Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

تعزیرات پاکستان میں سزائے موت سے متعلقہ دفعات کا شرعی قوانین سے تقابلی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060030498_681

Pages

61-70

DOI

10.36476/JIRS.1:1.06.2016.06

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/89/25

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/89

Subjects

Qisas Capital Punishment Death Sentance Qisas Capital Punishment Death Sentance

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

مملکت پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے ۔اس لئے آئین کی رو یہاں قرآن وسنت کے خلاف قوانین کسی صورت نہیں بنائی جاسکتی ۔لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد برطانوی حکومت کی تیار کردہ بعض قوانین کو جوں کے توں نافذ رہنے دیا گیا۔ جن میں ایک تعزیرات ہند بھی ہے جس کو بعد میں تعزیرات پاکستان کہا جانے لگا ۔اگرچہ تعزیراتِ پاکستان میں وقتاً فوقتاً ترمیمات کی گئی ہیں لیکن پھر بھی اس میں ایسے دفعات موجود ہیں جو شریعتِ اسلامی سے متصادم ہیں ۔

انسانی جان کا معاملہ چونکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لئے یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تعزیراتِ پاکستان میں موجود ایسے دفعات جو سزائے موت سے متعلق ہے ان کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تاکہ عدالت کے ذریعے غیر شرعی طور پر کسی انسانی جان کو نقصان پہنچانے کی طرف ارباب اختیار کی توجہ مبذول کرائی جائے اور اس کے ساتھ انہیں مستند شرعی دلائل کے ساتھ متبادل قانون بھی مہیا کیا جائے۔

اسی ضرورت کے تحت زیرِ نظر آرٹیکل میں تعزیراتِ پاکستان کی مذکورہ بالا دفعات کا اصول شریعت کی روشنی میں جائزہ پیش لیا گیا ہے۔

پاکستانی اور اسلامی قوانین میں سزائے موت کاتقابلی جائزہ:

ذیل کے سطور میں سزائے موت سے متعلقہ دفعات کی دفعہ وار وضاحت اور شرعی قوانین کے ساتھ اس کا تقابل پیش کیا جائے گا۔لیکن متعلقہ دفعہ پورا نقل کرنے کی بجائے صرف مقصودی حصہ نقل کیا جائے گا۔

۱۔قتلِ عمد

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۰۲ میں قتلِ عمد کی سزا موت مقرر کی گئی ہے ۔جن جرائم پر یہ سزا مقرر ہے اس کا تذکرہ دفعہ ۳۰۰ اور ۳۰۱ میں کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں:

دفعہ ۳۰۰ قتل عمد :جو کوئی کسی شخص کو ہلاک کرنے یا جسمانی ضرر پہنچانے کی نیت سے کوئی ایسا فعل کرےجس سے عام حالات میں موت واقع ہو سکتی ہویا گمان غالب ہو کہ موت واقع ہوجائے گی،قتل عمد کہلائے گا۔

دفعہ ۳۰۱: ایسا فعل سرزد ہو کہ جس سے موت کا امکان ہو لیکن ایسے شخص کو ہلاک کرے کہ جس کے قتل کا ارادہ نہ کیا ہوتو مجرم کی طرف سے ایسے فعل کا ارتکاب قتل عمد کا مستوجب ہوگا۔

دفعہ ۳۰۲:جو کوئی قتل عمد کا ارتکاب کرے گااس کو قصاص کے طور پر سزائے موت یا تعزیراً سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

ٍدفعہ ۳۰۰ میں قتل عمد کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس میں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ ایسا فعل ہو جس سے ہلاک ہونے کا یقین یا غالب گمان ہو ۔اس دفعہ کے ضمن میں ایسی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ کس قسم کے ہتھیار کے قصداً استعمال کرنے کو قتل عمد کہا جائے گا ۔لیکن تعزیرات پاکستان دفعہ ۳۱۵ میں قتل شبہ عمد کی تعریف میں یہ بات درج کی گئی ہے کہ قصداً ایسی چیز کا وار کرنا جو عام طور پر ہلاکت کا سبب نہ بنے جیسے پتھر یا لاٹھی وغیرہ تو اس صورت میں قتل شبہ عمد ہوگا ۔ لہٰذا دفعہ ۳۰۰ کو ۳۱۵ کی روشنی میں پڑھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قتل عمد اس صورت میں ہوگا جب قصداً ایسے تیز دھار آلے کا استعمال ہوجو اعضاء کو کاٹنے وچیرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

