Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

جج پر ضمان: فقہی قواعد اور پاکستانی قانون میں تطبیق |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060030498_714

Pages

25-44

DOI

10.36476/JIRS.3:2.12.2018.02

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/301/130

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/301

Subjects

Tort Penalty Judge Legal Maxims Ḥanafi Jurisprudence Tort penalty judge legal maxims Ḥanafi Jurisprudence

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

انسان مدنی الطبع ہے۔ مل جل کر زندگی گذارنےمیں کوئی بھی شخص اس وقت تک زمانی تغیرات، معاشرت بگاڑ اورتعدی و زیادتی سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے جب تک وہ فطرتی کمزوریوں کو کسی قانون و ضابطہ کے ماتحت لا کر زندگی نہ گزارے۔بشری تقاضوں کے ساتھ اگر کسی سے کوئی زیادتی ہو جائے تو اس کے نقصان کا ازالہ کرنا فطرت کے قانون کے مطابق لازمی ہے۔ وضعی قانون تو دور کی بات ہے قرآن مجید نے بھی ارشاد فرمایا ۔

"فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ" [1]

" جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ان پر اتنی زیادتی کرو جتنا تم پر کی گئی ہے۔"

نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا:

"لا ضرر ولا ضرار" [2]

"آدمی نہ تو خود ضرر اٹھائے اور نہ کسی کو ضرر پہنچائے۔"

قرآن و سنت میں کئی مقامات پر دفع ضرر اور نقصان کے ازالہ کا حکم دیا گیا ہے۔نقصان اور ضرر کا تعین کرنے والے حضرات تقریبا تمام معاشروں میں قاضی اور جج ہوتے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دفع ضرر اور نقصان کے تعین کرنے اور دلوانے والے خود ہی جان بوجھ کر یا سستی و غلطی سے اپنے فیصلہ کے ذریعے کسی کو ضرر یا نقصان پہنچائے تو اس صورت میں جج یا قاضی پر ضمان تاوان ہو گا یا نہیں ؟ اور یہی زیر تحقیق مقالہ کا بنیادی مسئلہ ہے۔

فقہی قواعد کو مطلق معنی میں محصور کرنے کی صورت میں تو اس سوال کا یہی جواب ہے کہ جب ہر قسم کے نقصان کا ازلہ کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں قاضی پر بھی ضمان جاری کیا جائے گا۔جبکہ موجودہ پاکستانی وضعی قانون تو قاضی / جج کو استثناء دیتا ہے ۔لہذا فقہی قواعد اور پاکستانی قوانین کی اس مسئلہ کے بارے میں تطبیقات کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ کس حد تک فقہی قواعد اور پاکستانی قانون میں تطبیق ہے ؟

عصر حاضر میں اسلام کے قانون ضمان کے مقابلہ میں قانون ٹارٹ ہے ۔قانون ٹارٹ کا سابقہ انسانی زندگی کے ہر ہر قدم پر پڑتا ہے۔لہذا تحقیق مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کیا قانون ٹارٹ کا اطلاق ججز پر غلط فیصلہ صادر کرنے کی صورت میں ہونے والے نقصان پر بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟

زیر تحقیق مقالہ میں فرضیہ تحقیق کچھ یوں ہے کہ جب ہر قسم کے ضرر و نقصان پر ضمان لازم آتا ہے تو کیا قاضی / جج سے غلط فیصلہ صادر ہونے کی وجہ سے مدعی یا مدعا علیہ کے ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی کیا جائے یا نہیں؟ زیر تحقیق مقالہ کے اہم مقاصد میں قواعد فقہیہ کی وضعی قانون سے تطبیق کا جائزہ لینا سب سے اہم مقصد ہے۔

فقہ اسلامی کے مروجہ علوم و فنون میں سے قواعد فقہیہ کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔کیونکہ قواعد فقہیہ میں فقہ اسلامی کے کئی ابواب کی فروعات شامل ہوتی ہیں۔قواعد فقہیہ کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے۔ایک ہی فقہی قاعدہ کی تطبیقات میں کئی کئی مثالیں موجو د ہوتی ہیں۔اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زیر تحقیق مقالہ کو ادب القضاء کے ایک مخصوص مسئلہ قاضی پر ضمان تک محدود کیا گیا ہے۔ ذیل میں فقہی قاعدہ کی پاکستانی قوانین کے ساتھ تطبیق ذکر کرنے سے پہلے قواعد فقہیہ اور چند تمہیدی اصلاحات ذکر کی جاتی ہیں۔

قواعد فقہیہ کاتعارف:

قواعد فقہیہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ایک قواعد اور دوسر ا فقہیہ ہے ۔"قواعد قاعدہ کی جمع ہے ۔قاعدہ کا مادہ "قعد"ہے[3] اور لغت عرب میں قاعدہ "الاساس"بنیادکے معنی میں آیا ہے۔[4] قرآن مجید میں بھی قواعد کا معنی اساس بیان کیا گیا ہے:

"وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا"[5]

"اور یاد کروجب ابراہیم اوراسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہےتھے۔ تو دونوں نے دعا کی۔ اے ہمارے رب ہماری یہ خدمت قبول فرما۔"

دوسرے مقام پر قرآن مجید میں ہے۔

"فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ" [6]

"پس اللہ نے ان کے مکروفریب کی کئی بنیادوں کو اکھاڑ دیا۔"

قرآن مجید میں مقعد کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔

”فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِر “[7]

"پاکیزہ مجالس میں حقیقی اقتدار کے مالک بادشاہ کی خاص قربت میں ہونگے۔"

اسی طرح مقاعد کا لفظ بھی قرآن مجید میں آیا ہے:

”وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَال“ [8]

"اور وہ وقت یاد کیجئے جب آپ صبح سویرے اپنے دردولت سے روانہ ہوکر مسلمانوں کو غزوہ احد کے موقع پرجنگ کے ٹھکانوں پر ٹھہرا رہے تھے۔"

"قاعدہ" کی اصطلاحی تعریف تاج الدین سبکی [9]بیان فرماتے ہیں:

"الأمر الكلي الذي ينطبق عليه جزئيات كثيرة تفهم أحكامها منه "[10]

"قاعدہ سے مراد وہ امر ہے جو بہت سی جزئیات پر منطبق ہوتا ہو اور جس سے احکامات کا فہم حاصل ہو۔"

فقہ کی اصطلاحی تعریف علامہ سبکی نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ذکرکی ہے۔

"االْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْعَمَلِيَّةِ الْمُكْتَسَبِ مِنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّة "[11]

ایسے شریعت کےعملی احکام کا علم جو تفصیلی دلائل سے اجتہاد کے ذریعے سے ماخوذ کئے گئے ہوں۔

"قواعد فقہیہ " بحیثیت علم کے متعلق تعریفات میں محققین اسلامیہ کی مختلف آراء ہیں۔ مگر مقالہ ہذا میں صرف ایک تعریف پر اکتفاء کیا گیا ہے۔عصر حاضر کے نامور محقق ڈاکٹر علی ندوی[12]یوں تعریف ذکرکرتے ہیں:

"حکم شرعی فی قضية اغلبية یتعرف منها احکام ما دخل تحتها "[13]

"ایسا حکم شرعی جو اکثریتی قضایا میں استعمال ہو جس سے ان قضایاکےماتحت آنے والےاحکام کی معرفت ہو۔"

کسی حد تک ڈاکٹر علی ندوی کی تعریف قابل اطمینان ہے۔ لیکن پھر بھی اعتراض باقی ہے کہ حکم ذکر کرنے کے بعد قضیہ کا لانا تحصیل حاصل ہے۔

قرآن مجید کلیات کی کتاب ہے۔قرآن کا اسلوب بھی یہی ہے کہ ہر حکم کے بارے میں نہایت ہی مختصر الفاظ میں قواعد و اصول ذکر کئے جائیں ۔پھر دوسرے مقام پر قرآن خود ااختصار کی وضاحت یا حدیث میں اس کی تشریح ذکر کر دی جاتی ہے۔قرآن کے قواعد و اصول کو کوئی بھی فقیہ نظر انداز نہیں کر سکتاہے۔ جیسے قرآن مجید کی آیت ہے:

”يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ“[14]

"اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا ہے۔"

یہ آیت درج ذیل قاعدہ کے لیے اصل ہے:

"المشقة تجلب التیسیر"[15]

"مشقت آسانی کی طرف لے جاتی ہے۔"

قرآن مجید کے بعد فقہی قواعد کے مصادر میں سنت رسولﷺ کا درجہ ہے۔ نبی پاک ﷺ نےخودارشاد فرمایا:

"بعثت بجوامع الکلم"[16]

"مجھے جوامع الکلم عطا ء کیے گئے ہیں۔"

جوامع الکلم کی یوں تعریف ذکر کی گئی ہے۔

"ایجاز اللفظ مع تنارلها المعانی الکثیرة حدا"[17]

"جوامع الکلم سے مراد ایسے چند الفاظ ہیں جن کے معانی بہت زیادہ ہوں اور یہی بلاغت کی انتہاء ہے۔"

جوامع الکلم سے مراد قواعد و اصول ہی ہیں اور جوامع الکلم کا اطلاق معانی کثیرہ پر ہوتا ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں بہت سے ایسے اقوال ہیں۔ جو بعد میں فقہاء نے ان کو قواعد فقہیہ میں شمار کیا ہے۔جیسے ارشاد فرمایا:

"البينةعلی المدعی والیمین علی من انکر"[18]

"گواہ مدعی کی ذمہ داری ہے اورقسم اس پر ہے جو انکار کرے۔"

قاضی کا معنی و مفہوم:

قاضی ،قضاء سے مشتق ہے ۔ابن منظور افریقی ،قاضی کا لغوی معنیٰ یوں ذکر کرتے ہیں۔

"هو القاطع للامور المحکم لها و استقضی فلان ای جعل قاضیاَ"[19]

"اختلافی امور کو ختم کرنے والا قاضی کہا جاتا ہے۔استقضی فلاں مطلب فلاں کو قاضی بنایا گیا ۔"

ادب القضاء کی روشنی میں قاضی کی اصطلاحی تعریف یوں ہے:

"هو الذات الذی نصب وعین من قبل السلطان لاجل فعل و ختم الدعوٰی والمخصامة الواقعة بین الناس توفیقاً لاحکامها المشروعية"[20]

قاضی یا جج سے مراد وہ شخص ہے۔ جس کو سربراہ حکومت کی طرف سے لوگوں کے درمیان جھگڑوں،دعوٰی جات کی چھان بین اور اختلافات ختم کرنے کے لئے مقرر کیا جائے۔

زیر تحقیق عنوان سے متعلق قواعد فقہیہ میں سے دو بنیادی فقہی قواعد ہیں ۔ایک عمومی معنی میں ہے جبکہ دوسر ا زیرتحقیق عنوان سے متعلق بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

"وَالْأَصْلُ عَدَمُ الضَّمَان"[21]

"اصل ضمان ارش میں عدم ہے۔"

ابن ہمام قضا ء کے حوالہ سے یوں فقہی قاعدہ ذکر کرتے ہیں۔

"لاضمان علی القاضی اذا اخطاء مالم یکن متعمدا" [22]

"غلط فیصلہ دینے پر قاضی پر کوئی ضمان نہیں ہے بشرطیکہ اس نےجان بوجھ کر غلط فیصلہ نہ دیاہو۔"

مذکورہ فقہی قواعد میں یہ بات تو واضح ہے کہ اگر جان بوجھ کر قاضی نے غلط فیصلہ نہیں کیا تو اس پر کوئی ضمان نہیں ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے جان بوجھ کر غلط فیصلہ صادر کرنے کی صورت میں دفع ضرر یا ازالہ نقصان کے لئے ضمان جو لازم آئے گا ۔ اس ضرر کا ازالہ ضروری ہے۔لہذا ذیل میں ضرر سے متعلق چند اہم فقہی قواعد ذکر کئے جاتے ہیں۔

"الضرر یدفع بقدر الامکان"[23]

"ضرر کا ازالہ حسب ضرورت کیا جائے گا۔"

"الضرر یزال"[24]

"نقصان کا ازلہ کیا جائے گا۔"

"الضرر لا یزال بالضرر"[25]

"نقصان کا ازالہ نقصان سے پورانہیں کیا جائے گا۔"

ذیل میں پہلے ضمان کی تعریف فقہ اسلامی اور وضعی قانون کی روشنی میں ذکر کی جائے گی۔ بعد میں فقہی قواعد کی تطبیقات کا جائزہ لیا جائے گا۔

ضمان کا لغوی و اصطلاحی معنی:

"ضمان کا لغوی معنی ،کفالت ،لازم ہونا اور ضمان ہوناہے۔"[26]

علامہ حموی نے اصطلاحی تعریف یوں ذکر کی ہے۔

"عبارة عن رد مثل الهالك ان کان مثلیا اوقيمية "[27]

"اگر ضائع ہونے والی چیز مثلی ہے تو مثل چیز کا واپس کرنایا پھر اس کی قیمت کاواپس کرنا ضمان ہے۔"

"الضمان عبارة عن غرامة التالف"[28]

"ضمان ضائع شدہ چیز کا ضمان ہے۔"

ڈاکٹروھبہ زحیلی کی تعریف درج بالا تعریفات سے معنی کے لحاظ سے زیادہ وسعت کی حامل ہے۔کیونکہ انہوں نے کسی بھی قسم کے نقصان اور منافع کے زائل ہونے کو بھی ضمان میں شمار کیا ہے۔

"هو الالتزام بتعویض الغیر عما لحقها من تلف المال او ضیاع المنافع او عن الضرر الجزئی او الکلی الحادث بالنفس الانسانية "[29]

"کسی شخص پر عوض کو لازم کرنا ہر اس چیز میں جس سے کوئی مال ضائع ہو گیا ہو یا منافع کا نقصان ہوگیاہو یا کسی حادثہ میں انسانی اعضاء کلی یا جزئی طور پر ضائع ہوگئےہوں۔"

ضمان کے لئے انگریزی زبان کا لفظ ٹارٹ tort بولا جاتا ہے۔جس کے معنی غیر منصفانہ،اور غلطی یا خطا ءسے ہونے والا نقصان ہے۔ڈاکٹر سالمنڈ نے ٹارٹ کی تعریف یوں ذکر کی ہے۔

"Tort is a civil wrong, independent of contract for which the remedy is an action of damages. "[30]

"ٹارٹ ایک ایسا معاہدہ ضرر ہے۔جس کے خلاف معاوضہ حاصل کرنے کے لئے دعوی دائر کرنے کا چارہ کار حاصل ہے۔"

ایم اے چوہدری نے ٹارٹ کی یوں تعریف ذکر کی ہے:

“This is an act or omission which prejudicially affects a person same legal private.”[31]

"یہ ایک ایسا فعل یا کوتاہی ہے جس سے کسی شخص کے قانونی اور نجی حق کو نقصان پہنچتا ہے۔"

بعض حضرات نے ٹارٹ کے لئے عربی لفظ "جنایت" کا استعمال کیا ہے۔لیکن امام سرخسی کی تعریف کی روشنی میں جنایت کا فعل صرف انسان کی جان یا اس کے اعضاء سے متعلق ہے۔جیسے تعریف ملاحظہ ہو۔

"ان الجناية اسم لفعل محرم شرعا سواء حل بمال او نفس ولکن فی لسان الفقهاء یراد باطلاق اسم الجناية الفعل فی النفوس والاطراف فانما حضواالفعل فی المال باسم وهو الغصب" [32]

"جنایت نام ہے کسی کے مال یا جان کو حلال سمجھنا۔لیکن فقہاء کی اصطلاح میں جنایت کا فعل صرف انسان کی جان یا اس کے اعضاء سے متعلق ہوتا ہے۔"

جج پر جان بوجھ کر غلط فیصلہ صادر کرنے میں لازم آنے والے ضمان کو عام اردو زبان میں جرمانہ fine, penalty بھی کہا جاتا ہے۔جس کی تعریف بھی ملاحظہ ہو۔

