Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

تشبہ کی حقیقت، اقسام اور احکام کا فقہاء کی آراء کی روشنی میں تحلیلی مطالعہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تشبہ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم

تشبہ کا لغوی مفہوم

ابن منظور افریقی نے شبہ کی تین لغتیں بیان کی ہیں: الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ جسے آپ مصادر بھی کہہ سکتے ہیں، اس کی جمع أَشْباهٌہے،اور ان تینوں کا معنی "مثل"بیان کیاہے۔ جب ایک شے دوسری شے کے مماثل ہو اس وقت اہل عرب "وأَشْبَه الشيءُ الشيءَ" کہتے ہیں۔[1]

اسی طرح "تاج العروس "میں اس کا معنی "مثل" بیان کیا گیا ہے۔[2]

کتاب التعریفات کے مطابق کسی شے کی کسی دوسری شے کے ساتھ معنی میں مشترکہ امر پر دلالت کرنا تشبیہ کہلاتا ہے پہلی کو مشبہ (بالکسر) اور دوسری کو مشبہ بہ(بالفتح) کہتے ہیں، اس کے لیے آلۂ تشبیہ،اس کی غرض و غایت اور تشبیہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے، یہ معنی جو بیان کیا گیا یہ اہل لغت کے نزدیک تھا ۔اصطلاح میں دو چیزوں کا کسی وصف میں یا کسی شے کے اوصاف میں مشترک ہونا تشبیہ کہلاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ زید میں شیر کی طرح بہادر ی پائی جاتی ہے یہاں وصف بہادری کا اشتراک ہے شیر کے ساتھ اور اسی طرح روشنی کا ہونا سورج میں،اس کو علماء بیان تشبیہ مفرد کہتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

" بے شک اللہ تعالی نے زمین کو پہنچنے والی بارش کے مثل مجھے ہدایت اور علم کے ساتھ بھیجا ہے ۔"[3]

سرکار ﷺ نے یہاں پر علم کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی ہے ،اس کو تشبیہ مرکب یا تشبیہ مجتمع بھی کہتے ہیں جس طرح کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

"میری مثال اور سابقہ انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص نے گھر بنایا بہت خوبصورت حسین وجمیل ا ور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی"[4]

اس کو تشبیہ جمع بالجمع کہتے ہیں یہاں پر وجہ شبہ عقلی ہے جو چند امور سے منتزع ہو رہی ہے پس یہاں نبوت کو گھر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔[5]

اساس البلاغہ میں اس کے معنی مماثلت کے بیان کیے گئے ہیں۔[6]

امام راغب اصفہانی نے بھی شبہ کی تین لغتیں بیان کی ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلاً لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل اور ظلم میں ۔[7]

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تشبہ عربی زبان کا لفظ ہے جو شبه سے نکلا ہے اور اس کا مطلب مشابہ ہونا،ہم شکل ہونا،مثل ہونا،مانند ہونا،باہم مختلط ہونا، ہم وصف ہونا،مشابہت ہونا ،مماثلت ہونایانقل کرنا کے ہیں۔یعنی کوئی ایسی شے کہ جو دوسری شے کی طرح ہو تو کہیں گے کہ یہ شے اس جیسی ہے یا اس سے تشبہ رکھتی ہے مماثلت کا یہ عمل تشبہ کہلاتا ہے۔

تشبہ کا اصطلاحی مفہوم

فقہاء نے تشبہ کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں، چند تعریفات درج ذیل ہیں:

حرام تشبہ بالکفار کسی مسلمان کا کسی کافر قوم کے ساتھ شرعاً یا عرفاً مذموم نا پسندیدہ اشیاء میں مشابہت اختیار کرنا ہےنیز ان چیزوں میں کہ جن میں کفار کے ساتھ مشابہت کا قصد بدلالت حال کیا جاتا ہے۔[8]

کسی نفع وغیرہ سے بے پرواہ ہو کر محض اس لیے کہ کسی کی ادا بھا جائے اور زبردستی اس کی ریس میں اسی ادا کو اختیار کرنا۔[9]

دو چیزوں کا حسی یا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں۔[10]

غیر مسلم کی ہر وہ چیز جو ان کے لیے اس طرح خاص ہو کہ اگر مسلم اسے استعمال کرے تو اس پر غیرمسلم ہونے کا دھوکا ہو۔[11]

انسانی افعال کی اقسام

قبل اس کے کہ تشبہ کی اقسام اور اس کے حکم پر بحث شروع کی جائے انسانی افعال کی اقسام کو جان لینا چاہیئے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس قسم کے افعال پر تشبہ کا اطلاق ہوتا ہے اور کس قسم کے افعال جواز کے دائرے میں آتے ہیں۔

امام شافعي، أحمد بن حنبل، ابن مهدي، ابن المديني، أبو داؤد، دارقطني اور دیگر کئی آئمہ کے نزدیک آدمی کے افعال تین اقسام میں منقسم ہیں؛ قلبی ،لسانی اور افعال جوارح [12]لیکن چونکہ تشبہ کے ضمن میں بالخصوص افعال جوارح کا ذکر کیا جاتا ہے اس لیے یہاں ان کو بیان کیا جاتا ہے ۔افعال جوارح یا ظاہری انسانی افعال کی بنیادی طور پر تین بڑی اقسام ہیں:

۱ ۔افعال طبعیہ یا فطری یا قدرتی افعال

۲ ۔ افعال عادیہ

۳ ۔ افعال اختیاریہ

۱۔ افعال طبعیہ

اس قسم میں ایسے افعال آتے ہیں جو کہ خالصتاً تقاضائے بشری کا نتیجہ ہوتے ہیں اور ان افعال کو ادا کرنے میں وہ فرد اپنے جبلی اور فطری تقاضوں کے تحت مجبور محض ہے کیونکہ یہ فطری تقاضے یا ضرورت خود اس شخص کو ان افعال کے بجا لانے پر آمادہ کر دیتے ہیں اور کوئی بھی فرد نہ تو ان سے عہدہ بر آ ہو سکتاہے اور نہ ہی ان سے کلی طور پر اپنا دامن بچا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سر کو جنبش دینا،ہاتھ ہلانا،پلکیں جھپکانا وغیرہ یونہی مطلقا کھانا ،پینا،سونا،جاگنا،چلنا پھرنا، ستر کو ڈھانکنا اور جنسی ضروریات وغیرہ بھی اسی قسم میں داخل ہیں۔

۲۔افعال عادیہ

اس قسم میں ایسے انسانی افعال آتے ہیں کہ جنہیں ایک انسان ایک خاص انفرادی کیفیت کے ساتھ انجام دیتا ہے جیسے کہ کھانے ، پینے، سونے ،جاگنے،بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی عادات وغیرہ ۔

۳۔افعال اختیاریہ

اس قسم میں ایسے انسانی افعال آتے ہیں کہ جن کو ایک فرد اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے یعنی انسان اگرچاہے تو ان افعال کو ادا کرے اور چاہے تو ادا نہ کرے ،مثال کے طور پر نکاح کرنااور روزی کمانے کے ذرائع اختیار کرنا وغیرہ۔