تقابل

کتب فقہ میں قتل عمد کے متعلق امام ابوحنیفہؒ [1]کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ قتل جوقصداً تیز دھار آلے سےکیا جائے اور پتھر ،لاٹھی وغیرہ سے کیا جانے ولا قتل شبہ عمد ہوگا[2]۔البتہ امام شافعیؒ [3]اور صاحبین کے نزدیک بھاری پتھر یا بڑی لاٹھی سے کیا جانے والا قتل بھی قتل عمد ہوگا[4]۔سنن ابی داؤد کی ایک حدیث سے امام ابو حنیفہ ؒ کے قول کی تائید ہوتی ہے[5]۔لہٰذا دفعہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۰۰ اور ۳۰۱ اور شریعت اسلامی میں موجود قتل عمد کی تعریف مکمل ایک جیسی ہیں۔

دفعہ ۳۰۲ میں قتل عمد کی سزا موت قرار دی گئی ہے۔شریعت اسلامی میں قتل عمد پر سزائے موت کا ذکر کئی مقامات پر موجود ہے جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى[6]

(مومنو! تم کو مقتولوں کے بارےمیں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ)آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت) میں قتل کی صورت میں قصاصاً موت کی سزا کا حکم دیا گیا ہے ۔

اسی طرح ایک روایت میں رسول اللہﷺ نے مسلمان کے خون کے جائز ہونے کی وجوہات بیان فرمائی ہیں :

لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث النفس بالنفس والثيب الزاني والمارق من الدين التارك للجماعة[7]

(کسی مسلمان ،جو اللہ کی معبود ہونے اور میری رسالت کا اقرار کرتا ہو، کا خون جائز نہیں مگر تین وجوہات سے :نفس کے بدلے نفس ،شادی شدہ زانی اور اور دین چھوڑکر جماعت سے الگ ہونے والا)۔حدیث مذکورہ کے مطابق جو افعال مسلمان کے خون کو جائز بناتی ہیں ،ان میں سب سے پہلے انسان کو قتل کرناشامل ہے۔

۲۔توہینِ رسالت

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵۔سی :جو شخص کسی بھی طریقے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں توہین کرےتو اسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا ۔

وضاحت

دفعہ ۱۹۵۔سی میں توہین رسالت کرنے والے شخص کے مذہب کی تعین نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے اندر جو بھی شخص گستاخی کا مرتکب ہوگا،عدالت میں ثابت ہونے پر اس کی سزا موت ہوگی۔اسی طرح گستاخی قول کی صورت میں ہو یا فعل اور اشارہ کی صورت میں اس کو توہین تصور کیا جائے گا۔

تقابل

اصولِ شریعتِ اسلامی میں توہین رسالت کی سزا موت ہونے پر کئی دلائل موجود ہیں جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا[8] کی تفسیر میں سیدنا ابن عباسؓ[9] فرماتے ہیں کہ دنیا میں لعنت سے قتل مراد ہے ۔[10]

اسی طرح شاتم رسول ﷺ کے لئے موت کی سزا کئی احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد میں سیدنا علیؓ [11]سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی ہجو کیا کرتی ۔ ایک شخص نے ہجو کرنے پر اس کا گلا گھونٹا ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَلَا اِشْهَدُوْا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ[12]۔ کئی مواقع پر خودرسول اللہ ﷺنے شاتم کو قتل کرنے کے لئے صحابہ ؓ کو حکم دیا[13]۔

مسلمان شاتم رسول ﷺ کے قتل کے متعلق تو کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا اور قاضی عیاضؒ[14]نےالشفاء میں شاتمِ رسول ﷺ کے لئے موت کی سزا پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے[15]۔اگر ذمی نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی تو جمہور پھر بھی سزائے موت کے قائل ہیں۔البتہ احناف کے نزدیک جب تک ذمی اعلانیہ گستاخی نہ کرے اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی[16]۔

لہٰذا دیکھا جائے تو تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۵۔سی میں مسلمان اور کافر کی تخصیص کے بغیر شاتم رسول ﷺ کے لئے سزائے موت مقرر کرنا اور گستاخی کے کسی خاص قسم کی تعین کئے بغیر کسی بھی طریقے سے توہین کو موت کی سزا کا موجب قرار دینا شریعت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

