Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

تاریخ کبیر میں امام بخاری کا رواۃ پر تنقید کے اسلوب کاجائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

قرآن وحدیث ہی وہ دو بنیادی اساس ہیں جن پر شریعت اسلامی کی مکمل عمارت کھڑی ہے، قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری باری تعالیٰ نے خود لی ہےاورقرآن کریم کی تفسیر وحی غیر متلو یعنی حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اسی قبیل سے ہے، چنانچہ حدیث کی حفاظت کے لئے باری تعالیٰ نے اس امت میں سے مخصوص بندوں کو چن لیا اوران کے ذریعے حدیث کی حفاظت کی گئی ، ان میں فقہاء ، محدثین اوراصحاب ِ الجرح والتعدیل شامل ہیں۔فقہاء نے حدیث کے معانی محفوظ کئے، محدثین نے حدیث کے الفاظ کی حفاظت کی اوراصحاب الجرح والتعدیل  نے ائمہ حدیث کےمراتب، روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہے۔ حدیث کی حفاظت کے ضمن میں اسماء الرجال کا فن وجود میں آیا ۔الفاظ ِ حدیث جن واسطوں سے امت تک پہنچتے ہیں وہ واسطے سند کہلاتے ہیں، ان کی کانٹ چھانٹ اورصحت وسقم سے بحث اسماء الرجال کا فن کرتاہے۔تاریخ میں ایسے کئی مایہ ناز محدثین گزرے ہیں جو حدیث کے ساتھ ساتھ اسماء الرجال کے بھی امام تھے ، ان میں امام بخاریؒ نمایاں حیثیت سے نظر آتےہیں۔انہوں نے جس طرح حدیث میں کتاب صحیح بخاری تصنیف فرمائی اسی طرح ہی اسماء الرجال میں بھی ایک بہترین کتاب"التاریخ الکبیر" تصنیف فرمائی ہے۔ زیرنظر مقالے میں امام بخاریؒ کی اس شہرہ آفاق کتاب "التاریخ الکبیر" کے منہج کا جائزہ لیا گیا ہےاور درج ذیل سوالوں کے جوابات دئیے گئے ہیں :

  1. یہ جرح وتعدیل میں امام بخاریؒ نےدوسرے ائمہ کےاقوال کا سہارالیا ہےیا نہیں ؟
  2. راوی کا ترجمہ ذکر کرتے ہوئے امام بخاریؒ نے اختصارسے کام لیا ہے یا طوالت سے؟
  3. تاریخ کبیر میں امام بخاریؒ کی رواۃ پر تنقید کا اسلوب اور طریقہ کار کیا تھا؟

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ:

التاریخ الکبیر کے حوالے سے درج ذیل مقالہ جات مرتب ہو چکے ہیں:

  1. منهج الامام البخاری فی التعلیل من خلال کتابه التاریخ الکبیر، احمد عبد اللہ احمد احمد،مقالہ پی ایچ ڈی،جامعہ دمشق،1436ھ۔

اس مقالہ میں مقالہ نگار نے امام بخاریؒ کی تعلیل حدیث کو موضوع بنایا ہے ۔پورے مقالے کو پانچ فصول میں تقسیم کیا ہے ،امام بخاریؒ کی تضعیف حدیث کے اسباب کو تین فصول میں تین عناوین میں مقید کر کے بیان کرنےکی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے امام بخاریؒ کے تضعیف احادیث کا منہج ثانوی درجہ میں چلا گیا ہے حالانکہ امام بخاری ؒ کے تضعیف احادیث کے منہج میں اس سے زیادہ وسعت ہے ۔

  1. الأحاديث التي قال فيها البخاري (لا يتابع عليه) في التاريخ الكبير،عبدالرحمن بن سلیمان شايع،مقالہ ایم فل ، جامعہ ام القرى،1419ھ۔

اس مقالہ میں مقالہ نگارنے باب اول میں امام بخاریؒ کے تعارف کے بعد تعلیل حدیث میں امام بخاریؒ کا منہج ضمنی طور پر ذکر کیا ہے جو انتہائی مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اس باب میں امام بخاریؒ کے منہج کا جامع بھی نہیں ہے ۔باقی سارے مقالے میں تاریخ کبیر میں وارد احادیث اور ان کے متابعات پر بحث کی ہے لہذا پہلے باب میں امام بخاری کے منہج میں تشنگی رہ جاتی ہے۔تاہم رواۃ پر تنقید کے اسلوب ومنہج کے حوالے سے ابھی تک کوئی تفصیلی کام ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ اسی لئے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ امام بخاری ؒ کے عمومی منہج اوراسلوب کو سلیس اردو زبان میں ضبط ِ تحریر میں لایا جائے تاکہ اس سے جرح وتعدیل میں مبتدی طلبہ کو فائدہ ہو سکے ۔

امام بخاری کا تعارف

آپ کا نام محمد بن اسماعیل ہے۔ آپ ابو عبداللہ کی کنیت سے مشہور ہوئے، امام بخاری ؒ کے والد بھی صاحب علم آدمی تھے۔[1] آپ کا تعلق بخارا کے علاقہ سے ہے، اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو بخاری کہا جاتاہے۔[2] آپ ؒ کی پیدائش جمعہ کے دن ۱۳ شوال ۱۹۴ھ کو ہوئی۔ آپ نے بہت کم عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا اوراحادیث یاد کرنی شروع کیں اوردس سال کی عمر میں حدیث میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔ آپ شہر کے مختلف محدثین کی مجلسوں میں شرکت کرتے اورانہیں ان کی بعض خطاؤں پر مطلع فرماتے۔[3] آپ کے شیوخ میں مکی بن ابراہیم، عبدان بن عثمان ، علی بن الحسین،یحیی بن یحییٰ وغیرہ مشہور ہیں۔[4] آپ کے تلامذہ میں ابو عیسیٰ الترمذی، ابو حاتم، ابراہیم بن اسحاق الحربی، ابو بکر بن ابی الدنیا ، محمد بن اسحاق وغیرہ مشہور ہیں[5]۔آپ کی شان ائمہ کے درمیان مسلم ہے ، چنانچہ ائمہ نے آپ کی منزلت ومرتب کا اعتراف کیا ہے۔[6] آپ فقہ اورحدیث میں رسوخ کے ساتھ ساتھ عابد بھی کمال درجے کے تھے اور مستجاب الدعوات تھے۔[7] آپ ہفتہ کے دن سمرقند سے دوفرسخ کے مقام پر خرتنک کی بستی میں عشاء کی نماز کے وقت لیلۃ الجائزہ ۱۵۶ھ میں فوت ہوئے۔[8]