افعالِ انسانی کا حکم

انسانی افعال کی درج بالا تین اقسام میں سے پہلی قسم پر تشبہ کا اطلاق بھی نہیں ہوتا اور ان افعال کوصرف اس لیے ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کفار سے تشبہ منع ہے اور وہ بھی یہ افعال کرتے ہیں اس لیے ایک مسلمان یہ سب نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ افعال تشبہ کے دائرے سے خارج ہیں۔چنانچہ بحر الرائق میں علامہ زین الدین بن ابراہیم[13] نقل کرتے ہیں:

"ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ التَّشْبِيهَ بِأَهْلِ الْكِتَابِ لَا يُكْرَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ وَإِنَّا نَأْكُلُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَفْعَلُونَ إنَّمَا الْحَرَامُ هُوَ التَّشَبُّهُ فِيمَا كَانَ مَذْمُومًا وَفِيمَا يُقْصَدُ بِهِ التَّشْبِيهُ كَذَا ذَكَرَهُ قَاضِي خَانْ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ فَعَلَى هَذَا لَوْ لَمْ يَقْصِدْ التَّشَبُّهَ لَا يُكْرَهُ عِنْدَهُمَا"[14]

"پھر یہ جان لو کہ کتابیوں کے ساتھ ہر چیز میں مشابہت مکروہ نہیں ہے۔ دیکھو ہم کھاتے پیتے ہیں اور وہ بھی یہ کام کرتے ہیں۔ حرام تشبہ وہ ہے جو مذموم ہے اور جس میں مشابہت کا ارادہ کیا جائے جیسا کہ قاضی خان نے شرح جامع صغیر میں اس کو ذکر کیا ہے تو اس بنا پر اگر آدمی نے تشبہ کا ارادہ نہیں کیا تو طرفین کے نزدیک مکروہ نہیں ہوگا"

امام شافعی فرماتے ہیں :

"مَا نُهِينَا عَنْ التَّشَبُّهِ بِهِمْ فِي كُلِّ شَيْءٍ فَإِنَّا نَأْكُلُ كَمَا يَأْكُلُونَ"[15]

"ہمیں ہرکام میں ان کی مشابہت سے نہیں روکا گیا اس لیے کہ جیسے وہ کھاتے ہیں ویسے ہی ہم بھی تو کھاتے ہیں"

اسی طرح شکل و صورت میں شباہت انسانی دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ سے مذموم نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے وہاں(دوزخ میں) لحی بن عمرو کو بھی دیکھا جو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا اور میں نے اس کے سب سے زیادہ مشابہہ معبد بن اکثم کعبی کو دیکھا ہے۔ اس پر معبد کہنے لگے یا رسول اللہ! ﷺ اس کی مشابہت سے مجھے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تو نہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"لَا أَنْتَ مُؤْمِنٌ وَهُوَ كَافِرٌ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ الْعَرَبَ عَلَى الْأَصْنَامِ"[16]

"نہیں تم مسلمان ہو اور وہ کافر تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے اہل عرب کو بت پرستی پر جمع کیا تھا "

ايك دوسری طویل حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا باقی رہامسیح ضلالت تو وہ ایک آنکھ سے کانا ،کشادہ پیشانی اور چوڑے سینے والا ہوگا اس کے جسم میں ایک کندھے کا جھکاؤ سینہ کی طرف ہوگا اور وہ قطن بن عبد العزی کے مشابہہ ہوگا۔یہ سن کر قطن کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ!کیا اس سے مشابہت میرے لئے نقصان دہ ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"لَا أَنْتَ امْرُؤٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ امْرُؤٌ كَافِرٌ"[17]

"نہیں تم ایک مسلمان آدمی ہو اور وہ کافر ہوگا"

ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ اس طرح کے معاملات میں مشابہت کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ ہی ان پر مشابہت کا اطلاق ہوتاہے۔

افعال عادیہ اگرچہ افعالِ طبعیہ میں داخل ہیں لیکن یہ ان سے اس لیے مختلف ہیں کہ ان کو ایک بندہ مومن ایک خاص انفرادی کیفیت سے ادا کرتا ہے اس لیے کہ کھانا ہر فرد کی بنیادی ضرورت میں داخل ہے اور کوئی بھی فرد اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، کھانا کھانے پر تو تشبہ کا اطلاق نہیں ہو گا لیکن اس کے کھانا کھانے کی اشیا ءپر ،طرز نشست پر ، انداز پر اور اس کی پسند و نا پسند پر ضرور بالضرور تشبہ کا اطلاق ہو گا اس لیے ایک بندہ مومن کو لباس،وضع قطع اور عادات وغیرہ میں تشبہ بالکفار سے بچنا ضروری ہے۔

رہی بات افعالِ اختیاریہ کی تو اس قسم پر بھی تشبہ کا اطلاق ہو تا ہے اور ایک فرد مسلم کو ان افعال میں بھی کفار کی پیروی و مماثلت سے اجتناب کرنا چاہیے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسانی افعال کی پہلی قسم پر تشبہ کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے انہیں تشبہ کے دائرے میں داخل کرنا نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسری اور تیسری قسم تشبہ بالکفار کے دائرے میں شامل ہے اس لیے ان سے بچنا چاہیے۔

تشبہ کی اقسام

اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ"[18]

"جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی، تو وہ انہی میں سے ہوگا "

اس حدیث پاک سے جہاں کفار کی مشابہت کی مذمت معلوم ہو رہی ہےوہیں یہ حدیث نیکو کاروں کی مشابہت اختیار کرنے پر آخرت میں اچھے اجر کی بشارت بھی دے رہی ہے۔چنانچہ معلوم ہوا کہ تشبہ ،مماثلت یا مشابہت اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

"تشبہ مطلق ہے جو اخلاق ،اعمال اور لباس کو شامل ہے۔خواہ اچھے لوگوں سے ہو یا برے لوگوں سے ،اگر اخلاق و اعمال میں مشابہت ہو تو اس کا حکم ظاہر و باطن کو شامل ہےاور اگر لباس میں ہو تو حکم ظاہر کے ساتھ مخصوص ہو گا ۔عرف عام میں اس کا مطلب لباس میں مشابہت لیا جاتا ہے اس لیے اس حدیث کو کتاب اللباس میں لائے ہیں۔"[19]

علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

"یہ حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے بلکہ اس کا محمل یہ ہے کہ جو وصف کسی قوم کی بد عقیدگی پر مبنی ہو اس میں اگر مشابہت کی جائے تو اس کا شمار بھی اسی بد عقیدہ قوم سے ہو گا مثلا گلے میں رسی کا پھندہ بنا کر ڈالنا یہ عیسائیوں کی اس بدعقیدگی پر مبنی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا گیا تھا۔اس کے علاوہ اور کسی چیز میں کفار کی مشابہت اس کو واجب نہیں کرتی کہ اس کا شمار بھی ان کفار میں سے ہوگا۔"[20]

مولانا شمس الدین احمد جعفری رضوی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

"یہ حدیث ایک اصل کلی ہے کہ لبا س اور عادات و اطوار میں کن لوگوں سے مشابہت کرنی چاہیے اور کن سے نہیں کرنی چاہیے۔ کفار اور فساق و فجار سے مشابہت بری ہے اور اہل صلاح و تقوی کی مشابہت اچھی ہے پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انہی کے اعتبار سے احکام بھی مختلف ہیں کفار وفساق سے مشابہت کا ادنی مرتبہ کراہت ہے۔مسلمان خود کو کافروں اور فاسقوں سے ممتاز رکھے تا کہ پہچانا جا سکے اور اس پر غیر مسلم ہونے کا شبہ نہ ہو۔"[21]