“Some of many fixed as penalty for offence.”[33]

"اس سے مراد کسی جرم کی سزا کے طور پر مقرر کی گئی رقم ہے۔"

الغرض اردو زبان میں ضمان کا مطلب یہ ہوا کسی بھی قسم کے نقصان کامالی یا مثلی معاوضے کا نام ضمان ہے۔ ضمان کو اردو زبان میں ضمان،چٹی،جرمانہ و غیرہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔اسلامی اور وضعی قوانین میں مذکور ضمان سے متعلق تعریفات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کسی انسان سے کسی دوسرے کی کوئی چیز تلف ہونے یا اس کے منافع ضائع ہونے یا کسی جزئی نقصان یا کلی ہونے پر نقصان کرنے والے پر اس کا عوض ،ضمان یا جرمانہ کی صورت میں لازم آتا ہے۔اور یہ ضمان دو صورتوں میں لازم آتا ہے۔

  1. ضمان کسی معاہدہ توڑنے پر لازم ہو۔اس پہلی قسم میں ضمان کفالہ کا مترادف ہے۔
  2. دوسری صورت میں ضمان کسی قابل مواخذہ خطا یا ضرر کی وجہ سے لازم آتا ہے۔اس کو فقہ میں ضمان التعدی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور زیر تحقیق مقالہ میں ضمان کی یہی قسم مراد ہے۔

ضرر کی اصطلاحی تعریف یوں ذکر کی گئی ہے۔

"کل اذی یصیب الانسان فیسب له خسارۃ مالية "[34]

"ہر وہ تکلیف جو انسان کو پہنچے اور وہ مالی خسارے کا سبب بنے۔"

علامہ کاسانی نے ضمان التعدی کی تین اقسام ذکر کی ہیں۔

1۔ ضمان التعدی علی النفس: ضمان کے بدلہ میں انسانی جان ہو جیسے قتل کا قصاص

2۔ ضمان التعدی فیما دون النفس: ضمان جان سے کم ہو

3۔ ضمان التعدی علی الاموال :ضمان مال کی صورت میں ہو[35]

ضمان کے اسباب:

عقد میں بد عہدی یا غلط بیانی:

عقد سے مراد کسی چیز کامعاہدہ ہے۔ عقد خرید و فروخت کا ہو یا کسی بھی قسم کا معاہدہ ہو۔اس معاہدہ میں جب خلل واقع ہوجائے تو اس صورت میں نقصان ہونے پر ضمان لازم ہوتا ہے۔

انسانی ہاتھوںکا تجاوز کرنا:

انسانی ہاتھ جب کسی چیز یاذات پر تجاوز کریں ۔جیسے چوری کرنا،ڈاکہ ڈالنا،قتل کرنا،اسی طرح امانت میں خیانت کرناوغیرہ۔

اتلاف (ضائع کرنا):

ضمان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ذریعے سے دوسرے کی چیز کو ضائع کردینا اوریہ نقصان کبھی جان بوجھ کر کیاجاتا ہے اور کبھی غلطی یا سستی کیوجہ سے بھی ہوجاتا ہے۔

نبی پاکﷺ نے متعدد احادیث مبارکہ میں لوگوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے اور کئی مواقع پر آپ نے نقصان کا ازالہ معاوضہ کی صورت میں ادا کیا ہے،جیسے:

"حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ کی بعض ازواج مطہرات کو ایک ثرید کا پیالہ بطور تحفہ دیاگیا۔تو وہ پیالہ حضرت عائشہ کے ہاتھ سے ٹوٹ گیا ۔جس پر نبی پاک اس گرے ہوئے کھانے کو اٹھا بھی رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ تمھاری ماں نے رسوا کردیا۔پھر آپ نے ہدیہ دینے والے کو نیاپیالہ بطور ضمان واپس کیا"[36]

حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

"علی الید ما اخذت حتی توديه"[37]

"ہاتھ نے جو بطور ظلم حاصل کیا اس پر ضمان کا ادا کرنا لازم ہے۔"

قاضی پر ضمان :

قاضی جب کوئی غلط فیصلہ صادر کرے اور اگر اس فیصلہ کی وجہ سے فریقین میں سے کسی کا نقصان ہو جائےتو کیا اس نقصان کا ازالہ کرنا ضروری ہے؟ اور اگر ضروری ہے تو کیا یہ نقصان قاضی پر ہے یا بیت المال سے دیا جائے گا؟ ۔شرعی دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نقصان کا قاضی یا حاکم وقت پر گناہ اس صورت میں نہیں ہے۔ جب قاضی /جج نےاجتھاد کے ساتھ فیصلہ کیا ہو۔کیونکہ قاضی کااجتھاد میں غلطی کرنا کوئی گناہ کاکام نہیں ہے۔نبی پاک نے ارشاد فرمایا:

"اذحکم الحاکم فاجتهد ثم اصاب فله اجران واذحکم فاجتهد ثم اخطاء فله اجر"[38]

"جب حاکم اجتھاد کرے اور اگر اس نے درست فیصلہ کیاتو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر غلط اجتھاد کیاتو اس کےلئے صرف ایک اجر ہے۔"* "حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایاکہ میں بھی بشر ہوں اور تم میری طرف جھگڑے لے کر آتے ہو۔شاید تم میں سے بعض اپنی چرب زبانی سے جھوٹے دلائل دے جنہیں میں سن کر فیصلہ کر دوں۔لہذا جو فیصلہ اس کے دوسرےبھائی کے خلاف کروں تو وہ اس کو لازم نہ سمجھے۔ بے شک وہ اپنے لئے دوزخ میں گھر بناتا ہے۔"[39]

  • "حضرت علی کی بارگاہ میں دو شخص آئے اور گواہی دی کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے۔ آپ نے ان کی گواہی پر ان میں سے ایک کاہاتھ کٹوا دیا ۔پھر ایک اور آدمی لایا گیا ۔انہی دو گواہوں نے کہا اصل چوری کرنے والا یہ شخص ہے اور ہم نے غلطی کے ساتھ پہلے شخص کےمتعلق گواہی دی تھی۔جس پر حضرت علی نے ان کی گواہی دوسرے آنے والے شخص کے خلاف قبول نہ کی۔ اور ان پر پہلے شخص کے ہاتھ کاٹنے کے ضمان کی ادائیگی کا حکم دیا۔ اور کہا کہ اگر میں جان لیتا کہ تم نے جان بوجھ کر گواہی دی تو میں تمھارے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔"[40]
  • "حضرت عمر نے ایک عورت کو زنا کی تھمت پراپنی عدالت میں طلب کیا ۔لیکن وہ حاملہ تھی۔ جب حضرت عمر بن خطاب کا پیغام اس عورت کو ملا تو وہ ڈ رگئی اور ڈر کی وجہ سے اس کا حمل ضائع ہوگیا ۔جس پر حضرت عمر نے اس مسئلہ کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔بعض صحابہ کرام نے کہا کہ آپ پر ضمان لازم نہیں ہے ۔کیونکہ آٌ پ نےتو صرف تفتیش کے لئے طلب کیا تھا۔ لیکن حضرت علی نے کہا کہ تجھ پر ضمان لازم ہے۔جس پر حضرت عمر نے کہا کہ میں نے تجھ پر بھروسہ کیا ہے۔لہذا آپ خوش رہو اور ضمان اپنی قوم میں تقسیم کردو۔"[41]

فقہ اسلامی میں قاضی پر ضمان لازم نہ ہونے کی شرائط:

قاضی اجتھاد کے ذریعے فیصلہ کرے۔

  1. قاضی نے جان بوجھ کر فیصلہ نہ کیا ہو۔
  2. قاضی نے کسی دلیل قطعی کی مخالفت میں فیصلہ نہ کیا ہو۔
  3. قاضی نے مقدمہ کی سماعت میں کوتاہی وغلطی نہ کی ہو۔[42]

اگر درج بالاشرائط کے تحت قاضی نے فیصلہ دیا ہو تو اس صورت میں قاضی پر کوئی ضمان لازم نہیں ہے۔