۳۔ڈکیتی

دفعہ ۳۹۶ : ڈکیتی قتل عمد کے ساتھ پانچ یا زیادہ اشخاص جو ڈکیتی کر رہے ہو اور دورانِ ڈکیتی ان میں ایک قتل عمد کا مرتکب ہو تو ان میں سے ہر ایک شخص کو موت ،عمر قید یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۹۶ میں ڈکیتی میں کم از کم پانچ افراد کا ہونا شرط کر دیا گیا ہے ۔اس دفعہ کے الفاظ میں عموم ہے اس لئے ڈکیتی کرنے والا چاہے مسلم ہو یاذمی اس کو مذکورہ سزا دی جائے گی۔

تقابل

ڈکیتی کے لئے عربی میں حرابہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی جاتی ہےکہ ہر وہ شخص جو رہزنی کرے ، لوگوں کو ڈرائے اور بغیر کسی دشمنی کے لوگوں پر اسلحہ نکالےتو وہ محارب ہے [17]۔ لہٰذا دفعہ ۳۹۶میں حرابہ کے لئے کم از کم پانچ افراد کی موجودگی شرط کرنا شریعت اسلامی سے ثابت نہیں بلکہ ایک بھی فرد اس جرم کا مرتکب ہو تو اس پر مذکورہ سزا جاری کی جائے گی۔

فقہاء کے نزدیک حرابہ حدود اللہ میں شامل ہے[18] اور اس کے لئے شریعت میں مختلف سزاؤں کا ذکر ہے جیسا کہ سورۃ المائدہ کی آیت :

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ[19]

میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔اس آیتِ کریمہ کے متعلق ابن حجر عسقلانی ؒ [20]فرماتے ہیں کہ جمہور فقہاء کرام کے نزدیک یہ ان لوگو کے بارے میں نازل ہوئی،جو مسلمان ہونے کے باوجود زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور رہزنی کے مرتکب ہوتے ہیں[21]۔

امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگر محارب ڈکیتی کے دوران مال چھینے بغیر قتل کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر صرف مال چھینے اور قتل نہ کرے تو ہاتھ اور پھیر کاٹے جائیں گے۔اگر محارب ڈکیتی میں مال بھی چھینے اور قتل بھی کرے تو قتل کرکے سولی پر چڑھایا جائے گا ۔البتہ اس صورت میں سزائے موت سے پہلے ہاتھ وپیر کاٹنے یا نہ کاٹنے میں امام کو اختیار حاصل ہے[22]۔

لہٰذا حرابہ کو کم ازکم پانچ افراد سے مشروط کرنے کے علاوہ دفعہ ۳۹۶ شریعت کے عین مطابق ہے۔البتہ اگر مجرم صرف مال چھیننے کا مرتکب ہوا ہے تو پھر اس کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔

۴۔بغاوت

دفعہ۱۲۱:کوئی حکومت پاکستان کے خلاف جنگ کرے یا ایسی جنگ کرنے کا اقدام کرے یا ایسی جنگ کرنے میں اعانت کرےتو اسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔

وضاحت

اس دفعہ میں ایسےفرد یا افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو حکومت پاکستان کے خلاف جنگ کرے یا جنگ میں مددگار ہو ۔یہ جنگ ملک کے اندر ہو یا باہر سے ہو یعنی ملک کے اندر حکومت کی نافرمانی پر تُل جائے یا بیرونی دشمن کی طرح مقابلہ کرے ۔ بالفاظ دیگر طاقت و تشدد کے ساتھ حکومت سے بغاوت کی جائے۔ایسے افراد کے لئے موت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

تقابل

باغی کی تعریف کتب فقہ میں یہ کی گئی ہے کہ کوئی گروہ امام المسلمین کی اطاعت کا انکار کرکے اس کے خلاف اسلحہ اٹھائے[23]۔

سورۃ الحجرات کی آیتِ کریمہ :فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ[24]کی تفسیر میں علامہ قرطبی[25] فرماتے ہیں کہ اگر امام المسلمین کے مقابلہ پر کوئی گروہ ہتھیار اٹھائے تو حاکم پر لازم ہے کہ پہلے ان کو دعوت دے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے ۔ اگر وہ صلح کرنے پر آمادہ ہو تو قتال کرنا جائز نہیں اور اگر انکار کردے تو حاکم ان سے قتال کرے[26]۔

