Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

جلاٹین کے استحالہ کے فقہی احکامات |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060030498_715

Pages

1-8

DOI

10.36476/JIRS.1:1.06.2016.01

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/80/19

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/80

Subjects

Gelatin Collagen Istihala Gelatin Collagen Istihala

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

جدید دور کے تقاضوں اور بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی اشیاء کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ غذائی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے مختلف مصنوعی طریقوں سے غذائی اشیاء میں مختلف عناصر کااختلاط کیا جاتا ہے، تاکہ غذائی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی ایسی غذائی اشیاء نہ صرف بازاروں میں موجودہیں بلکہ ان کا عام استعمال مسلمان گھرانوں میں بھی کیا جا رہا ہے ۔ان چیزوں میں بیکری میں بننے والی غذائی اشیاء، آئس کریم، ٹافیاں،جیلی، دواؤں کے کیپسول وغیرہ ہیں جن کے تیاری میں جلاٹین کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جلاٹین کیا ہے؟

انسائیکلوپیڈیا "برٹانیکا" میں جلاٹین کا تعارف درج ذیل الفاظ میں بیان ہوا ہے:

“Gelatin, Animal protein substance having gel-forming properties, used primarily in food products and home cookery, also having various industrial uses. Derived from collagen, a protein found in animal skin and bone, it is extracted by boiling animal hides, skins, bones, and tissue after alkali or acid pretreatment. An easily digested, pure protein food, it is nutritionally an incomplete protein, deficient in certain amino acids. Unflavored, granulated gelatin, almost tasteless and odorless, ranges from faint yellow to amber in colour. Gelatin is also available as a finely ground mix with added sugar, flavouring, acids, and colouring. When stored in dry form, at room temperature, and in an airtight container, it remains stable for long periods”[1]

"جلاٹین حیوانی پروٹینی مادہ ہے جس کے اندر جیلی یعنی گاڑھا لیس دار مادہ بنانے کی خاصیت ہوتی ہے ، یہ ابتدائی طور پر غذائی مصنوعات اور گھروں میں بنائے ہوئے پکوانوں میں استعمال ہوتی ہے، اس کے صنعتی استعمال بھی ہے، جلاٹین، کولاجین Collagen سے حاصل کیا جاتا ہے ، کولاجین جانوروں کی کھال اور ہڈیوں میں پایا جانے والا قدرتی پروٹین ہوتا ہے، جسے جانوروں کی موٹی کھال، پتلی کھال، ہڈیوں، خلیوں اور نسوں کو الکلی Alkali یا تیزاب میں کافی وقت تک بھگونے اور پھر اس کو ابالنے کےبعد حاصل کیا جاتاہے، یہ بآسانی ہضم ہونےوالی خالصتاًپروٹینی غذا ہے، یہ غذائی طور پرنامکمل پروٹین ہوتی ہے جو کہ امینو ترشہ میں معمولی مقدار میں ہوتی ہے ۔دانوں کے شکل میں جلاٹین بےبو اور تقریبا بےذائقہ ہوتی ہے۔جلاٹین باریک سفوف کی شکل میں شکررنگ، ایسڈ اور خوشبو کے ساتھ بھی بازار میں ملتی ہے، جب اس کو خشک حالت میں کمرے کے درجہَ حرارت پر کسی ہوابند ڈبہ میں رکھا جائے تو عرصہ تک محفوظ رہ سکتی ہے "

جلاٹین کوئی قدرتی مادہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف جانوروں عموما ً گائے اور خنزیر کی ہڈیوں اور کھالوں میں پائے جانے والے پروٹین "کولاجین "سے حاصل کی جاتی ہے۔

“'Gelatin is a protein substance derived from collagen, a natural protein present in the tendons, ligaments, and tissues of mammals. It is produced by boiling the connective tissues, bones and skins of animals, usually cows and pigs[2]

"جیلاٹین ایک پروٹینی مادہ ہے جو کولاجین سے حاصل کیا جاتا ہے، یہ قدرتی پروٹین دودھ دینے والے جانوروں کے نسوں ، خلیوں میں پائی جاتی ہے ، یہ عام طور پر گائے اور سور کے ہڈیوں اور کھالوں کو اُبال کر حاصل کی جاتی ہے"