ائمہ اربعہ کا قاضی پر ضمان کے متعلق نظریہ:

قاضی پر غلط فیصلہ کے نتیجہ میں ضمان کے متعلق آئمہ اربعہ کا نقظہ نظر بھی ملاحظہ ہو:

فقہائے احناف کا مؤقف:

"قاضی جب اپنا فیصلہ صادر کرنے میں غلطی کرے۔ وہ یہ کہ فیصلہ صادرہونے کے بعد پتہ چلا کہ گواہ غلام یا قذف شدہ تھے۔ اس صورت میں قاضی سے ضمان تاوان نہیں لیاجائے گا۔کیونکہ قاضی نے اپنی ذات کےلئے فیصلہ نہیں کیا ہے ۔بلکہ دوسروں کی بھلائی کےلئے فیصلہ کیا ہے۔لھذا قاضی بمنزل شارع کے ہے اور شارع پر کوئی ضمان نہیں ہوتا۔

اس مسئلہ کی تفصیل یوں ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے یا حقوق اللہ سے ہے۔حقوق کی نوعیت کے مطابق ضمان کا فیصلہ کیا جائے گا ذیل میں حنفی نقظہ نظر ملاحظہ ہو:

حقوق العباد کے متعلق قاضی کا غلط فیصلہ:

اگر فیصلہ کا تعلق مالی حقوق العباد سے ہے تو وہ مال یا مال کی قیمت جس کے خلاف فیصلہ ہو اہے۔ اس کو واپس کی جائے گی۔کیونکہ غلط فیصلہ کیوجہ مال کا واپس کرنا ممکن ہے۔ اگر وہ چیز ضائع یا گم ہوگئی ہے تو مقضی لہ،جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے۔ اس کو واپس کرنے کا پابند ہے۔

حقوق اللہ کے متعلق قاضی کا غلط فیصلہ:

یہاں حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جن میں بندوں اور اللہ دونوں کا حق ہے اگر حقوق اللہ کے بارے میں فیصلہ میں غلطی ہوئی ہے۔ جیسے چوری کی سزا کا فیصلہ ،زنا کافیصلہ،تو احناف کے نقطہ نظر سے ان فیصلوں کے صادر ہونے کیوجہ سے نقصان کاضمان بیت المال سے پورا کیا جائے گا۔لہذا یہاں غلطی کاازالہ بھی عوام کی طرف سے پورا کیا جائے گا۔ضمان کانہ تو قاضی ذمہ دار ہوگا اور نہ ہی جلاد ہوگا۔"[43]مزید احناف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر قاضی نے جان بوجھ کر غلط فیصلہ کر کے ظلم کیا۔تو اس صورت میں حکم یہ ہے:

"وان کان القضاء بالجور عن عمد واقربه فالضمان فی ماله فی الوجوه کلها بالجناية والاتلاف ویعزر القاضی ویعزل عن القضاء۔"[44]

"اگر قاضی نے جان بوجھ کر ظلم کی نیت سے غلط فیصلہ کیا جس کا بعد میں اقرار بھی کیا۔ تو اس صورت میں تمام کا تمام ضمان قاضی کے مال سے دیا جائے گا۔قاضی کو معزول کر کے تعزیر بھی لگائی جائے گی۔"

مالکیہ کا مؤقف:

"بعض مالکیہ حضرات کا بھی مؤقف یہ ہے کہ اگر فیصلہ کے بعد قاضی کو معلوم ہوا کہ گواہ غلام یا کافر تھے تو اس صورت میں ابن قاسم کے نزدیک فیصلہ باطل ہوجائےگا ۔مگرامام سحنون فرماتے ہیں کہ فیصلہ باطل نہیں ہوگا کیونکہ یہ اجتھاد پر مبنی فیصلہ تھا۔اور اگر دو گواہوں میں سے ایک گواہ کی گواہی درست تھی مگر دوسرے کی صحیح نہیں تھی۔ تو اس صورت میں جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا ۔اس سے قسم لی جائے گی۔ اگر وہ قسم دےدے تو مال اس کو واپس کیاجائے گا۔مزید امام سحنون فرماتے ہیں کہ قسم لینے کے دو طریقے ہیں کہ ایک تو اس سے قسم لے سکتے ہو جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہے۔ دوسرا اس کے خاندان سے پچاس آدمیوں کی رقم لی جائے گی۔"[45]

مطلب یہ ہوا کہ مالکیہ حضرات کہتے ہیں کہ اس مقدمہ کی دوبارہ سماعت ہوگی ۔اور دوسرا فیصلہ قسم کی بنیاد پر ہوگا۔فیصلہ ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا ضمان لازم آتا ہے یا نہیں؟ ضمان کے لازم ہو نے کے بارے میں مالکیہ حضرات کے تین قول ہیں۔

قول اول:

نہ تو ضمان حاکم پر ہے اور نہ ہی محکوم علیہ پر ہے ۔کیونکہ اجتھاد میں غلطی کاامکان ہونے کی وجہ سے قاضی پر ضمان نہیں ہے ۔اور محکوم علیہ پر اس وجہ سے نہیں ہے کہ قصاص کی صورت میں اسے توکچھ ملا ہی نہیں اور اگر دیت تھی تو پھر محکوم علیہ واپس کر دے گا۔

قول دوم:

خلیفہ /قاضی کے عاقلہ ورثاءپر ضمان ہوگا۔

قول سوم:

یہ ضمان ہدرباطل ہے۔[46]

شافعیہ کا مؤقف:

شافعیہ کامؤقف یہ ہے کہ اگر گواہ غلام یاکافر یا بچہ ثابت ہو جائے تو فیصلہ کالعدم ہوجائے گا اور ضمان تاوان کا تعلق مشھود بہ کے ساتھ ہے۔مشھود بہ سے مراد جس چیز کی گواہی دی گئی ہو۔اگر مشہود بہ طلاق،عتق یا عقد ہے تو یہ فیصلہ واپس کالعدم ہو جائے گا۔ اور اس میں کسی قسم کا ضمان تاوان نہیں ہےاور اگر مشھود بہ قتل، ڈاکہ ،چوری یا حدود ہو تو ضمان قاضی کے عاقلہ ورثاءپر ہوگا۔اور اگر دیت تھی تو دیت واپس ہوجائے گی۔[47]شافعیہ کے نزدیک قاضی پر ضمان اس صورت میں لازم آئے گاجب قاضی نے مقدمہ کی سماعت میں کوئی کوتاہی کی ہو اور ضمان نہ تومشھود لہ پر ہوگا اور نہ ہی گواہوں پر ہوگا۔[48]

حنابلہ کا مؤقف:

حنابلہ کا مؤقف دیگر آئمہ کرام سےکچھ مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ فیصلہ کے بعد گواہان کی نوعیت کو دیکھا جائے گا ۔اگر گواہان تصدیق کرنے والے تھے تو لہذا ضمان تاوان بھی ان پر ہوگا جنہوں نے تصدیق کی تھی۔اور اگر تصدیق کرنے والا کوئی نہیں تھا تو پھر گواہوں میں اس بات کو دیکھا جائے گا کہ انہوں نے شھادۃ گواہی سے رجوع کیا ہے تو ضمان رجوع کرنے والے گواہوں پر ہوگا۔اور اگر رجوع نہیں کیا اور ان کی گواہی کفر،غلامیت یا فسق کی وجہ سے رد کی گئی ہے۔ تو پھر بھی ان پر ضمان نہیں ہوگا۔لیکن اس صورت میں ضمان کے متعلق د و قول ہیں ۔

اول:یہ کہ بیت المال سے دیا جائے گا۔

دوسرا:یہ کہ قاضی کے عاقلہ پر ضمان ہے۔[49]

آئمہ اربعہ کا مؤقف ذکر کرنے کے بعدمحقق اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ائمہ کے نزدیک جان بوجھ کر غلط فیصلہ دینےکی صورت میں ضمان لازم آتا ہے۔ ضمان کس پر واجب ہے اس بارے میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے۔ اور تمام آ ئمہ کرام کی تصریحات سے یہ بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر قاضی جان بوجھ کر یابدنیتی سے فیصلہ نہیں دیتا ہے تو اس صورت میں قاضی ذمہ دار نہیں ہوگا۔