فتاویٰ عالمگیری میں باغی کے سزا کو بیان کرتے وقت دواقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اگر گرفتاری کے بعد حاکم وقت یہ محسوس کرے کہ یہ واپس باغیوں کے ساتھ نہیں ملے گا تو پھر اس کو قتل نہیں کیا جائے گااور اگر اس کے متعلق یہ شبہ ہو کہ رہا ہونے کے بعد یہ واپس باغیوں کے ساتھ جا ملے گا تو اس کو سزائے موت دی جائے گی[27]۔

حافظ ابن حجر نے سورۃ المائدۃ کی آیت ۳۳ کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کے متعلق نازل کیا گیا ہے۔ اس طرح حکومت کے خلاف جنگ حرابةکے مفہوم میں داخل ہے اور اس پر دیگر سزاؤں کے ساتھ سزائے موت کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔

لہٰذا حکومت وقت کے خلاف جنگ پر سزائے موت شریعت کے عین مطابق ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ گرفتاری کے بعد حاکم اس کی حالت جائزہ لے کر اس کی سزا کا فیصلہ کرے گا ۔لیکن اگر اس جنگ میں قتل کا مرتکب ہوا ہے تو پھر یقینی طور اسے سزائے دی جائے گی۔

۵۔غدر میں واعانت

دفعہ۱۳۲: جو کوئی شخص غدر کے ارتکاب میں اعانت کرے گا اور وہ غدر پاکستان کی بری ،بحری ،ہوائی فوج کے کسی افسر ، سپاہی،ملاح یا ہوا باز کی جانب سے ہو اور اس اعانت کی وجہ سے غدر کا ارتکاب ہو جائے تو اسے سزائے موت ، قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

افواج پاکستان میں کسی بھی فوج کا کوئی عہدیدارپاکستان کے خلاف غدر کا ارتکاب کرے اور کوئی اس کے ساتھ معاونت کرکے اس غدر کو بپا کرے تو اس شخص کو اس دفعہ کے تحت سزا دی جائے گی۔لیکن اس سزا سے بغاوت کرنے والے فوجی عہدیدار کو دفعہ ۱۳۹ کے تحت مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان پر فوجی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔

تقابل

ملک کے خلاف بغاوت خود سے کی جائے یا اس میں افواج کی اعانت کی جائے یہ دونوں برابر کے جرم ہے اور اس کے لئے سزائے موت کا ہونا دفعہ ۱۲۱ کے ضمن میں مذکورہ دلائل سے ثابت اور شریعت کے مطابق ہے۔

۶۔جھوٹی گواہی

دفعہ ۱۹۴:اگر کوئی شخص جھوٹی گواہی کے سبب سے سزا یافتہ ہوکر پھانسی پا جائے تو اس شخص کو جس نے ایسی گواہی دی سزائے موت ،قید یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

اگر قتل عمد کے مقدمے میں کوئی گواہ جھوٹی گواہی دے کر کسی کو قاتل ثابت کرے اور اس کے گواہی کے نتیجے میں اس سزائے موت ہو جائے تو اس جھوٹے گواہ کو موت کی سزا دی جائے گی۔

تقابل

جھوٹی گواہی کی صورت میں احناف کے نزدیک گواہی دینے والے کو قصاصاً قتل نہیں کیا جائےگا[28]۔جب کہ شوافع،حنابلہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک اگر وہ گواہ اس بات کا اقرارا کر لے کہ میں نے قصداً جھوٹی گواہی دی تھی تاکہ اس کو سزائے موت دلا سکوں تواس کو قصاصاً سزائے موت دی جائے گی[29]۔اس پر دلیل یہ روایت ہے کہ سیدنا علیؓ کے سامنے چوری کا ایک مقدمہ پیش ہوا اور دو گواہوں نے غلطی سے بے گناہ شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے اور بعد میں اپنی غلطی تسلیم کرلی تو سیدنا علیؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم نے قصداً ایسا کیا ہوتا تو تمہارے ہاتھ کاٹ دیتا[30]۔

لہٰذا جس جھوٹی گواہی کے نتیجے میں کسی کو سزائے موت ہوجائے اس میں جھوٹے گواہ کو سزائے موت دینا جمہور کا قول اور شریعت کے مطابق ہے۔