جلاٹین کے بنیادی عناصر میں خنزیر یا مردار جانوروں کی کھال، ہڈیاں، اور نسوں کے اجزاء ہوتے ہیں ، جنہیں کیمیائی عمل کے ذریعے صاف کرکے اور تبدیلی کے مراحل سے گزار کر نئے نام اور نئے اوصاف کے ساتھ ایک نیا مادہ بنا دیا جاتا ہے۔

جلاٹین کا استعمال

جلاٹین مختلف چیزوں میں استعمال ہوتی ہے ان میں جیلی سے بنی اشیاء قابل ذکر ہیں:

“As a foodstuff, gelatin is the basis for jellied desserts; used in the preservation of fruit and meat, and to make powdered milk, meringue, taffy, marshmallow, and fondant. It is also used to clarify beer and wine. Gelatin's industrial applications include medicine capsules, photographic plate coatings, and dying and tanning supplies” [3]

" جلاٹین عام طور جیلی سے بنے ہوئے مختلف کھانوں کی چیزوں میں استعمال ہوتی، یہ گوشت اور پھلوں کو محفوظ کرنے اور ملک پوڈر بنانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے جلاٹین انڈے سے بننے والی مٹھائیوں ، ٹافیوں اور بیکری میں استعمال ہوتی ہے، یہ شراب اور بیئر کو صاف کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے جلاٹین کا کارخانہ جاتی استعمال کیپسول بنانے، فوٹو گرافی کی پلیٹ کوٹنگز، اور خضاب بنانے میں ہوتی ہے "

جلاٹین کا استحالہ

جلاٹین کے متعلق چونکہ یہ ذکر ہو چکا ہے کہ جانوروں کے ہڈیوں اور کھالوں سےحاصل کی جاتی ہے، یہ جانور خنزیر اور دوسرے حرام جانور بھی ہو سکتے ہیں۔ جلاٹین کی تیاری میں ہڈیوں اور کھالوں کو کئی مراحل سے گزارا جاتا ہے، سب سے پہلے انہیں صاف کرکے لمبے عرصے کے لئے تیزاب میں رکھا جاتا ہے، پھر تیزاب سے نکال کر کچھ عرصہ چونا میں رکھتے ہیں ، پھر ان کو گرم پانی میں اُبالتے ہیں، پھر ٹھنڈا کرکے خشک کیاجاتا ہے ، پھر ان کو پیس کر ایک لیس دار مادہ حاصل کیا جاتا ہے ان تمام تبدیلیوں کے بعد ان میں سابقہ رنگ ، مزہ اور بو نہیں رہتا اور یہ ایک نئے اوصاف کی حامل ہو جاتی ہیں ، یعنی ان میں ماہیت کی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

جلاٹین کے متعلق فقہی احکامات

مولانا تقی عثمانی جلاٹین سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"إن كان العنصر المستخلص من الخنزير تستحيل ماهيته بعملية كيمياوية، بحيث تنقلب حقيقته تماما، زالت حرمته ونجاسته، وإن لم تنقلب حقيقته بقي على حرمته ونجاسته، لأن انقلاب الحقيقة مؤثر في زوال الطهارة والحرمة عند الحنفية"[4]

" احناف کے نزدیک اگر خنزیر کے اجزاء سے بنا ہوا عنصر کیمیائی تجزیہ سے اپنی پوری حقیقت بدل دے اور دوسری شکل اختیار کرلے تواس کی حرمت اور نجاست کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور اگر اس کی اصلی شکل اور حقیقت باقی رہ جائے تو نجاست و حرمت کا حکم بھی باقی رہےگا، اسلئے کہ طہارت و حرمت کے حکم کے بدل جانے میں حقیقت کا بدل جانا ہی اثرانداز ہوتا ہے "

مولانا مفتی جمیل احمد نذیری اپنے مقالہ "انقلاب ماہیت اور اس کے احکام " میں جلاٹین کے متعلق فرماتے ہیں :

" جلاٹین بے شمار خصوصیات کی حامل ہے یہ جیلی بنانے، کسی شئے کو گاڑھا کرنےاور اس کو جمانے اور ایکسرےفلم بنانے کے لئے اور اس کی شکل پذیری میں استعمال ہوتی ہے، اشیاء کو گاڑھا کرنے کے باعث جلاٹین مختلف چیزوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے:

  1. غذا {مٹھا ئیوں اور دودھ سے بننے والی اشیاء ،گوشت کی مصنوعات وغیرہ}
  2. دواؤں کی صنعت۔
  3. فوٹوگرافی