قاضی پر ضمان لازم ہونے کی صورت:

فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اگر قاضی نےجان بوجھ کر اور غلط فیصلہ دینے کا اقرار کیا۔ یا قاضی کے خلاف گواہی ثابت ہوگئی تو اس صورت میں قاضی کو معزول کیاجائے گا اورتعزیرکے ساتھ ضمان بھی لازم آئے گا۔[50]

قاضی کو معزول کرنے کے اسباب:

صریح غلطی پر معزولی کاحکم:

"حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو قاضی بنایا۔ مقررہ قاضی نے ایک فیصلہ کیا ۔جس پر مدعی نے وہی فیصلہ حضرت عمر بن خطاب کی بارگاہ میں پیش کر دیااور مزید اس پر گواہ بھی پیش کردئیے ۔جس کے نتیجہ میں حضرت عمر نے قاضی کو حکم دیاکہ تم ایک دینار بطور ضمان مدعی کو دو۔اور ساتھ ساتھ اس قاضی کو معزول بھی کردیا۔"[51]

عدالت میں فضول گفتگو:

"جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بعض قاضیوں کو معزول کیا ۔ تب آپ سے وجہ پوچھی گئی کہ آپ نے کیوں ان کو معزول کیا ہے ؟ جس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہ لوگ خصمین سے زیادہ کمرہ عدالت میں گفتگو کرتےتھے ۔"[52]

انصاف فراہم کرنے کے بجائے قاضی کا ولی پر ظلم کرنا:

"اموی دور کے خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں یحیی بن میمون قاضی تھے۔ایک یتیم بچہ قاضی یحیی کی ولایت میں تھا۔ یتیم کے خاندان کے چند شرفاء نے یتیم کی کفالت کا مطالبہ کر دیا ۔قاضی نےیتیم بچہ ان کے حوالہ کر دیا۔ لیکن انہوں نے یتیم بچے کے ساتھ انصاف نہ کیا۔بچہ جب بڑا ہو گیا تو وہ قاضی یحیی کے پاس انصاف کی غرض سے حاضر ہوا۔ مگر قاضی یحیی نے کچھ نہ سنی۔ یتیم بچہ نے گواہ بھی پیش کئے مگر پھر بھی قاضی نے کوئی مددنہ کی۔یتیم بچے نے اشعار کی شکل میں قاضی کو انصاف فراہم نہ کرنے کی شکایت کی۔جس پر قاضی نے اس یتیم بچے کو جیل میں ڈال دیا۔اس بات کاعلم جب خلیفہ ھشام بن عبدالملک کو پتہ چلا۔تو انہوں نے قاضی کو معزول کر دیا اور یتیم بچے کو رہا کر دیا۔"[53]

فقہی قاعدہ کی پاکستانی قانون سے تطبیق کا جائزہ:

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت ججز صاحبان کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔انتظامیہ،سیاست دان،افواج پاکستان سب کے سب آئین کی رو سے عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ آئین پاکستان کی رو سے تمام عدالتیں فیصلہ کرنے میں خود مختار اور آزاد ہیں۔ پاکستانی قوانین کی روشنی میں ججز کو استثناء حاصل ہے۔ججز کو عدالتی فیصلہ جات کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کی پوچھ گچھ وغیرہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تعزیرات پاکستان کی روشنی میں جج ایک سرکاری ملازم ہے ۔لہذا جج بھی اگر اپنے فرائض منصبی میں غلطی کرے گا تو اسے تعزیرات پاکستان کے تحت سزا ہوسکتی ہے ۔ لیکن جج کو کچھ ایسے استثناءات حاصل ہیں جو کسی دوسرے سرکاری ملازم کو حاصل نہیں ہیں۔ بعض اوقات دوران سماعت جج سے کوئی ایسا فعل یا حکم صادر ہو سکتا ہے جس سے کسی شخص کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تعزیرات پاکستان کی رو سے جج کو قانونی طور پر یہ رعایت حاصل ہے کہ دوران سماعت اگر کوئی ایسا فعل سرزد ہوا ہے۔ جس سے کسی کا نقصان ہوا ہو تو جج سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔

“Act of judge when acting judicially: Nothing is a an offence which is done by a judge when acting judicially in the exercise of any power which is or which in good faith he believes to be given to him by law .”[54]

"جج کا فعل جبکہ وہ عدالت کی کاروائی کر رہا ہوکوئی امر جرم نہیں ہے۔ جب کوئی جج عدالت کی کاروائی کرتے وقت ایسا اختیار استعمال کرئے جو اس کو قانون کی رو سے حاصل ہے جسے وہ نیک نیتی سے باور کرے۔ وہ اختیار اسے قانون کی رو سے تفویض کیا گیا ہے کوئی امر جرم نہیں ہے۔"

تعزیرات پاکستان میں ججز کے لئے بطور خاص کوئی الگ قانون یا سزا موجود نہیں ہے۔البتہ اتنا ہے کہ جو سزائیں ایک سرکاری ملازم پر عائد ہوتی ہیں ۔اگر جج بھی ان جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو سزا مل سکتی ہے۔ کیونکہ جج بھی ایک سرکاری ملازم ہے۔تعزیرات پاکستان 1860ءمیں سرکاری ملازم کی تعریف یوں کی گئی ہے۔

“The word servant of state denotes all officers or servants continued, appointed or employed in Pakistan by or under the authority of the federal Government or any provincial government.”[55]

"کسی بھی صوبائی یا وفاقی حکومت کی کسی بھی اتھارٹی کی طرف سے کسی بھی عہدہ پر تقرری یا ملازمت کرنے والا شخص سرکاری ملازم ہے۔"

تعزیرات پاکستان 1860ء میں جج کی تعریف یوں کی گئی ہے۔

“Who is one of a body of persons, which body of person is empowered by law to give such a judgment” [56]

"جج سے مراد وہ فرد ہے جس کو قانون کے مطابق کسی مسئلہ کے متعلق فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہو۔"

مروجہ پاکستانی قوانین میں جج صاحبان سے متعلق تو کوئی باقاعدہ ایسی دفعات نہیں ہیں جس سے واضح ہو کہ اگر جج نے کسی فیصلہ میں جان بوجھ کر غلطی کی ہے ۔اور اس فیصلہ کی وجہ سے کسی کا نقصان ہوا ہے تو اس کا ازالہ جج یا حکومت کرے گی۔پاکستان میں غلط فیصلہ کرنے پر صرف یہی ہوتا ہے کہ اس فیصلہ کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ اس جج پر رشوت،کرپشن وغیرہ کے الزام کا کیس سپریم جویڈیشیل کونسل میں دائر کیا جاتا ہے۔سپریم عدالتی کونسل میں جج کے خلاف الزام ثابت ہونے پر سرکاری ملازم سے متعلقہ قوانین کے مطابق کاروائی کی جاتی ہے۔جیسے اگر کسی سرکاری ملازم نے بطور رشوت کسی سے ناجائز رقم یا معاوضہ طلب کیا تو اس کو تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

“Public servant taking gratification other than legal remuneration in respect to an official act”[57]

"سرکاری ملازم کا کسی کار منصبی سے متعلق جائزاجرت کے سوا ناجائز معاوضہ لے۔ تین سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی"۔

اسی طرح سرکاری ملازم بشمول جج کابلا معاوضہ کسی ایسے شخص سے قیمتی شئی حاصل کرنا جو اس کاروائی یا کاروبار سے متعلق ہو جو مذکورہ سرکاری ملازم نے سرانجام دیا ہو۔

“Taking gratification, in order by corrupt or illegal means to influence public servant۔”[58]

