بالقرآن کا مطلب جاہلی ادب سے معنی کی تعیین اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کو قرار دیتا ہے۔ دوسرے اصول تفسیر القرآن بالأحادیث کوایک طبقہ تو درخوراعتنا نہیں سمجھتااور دوسرا تائیدی مقاصد کے لئے سجھتا ہے جبکہ تیسرا طبقہ ان کو مآخذ شریعت قرار دیتے ہوئے بعض شرائط کے ساتھ احادیث کو قرآن مجید پر مضیف بھی مانتا ہے ۔

اہل تفسیر بالماثور سلف صالحین کے اقوال کا التزام کرتے ہیں اور محض عقل دانی اور لغت کی بنا ء پر تفسیر کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں جبکہ فراہی مکتبہ فکر سلف صالحین سے منقول اقوال کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھنے کو جھوٹے اصولوں میں شمار کرتے ہیں اور اس سے اجتناب کا حکم دیتے ہیں۔ اسی طرح انحرافی مکتبہ فکر تو صحابہ کا بھی استہزاء اور مذاق اڑاتا ہے چہ جائیکہ ان کا قول لے۔

فراہی مکتب فکر اور عقلی مکتبہ فکر کے ہاں تفسیر کے لئے جاہلی عربی ادب کی طرف مکمل رجوع کیا جاتا ہے، جبکہ تفسیر بالماثور کرنے والے حضرات اگرچہ لغت کا خیال کرتے ہیں، لیکن وہ لغت کااصل منبع و سرچشمہ قرآن مجید کو قرار دیتے ہیں اور جاہلی عربی سے صرف اسی معنی کو لیا جاتا ہے جو شریعت کے پورے نظام کی کسی طرح بھی نفی نہ کر رہا ہو جیسے معجزات، جنات، واقعہ فیل، ابراھیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالا جانا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذبح، ان ساری قرآنی تعبیرات و واقعات کو لغت کا سہارا لےکر اہل قرآن اور فراہی مکتبہ فکر نے تاویل کر دی ہے لیکن اس بارے میں واضح اور صحیح روایات احادیث کو یکسر رد کر دیا ہے ، جبکہ اہل تفسیر بالماثور ان تمام تعبیرات کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح نبی اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب سے نقل کیا گیا۔ #

  1.  

برصغیرمیں اصول تفسیر کےاختلاف کی وجوہات اور اسباب

اصول تفسیر کے باب میں صرف اصولی قواعد کوہی نہیں ذکر کیا جاتا ہے بلکہ جن حضرات نے اصول تفسیر پر کام کیا ہے وہ کسی بھی مفسر کے لیے اصول و فروعات سے متعلق ہر باب میں معلومات مہیا کرتے ہیں مثلاً اگر اس بات کو زیر بحث لایا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر بالماثور ہو تو اس کے کون کون سے ذرائع درست ہوں گے اور تفسیر بالرائے کی صورت میں اس کی کیا قیود ہوں گی تو اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی عربیت ، فہم قرآن کے قوانین، اصطلاحات قرآنی اور علوم القرآن وغیرہ کو بھی ذکر کر دیا گیا ہے اور ان مباحث کے ذیل میں بھی مفسرین نےکچھ قوانین اور اصول متعین فرمادیئے ہیں۔ جس میں ہر مفسر (اصول تفسیر کےمصنف ) نےاپنا فہم اور طریقہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کی دوسرے کے ساتھ بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے مگربعض چیزوں میں اختلاف بھی موجود ہے اور یہ اختلاف مفسر کے ذاتی ذوق یا فہم ہی کا نتیجہ ہے۔ اس ذاتی ذوق کو کسی بیرونی داعیہ پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی فکر سے متا ٔثر ہو کر یا پھر کسی معترض کے اعتراض کے جواب میں کوئی مفسر اصول تفسیر مرتب کرتا ہے۔

