Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

جنین کا عصری اور شرعی تناظر میں تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید:

الله تعالی نے انسان کوتمام مخلوقات ميں معظم ٹھہرایااورديگرتمام مخلوقات كواس كے تابع بنايا۔ارشادہے:

"هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا"[1]

"اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیےزمین میں موجودتمام چیزیں بنائیں"

انسانی نسل كی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام كی معجزانہ پيدائش سے ہوئی اور الله نے انسانی جسم ميں ہی اس كی بقاكے ليے كارخانہ وديعت كياہے،جس ميں نروماده كے ملاپ اور بارآوری كے بعدرحم مادرميں مختلف مراحل سے گزركر نئے بچے جنم ليتے ہيں۔ ارشادہے:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّاخَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى"[2]

"اے لوگوں ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیا"

قرآن کریم نے آدمؑ کے وجودمیں آنے کے ارتقاء پرواضح نصوص پیش کی ہیں اور اس کی تخلیق کے تمام مدارج کو بیان کردیاہے اوریہی مبدأ حیات ہے جس سے دنیامیں تمام انسانوں کی نسل پھیلی۔یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی جوموجودہ شکل وصورت ہے، پیدائش کے وقت اول انسان کی یہی صورت تھی، یہ کسی دوسرے حیوان کی ارتقاء کانتیجہ نہیں۔قرآن کہتاہے:

"وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُم"[3]

"اورتمہاری صورتیں بنائیں توکیاخوبصورت اوراچھی صورتیں بنائیں"

دوسری جگہ ارشادہے:

"ولَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيم"[4]

"اورہم نے انسان کوبہترین سانچے میں پیداکیا"

بنیادی تحقیقی سوال:

  1. اسلامی مواد خصوصاً قرآن وسنت میں "جنین" کا تذکرہ موجود ہے؟ اگر ہے تو کس طرح موجود ہے؟
  2. کیا جدید میڈیکل سائنس میں اس کا تذکرہ ہے؟ اگر ہے تو کس طرح ہے؟
  3. اسلامی ذرائع اور جدید میڈیکل سائنس میں "جنین" کے تذکرے میں کیا مماثلت اور کیا مخالفت موجود ہے؟

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ:

قرآن پاک انسانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مکمل اور آخری کتاب نازل کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے لیکن چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس میں جو بھی بات بتائی وہ اٹل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا کہ انسان کن کن مراحل سے گزرتا ہے۔ انسان کی بنیادی تخلیق مٹی سے ہے پھر یہ مراحل نطفہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد علقہ پھر مضغۃ۔[5] یہی مضمون صحیح بخاری کی روایت میں موجود ہے کہ رحم میں نطفہ پہنچنے کے بعد چالیس چالیس راتوں تک ایک ایک حالت میں موجود رہتا ہے اور یہ مراحل نطفہ سے شروع ہو کر انسان کی پیدائش تک رہتا ہے۔جدید میڈیکل سائنس بھی یہی باتیں بتاتی ہے۔ قرآن پاک یہ مراحل سورۃ الحج کی آیت 5 اور سورۃ المومنون کی آیت 12 میں ذکر کرتا ہے۔ اسی طرح پیدائش کے دیگر مراحل مختلف مقامات پر علیحدہ علیحدہ مذکور ہیں۔ جدید میڈیکل سائنسز میں سے ڈاکٹر نجیب الحق کی کتاب "علم تشریح الابدان" (Anatomy) جسے العلم پبلیکیشنز، پشاور، نے مارچ، 2018ء میں شائع کیا۔ اسی طرح ان انگریزی کتب نے بھی جنین کا تذکرہ کیا ہے۔

  1. Keith L. Moore, Arthur F. Dally, Anne M. R. Agur, Clinically Oriented Anatomy, (Philadelphia: Lippincot Williams & Wilkins, 8th Edition, 2014)
  2. T. W. Sadler, Langman’s Medical Embryology, (9th Edition)
  3. Brus M. Karslon, Human Embryology and Developmental Biology, 2009
  4. Scott F. Gilbert, Developmental Biology, (9th Edition)
  5. Hall. J. E., Guyton, A.C, Guyton and Hall Textbook and Medical Physiology, (Phidelphia, P. A.: Saunders /Elsevier, 2011)
  6. Victor Olu Taiwo, World Terrorism Diagnosis and Path to Global Peace, (2014)
  7. Haroon Yahya, The Quran Leads the Way to Science, (Singapore : Shafiq Trading PTE Ltd, 2002)
  8. Dr. P.Z. Myers, Islamic Embryology: Overblown Balderdash, (Pharyngula blog- Scienceblogs. com, 2011)
  9. Marshall Clagett, Greek Science in Antiquity,(New York: Abelard-Schuman, 1955)
  10. Dr Mark Hill, Timeline Human Development, (University of New South Wales)
  11. Benirschke, K. & Kaufmann, B., Pathology of the Human Placenta, (New York: Springer-Verlag, 4th Edition, 2000)
  12. Roberts Rugh, Landrum B. Shettles, From Conception to Birth, (New York: M.D. Harper & Row, 1971)

منہجِ تحقیق:

اس مضمون میں تحقیق کا یہ طریقہ کار اپنایا گیا ہے کہ تمام حوالہ جات (End Note) کی شکل میں دئیے جائیں گے۔ قرآنی آیات کے حوالہ جات دیتے وقت سب سے پہلے لفظ "سورۃ" لکھا جائے گا۔ اس کے بعد سورت کا نام، پھر دو نقطے لکھ کر آیت کا نمبر لکھا جائے گا۔ تمام آیات اور ان کے تراجم "" کے اندر لکھے جائیں گے۔

کتب حدیث کا حوالہ دیتے وقت سب سے پہلے مصنف کا مشہور نام لکھا جائے گا۔ اس کے بعد کنیت پھر اصل نام بمعہ ولدیت ونسبت لکھی جائے گی، پھر کتاب کا اصل نام، مکتبہ اشاعت، اور سن اشاعت لکھا جائے گا۔سنِ اشاعت معلوم نہ ہونے کی صورت میں "س۔ن" لکھا جائے گا۔ اس کے بعد جلد اور صفحہ نمبر لکھا جائے گا۔ دیگر کتب میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ تمام حوالہ جات اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی لکھے جائیں گے۔

لفظ جنین کی تحقیق:

جنین کامادہ "جنن"ہے۔لغت میں نظروں سے اوجھل اورپوشیدہ چیزکے لیے عموماًیہی مادہ استعمال ہوتاہے۔ علامہ ابن منظورافریقی لکھتے ہیں:

"الجنین الولد مادام في بطن أمه لاستتاره فیه وجمعه أجنة و أجنن"[6]

"جنین کااطلاق اس بچے پرہوتاہے جب تک وہ ماں کے پیٹ میں ہو،کیونکہ وہ اس میں پوشیدہ رہتاہے۔اور اس کی جمع "اجنۃ" اور "اجنن" آتی ہے۔"

وہ مزید لکھتے ہیں کہ قبرمیں رکھی ہوئی (لاش)کو "جنین" کہتے ہیں جب کہ "جنن" میت کو کہتے ہیں۔ صاحب معجم الوسیط نے لکھاہے کہ جنین قبر،پوشیدہ چیز اوراس بچے کوکہاجاتاہے،جب تک وہ رحم میں ہو،جب کہ اطباء کے ہاں آٹھویں ہفتے کے اختتام تک رحم میں حمل کے تخم(ثمرہ) کوجنین کہاجاتاہے،جبکہ اس کے بعداس کو حمل کانام دیاجاتاہے۔ [7]

جدیدعلم الجنین(Embryology) قرآن وحدیث کی روشنی میں:

علم الجنین، تشریح الابدان(Anatomy)کی ایک شاخ ہے جس میں نراورمادہ کے مادۂ تولید کے ملنے سے جوایک خلیہ(Zygote)بنتاہے،اس کے مطالعے سے ابتداء کرتے ہوئے جنین کی بناوٹ،اس کی نشو و نما کے مراحل، رحم مادرکے اندرپرورش کے دوران مختلف اوقات میں مختلف اعضاء کے بننے کاعمل اوران کی تکمیل،یہاں تک کہ بچہ کی پیدائش ہونے تک کے مراحل کوزیربحث لایا جاتاہے۔[8]

نزول قرآن سے قبل اس علم میں کوئی تحقیقی پیش رفت نہیں ہوئی تھی اورلگتایہی ہے کہ اس بارے میں زیادہ ترقیاس آرائیوں سے کام لیاجاتا تھا۔پھرقرآن کریم نے اس موضوع پرتفصیلی بحث کی اوررحم مادرکے اندر حمل کے ارتقائی مدارج کووضاحت کے ساتھ بیان کیااورموجودہ دورکی جدیدتحقیق کے مطابق وہ حرف بہ حرف درست ہیں۔ایک عرب محقق محمدنبیل الشوکانی نے لکھاہے کہ ارسطوکے دور(۳۸۴۔۔۔۳۲۲ ق م)سے لے کرنبی اکرم ﷺ پرنزول وحی تک یہی نظریہ تھاکہ جنین مردکے نطفے میں کامل الخلقت موجودرہتاہے لیکن اس کاجسم نہایت چھوٹاہوتاہے جس کی وجہ سے اس کودیکھانہیں جاسکتا۔پھرداخلِ رحم ہوکرنشو و نما پاتاہے جس طرح کہ بیج نموپاتاہے،اس کے بعدارسطونے اس نظریہ سے رجوع کرکے ایک نئے نظریہ کی بنیادڈالی جس کے مطابق جنین عورت کی ماہواری کے خون میں موجودرہتاہے ، پھرمردانہ قطرات اس کو گاڑھا کر دیتے ہیں۔[9]

قرآن پاک میں رحم مادرکے اندرپرورش پانے والے بچہ(جنین) کے مختلف مراحل پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔نزول قرآن سے پہلے علم الجنین انتہائی محدودتھا اورذرائع معلومات کی موجودہ سہولیات کااس وقت تصوربھی نہیں تھا۔قرآن نے جنین کے مدارج کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرکے علم جنینیات کی طرف راہنمائی کاایک نیاباب کھولا۔ارشادربانی ہے:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"[10]

"اورہم نے انسان کومٹی کے ست سے پیداکیا۔پھرہم نے اسے ٹپکی ہوئی بوندکی شکل میں ایک محفوظ جگہ پررکھا۔پھرہم نے اس بوندکو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اس جمے ہوئے خون کوایک لوتھڑابنادیا۔پھراس لوتھڑے کوہڈیوں کی شکل میں تبدیل کردیا۔پھرہڈیوں کوگوشت کالباس پہنایا،پھراسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کرکھڑاہوگیا۔غرض بڑی شان ہے اللہ کی جوسارے کاریگروں سے بڑھ کرکاریگرہے"

یہی بات جدید میڈیکل سائنس بھی کہتی ہے۔[11]

احادیث مبارکہ میں بھی تخلیق جنین کے مختلف مدارج پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اوراس بارے میں کثیراحادیث موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

"جب نطفہ رحم میں قرار پکڑ لیتا ہے توچالیس رات تک نطفہ رہتاہے، پھرچالیس راتوں میں علقہ بن جاتا ہے،پھرچالیس راتوں میں مضغہ بن جاتا ہے،پھر چالیس راتوں میں اس کی ہڈیاں بن جاتی ہیں ۔پھر اللہ تعالی ان ہڈیوں پر گوشت چڑھادیتے ہیں تو فرشتہ کہتا ہے کہ اے رب یہ نیک بخت ہوگا یابدبخت۔ تو اللہ تعالی فیصلہ (حکم) فرما دیتے ہیں اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے۔ (فرشتہ) پھرکہتا ہے کہ اے رب اس کا اجل (عمر کی مدت)کتنی ہوگی،رزق کتنا ہوگا اور عمل کیسا ہو گا، تو اللہ تعالی حکم فرماتے ہیں اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے ۔"[12]