"تعزیرات پاکستان میں درج بالا قانون پر ایک تمثیل بھی پیش کی گئی ہےجو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی جج بھی کسی غلط کام کا ارادہ کرے تو اس کو سزا ملے گی تعزیرات پاکستان کی تمثیل ملاحظہ ہو۔ایک جج الف،ض سے جس کا مقدمہ الف کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سرکاری پرامسیری نوٹ کٹوتی پر خریدتا ہے۔ جبکہ وہ بازار میں نفع پر فروخت ہورہی ہو تو الف نے ض سے ایک قیمتی شئی بلا مناسب معاوضہ حاصل کی ہے۔"

جج صاحبان کے متعلق کوئی خاص قانون ایسا نہیں ہے کہ غلط فیصلہ کرنے پر جج پر کوئی دیت واجب ہوتی ہو۔لیکن جج سرکاری ملازم ہونے کے ناطے کسی شخص کو ضرر پہنچانے کی نیت سے قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔ تواس کو ایک سال سزا بلامشقت یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

“Whoever, being a public servant, knowingly disobeys any direction of the law as to the way in which he is to conduct himself as such public servant intending to cause, or knowing it to be likely that he will by such disobedience cause injury to an person, shall be punished with simple imprisonment for a term which may extend to one year, or with fine, or with both.”[59]

"جو بھی سرکاری ملازم نے علم کے باوجود قانون کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری ملازمت کی حیثیت سے نقصان پہنچایا یا کسی شخص کو جسمانی ضرر پہنچانے کی نیت سے قانون کی خلاف ورزی کرے تواس کو ایک سال سزا بلامشقت یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی ۔"

پاکستان کا عصری قانون جج پر ضمان واجب ہونے کے متعلق خاموش ہے۔ لیکن یہ خاموشی عملی طور پر نفی میں ہے۔لہذا فقہی قاعدہ "لاضمان علی القاضی اذا اخطاء مالم یکن متعمدا "کی مطابقت پائی گئی ہے۔

پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ اتنی اچھی نہیں ہے۔کئی مرتبہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں نے ججوں کو معزول کر کے نئے آئین کے مطابق حلف لینے پر مجبو رکیا ہے۔ پاکستان میں فوجی حکمرانوں نے ججوں کو نئے قانون کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور تو کیا جاتا ہے ۔مگر تاریخ پاکستان میں کئی جج صاحبان نے P.C.O کے تحت حلف اٹھانے سے انکا ر کر دیا تھا۔حال ہی میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو ایک صدارتی آرڈینینس جاری کیا جس کو provisional Constitution order کے نام سے یاد کیا ہے۔PCOکے تحت کچھ جج صاحبان نے حلف لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔مگر کچھ جج صاحبان حلف اٹھا لیتے ہیں۔[60]

پاکستانی آئین میں ججوں کی معزولی کا طریقہ کار:

پاکستانی آئین کے مطابق ایک اعلیٰ سطح پر عدالتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جو ججوں کے خلاف شکایات کی تحقیق کر کے سفارشات صدر پاکستان کو بھیجتا ہے۔اعلیٰ عدالتی کونسل درج ذیل ممبران پر مشتمل ہے۔

  1. چیف جسٹس آف پاکستان
  2. سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو سینئر جج
  3. ہائی کورٹ کے دو جج

اعلیٰ عدالتی کونسل درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر جج کے خلاف شکایات سن سکتی ہے۔

  1. جسمانی و دماغی معذوری کی شکایت:

“May be incapable of properly performing the duties of his office by reason of physical or mental incapacity or.”

"اگر جج کسی جسمانی یا ذہنی مرض کی وجہ سے ڈیوٹی سرانجام دینے سے قاصر ہو تو اس کو عہدہ سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔"

  1. بد عنوانی کا مرتکب:

b.“ May have been guilty of misconduct, the president shell direct the council to, or the council may, on its own motion, inquire into the matter.”[61]

"جج کسی بد عنوانی کا مرتکب ہو تو صدر پاکستان عدالتی کونسل کو تفتیش کی ہدایت یا عدالتی کونسل اپنی سطح پر انکوائری کر سکتی ہے۔ اعلیٰ عدالتی کونسل شکایات کی تحقیق کرنے کے بعد اپنی حتمی سفارش صدر پاکستان کو ارسال کرے گی۔اس سفارش کی روشنی میں صدر پاکستان جج کی معزولی کے آرڈر جاری کرے گا۔"

علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم جویڈیشل کونسل کی منظوری سے 2 ستمبر2009ء کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے جس میں ججوں کے لئے ذاتی مالی معاملات اور اختیارات کا بھی ذکر کیا گیاہے۔

1۔کاروبار سے احتراز:

“Adjudge must rigidly refrain from entering in to or continuing any Business dealing.”

"ایک جج کو سختی کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروباری معاملات سے پرہیز کرنا چاہیے۔"

2۔پرائیویٹ اداروں یا اشخاص کے ساتھ مالی تعلقات:

“A Judge must avoid incurring financial or other obligations or persons or such as may embarrass him in the Performance of his function”.[62]

"ایک جج کوپرائیویٹ اداروں یا اشخاص کے ساتھ مالی معاملات سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ مالی معاملات اس کی ڈیوٹی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔"

سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کرنے کا ادارہ تو موجود ہے۔ مگر سپریم جوڈیشل کونسل کے نتائج قابل تسلی بخش نہیں ہیں۔کئی کئی ماہ کونسل کا اجلاس تک طلب نہیں کیا جاتا ہے۔پھر عمومی طور پر کیسز کو لٹکایا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کئی ججز کے خلاف بھرپور ایکشن لیا ہے۔چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔

1۔ 1960ء میں جسٹس اخلاق حسین مغربی پاکستان میں ہائی کورٹ کے جج تھے۔جس پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا۔الزام تھا کہ وہ بیرون ملک سے بندوق لایا ہےاور اسے فروخت کر دی ہے۔جسٹس اخلاق نے مجبورا استعفی دے دیا۔[63]

2۔ غلط سفارش کی بنیاد پر 1980ء میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید صفدر شاہ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔الزام تھا کہ محمد احمد خان قتل کیس میں سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے شریک ملزم ایف ایس ایف کے سید عباس کی رہائی کے لئے سپریم کورٹ کے جج سے سفارش کی تھی۔سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کے بعد انہیں نوکری سے برخاست کیا گیا۔[64]

3۔ پشاور ہائی کورٹ نے بدعنوانی اور کرپشن کی بنیاد پر دو ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز فیض اللہ خان اور شاہد نسیم کو 22 اکتوبر 2010 ء کو کام سے روک دیا گیا۔[65]

4۔ حال ہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کے نتیجہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کو بھی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ایک عام پاکستانی کو آئین پاکستان کسی بھی قسم کے ایسے اختیارات نہیں عطا کرتا جس کی رو سے جج صاحبان سے کسی غلط فیصلہ کرنے کے بعد ان سے مدعی یا مدعا علیہ کے ہونے والے نقصان کا ازالہ مالی صورت میں وصول کیا جائے۔ لیکن عدالت سے باہر یا عدالتی کاروائی کے علاوہ اگر وہ کسی بھی قسم کا جرم کرتا ہے تو اس سے ایک پاکستانی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے پوچھ گچھ بھی ہو سکتی ہے۔جرم ثابت ہونے پر اسے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا مذکور فقہی قواعد پاکستان کے عصری قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ کیونکہ تمام جج صاحبان کسی دوسرے شخص کی بھلائی یا ریاست کے مفاد کے پیش نظر کسی کی زندگی کا ٖفیصلہ یا مالی امور میں تصرف کرنے یا روکنے کا حکم صادر کر سکتے ہیں۔ لیکن اپنی ذات کے لئے حکم نہیں دے سکتے ہیں۔

نتائج تحقیق:

1۔ فقہی قاعدہ " وَالْأَصْلُ عَدَمُ الضَّمَان " پاکستانی قانون سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔کیونکہ پاکستان میں ججز کے خلاف غلط فیصلہ کرنے پر جو فریقین میں سے کسی کا نقصان اگر ہوا ہے تو اس کا جرمانہ قاضی /جج پر نہیں ہے۔