تدوین اصول تفسیر سے عدم اعتناء

اصول تفسیر موجودہ دور تک ایک مدون علم کی صورت اختیار نہیں کرسکا۔ شاہ ولی اللہ ؒ سے پہلے برصغیر سے باہر بھی اصول تفسیر پر کام مقدمات تفسیر میں علوم القرآن کے مباحث میں ہی ملتاہے۔ صرف امام ابن تیمیہؒ کا رسالہ "مقدمہ فی اصول التفسیر" ایسی تصنیف ہے جو اس میدان میں اوّلیت کا درجہ رکھتی ہے۔اگر اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ مسلمانوں نے نہ صرف خالص مذہبی علوم بلکہ فنون کو بھی بہت ترقی دی اور ایک ایک فن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں تصانیف مرتب کی گئیں(جیسے علوم الحدیث وغیرہ)جبکہ اس علم میں تصانیف کی تعداد بھی بہت کم ہےاور اس علم میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی اور باقاعدہ طور پر اس علم کو مدون کیوں نہیں کیا گیا، اس کے کیا اسباب ہیں۔

مطالعہ اور غور وفکرسے اس کے دو بنیادی اسباب سمجھ میں آتے ہیں:

۱۔ چونکہ قرآن مجید سے استنباط فقہ اور اصول فقہ کا میدان تھا لہذا جو اصول اور قواعد اصول فقہ کی صورت میں سامنے آئے اصل میں ان کا خاصا بڑا حصّہ اصول تفسیر کے طور پر لیا جا سکتا ہے مثلاً خاص، عام، مشکل ، متشابہ وغیرہ ۔لہذا ان ہی اصولوں کی مدد سے استنباط احکام، جو اصل مقصود تھا، کا کام ہوتا رہا اور فہم قرآن سے آگے بڑھ کر احکام مرتب کیے گئے تاکہ عمل بالقرآن سے نجات اخروی کا سامان میسر آسکے۔گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقصود اصلی جو رضا رب تھا وہ عمل بالقرآن تھا اور عمل بالقرآن احکام کی بجاآوری سے ہی ممکن تھا اور احکام کا استنباط اصول فقہ کی مدد سے ممکن تھا تو اسی میدان میں کام کو آگے بڑھایا گیا۔

۲۔ براہ راست قرآن فہمی کے لیے اصول تفسیر اس لیے نہیں مرتب کیے گئےکہ قرآن فہمی کا انحصار شروع سے ہی عقل کی بجائے نقل پر تھا۔ نبی کریم ﷺسے صحابہ اور صحابہ ؓ سے تابعین و تبع تابعین کی نقل کا سلسلہ جا ری رہا۔ اسی لیے احادیث کے ذخیرہ سے ہٹ کر بھی تفسیری روایات ملتی ہیں جو صرف اور صرف تفسیری ذخیرہ کا ہی حصّہ ہیں۔

گویا اصول تفسیر یا تو اصول فقہ کی صورت میں موجود تھےیا پھراصول تفسیر کی باقاعدہ تدوین کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جارہی تھی۔

تفسیر میں رائے اور اجتہاد کا دروازہ تیسری صدی میں کھلا۔تفسیر بالرائے کے آغاز و ارتقاءکا جائزہ لیا جائے تو اس کے اسباب میں بھی کلامی مسائل کا خاصا عمل دخل ہے ۔ معتزلہ، خوارج ، شیعہ، جہمیہ اور قدریہ وغیرہ مسالک جب وجود میں آئےاور نقل سے ان مسالک کے عقائد و نظریات پوری طرح سے ثابت نہیں ہو پارہے تھےتو ایسی صورت میں ہر فرقہ نے اپنے عقائد اور نظریات کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ کے طور پر تفسیر بالرائے کے منہج سامنے آئے۔ یہی وہ تفاسیر ہیں جن کے مقدمات میں مفسرین نے اپنے اصول تفسیر بیان کیے ہیں اور آگے چل کر تفسیر کو اپنے عقائد و نظریات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے استعمال کیا۔

یہاں یہ بات بھی یا د رہے کہ اس طرح کے اصول تفسیر راہ راست سے بالکلیہ انحراف نہیں تھا بلکہ یونانی فلسفہ کی روشنی میں قرآنی الفا ظ کی تعبیر بیان کرنے کی کوششیں تھیں جس سے کچھ حد تک انحراف در آیا۔اس کے ساتھ ساتھ اصل راہ راست کے مطابق بھی تفسیر کا کام جاری تھا جو یا تو تفسیر بالماثور کی صورت میں تھا یا پھر تفسیر بالرائے میں سلف صالحین کےاجتہادی اقوال اور آراء پر مشتمل تھا جو بہر صورت شریعت اسلامیہ کے کلی نظام(میکانزم) کے ساتھ باہم متفق تھیں۔