نطفہ امشاج سے انسان کی پیدائش:

لغت میں نطفہ کئی معانی میں مستعمل ہے۔اس کااطلاق صاف پانی پربھی ہوتاہے،قطرہ پربھی،پیشانی سے ٹپکنے والے پسینہ کے قطرے پربھی اورمنی(مادۂ ولادت)پربھی۔[13])یہاں اس سے مرادمنی یعنی تولیدی جرثومے ہیں، چاہے مادہ کے ہوں یا نر کے(۔ارشادربانی ہے:

"خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِين"[14]

" اس نے انسان کو نطفے سے پیداکیا،پھردیکھتے ہی دیکھتے وہ کھلم کھلاجھگڑے پرآمادہ ہوگیا۔"

حیاتیات کی اصطلاح میں مردوزن کے نطفوں کے ملنے کوفرٹیلائزیشن یابارآوری کہتے ہیں۔اس عمل میں مردانہ تولیدی جرثومہ عورت کے بیضہ سے مل کراسے بارآور(Fertilized)کراتاہے جوبچہ بننے کاابتدائی مرحلہ ہے۔ارشادربّانی ہے:

"إنا خلقنا الإنسان من نطفة أمشاج"[15]

"بے شک ہم نے انسان کومخلوط نطفے سے بنایا۔"

اس آیت کے تحت علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"حدثنا عبد الله قال أخبرنا أبو جعفر عن الربیع بن انس قال: اذا اجتمع ماء الرجل وماء المرأة فهو امشاج"[16]

"جب مردوعورت کے نطفے باہم مل جائیں تو اس کوامشاج کہتے ہیں۔"

حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ لکھتے ہیں:

"جب آدمی کی منی عورت كی منی سے ملتی ہے اوراللہ تعالیٰ اس سے جنین بنانے کاارادہ رکھتاہوتواس کےلیے اسباب مہیا کر لیتے ہیں۔ عورت کے رحم میں دوقوتیں ہوتی ہیں،ایک قوت انبساط(پھیلنے کی صلاحیت)جومنی کے داخل ہونے کے وقت ہوتی ہے جس کی وجہ سے منی اس میں پھیل جاتی ہے۔دوسری قوت رحم میں انقباض(روکے رکھنے کی قوت)ہے کہ منی جب اندر چلی جاتی ہے تو باوجود اس کے کہ رحم الٹا ہے،اس سے باہرنہیں بہتی۔علاوہ ازیں آدمی کی منی میں"قوت فعلیت"جبکہ عورت کی منی میں "قوت انفعاليت"ہوتی ہے۔"

شیخ شمس الدین ابن القیمؒ نے ذکرکیاہے کہ رحم کاداخلی حصہ سفنج جیسا ( ملائم وجاذب )ہے اوراس میں منی قبول کرنے کی صلاحیت پیداکردی جاتی ہے، جس طرح کہ پیاسے کوپانی کی طلب رہتی ہے اوررحم اس كودھکیلتا نہیں بلکہ اسے ضم کردیتا ہے تاکہ اس میں فسادنہ آئے۔پھر اللہ تعالیٰ رحم کے فرشتے کواس کے بنانے اورپختہ کرنے کاحکم دیتے ہیں ،پھرچالیس دن میں اس کی خلقت جمع کی جاتی ہے۔[17]

بارآوری (Fertilization)کاعمل نالی کے وسیع حصہ میں، جوبیضہ دانی(Ovary)سے متصل ہے،عمل پذیرہو تا ہے۔نراورمادہ جنسی جرثومے تولیدی نالی میں زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔نرمادۂ تولیداندام نہانی کے راستے رحم (Uterus)کے اندرپہنچ جاتے ہیں اورپھرآخرکاربیضہ دانی کی نالیوں میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔سپرم کی حرکت بیضہ دانی کی نالیوں(Uterine Tube)کے عضلات(Muscles)کے سکڑنے اورپھیلنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔بارآوری کے عمل میں دوسو(200)سے تین سو(300)ملین تک نرتولیدی جرثومے اندام نہانی میں داخل ہوجاتے ہیں جن میں سے صرف تین سو سے پانچ سوتک بارآوری ہونے کے محل میں پہنچ جاتے ہیں لیکن اس عمل کی انجام دہی کے لیے صرف ایک سپرم کی ضرورت ہوتی ہے۔مادہ جنسی جرثومہ(انڈہ)کے اردگردخلیات کی ایک تہہ ہوتی ہے جس کو(Follicular Cells) کہا جاتا ہے، اس میں نرجنسی جرثومے خودکواندرونی طرف دھکیل دیتے ہیں۔اس مقام پر کئی سپرم بیضے کے اندرجانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں گویاان میں سے جوبھی سپرم کامیاب ہوکربیضہ کے اندرنفوذکرجائے تواس سے ایک خاص قسم کاخامرہ خارج کرتا ہے جس کو"لائسوسوم"کہتے ہیں جو بیضہ کی خصوصیات میں تبدیلی کاباعث بنتے ہیں۔بیضہ اورسپرم جب باہم ملتے ہیں توان کی جھلیاں باہم مدغم ہوجاتی ہیں،انسانوں میں سپرم کاسراوردُم دونوں بیضہ کے اندرونی مائع(Cytoplasm) میں داخل ہوجاتے ہیں،لیکن اس کی جھلی (Plasma Membrane)باہربیضہ کی سطح پررہ جاتی ہے۔[18]

حمل کا پہلا ہفتہ: پہلے ہفتے میں جنین کے مراحل کالب لباب یہ ہے کہ بارآورہونے کے بعدزائیگوٹ میں تقسیم کاعمل شروع ہوجاتا ہے،پھرنئے خلیے بنتے ہیں۔اس مرحلے کوبلاسٹولیشن کہتے ہیں۔پھرماں کے رحم میں قرارپانے کے لیے یہ رحم مادرکے اندرونی حصہ کوچیرکرمحفوظ ہوجاتاہے۔بلاسٹولاکے مرحلے میں خلیوں کے گردایک باریک تہہ ہوتی ہے جس کوٹروفوبلاسٹ کہتے ہیں ،یہ حمل کے استقرارمیں مدددیتی ہے۔بعدمیں اس تہہ سے ایک جھلی بن جاتی ہے جس کو کاریان(Chorion) سے موسوم کرتے ہیں۔قرآن کریم میں رحم میں محفوظ ہونے کے اس مرحلے کی تصویرکشی یوں کی گئی ہے:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ"[19]

"اورالبتہ ہم نے انسان کومٹی کے خلاصہ سے پیداکیا،پھرہم نے اسے حفاظت کی جگہ میں نطفہ بناکررکھا"

حمل کادوسراہفتہ:دوسرے ہفتے میں خلیوں کی تین تہہ(Layers) بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس مرحلہ کو (Gastrulaion) سے موسوم کرتے ہیں۔ اس مرحلہ میں تین تہہ(Layers)، بیرونی تہہ(Endoderm)، درمیانی تہہ(Mesoderm)اور اندرونی تہہ(Endoderm)بن جاتی ہیں۔بیرونی تہہ سے چمڑا(Skin)اوراعصابی نظام(Nervous System) بنتے ہیں۔درمیانی تہہ سے بافتیں (Muscles)اوردوسرے اندرونی اعضاء بنتے ہیں۔[20]

حمل کا تیسرا ہفتہ: جدیدتحقیق کے مطابق تیسرے ہفتے میں دواہم اعضاء کابنناشروع ہو جاتے ہیں۔ پہلا اعصابی نظام ظاہرہوجاتاہے اور پھر بعد میں دل بننا شروع ہوجاتاہے جوکہ چوتھے ہفتے میں داخل ہوجاتا ہے۔سب سے پہلے دل کی صرف دونالیاں بنتی ہیں۔یہ دونالیاں جب مکمل ہوجاتی ہیں تو دل دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چھٹے ہفتے تک دل، اعصابی نظام، خون کی نالیاں اور آنول Umbilical Cord)) بن جاتی ہیں۔آنول ماں اوربچے کے درمیان غذائی مواداورفاضل مادوں کے تبادلےکاایک منظم ذریعہ ہے۔چالیسویں دن تک جنین کے کان،ناک اورآنکھوں کے نشانات واضح ہوجاتے ہیں۔جنین کی لمبائی 8ملی میٹرہوتی ہے اوراس کادل فی منٹ 100سے 130 مرتبہ دھڑکتا ہے، مزیدبرآں اس کی دماغ کی لہریں بھی نظرآتی ہیں۔[21]

علامہ ابن حجرعسقلانی نے لکھاہے:

"وہ(اطباء)کہتے ہیں کہ جب منی رحم میں چلی جاتی ہے اوروہ(رحم)اس کوباہرپھینک نہ دے تویہ(نطفہ) اپنے آپ سے دائرہ بنالیتی ہے اورسخت ہوجاتی ہے۔چھ دن کے اختتام تک پھراس میں دل،دماغ اورجگرکی جگہوں میں تین نقطے ظاہرہوجاتے ہیں۔ اگلےتین دن کے اختتام تک اس میں رگیں(خون)نفوذکرجاتی ہیں اورتینوں اعضاء متحیزہوجاتے ہیں۔پھراگلے بارہ دنوں کے اختتام تک مغزکی رطو بت میں امتداد آ جاتا ہے جس سے اگلے نو (۹) دنوں میں دونوں شانوں سے سر جدا ہو جاتا ہے اور اسی طرح پسلیاں، بطن وغیرہ بھی متمیزہوجاتے ہیں۔ اگلے چاردنوں میں یہ تمیزات مکمل ہوجاتی ہیں اور نبی اکرم ﷺ کے اس قول "یجمع خلقه في أربعین یوما" ( چالیس دنوں میں اس کی خلقت جمع کی جاتی ہے) کا یہی مطلب ہے۔[22]

جنس کے تعین میں مردکے نطفے کاکردار:

علم الجنین کی جدیدتحقیقات سے ثابت ہوچکاہے کہ جنس کے تعین کاتمام تردارومدارمردکے نطفہ پرہوتاہے کیونکہ اس میں دوقسم کے کروموسوم ہوتے ہیں "X" اور"Y"۔ اس میں اہم "Y"کروموسوم ہے جونرجنس میں باپ کی طرف سے آتا ہے۔مادہ جنس کا تعین "X"کروموسومز سے ہوتا ہے۔عورت کے نطفہ میں دونوں کروموسومز "X" ہی ہوتے ہیں۔ اگرمردکی طرف سے "X"کروموسوم آگے ہوجائے توپھرجنسی کروموسومزکامجموعہ "XX"ہوجاتاہے جو مادہ کا تعین کرتا ہے یعنی پیدا ہونے والا جنین لڑکی ہوگی اور اگر مرد کے نطفے سے "Y" کروموسوم سبقت کر لے تو پھر بچہ"نر"ہوگا۔[23]

اس تکنیک کی طرف حدیث میں بھی اشارہ ہواہے:

"حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس کھڑاتھا۔ نبی اکرمﷺنے فرمایاکہ آدمی کاپانی سفیدہوتاہے اورعورت کاپانی زرد(رنگ)کاہوتاہے۔جب یہ دونوں جمع ہوجائیں اورعورت کی منی پرآدمی کی منی چڑھ جائے (غالب آجائے)تو اللہ تعالی کے حکم سے مذکر (نربن جاتاہے) اور جب عورت کی منی آدمی کی منی پرغالب آجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مؤنث بن جاتی ہے۔یہودی نے کہاکہ آپ ﷺ نے سچ فرمایا اورآپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں۔"[24]

دیگراحادیث میں اس تکنیک کے متعلق دوقسم کے الفاظ واردہیں ایک "سبق" اور دوسرا "علو"۔ جس حدیث میں "سبق" کا لفظ آیاہے اس سے مراد یہ ہے کہ مردانہ نطفہ کے سبقت کی صورت میں لڑکاپیداہوگاجبکہ زنانہ نطفہ کے سبقت کی صورت میں لڑکی پیدا ہوگی ۔[25]

