Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

سیرت طیبہ کے تناظر میں منصبی ذمے داریاں اور تقاضا ہائے حقوق مصطفی |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

عالمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ احسانات حضرت محمد ﷺ کےہیں۔آپ کے سبب ہی بنی نوع انسان کو وہ دولت میسر آئی، جو دونوں جہاں میں اس کی فلاح و کامرانی کی ضمانت ہے۔ جس کے احسانات جتنے زیادہ ہوں اس کے حقوق بھی اسی نسبت سے زیادہ ہوتے ہیں ۔حضور ﷺکے احسانات سب سے زیادہ ہیں لہذا آپ کے حقوق بھی سب سے زیادہ ہیں ۔ان حقوق میں سب سے بڑھ کر آپ کا یہ حق ہے آپ سے ایسی محبت کی جائے جو مخلوقات میں کسی اور سے نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آپ کے اس حق کی ادائیگی کی خصوصی تاکیدکی گئی اور آپ کوبنی نوع انسان میں محبت کا سب سے زیادہ مستحق ٹھہرایا گیا ہے۔[1] آپ کی محبت کو ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔[2] اللہ کی محبت آپ کی پیروی میں مضمر بتائی گئی ہے۔[3] آپ ﷺ کی نافرمانی کو آپﷺ کے انکار کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔[4]

 

گویاحضورکے حقوق اور آپ سے محبت وعقیدت میں سب سے بنیادی اور اہم چیز آپ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔لیکن بدقسمتی سے آج کے مسلمان آپ سے دعوی محبت تو کرتے ہیں مگر آپ کے اسوۂ حسنہ کو،جو زندگی کے ہر شعبے کے لیے مینارۂ نور ہے،کما حقہ اپنانے سے غافل ہیں ۔ دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدے داروں کی اپنی منصبی ذمے داریوں کے حوالے سے بھی بحرانی کیفیت نظر آتی ہے ۔نہ سرکاری وقت اور حیثیت کا صحیح استعمال ہے اور نہ فنڈز اور رقوم کا۔سرکاری عہدوں پر فائز حضرات بالعموم سرکاری مناصب اور ذرائع کو ذاتی مفادات کے لیے بے دریغ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سرکاری عہدے داروں کو حقوق مصطفی کے تقاضوں کی روشنی میں اپنے منصبی تقاضوں پر متوجہ کیا جائے۔

 

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

حقوق مصطفی کے تناظر میں سیرت طیبہ کے حوالے سے قبل ازیں متعدد جہات سے تحقیقی کام ہوا ہے۔مثال کے طور پرمجلہ "معارفِ اسلامی " علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جلد 8 شمارہ 2 میں ڈاکٹر علی اصغر چشتی صاحب کا مضمون بعنوان"حقوق مصطفی آیات اور احادیث کی روشنی میں ایک جائزہ"، مجلہ "علوم اسلامیہ" اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور 2014ءمیں ڈاکٹر افتخار احمد صاحب کا مضمون بعنوان"حقوق مصطفی قرآن و سنت کی روشنی میں " کراچی سے شائع ہونے والے مجلے "الایام" جلد 6، شمارہ 1 میں محمد سہیل شفیق کا مقالہ بعنوان " حقوق مصطفی کے تقاضے اور عامۃ الناس کی ذمہ داریاں"، ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "حقوق مصطفی ﷺاور توہین رسالت کی شرعی سزا"، وغیرہ ایسے عناوین کے تحت مقالات شائع ہوئے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد شہباز منج کی نگرانی میں محمد صفدر نے "معاصر مسلم معاشرے میں اطاعت رسول کے تقاضے اسوۂ صحابہ کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ " کے عنوان سے ایم فل علوم اسلامیہ کا مقالہ لکھا ہے۔ اس نوعیت کی کاوشوں میں آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی مذکورہ تعلیمات کے تناظر میں منصبی ذمے داریوں کے حوالےسے حقوق مصطفی کے تناظر میں زیر نظر نوعیت کا کام مفقود ہے۔ان سطور میں اس کمی کے پیش نظر سرکاری عہدے داروں کے فرائض کو مذکورہ تعلیمات و اسوۂ نبوی کے تناظر میں موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔

 

مفروضۂتحقیق

اس تحقیقی مقالے میں مفروضۂ تحقیق یہ ہے کہ ہمارے یہاں اہلِ مناصب اپنے مناصب، اختیارات، ذمے داریوں اور ذرائع کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں حقوقِ مصطفی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

 

منہجِِ تحقیق

مقالہ ہذا میں اہلیتِ منصب،مسؤلیت وجواب دہی،حبِ جاہ ومال سے احتراز اور زہد وبے نفسی ،عدالت ودیانت اور اقرباء پروری سے گریز سے متعلق آپ کی فراہم کردہ تعلیمات ، اسوۂحسنہ اور آپ کے تیار کردہ افرادِ معاشرہ و صاحبانِ مناصب کے نمونوں کی روشنی میں بحث کر کے نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔

 