شاہ صاحب کے دور سے ہی برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کی بساط لپٹی چلی جارہی تھی اور آہستہ آہستہ فرنگی قبضہ کی صورت میں اس کا اختتام ہوا۔ اس دور میں لادینیت کا بھی بامِ عروج تھا۔ لوگ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی غلام بنتے جارہے تھے۔ اس غلامی کے دور میں برصغیر میں تفسیر اور اصول تفسیر کا کام مزاحمتی فکر کے حامل لوگوں کے زیراثرتفسیر بالماثورکے طور پریا پھرغلامی اور کمتری کے احساسات کے زیر اثر ہوا یا پھر مسلکی فرقہ پرستی، جو خود انگریز ہی کی پیدا کی ہوئی تھی، کے زیر اثر پر وان چڑھا ۔ اس مسلکی گروہ بندی میں دو بنیادی گروہ پائے جاتے ہیں ۔اہلسنت اور اہل تشیع۔پھر اہلسنت کی مزید تقسیمات بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث کے طور پر اور اہل تشیع میں اثنا عشریہ ، اسماعیلی ، زیدی اور باطنی وغیرہ کی تقسیمات پائی جاتی ہیں۔ان گروہوں نے اپنے اپنے مسلک کی تائید میں نہ صرف تفسیری ذخیرہ مرتب کیا بلکہ بالعموم انہی تفاسیر کے مقدمات میں اور بالخصوص علیحدہ کتب کی صورت میں اصول تفسیر بیان کیےہیں۔

اصول تفسیر کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مفسرین حضرات جو خود کسی خاص ڈاکٹرائن کے قائل و حامل ہوتے ہیں اور وہ پہلے سے تفسیر کسی خاص انداز میں ہی پیش کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تفسیر ی تعبیرات دے چکے ہوتے ہیں ۔ اس تفسیر کے جواز کے لئے اصول تفسیر مرتب کرتے ہیں جیسے سر سید احمد خان کا نظریہ ورڈ آف گارڈ اور ورک آف گارڈ کا تھا۔ اس بنیادی نظریہ کی بناء پر ان کی سوچ پر وان چڑھی جس کو مکمل عقل کا سہارا تھا کہ ورک آف گارڈ اور ورڈ آف گارڈ کو کس بنا پر پرکھا جائے تو اس کے لئے ان کے پاس عقل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لہٰذا عقل بھی خود اصول تفسیر میں در آئی ۔

اسی طرح مولانا حمید الدین فراہی نے خود بیان کیا ہے کہ مجھے جب سورۃ البقرۃ اور سورۃ القصص میں نظم سمجھ آیا تو میں نے اس کو پورے قرآن مجید میں تلاش کرنے کی سعی کی۔

اب اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نظم کے لئے ان کا اپنا ایک ذوق اور تدبر تھا جس میں سوائے ان کی اپنی سوچ و فکر کے علاوہ کسی ثانوی مأخذ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ نتیجہ کے طور پر ہر وہ چیز جو نظام یا نظم میں خلل پیدا کرے اس کو رد کر دیا گیا اور رد کے لئے یہ خاص طریقہ اختیار کیا گیا کہ روایات کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان کو تائیدی مأخذ کے طور پر ذکر کیا گیا۔