الحاصل مردانہ نطفہ"Y"کروموسوم کی سبقت کے نتیجے میں لڑکا جب کہ زنانہ نطفہ یعنی "X" کروموسوم کی سبقت کے نتیجے میں لڑکی پیداہوگی۔ جب کہ "علو" کامطلب یہ ہے کہ جس کانطفہ غالب آئے بچہ کی شکل وصورت اس جیسی ہوگی۔واللہ اعلم

علقہ کے مرحلےمیں جنین کی ہفتہ وارنشو و نما کی تحقیق:

ارشادربانی ہے:

"اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق"[26]

"اپنے پروردگارکے نام سے پڑھیئے جس نے ہرچیزکوپیداکیا(اور)انسان کو(جمے ہوئے)خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔"

اس آیت میں لفظ "علق" استعمال ہواہے جس کا معنی ہے،جمے ہوئے خون کالوتھڑا،یاخون چوسنے والی چیزیعنی جونک (Leech)۔اس آیت اوراس کے متعلقہ دوسری آیات پرپروفیسرکیتھ مورنے تحقیق کی اورکہاکہ قرآن اوراحادیث کی بیان کردہ معلومات کازیادہ ترحصہ جدیدسائنسی معلومات کے عین مطابق ہے اوراس میں بالکل کوئی تضادنہیں پایاجاتا۔ "علقہ"کے مرحلے کے دوران انسانی جنین جونک کے مشابہ ہوتاہے، کیونکہ اس مرحلہ میں انسانی جنین اپنی خوراک ماں کے خون سے حاصل کرتاہے۔[27]

امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:

" "العلق" کے معنی کسی چیزمیں پھنس جانے کے ہیں، کہاجاتاہے: "علق الصید في الحبالة" یعنی شکار جال میں پھنس گیا۔ "العلق"(جونک)ایک قسم کاکیڑاجوحلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتاہے،نیزجمے ہوئے خون اورلوتھڑے کی قسم کے خون کو "علقة" کہاجاتاہے جس سے بچہ بنتاہے۔اور "العِلق" (عین کے کسرہ کے ساتھ)اس عمدہ چیزکوکہا جاتاہے جس کے ساتھ مالک کادل چمٹاہواہواوراس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو۔[28]

درج بالامعانی پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ علقہ وہ چیزہے جومضبوطی کے ساتھ کسی چیزسے چمٹی ہوئی ہواورجنین بھی علقہ کے مرحلے میں رحم مادرکے ساتھ چمٹاہواہوتاہے اوربالکل ایک جونک کی طرح وہ رحم مادر سے خون حاصل کرتا ہے۔حمل کا تیسرا مرحلہ چالیس دن سے اسی دن تک ہوتاہے اس میں جنین 12 ملی میٹرسے بڑھ کر6سنٹی میٹرتک نشو و نما پاتاہے۔اس چلے میں مختلف اعضاء پھیپھڑے،سانس کی نالی،انگلیوں کے ناخن،دانت نکلنے کی جگہیں وغیرہ بن جاتے ہیں۔جنین کا سر اس مرحلے کی ابتداء میں بہت بڑا ہوتا ہے لیکن اختتام تک سائزمیں چھوٹا ہو جاتا ہے۔ الغرض اس مرحلے کے اختتام تک تمام اعضاء تقریباً مکمل ہو چکے ہوتے ہیں،وہ پیشاب بھی کر سکتا ہے،لات بھی مار سکتا ہے اور انگوٹھا بھی چوس سکتاہے۔[29]

مغضہ غیرمخلقہ کامرحلہ:

رحم مادرمیں انسان کی خلقت کاتیسرامرحلہ مغضہ غیرمخلقہ ہے۔ارشادربانی ہے:

"فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا"[30]

"پھراس جمے ہوئے خون کوایک لوتھڑابنادیا۔پھراس لوتھڑے کوہڈیوں کی شکل میں تبدیل کردیا،پھرہم نے ہڈیوں پرگوشت پہنایا۔"

علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:

"ثم من مضغة وهي لحمة قلیلة قدر ما یمضغ"

"مضغۃ: گوشت کا وہ ٹکڑا جو چبایا جا سکتا ہو"[31]

اسی طرح ارشادربانی ہے:

"ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى"[32]

"اورپھر(ہم نے تم کو)ایک گوشت کے لوتھڑے (سے بنایا)جو(کبھی) پورابن جاتاہے اورکبھی پورانہیں بنتا،تاکہ ہم تمہارے لیے (تمہاری) حقیقت کھول کربتادیں۔اورہم (تمہیں)ماؤں کے پیٹ میں جب تک چاہتے ہیں ،ایک معین مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔"

علامہ قرطبیؒ اس آیت کے تحت مضغہ غیرمخلقہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"اس آیت میں بطن مادرکے اندرانسان کی تخلیق کے مختلف درجات کابیان ہے۔اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے،جوحضرت عبداللہ ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اوروہ سچ بولنے والے اورسچے سمجھے جانے والے ہیں کہ انسان کامادہ چالیس روزتک رحم میں جمع رہتاہے،پھرچالیس دن کے بعدعلقہ یعنی منجمدخون بن جاتاہے ،پھر چالیس ہی دن میں وہ مضغہ یعنی گوشت بن جاتاہے۔اس کے بعداللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیجا جاتاہے جواس میں روح پھونک دیتاہے اوراس کے متعلق چارباتیں اسی وقت فرشتہ کو لکھوا دی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ اس کی عمرکتنی ہے، دوسری رزق کتناہے،تیسری عمل کیاکرے گا، چوتھی یہ کہ یہ شقی و بدبخت ہو گا یا سعید۔"[33]

مفتی شفیعؒ نے لکھاہے کہ حدیث مذکورسے ان دونوں کی تفسیریہ معلوم ہوئی کہ جس نطفۂ انسانی کاپیداہونامقدرہوتا ہے وہ مخلقہ ہے اورجس کاضائع اورساقط ہوجانامقدرہے وہ غیرمخلقہ ہے۔اوربعض حضرات مفسرین مخلقہ اورغیرمخلقہ کی تفسیریہ کرتے ہیں کہ جس بچے کی تخلیق مکمل اورتام ہو،اعضاء صحیح سالم اورمتناسب ہوں وہ مخلقہ ہے اورجس کے بعض اعضاء ناقص ہوں یاقداوررنگ وغیرہ غیرمتناسب ہووہ غیرمخلقہ ہے۔[34]

شیخ ابومنصورالماتریدیؒ لکھتے ہیں:

"قال بعضهم: "مخلقة" ای "مخلوقا خلقا" و "غیر مخلقة" ای "غیر تامة خلقا" ...... ای غیر تامة خلقاً، بل ناقصة"[35]

بعض کہتے ہیں کہ "مخلقة" کا مطلب ،جس میں خلقت پیداکی گئی ہواورغیرمخلقہ کامطلب جس کی صورت مکمل نہ ہوئی ہوبلکہ اسی حال پرنطفہ ہو،جبکہ بعض کے ہاں "مخلقة" کامعنی مکمل اور "غیر مخلقة" کا، خلقت کے اعتبار سے نامکمل۔۔۔تو "مخلقة" کا مطلب ہوگا "جس کی تخلیق جوارح واعضاء کے اعتبارسے مکمل ہو چکی ہو" اور "غیر مخلقة" نامکمل اورناقص۔"

الحاصل مضغہ غیرمخلقہ وہ مرحلہ ہے جس میں بچے کی تخلیق مکمل نہیں ہوتی اورتمام تفسیری اقوال کومدنظررکھ کر یہی نتیجہ نکلتاہے کہ اسی(80)دنوں سے پہلے پہلے جب بچہ کے تمام اعضاء مکمل نہ ہوئے ہوں مضغہ غیرمخلقہ میں داخل ہے۔پس اسی(80)دنوں کے اختتام کے بعد "مضغہ"کے مرحلے کی تکمیل ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ عیب داربچہ کوبھی مضغہ غیرمخلقہ کے تحت شمارکیاگیاہے۔

قرآنی آیات،تفاسیر اوراحادیث پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ مضغہ غیرمخلقہ کامرحلہ علقہ اورمغضہ مخلقہ کے درمیانی عرصہ پرمحیط مرحلہ ہے جو چالیس دن سے شروع ہوکردوسرے چلے یعنی اسی(80)دن تک رہتا ہے اور دوسرے چلے کے اختتام پرمضغہ مخلقہ بن جاتاہے۔واللہ اعلم وعلمہ اتم واکمل۔

مغضہ مخلقہ کامرحلہ:

مضغہ مخلقہ تخلیق کے مراحل کاچوتھامرحلہ ہے۔مضغہ کی بعض تفصیلات توگزشتہ سطور میں بیان ہوچکی ہیں۔ ذیل میں اس پر مزیدروشنی ڈالی جائے گی۔ علامہ راغب اصفہانیؒ (المتوفی:۴۴۵ھ) لکھتے ہیں:

" مضغہ گوشت کے چھوٹے سے ٹکڑے کوکہاجاتاہے جوچبانے کے لیے منہ میں ڈالا جاسکے۔ شاعر (زہیر) کے شعر کا اک مصرعہ ہے: "یلجلج مضغة فیها انیض" یعنی وہ گویانیم پختہ گوشت کی بوٹی کو منہ میں پھیراتاہے۔پھرجنین کی وہ حالت جو علقہ کے بعد ہوتی ہے، مضغہ کہلاتی ہے۔ "الماضغة" چبانے سے جو آخرکار منہ میں باقی رہ جائے۔[36]

علامہ ابن حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں:

"اورمضغہ گوشت کا ٹکڑاہوتاہے اوراس کواس وجہ سے کہاجاتاہے کہ (یہ جسامت میں اتنا ہوتا ہے) جتنا کہ کھانے والا(نوالہ)کو چباتا ہے۔[37]

تیسرے چلے کاآغاز80دن کے بعدہوتاہے اور120دن تک جاری رہتاہے۔اس مرحلے میں جنین 8 سنٹی میٹرسے 18سنٹی میٹرتک نشو و نما پاتاہے۔وہ حرکت کرتاہے لیکن وہ اتناچھوٹاہوتاہے کہ حاملہ اس کی حرکت محسوس نہیں کرتی۔وہ ناف کی ڈوری کے ذریعے آکسیجن لے کرسانس لیتاہے۔اس کی ہڈیاں سخت ہورہی ہیں اورجلدپربال نکلنے لگتے ہیں۔اس مرحلے میں حاملہ کادل 40 سے50 گنازیادہ کام کرتاہے۔[38]

روح کے اقسام ،جنینی نشو و نما اور روح کا آنا:

چارماہ (120)دن میں مضغہ مخلقہ تکمیل کوپہنچ جاتا ہے ،بچہ جسامت میں بھی کافی حدتک بڑاہوتاہے ،اعضاء بھی مکمل ہوتے ہیں اوروہ مکمل طورپرحرکت کرنے کے قابل بھی ہوتاہے اورتمام اعضاء بھی کام کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔علامہ ابن حجرعسقلانیؒ فرماتے ہیں:

"اطباء کہتے ہیں کہ اسی(80)دن کی مدت میں جنین میں حرکت آجاتی ہے،پھراس طرح مضغہ بن جاتاہے یعنی چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا اور یہ تیسرے چلے میں ہوا کرتا ہے جوحرکت کرتی ہے۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنین میں روح چوتھے مہینے میں پڑجاتی ہے، اس سے قبل نہیں۔"[39]

تفسیر قرطبی میں ہے:

"وفي الصحیح عن عبدالله ابن مسعود قال:حدثنا رسول الله وهو الصادق المصدوق إن أحدکم یجمع خلقه في بطن أمه أربعین یوما ثم یکون في ذالك علقة مثل ذالك وثم یکون مضغة مثل ذالك ثم یرسل الملك فینفخ فیه الروح"[40]

"اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نطفہ ،علقہ ،مضغہ میں سے ہر ایک پر چالیس دن گزرتے ہیں جس سے ایک سو بیس دن بنتے ہیں پھر روح پھونک دی جاتی ہے۔"

جن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ چالیس دن بعد جنین کے ظاہری اعضاء بنناشروع ہو جاتے ہیں اور ان میں جان پڑ جاتی ہےاورجنین متحرک ہوجاتاہے لیکن جنین میں حرکت پیدا کرنے والی شے اصل روح نہیں( جس کو روح ربانی ،روح الٰہی ،روح قدسی ،روح فوقانی اور نفس ناطقہ کہتے ہیں) اور یہ روح کا اعلیٰ درجہ ہے ۔

شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ بدن میں ایک لطیف بھاپ ہے جو اختلاط سے دل میں پیدا ہوتی ہے جو احساس کرنے والے حرکت دینے والے اور غذاکا نظم وانتظام کرنے والے قویٰ (صلاحیتوں)کی حامل ہے۔ علم طب کے احکامات اس میں جاری ہوتے ہیں ،یہی بھاپ روح ہے اور یہ روح کا نچلا درجہ ہے۔ اس روح کو نسمہ ،روح ہوائی اور روح حیوانی کہتے ہیں۔

شاہ صاحب کے نزدیک اصل روح یہ بخارلطیف یعنی نسمہ نہیں ہے بلکہ یہ تواصل روح کی سواری ہے۔اوراس ( اصل روح) کا بدن سے تعلق جوڑتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ بدن اورجسم کانام ہے اورنہ نسمہ اورروح حیوانی کانام ہے بلکہ یہ انسان اس وقت کہلائے گا جب اصل روح(روح ربانی)کاتعلق روح حیوانی(نسمہ)کے ذریعے بدن کے ساتھ قائم ہوجائے۔ اور اصل روح کا تعلق بدن کے ساتھ بواسطہ روح حیوانی روایات کے مطابق 120دن کے بعدقائم ہوتاہے۔[41]

علامہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:

"عن علي قال: اذا أتت علی النطفة أربعة أشهر بعث الله الیها ملکا فینفخ فیها الروح"

"حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ جب نطفہ پر ۱۲۰ دن گزر جائیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرماتے ہیں جو اس میں روح پھونک دیتاہے۔"

آگے لکھتے ہیں:

"قال ابن عباس ثم أنشأناه خلقا آخر ... یعنی فنفخنا فیه الروح"[42]

یہاں "خلقاً آخر" کی تفسیرحضرت ابن عباسؓ،مجاہدؒ ،شعبیؒ ،عکرمہؒ ،ضحاکؒ اورابوالعالیہ وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے۔ روح حقیقی کی تخلیق توتمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہی انہی ارواح کوحق تعالیٰ نے ازل میں جمع کر کے "الست بربکم" فرمایا اور سب نے "بلیٰ" کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کااقرارکیا۔ ہاں اس کاتعلق جسم انسانی کے ساتھ روح حقیقی سے متعلق ہے،جب اس کاتعلق روح حیوانی کے ساتھ ہوجاتاہے توانسان زندہ کہلاتاہے،جب منقطع ہوجاتاہے توانسان مردہ کہلاتاہے، وہ روح حیوانی بھی اپناعمل چھوڑدیتی ہے۔[43]

اس بحث کاخلاصہ یہی نکلتاہے کہ روح کی دوقسمیں ہیں،ایک قسم حیوانی ہے جس کی وجہ سے مضغہ کے مرحلے میں جنین متحرک رہتاہے ،اس کادل بھی دھڑکتاہے اوربعض دیگراعضاء بھی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح حقیقی سے پہلے یہی حرکات روح حیوانی کانتیجہ ہوتی ہے اورپھرایک سوبیس دن یاچارماہ کے بعدآنے والے دس دنوں میں جنین میں روح حقیقی پھونکی جاتی ہے۔

نفخ روح کے بعدجنین کی ہفتہ وارنشو و نما :

اس مرحلے پرجنین 19سنٹی میٹرسے51سنٹی میٹرتک بڑھ جاتاہے اورپیدائش کے وقت بچوں کا اوسطاً وزن 3.36کلوگرام ہوتا ہے۔اس مرحلے میں بچے کے حواس خمسہ بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ ذائقہ محسوس کرتا ہے، آوازوں کوپہچان سکتاہے، دماغ میں تحریک آتی ہے اوربچے کے سیکھنے کی صلاحیت میں نکھار آتا ہے۔اس موقع پرمائیں بچے کی حرکت اورلات مارنازیادہ محسوس کرتی ہیں۔اب بچہ 200 ملین خلیوں والاانسان بن چکاہے۔حمل کے آخرمیں 3سے 4فی صد بچے الٹی پوزیشن میں ہوتے ہیں اورصرف50فیصدبچے متوقع تاریخ پرپیداہوتے ہیں جبکہ ہرپانچ میں سے چوتھابچہ تاخیرسے پیداہوتاہے لیکن یہ فکرمندی کی بات نہیں۔[44]

بچے کی پیدائش(Parturition)اورجڑواں بچے:

بچہ جب تخلیق کے مراحل مکمل کرکے رحم مادرسے باہرآنے کے قابل ہوجائے تواللہ رب العزت کی طرف سے اس کے دنیامیں آنے کاوقت مقررکیاہواہوتاہے۔ارشادربانی ہے:

"وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى"[45]

"اورہم رحم مادرکے اندر ٹھہراتے ہیں جسے ہم چاہیں ایک وقت مقررہ تک"

ایک اورجگہ ارشادہے:

"مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَه"[46]

"اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک قطرۂ آب سے پیدا کیا، پھراس کو ایک خاص اندازہ سے بنایا پھراس کے لیے راستہ آسان کردیا"

مفسرین "ثم السبیل یسره" کے دومعانی بیان کرتے ہیں:

  1. اسے عقل وسمجھ عطاء کرکے اس پرنیکی اوربدی کاراستہ آسان کردیا۔
  2. اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ سے دنیامیں آنے کاراستہ آسان کردیا۔

کبھی کبھارحاملہ ایک سے زائدبچوں کوجنم دیتی ہے۔اس کو(Multiple Birth)کہتے ہیں۔جڑواں پیدا ہونے والے بچے دوقسم کے ہوتے ہیں۔

  1. برادرجڑواں(Fraternal Twins)کہتے ہیں بعض اوقات عورت کی بیضہ دانی دو بیضوں کو خارج کر دیتی ہے اور اس سے دوجڑواں بچے بنتے ہیں۔جن میں سے ہر ایک کا اپنا علیحدہ نظام ہوتاہے۔مثلاً الگ آنول اور الگ الگ تھیلیاں (Amnion)دونوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اس قسم کے بچے ایک جیسی جنس کے بھی ہوتے ہیں اور الگ الگ جنس کے بھی اوردونوں کی شکل بھی زیادہ مشابہ نہیں ہوتی۔
  2. مادری جڑواں بچے(Maternal Twins)کہتے ہیں۔یہ تب ہوتاہے جب ایک ہی بیضے کی بارآوری ہوجاتی ہے،لیکن پہلی خلوی تقسیم کے دوران یہ دو مکمل خلیوں میں جن کو (Blastomers) کہتے ہیں،تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک ہی نطفہ امشاج سے دوعلیحدہ علیحدہ ایک جیسی خصوصیات رکھنے والے بچے بن جاتے ہیں۔ ان کو مشابہ جڑواں (Identical Twins)کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کی جنس اورطبعی خصوصیات مماثل ہوتی ہیں۔[47]

حمل کی تشخیص میں الٹراساؤنڈٹیسٹ:

یہ ٹیسٹ حمل کی درمیانی مدت میں کئے جاتے ہیں۔ اس کا اصل مقصد بچے میں کسی بے قاعدگی کا پتہ لگانا ہوتا ہے۔ اگر رحم مادر میں بچہ بیمار ہو تو الٹرا ساؤنڈ سکین کے ذریعے کئی نقائص کا پتہ لگاناممکن ہے۔ اس کے ذریعے معلوم کی جانے والی بیماریوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. ایننسی فینی: دماغ یاکھوپڑی کے غیرمعمولی طور پر بڑھ جانے کو کہتے ہیں اور اس مسئلے کا شکار بچے پیدا ہونے کے بعدزندہ نہیں رہ پاتے اورپیدائش کے بعد جلد مر جاتے ہیں۔ الٹرا ساؤنڈ سکین میں اس مرض کی تشخیص کا امکان 98فیصدہوتاہے۔
  2. اوپن سپائنابیفیڈا: ایسی بیماری ہے جس میں بچے کا حرام مغز مناسب طریقے سے نشو و نما نہ پاتا ہو اور ریڑھ کی ہڈی میں وقفہ یا شگاف پیدا ہو جائے۔اس بیماری کی تشخیص کا امکان 90 فیصد ہوتا ہے۔
  3. کلیفٹ لِپ: یہ بیماری اس وقت جنم لیتی ہے جب بچے کے اعضاء خاص طورپرہونٹ آپس میں مناسب طریقے سے جڑ نہیں پاتے۔ اس بیماری کی تشخیص کا امکان 75 فیصدہوتاہے۔
  4. ڈائی فریگمیٹک ہیمیا: اس وقت ہوتاہے جب بچے کا پردۂ شکم (ڈایا فرام)پوری طرح نہ بنے۔ پردۂ شکم وہ پٹھا ہے جوسانس لینے میں مدددیتا ہے اوریہ دل اورپھیپھڑوں کوآنتوں اورپیٹ کے دیگراعضاء سے الگ رکھتاہے۔اس مرض کی تشخیص کاامکان60فی صد ہوتاہے۔
  5. گیسٹروسانسز: بچے کے پیٹ کے بیرونی حصے میں ایک نقص(سوراخ)ہے جو نال (Umbilical Cord) کے ایک طرف ہوتاہے۔ عام طور پر یہ دائیں طرف ہوتاہے۔ آنتوں کا کچھ حصہ اس سوراخ کے ذریعے باہر نکل آتا ہے اور بچے کے پیٹ کے باہرنشو و نما پاتاہے۔اس مرض کی تشخیص کا امکان 98 فیصدہوتاہے۔
  6. ایگزوم فیلوس: یہ بیماری تب جنم لیتی ہے جب بچے کی ابتدائی نشو و نما کے دوران پیٹ، نال کی جڑ کے گرد بند ہونے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند اعضاء بچے کے پیٹ سے باہرنشو و نما پاتے ہیں۔ اس مرض کی تشخیص کا امکان 80 فیصدہوتاہے۔
  7. سیریس کارڈیاک ابنارمیلیٹی: اس میں دل کی کئی معذوریاں شامل ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ پیدائش کے بعد جلد ہی بچے کو طبی طور پر توجہ کی ضرورت ہو گی۔ اس بیماری کی تشخیص کا امکان 50 فیصد ہوتا ہے۔
  8. بائی لیٹرل رینل ایگنیسر: اس کامطلب یہ ہے کہ بچے کے گردوں کی نشو و نما نہیں ہوئی۔اس صورتحال سے دوچاربچے جلدمرجاتے ہیں،کیونکہ گردوں کے بغیروہ زندہ نہیں رہ سکتے۔
  9. لیتھل سکیلیٹل ڈسپیسیا: وہ بیماری ہے جوہاتھوں،پیروں،جسم اورکبھی کبھارکھوپڑی کے سائزاورشکل کومتاثرکرتاہے۔ایسے بچوں کا سینہ اورپھیپھڑے مکمل طور پر نشو و نما نہیں پاتے جسکی وجہ سے وہ زندہ نہیں رہ پاتے۔ اس مرض کی تشخیص کا امکان 60 فیصد ہوتا ہے۔
  10. ایڈورڈزسینڈروم(ٹرائی سومی18-): شاذونادرہونے والی کروموسومزکی بے ضابطگی اس وقت جنم لیتی ہے جب بچے کے پاس کروموسوم نمبر 18 کی عمومی طور پر دو کی بجائے تین نقول موجود ہوں۔ اس بیماری کی تشخیص کا امکان 95 فیصد ہوتا ہے۔
  11. پیٹوزسینڈروم(ٹرائی سومی13): یہ بھی کروموسومزکی بے ضابطگی ہے اوریہ کروموسوم نمبر 13 کی دو کی بجائے تین نقول کا موجود ہونا ہے۔ اس کی تشخیص کا امکان 95 فیصد ہوتا ہے۔[48]