التاریخ الکبیر کا تعارف

امام بخاری ؒ جس طرح حدیث میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح فن اسماء الرجال میں بھی انہیں یدطولیٰ حاصل تھا ۔ وہ خود فرماتے ہیں تاریخ میں ایسی کوئی قابلِ ذکر شخصیت نہیں گزری جس سے متعلق میرے پاس کوئی معلومات نہ ہو، لیکن میں نے اپنی کتاب میں طوالت پسند نہیں کی، اس لئے اسے بہت مختصرانداز میں تصنیف کیا ہے، انہوں نے بہت ہی کم عمر میں اس فن میں کتاب تصنیف کی ۔ امام بخاریؒ نے ۱۸ سال کی عمر میں التاریخ الکبیر تصنیف کی۔[9]اس میں انہوں نےمحدثین کے احوال جمع کیے ہیں اوران پر جرح وتعدیل کی ہے، امام بخاری ؒنے اس میں روایت میں اسماء ، انساب اورکنیتوں پر اعتماد کیا ہے،یعنی روایات میں کنیت اورنسب وغیرہ کے ذریعے بھی روایتیں لی ہیں، امام بخاریؒ نے اس میں تیرہ ہزار سات سو اناسی(13779) راویوں کے احوال ذکر کئے ہیں ،پہلی اور دوسری جلد میں دو ہزار آٹھ سو چورانوے (2894)،تیسری اور چوتھی جلد میں تین ہزار ایک سو اکتر(3171)، پانچویں اور چھٹی جلد میں تین ہزارچار سو باون(3452)، ساتویں اور آٹھویں جلد میں تین ہزار دو سو سڑ سٹھ (3267)جبکہ آخر میں باب الکنی کے عنوان سے نو سو ترانوے(993)راویوں کے احوال ذکر کئے ہیں۔

التاریخ الکبیر علماء کرام کی نظر میں

امام بخاری ؒ کی کتاب التاریخ الکبیر ایک مایہ ناز کتاب ہے۔ اس کے بارے میں خود امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اس کو میرے بعض اساتذہ کےسامنے بھی پیش کیا جائے تو وہ بھی اس کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے[10]۔ چنانچہ اسحاق بن راہویہ نے یہ کتاب لی اورعبدا للہ بن طاہر کو دکھائی اورکہا کہ اے امیر کیا میں آپ کو ایک جادو نہ دکھاؤں؟ اورپھر امام بخاری ؒ کی یہ کتاب دکھائی جسے دیکھنے کے بعدوہ بہت حیران ہوئے اوردنگ رہ گئے[11]۔

لیکن انسان بالآخر انسان ہے ، انبیاء کرام کے بعد کوئی شخص معصوم نہیں ، لہذا ہر نایاب اورقیمتی چیز جوانسان کی تخلیق ہو ، بشری تقاضے کے مطابق کوئی نہ کوئی کمی چھوڑجاتی ہے، ایسے ہی امام بخاری ؒ کی یہ کتاب التاریخ الکبیر بھی ہے، اس کتاب کو وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو صحیح بخاری کو ملا، اس لئے علماء کرام نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے اورامام بخاریؒ کے تسامحات کا ذکر بھی کیا ہے۔اگرچہ یہ تسامحات کم ہیں لیکن ماہرین نے ان کی نشاندہی کی ہے، جیسے خطیب بغدادی ؒ نے کتا ب "موضح اوھام الجمع والتفریق" میں اورامام ابن ابی حاتم الرازی نے "خطاء الامام البخاری فی تاریخہ" میں ان کی نشاندہی کی ہے۔

چونکہ یہ تسامحات بہت کم ہیں اس لئے ان کی نشاندہی کے بعد بھی یہ کتاب اپنی منزلت ومرتبت کم نہیں کرتی۔امام بخاریؒ علم کا وہ چشمہ ہیں جس کی ایک جھلک صحیح بخاری ہے، اسی چشمے کی چند بوندیں التاریخ الکبیر میں نمایاں ہیں۔

تاریخ کبیر میں امام بخاریؒ کا منہج:

تاریخ کبیر کو ترتیب دینے میں امام بخاریؒ کا منہج :

تاریخ کبیرالف بائی ترتیب سےہے، لیکن آنحضرتﷺ کے نام کی برکت اورقدر کی وجہ سے پہلےان راویوں کے احوال ذکر کئے ہیں جن کے نام لفظ ِمحمد سے شروع ہوتے ہیں ، ان اسماء(محمدون) میں بھی پہلے ان راویوں کےاحوال ذکر کئے ہیں جنہیں صحابی ہو نے کا شرف حاصل تھا ،ایسے حضرات گیارہ ہیں ۔اسی طرح ہر باب میں پہلے صحابہ کرام پھر تابعین اور پھر تبع تابعین کے احوال ذکر کئے ہیں ،پھر اس کے بعد ان اسماء کو ان کے آباء کے ناموں سے الف بائی ترتیب سے ذکر کیا ہے۔

جرح میں امام بخاریؒ کا منہج :

امام بخاریؒ عام طور پرراوی کا ترجمہ ذکر کرنے کے بعد جرح یاتعدیل نہیں فرماتے بلکہ صرف ترجمہ ذکر کرتے ہیں کیونکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ہر وہ راوی جس سے کوئی روایت منقول ہو چاہے کثیر تعداد میں ہویا قلیل تعداد میں، اس کا ذکر کریں ۔جیساکہ امام ابن عدیؒ لکھتے ہیں :

"قد بينت مراد البخاري أن يذكر كل راوي وليس مراده أنه ضعيف أو غير ضعيف وإنما يري كثرة الأسامي ليذكر كل من روى عنه شيئا كثيرا أو قليلا وإن كان حرفا"[12]

امام بخاریؒ نےتاریخ کبیر میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اگر کوئی راوی مجروح ہے تو اس کو مجروح قرار دیا ہے یاتو خود اس پر جرح کی ہے یا اگراس راوی پر دوسرے امام نے جرح کی ہے تو اس کی جرح کو نقل کیا ہے ۔مثلاً محمد بن اسماعیل پر خود جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"قال أبو عبد الله: منكر الحديث"[13]