نتائجِ تحقیق

  1. برصغیر میں اصول تفسیر کےمیدان میں ماثوری، اہل قرآن، تجدد پسند/عقلیت پسند، اور فراہی مکتب فکر(عربی لغت کو بنیاد بنانے والے) مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔
  2. برصغیر کے اصولی مکاتب فکر میں ظاہری اعتبار سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، مثلاً تفسیر القرآن بالقرآن، تفسیر القرآن بالاحادیث اور تفسیر القرآن باللغۃ وغیرہ کے اصول تفسیر ۔
  3. اصول تفسیر میں ظا ہری مماثلت کے باوجود ان کے بیان و تشریح میں حد درجہ اختلاف پایا جاتا ہے، مثلاً تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول میں ماثوری طبقہ مفہوم آیت کو دوسری آیت سے واضح کرتے ہوئے پہلے روایات اور بعد میں لغت سے استدلال کرتا ہے جبکہ فراہی و اہل قرآن کے ہاں احادیث و روایات کو درجہ لغت کے مقابلہ میں ثا نوی ہے۔
  4. اصول تفسیر میں اختلاف کی وجوہات و اسباب میں ایک اہم نکتہ اصول تفسیر کی عدم تدوین کا ہے جس کی اسلام کے ابتدائی دور میں کمی نظر آتی ہے۔ اگر امام ابن تیمیہ کے دور میں کچھ اصول مدون ہوئے بھی تو ان کے بیان و تشریح کا مسئلہ جوں کا توں رہا ہے۔اصول فقہ کی تدوین نے بھی اصول تفسیر کے میدان میں مزید کام کی گنجائش کو محدود کردیا۔ اور تفسیر میں عقل کی بجائے نقل پر انحصار نے بھی اس کی ضرورت نہ محسوس ہونے دی۔
  5. برصغیر میں استعماری دور کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے اس دور میں جو تفسیری ادب تخلیق ہوا اس میں عقلی مکتب فکر بہت نمایاں ہے۔ تاویلاتی افکار میں اس مکتب فکر کی مرعوبیت دیکھی جاسکتی ہے۔اس مکتبہ فکر کی تاریخ ، افکار اور سرگرمیوں کے گہرے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نےتفسیر قرآن ودیگر اسلامی علوم کے میادین میں جو کام بھی کیا ہے وہ ضرور کسی اعتراض کے جواب یا پھر ممکنہ اعتراض کو رفع کرنے کے لیے کیا ہے۔
  6. نظم قرآن، نظم ومناسبت قرآنی کو پیش نظر رکھ کر مرتب ہونے والے تفسیری ادب کے اصول تفسیر میں اس کے داخلی وخارجی اصول بہت نمایاں ہیں جن میں بنیادی، ترجیح اور جھوٹے اصول تفسیر کی تقسیم کردی گئی ہےمثلاً فقط سلف وصالحین کے اقوال کی روشنی میں قرآن کی تفسیر کے اصول کو جھوٹا اصول تفسیر قرار دیا گیا ہے جو سلف کی قرآن فہمی پر سوال اٹھانا ہے۔
  7. ماثوری مکتب فکر میں روایتی تفسیری اصولوں کی پاسداری ہی نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں روایت کے ساتھ ساتھ درایت سے بھی کام لیا گیا ہےبلکہ وہ بھی صرف فقہی مسائل کی حد تک نظر آتا ہے جو اصل میں فقہ و اصول فقہ کا میدان ہے۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == سورۃ الانفال:۶۰ Surah al Anfāl, 60.
  2. مسلم بن الحجاج، القشيري ، صحيح مسلم، ت:نظر بن محمد، دار طیبۃ ، باب فضل الرمی، رقم:۳۵۴۱ Muslim bin Ḥajjāj, Ṣaḥīḥ Muslim, (Dār Ṭayyibah), Ḥadīth
    1. 3541.