علامہ محمدنواب قطب الدین خان دہلوی[22] اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

"مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس قوم و جماعت کی مشابہت اختیار کرے گا اس کو اسی قوم و جماعت جیسی خیر و معصیت ملے گی مثلاً اگر کوئی شخص اپنے لباس و اطوار وغیرہ کے ذریعہ کسی غیر مسلم قوم یا فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرے گا تو اس کے نامہ اعمال میں وہی گناہ لکھے جائیں گے جو اس غیر مسلم قوم کے لوگوں یا فساق و فجار کو ملتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ کو علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے نمونے پر ڈھالے گا کہ انہی جیسا لباس پہنے گا ،ان کے اطوار اختیار کرے گا اور انہی جیسے اعمال کرے گا تو وہ بھلائی و سعادت کے اعتبار سے انہی کے زمرہ میں شمار ہوگا۔اس ارشاد گرامی کے الفاظ بہت جامع وہمہ گیر ہیں جن کے دائرے میں بہت سی باتیں اور چیزیں آ جاتی ہیں یعنی مشابہت کا مفہوم عمومیت کا حامل ہے کہ مشابہت خواہ اخلاق و اطوار، افعال و کردار،لباس و طرز رہائش میں ہویا کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، رہنے سہنے اور بولنے چالنے میں ہو سب کا یہی حکم ہے ۔ "[23]

اس لحاظ سےتشبہ کی دو اقسام ہیں:

۱۔تشبہ محمود

۲۔تشبہ مذموم

تشبہ محمود کو آسانی کے پیش نظر درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔تشبہ محمود فرض ہو

اس کی مثال رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا ہے۔ ان معاملات میں جن کی پیروی ہمارے لئے ضروری ہے جیسے نماز پڑھنے میں آپ ﷺ کی نقل کرنا اور حج اور روزوں وغیرہ کے معاملات میں آپ ﷺ کی پیروی کرنا ۔یہ معاملات ایسےہیں کہ جن پر عمل کئےبغیر اللہ رب العزت کی رضا کا حصول ممکن نہیں اور اسی بات کا حکم خود اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں دیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:-

"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيْرًا"[24]

"تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو"

۲۔تشبہ محمود واجب ہو

مثلاً وہ افعال کہ جن کو اللہ کے نبی ﷺبنیت عبادت سر انجام دیتے تھے اور ان پر آپؐ نے نی صرف مداومت فرمائی بلکہ امت کو بھی ان کاموں کے بجا لانے کی تلقین کی اوریا پھر ان کے چھوڑ دینے پر آپ ؐ نے سخت وعید یا تہدید فرمائی مثلاً باجماعت نماز کا اہتمام کرنا ،داڑھی رکھنا،وتر پڑھنا،صدقۂ فطر ادا کرنا،قربانی کرنا،عیدین کی نماز ادا کرنا اور سجدہ تلاوت وغیرہ ۔

۳۔تشبہ محمودسنت ہو

اس کی مثال یہ ہے کہ جن کاموں میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہمارے لئے فرض قرار نہیں دی گئی ان کاموں میں بھی آپؐ کی نقل کرنا جیسے خوراک،لباس و اطوار،رہن سہن،معاشرت اور معاملات وغیرہ۔ اگرچہ یہ کام رسول اللہ ﷺ بنیت عبادت نہیں بلکہ بطور عادت کے سرانجام دیتے تھےلیکن امت کو ان کاموں میں بھی آپؐ کی پیروی کرنے پر عظیم ثواب کی بشارت ہے جیسا کہ حدیث پاک ہے :

"مِنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عَنْدَ فَسَادِ اُمَّتِی فَلَهُ اَجْرُ مِائَة شَهِیْدِ"[25]

"فسادِ امت کے وقت جو میری ایک سنت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا"

۴۔تشبہ محمود مستحب ہو

عادات ومعاملات میں صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین رحمھم اللہ کے طریقے پر عمل کرنا بھی پسندیدہ ،محموداور مستحب ہے۔جیسا کہ ایک حدیث پاک میں ہے کہ سرکار ﷺارشادفرماتے ہیں:-

"خير شبابكم من تشبه بكهولكم، وشر كهولكم من تشبه بشبابكم"[26]

"تمہارے جوانوں میں سے سب سے بہتر جوان وہ ہے جو بزرگوں کی مشابہت اختیار کرے اور تمہارے بوڑھوں میں سے سب سے بد ترین بوڑھا وہ ہے جو جوانوں کی مشابہت اختیار کرے"

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:

"ہر جگہ کے اہل دین اور ثقہ لوگوں کا جو لباس ہو اس کی اتباع زیادہ بہتر اور مستحب ہے۔"[27]

مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری فرماتے ہیں:

"دیندار مسلمان جس لباس کو اختیار کریں اسے اختیار کیا جائے اور جس لباس سے دیندار مسلمان اور علماء احتراز کریں اس سے بچا جائے۔"[28]

بلکہ یہ لوگ تو ایسے مقبولان بارگاہ خداوندی ہیں کہ ان کی مشابہت میں تو فوائد ہی فوائد ہیں جو شخص ان کے پاس لمحہ بھر کے لیے بیٹھ جائے اللہ رب العزت اسے بھی برکات سے محروم نہیں رہنے دیتا۔جیسا کہ حدیث قدسی ہے:

"قَالَ هُمْ الْجُلَسَاء لَا يَشْقَی بِهِمْ جَلِيسُهُمْ"[29]

"اللہ ﷻ فرماتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ بیٹھنے والابھی محروم نہیں رہتا"

بلکہ یہ لوگ تو اللہ رب العزت کو اتنے پیارے ہیں کہ اگر کوئی دل سے ان کی پیروی نہیں کرنا چاہتا اور ایمان نہ ہونے کے باوجود صرف ظاہرمیں ان جیسی صورت بنا لیتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کو دنیوی مصیبتوں سےبچانے میں نافع ہو سکتا ہےجیسا کہ ایک حکایت ہے کہ غرق فرعون کے دن سارے فرعونی ڈوب گئےمگر فرعونیوں کا بہروپیا بچ گیا۔موسی ٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہی ﷻ میں عرض کی۔مولا یہ کیوں بچ گیافرمایا اس نے تمہارا روپ بھرا ہوا تھا۔ہم محبوب کی صورت والے کو بھی عذاب نہیں دیتے۔[30]

جب کہ ایک حدیث پاک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

"یہ اس لئے کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاری جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں لیکن تمہاری طرح حضرت محمد ﷺ اور قرآن پر ایمان نہیں لائے وہ یہ جان لیں کہ اللہ ﷻ کا فضل حاصل نہ کر سکیں گے۔ " [31]

تو جب ایک کافر ان صریح احکامات کے ہوتے ہوئے اپنے کفر کے باوجود دنیوی عذاب سے بچ سکتاہے تو ایک مسلمان جو کہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہے اور دل سے اپنے پیارے نبی ﷺ کی اور ان کے اصحاب کی اور سلف صالحین کی پیروی کرے گا تو وہ کیسے دینی اور دنیوی برکات سے محروم رہ سکتا ہے ۔