۷۔ اغواء

دفعہ۳۶۴۔اے:جو شخص ۱۴ سال سے کم عمر بچے کو اغواء کرے اس مقصد کے لئے کہ وہ قتل کیا جائے ،اسے ضرب شدید پہنچائی جائے،غلام بنایا جائے یا کسی شخص کی شہوت رانی کے لئے استعمال کیا جائے یا اغواء کرنے سے وہ مذکورہ افعال کے خطرے میں پڑ جائےتو اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

دفعہ ۳۶۵۔اے:جو شخص کسی کو اغواء کرے مال کے لئے خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ یا کسی اور مقصد کے لئے تو اس کو سزائے موت یا عمر قید اور جائیداد کے ضبطی کی سزا دی جائے گی۔

دفعہ ۳۶۷۔اے:کو شخص کسی کو اغواء کر لے اس مقصد کے لئے کہ اسے کسی کی غیر فطری خواہشات کا ہدف بنایا جا سکے یا مغوی اس طرح کے خطرے میں پڑ جائے تو اسے سزائے موت یا قید اور جرمانہ کی سزا ہوگی۔

وضاحت

مذکورہ بالا تینوں دفعات اغواء سے متعلق ہے ۔دفعہ ۱۶۴۔اے میں ۱۴ سال سے کم عمر بچوں کو مختلف مقاصد کے لئے اغواء کرنے پر موت کی سزا کا ذکر ہے۔اسی طرح دفعہ ۳۶۵۔اے میں غواء برائے تاوان اور دفعہ ۳۶۷۔اے میں غیر فطری خواہشات کی غرض سے اغواء پر موت کی سزا کا بیان ہے۔

تقابل

اس دفعہ میں مذکورہ جرائم کو سید السابق نے فقہ السنۃ میں حرابۃ کے مفہوم میں داخل قرار دیا ہےاور حرابۃ کے ارتکاب پر سزائے موت سورۃ المائدۃ کی آیت ۳۳ سے ثابت ہے[31]۔جس کا تذکرہ ڈکیتی کے بحث میں تفصیل سے کردیا گیا ہے۔

لہٰذا ان تینوں دفعات میں سزائے موت شریعت کے مطابق ہے۔

۸۔جہاز کا اغواء (ہائی جیکنگ)

دفعہ۴۰۲۔بی:جو شخص جہاز کے اغواء کا مرتکب ہوگا یا ایسی سازش کرے گا یا اس جرم میں اعانت کرے گا،اس کو سزائے موت یا عمر قیدیا جائیداد کی ضبطی اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

دفعہ ۴۰۲۔سی:جو کوئی ایسے شخص کو پناہ دے گا جس کے متعلق اسے معلوم ہو کہ اس نے جہاز اغواء کیا ہے یا اغواء کرنے والا ہے یا اس جرم میں اعانت کی ہے تو ایسے شخص کو سزائے موت یا عمر قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

ان دونوں دفعات میں جہاز کے اغواء ،اس جرم میں اعانت اور اس جرائم میں ملوث افراد کو باجود معلوم ہونے کے پناہ دینے پر سزائے موت کا ذکر ہے۔

تقابل

جہاز کے اغواء سے متعلقہ دفعات پر موت کی سزا کی نظیر براہ راست تواصول شریعت یا کتب فقہ میں نہیں ملی ۔لیکن ان اس جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ،ان میں دو طریقوں سے سزائے موت کا ہونا مشروع معلوم ہوتا ہے۔

ایک تو یہ کہ فقہاء نے حرابة کی تعریف میں ایسے تمام جرائم کو شامل کیا ہے جو جان و مال سلب کرنے اور عزت کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہو ۔جہاز اغواء کرنے میں مملکت سے غداری،لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے اور ریاستی اموال کو تلف کرنے جیسے جرائم شامل ہیں۔لہٰذا یہحرابة کی تعریف کے تحت داخل ہے۔

اسی طرح بعض جرائم میں فقہاء کے نزدیک حاکم کو امن و امان اور جرائم کی روک تھام کے لئے مجرم کو بطورِ تعزیر سزائے موت دینے کا حق حاصل ہے، جیسے احناف مسلسل چوریاں کرنے اور حد جاری ہونے کے بعد بھی چوری سے باز نہ آنے کی صورت میں سیاسۃً قتل کرنے کے قائل ہیں اسی طرح شوافع بھی لواطت میں فاعل و مفعول دونوں کوسیاسۃً سزائے موت دینے کے قائل ہیں[32] [33]۔