  3. آیت کریمہ "الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ" (سورۃ الانعام:۸۲) کے نزول پر صحابہ کا استفسار کہ پھر کون ایسا ہے جو اپنے اوپر ظلم نہیں کرتا، اس پر نبی اکرمﷺ کا فرمانا کہ اس سے مراد شرک ہے جس کو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "ان الشرك لظلم عظیم"۔( البخاری، الجامع الصحیح ، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله تعالی ولقد اٰتینا لقمان الحکمة ان اشکر لله) اس طرح کی مزید مثالیں تفسیر لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
  4. تفصیلات کے لیے دیکھئے: الذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون،دارالحدیث،۲۰۰۵ء۔ Dhabī, Muḥammad Ḥusain, Al Tafsīr wal Mufassirūn, (Dār al Ḥadīth, 2005).
  5. الذہبی ،شمس الدین ،محمد بن احمد،میزان الاعتدال فی نقد الرجال ، دارالمعرفۃ ، بیروت ، بحوالہ التفسیر والمفسرون،ص:۴ Al Dhahabī, Muḥammad Ḥusain, Mīzān al I’tadāl fī Naqd al Rijāl, (Beirut: Dār al Ma’rifah), p:4.
  6. راجہ مہروک بن لائق: ۸۶۳ء میں الور کے ہندو راجہ مہروک نے منصورہ کے حاکم عبداللہ بن عمر ہباری سے درخواست کی کہ اسلامی تعلیمات کو سندھی زبان میں منتقل کیا جاۓ۔ عبداللہ نے ایک عراقی کو الور بھیجا جس نے تین سال کے قیام میں ترجمہ کیا اور قصیدے لکھے۔اردو میں پہلا ترجمہ۱۷۹۱ء میں ہوا اور دلی کی روشن خیالی کا یہ حال تھا کہ شاہ عبدالقادر پر کفر کے فتوے لگے۔
  7. قاضی زاہد الحسینی، تذکرۃالمفسرین، دارلارشاد،اٹک، ص:۳۳ Al Ḥusainī, Qāḍī Zāhid, Tazkirah tul Mufassirīn, (Attock: Dār al Irshād), p:33.
  8. ولی الدین عراقی کو ابو زرعہ نے طبقات المفسرین میں ماہر فنون کثیرۃ اور تفسیر میں امام لکھا ہے۔ان کے والد اندلس سے مصر میں آ کر آباد ہوگئے تھے۔ان کی تاریخ وفات ۷۰۴ہجری کی لکھی ہے۔( احمد بن محمد، طبقات المفسرین، مکتبہ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، طبع اول، ۱۴۱۷ھ، ص:۲۶۱) Aḥmad bin Muḥammad, Ṭabaqāt al Mufassirīn, (Madinah: Maktabah al ‘Ulūm wal Ḥikam, 1st Edition, 1417), p:261.
  9. عجائب الہند، ص: ۲،۳۔ فقہائےہند،۱:۸۹-۹۱۔ تذکرۃالمفسرین، ص:۵ ‘Ajā‘ib al Hind, p: 2-3. Fuqahā-e-Hind, 1:89-91. Tazkitah tul Mufassirīn, p:5.
  10. مخلص ہند سے تعلق رکھنے والےاحناف کے صف اول کے علماء میں سے ہیں۔انہوں نے کشف الکشاف کے نا م سے تفسیر لکھی ہے۔ (نزھۃ الخواطر، ۲:۱۶۵،۱۶۶) Nuzhatul Khawaṭir, 2:165,166.
  11. امیر کبیر تاتار خان بہت عالم فاضل شخصیت تھے،انہوں نے تاتارخان کے نا م سے تفسیر لکھی۔( نزھۃ الخواطر، ۲:۱۹،۲۰) Nuzhatul Khawaṭir, 2:19,20.
  12. عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر، کراچی:میر محمد کتب خانہ آرام باغ، ۱۳۵۵ھ، ص:۶۸ Qāḍī, ‘Abdul Ṣamad Ṣarim, Tibyān al Rāsikh, (Karachi: Mīr Muḥammad Kutub Khāna, 1355), p:68.
  13. ایضاً، ص: ۳-۶۳ Ibid., pp:3-63.
  14. غازی ،محمود احمد، ڈاکٹر ،محاضرات قرآنی، الفیصل ناشران، لاہور، ص:۱۵Ghazī, Mahmūd Aḥmad, Dr., Muḥāḍarāt e Qur’ānī, (Lahore: Al Faisal Nāshirān), p:15.
  15. قنوج ہند میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی، آپ نے علوم القرآن، تفسیر قرآن اور علوم الحدیث کے میادین میں بیش قدر تصنیفات چھوڑی ہیں۔(الاعلام، ۶:۱۶۷،۱۶۸)Al A’lām, 6:167,168.