اسی طرح ابراہیم بن اسماعیل پر جرح کرتے ہو ئے ابن شیبہ کا قول ذکر کرتے ہیں:

"سماه ابن شيبة، منكر الحديث"[14]

امام بخاریؒ جب کسی راوی کے ضعیف ہو نے کا ذکر کرتے ہیں تو اکثر یہ الفاظ "منكر الحديث، سكتوا عنه، فيه نظر" لاتے ہیں،جیساکہ عاصم بن عبیداللہ کے بارے میں ذکر کرتےہیں:

"عاصم بن عبيد الله العمري المديني، منكر الحديث"[15]

اسی طرح مسیب بن شریک کے بارے میں لکھتے ہیں :

"مسيب بن شريك أبو سعيد التميمي سكتوا عنه"[16]

اسی طرح عباد بن کثیر کے بارے میں فرماتے ہیں :

"عباد بن كثير، الرملي، فيه نظر"[17]

تعدیل میں امام بخاریؒ کا منہج :

اگر کوئی راوی ثقہ ہے تو امام بخاریؒ خود اس کے ثقہ ہو نے کا ذکر بھی کرتے ہیں جیساکہ سیف بن سلیمان کا ترجمہ ذکر کرتے ہو ئے آخر میں لکھتے ہیں:

"وكان سيف بن سليمان حيا سنة خمسين وكان عندنا ثقة ممن يصدق ويحفظ"[18]

امام بخاریؒ جب کسی راوی کو عادل قراردیتے ہیں تو یہ الفاظ "مستقيم الحديث، ثقة، حسن الحديث" استعمال کرتے ہیں ۔ جیساکہ زفر بن یزید کے بارے میں ذکر کرتےہیں:

"زفر بن يزيد بن عبد الرحمن، مستقيم الحديث"[19]

اسی طرح سلیمان بن وہب کے بارے میں لکھتے ہیں :

"سليمان بن وهب الا بناوي شيخ من جشم ثقة"[20]

اسی طرح سیف بن وہب کے بارے میں فرماتے ہیں :

"سيف بن وهب، أبو وهب،كان حسن الحديث"[21]

تراجم رواۃ میں امام بخاریؒ کا سکوت اختیار کرنا:

امام بخاریؒ مجہول راویوں سے سکوت اختیار کرلیتے ہیں، ان کے بارے میں کوئی بھی حکم نہیں لگاتے ۔مثلاً سلیمان بن حفص کا ترجمہ ذکر کرتے ہو ئے سکوت اختیار کرتےہیں:

"سليمان بن حفص القرشي ، روى عنه هشام بن سعد"[22]

اسی طرح محمد بن اسماعیل کے بارے میں لکھتے ہیں :

"محمد بن اسمعيل البجلي سمع يوسف بن محمد سمع منه يوسف بن يعقوب الصفار" [23]

اسی طرح امام بخاریؒ جن راویوں کو حتمی طور پر نہیں جانتے ان سے بھی سکوت اختیار کرلیتے ہیں بلکہ ان کے ناموں میں فرق بھی بیان نہیں فرماتے ۔مثلاًصالح بن ابی شعیب کے بارے میں ذکر کرتے ہیں :

"فلا أدري هذا ابن أبي شعيب أم لا"[24]

اسی طرح عبد الرحمٰن بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں :

"فلا أدري هو صاحب بكير أم لا"[25]

اسی طرح کبھی کبھار مشہور ائمہ ثقات سے بھی سکوت اختیار کرتے ہیں :مثلاًامام شافعیؒ،[26] امام احمدؒ [27]اور امام احمد بن منیعؒ[28] کا ترجمہ ذکرکرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے ۔[29]

امام بخاریؒ نے جن رواۃ سے سکوت اختیارکیا ہے اوران پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے،تویہ سکوت ان کی طرف سے تعدیل شمار ہو گی یا جرح ؟

اس بارے میں ائمہ کی دو رائے ہیں :

  1. امام ابنِ تیمیہؒ اور مولانا ظفر احمد تھانویؒ کا کہنا ہے کہ جن راویوں سے امام بخاریؒ نے سکوت اختیار کیا ہے ،تو یہ ان کی طرف سے تعدیل شمار ہوگی۔ان کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاریؒ کی عادت یہ ہے کہ وہ جرح کرتے ہیں لہذاجب انہوں نے جرح نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ رواۃ ثقہ ہیں ۔[30]
  2. جبکہ امام ذہبیؒ اور امام ابنِ حجرؒ کا کہنا یہ ہے کہ امام بخاریؒ کارواۃ سے سکوت اختیار کرنا تعدیل شمار نہیں ہو گی ۔

ان ائمہ کی طرف سے کوئی دلیل تومذکور نہیں ہے البتہ جن راویوں سےامام بخاریؒ نے سکوت کیا ہے ان پر انہوں نے حکم لگایا ہے اور ان کے درجات مختلف ہیں۔مثلاً:

  1. امام بخاریؒ نے یعلی بن عبید سے سکوت اختیار کیا ہے[31] جبکہ امام ذہبیؒ کہتے ہیں :ثقہ ہے۔[32]
  2. اسی طرح ناشرہ الناجی سے سکوت اختیار کیا ہے[33] جبکہ امام ذہبیؒ کہتے ہیں :مجہول ہے۔[34]
  3. زیاد بن عثمان سے سکوت اختیار کیا ہے[35] جبکہ امام ذہبیؒ کہتے ہیں:نہیں پہچانا جاتا۔[36]
  4. اسی طرح امام بخاریؒ نےبشر بن عبد اللہ سے سکوت اختیار کیا ہے [37]جبکہ امام ابن حجر ؒکہتے ہیں :صدوق ہے۔[38]
  5. داود بن حصین سے سکوت اختیار کیا ہے[39] جبکہ امام ابن حجرؒ کہتے ہیں :ثقہ ہے۔[40]
  6. کلاب بن علی سے سکوت اختیار کیا ہے [41]جبکہ امام ابن حجرؒکہتے ہیں :مجہول ہے۔[42]

ان امثلہ کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہرہوتا ہے کہ کہ مسکوت رواۃ ایک درجے میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کادرجہ دوسرے سے مختلف ہے نہ توسارے ثقہ ہیں اور نہ سارے ضعیف ہیں۔

اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سکوت اختیار کرنا یہ تعدیل نہیں ہے بلکہ جس راوی سے بھی سکوت اختیار کیا گیا ہو اس کی حالت کودیگر ائمہ کے اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور ان اقوال کی روشنی میں کوئی حکم لگایا جائے گا۔

تراجم رواۃ میں امام بخاریؒ کا منہج :

راوی کاترجمہ بیان کرتے ہوئے عام طور پرنام ،ولدیت،قبیلہ یا شہرلکھتے ہیں اور کبھی کبھار دونوں لکھتے ہیں ۔جیساکہ تمیم بن طرفہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

"تميم بن طرفة الطائي الكوفي"[43]

اور کبھی کبھاروالد کے نام کے ساتھ دادا کا نام بھی ذکرفرماتےہیں اور اسی طرح کبھی کبھی راوی کی کنیت بھی ذکر کرتے ہیں جیساکہ تمیم بن عبید بن عامر کے بارے میں فرماتے ہیں:

"تميم بن عبيد بن عامر"[44]

اورحارث بن عمیر کے بارے میں لکھتے ہیں :

"الحارث بن عمير أبو الجودي"[45]

راوی کے نام میں اگر دو لغتیں ہو تو اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں مثلاًمحمد بن اسحٰق بن ابراہیم کے ترجمہ کے ذیل میں ایک راوی ابن ابی عبلہ کا نام پہلے عبَلہ (باء کے فتح کے ساتھ )بیان فرمایا ہے اور پھرمزید لکھتے ہیں کہ یہ باء کے جزم کے ساتھ عبْلہ بھی بولا جا تا ہے :

"وابن أبي عبلة... ويقال عبلة بحزم الباء"[46]

امام بخاریؒ راوی کا ترجمہ ذکر کرتے وقت کبھی طوالت سے بھی کام لیتے ہیں لیکن عام طور پر اختصار سے کام لیتے ہیں:جیساکہ حمید بن ربیعہ اور مستور بن احنف کا ترجمہ مختصراً ذکر کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:

"حميد بن ربيعة، القرشي، الشامي.سمع المقدام، وأبا أمامة، قولهما، روى عنه محمد بن حرب"[47] "مستورد بن الأحنف.عن ابن مسعود.روى عنه: سلمة بن كهيل، وأبو حصين"[48]

اسی طرح محمد بن سیرین کا ترجمہ تفصیلاً ذکر کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:

"محمد بن سيرين أبو بكر مولى أنس بن مالك الأنصاري البصري ... إذا قاء أحدكم فلا يفطر فإنما يخرج ولا يولج"[49]

کبھی کبھار راوی کا عہدہ بھی بیان کرتے ہیں مثلاً ابراہیم الاصفح کا ترجمہ ذکر کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

"إبراهيم الأصفح هو مؤذن أهل المدينة"[50]

اسی طرح بشر بن رافع یمانی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"إمام أهل نجران ومفتيهم"[51]

راوی کی تاریخ وفات کبھی اجمالاً اورکبھی تفصیلاًذکر کرتے ہیں، جیساکہ بشر بن حاتم کے بارے میں لکھتے ہیں :

"مات في جمادى الأولى، سنة إحدى وعشرين ومئتين"[52]

اور اسحٰق بن ابراہیم کی تاریخ وفات تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"مات سنة ثمان وثلاثين ومئتين، ليلة السبت، لأربع عشرة خلت من شعبان، وهو ابن سبع وسبعين سنة"[53]

جہاں راوی کی تاریخ وفات متعین طور پر معلوم نہ ہو تو وہاں راوی کے زمانے کی تحدید کرتے ہیں ۔مثلاً بشر بن حرب کے بارے میں فرماتے ہیں:

"مات في ولاية يوسف بن عمر بالعراق، وكانت ولاية يوسف سنة إحدى وعشرين ومئة، إلى سنة أربع وعشرين ومئة"[54]

راوی کے اساتذہ اور تلامذہ ذکر کرنے میں امام بخاریؒ کا منہج یہ ہے کہ جو راوی غیر معروف ہو تو پھر ان کے تمام اساتذہ اور تلامذہ زیر قرطاس لاتے ہیں تاکہ اس کا حال واضح ہو سکے،لیکن عام طور پر راوی کے بعض شیوخ اور اساتذہ کا ذکر کرتے ہیں۔مثلاً ذر بن عبد اللہ کے ترجمہ میں ذکرکرتے ہیں :

"ذر بن عبد الله الهمداني المرهبي الكوفي، عن سعيد ابن جبير وعبد الله بن شداد، روى عنه ابنه عمر ومنصور"[55]

اگر کوئی راوی صحابی ہو تو امام بخار ی اس کا ترجمہ ذکر کرتے وقت یہ بھی ذکر کرتےہیں کہ انہیں صحبت حاصل ہے: مثلاً مخرمہ بن نوفل کےبارے میں لکھتے ہیں:

"مخرمة بن نوفل، القرشي، له صحبة، والد المسور بن مخرمة"[56]

راوی کے جملہ عیوب کی جانب اشارہ بھی کرتے ہیں اس کے ظاہری اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ باطنی اوصاف ، بدعات اور ان کے نظریات کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔جیساکہ ابراہیم بن محمد کے عقیدہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي المدني مولاهم كان يرى القدر وكلام جهم"[57]

علاقائی نسبت اور راوی کا علاقہ بیان کرتے ہیں جیساکہ محمد بن ابراہیم الباہلی کے ترجمہ کے ذیل میں ایک راوی جہضم کے بارے میں فرماتے ہیں :

"قال أبو عبد الله كان جهضم خراسانيا"[58]

اور صعصہ بن یزید کے بارے میں ذکر کرتے ہیں :

"وكان منزله بالمدائن"[59]

امام بخاریؒ راوی سے اپنی ملاقات کا اظہار بھی کرتے ہیں جیساکہ احمد بن اشکاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

"قال أبو عبد الله آخر ما لقيته بمصر سنة سبع عشرة"[60]

اگر کسی جگہ پر راوی کی کنیت غلط مشہور ہوئی ہو تو نشاندہی کرتے ہو ئے اصل کنیت بھی بتلاتے ہیں مثلاًمحمد بن ابراہیم بن مسلم کے ترجمہ کے ذیل میں ایک راوی محمد بن المثنیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں :

"وقال لنا أبو بشر، حدثنا سلم بن قتيبة، قال: حدثنا محمد بن المثنی... قال أبو عبد الله: ويقال: محمد بن المثنى، هو محمد بن أبي المثنى، لأن كنية مسلم أبو المثنى"[61]

بعض اوقات ایک نام کے دو روای ہوتے ہیں تو پھر پتہ نہیں چلتا کہ اس سے کون سا راوی مراد ہے؟ امام بخاریؒ نے تاریخ کبیر میں نہایت اہتمام کے ساتھ اس طرح کے رواۃ کے درمیان فرق ذکر کیا ہے ،اور دونوں کی جرح وتعدیل کی حیثیت کو واضح کیا ہے جیساکہ محمد بن حذیفہ بن داب کے بارے میں لکھتے ہیں:

"قال أبو عبد الله وابن داب هذا ليس هو ذاك الضعيف، ذاك صاحب السمر ولكن هذا قديم قوي"[62]

اگر کسی راوی کے نام میں مختلف اقوال ہوں تو سب کو زیر قرطاس لاتے ہیں اور پھر ان میں جو نام صحیح ہواس کو لکھتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہےجیساکہ محمد بن مسلمہ الحارثی کے ترجمہ کے ذیل میں ایک روای ضبیعہ کے نام میں اختلاف ذکر کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

"وقال لي إسحاق: أخبرنا عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، وشعبة، عن الأشعث، عن أبي بردة، عن ضبيعة، قال شعبة: أو ابن ضبيعة... وقال أبو عوانة: عن أشعث، عن أبي بردة، عن ضبيعة بن حصين"

اب یہاں پر ایک کو ترجیح دیتے ہو ئے لکھتے ہیں :

"قال أبو عبد الله: الصحيح ضبيعة بن حصين"[63]

اسی طرح راوی کے نام کے تلفظ میں اگر کوئی دوسرا قول ہو تو وہ بھی بتاتے ہیں،جیساکہ ایوب بن بشیر الانصاری کے ترجمہ کے ذیل میں ایک راوی کے بارے میں ذکر کرتے ہیں:

"وقال أفلت بن حسان عن جسرة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم: سدوا هذه الأبواب إلا باب علي، قال أبو عبد الله ويقال فليت"[64]

اگر راوی کا اپنے مروی عنہ سےسماع ثابت ہو تو وہ بھی ذکر کرتے ہیں:مثلاً امیہ بن شبل الصنعانی کے بارے میں ذکر کرتے ہیں:

"سمع الحكم بن أبان وابن طاوس"[65]

اسی طرح اگر کسی راوی کا اپنے مروی عنہ سے سماع ثابت نہ ہو تولکھتے ہیں کہ اس راوی کے اپنے مروی عنہ سے سماع کے بارے میں ہم نہیں جانتے مثلاً محمد بن ابان کے بارے میں فرماتے ہیں :

"قال أبو عبد الله: ولا نعرف لمحمد سماعا من عائشة"[66]

اگر ایک سند میں ایک سے زائد راویوں کا ایک دوسرے سے سماع ثابت نہ ہو تو امام بخاریؒ لازمی اس کو بیان فرماتے ہیں۔ مثلاً محمد بن خیثم کا ترجمہ ذکر کرتے ہوئے لکھتےہیں:

"محمد بن خثيم أبو يزيد المحاربي، قال لي إبراهيم بن موسى أخبرنا عيسى بن يونس قال أخبرنا ابن إسحاق قال أخبرني يزيد بن محمد بن خثيم عن محمد بن كعب القرظي عن محمد بن خثيم عن عمار بن ياسر قال كنت أنا وعلي رفيقين في غزوة، قال لي محمد أبو يحيى قال حدثنا صدقة بن سابق: غزوة العشيرة"

اب یہاں سند پر کلام کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

"قال أبو عبد الله وهذا إسناد لا يعرف سماع يزيد من محمد ولا محمد بن كعب من ابن خثيم ولا ابن خثيم من عمار"[67]

احادیث کے بارے میں امام بخاریؒ کا منہج :

امام بخاریؒ احادیث کی تشریح بھی کرتے ہیں ۔یعنی حدیث میں اگر کوئی لفظ ایسا مستعمل ہوجو مشکل ہو آسانی سے سمجھ میں نہ آتا ہو تو امام بخاریؒ اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں جیساکہ اسماعیل بن ثوبان کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں :

"إسماعيل بن ثوبان.قال: جالست الناس قبل الداء الأكبر. قال أبو عبد الله: قبل الفتن"[68]

اسی طرح ابراہیم بن عبد اللہ کے ترجمہ کے ذیل میں حدیث کا ایک جملہ "سَقانا اللَّهُ" کی تشریح کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:

"قال أبو عبد الله يعني في المطر"[69]

اور اسماعیل بن صخر کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں:

"إسماعيل بن صخر، الأيلي.عن أبي عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: من أراد أن يقرأ القرآن غضا كما أنزل، فليقرأه على قراءة ابن أم عبد.قاله لي عبد العزيز بن عبد الله، عن محمد بن جعفر، وكانت قراءته حرفا حرفا.قال أبو عبد الله: غضا، يعني حرفا حرفا، مبينة"[70]

حدیث کے اندر کوئی کلمہ ایسا ہو جس کی کئی لغات ہوں تو انہیں بھی بیان کرتے ہیں، جیساکہ محمد بن عبد الملک کے ترجمہ کے ذیل میں لفظ (حي)میں کئی لغات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"قال أبو عبد الله قال لي شهاب بن معمر فيه ثلاث لغات حي وأي وهي"[71]

سند اور متن میں اغلاط وتسامح کی نشاندہی کرتے ہیں ،مثلاً حجر بن عنبس کے ترجمہ کے ذیل میں فرماتے ہیں :

"وقال شعبة عن سلمة عن حجر أبي العنبس عن علقمة بن وائل عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم لما قال: آمين، خفض بها صوته، قال أبو عبد الله: وخولف فيه في ثلاثة أشياء: قيل: حجر أبو السكن، وقال: هو أبو عنبس، وزاد فيه علقمة وليس فيه، وقال: خفض، وإنما هو جهر بها"[72]