تشبہ مذموم

تشبہ مذموم وہی ہے کہ جو کفار ، فساق ، فجار ،بدعتی،ملحدین،شیطان،گمراہ فرقوں یا جانوروں کے ساتھ کیا جائےاسی طرح عورتوں کی مردوں کے ساتھ یا مردوں کی عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی مذموم ہے ۔تشبہ مذموم کو حکم کی نوعیت کے اعتبار سے درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔ امام ابن صلاح[32] لکھتے ہیں :

"والتشبه بالكفار قد يكون مَكْرُوها وَقد يكون حَرَامًا وَذَلِكَ على حسب الْفُحْش فِيهِ قلَّة وَكَثْرَة وَالله أعلم"[33]

"کفار سے مشابہت کبھی کبھی مکروہ ہوتی ہے اور کبھی حرام ہوتی ہے اور یہ اس کے اندر فحش کی قلت اور کثرت کے اعتبار سے ہوتا ہے"

اس لحاظ سے تشبہ کی اقسام درج ذیل ہیں:

۱۔تشبہ بالکفار کفر

۲۔تشبہ بالکفار حرام

۳۔تشبہ بالکفار مکروہ و ناجائز

۴۔تشبہ بالکفار مکروہ و ناپسندیدہ

۵۔تشبہ بالکفار مباح

۱۔تشبہ بالکفار کفر

کفار کے ساتھ دینی معاملات میں یا عقائد یا ضروریات دین وغیرہ کی مشابہت انسان کو کفر کے گہرے گڑھے میں گرا سکتی ہےاس کی مثال یوں ہے جیسے بُت یا چاند سورج کوسجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحَف شریف (یعنی قرآنِ پاک) یا کعبہ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ہلکا بتانا یہ باتیں یقیناً کفر ہیں۔ یونہی بعض اعمال کفر کی علامت ہیں جیسے زُنّار باندھنا، سرپر چُٹیا رکھنا ، قَشقہ(یعنی ہندؤوں کی طرح پیشانی پرمخصوص قسم کا ٹیکا) لگانا۔ ایسے افعال کے مُرتکب کوفُقَہائے کرام کافِر کہتے ہیں۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مُرتکِب کو ازسرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نِکاح کا حکم دیا جائے گا۔[34] جو مجوسیوں کی مخصوص ٹوپی پہنے یا زُنَّار باندھے بلکہ کوئی اپنی کمر میں یوں ہی رسّی باندھ کر کہے کہ یہ زنّار ہے ، اس کے یہ اَفعال کفر ہیں۔ [35]جس نے سر پر مجوسیوں کی مخصوص ٹوپی رکھ کر کہا:"دل سیدھا ہونا چاہیئے" یہ قول کفر ہے کیونکہ کہنے والے نے ظاہِرِ شریعت کا انکار کیا۔[36]

اسی طرح علم دین اور علما کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالمِ علمِ دِین ہے کفر ہے۔ یونہی عالمِ دین کی نقل کرنا مثلاً کسی کو منبر وغیرہ کسی اونچی جگہ پر بٹھائیں اور اس سے مسائل بطور استہزأدریافت کریں پھر اسے تکیہ وغیرہ سے ماریں اور مذاق بنائیں یہ کفر ہے۔[37]اس لیے کہ یہ شخص وارثان انبیا اور وارثان محراب و منبر جو کہ دین کی ترویج و اشاعت اور اس کے فہم کے لیے بنیادی رہنما ہیں وہ ان کی توہین کی نیت سے ان کی مشابہت اختیار کر رہا ہے جب کہ علماءکی عزت اور ادب و احترام امت پر واجب ہے۔اور ان کی تحقیر و توہین کفر ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تحقیر کے ارادے سے عالم کو عویلم اور علوی کو علیوی کہے وہ کافر ہوجاتا ہے۔[38]جبکہ توہین بوجہ علم دین کرے وگرنہ اگر بسبب ظاہرکے ہے تو اس پر خوف کفرہے ورنہ اشد کبیرہ ہونے میں شک نہیں۔[39]

حضرتِ سیِّدُنا ابو محمدسَہْل کافرمانِ عبرت نشان ہے:

خوف کااعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنے بارے میں اللہ ﷻ کے علمِ اَزَلی کے تعلُّق سے ڈرتا رہے(کہ نہ جانے میرے بارے میں کیا طے ہے،آیا اچھا خاتِمہ یا کہ برا خاتمہ !) اور اِس بات سے بھی خوفزدہ رہے کہ کہیں کوئی کام خِلافِ سنّت( یعنی سنّت کو مٹانے والی بری بدعت کا اِرتکِاب) نہ کر بیٹھے جس کی نحوست اسے کفر تک پہنچا دے ۔[40]

۲۔تشبہ بالکفار حرام

دینی معاملات جیسے عبادات اور معاملات وغیرہ میں کفار کے ساتھ بالقصد مشابہت اختیار کرنا حرام ہے اور اگر ارادہ و نیت کے بغیر ہو تو حرام نہیں جیسا کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی[41] لکھتے ہیں:

"مرد را تشبہ بہ زناں وزن را تشبہ بہ مرداں ومسلم را تشبہ کفار وفساق حرام است"[42]

"مرد کو عورت کی مشابہت (لباس وغیرہ میں اختیار کرنا)اور عورت کو مردوں کی اور مسلم کو کفاراور فساق کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔"

علامہ شیخ شہاب الدین احمد بن حجر مکی نے تو تشبہ بالرجال یا تشبہ بالنساءکوبھی حرام قرار دیا ہے۔[43]مفتی سید عبدالرحیم لاجپوری فرماتے ہیں:

"کافروں اور فاسقوں کے لباس کے ساتھ جس درجہ کی مشابہت ہوگی اسی درجہ ممانعت کا حکم عائد ہو گا جس لباس میں پوری مشابہت ہو گی وہ ناجائز اور حرام شمار ہو گا اور جس لباس میں تھوڑی مشابہت ہو گی وہ مکروہ شمارہو گا۔"[44]

نوحہ یعنی میِّت کے اوصاف(خوبیاں)مبالغہ کے ساتھ (خوب بڑھا چڑھا کر) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو بَین(بھی) کہتے ہیں بِالاِ جماع حرام ہے ۔یونہی واویلا ، وامصیبتاہ(یعنی ہائے مصیبت) کہہ کر چلانا ، گربیان پھاڑنا ، منہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا، سینہ کوٹنا ،ران پر ہاتھ مارنایہ سب جاہِلیّت کے کام ہیں اور حرام ہیں۔میت پرآواز سے رونا منع ہے اور آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں بلکہ حضورِ اقدس ﷺ نے (اپنے لختِ جگر)حضرتِ ابراہیم کی وفات پر بکا فرمایا،(یعنی آنسو بہائے)۔[45]

۳۔تشبہ بالکفار مکروہ و ناجائز

کفار کے ساتھ دینی معاملات سے ہٹ کر لباس ،عادات اور معاملات وغیرمیں جو کہ کفار ہ تو شعار ہوں اور نہ وہ ان کو دینی لحاظ سے معظم و متبرک نہ سمجھتے ہوں تو ایسے معاملات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا مکرو ہ تحریمی ہے۔حضرت سیدنا مالک بن دینار رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