جنین کے حقوق:

حقوق کا مکلف ہونے کے لیے اہلیت ضروری ہے جس کی بناء پرکسی کے اوپریاکسی کے لیے حقوق ثابت ہوتے ہیں۔ امام سرخسیؒ لکھتے ہیں:

"فهذه الأهلیة نوعان، أهلیة الوجوب، وأهلیة الأداء. فأما أهلیة الوجوب، وهو صلاحیة لحکم الوجوب ... والقاصر ما لا یلحق به ذلك"[49]

"اہلیت کی دواقسام ہیں:(۱)اہلیت وجوب(۲)اہلیت اداء۔اہلیت وجوب وہ صلاحیت ہے جوکسی حکم کے وجوب کے لیے ہوتی ہے۔پس جس میں یہ صلاحیت موجودہوتواس بات کااہل ہوگا کہ اس پراحکام واجب کیے جائیں ، اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہوتواس پرواجب نہیں ہوتے۔اہلیت اداء کی دو اقسام ہیں۔ ایک کامل اور ایک قاصر۔ کامل اہلیت وہ ہے جس کے ساتھ ذمہ داری لاحق ہوتی ہے ، جب کہ قاصر اہلیت کے ساتھ ذمہ داری لاحق نہیں ہوتی۔"

ذیل میں جنین کےحقوق پرمختصربات ہوگی۔

نسب کامعاملہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے محتاجِ بیان نہیں،کیونکہ اس پرکسی بھی معاشرے کا اخلاقی اورتربیتی ڈھانچہ استوار رہتا ہے۔شریعت نے بچہ کویہ حق دیاہے کہ وہ ثابت النسب ہواورحتی الوسع کوشش کی ہے کہ بچہ پرغیرثابت النسب ہونے کادھبہ نہ لگے۔علامہ زیلعیؒ فرماتے ہیں:

"ومن قال ان نکحتها فهي طالق فولدت لستة اشهر مذ نکحه الزمه نسبه ومهرها أما النسب فلأنها فراشه.... فیکون العلوق مقارناً للانزال"[50]

"اگرکوئی شخص کسی عورت کویہ کہے کہ میں اگرتم سے نکاح کروں توتجھ کوطلاق ہے اورنکاح کے بعدچھ ماہ کے اندراس نے بچہ جناتوایسی صورت میں اس آدمی پرمہربھی لازم ہوگاجب کہ بچہ بھی ثابت النسب ہوگاکیونکہ یہ عورت اس کی فراش ہے اوریہ ممکن ہے کیونکہ جب اس نے بچہ کونکاح کے وقت سے لے کرچھ ماہ میں جنا تو طلاق کے وقت سے اس سے کم میں جنا۔پس علوق طلاق سے قبل نکاح کی حالت میں ہواہے۔"

اسلامی تعلیمات کی روسے جس طرح دیگراقارب وراثت کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں، اسی طرح ماں کے پیٹ میں موجودحمل کوبھی اس کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے اور تقسیمِ میراث کے وقت اس کے لیے حصہ محفوظ رکھا جائے گا۔ حضرت ابوہریرۃؓ نبی اکرمﷺ کا یہ ارشادنقل کرتے ہیں:

"اذا استهل المولود وُرِّث"[51]

"جب مولود(پیداہونے کے وقت)چیخ مارے تواس کووراثت دی جائے گی"

البتہ اتناضروری ہے کہ مورث کی وفات کے وقت رحم مادرمیں اس کاوجودمتحقق ہو،اورزندہ بھی ہو۔اگرپیدائش کے وقت اس میں زندگی کے آثارنہ پائے جائیں توپھروہ وراثت کااہل نہیں ہوگا،کیونکہ اہلیت کے لیے زندہ ہوناضروری ہے اورمیت نہ تواس بات کی مکلف ہے کہ اس کے لیے میراث وغیرہ کے احکام ثابت ہوں اور نہ اس کی کہ اس کوحقوق کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اگرکوئی آدمی مرجائے اوربیوی حاملہ ہوتو ایسی صورت میں ایک بچے کاحصہ موقوف رکھاجائے گا۔ یہی مفتٰی بہ قول ہے۔[52]

علامہ استروشیؒ فرماتے ہیں کہ جنین کے زندہ وضع ہونے کی پہچان کاطریقہ یہ ہے کہ وہ چیخ مارے،یااس کی چھینک سنی جائے ،یاوہ سانس لے،اس کے بعض اعضاء حرکت کریں،یا اس کے مشابہ کوئی عمل کرے۔ اگر مرا ہوا پیدا ہو جائے تو وارث نہیں رہے گا۔ اگر اس کے زندہ یامردہ پیداہونے کے بارے میں اختلاف ہوجائے اورقابلہ(دایہ)اس کے زندہ انفصال کی گواہی دے تو اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی گواہی جنین کی نمازجنازہ کے بارے میں قبول ہو گی، البتہ امام ابوحنیفہؒ کے ہاں وراثت کے بارے میں اس کی گواہی قبول نہ ہوگی،جب کہ صاحبین کے ہاں قبول ہوگی۔[53]

موجودہ دورمیں اگرمیڈیکل رپورٹ سے واضح ہوجائے کہ بچہ پیدائش کے وقت زندہ ماں سے علیٰحدہ ہواتویہ بھی دایہ کی شہادت کے مترادف ہوگا۔

جنین کے لیے ہبہ درست نہیں کیونکہ ہبہ میں قبضہ شرط ہے اورجنین میں قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور نہ اس پرکسی کو ولایت حاصل ہے کہ اس کی طرف سے قبضہ کرے۔[54]

حمل کے لیے وصیت جائزہے بشرطیکہ یہ یقین ہوکہ وصیت کے وقت اس کاوجودمتحقق ہو۔صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ حمل کے لیے وصیت جائزہے کیونکہ وصیت من وجہ استخلاف ہے کیونکہ یہ کسی کواپنے بعض مال میں خلیفہ بنانا ہے اور جنین جس طرح میراث میں خلیفہ بن سکتا ہے اس طرح وصیت میں بھی کیونکہ وصیت میراث کی بہن ہے۔[55]

نمازجنازہ بھی بچے کاحق ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو کر مر جائے تو اس کوغسل بھی دیا جائے گا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ جب مولود چیخ مارے تو اس کا نام رکھا جائے گا، اس پرنماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اگر وہ چیخ نہ مارے(یعنی زندگی کی علامت ظاہر نہ ہو)تو نہ تو اس کا نام رکھا جائے گا، نہ غسل دیا جائے گا اور نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔[56]

اگرخدانخواستہ حاملہ عورت پرکسی وجہ سے حدجاری ہو جائے تو حمل کی موجودگی میں اس پرحدجاری نہیں ہو گی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے جو ایک لحاظ سے ماں کا جزء ہے لیکن دوسری طرف وہ ایک مستقل فردبھی ہے۔اس کے حقوق اور زندگی کا لحاظ رکھتے ہوئے شریعت نے وضع حمل تک اس کی سزاموقوف کر رکھی ہے۔علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ کی سزا "کوڑے" ہوں تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ وہ بچہ جنے اور نفاس سے نکلے، کیونکہ نفاس بھی بمنزلہ مرض کے ہے لہٰذا اس کوتندرست ہونے کے زمانے تک مؤخرکیاجائے گا۔اس کو "کوڑوں کی سزا" کے ساتھ مقید کیا کیونکہ اگر اس کی سزا "رجم" یعنی سنگساری ہو تو بچہ کی پیدائش کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر کے اس کورجم کیا جائے گا کیونکہ تاخیر بچے کی وجہ سے تھی اور وہ(ماں سے)جدا ہوا۔ امام ابوحنیفہؒ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر بچے کی پرورش اور تربیت کے لیے کوئی اورموجود نہ ہو تو بچے کے ماں سے مستغنی ہونے تک رجم کو مؤخر کیا جائے گا، کیونکہ ایسی صورت میں تاخیرکرنے سے بچہ کے ضائع ہونے سے حفاظت ہوگی۔[57]

اگرکوئی حاملہ وفات پا جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ کے زندہ ہونے کا پتہ چلے تو ایسی صورت میں اس کے پیٹ کا آپریشن کر کے بچہ کو زندہ نکالا جائے گا۔ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:

"حاملہ عورت وفات پاگئی اوراس کے پیٹ میں زندہ بچہ ہے جوحرکت کرتا ہوتو اس کے پیٹ کو بائیں طرف سے چاک کر دیا جائے گا اور بچہ کو باہر نکالا جائے گا۔[58]

اسقاط حمل پاکستانی قانون کی نظرمیں:

بلاعذراسقاط حمل چونکہ ایک معاشرتی اوراخلاقی جرم ہے،اسی وجہ سے اس مسئلے کوقانونی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس مسئلے کوپاکستانی قانون کے حوالے سے "دفعہ ۳۳۸، اسقاط حمل" کے عنوان کے تحت درج کیاجاتاہے۔اس دفعہ کی روسے:

"جوکوئی کسی حاملہ عورت کا حمل، جب کہ بطن مادرمیں بچے کے اعضاء ابھی نہ بنے ہوں، ساقط ہونے کا موجب بنے، اگر ایسا اسقاط نیک نیتی سے اس عورت کی زندگی بچانے کے لیے یا اسے ضروری علاج مہیاکرنے کے لیے نہ ہو تو اس نے اسقاط حمل کا ارتکاب کیاہے۔(نوٹ: جوعورت خوداپناحمل ساقط ہونے کاموجب بنے وہ بھی اس دفعہ کے مفہوم میں اسقاط حمل کی مرتکب ہے)"۔

اس دفعہ کومزیدذیلی دفعات الف،ب اورجیم میں تقسیم کیاگیاہے۔[59]

دیگرممالک کے قوانین برائے اسقاط حمل:

2013ء میں اقوام متحدہ نے ایک سروے کیا جس میں انہوں نے دنیا کے تمام ممالک کے اسقاط حمل سے متعلق قوانین کو جمع کر کے پیش کیا ہے۔ ان ممالک کو قوانین کے لحاظ سے پانچ اقسام میں رکھا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم میں وہ ممالک جن میں اسقاط حمل کی قطعاًاجازت نہیں۔ایسے ممالک میں اس کوسخت جرم تصورکیاجاتاہے۔ یہ کل چھ ممالک ہیں دوسری قسم میں وہ ممالک ہیں جن کے قانونی اصول سے صرف عورت کی جان بچانے کی خاطراسقاط حمل کاجوازمستفادہوتاہو۔ یہ کل بیس ممالک ہیں۔ تیسری قسم میں وہ ممالک ہیں جن میں عورت(حاملہ)کی جان بچانے کی خاطر صریح اجازت ہے۔یہ کل تیس ممالک ہیں۔چوتھی قسم میں وہ ممالک شامل ہیں جن میں اعذارکی بناء پراسقاط حمل کی صریحی اجازت ہے۔یہ کل82ممالک ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔پانچویں قسم میں 59 ممالک شامل ہیں جن میں درخواست پراجازت دی جاتی ہے ۔[60]