اگر روایتیں متعدد ہیں اور ان کےالفاظ ایک دوسرے مختلف ہیں توتطبیق کا راستہ اختیار کیا ہے کہ الفاظ تو مختلف ہیں لیکن معنیٰ قریب قریب ہے۔جیساکہ محمد بن اسحٰق بن طلحہ کے ترجمہ میں ایک روایت کو مختلف طرق سے ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں:

"قال أبو عبد الله ألفاظهم مختلفة إلا أن المعنى قريب"

جیساکہ ذیل میں درج ہے:

"محمد بن إسحاق بن طلحة، التيمي.قال لي بشر بن مرحوم: عن يحيى بن سليم، سمع ابن خثيم، سمع محمدا، سمع أبا بردة يحدث عمر، سمع أباه، سمع النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إن أمتي أمة مرحومة، جعل عذابها بأيديها في الدنيا.فكتبه عمر.قال لي محمد بن عبادة: حدثنا يزيد، قال: حدثنا يحيى بن زياد، قال: حدثني سعيد بن أبي بردة؛ وفد أبي إلى سليمان بن عبد الملك، فحدثه، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وقال لنا سعيد بن يحيى: حدثنا أبي، قال: حدثنا بريد، عن أبي بردة، عن رجل من الأنصار، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ... بهذا.حدثني عبدة بن عبد الله، قال: حدثنا زيد بن الحباب، قال: حدثنا الوليد بن عيسى، أبو وهب، قال: حدثنا أبو بردة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وقال ليث: عن أبي بردة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وقال محمد بن سابق: حدثنا الربيع أبو سعيد، عن معاوية بن إسحاق، عن أبي بردة، سمع أباه، سمع النبي صلى الله عليه وسلم ... نحوه.قال أبو عبد الله: والخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم في الشفاعة، وأن قوما يعذبون، ثم يخرجون، أكثر وأبين وأشهر.حدثني علي، قال: حدثنا محمد بن بشر، قال: حدثنا مسعر، قال: حدثني علي بن مدرك، عن أبي بردة، قال: حدثني رجل من الأنصار، عن بعض أهله، يرفعه: هذه أمة مرحومة.. بهذا. قال أبو عبد الله: ألفاظهم مختلفة، إلا أن المعنى قريب"[73]

ایک روایت کی متعدد اسناد میں سے کسی ایک سند کے اندر اگر کوئی سقم وغیرہ ہے تواس کی طرف ضرورا شارہ کرتے ہیں، جیساکہ درج ذیل روایت میں ہے :

"بشر بن عقبة، أبو عقبة، الكوفي.سمع يونس بن خباب، عن أبي علقمة، عن أبي هريرة، من قال كل يوم، سبعين مرة، أو سبعا: اللهم أجرني من النار، أجاره الله.سمع منه محمد بن مقاتل، حدثني عنه.قال جرير، وابن إدريس: عن ليث، عن يونس بن خباب، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: من استجار سبعا.وقال لنا آدم: حدثنا شعبة، حدثني يونس بن خباب، عن علقمة، الأنصاري؛ سمعت أبا هريرة، قوله.ويقال عن أبي داود، وشاذان، عن شعبة: أبو علقمة جندل، عن يحيى بن يعلى، عن يونس، عن أبي علقمة، عن أبي الدرداء"

اب یہاں پر آخری سند کے بارے میں سقم کی نشان دہی کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :

"قال أبو عبد الله: أبو الدرداء لا يصح ههنا"[74]

اگر ایک واقعہ کئی طرق میں مروی ہواور ان میں کمی زیادتی ہو تو امام بخاریؒ راجح ذکر کرکے مرجوح کی علت بھی بیان کرتے ہیں، مثلاً محمد بن ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں:

"وقال لنا علي حدثنا يحيى بن سعيد قال حدثنا سفيان عن محمد بن أبي بكر قال حدثني عبد الملك بن أبي بكر عن أبيه عن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها وأقام عندها ثلاثا فقال ليس بك على أهلك هوان إن شئت سبعت لك وسبعت لنسائي، وقال وكيع عن سفيان عن عبد الله بن أبي بكر عن عبد الملك بن أبي بكر ابن الحارث لما تزوج النبي صلى الله عليه وسلم ام سلمة، مثله، وقال لنا اسمعيل حدثني مالك عن عبد الله بن أبي بكر عن عبد الملك عن أبي بكر بن عبد الرحمن أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج أم سلمة فأصبحت عنده فقال لها إن شئت سبعت عندك وسبعت عندهن وإن شئت ثلثت عندك ودرت فقالت ثلث"

اب یہاں پر آخری روایت کو ترجیح دیتے ہو ئے لکھتے ہیں :

"قال أبو عبد الله: والحديث الصحيح هذا هو، يعني حديث إسماعيل"

اور یہاں پر مرجوح کی علت بیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :

"قال أبو عبد الله ولم يتابع سفيان أنه أقام عندها ثلاثا"[75]