2۔ دیگر فقہی قواعد میں سے ایک قاعدہ ”لاضمان علی القاضی اذا اخطاء مالم یکن متعمدا“ پاکستانی قوانین سے عدم مطابقت رکھتا ہے۔دیگر ضرر سے متعلق قواعد پاکستانی مروجہ قوانین سے کسی حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔

3۔ محقق کے نزدیک مسالک اربعہ کی آراءمیں سے حنفیہ کا قول راجح ہے کہ جان بوجھ کر اگر قاضی نے غلط فیصلہ کیا ہے تو اس پر ضمان ہونا چاہئے۔

4۔ پاکستان میں ججز پر الزامات کی تفتیش کے لئے ایک کونسل جو کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہے ۔وہ تفتیش کرتی ہے۔مگر عملی طور پرنتائج اچھے نہیں ہیں۔کیونکہ جج صاحبان اپنے ہی محکمہ کے لوگوں کے خلاف فیصلے کم ہی صادر کرتے ہیں۔

سفارشات:

1۔ پاکستانی قوانین کو اسلامائزیشن کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

2۔قواعد فقہیہ کو بطور مضمون ایل ایل بی،ایل ایل ایم، اور ایم فل پی ایچ ڈی کے نصاب میں شامل کیا جائے۔