جنین پرتعدّی کی صورت میں اسلامی قانون:

اگرکوئی شخص کسی حاملہ کے پیٹ کومارے جس سے جنین کونقصان پہنچے توایسی صورت میں اس شخص کوتاوان اداکرنا ہوگالیکن یہ ایسی صورت میں جب اس کے بعض یاکل اعضاء بن چکے ہوں۔شمس الائمہ سرخسیؒ فرماتے ہیں:

"واذا ضرب الرجل بطن المرأة فألقت جنینا میتا ففیه غُرة عبد او امة یعدل ذلك بخمس مأة"[61]

"جب آدمی کسی عورت کو پیٹ پر مارے اوراس سے مردہ بچہ پیدا ہو تو اس میں ایک غُرہ یعنی غلام یا باندی جو پانچ سو دراہم کے برابر ہوں، واجب ہے۔"

اگرحاملہ عورت عمداًکوئی ایسی صورت اختیارکرے جس کی وجہ سے بچہ ساقط ہوجائے توایسی صورت میں حاملہ پرغُرّہ واجب ہوگا،تاہم غُرّہ اس کے عاقلہ پرواجب ہوگا۔امام فخرالدین قاضی خان لکھتے ہیں:

"جب عورت عمداًدواپی کریادوسراطریقہ علاج اپناکربچے کے سقوط کاسبب بنے تواس کے عاقلہ پرغُرّہ واجب ہوگا اور اگراس نے کوئی دوا لی اور اسقاط ولد کی نیت نہ ہو تو اس پر کوئی شے نہیں البتہ قصد و عمد کی قیدصرف حاملہ کے لیے ہے(اگر کوئی اور مارے چاہے سہواً ہو یا عمداً تو پھر اس پر گزشتہ بیان شدہ احکام جاری ہوں گے) جب کہ غُرّہ شوہرکے لیے ہوگا۔ ہمارے ہاں غُرّہ کی مقدار پانچ سو دراہم ہیں۔ اوراگر(کسی نے حاملہ کومارا جس کی وجہ سے) جنین مردہ حالت میں نکلا اور ماں بھی مر گئی تو مارنے والے پر صرف حاملہ کی دیت ہے جب کہ(مردہ جنین)کے بارے میں اس پرکچھ بھی نہیں۔"[62]

اگرمحلہ میں کوئی ناتمام بچہ یاسقط پایاجائے لیکن اس پرضرب کاکوئی نشان موجودنہ ہوتوایسی صورت میں اہل محلہ پر کچھ بھی نہیں۔۔۔اوراگربچہ تام الخلقت ہواوراس پرضرب کانشان بھی موجودہوتواہل محلہ پرقسامت اوردیت واجب ہوگی کیونکہ تام الخلقت بچہ ماں سے عموماً زندہ جدا ہو جایا کرتا ہے، البتہ اگر ناقص الخلقت ہو تو پھر کچھ بھی نہیں کیونکہ ناقص الخلقت بچہ مردہ ماں سے جدا ہو جایا کرتا ہے ،زندہ نہیں۔[63]

عارضی مانع حمل تدابیریاعزل کاحکم:

مختلف قسم کے احادیث اورفقہی ذخیرے کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلتاہے کہ عزل یاعارضی موانع حمل تدابیر فی نفسہ مباح ہیں، لیکن یہ بات واضح رہے کہ کسی مباح کام کے ارتکاب کاحکم اس کے سبب ومحرک کودیکھتے ہوئے لگایاجاتاہے۔ اگرمباح کاارتکاب کسی جائز سبب کے لیے ہوتوجائز اوراگرسبب ناجائزہو تو پھر "الأمور بمقاصدها"[64] کی روسےخودمباح کاحکم بھی ناجائزرہتاہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ معاشرتی ضرورت کی وجہ سے بسااوقات مباح کاارتکاب ضروری ہولیکن اس کادائرہ وسیع نہیں،جس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ شریعت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہو،البتہ جائزاسباب کومدنظررکھ کرمانع حمل ادویات کااستعمال جائزہے۔

فقہائے کرام نے چنداسباب کی نشان دہی کی ہے جن کی موجودگی کی صورت میں عارضی موانع حمل تدابیر جائز ہیں۔ علامہ ابن عابدین نے لکھاہے:

"ویحتمل أنه أراد الحاق مثل هذا لعذر به کأن یکون في سفرٍ بعیدٍ أو في دار الحرب فخاف علی الولد، أو کانت الزوجة سیئة الخُلُقِ ویرید فراقها فخاف أن تحبل. قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ینقطع لبنها بعد ظهور الحمل"[65]

"یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے اس عذرکے ساتھ اس جیسے دوسرے اعذارکے الحاق کاارادہ کیاہومثلاًوہ دورکے سفرمیں ہویادارالحرب میں ہواوربچے(کی پیدائش)پرخوفزدہ ہو،یابیوی بداخلاق ہواورشوہراس سے علیحدگی کا ارادہ رکھتاہو (جس کی وجہ سے)اس کے حاملہ ہونے سے خوفزدہ ہو۔ ابن وہبان نے کہاہے کہ یہ بھی اعذار میں سے ہے کہ ظہورِ حمل کے بعدعورت کا دودھ منقطع ہو جائے۔"

 فقہی جزئیات کی روشنی میں عذر کی بناء پر مانع حمل تدابیر کی گنجائش موجودہے مثلاً کسی عورت کا حمل اس کی صحت پر ناقابل تحمل حد تک اثر انداز ہوتا ہو اور اولاد میں وقفہ نہ رکھنے کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہوتی ہو، مثلاً یا تو موت کا خطرہ ہو یا مستقبل میں ناقابل تحمل بیماری کا شکار ہوتی ہو، ایسی صورت میں خود اس خاتون کا ظن غالب ہو یا ماہر اور دیندار ڈاکٹر اس کو مشورہ دے تو ایسی صورت میں مانع حمل ادویات کا استعمال جائز ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

"وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا"[66]

"اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔"

اسی طرح بچہ کی صحت کے پیش نظربچوں کی پیدائش میں کسی حدتک وقفہ رکھنامناسب ہے۔بعض بچوں کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ دوسری چیزپرگزارہ کرنامشکل ہوتاہے،اورجلدی حمل ٹھہرنے سے گودمیں بچے کی صحت پرمنفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ایسی صورت میں مانع حمل ادویات یاعزل کاطریقہ اختیارکرنے کی گنجائش ہے۔تربیتی حوالے سے معاشرتی بگاڑبھی وقفے کے لیے ایک جائزعذرہے۔اگرکسی معاشرتی مجبوری کے سبب بچوں کی تربیت باپ کے اختیارمیں نہ رہے یاوہ بچوں کی تربیت نہیں کرسکتااور یہ خطرہ ہوکہ بچے پیداہوکربے دین اوربدکردارہوکر بدامنی کاذریعہ بنیں گے توایسی صورت میں اولادکی پیدائش کاسلسلہ عارضی طورپرروکنے کی رخصت ہے۔

اگرکسی شخص کی بیوی بداخلاق ہواورشوہرکاارادہ اس کوطلاق دینے کاہوکہ کچھ وقت انتظارکرنے کے بعداگربیوی کارویہ درست ہوگیاتوٹھیک ورنہ جان چھڑاؤں گا۔ایسی صورت میں جب بچے پیداہوجائیں توپھرمردکے لیے عورت سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتاہے یاعلیحدگی کی صورت میں بچوں کی مستقبل پربرے اثرات پڑتے ہیں،لہٰذاایسی صورت میں مانع حمل تدابیراختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح بعض اوقات ذریعہ معاش کی تلاش میں یاکسی اوروجہ سے ایسے ملک میں رہائش اختیار کرنی پڑتی ہے جہاں مستقل طور پر رہنا نہیں ہوتا لہٰذا ممکن ہے کہ بناء بر ضرورت حفاظت نفس کے لیے شادی کر لے، لہٰذا ایسے ملک میں بچوں کی پیدائش کا سلسلہ روکنا بھی جائزہے۔

اللہ رب العزت نے میاں بیوی کوایک دوسرے کے لیے باعث سکون قراردیاہے جس کے لیے دونوں کی باہمی الفت ومحبت کاہوناضروری ہے۔نبی اکرمﷺ نے بھی اچھی بیوی کی خوبیوں میں یہ بھی بیان فرمایاہے کہ "إن نظر إلیها سرته" یعنی اگرخاونداس کی طرف دیکھے توسرور حاصل ہو۔پس اگربیوی بے دریغ بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ایسی حالت کاشکارہوتی ہوکہ خاوندکی توجہ اورمحبت متأثرہونے کاغالب گمان ہوتوایسی صورت میں بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کے لیے تدبیرکرناجائزہے۔بیوی کاخاوندکی توجہ کامرکزبننااس کے فرائض منصبی کاحصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیوی کاخاوند کے سامنے بننا،سنورنااورخوبصورت لباس وغیرہ پہننامستحسن اقدام ہے۔

علاوہ ازیں موجودہ دورکے حالات کا تقاضا ہے کہ عیسائی یا یہودی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے بچا جائے کیونکہ اس سے ایسے معاشرتی مسائل پیداہوتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنا مشکل بلکہ ناممکن رہتا ہے۔تاہم پھر بھی اگر کسی شخص نے اہل کتاب کی کسی خاتون سے نکاح کیا اور یہ خطرہ ہو کہ عیسائی یا یہودی عورت کی گود میں پلنے بڑھنے والا بچہ ماں کا نظریہ اختیارکر کے بے دین ہو گا تو اس کے لیے بھی اولاد روکنے کی تدبیر کرنا جائز ہے۔بعض ممالک میں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر قانونی پابندی ہے۔ایسے ممالک میں رہنے کی صورت میں اگر زیادہ بچے پیدا کرنا سزا کا سبب بنتے ہوں تو سزا سے بچنے کی خاطر حمل کے تدارک کے اسباب اختیار کرنا جائز ہے۔

ناجائزاسباب:

شرعی اعذارکے علاوہ دیگرنامعقول وجوہات کی بناء پربچوں کے سلسلے کوروکناجائزنہیں۔سب سے نامعقول عذرمفلسی یاتنگدستی ہے جوخاندانی منصوبہ بندی والوں کی توجہ کامحورہے۔ان کاخیال ہے کہ اگرآبادی کنٹرول میں رہی تواس سے فقروفاقہ اور غربت پیدانہ ہوگی جوشرعی احکامات سے متصادم ہی نہیں بلکہ قہرخداوندی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔اس کے علاوہ اولادکوبوجھ سمجھ کرشادی کوصرف خواہش کی تکمیل تک محدودرکھنے اورآزادزندگی گزارنے کی خواہش کومدنظر رکھ کراولادکی پیدائش کاسلسلہ روکناجائزنہیں۔

اسی طرح بعض ملازم پیشہ خواتین بھی ملازمت کی وجہ سے اولاد کا بوجھ نہیں اٹھاتیں۔ بیوی کا خرچہ چونکہ شوہر کے ذمہ ہے اور اس کی ملازمت کوئی معقول عذرنہیں لہٰذا یہ بھی ناجائز ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش روک دے۔ علاوہ ازیں کوئی مرد یا عورت ہمیشہ جوان کہلانے کے مریض ہوں کہ پھرہمیں "امی، ابو" یا آگے جا کر "دادا، دادی" یا "نانا، نانی" پکاریں گے تو یہ بھی ناجائز سبب ہے۔

اسقاط حمل:

فقہائے کرام کااس بات پراجماع ہے کہ نفخ روح کے بعدحمل کاساقط کرناحرام اورقتل نفس کے مترادف ہے۔علامہ ابن عابدین نے لکھاہے:

"لو کان الجنین حیا ویخش علی حیاة الأم فانه لا یجوز تقطیعه لأن موت الأم به موهوم فلا یجوز قتل آدمي لأمر موهوم"[67]