نتائج

  1. امام بخاریؒ کی کتاب التاریخ الکبیراسماء الرجال کی کتابوں میں عظیم المرتبت کتاب ہے۔
  2. امام بخاریؒ نے اس کتاب میں راویوں کی کنیتوں کے اعتبار سے بھی ان کے احوال جمع کئے ہیں جو کہ اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئے، جس طرح صحیح البخاری امام بخاریؒ کے ذخیرہ ٔ حدیث کا عمق بتلاتی ہے ایسے ہی التاریخ الکبیر بھی امام بخاریؒ کےفن الرجال میں کمالِ مہارت اوریدِ طولیٰ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
  3. اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ جب کسی راوی کا تذکرہ کرتے ہیں تو مکمل شرح ِ صدر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے ہیں، جہاں بھی کسی راوی کے بارے میں ذراسا بھی شک ہو وہاں صراحت کردیتے ہیں کہ اس کے بارے میں مجھے یقین نہیں ۔
  4. یہ کتاب جہاں امام بخاریؒ کی فن ِ رجال پر مہارت بتلاتی ہے وہاں امام بخاریؒ کی لغت پر وسیع نظر کی عکاسی بھی کرتی ہے کیونکہ بسااوقات اگر کسی راوی کے تذکرے میں کوئی غریب لفظ آجائے تو امام بخاریؒ اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں ،یا کوئی لفظ غلط مشہور ہو گیا ہو تو اس کے صحیح تلفظ کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔
  5. ایسے ہی یہ کتاب امام بخاریؒ کے انساب میں دسترس کی بھی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ جہاں اگر راوی کی کنیت یا نام وغیرہ سے اشتباہ ہو تو وہاں اس کے نسب کا تذکرہ کر کے وضاحت کرتے ہیں۔
  6. امام بخاریؒ نے اس کتاب میں تیرہ ہزار سات سو اناسی(13779) راویوں کے احوال ذکر کئے ہیں۔جن میں سے بہت کم ایسے رواۃ ہیں جن پر امام بخاریؒ نے کلام کیا ہے اور اکثر رواۃ سے سکوت اختیار کیا ہے۔
  7. امام بخاریؒ نے عام طور پر جرح کے لئے "منكر الحديث، فيه نظر" کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو کہ ائمہ جرح وتعدیل کے ہاں مراتب جرح میں درجہ خامسہ اور درجہ سادسہ کے الفاظ ہیں یعنی نرم جرح ہے۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == الذهبی، محمد بن احمد بن عثمان، سير اعلام النبلاء، دار الحديث، القاهرہ، ۲۰۰۶ء،۱۰:۷۹ Al Dhahabī, Muḥammad bin Aḥmad bin Uthmān, Siyar A’lām al Nubalā‘, (Cairo: Dār al Ḥadīth, 2006), 10:79
  2. السمعانی، عبدالكريم بن محمد، الانساب، ت:عبدالرحمن الیمانی وغيره، دائرة المعارف العثمانیہ، حيدرآباد، طبع اول،۱۹۶۲ء، ۲:۱۰۷ Al Sam’ānī, ‘Abd al Karīm bin Muḥammad, Al Ansāb, (Hyderabad: Dā‘irah al Ma’ārif al Uthmāniah, 1st Edition, 1962), 2:107
  3. الخطيب البغدادي، احمد بن علي، تاريخ بغداد، ت: د. بشار عواد، دار الغرب الإسلامي، بيروت، طبع اول، ۲۰۰۲ء، ۲:۳۲۲ Al Baghdādī, Aḥmad bin ‘Alī bin Thābit, Tārīkh Baghdād, (Beirut: Dār al Gharb al Islāmī, 1st Edition, 2002), 2:322
  4. سير اعلام النبلاء، ۱۰:۸۱ Al Dhahabī, Siyar A’lām al Nubalā‘, 10:81
  5. سير اعلام النبلاء،۱۰:۸۲ Al Dhahabī, Siyar A’lām al Nubalā‘, 10:82
  6. سير اعلام النبلاء،۱۰:۹۴،۹۵ Al Dhahabī, Siyar A’lām al Nubalā‘, 10:94-95
  7. سير اعلام النبلاء،۱۰:۱۱۸ Al Dhahabī, Siyar A’lām al Nubalā‘, 10:118
  8. ابن خلكان، احمد بن محمد، وفيات الاعيان وانباء ابناء الزمان،المحقق:احسان عباس، دار صادر،بيروت، ۱۹۹۴ء، ۴:۱۹۰ Ibn Khalkān, Aḥmad bin Muḥammad, Wafayāt al A’yān wa Ambā‘ Abnā‘ al Zamān, (Beurit: Dār Ṣadir, 1994), 4:190
  9. المزي، يوسف بن عبد الرحمن،تهذيب الكمال، ت: بشار عواد، مؤسسة الرسالة، بيروت، طبع اول، ۱۹۸۰ء، ۲۴:۴۴۰ Al Mizzī, Yūsuf bin ‘Abd al Raḥmān, Tahdhīb al Kamāl fī Asmā‘ al Rijāl, (Beirut: Mo’assasah al Risālah, 1980), 24:440
  10. الإفريقی، محمد بن مكرم،مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر، دار الفكر للطباعۃ، دمشق، طبع اول، ۱۹۸۴ء، ۲۲:۲۷ Al Afrīqī, Muḥammad bin Mukarram, Mukhtaṣar Tārīkh Dimishq li Ibn ‘Asākir, (Damascus: Dār al Fikr lil Ṭabā‘ah, 1st Edition, 1984), 22:27
  11. ابن عساكر، علي بن الحسن، تاريخ دمشق، ت: عمرو بن غرامۃ ، دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع، ۱۹۹۵ء، ۵۲:۷۵ Ibn ‘Asākir, ‘Alī bin al Ḥasan, Tārīkh Dimishq, (Dār al Fikr lil Ṭabā‘ah, 1995), 52:75
  12. ابن عدی، ابو أحمد بن عدي، الکامل فی ضعفاء الرجال، دارالكتب العلمیۃ، بيروت، طبع اول، ۱۴۱۸ھ، ۳:۲۶۷ Ibn ‘Adī, Abū Aḥmad bin ‘Adī, Al Kāmil fī Ḋu’afā‘ al Rijāl, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1418), 3:267
  13. البخاری، محمد بن اسماعيل، التاريخ الكبير، دائرة المعارف عثمانیہ، حيدر آباد، ۱:۳۷ Al Bukhārī, Muḥammad bin Ismā‘īl, Al Tārīkh al Kabīr, (Hyderabad: Dā‘irah al Ma’ārif al Uthmāniah), 1:37