لہٰذا جہاز کے اغواء کی صورت میں سزائے موت کا مشروع ہونا مذکورہ بالا دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔

۹۔عورت پر مجرمانہ حملہ

دفعہ ۳۵۴ ۔اے: جو شخص کسی عورت پر مجرمانہ حملہ کرےیا مجرمانہ کا ارتکاب کرے اور اس کا لباس اتار کر ننگا کردے اور اس حالت میں اسے لوگوں کی نظروں کے سامنےظاہر کرےاسے سزائے موت ،قید یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

وضاحت

کسی عورت پر مجرمانہ حملہ کرکے اس کے تمام کپڑے پھاڑ کر اسے پبلک کے سامنے مکمل ننگا کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی۔

تقابل

دفعہ ۱۵۴۔اے میں عورت کو لوگوں کے سامنے برہنہ کرنے پر سزائے موت ان دونوں وجوہات سے ثابت ہوتی ہے ، جن کا تذکرہ جہاز کے اغواء کے ضمن میں ہوایعنی یہ جرم حرابة کے تحت بھی آتا ہے اور حاکم کو اس میں تعزیراً بھی سزائے موت کا اختیار حاصل ہے۔

نتائج:

تعزیرات پاکستان میں سزائے موت سے متعلقہ دفعات میں سے اکثر براہ راست اصول شریعت سے ثابت ہے ۔قتل عمد کی صورت میں قصاص ،توہین رسالت پر سزائے موت اور ڈکیتی ایسے جرائم ہیں جن کو ائمہ نے حدود اللہ میں شمار کیا ہے۔جبکہ بغاوت اور غدر کی سزا بھی قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں فقہاء نے واضح طور پر بیان کی ہے ۔اسی طرح اغواء برائے تاوان ،جہاز کا اغواء یا عورت کو پبلک میں برہنہ کرکے بے عزت کرنے کو واضح طور پر فقہاء نے بیان نے فرمایا لیکن فقہاء کی اقوال کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی شریعت کے عین مطابق ہے۔

البتہ بعض جرائم میں ایسی شرائط موجود ہیں جو شریعت سے ثابت نہیں اور بعض مواقع پر جرائم کا ذکر ایسے شرائط کے بغیر کیا گیا ہے جن کا ذکر کرنا شریعت کی نظر میں ضروری ہے۔