"اگر جنین زندہ ہو اور ماں کی جان کو خطرہ ہو تو اس کو کاٹنا (ساقط کرنا) جائز نہیں، لہٰذا کسی موہوم امر کی بناء پر انسان کا قتل جائزنہیں"

اس عبارت سے واضح ہوجاتاہے کہ کسی موہوم امریاظن کی بناء پرروح پھونکنے کے بعد بچہ کااسقاط حرام ہے اور اس صورت میں اس بچہ کی زندگی تو یقینی ہے اوربعض احکام کے اعتبارسے ایک کامل فردہے جب کہ ماں کی موت موہوم یا ظنی ہے،لہٰذا امر موہوم کی وجہ سے یقینی زندگی کو ختم کرنا روا نہیں۔

روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل سے متعلق فقہائے کرام کے نقطۂ نظرمیں اختلاف معلوم ہوتاہے۔بعض اس کی اباحت جب کہ بعض عدم اباحت کے قائل ہیں۔علامہ ابن نجیمؒ نے فتح القدیرکے حوالے سے لکھاہے کہ120دن(نفخ روح)سے قبل اسقاطِ حمل مباح ہے۔اسی طرح علامہ قاضی خان ؒ ،فقیہ علی بن موسیٰؒ ،امام غزالی ؒ وغیرہ کے ہاں استقرارِحمل کے بعداسقاط جائزنہیں۔[68]

علامہ ابن عابدینؒ اورا بن نجیمؒ نے ابن وہبان کے حوالے سے لکھاہے:

"قال ابن وهبان فاباحة الاسقاط محمول علی حالة العذر او أنها لا تأثم اثم القتل"[69]

"ابن وہبان نے کہاہے کہ اسقاط (حمل)کی اباحت یاتوعذرکی حالت پرمبنی ہے یاوہ قتل جتناگناہگارنہیں۔"

یہ مناسب فیصلہ ہے کہ اباحت اورعدم اباحت کے اقوال میں تطبیق یوں دی جائے کہ جوفقہاء اس کے عدم جوازکے قائل ہیں ان کامقصدیہی ہوکہ بغیرعذرکے جائزنہیں اورجنہوں نے جوازکاقول کیاہے وہ عذرکی حالت پرمبنی ہو۔واللہ اعلم

اگربچے کی وجہ سے ماں کی جان جانے کامحض شبہ ہو تو روح پھونکنے کے بعد اسقاط جائز نہیں، تاہم اگر ماں کی موت یقینی ہو اور ڈاکٹروں کی بورڈ اس نتیجے پرپہنچ جائے کہ اسقاط حمل کے بغیر عورت کی زندگی بچانے کا اور کوئی راستہ نہیں تو ایسی صورت میں "اہون البلیتین" پر فیصلہ کرتے ہوئے اسقاط کی گنجائش ہے۔قاعدہ ہے:

"الضرر الأشد یزال بالأخف... والأصل في ذلك أن من ابتلی ببلیتین وهما متساویان یأخذ بأیهما شاء وإن اختلفا اختار أهونهما"[70]

"ایک ضررجودوسرے کی نسبت بڑاہوتوأخف(ہلکے ضرر)کے ساتھ اشدکاازالہ کیاجائے گا۔اس میں اصل یہ ہے کہ کوئی شخص دومصیبتوں میں مبتلاہوجائے اوردونوں برابرہوں تودونوں میں سے جس کوچاہے اختیارکرلے اوراگروہ دونوں مختلف ہوں توایسی صورت میں جوکم ضرروالاہواس کواختیارکرلے"

مکہ مکرمہ کی اسلامک فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے کے مطابق اجلاس میں اس موضوع پرماہراطباء اورارکان کی آراء پرغور اورمباحثہ کے بعداکثریت کی رائے سے درج ذیل فیصلہ کیاگیا:

"اگرحمل 120دنوں کا ہو تو اس کا اسقاط جائز نہیں خواہ طبی تشخیص سے یہ ثابت ہو رہا ہو کہ بچہ ناقص الخلقت ہے۔ البتہ اگر ماہر،قابل اعتماد اطباء کی کمیٹی کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو رہا ہو کہ حمل کا باقی رہنا ماں کی زندگی کے لیے یقیناً خطرناک ہے تو ایسی صورت میں بڑے نقصان کے ازالے کے لیے بچہ کا اسقاط جائزہے۔"[71]

خلاصہ یہ کہ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانا زیادہ اہم ہے اور اس کی موت کا ضرر اس بچہ کی نسبت زیادہ ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوا اوراس کا زندہ پیدا ہونا بھی یقینی نہیں اور ماں کی حیات یقینی ہے، لہٰذا اس میں أخف ضرر بچہ کے سقوط کی صورت میں ہے۔

جدیدذرائع کے تحت اگرمیڈیکل رپورٹ سے یہ ثابت ہوجائے کہ رحم مادرمیں موجودبچہ کسی شدیدقسم کی لاعلاج بیماری میں مبتلاہے اورآگے جاکرپیدائش کی صورت میں معاشرہ پرایک بوجھ ثابت ہوگا۔مثلاً وہ معذورہے،پیداہوکر دیوانہ ، لنگڑایاایڈزسے متأثرہوگاتونفخ روح کے بعداس کااسقاط جائزنہیں بلکہ حرام ہے کیونکہ نفخ روح کے بعداب بچے کابذات خودزندہ رہنے کااستحقاق پیداہوگیا۔

زناکے حمل کااسقاط:

اگرخدانخواستہ کہیں حمل حرام نطفہ سے ٹھہرجائے توبدنامی سے بچنے کی خاطر120دن سے قبل اس کے ضائع کرنے کی گنجائش مل سکتی ہے لیکن روح آنے کے بعدبدنامی سے بڑھ کر حمل کی زندگی کاتحفظ ضروری ہے لہٰذاپھراسقاط جائزنہیں بلکہ یہ قتل نفس کے مترادف ہوگا۔

مستقل طورپرذرائع تولیدکوختم کرناجائزنہیں۔بخاری شریف میں سعدبن ابی وقاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عثمان بن مظعون کوباوجودقدرت کے نکاح سے بازرہنے کی اجازت نہیں دی۔اگران کو اجازت دی جاتی تو پھرہمیں قوت مردمی ختم کرنے کی گنجائش مل جاتی۔[72] اس حدیث سے ثابت ہواکہ قوت مردمی کوختم کرناازروئے شرع ناجائزہے۔اس طرح کسی خاتون کوبھی مستقل طورپربانجھ بنانا کہ اس کی بیضہ دانی کو آپریشن کے ذریعے ہٹا دیا جائے یا کوئی اور صورت جس طرح کہ عزل کے تحت گزر چکا، اختیار کرنا جائزنہیں۔اگر کہیں ایسی صورت ہو جہاں خاتون کی صحت کے حوالے سے مستقل علاج کی ضرورت پڑے، مانع حمل ادویات کے استعما ل سے تدارک نہ ہو اور کسی ادنیٰ بے احتیاطی سے علوق کی وجہ سے بار بار حمل سے خاتون کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا دو تین بچوں کی ولادت معمول سے ہٹ کر آپریشن کے ذریعے ہو اور مزید حمل سے جسم کے نظام کے تعطل کا خطرہ ہو یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، ایسی صورت میں اس کی زندگی کی حفاظت کی خاطر مستقل طور پر آپریشن یا دوسرے طریقوں سے مستقل علاج جائزہے۔

فن طب یا ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت "الشافی" (شفادینے والا) کا مظہر ہے اور عرف میں ڈاکٹروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی بناء پر ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہے کہ اس پیشے کے تقدس کا لحاظ رکھتے ہوئے غیر اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے افعال سے پہلوتہی کریں۔ ارشادربانی ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَان"[73]

"اورنیکی اورتقویٰ (کے کاموں )میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ وزیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو"

حرام نطفہ کے حمل کا علاج ڈاکٹر کا فریضۂ منصبی نہیں بلکہ جواز کے درجہ میں ڈاکٹر اس کا علاج کر سکتا ہے، لیکن اگر اس کو معلوم ہو کہ ایسے لوگوں کا علاج کرنے سے معاشرہ میں بدکاری کو ترویج ملتی ہے تو پھر اس سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں جب اسقاط حمل کے علاج کی سہولت میسرنہ ہو گی تو لوگ بدکاری کرنے پر دلیر نہ ہوں گے جس سے فحاشی کا راستہ بھی کسی حدتک مسدودہوجائے گا۔