  14. التاريخ الكبير، ۱:۲۷۱ Al Tārīkh al Kabīr, 1:271
  15. التاریخ الکبیر، ۶:۴۹۳ Al Tārīkh al Kabīr, 6:493
  16. التاریخ الکبیر، ۷:۴۰۸ Al Tārīkh al Kabīr, 7:408
  17. التاریخ الکبیر، ۶:۴۳ Al Tārīkh al Kabīr, 6:43
  18. التاریخ الکبیر، ۴:۳۷۱ Al Tārīkh al Kabīr, 4:371
  19. التاریخ الکبیر، ۳:۳۴۱ Al Tārīkh al Kabīr, 3:431
  20. التاریخ الکبیر، ۴:۴۰ Al Tārīkh al Kabīr, 4:40
  21. التاریخ الکبیر، ۴:۱۶۹ Al Tārīkh al Kabīr, 4:169
  22. التاريخ الكبير، ۴:۷ Al Tārīkh al Kabīr, 4:7
  23. التاريخ الكبير، ۱:۳۵ Al Tārīkh al Kabīr, 1:35
  24. التاريخ الكبير، ۴:۲۸۳ Al Tārīkh al Kabīr, 4:283
  25. التاريخ الكبير، ۵:۲۷۰ Al Tārīkh al Kabīr, 5:270
  26. التاريخ الكبير، ۱:۴۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:42
  27. التاريخ الكبير، ۲:۵ Al Tārīkh al Kabīr, 2:5
  28. التاريخ الكبير، ۲:۶ Al Tārīkh al Kabīr, 2:6
  29. التاريخ الكبير، ۱:۴۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:42
  30. عثمانی، ظفر احمد ،قواعد فی علوم الحدیث ،دار القلم، بیروت،ص:۲۲۳Uthmānī, Zafar Aḥmad Qawā‘id fī ‘Ulūm al Ḥadīth, (Beirut: Dār al Qalam), p:223
  31. التاريخ الكبير، ۸:۴۱۹Al Tārīkh al Kabīr, 8:419
  32. ذہبی، محمد بن أحمد،میزان الاعتدال،ت:علي محمد البجاوي،دار المعرفہ للطباعۃ والنشر، بيروت، طبع اول، ۱۳۸۲ھ، ۴:۴۵۸Al Dhahabī, Muḥammad bin Aḥmad, Mīzān al I’tadāl, (Beirut: Dār al Ma’rifāh lil Ṭabā‘ah, 1st Edition, 1382), 4:458
  33. التاريخ الكبير، ۸:۱۲۲Al Tārīkh al Kabīr, 8:122
  34. میزان الاعتدال،۴:۲۳۹Mīzān al I’tadāl, 4:239
  35. التاريخ الكبير، ۳:۳۶۵Al Tārīkh al Kabīr, 3:365
  36. میزان الاعتدال، ۲:۹۲Mīzān al I’tadāl, 2:92
  37. التاريخ الكبير، ۲:۷۸Al Tārīkh al Kabīr, 2:78
  38. ابن حجر ، احمد بن علي،تقريب التهذيب،ت:محمد عوامہ،دار الرشيد ، سوريا، طبع اول، ۱۴۰۶ھ، ۱:۱۲۳Ibn Ḥajar, Aḥmad bin ‘Alī, Taqrīb al Tahdhīb, (Syria: Dār al Rashīd, 1st Edition, 1406), 1:123
  39. التاريخ الكبير، ۴:۲۷۲Al Tārīkh al Kabīr, 4:272
  40. تقریب التهذيب ، ۱:۲۷۱Taqrīb al Tahdhīb, 1:271
  41. التاريخ الكبير،۷:۲۳۶Al Tārīkh al Kabīr, 7:236
  42. تقريب التهذيب، ۱:۴۶۳Taqrīb al Tahdhīb, 1:463
  43. التاريخ الكبير، ۲:۱۵۱ Al Tārīkh al Kabīr, 2:151
  44. التاريخ الكبير،۲:۱۵۴ Al Tārīkh al Kabīr, 2:154
  45. التاريخ الكبير،۲:۲۷۶ Al Tārīkh al Kabīr, 2:276
  46. التاريخ الكبير،۱:۴۰ Al Tārīkh al Kabīr, 1:40
  47. التاريخ الكبير،۲:۳۴۸ Al Tārīkh al Kabīr, 2:348
  48. التاريخ الكبير،۸:۱۷ Al Tārīkh al Kabīr, 8:17
  49. التاريخ الكبير، ۱:۹۰-۹۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:90-92
  50. التاريخ الكبير،۱:۲۷۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:272
  51. التاريخ الكبير،۲:۷۴،۷۵ Al Tārīkh al Kabīr, 2:74-75
  52. التاريخ الكبير،۲:۷۲ Al Tārīkh al Kabīr, 2:72
  53. التاريخ الكبير،۱:۳۷۹،۳۸۰ Al Tārīkh al Kabīr, 1:379-380
  54. التاريخ الكبير،۲:۷۱،۷۲ Al Tārīkh al Kabīr, 2:71-72
  55. التاريخ الكبير،۳:۲۶۷ Al Tārīkh al Kabīr, 3:267
  56. التاريخ الكبير،۸:۵۱ Al Tārīkh al Kabīr, 8:15
  57. التاريخ الكبير،۱:۳۲۳ Al Tārīkh al Kabīr, 1:323
  58. التاريخ الكبير،۱:۲۳،۲۴ Al Tārīkh al Kabīr, 1:23-24
  59. التاريخ الكبير،۴:۳۲۰ Al Tārīkh al Kabīr, 4:320
  60. التاريخ الكبير،۲:۴ Al Tārīkh al Kabīr, 2:4
  61. التاريخ الكبير،۱:۲۳ Al Tārīkh al Kabīr, 1:23
  62. التاريخ الكبير،۱:۶۴،۶۵ Al Tārīkh al Kabīr, 1:64-65
  63. التاريخ الكبير،۱:۱۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:12
  64. التاريخ الكبير، ۱:۴۰۸ Al Tārīkh al Kabīr, 1:408
  65. التاريخ الكبير، ۲:۱۱ Al Tārīkh al Kabīr, 2:11
  66. التاريخ الكبير، ۱:۳۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:32
  67. التاريخ الكبير، ۱:۷۱ Al Tārīkh al Kabīr, 1:71
  68. التاريخ الكبير، ۱:۳۴۹ Al Tārīkh al Kabīr, 1:349
  69. التاريخ الكبير، ۱:۳۰۰،۳۰۲ Al Tārīkh al Kabīr, 1:300-301
  70. التاريخ الكبير، ۱:۳۶۰، ۳۶۱ Al Tārīkh al Kabīr, 1:360-361
  71. التاريخ الكبير، ۱:۱۶۳، ۱۶۴ Al Tārīkh al Kabīr, 1:163-164
  72. التاريخ الكبير، ۳:۷۳ Al Tārīkh al Kabīr, 3:73
  73. التاريخ الكبير، ۱:۳۷-۴۰ Al Tārīkh al Kabīr, 1:37-40
  74. التاريخ الكبير،۲:۷۹،۸۰ Al Tārīkh al Kabīr, 2:79-80
  75. التاريخ الكبير، ۱:۴۶-۴۸ Al Tārīkh al Kabīr, 1:46-48
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...