  16. صدیقی، محمد میاں، ڈاکٹر، قرآن مجید کا عربی اردو لغت، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، ص: ۲-۱۰Ṣiddiqī, Muḥammad Mian, Dr., Qur’ān Majīd ka ‘Arbī Urdū Lughat, (Islamabad: Muqtadarah Qawmī Zubān), p: 2-10.
  17. ابوالحسن ندوی اور سید سلیمان ندوی نے اسے اس موضوع پر پہلی کتاب کہا ہے۔(تاریخ دعوت و عزیمت، ابو الحسن علی ندوی، ص: ۱۵۰-۱۵۵۔ معارف، سید سلیمان ندوی نمبر، ص: ۲۴۹) Nadvī, Abū al Ḥasan ‘Alī, Tārīkh e Da’wat wa ‘Azīmat, p:150-155. Ma’ārif, Syed Sumaymān Nadvī Number, p:249.
  18. شاہ ولی اللہ،الفوزالکبیر فی اصول التفسیر، مکتبة البشری، کراچی، پاکستان، ص:۲ Shah Wali Ullah, Al Fawz al Kabīr fī Uṣūl al Tafsīr, (Karachi: Maktabah al Bushra), p:2.
  19. عبیدالرحمن محسن، ڈاکٹر ،برصغیر میں اصول تفسیر کے مناہج و اثرات،تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ، نشریات لاہور،۲۰۱۶ء، ص: ۹۱،۹۲ Ubaid-ur-Raḥmān Moḥsin, Barr-e-Ṣaghīr me Uṣūl Tafsīr k Manahij wa Atharāt: Tajziyātī wa Tanqīdī Muṭala’ah, (Lahore: Nashriyāt, 2016), p: 91,92.
  20. دین محمد قاسمی، ڈاکٹر،تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ ، فہرست مضامین، جلد نمبر ۱ Dīn Muḥammad Qāsmī, Dr., Tafsīr Maṭalib al Furqān ka ‘Ilmī wa Taḥqīqī Jā‘izah, Volume:1.
  21. شاہ ولی اللہ، فتح الخبیربما لا بد من حفظہ فی علم التفسیر،مطبع لکھنونولکشور،۱۳۱۴ھ ، ص:۸۸-۹۰Shah Wali Ullah, Fatḥ al Khabīr Bimā Lā Budda Min Ḥafiẓahū fī ‘Ilm al Tafsīr, (Maṭba’ Lackhnaw, Nol Kishor, 1314), p:88-90.
  22. ایضاً، ص:۹۳۔ مولانا اشرف علی تھانوی، خطبہ تفسیر بیان القرآن، تفسیر بیان القرآن، ۱:۳Ibid., p:93, Thānvī, Ashraf ‘Alī, Mowlānā, Tafsīr al Qur’ān, 1:3.
  23. شاہ ولی اللہ، الفوزالکبیر، ص: ۳۸،۳۹Shah Walī Ullah, Al Fawz al Kabīr fī Uṣūl al Tafsīr, p:38,39.
  24. ایضاً، ص: ۴۶-۵۰Ibid., p:46-50.
  25. شاہ ولی اللہ، فتح الخبیربما لا بد من حفظہ فی علم التفسیر، ص: ۹۶-۱۰۰Shah Walī Ullah, Fatḥ al Khabīr Bimā Lā Budda Min Ḥafiẓahū fī ‘Ilm al Tafsīr, p: 96-100.
  26. تھانوی، اشرف علی، مولانا، تفسیر بیان القرآن،ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، ۱:۶-۱۰Thānvī, Ashraf ‘Alī, Mowlānā, Tafsīr al Qur’ān, (Multan: Idārah Tālīfāt-e-Ashrafia), 1:6-10.
  27. امیر علی ملیح آبادی، سید ،تفسیر مواھب الرحمن، منشی نولکشورلکھنو ، ۱۹۴۶ء،۱:۲۱Amīr Alī Malīḥ Ābādī, Syed, Tafsīr Mawahib al Raḥmān, (Lucknow: Nol Kishor, 1946), 1:21.
  28. ایضاً، ص :۲۴Ibid., p:24.
  29. صدیق حسن خان، نواب ،مقدمہ ترجمان القرآن بلطائف البیان، ۱:۳۔ تفسیر مواھب الرحمن، ۱:۲۴-۲۶۔ کاندھلوی، محمد مالک، مولانا، التحریر فی اصول التفسیر، ص:۱۰۸Ṣiddīq Ḥasan Khān, Tarjumān al Qur’ān Bi Laṭā‘if al Bayān, 1:3. Tafsīr Mawahib al Raḥmān, 1:24-26. Kāndehlavī, Muḥammad Mālik, Al Teḥrīr fī Uṣūl al Tafsīr, p:108.
  30. فراہی،حمید الدین، التکمیل فی اصول التأویل،تحقیق محمد سمیع مفتی،غیر مطبوعہ، ص: ۲۶۲-۲۶۷ Farāhī, Ḥamīd al Dīn, Al Takmīl fī Uṣūl al Ta’vīl, (Unpublished), p:262-267.