حوالہ جات

  1. مصادر و مراجع(Refrences) ابو حنیفہ نعمان بن ثابت زوطی (۸۰ھ- ۱۵۰ھ) کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حماد بن ابی سلیمان کے حلقہ درس میں ۱۸ سال گزار کر ایک نامورفقیہ بنے۔فقہ میں آپ کا اپنا ایک مستقل مسلک ہے۔ جسے مصر، شام، پاکستان، اور وسطی ایشیا کے ممالک میں پذیرائی حاصل ہے۔ (تاریخ بغداد،،۱۳: ۳۲۳)
  2. بدائع الصنائع،ابوبکر بن مسعود الکاسانی،۷ : ۳۳۳،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء
  3. محمد بن ادریس بن عباس الشافعی شعر،لغت،ایام عرب،فقہ اور حدیث کے بڑے عالم تھے۔نہایت ذہین،فطین اور حاضر جواب تھے۔ان کی مشہور تصانیف میں الأم،احکام القرآن اور الرسالۃشامل ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،محمد بن احمد الذہبی،۱۰ : ۵،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء)
  4. ایضاً
  5. سنن ابی داؤد،کتاب الدیات،باب فی دية الخطاء شبه العمد،حدیث نمبر :۴۵۴۷
  6. البقرۃ،۲ :۱۷۸
  7. صحیح البخاری،کتاب الدیات،باب قول الله تعالیٰ ان النفس بالنفس،حدیث نمبر:۶۸۷۸
  8. الاحزاب ، ۳۳ : ۵۷
  9. سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ بن عبد المطلب رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی تھے ۔ آپ ؓ کو ترجمان القرآن اور حبر الامۃ کہا جاتا ہے ۔آپ سے ۱۶۶۰ روایا ت منقول ہیں ۔(الاستیعاب في معرفة الاصحاب، ابن عبد البریوسف بن عبد اللہ ،۳: ۹۳۳، دارالجیل، بیروت، ۱۴۱۲ھ /۱۹۹۲ء)
  10. تفسیر ابن عباس،ینسب الی عبد اللہ بن عباس جمعہ مجدد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی،۱ : ۳۵۷، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، س ن
  11. علی بن ابی طالب عبد المطلب الہاشمی ،امیر المؤمنین، حضور ﷺ کے حقیقی چچا زاد ، داماد تھے۔ قرآن پاک سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔ آپ سے کل ۵۸۶ حدیثیں مروی ہیں۔ ( الاستیعاب، ۳ : ۱۹۷۹)
  12. سنن ابی داؤد،کتاب الحدود،باب الحکم فی من سب النبی ﷺ،حدیث: ۴۳۶۲
  13. سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب قتل الاسیر ولایعرض عليه الاسلام،حدیث: ۲۶۸۵
  14. عیاض بن موسیٰ بن عیاض(۴۷۶ھ-۵۴۴ھ) سبتہ میں پیدا ہوئے۔ سبتہ کے قاضی رہے۔آپ اپنے وقت میں حدیث ، نحو اورلغت کے امام تھے۔ آپ کی تصنیفات میں الشفاء،الاکمال اورمشارق الانوار شامل ہیں۔(وفیات الأعیان،ابن خلکان احمد بن محمد، ۳: ۴۸۳، دار صادر،بیروت،۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء)
  15. الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،قاضی موسیٰ بن عیاض،۲ : ۴۷۶،دار الفیحاء ،عمان ، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء
  16. بدائع الصنائع،ابوبکر بن مسعود الکاسانی،۷ : ۱۱۳،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء
  17. التاج والاکلیل لمختصر الخلیل،محمد بن یوسف المالکی،۸ :۴۲۷،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۶ھ
  18. الاحکام السلطانية، ابو الحسن علی بن محمد الماوردی،۱: ۳۲۷،دار الحدیث ،القاہرۃ
  19. المائدۃ،۵ :۳۳
  20. احمد بن علی بن محمد الکنانی العسقلانی(وفات:۷۷۳ھ) قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ااپ نے کثیر تعداد میں تصنیفات فرمائی ۔حدیث ، رجال اور تاریخ میں بے مثال تھے۔(الاعلام للزرکلی،۱: ۱۷۸)
  21. فتح الباری، احمد بن علی بن حجر،۱۲:۱۱۰، دار المعرفۃ ، بیروت ،۱۳۷۹ھ/۱۹۵۹ء
  22. الجامع لاحکام القرآن=تفسیر القرطبی ،محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی،۶ :۱۵۱،دار الکتب المصریۃ ، القاہرۃ،۱۳۸۴ھ
  23. الموسوعة الفقهية الکویتية،وزارة الاوقاف والشؤن الاسلامية،۸ :۱۳۰،دار السلاسل ، کویت،۱۴۰۴ھ
  24. الحجرات،۴۹ :۹
  25. محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبی(۶۰۰ھ۔۶۷۱ھ) قرطبہ میں پیدا ہوئے اور پھر مصر ہجرت فرمائی۔آپ زاہد اور متبحر عالم اور اپنے زمانے کے امام تھے۔آپ کی تصانیف میں تفسیر جامع القرآن مشہورہے۔(طبقات المفسرین،احمد بن محمد الادنہوی،۱: ۲۴۶، مکتبۃ العلوم والحکم،السعودیۃ،۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء)
  26. تفسیر القرطبی،۱۶ :۳۲۰
  27. الفتاویٰ الهندية،لجنة علماءبرئاسة نظام الدین البلخی،دار الفکر، بیروت،۱۳۱۰ھ
  28. بدائع الصنائع،۶ : ۲۸۵
  29. الموسوعة الفقهية الکویتية ،۲۶ :۲۴۳
  30. المهذب فی فقه الامام الشافعی،ابراہیم بن علی بن یوسف الشیرازی،۳ :۴۶۴،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،س ن
  31. فقه السنة، السیدسابق،۲ : ۴۶۴،دار الکتاب العربی، بیروت،۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء
  32. فتح القدیر،ابن ہمام محمد بن عبد الواحد ، ۵ : ۳۹۷،دار الفکر ، بیروت۔
  33. رد المحتار،ابن عابدین محمد بن عمر،۴:۶۳، دار الفکر ، بیروت، ۱۴۱۲ھ /۱۹۹۲ ء
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...