"اللہ عزوجل نے اپنے ایک نبیؑ کی طرف وحی فرمائی اپنی قوم سے کہو کہ وہ نہ تو میرے دشمنوں کے ٹھکانوں میں داخل ہوا کرے نہ ہی میرے دشمنوں کا لباس پہنا کرےنہ میرے دشمنوں کی سواریوں پر سوار ہو اکرے اور نہ ہی میرے دشمنوں کے کھانے کھایا کرے کہ کہیں وہ لوگ ان کی طرح میرے دشمن نہ ہو جائیں۔"[46]

اسی سے متعلق مفتی سید عبدالرحیم لاجپوری فرماتے ہیں:

"ایسا لباس جس میں کفار اور فساق سے تشبہ لازم آتا ہو مسلمان کے لیے پہننا مکروہ و ممنوع ہے۔"[47]

کفارکے ساتھ تشبہ والا لباس پہنناتو ناجائزہے ہی لیکن علماء نے توسرے سے ایسا لباس تیار کرنا ہی مکروہ قرار دیا ہے چنانچہ علامہ ابن عابدین[48] لکھتے ہیں :

"أَمَرَهُ إنْسَانٌ أَنْ يَتَّخِذَ لَهُ خُفًّا عَلَى زِيِّ الْمَجُوسِ أَوْ الْفَسَقَةِ أَوْ خَيَّاطًا أَمَرَهُ أَنْ يَتَّخِذَ لَهُ ثَوْبًا عَلَى زِيِّ الْفُسَّاقِ يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَفْعَلَ لِأَنَّهُ سَبَبُ التَّشَبُّهِ بِالْمَجُوسِ وَالْفَسَقَةِ"[49]

"کسی موچی سے کسی نے فرمائش کی کہ تو مجھ کو ایسا موزہ بنا دے جو مجوسیوں یا فاسقوں کے انداز پر ہو یا درزی سے کہا کہ تو مجھے اہل فسق کا لباس تیار کر دے تو ان پیشہ وروں کا ایسی چیزبنا کر دینا شرعاً مکروہ ہےاس لیے کہ اس میں کفار اور فساق سےمشابہت ہوتی ہے"

مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب تشبہ بالکفار کی نقصانات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے،اس دن اتفاق سے ہندوؤں کے تہوار کا وہ دن تھا جس میں یہ لوگ حیوانات وغیرہ کو رنگتے تھے،یہ بزرگ پان کھا تے ہوئے جارہے تھےکہ راستے میں ایک گدھا نظر آیاجس کورنگ نہیں کیا گیا تھا انہوں نے اس پر تھوک دیا اور مذاق میں فرمایا تجھے کسی نے نہیں رنگا لے میں نےتجھے رنگ دیا۔ان کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا کہ منہ میں ایک سانپ لگا ہوا ہے، اس شخص نے پوچھا حضرت کیا حال ہے؟ فرمایا سب حال اچھا ہے مگر ایک دن گدھے پر پیک ڈال دی تھی اس میں گرفتاری ہوگئی اور حکم ہوا کہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ مشابہت کیوں کی تھی سو عذاب میں مبتلا ہوں اوراپنے کئے کو بھگت رہا ہوں"[50]

مفتی محمود الحسن گنگوہی لکھتے ہیں:

"جو برتن یا کپڑا وغیرہ کسی غیر مسلم قوم کا مخصوص شعار ہو مسلمانوں کو اس سےحتی الوسع اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ کفار کے ساتھ تشبہ منع ہے۔"[51]

۴۔تشبہ بالکفار مکروہ و ناپسندیدہ

کفار کے ساتھ ایسی مشابہت جو کہ نہ تو دینی معاملات سے ہو اور نہ ہی کفار کا شعار ہو ایسی مشابہت ناجائز تو نہیں ہے لیکن ناپسندیدہ ضرور ہےمولانا رشید احمد گنگوہی اس تشبہ سے متعلق فرماتے ہیں:

"کانپور میں ایک نصرانی جو کسی اعلی عہدہ پر تھا مسلمان ہوگیا مگر مصلحتاً اس بات کو چھپائے ہوئے تھا، اتفاق سے اس کا تبادلہ کسی دوسری جگہ کو ہوگیا۔ اس نے ان مولوی صاحب کو جن سے دین اسلام کی باتیں سیکھی تھیں اپنے تبادلہ سے مطلع کیا اور تمنا کی کہ کسی دیندار شخص کو مجھے دےدیں جس سے علم دین حاصل کرتا رہوں چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ایک قابل شاگرد کو اس کے ساتھ کر دیا۔کچھ عرصہ بعد جب یہ نصرانی بیمار ہوا تو اس نے مولوی صاحب کے شاگرد کو کچھ روپے دیے اور کہا کہ جب میں مر جاؤں اور عیسائی مجھے اپنے قبرستان میں دفن کر آئیں تو تم رات کو جا کر مجھے قبر سے نکالنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔چنانچہ اس نصرانی کی وفات کے بعد جب مولوی صاحب کے شاگرد نے حسب وصیت رات کو ان کی قبر کھولی تو دیکھا کہ اس میں وہ نصرانی تو ہے نہیں البتہ مولوی صاحب پڑے ہیں وہ سخت پریشان ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہےمیرے استادیہاں کیسے ؟آخر دریافت سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب نصرانیوں کے طور طریقوں کو پسند کرتے اور اچھا جانتےتھے۔"[52]

۵۔تشبہ بالکفار مباح

کفار کے ساتھ جدید دنیوی معاملات میں جیسے کہ جدید سائنسی ایجادات موبائل فون،کمپیوٹر، انٹر نیٹ، جنگی سازو سامان اور علاج معالجے کی سہولیات وغیرہ میں تشبہ اختیارکرنا جائز ہے اور اگر یہ چیزیں مسلمانوں سے میسر ہوں تو مسلمانوں سے ہی لینا بہترہے۔

نتائج وسفارشات

مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ تشبہ بالکفار کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے کچھ جائز ہیں اور کچھ ناجائز ہیں لیکن تشبہ بالکفار کی کوئی سی بھی شکل ہو وہ درست نہیں ہے اور اسے اپناناقرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہے صحابہ اور اسلاف اسے ناپسند کرتے تھے اور سنت کی تابعداری کو مقدم رکھتے تھے اسی لیے وہ دنیا کی زندگی میں بھی کامیاب و کامران تھے۔ آج مسلمان دنیاوی زندگی میں پستی کا شکار ہیں اس کی ایک وجہ سنت سے روگردانی بھی ہے۔ اگر آج ہم قرآن وسنت کا دامن تھام لیں گے تو دنیوی زندگی میں بھی کامیابی ہمارا مقدر ہو گی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ"[53]

"نہ تم سستی کرو اور نہ غم کھاؤتم ہی غالب آؤ گے اگر تم مومن ہو"

اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

"دین غالب رہے گا جب تک لوگ جلدی افطار کرتے رہیں گےکیونکہ یہود اور عیسائی دیر سے افطار کرتے ہیں"[54]