نتائج

  1. انسان کی تخلیق قرآن وحدیث کی روشنی میں پانچ مراحل میں ہوتی ہے۔یہ پانچ مراحل نطفہ،علقہ،مضغہ غیرمخلقہ،مضغہ مخلقہ اورروح کاپھونکناہیں۔
  2. اسلام نے جنین کے لیے پیدائش سے قبل ہی وراثت،نسب،وصیت اورنمازجنازہ وغیرہ کے حقوق کا تعین کیا ہے۔
  3. روح پھونکنے اورجنین کی صورت بننےسے قبل اسقاط کے بارے میں بعض فقہاء جوازاوربعض عدم جواز کے قائل ہیں۔ جو فقہاء اس کے عدم جواز کے قائل ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ بغیر عذر کے جائز نہیں اور جنہوں نے جواز کا قول کیاہے وہ عذرکی حالت پرمبنی ہے۔
  4. شرعی عذرکی موجودگی میں بچوں میں مناسب وقفہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقل طورپرعلاج کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے جبکہ بغیرشرعی عذرکے ایساکرناباعث گناہ ہے۔
  5. جب جنین میں روح پڑجائے توپھراس کااسقاط قتل نفس کے مترادف ہے البتہ اگرڈاکٹروں کا بورڈ اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ بچے کے عدم سقوط کے نتیجے میں حاملہ کی موت یقینی ہے توپھرحاملہ کی جان بچانے کی خاطراسقاط کی اجازت ہے۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. سورۃ البقرۃ:۲۹ Surah al Baqarah, 29.
  2. سورۃ الحجرات:۱۳ Surah al Ḥujarāt, 13.
  3. سورۃ الغافر : ۶۴ Surah al Ghāfir, 64.
  4. سورۃ التین: ۵ Surah al Tīn, 5.
  5. سورہ الحج:۵ Sūrah al Ḥajj, 5.
  6. ابن منظورافریقی,لسان العرب،داراحیاءالتراث،بیروت،۱۹۸۸ء،۲:۳۸۶ Ibn Manzūr, Lisān al ‘Arab, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī, 1988), 2:386 .
  7. جماعۃ الزعماء، المعجم الوسیط ، دارالمعارف،کراچی،۲۰۰۴ء ،ص: ۱۶۲ Jamā‘ah al Zu’amā‘, Al Mu’jam al Wasīt, (Karachi: Dār al Ma’ārif, 2004), p:162.
  8. جماعۃالزعماء،شماس کمپری ہنسیو اناٹومی ،مکتبہ دانیال ،لاہور،س۔ن ،ص: ۱۶۔ نجیب الحق، ڈاکٹر،علم تشریح الابدان، العلم پبلیکیشنز، پشاور، مارچ، ۲۰۱۸ء، ص: ۴۴ Jamā‘ah al Zu’amā‘, Shamās Comprehensive Anatomy, (Lahore: Maktabah Daniyāl), p:16. Najīb ul Ḥaq, Doctor, ‘Ilm Tashrī ‘ ul Abdān, (Peshawar: Al ‘Ilm Publications, March, 2018), p:44.
  9. الشوکانی، محمدنبیل، الاعجازالالٰہی فی خلق الانسان،۲۰۰۲ء،ص: ۱۹ Al Shawkānī, Muḥammad Nabeel, Al I’jāz al Ilāhī fī Khalq al Insān, (2002), p:19.
  10. سورۃ المؤمنون:۱۲ Surah al Mu’minūn, 12.
  11. نجیب الحق، ڈاکٹر،علم تشریح الابدان، العلم پبلیکیشنز، پشاور، مارچ، ۲۰۱۸ء، ص: ۴۶ Najīb ul Ḥaq, Doctor, ‘Ilm Tashrī ‘ ul Abdān, (Peshawar: Al ‘Ilm Publications, March 2018), p:44.
  12. البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، قدیمی کتب خانہ،کراچی،س۔ن، ۲:۱۱۱ Al Bukhārī, Muhammad bin Isma’il, Al Ṣaḥīḥ, (Karachi: Qadīmī Kutub Khana), 2:111.
  13. کیرانوی،وحید الزمان ،القاموس الوحید،ادارہ اسلامیات کراچی،۲۰۰۱ء،ص: ۱۶۶۵ Kīrānavī, Wahīd al Zamān, Al Qāmūs al Waḥīd, (Karachi: Idarah Islamiat, 2001), p:1665.
  14. سورۃالنحل:۴ Surah al Naḥal, 4.
  15. سورۃالانسان: ۲ Aurah al Insān, 2.
  16. الطبری،محمدبن جرير، جامع البیان فی تاویل آی القرآن، مؤسسة الرسالة، بیروت، ۱۹۹۷ء، ۲۴:۵۷۸ Al Ṭabrī, Muḥammad bin Jarīr, Jami’ al Bayān fī Ta’vīl Āyi al Qur’ān, (Beirut: Mo’assasah al Risālah, 1997), 24:578.
  17. ابن حجر ، احمدبن علی، فتح الباری شرح صحیح البخاری،دارالفکر ،بیروت،س۔ن،۱۳:۳۱۱ Ibn Ḥajar, Aḥmad bin ‘Alī, Fatḥ al Bārī, (Beirut: Dār al Fikr), 13:311.
  18. T. W. Sadler, Langman’s Medical Embryology, 9th Edition, p:29.
  19. سورۃالمؤمنون: ۱۲ Surah al Mu’minūn, 12.
  20. Brus M. Karslon, Human Embryology and Developmental Biology, (2009), p: 85.
  21. http://www.bebecare.me/pregnancy/week-by-week.
  22. ابن حجر،فتح الباری،۱۳:۳۱۷ Ibn Ḥajar, Fatḥ al Bārī, 13:317.
  23. Scott F. Gilbert, Developmental Biology, 9th Edition, p: 511.
  24. امام مسلم ،ابو الحسن،بن الحجاج القشیری،الصحیح المسلم،قدیمی کتب خانہ،کراچی، س۔ن،۱:۱۴۶ Al Qushayrī, Muslim bin Ḥajjāj, Ṣaḥīḥ Muslim, (Karachi: Qadīmī Kutub Khana), 1:146.
  25. ابن حجر،فتح الباری،۷:۶۹۳ Ibn Ḥajar, Fatḥ al Bārī, 7:693.
  26. سورۃالعلق: ۱ Surah al ‘Alaq, 1.
  27. Victor Olu Taiwo, World Terrorism Diagnosis and Path to Global Peace, (2014), p:133.
  28. الراغب، حسین بن المفضل،مفردات الفاظ القرآن،دارالقلم،دمشق،س۔ن،ص: ۵۷۹ Al Rāghib, Ḥusain bin al Mufaḍal, Mufradāt Alfāẓ al Qur’ān, (Damascus: Dār al Qalam), p:579.
  29. Keith L Moore, The Developing Human,( South Asian: 8th Edition), p:96. ,alsohttp://www.bebecare.me/pregnancy/week-by-week
  30. سورۃالمؤمنون: ۱۳ Surah al Mu’minūn, 13
  31. تفسیرقرطبی، ۶:۶ Tafsīr al Qurṭabī, 6:6.
  32. سورۃالحج:۵ Surah al Ḥajj, 5.
  33. تفسیرقرطبی، ۱۲:۴ Tafsīr al Qurṭabī, 12:4.
  34. مفتی محمدشفیع،معارف القرآن،ادارۃ المعارف کراچی، ۲۰۰۸ء، ۶:۲۴۱ Muftī Muḥammad Shafī‘, Ma’ārif al Qur’ān, (Karachi: Idārah al Ma’ārif, 2008), 6:241.
  35. الماتریدی، محمد بن محمد بن محمود، تاویلات اہل السنۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۵ء، ۷:۳۹۱ Al Māturīdī, Muḥammad bin Muḥammad bin Maḥmūd, Ta’vīlāt Ahl al Sunnah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2005), 7:391.
  36. الاصفہانی،مفردات الفاظ القرآن ،ص: ۷۷۰ Al Rāghib, Mufradāt Alfāẓ al Qur’ān, p:770.
  37. ابن حجر،فتح الباری،۱۳:۳۱۶ Ibn Ḥajar, Fatḥ al Bārī, 13:316.
  38. The Developing Human, p:98, http://www.bebecare.me/pregnancy/week-by-week.
  39. ابن حجر،فتح الباری،۱۳:۳۱۷ Ibn Ḥajar, Fatḥ al Bārī, 13:317.
  40. تفسیرقرطبی،۶:۶ Tafsīr al Qurṭabī, 6:6.
  41. شاہ ولی اللہ،حجۃ اللہ البالغۃ،مکتبہ سلفیہ لاہور،س۔ن،ص:۱۸ Shah Wali Ullah, Ḥujja-t-Ullah al Bālighah, (Lahore: Maktabah Salafiyyah), p:18.
  42. ابن کثیر، إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم، اسلامی کتب خانہ لاہور، ۱۹۹۹ء، ۵:۱۲ Ibn Kathīr, Ismā‘īl bin ‘Umar, Tafsīr al Qur’ān al Aẓīm, (Lahore: Islāmī Kutub Khana, 1999), 5:12.
  43. محمدشفیع،مفتی،معارف القرآن، ۶:۳۴ Muftī Muḥammad Shafī‘, Ma’ārif al Qur’ān, 6:34.
  44. www.bebecare.me/pregnancy/week-by-week.
  45. سورۃالحج:۵ Surah al Ḥajj: 5.
  46. سورۃالعبس: ۱۹ Aurah al ‘Abas: 19.
  47. Text Book of Biology Class XII, (Peshawar: KPK Text Book Board, 2012), p:134.
  48. www.arc-uk.com.
  49. السر خسی ، محمدبن احمد، اصول سرخسی، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۳ء، ۲:۲۴۰ Al Sarakhasī, Muḥammad bin Aḥmad, Uṣūl Al Sarakhasī, (Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1993), 2:240.
  50. الزیلعی،فخر الدين،عثمان بن علی ، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق،دارالکتب ،بیروت،س۔ن،۳:۲۴۷ Al Zayla’ī, Uthmān bin ‘Alī, Tabyīyn al Ḥaqā‘iq, (Beirut: Dār al Kutub), 3:247.
  51. ابو داؤد، سليمان بن الأشعث،سنن ابو داؤد،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،س۔ن،۲:۵۶ Abū Dāwūd, Sulaymān bin Ashath, Sunan Abī Dāwūd, (Lahore: Maktabah Raḥmaniah), 2:56.
  52. الاستروشی، محمدبن محمودبن الحسین ،احکام الصغار،دارلکتب،بیروت،س۔ن،ص: ۳۷۸ Al Astarawshī, Muḥammad bin Maḥmūd, Aḥkām al Ṣighār, (Beirut: Dār al Kutub), p:378.
  53. الاستروشی،احکام الصغار، ص: ۳۷۸ Al Astarawshī, Aḥkām al Ṣighār, p:378.
  54. ابن عابدين،محمد بن محمد امين بن عمر، علاء الدين،ردالمحتار،مکتبہ امدادیہ ملتان،س۔ن،۱:۲۴۲ Ibn ‘Ābidīn, Muḥammad bin Muḥammad Amīn, Radd al Muḥtār, (Multan: Maktabah Imdadiyyah), 1:242.
  55. المرغینانی، برہان الدین، الہدایہ، کتاب الوصایا ،مکتبہ رحمانیہ لاہور،س۔ن، ۴:۶۴۲ Al Marghīnanī, Burhān al Dīn, Al Hidayah, (Lahore: Maktabah Raḥmaniah), 4:642.
  56. الکاسانی، علاء الدین، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، دارالکتب، ۲۰۰۸ء، ۲:۳۱۲ Al Kāsānī, ‘Alā‘ al Dīn, Badai’ al Ṣanai’ fī Tartīb al Sharai’, (Beirut: Dār al Kutub, 2008), 2:312.
  57. ابن نجیم، زين الدين، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، دارالکتب العلمیۃ، س۔ن، ۵:۱۸ Ibn Nujaym , Zain al Dīn, Al Baḥr al Rā‘iq, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 5:18.
  58. الحصکفی، محمد بن علی، درمختار، مکتبہ امدادیہ ملتان،س۔ن، ۳:۴۵ Al Ḥaṣkafī, Muḥammad bin ‘Alī, Durr al Mukhtār, (Multan: Maktabah Imdadiyyah), 3:45.
  59. ایم محمود، دی میجر ایکٹ: لاء آف کرائمز، القانون پبلشرز، ۲۰۱۳ء،ص: ۲۹۸ M. Mehmood, The Major Act: Law of Crimes, (Al Qānūn Publishers, 2013), p:298.
  60. http:/www.en.m.wikipedia.org/wiki/Abortion-law.
  61. السر خسی، محمدبن احمد، کتاب المبسوط، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، س۔ن، ۲۶:۷۸ Al Sarakhasī, Muḥammad bin Aḥmad, Kitāb al Mabsūt, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 26:78.
  62. قاضی خان،امام فخرالدین ابی المحاسن الحسن بن منصور، الفرغانی، فتاویٰ قاضی خان، ۲۰۰۹ء، دارالکتب بیروت، ۳:۳۵۵ Qāḍī Khan, Ḥasan bin Manṣūr, Fatāwa Qāḍī Khan, (Beirut: Dār al Kutub, 2009), 3:355.
  63. المرغینانی، الہدایہ، ۴:۶۲۵ Al Marghīnānī, Al Hidayah, 4:625.
  64. ابن نجیم، زين الدين، الاشباہ والنظائر، ایچ ایم سعید، کراچی، ۲۰۰۶ء،ص: ۱۲ Ibn Nujaym, Zayn al Dīn, Al Ashbah wal Naẓā‘ir, (Karachi: H. M. Saeed, 2000), p:12.
  65. ابن عابدین،ردالمحتار، ۴:۳۳۵ Ibn ‘Ābidīn, Radd al Muḥtār, 4:335.
  66. سورۃالنساء: ۲۹ Surah al Nisā‘, 29.
  67. ابن عابدین،ردالمحتار، ۳:۳۴۹ Ibn ‘Ābidīn, Radd al Muḥtār, 3:349.
  68. ا بن نجیم، البحرالرائق، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۳:۳۴۹ Ibn Nujaym, Al Baḥr al Rā‘iq, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 3:349.
  69. ابن عابدین،ردالمحتار، ۳:۳۴۹ Ibn ‘Ābidīn, Radd al Muḥtār, 3:349.
  70. محمدخالدالأتاسی ،شرح المجلہ،مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ المادہ: ۲۶ Al ‘Atasī, Muḥammad Khalid, Sharḥ al Majallah, (Quetta: Maktabah Ḥabībiyyah), Madah: 26.
  71. عصرحاضرکے پیچیدہ مسائل کاشرعی حل،مجاہدالاسلام قاسمی،ادارۃ القرآن والعلوم کراچی،ص: ۲۴۵ Qasmī, Mujāhid al Islām, ‘Aṣr e Ḥāḍir K Masai’l ka Shar’ī Ḥal, (Karachi: Idarah al Qur’ān wal ‘Ulūm), p:245.
  72. صحیح البخاری،۲:۷۵۹ Ṣaḥīḥ Al Bukhārī, 2:759.
  73. سورۃالمائدۃ: ۲ Surah al Mā’idah: 2.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...