3۔ قواعد فقہیہ کا علم ججز کے لئے لازمی قرار دیا جائےلہذا اس کے لئے عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. سورۃ البقرۃ: 194 Surah Al Baqarah: 194
  2. ابن ماجہ،محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ،بیروت،داراحیاءالکتب العربیہ،رقم 2340 Ibn e Majah, Muḥammad bin Yazeed, Sunan Ibn e Majah, (Beurit: Dār Iḥya al Kutub al ‘Arabiyyah, Ḥadith
    1. 2340.
  3. ابن منظور،محمد بن مکرم،لسان العرب،بیروت لبنان، باب قعد،دارصادر ،3/357 Ibn e Manẓuwr, Muḥammad bin Mukarram, Lisan al ‘Arab, (Beurit: Dār Ṣadir), 3:357
  4. ایضاً، ابن فارس،احمد،معجم مقایس اللغۃ ،بیروت ،دارالجیل ،1991ء،5:108 Ibid., Ibn Faris, Aḥmad, Mu’jam Maqayis al Lughah, (Beurit: Dār al Jiyal, 1991), 5:108
  5. سورۃ البقرہ:127 Surah Al Baqarah: 127
  6. سورۃ النحل:26 Surah Al Nahal: 26
  7. سورۃ القمر:55 Surah Al Qamar: 55
  8. سورۃ آل عمران:121 Surah Al e ‘Imran: 121
  9. علامہ سبکی کا پورا نام تاج الدین ابو النصر عبدالوھاب بن علی ہے۔اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے۔والد گرامی سے تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد امام ذہبی جیسے علماء سے علم فقہ حاصل کیا ہے۔سبکی کی تصنیفات میں سے الاشباہ والنطائر مشہور ہے۔(شیرازی،ابراہیم بن علی، متوفی476ھ ،طبقات الفقہاء، تحقیق خلیل المیس،بیروت ،دارالقلم ،س ن،ص275) Shirazi, Ibrahim bin ‘Ali, Tabaqat al Fuqaha’, (Beirut: Dār al Qalam), 275
  10. سبکی،عبدالوھاب بن علی،(متوفی 770ھ)،الاشاہ والنظائر ، تحقیق عادل احمد،بیروت ،دارالکتب العلمیہ، 2001ء،1/11 Subaki, ‘Abdul Wahhab bin ‘Ali, Al Ashbah wa al Naẓa’ir, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2001)
  11. سبکی،علی بن عبدالکافی،،الابہاج فی شرح المنھاج(تحقیق جماعۃ من العلماء) ، بیروت،دارالکتب العلمیہ،1404ھ،، 1:28 Subaki, ‘Ali bin ‘Abdul Kafi, al Ibhaj fi Sharḥ al Minhajm (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1404), 1:28
  12. ڈاکٹر علی احمد ندوی ہندوستان کے علاقہ گجرات میں 1953ء کو پیدا ہوئے ۔ندوۃالعلماء اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے تعلیم حاصل کی ہے ۔قواعد فقہیہ پر عصر حاضر میں عمدہ کام کیا ہے۔ابن سعود یونیورسٹی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ www.kfip.org/dr.ali.a.g.m.nadvi, retrived on 01-10-2017, 10 pm
  13. ندوی،علی بن احمد ،القواعد الفقہیہ مفہومہاونشا تہا،دمشق ،دارالقلم طبع پنجم،1420ھ/2000ء،ص 43 Nadvi, ‘Ali bin Aḥmad, al Qawaid al Fiqhiyyah: Mafhuwmuha wa Nash’atuha, (Damascus: Dār al Qalam , 5th Edition, 2000), 43
  14. سورۃ البقرۃ:185 Surah Al Baqarah: 185
  15. سبکی، الاشباہ والنظائر،1:126 Subaki, al Ashbah wa al Naẓa’ir, 1:126
  16. بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح ،مصر ،دارطوق النجاۃ ،رقم 7013 Bukhari, Muḥammad bin Isma’il, al Jama’ al Ṣaḥiḥ, (Egypt: Dār Towq al Najah), Ḥadith
    1. 7013
  17. نووی،ابو زکریا، یحیی بن شرف ،المنھاج شرح صحیح مسلم،بیروت،داراحیاء التراث العربی،1392ھ،13:170 Al Nowwi, Yaḥya bin Sharf, Al Minhaj, (Beirut: Dār Iḥya’ al Turath al ‘Arabi, 2nd Edition, 1392), 13:170
  18. ترمذی،محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی ،مصر،مکتبہ مصطفی البانی ،1975ء،رقم1341 Tirmadhi, Muḥammad bin ‘Eisa, Sunan al Tirmadhi, (Egypt: Maktabha Muṣṭafa al Babi, 1395/1975), Ḥadith
    1. 1341
  19. ابن منظور،لسان العرب،مادۃ قضاء،15:186 Ibn e Manẓuwr, Lisan al ‘Arab, 15:186
  20. مجلۃ الاحکام العدلیہ ،مادۃ 1785 Majallah al Aḥkam al ‘Adaliyyah,
    1. 1785
  21. ابن،نجیم،الاشباہ والنظائر،1:53 Ibn Nujaym, al Ashbah wa al Naẓa’ir, 1:53
  22. ابن ھمام ،کمال الدین محمد بن عبدالواحد،متوفیٰ861ھ،فتح القدیر،دارالفکر بیروت،7:482 Ibn Hummām, Kamal al Din Muḥammad bin ‘Abdul Waḥid, Fatḥ al Qadiyr, (Beirut: Dār al Fikr), 7:482
  23. زرقا، احمد بن شیخ،شرح القواعد الفقہیۃ،دمشق، دار القلم، 1989ء،1:201 Zarqā, Aḥmad bin Sheikh, Sharh al Qawa’id al Fiqhiyyah, (Damascus: Dār al (Beurit: Dar al Qalam, 1989), 1:207
  24. زرقا ،شرح القواعد الفقہیۃ،1:179 Zarqā, Sharh al Qawa’id al Fiqhiyyah, 1:179
  25. ایضاً، 1:195 Ibid., 1:195
  26. ابن منظور،لسان العرب،مادہ ضمان،13:258 Ibn e Manẓuwr, Lisan al ‘Arab, 13:258
  27. الحموی،غمز عیون البصائر،4:6 Al Ḥamawi, Ghamz ‘Uyuwn al Baṣa’ir, 4:6
  28. الشوکانی،محمد بن علی،نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار،دارالحیل بیروت لبنان،1973ء،66:41 Al Showkani, Muḥammad bin ‘Ali, Nayl al Awṭār Sharh Muntaqa al Akhbār, (Beirut: Dār al Ḥiyal, 1973), 6:41
  29. زحیلی،وھبہ،نظریۃالضمان او احکام المسئولیۃ المدنیۃ،دارالفکر بیروت طبع دوم،1998ء،ص:15 Zuḥayli, Wahbah, Naẓariyyah al ḍhaman aw Aḥkām al Mas’uliyyah al Madaniyyah, (Beirut: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1998), 15
  30. Salman & Heuston, Law of Tort, (London: Aweet and Maxwell, 1981), 11
  31. Chouhdrī, M.A, The LAW of tort, 1
  32. سرخسی، شمس الدین ابو بکر، المبسوط، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر،2000ء،27:122 Sarakhasi, Shamas al Din Abu Bakar, Al Mabsuwt, (Beirut: Dār al Fikr lil ṭaba’ah wal Nashar, 2000), 27:122
  33. The Concise Oxford Dictionary, (Oxford: Oxford University, 6th Edition), 391
  34. خفیف،استاد علی، الضمان فی الفقہ الاسلامی،قاہرہ، معہد البحوث واساسات عربیۃ، ص:46 Khafiyf, Ustaz ‘Ali, al Dhaman fil Fiqh al Islamī, (Cairo: Ma’had al Buḥuth wa Asasāt ‘Arabiyyah), 46
  35. کاسانی، ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت،دارالکتب العلمیۃ،1406ھ/1986ء،7:321-323 Al Kasani, Abu Bakar bin Mas’uwd, Bada’i al Ṣana’i fi Tartiyb al Shara’i, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1406/1986), 7:321-323
  36. بخاری،صحیح بخاری،کتاب النکاح،رقم4827 Al Bukhari, Ṣaḥiḥ al Bukhari, Ḥadith
    1. 4827
  37. الترمذی،سنن ترمذی،کتاب البیوع، رقم3561 Al Tirmadhi, Sunan al Tirmadhi, Ḥadith
    1. 3561
  38. بخاری،صحیح بخاری ،رقم 7352 Al Bukhari, Ṣaḥiḥ al Bukhari, Ḥadith
    1. 7352
  39. بخاری، صحیح بخاری،رقم 2458Al Bukhari, Ṣaḥiḥ al Bukhari, Ḥadith
    1. 2458
  40. صنعانی،ابو بکرعبدالرزاق بن ھمام،المصنف ،المکتب الاسلامی بیروت1403ھ،رقم 18461Al Ṣan’ani, Abu Bakar ‘Abdul Razzaq bin Humām, Al Muṣannaf, (Beirut: Al Maktab al Islami, 1403), Ḥadith
    1. 18461
  41. بیہقی،احمدبن حسین،السنن الکبرٰی،دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،2003ء،،رقم 11673Al Bayhaqi, Aḥmad bin Ḥusain, Al Sunan al Kubra, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2003), Ḥadith
    1. 11673
  42. بہوتی،منصور بن یونس، شرح منتھی الارادات،عالم الکتاب بیروت1996ء،3/536Al Bahuwti, Manṣuwr bin Yuwnas, Sharah Muntaha al Iradāt, (Beirut: ‘Alam al Kitāb, 1996), 3:536
  43. کاسانی ، بدائع الصنائع،7:16 Al Kasani, Bada’i al Ṣana’i, 7:16
  44. ابن عابدین،امین بن عمر، ردالمحتار علی الدرالمختار،دارالفکر بیروت1992ء،5:418 Ibn ‘Abidin, Muḥammad Amin bin ‘Umar, Radd al Muḥtār ‘Ala Al Durr al Mukhtār, (Beurit: Dar al Fikar, 1992), 5:418
  45. قرافی،احمد بن ادریس، الذخیرہ،دارالغرب الاسلامی بیروت 1994ء،10:142 Qarafi, Aḥmad bin Idrees, Al Dhakhirah, (Beirut: Dār al Gharb al Islami, 1994), 10:142
  46. قرافی،الذخیرہ،10:142 Qarafi, Al Dhakhirah, 10:142
  47. نووی،یحیی بن شرف ،روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتین،المکتب الاسلامی بیروت، 1991ء،11:308 Al Nowwi, Yaḥya bin Sharf, Rawḍa al ṭalibiyn wa ‘Umdah al Muftiyiyn, (Beirut: Al Maktab al Islami, 1991), 11:308
  48. نووی ،روضۃالطالبین،11:308 Al Nowwi, Rawḍa al ṭalibiyn, 11:308
  49. ابن قدامہ،عبداللہ بن احمد ،المغنی،مکتبہ قاہرہ، 1968ء،10:230 Ibn Qudamah, ‘Abdullah bin Aḥmad, Al Mughni, (Cairo: Maktabah, 1968), 10:230
  50. ابن فرحون،تبصرۃالحکام،1:70 Ibn Farḥuwn, Tabṣirah al Ḥukkām, 1:70
  51. وکیع،اخبار القضاء،مکتبۃ تجاریہ قاہرہ مصر،1947ء،1:8 Waki’, Akhbār al Qaḍa, (Egypt: Maktabah Tijariyyah, 1947), 1:8
  52. ابو الحدید،شرح نھج البلاغہ،مطبعہ البایی الحلی القاہرہ،1329ھ،4:133 Abu al Ḥadid, Sharh Nahj al Balaghah, (Egypt: Matba’h al Babiy al Ḥilli, 1329), 4:133
  53. الکندی،الولاۃو القضاۃ، بیروت،مطبعہ الیسوعین،1908ء، ص:341 Al Kandi, Al Wulah wal Quḍah, (Matba’h al Yasuw’in, 1908), 341
  54. مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860ء، باب4،دفعہ 77 The Pakistan Penal Code,1860, Chapter: 4, Rule: 77
  55. ایضاً، باب 2، دفعہ 14 Ibid., Chapter: 2, Rule:14
  56. ایضاً، باب 2، دفعہ 19 Ibid., Chapter: 2, Rule:19
  57. ایضاً، باب9،دفعہ 161 Ibid., Chapter: 9, Rule :161
  58. ایضاً، باب9،دفعہ 165 Ibid., Chapter: 9, Rule:165
  59. ایضاً، باب9، دفعہ 166 Ibid., Chapter: 9, Rule:166
  60. پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں درج ذیل PCOآرڈینینس جاری کئے گئے ہیں۔ (1)Provisional constitutional order 1981 by Zia ul Haq (2) Provisional constitutional order 1999 by Parvaiz Mushraf (3) Provisional constitution order 2007 by Parvaiz Mushraf جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے تحت درج ذیل جج صاحبان نے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ (1)چیف جسٹس سعید الزمان صدیقیPCO.1999(2)مومن علی قاضی۔جج۔سپریم کورٹ PCO.1999 (3)ناصر زاہد PCO.1999(4)کے آر خانPCO.1999(5)وجہیہ الدین احمد PCO.1999(6)کمال منصور عالم PCO.1999(7)منیر شیخPCO.1999(8) افتخار چوہدری چیف جسٹسPCO.2007(9)رانا بھگوان داس PCO.2007(10)جاوید اقبال PCO.2007(11)سردارمحمد رضاخان PCO.2007(12)خلیل الرحمان رمدے PCO.2007(13)فلک شیرPCO.2007(14)شاکر اللہ جانPCO.2007 (15)تصدق حسین گیلانی PCO. 2007 (16)ناصرالملکPCO.2007(17)راجہفیاضPCO.2007(18)چوہدری اعجازاحمدPCO.2007(19) سید جمشیدعلیPCO.2007(20)غلام ربانیPCO.2007(21)حامد علی مرزا PCO.2007۔ (En.wikipedia.org/provisional. Constitutional order 2007،dated2017-01-02)
  61. آئین پاکستان 1973ء،آرٹیکل ،209-a-b The Constitution of the Islamic Republic of Pakistan,1973, Article: 209, Clause: A-B
  62. Faqeer Hussian, Notification of Supreme Court of Pakistan, dated 2nd September, 2009, 17
  63. لودھی،ادریس،اسلامی ریاست میں قاضیوں کا احتساب،پشاور،پشاور اسلامک،جولائی-دسمبر 2012،جلد3،شمارہ 2،ص 26 Lodhi, Idrees, “Islami Riyasat me Qaḍiywn ka Iehtasāb,” Peshawar Islamicus, July-December, Vol.:3, Issue: 2, (2014): 26
  64. ایضاً Ibid.
  65. ایضاً Ibid.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...