یعنی سنت کو تھامے رہو گے اور تشبہ بلکفارکی بجائے اس کی مخالفت کرو گے تو کامیاب رہو گے۔

مسلمان تو ایک دن میں روزانہ پانچ مرتبہ صراط مستقیم پر چلنے کی، تشبہ بالکفار سے بچنے کی اور مغضوب علیھم و ضالین سے بچنےکی دعا کرتا ہے۔شیاطین کے لشکروں کی تشبہ سے بندہ مومن راستہ بھول سکتا ہےلیکن قرآن وسنت کی پیروی سے بندہ مومن راہ ہدایت سے بھٹک نہیں سکتا۔دنیا وآخرت کی فلاح و کامیابی بلکہ رب قدوس کی رضا تو فاتبعونی کے تحت ہی حاصل ہو سکتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تشبہ بالکفار سے بچ کر سنت کی پیروی کی جائے۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی[55]


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. ۔ افريقى، محمد بن مكرم بن على ابن منظور، لسان العرب، مادہ ش ب ہ،دار صادر بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ، ۱۳:۵۰۳۔ Ibn-e-Manzoor, Muḥammad bin Mukarram, Lisān al ‘Arab, (Beirut: Dar Ṣadir, 1414, 2nd Edition), 13:503.
  2. ۔الزّبيدي، محمّد بن محمّد بن عبد الرزّاق الحسيني،تاج العروس من جواهرالقاموس،دار الهداية،ط ندارد، ۳۶:۴۱۱۔ Al Zubaydi, Muḥammad bin Muḥammad bin ‘Abdul Razzaq, Taj al ‘Uroos min Jawahir al Qamuws, (Dār al Ḥidayah, Edition Unknown), 36:411.
  3. مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب مثل ما بعث بہ النبی ﷺ من الھدی والعلم،داراحیاءالتراث العربی، بیروت، حدیث:۲۶۸۹۔ Muslim,Imam Abu al Ḥusayn A'sakir al Din ibn Ḥajjaj, (Beurit: Dar Aihya' al Turath al A'rabiy), Ḥadith: 2689.
  4. بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب المناقب، باب خاتم النبیین ﷺ،حدیث:۳۵۳۵۔ Muḥammad bin Isma’il Bukhari, Ṣaḥiḥ Bukhari, (Beirut: Dār Ṭowq al Najat, 1st Edition, 1422), Ḥadith: 3535.
  5. ۔ جرجاني، علي بن محمد بن علي الزين الشريف ، كتاب التعريفات،باب التاء، دار الكتب العلمية بيروت،طبع اول۱۴۰۳ھ، ۱:۵۸۔ Jurjani, ‘Ali bin Muḥammad bin ‘Ali al Zain al Sharif, Kitab al Ta'riyfat, (Beurit: Dar al Kutub al I'lmiyyah, 1403, 1st Edition), 1:58.
  6. ۔ زمخشري، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد،جار الله ،أساس البلاغة،دار الكتب العلمية، بيروت لبنان،طبع اول۱۴۱۹ھ، ۱:۴۳۹۔ Zamakhshari, Abu al Qasim Muḥammad bin ‘Umarw bin Aḥmad, Jarullah, Asas al Balaghah, (Beurit: Dar al Kutub al I'lmiyyah, 1419, 1st Edition),1:493.
  7. ۔ راغب أصفهاني، أبو القاسم الحسين بن محمد،المفردات في غريب دار العلم الدار الشامية،دمشق بيروت،۱۴۱۲ھ، ۱:۴۴۳۔ Raghib Asfahani, Abu al Qasim al Ḥusain bin Muḥammad, Al Mufradat fy Ghariyb al Qurān, (Damascus: Dar al ‘Ilm al Dar al Shamiyyah,1412), 1:443.
  8. ۔ ابن نجيم، زين الدين بن إبراهيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، دار الكتاب الإسلامي،طبع دوم،۲:۱۱۔ Ibn Nujaym, Zain al Din bin Ibrahim, al Miṣri, al Bahar al Ra'iq Sharah Kanz al Daqa'iq, (Dar al Kitab al Islami, 2nd Edition), 2:11.
  9. ۔گیلانی،سید مناظر احسن،اسلامی معاشیات،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،اشاعت ۲۰۰۷، ص:۳۰۷۔ Gylaniy, Sayed Manazar Aḥsan, Islamiy Ma'ashiyat, (Lahore: Sang Miyl Publications,2007), p:307.
  10. ۔ راغب أصفهاني،المفردات في غريب ۱:۴۴۳۔ Al Mufradat fi Ghariyb al Qurān, 1:443.
  11. ۔امجدی،مفتی جلال الدین،فتاوی فیض الرسول،شبیر برادرز اردو بازار لاہور،اشاعت ۱۹۹۳ء،۲:۶۰۰۔ Amjadiy, Muftiy, Jalal al Din, Fataway Fayḍ al Rasuwl, (Lahore: Shabbiyr Brothers 1993), 2:600.
  12. ۔سبكي،تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين، الأشباه والنظائر،دار الكتب العلمية،طبع اول ۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء، ۱:۵۴۔ Subaky, Taj al Din A'bdul Wahhab bin Taqiy al Din, Al Ashbah wal Naza'ir, (Dar al Kutub al I'lmiyyah, 1st Edition, 1991), 1:54.
  13. ۔آپ ۹۷۰ھ میں پیدا ہوئے آپ اپنے وقت کےعظیم فقيه اور اصولي تھے تھے آپ کی تصانیف میں سے شرح منار الانوار في اصول الفقه، البحر الرائق في شرح الكنز الدقائق،الاشباه والنظائر،التحفة المرضية في الاراضي المصرية،الفتاوى الزينية مشہور ہیں۔(معجم المولفین،۴:۱۹۲) Mu'jam al Muw’llafiyn, 4:192.
  14. ۔ ابن نجيم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد، البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري،۲:۱۱۔ Miṣry, Zayn al Din bin Aibrahiym al Ma'ruwf b Ibn Nujaym, al Bahar al Aa'iq Sharah Kanz al Daqa'iq, (Dar al Kitab al Islami, 2nd Edition), 2:11.
  15. ۔سرخسي،شمس الأئمةمحمد بن أحمد بن أبي سهل،المبسوط،دار المعرفة بيروت،بدون طبعة،تاريخ النشر۱۴۱۴ھ / ۱۹۹۳ء، ۱:۲۰۱۔ Sarakhsiy, Muḥammad bin Aḥmad bin aby Sahal, Al Mabsuwt, (Beurit: Dar al Ma'rifah,1993/1414), 1:102.