چونکہ جلاٹین کےعام استعمال کی وجہ سے اس کے استعمال سے شاید ہی کوئی بچ جائے اس لئے عموم بلوی ٰ کی وجہ سے اس کا استعمال جائز ہو سکتا ہے"[5]

دوسری جگہ پر فرماتے ہیں :

"ماہرین نے جلاٹین بنانے کے جو طریقے بتائے ہیں، اُن میں سے کسی ایک طریقے پر بھی انقلاب ماہیت اور استحالہ عین کی تعریف صادق نہیں آتی ہے کیونکہ ہر طریقے میں اصل مادہ برقرار رہتا ہے خواہ اس کو گوند کی شکل دی گئی ہو یا برادہ یا پاؤڈر کی کیونکہ یہ سب اسی چمڑے یا ہڈی کی ہی ہے، اس کے اوصاف بدلے ہیں ،حقیقت نہیں بدلی"[6]

لیکن بہرحال انقلاب ماہیت و استحالہ عین نہ ہونے کے باوجود جلاٹین کی بعض صورتوں کا استعمال جائز ہے اور بعض کانا جائز:

  1. خشک ہڈی جو خنزیر کی نہ ہو، خواہ کسی بھی مردار یا مذبوح جانور کی ہو اس کی جلاٹین استعمال کرنا جائز ہے"[7]
  2. "مذبوح جانور کی تر ہڈی اور اس کی کھال اور مردار جانور کی دباغت شدہ کھال کی جلاٹین استعمال کی جاسکتی ہے"[8]
  3. "ماکول اللحم جانور کی آنت کی جلاٹین استعمال کی جاسکتی ہے"[9]
  4. "خنزیر کی کھال اور اس کی خشک و تر ہڈی کی جلاٹین جائز نہیں، اسی طرح مردار جانور کی تر ہڈی اور غیر دباغت شدہ کھال اور اس کی آنت کی جلاٹین جائز نہیں ہے"[10]
  5. " کتے کی خشک و تر دونوں ہڈی سے بنی جلاٹین جائز نہیں ہے"[11]
  6. " فنی ماہرین کے ذریعے جو تحقیق سامنے آئی ہے اس کے مطابق جلاٹین بنانے کے عمل میں ان جانوروں کی کھالوں اور ہڈیوں کی حقیقت باقی نہیں رہتی، بلکہ ایک نئی شے اورنئی حقیقت بن جاتی ہے، اس لئے اس کے استعمال کی گنجائش ہے ، لیکن مولانا بدرالحسن قاسمی نے حرام جانوروں کے اجزائے جسم سے حاصل شدہ جلاٹین کے استعمال سے گریز کرنے کو ترجیح دی ہے"[12]

اسی طرح فتاوى اللجنۃ الدائمۃ میں مرقوم ہے:

"الجيلاتين إذا كان محضرا من شيء محرم كالخنزير أو بعض أجزائه كجلده وعظامه ونحوهما فهو حرام، قال تعالى: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ} وقد أجمع العلماء على أن شحم الخنزير داخل في التحريم، وإن لم يكن داخلا في تكوين الجيلاتين ومادته شيء من المحرمات فلا بأس به"[13]

"جلاٹین جب حرام چیزوں سے حاصل کی جائے جیسے خنزیر یا اس کے کچھ اجزاء سے جیسے اس کی جلد اور اس ہڈی وغیرہ تو وہ حرام ہے، اللہ تعالی کے قول کے مطابق {کہ حرام کیا گیا تم پر مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت} اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ خنزیر کی چکنائی حرام چیزوں میں داخل ہے، اور اگر وہ اور دوسرے حرام مادےجلاٹین کے بنانے میں داخل نہیں ہے تو جلاٹین کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے"۔

دوسری جگہ فتاوی یسئالونک میں نقل کیا گیا ہے :

" الجيلاتين المتكون من استحالة عظم الحيوان النجس وجلده وأوتاره: طاهر وأكله حلال"[14]

" استحالہ کے ذریعے نجس جانور کے ہڈی اور جلد سے بنی ہوئی جلاٹین پاک ہے اور اس کا کھانا حلال ہے"

ردالمحتارمیں اس کی صراحت کچھ اس طرح کی گئی ہے:

"(وَبَعْدَهُ) أَيْ الدَّبْغِ (يُبَاعُ) إلَّا جِلْدَ إنْسَانٍ وَخِنْزِيرٍ وَحَيَّةٍ (وَيُنْتَفَعُ بِهِ) لِطَهَارَتِهِ حِينَئِذٍ (لِغَيْرِ الْأَكْلِ) وَلَوْ جِلْدَ مَأْكُولٍ عَلَى الصَّحِيحِ سِرَاجٌ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ} [المائدة: 3]- وَهَذَا جُزْؤُهَا.وَفِي الْمَجْمَعِ: وَنُجِيزُ بَيْعَ الدُّهْنِ الْمُتَنَجِّسِ وَالِانْتِفَاعَ بِهِ فِي غَيْرِ الْأَكْلِ بِخِلَافِ الْوَدَكِ "[15]

"دباغت کے بعد مردار کی کھال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ پاک ہو جاتی ہے، لیکن کھانے کے علاوہ کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے اگرچہ ماکول اللحم مردار جانور ہی کی کھال ہو۔ صحیح مذہب یہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ تم پر مردار حرام کیا گیا ہے، اور یہ کھال اس مردار کا جزء ہے،مجمع میں ہے کہ ہم نجس تیل کو بیچنے اور کھانے کے علاوہ دوسرے کاموں میں اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں لیکن مردار کی چربی بیچنے اور فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے"۔

علامہ ابن عابدین اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"(قَوْلُهُ وَيُنْتَفَعُ بِهِ) أَيْ بِالْجِلْدِ بَعْدَ دَبْغِهِ (قَوْلُهُ وَلَوْ جِلْدَ مَأْكُولٍ عَلَى الصَّحِيحِ) وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَجُوزُ أَكْلُهُ؛ لِأَنَّهُ طَاهِرٌ كَجِلْدِ الشَّاةِ الْمُذَكَّاةِ، أَمَّا جِلْدُ غَيْرِ الْمَأْكُولِ كَالْحِمَارِ لَا يَجُوزُ أَكْلُهُ إجْمَاعًا؛ لِأَنَّ الدَّبْغَ فِيهِ لَيْسَ بِأَقْوَى مِنْ الذَّكَاةِ وَذَكَاتُهُ لَا تُبِيحُهُ فَكَذَا دَبْغُهُ"[16]

" یعنی جلدسے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانے کے قول کے بارے میں بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اگر جلد ماکول اللحم جانور کی ہے تو ٹھیک ہے اس کا کھانا جائز ہے اس لئے کہ یہ پاک ہے، اور غیر ماکول جانور کی جلد جو ہے جیسے گدھا تو بالاجماع دباغت کے بعد اس کاکھانا جائز نہیں، اس لئے کہ دباغت ، شرعی ذبیحہ سے زیادہ قوی نہیں، جب شرعی ذبیحہ اس کو مباح نہیں کرتا تو دباغت کیسے مباح کردے گی"

محمد بن ابراہیم بن عبداللہ موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں جلاٹین کے متعلق فرماتے ہیں:

"إن كان مصدر الجيلاتين من حيوان مأكول اللحم، مذكى ذكاة شرعية، أو من نبات غير ضار ولا سام، فهذا حلال، وما أضيف إليه حلال.الثانية: أن يكون مصدره من حيوان محرم الأكل كالميتة والخنزير، أو من حيوان مباح ولكنه غير مذكىً ذكاة شرعية، فهذا محرم الأكل، وإذا أضيف إلى الأطعمة حرمت؛ لاختلاط المباح بالمحرم".[17]

"اگرجلاٹین ماکول اللحم جانوراور شریعت کے مطابق مذبوح جانور کی ہو یا غیر مضر پودوں سے بنی ہو اور نہ سام کی ہو تو یہ حلال ہے اور جس چیز کی نسبت اس کی (جلاٹین) طرف ہو وہ بھی حلال ہے۔دوم یہ کہ اگر جلاٹین حرام جانور کی ہو جیسے کہ مردار اور خنزیر یا مباح جانور کی ہو لیکن شریعت کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو تو یہ کھانے میں حرام ہے اس لئے کہ مباح کا حرام کے ساتھ اختلاط کیا گیا ہے"

الفقہ المیسر میں جلاٹین کے حکم کے متعلق مذکور ہے:

"وقد نظر المجمع الفقهي التابع للرابطة بمكة المكرمة في موضوع الجيلاتين وأصدر فيه قراره الثالث في دورته المنعقدة بمكة المكرمة بتاريخ ۱۱/ ۷ / ۱۴۱۹ ھ، وقد جاء في ذلك القرار:

يجوز استعمال الجيلاتين المستخرج من المواد المباحة ومن الحيوانات المباحة المذكاة تذكية شرعية، ولا يجوز استخراجه من محرم كجلد الخنزير وعظامه وغيره من الحيوانات والمواد المحرمة" [18]

"مکہ مکرمہ کے فقہاء کے اجتماع نے ۱۱-۷-۱۴۱۹ ھ کو مکہ مکرمہ میں منعقدہ تیسرےاجلاس میں جلاٹین کے موضوع پر نظر ڈالی اور یہ قرارداد پاس کی ، اس قرارداد میں ہے کہ شرعی طریقے سے مذبوح مباح جانوروں سے نکالی گئی جلاٹین جائز ہے، اور حرام جانور جیسے خنزیر کی جلد و ہڈی وغیرہ اور دوسری حرام چیزوں سے نکالی گئی جلاٹین حرام ہے"

جلاٹین بنانے کے عمل کےمتعلق مولانا محمد ارشاد الحق القاسمی اپنے مقالہ " انقلاب ماہیت کے اسباب اور الکحل کی حقیقت" میں رقم طراز ہے :

"ہڈی کو صاف کرنے کے بعد اور کھال کو دباغت کے بعد تیزاب میں دس سے پندرہ دن تک رکھتے ہیں ، پھر چار سے آٹھ گھنٹے تک چونے میں رکھنے کے بعد گرم پانی میں ڈالنے کے بعد ٹھنڈے پانی میں رکھا جاتا ہے اور پھرپیس کرسفوف بنا دیا جاتا ہے۔ ان مراحل سے گزارنے کے بعد انقلاب ماہیت ہو ہی جاتاہے۔ اس انقلاب ماہیت کی دلیل میں یہ توجیحات پیش کی گئی ہیں :

الف: فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ کتے اور خنزیر کا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جانا ، انقلاب ماہیت ہے:

"لَوْ أُحْرِقَتْ الْعَذِرَةُ وَصَارَتْ رَمَادًا طَهُرَتْ لِلِاسْتِحَالَةِ، كَالْخَمْرِ إذَا تَخَلَّلَتْ، وَكَالْخِنْزِيرِ إذَا وَقَعَ فِي الْمَمْلَحَةِ وَصَارَ مِلْحًا [19]

"اگر گوبر جلایا جائے اور راکھ بن جائے تو استحالہ کی وجہ سے پاک ہوگی، جیسا کہ شراب جب سرکہ بن جائے اور خنزیر جب نمک کی کان میں گر جائے اورنمک بن جائے"

اب اس پر غور کرنے سےمعلوم ہوگا کہ جلاٹین بنانے کی صورت میں اس سے کم تبدیلی ماہیت کے اسباب اختیار ہوئے ہیں یا اس سے زائد۔

نمک کی کان میں صرف نمک کے ذریعے تبدیلی کا عمل ہوتا ہے جبکہ جلاٹین بنانے کے عمل میں تیزاب میں سڑانے، جلانے اور گلانے کی زیادہ طاقت ہے۔ لہٰذا جب نمک کی کان میں تبدیلی ماہیت ہو جاتی ہے تو تیزاب میں کیوں نہیں ؟

ب: فقہاء نے کہا ہے کہ کسی شئے کو جلا کر راکھ بنانے سے بھی انقلاب ماہیت ہو جاتی ہے جیسے:

" لو حرقت العذرة وصارت رمادا طهرت بالاستحالة[20]

یہاں تیزاب میں جلا کر اس کو سفوف بنادیا جاتا ہے جو کہ راکھ کی طرح ہو جاتاہے، تو اس لحاظ سے اس میں انقلاب ماہیت ہو جاتی ہے۔

اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے مفتیان کرام اور محققین و ماہرین کی تحقیق کے مطابق غذائی مصنوعات اور دواؤں میں خنزیر کے اجزاء سے بننے والے جلاٹین کے استعمال کی گنجائش ہے کیونکہ اس میں ماہیت تبدیل ہو کرایک نئی اور دوسری شے بن جاتی ہے۔