  31. ایضاً، ص: ۲۶۷-۲۷۳ Ibid., p: 267-273.
  32. ایضاً، ص : ۲۶۷ Ibid., p: 267.
  33. فراہی ،حمید الدین ،مجموعہ تفاسیر فراہی ،بدست مولانا امین احسن اصلاحی، انجمن خدام القرآن، لاہور، ص: ۴۱ Farāhī, Ḥamīd al Dīn, Majmu’ah Tafāsīr Farāhī, (Lahore: Anjuman Khuddām al Qur’ān), p: 41.
  34. اصلاحی، امین احسن، مبادی تدبر ِقرآن ، فاران فاونڈیشن ، لاہور ، ۱۹۹۶ء، ص :۱۹۱ Iṣlāḥī, Amīn Aḥsan, Mabadī Tadabbur Qur’ān, (Lahore: Faran Foundation, 1996), p: 191.
  35. فراہی ، حمید الدین، مجموعہ تفاسیر فراہی ، ص: ۴۱،۴۲ Farāhī, Ḥamīd al Dīn, Majmu’ah Tafāsīr Farāhī, p: 41,42.
  36. فراہی ، حمید الدین، تفسیر نظام القران ، مدرسہ الاصلاح ،سرائے میر اعظم گڑھ ،۲۰۰۸ء، ص:۲۸ Farāhī, Ḥamīd al Dīn, Niẓām al Qur’ān, (Azam Garh: Madrasah al Iṣlāḥ, 2008), p: 28.
  37. امام شافعی نے فرمایاکہ سنت کتاب اللہ کے ساتھ مقرون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کو فرض قرار دیا ہے اور آپ ﷺ کے حکم کی اتباع کو انسانوں پر حتمی قرار دیا ہے، پس کسی کے لئے ییہ کہنا جائز نہیں کہ الل تعالیٰ نے پہلے صرف کتاب اللہ کو فرض کیا پھر اس کے بعد اپنے رسول کی سنت کو۔ شافعی، محمد بن ادریس، الرسالۃ:ص:۷۸ Shāfa’ī, Muḥammad bin Idrīs, Kitāb al Risālah, p:78.
  38. سورۃالحشر:۷ Surah al Ḥashar, 7.
  39. اصلاحی ،امین احسن، تدبر قرآن، فاران فاؤنڈیشن، لاہور، نومبر، ۲۰۰۹ء، ۱:۲۹-۳۴ Iṣlāḥī, Amīn Aḥsan, Tadabbur Qur’ān, (Lahore: Faran Foundation, 2009), 1:29-34.
  40. ایضاً Ibid.
  41. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ ،تعلیق امام احمدبن الحسین ابی ھاشم، مکتبہ وھبۃ، قاہرہ، ص: ۷۴۴،۷۴۵ Qāḍī‘Abdul Jabbār, Sharḥ Uṣūl al Khamsah, (Cairo: Maktabah Wahbah), p:744,745.
  42. قاضی عبدالجبار،تنزیہ القرآن عن المطاعن، دارالنہظۃ الحدیثۃ، بیروت ، لبنان ، ص:۴۴۔ الرازی،فخرالدین، مفاتیح الغیب المشہور بہ التفسیر الکبیر ،دارالفکر، بیروت ، ۲۴:۷۷ Qāḍī‘Abdul Jabbār, Tanzīh al Qur’ān ‘An al Maṭā‘in, (Beirut: Dār al Naẓah al Hadīthah), p:442, Al Rāḍī, Al Tafsīr al Kabīr, (Beirut: Dār al Fikr), 24:77.
  43. زمحشری، محمود بن عمرو ، کشاف عن حقائق غوامض التنزیل، دارالمعرفۃ بیروت، لبنان ، ص: ۷۵۲ Zamakhsharī, Maḥmūd bin ‘Umar, Kashāf ‘An Ḥaqā‘iq Ghawāmiḍ al Tanzīl, (Beirut: Dār al Ma’rifah), p: 752.
  44. الجاحظ ،کتاب الحیوان، الناشر دار الكتب العلمية، بيروت لبنان، ۱۴۲۴ھ،ص : ۳۴۳۱ Al Jāḥiẓ, Kitāb al Ḥayawān, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1424), p:3431.
  45. سر سید احمد خان ، تفسیر القرآن وھو الھدی و الفرقان ،رفاہ عام پریس ،لاہور ، ص: ۶ Sir Syed Ahmad Khan, Tafsīr al Qur’ān, (Lahore: Riphah ‘Ām Press), p:6.
  46. غلام احمد پرویز، معارف القرآن،مقدمہ، ناشر ادارہ طلوع اسلام، دہلی،۱۹۴۱ء، ص:۳۸۱ Ghulam Ahmad Pervaiz, Ma’ārif al Qur’ān, (Delhi: Idārah Ṭulū‘ e Islām, 1941), p: 381.
  47. ایضاً Ibid.
  48. ایضاً، ص:۳۹۱ Ibid., p: 391.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...