  16. ۔حنبل، احمد بن حنبل،مسند،مسند جابر بن عبداللہ،مؤسسة الرسالة،طبع اول،۱۴۲۱ھ / ۲۰۰۱ء،حديث:١٤٨٠٠، ۲۳:۱۰۹۔ Aḥmad bin Ḥanbal, Al Musnad, (Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 2001, 1st Edition), Ḥadith:14800, 23:109.
  17. ۔ایضاً، مسندابی ہریرہ،حدیث:۷۹۰۵، ۱۳:۲۸۲۔ Ibid., Ḥadith: 7905, 13:282.
  18. ۔ابو داؤد،سلیمان بن اشعث،سنن ابوداؤد،کتاب اللباس،باب فی لبس الشھرۃ، المكتبة العصرية صيدا بيروت،ط ندارد، حدیث:۴۰۳۱۔ Abu Dawood , Sulayman bin Ash’ath, Sunan abi Dawood, (Beurit: Al Maktabah Al A’sriyyah), Ḥadith: 4031.
  19. ۔ دہلوی،عبدالحق،اشعۃ للمعات،مترجم محمد عبدالحکیم شرف قادری، فرید بک سٹال اردو بازار لاہور،ط ثانی،۲۰۰۲ء،۵:۵۷۷۔ Dihlawiy, A’bdul Ḥaq, Ashah al Lamat, (Lahore: Fariyd Book Stall, 2nd Edition, 2002), 5:577.
  20. ۔ سعیدی،غلام رسول، نعم الباری شرح صحیح البخاری،ضیا القران پبلی کیشنز کراچی،ط دوم ،۲۰۱۴ء، ۱۲:۳۷۸۔ Sa'iydiy, Ghulam Rasuwl, Na'iym al Bariy Sharah Ṣahiyḥ al Bukhariy, (Ḍiya’ al Qurān Publications, 2nd Edition, 2014), 12:387.
  21. ۔شمس الدین،احمد، قانون شریعت ،زاویہ پبلشرز ،داتا دربار مارکیٹ لاہور،ط ن۔م،اشاعت ۲۰۰۷ء،۲:۴۲۶۔ Shams al Din, Aḥmad, Qanuwn Shariy’at, (Lahore: Zawiyah Publishers, 2007), 2:426.,
  22. ۔۱۲۱۹ھ میں پیدا ہوئے علوم شرعیہ شاہ اسحق دہلوی سے حاصل کیے متعدد حج کیے صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ آپ کی اردو شرح مشکوۃ"مظاہر حق"مشہورخلائق ہے۔ستر سال کی عمر پائی اور ۱۲۸۹ھ میں وفات پائی۔(دیکھئے حدائق الحنفیہ،ص:۵۰۵) Ḥada'eq al Ḥanafiyyah, p:505.
  23. ۔ دہلوی،محمدنواب قطب الدین خان،مظاہر حق ،مکتبۃ العلم اردو بازار لاہور،ط ندارد،۴:۱۸۵۔ Dihlawi, Muḥammad Nawab Qutb al Din Khan, Maẓahir Ḥaq, (Lahore: Maktabah Al Ilm), 4:185.
  24. ۔ سورۃ الاحزاب ، ۲۱۔ Surah Al Aḥzab, 21.
  25. ۔ بيهقي ،ابوبکراحمد ابن حسین ابن علی،الزهد الكبير للبيهقي،مؤسسة الكتب الثقافيةبيروت،الطبعةالثالثة۱۹۹۶ء، حدیث:٢٠٧، ١:١١٨۔ تبريزي،محمد بن عبدالله الخطيب،مشكاة المصابيح،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،المكتب الإسلامي بيروت،طبع سوم، ۱۴۰۵ھ، حدیث:۱۶۶۔ Bayhaqi, Abu Bakar Aḥmad bin Ḥusayn bin A'liy, Al Zuhad al Kabiyr, (Beurit: Mua'ssasah al Kutub al Thaqafiyyah, 3rd Edition, 1996), Ḥadith: 2071:118. Tabrayzi, Muḥammad bin ‘Abdullah al Khatiyb, Mishkah al Masabiyh, (Beurit: Al Maktab al Islamiy, 3rd Edition, 1405), Ḥadith: 166.
  26. ۔هندي،علي بن حسام الدين ابن قاضي خان،كنز العمال في سنن الاقوال والافعال،مؤسسة الرسالة،طبع پنجم، ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء،۱۵:۷۸۶۔ Ḥindiy, ‘Ali bin Ḥussam al Din ibn Qaḍiy Khan al Qadry, Kanz al U'mmal, (Beurit: Mo'essasah al Risalah, 5th Edition, 1981/1401), 15:786.
  27. ۔ رحمانی،مولانا خالد سیف اللہ،کتاب الفتاوی،زمزم پبلشرز کراچی،اشاعت ۲۰۰۸ء،ط نداردر، ۶:۹۵۔ Raḥmaniy, Mawlana Khalid Sayfullah, Kitab al Fataway, (Karachi: Zam Zam Publishers, 2008), 6:95.
  28. ۔ لاجپوری،مفتی سید عبدالرحیم،فتاوی رحیمیہ،دارالاشاعت اردو بازار کراچی،اشاعت۲۰۰۳ء،ط ندارد، ۱۰:۹۷۔ Lajpuriy, Mufti Sayid ‘Abdur Raḥiym, Fataway Raḥiymiyyah, (Karachi: Darul Aisha‘at, 2003), 10:97.
  29. ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری، كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،حدیث:۶۴۰۸۔ Muḥammad bin Isma’yl Bukhari, Ṣaḥiḥ Bukhari, Ḥadith: 6408. مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، کتاب الذكر والدعاء والتوبة باب فضل مجالس الذكر ،حدیث:۲۶۸۹۔ Muslim bin Ḥajjaj, Ṣahiḥ Muslim, Ḥadith: 2689.
  30. ۔قاری،ملا علی،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح،مکتبہ امدادیہ ملتان،ط ن۔م، ۸:۲۵۵۔ Qari,Mulla ‘Ali, Mirqah al Mafatiyḥ, (Multan: Maktabah Imdadiyyah)8:255.
  31. ۔نسائی،عبدالرحمن بن شعیب،سنن نسائی ،حدیث:٥٤٠٠۔ Nasa'iy, ‘Abdul Raḥman bin Shu'ayb, Sunan al Nasa'iy, Ḥadith: 5400.
  32. ۔آپ عظیم شافعی فقیہ ہیں ۔تفسیر،لغت،حدیث،فقہ،اسماءالرجال،حدیث سے متعلقہ علوم اور دیگر فنون میں آپ کی نظیر کوئی نہ تھا کثیر الملازمت تھے ورع و تقوی میں بھی آپ کی مثل کوئی نہ تھا یہی وجہ تھی کہ آپ کے جنازے میں اژدھام کثیر تھا آپ کی تصانیف میں سےشرح مشكل الوسيط للغزالي في فروع الفقه الشافعي،الفتاوى، علوم الحديث، معرفة المؤتلف والمختلف في اسماء الرجال، وطبقات الشافعيةمشہور ہیں لیکن سب سے زیادہ شہرت آپ کی کتاب مقدمہ ابن الصلاح کو ملی جو اصول حدیث میں اہم ماخذ کی حيثیت رکھتی ہے۔ (دیکھئے طبقات الشافعیین،۱:۸۵۷) Tabqat al Shaf'iyyin, 1:857.