خلاصہ بحث

جلاٹین جانوروں کی جلد اور ہڈیوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے پروٹین " کولاجین" سے کیمیائی طریقے سے بنائی جاتی ہے جومختلف غذائی اور غیر غذائی مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے، جلاٹین چونکہ عام طور پر گائے اور خنزیر کی جلد میں پائے جانے والے کولاجین سے بنائی جاتی ہے، اس لئے اس کے حلال و حرام ہونے میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں ہونے والےتیسری فقہی اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ خنزیر کے اجزاء سے بننے والی جلاٹین حرام ہے، جب کہ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے مفتیان کرام اور محققین و ماہرین کی رائے ہے کہ ہر قسم کی جلاٹین حلال ہے کیوں کہ جلاٹین بنانے کا جو طریقہ کار ہے اس کے مطابق خنزیر یا کسی دوسرے نجس العین جانور کے اجزاء میں مکمل طور پر تبدیلی ماہیت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس پر حلال ہونے کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات

  1. مصادر و مراجع(Refrences) http://www.britannica.com/EBchecked/topic/227922/gelatin Accessed on septembe 15, 2015
  2. http://www.madehow.com/Volume-5/Gelatin.html Accessed on septembe 15, 2015
  3. http://www.madehow.com/Volume-5/Gelatin.html Accessed on septembe 15, 2015۔
  4. قاضي محمد تقي عثماني بن شیخ مفتی محمد شفيع، بحوث في قضايا فقهية معاصرة، باب اجوبۃ عن استفتاء المرکز الاسلامی بواشنطن، دمشق ،دار القلم ، الطبعة: الثانية، ۱۴۲۴ھ =۲۰۰۳ م، ج ۱، ص ۳۴۳۔
  5. مجاہد لاسلام قاسمی، مولانا، ، جدید فقہی مباحث، ج ۱۸ ، احکام شرعیہ میں تبدیلی حقیقت کے اثرات، مقالہ، مولانا مفتی جمیل احمد نذیری "انقلاب ماہیت اور اس کے احکام" ،ص ۱۸۲۔۱۸۳۔
  6. حوالہ سابق ، ص ۱۸۴۔
  7. ہدایہ ج ۳، ص ۵۵، باب بیع الفاسد بحوالہ مجاہد لاسلام قاسمی، مولانا، ، جدید فقہی مباحث، ج ۱۸ ، احکام شرعیہ میں تبدیلی حقیقت کے اثرات، مقالہ، مولانا مفتی جمیل احمد نذیری "انقلاب ماہیت اور اس کے احکام ،ص ۱۸۵۔
  8. جدید فقہی مباحث، ج ۱۸ ، احکام شرعیہ میں تبدیلی حقیقت کے اثرات، مقالہ مولانا مفتی جمیل احمد نذیری "انقلاب ماہیت اور اس کے احکام ،ص ۱۸۵۔
  9. ایضاً۔
  10. ایضاً
  11. حوالہ سابق ، ص ۱۸۶۔
  12. جدید فقہی مباحث، ج ۱۸ ، احکام شرعیہ میں تبدیلی حقیقت کے اثرات، ،ص۳۸ ۔
  13. اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الاولى، جمع وترتيب: أحمد بن عبد الرزاق الدويش، الرياض ، رئاسة إدارة البحوث العلمية والافتاء - الادارة العامة للطبع ، ج ۲۲، ص ۲۶۰ ۔
  14. ڈاکٹر حسام الدين بن موسى عفانۃ، فتاوى يسالونك،طبع اول،۱۴۲۷-۱۴۳۰ ، مكتبہ دنديس، الضفۃ الغربیۃ، فلسطين، ج ۵، ص ۲۶۳۔
  15. ابن عابدين، رد المحتار على الدر المختار، باب مطلب فی بیع دودۃ القرمز ، ج ۵، ص ۷۳۔
  16. ایضاً
  17. محمد بن إبراهيم بن عبد الله التويجري ،موسوعة الفقه الإسلامي ، بيت الافكار الدولية،طبع اول، ۱۴۳۰ ھ - ۲۰۰۹ م،ج ۴، ص ۳۲۹۔
  18. عَبد الله بن محمد الطيّار، عبد الله بن محمّد المطلق، محمَّد بن إبراهيم الموسَى الفِقهُ الميَسَّر، مَدَارُ الوَطن للنَّشر، الرياض - المملكة العربية السعودية،طبع اول ۱۴۳۲ھ- ،۲۰۱۱م،طبع دوم ۱۴۳۳ ھ - ۲۰۱۲ م، ج ۱۳، ص ۴۳۔
  19. ابن عابدین ،ردالمحتار، ج ۶، ص ۷۳۵۔
  20. زين الدين بن ابراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: ۹۷۰ھـ)، البحر الرائق ، دار الكتاب الإسلامي،طبع دوم، تاريخ ندارد،ج ۸، ص ۵۴۶۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...