  33. ۔ابن صلاح ،تقي الدين عثمان بن عبد الرحمن،فتاوى ابن الصلاح،مكتبة العلوم والحكم عالم الكتب بيروت،طبع اول،۱۴۰۷ھ،۲:۴۷۳۔ Ibn Ṣalaḥ, Abu A'mrw U'thman bin A'bdul Rahman, Fataway ibn al Ṣalah, (Beurit: Maktabah al ‘Uluwm wal Ḥikam, 1st Edition, 1407), 2:473.
  34. ۔اعظمی،مولانا امجد علی، بہارِ شریعت ،شبیر برادرز، اردو بازار لاہور،اشاعت ۱۹۹۶ء،ط ندارد، ۱:۶۶۔ ‘Aazamiy, Muwlana Amjad ‘Aliy, Bahar Shariy‘at, (Lahore: Shabbiyr Brothers, 1996), 1:66.
  35. ۔بریلوی ،احمد رضا خان،فتاوی رضویہ،رضا فاؤنڈیشن لاہور،اشاعت ۱۴۲۳ھ / ۲۰۰۳ء،ط ندارد،۲۴:۵۴۸-۵۰۔ Baraylawi, Aḥmad Raẓa Khan, Fatawa Riẓviyyah, (Raẓa Foundation, 2003), 24:548-50.
  36. ۔ایضاً،۲۴: ۵۴۹۔ Ibid., 24:549.
  37. ۔ اعظمی،مولانا امجد علی، بہار شریعت ، ۱:۷۲۶۔ ‘Aazamiy, Muwlana Amjad ‘Aliy, Bahar Shariy‘at, 1:762.
  38. ۔بریلوی،احمد رضا خان،فتاوی رضویہ،۱۴:۲۶۹۔ Baraylawiy, Aḥmad Raẓa Khan, Fataway Riẓviyyah, 14:269.
  39. ۔ایضاً، ۱۵:۱۶۳۔ Ibid., 15:163.
  40. ۔قادری،محمد الیاس،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی،ط ندارد، ص:۲۱۔ Qadri, Muḥammad Ilyas, Kufriyyah Kalimat k Bary me Sawal Jawab, (Karachi: Maktabah al Madinah, Purani Sabzi Mandi), p:21.
  41. ۔شیخ جلال الدین کبیر اولیائے چشتی کی اولادمیں سے ہیں علوم عقلیہ و علوم نقلیہ اور فقہ و اصول میں مرتبہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے علم تفسیر وکلام اور تصوف میں یدطولی حاصل تھا شاہ عبدالعزیز آپ کو بیہقی وقت کہا کرتے تھے میرزا مظہر جانجاناں سے بیعت ہوئے جو کہا کرتے تھے کہ اگر قیامت کے دن خدا نے پوچھا کہ میرے لیے کیا لائے ہو تو میں ثناءاللہ کو پیش کروں گا۔آپ کثیر التصانیف بزرگ ہیں آپ کی تفسیر مظہری مشہور خلائق ہے۔(دیکھئے حدائق الحنفیہ، ص:۴۸۴) Ḥada'eq al Ḥanafiyyah, p:484.
  42. ۔ پانی پتی،قاضی ثناء اللہ ،مالا بدمنہ،مترجم کفیل الرحمن،مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور، ص: ۱۳۲۔ Pani Patti, Qaẓi Ṣana’ Ullah, Ma La Budda Minhw, (Tranlated by: Kafiyl al Raḥman), p:132.
  43. ۔ابن حجر،شیخ شہاب الدین احمد،الزواجر عن اقتراف الکبائر،المكتبة العصرية،صيدابيروت،لبنان،۱۴۲۰ھ / ۱۹۹۹ء،۱:٢٩٨۔ Ibn Ḥajar, Shaykh Shahab al Din Aḥmad, Al Zawajir ‘an Iqtaraf al Kaba’ir, (Beurit: Al Maktaba al ‘Aṣariyyah 1999/1420), 1:298.
  44. ۔ لاجپوری،مفتی سید عبدالرحیم،فتاوی رحیمیہ،دارالاشاعت اردو بازار کراچی،اشاعت۲۰۰۳ء،ط ندارد، ۱۰:۱۶۱۔ Lajpuri, Mufti Sayid ‘Abdur Raḥiim, Fatawa Raḥiymiyyah, 10:161
  45. ۔ اعظمی،مولانا امجد علی، بہارِ شريعت،۱:۳۴۱۔ ‘Azami, Muwlana Amjad ‘Ali, Bahar Shariy‘at, 1:341.
  46. ۔ابن حجر،شیخ شہاب الدین احمد، الزواجر عن اقتراف الکبائر، ۱:٢٥۔ Ibn Ḥajar, Shaykh Shahab al Din Aḥmad, Al Zawajir ‘an Iqtaraf al Kaba’ir,1:25.
  47. ۔ لاجپوری،مفتی سید عبدالرحیم،فتاوی رحیمیہ، ۱۰:۱۵۶۔ Lajpuri, Mufti Sayid ‘Abdur Raḥim, Fatawa Raḥiymiyyah, 10:156.
  48. ۔آپ فقيه اوراصولي تھے ۱۱۹۸ھ کودمشق میں پیدا ہوئے اور ۲۱ربیع الثانی ۱۲۵۲ھ کو اسی شہر میں وفات پائی کثیر التصانیف بزرگ ہیں جن میں سےرد المحتار على الدر المختار على تنوير الابصار، عقود اللآلي في الاسانيد العوالي، العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، حاشية نسمات الاسحار على شرح افاضة مشہور ہیں۔(دیکھئے معجم المولفین،۹:۷۷) Mu'jam al Muw’llafiyn, 9:77.
  49. ۔ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار، دار الفكربيروت، الطبعة: الثانية،۱۴۱۲ھ /۱۹۹۲ء،۶:۳۹۲۔ Ibn ‘AbiyDin, Muḥammad A'min bin ‘Umar bin ‘Abdul ‘Aziz, Radd al Muḥtar ‘Ala Al Durr al Mukhtar, (Beurit: Dar al Fikar, 1992), 6:392.
  50. ۔میرٹھی،عاشق الٰہی،تذکرۃ الرشید، ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور،ط ندارد،اشاعت ۱۹۸۶ ء، ۲:۲۵۰۔ Miyratthi, ‘Ashiq Ilahiy, Tazkirah al Rasheed, (Lahore: Idarah Islamiyat, 1986), 2:250.
  51. ۔ گنگوہی،مفتی محمود الحسن،فتاوی محمودیہ،کتب خانہ مظھری گلشن اقبال کراچی،اشاعت ۱۹۸۶ء،ط ندارد، ۵:۱۸۶۔ Gangowhi, Mufti Meḥmuwd al Ḥasan, (Karachi: Kutub Khana Mzahari, 1986), 5:186.
  52. ۔میرٹھی،عاشق الٰہی،تذکرۃ الرشید، ۲:۲۵۰۔ Miyratthi, ‘Ashiq Ilahi, Tazkirah al Rasheed, 2:250.
  53. ۔ سورۃ آل عمران، ۱۳۹۔ Surah A’al ‘Imran, 139.
  54. ۔ابو داؤد ،سلیمان بن اشعث، سنن ابوداؤد،کتاب الصوم،باب ما یستحب من تعجیل الفطر،حدیث: ۲۳۵۳، ۲:۳۰۵۔ Abi Dawood , Sulayman bin Ash’ath, Sunan abi Dawood, Ḥadith: 2353, 2:305.
  55. ۔اقبال،علامہ ڈاکٹر محمد،کلیات اقبال، ص:۳۵۱۔ ‘Allamah Dr. Muḥammad Iqbal, Kuliyat Iqbal, p:351.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...