اہلیتِ منصب کا لحاظ

اتباع ومحبت ِرسول کا تقاضا ہے کہ سرکاری عہدوں پر اہل افراد کا تعین ہو۔اس چیز کا لحاظ انتخاب کرنے والےاور انتخاب کے امیدوار دونوں کو چاہیے،نہ امیدوار خود کوکسی ایسے کام کے لیے پیش کرے اور اس کے لیے سفارشوں اور رشوتوں کا سہارا لے جس کا وہ اہل نہیں اور نہ اس کا انتخاب کرنے والے اسے ان بنیادوں پر منتخب کریں۔اہلیتِ منصب کے معاملے میں اسوۂ نبوی ﷺسے اس درجہ حساسیت کی تعلیم ملتی ہے کہ منصب طلب کرنے سے گریز کیا جائے۔روایات کے مطابق بعض افراد نے حضور سے عہدہ طلب کیا تو آپ نے فرمایا:

 

"إنا ، واللهِ ! لا نولِّي على هذا العملِ أحدًا سأله"[5]

 

"واللہ !ہم اپنا یہ معاملہ طلب کرنے والوں کے سپرد نہیں کریں گے ۔"

 

عہدے طلب کرنے سے احتراز کی تعلیم فی الواقع اس حقیقت کو مستحضر رکھنے کے لیے دی گئی ہے کہ عہدہ بہت بھاری ذمہ داری ہے ۔اس کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر یقین کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے پورا کرنا ہر دم آدمی کے پیش نگاہ رہنا چاہیے۔ یہ مقصد صحیح معانی میں تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب اللہ کی مدد شاملِ حال ہو اور اللہ کی مدد اس کو حاصل ہوتی ہے جو عہدوں کی لالچ اور ہوس میں مبتلا نہیں ہوتا ،جیسا کہ حضورﷺ کے اس فرمان سے واضح ہے:

 

"لا تسألِ الإمارةَ، فإنك إن أُعْطِيتَها من غيرِ مسألةٍ أُعِنْتَ عليها، وإن أُعْطِيتَها عن مسألةٍ وُكِلْتَ إليها."[6]

 

"امارت کا مطالبہ نہ کرو۔اگر یہ تمہیں بن مانگے مل گئی تو اس پر (اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی لیکن اگر مانگنے سے ملی تو تم اس کے حوالے کر دیئے جاؤ گے( یعنی اللہ کی مدد شاملِ حال نہ رہے گی)۔"

 

لہذا آئیڈیل صورت تو یہی ہےکہ عہدے سپرد کرنے والے استحقاق رکھنے والوں کو بلا طلب عہدے دیں ،تاہم احوال و ظروف کے مطابق اس کا مطالبہ بھی ہو سکتا ہے،ہاں اس میں غرض و ہوس اورملی وقومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی منفعت کسی صورت قابل قبول نہیں۔[7]گویا عہدہ طلب کرنے کی صورت درپیش ہو تو آدمی ذہن نشین رکھے کہ یہ بہت بڑی آزمائش اورغیر معمولی ذمہ داری ہے ، اگر میں نے اسے حق کے بغیر حاصل کیااوراس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا تو مجھ کو سخت رسوائی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ارشاد نبوی ہے :

 

"وإنها أمانةٌ، وإنها يومَ القيامةِ خزيٌ وندامةٌ إلا من أخذها بحقِّها وأدَّى الذي عليهِ فيه"[8]

 

"یہ(منصب وعہدہ)ایک امانت ہےاور قیامت کے روز یہ رسوائی و ندامت کا باعث ہوگا الا یہ کہ آدمی نے اسے حق کی بنا پر حاصل کیااوراس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کیا ۔"

 

کسی عہدے پر فائز شخص کو عہدوں کے لیے انتخاب کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عہدوں پر اہل افراد کا تعین رسول اللہ کا حق ہے کہ حدیث میں آپ نے عہدوں پر نااہل کے تعین کو اللہ اور رسول سے خیانت قرار دیا ہے ۔آپ ﷺ کا فرمان ہے:

 

"جو مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس نے کسی شخص کو منصب سپرد کیا درآنحالیکہ اس عہدے کے لیے اس سے بہترشخص موجود تھا، تو اس نے اللہ اور رسول سے خیانت کا ارتکاب کیا۔"[9]

 

ایک اور مقام پر فرمایا:

 

"جس نے کسی جماعت پر کسی شخص کو ذمہ داری سونپی اس حال میں کہ اس جماعت میں اس سے زیادہ موزوں اور بہتر شخص موجود تھا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اوراہل ِایمان سےخیانت کی۔"[10]

 

عہدوں پر غیر اہل افراد کا تعین کتنا نقصان دہ اور حضورؐ کے لیے کس درجہ تکلیف کا باعث ہے ،اس کا اندازہ اس ارشادِ نبوی سے لگایا جا سکتا ہے:

 

"جب معاملات نا اہلوں کے سپرد ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔"[11]

 

لہذا سرکاری عہدوں پر فائز حضرات کو چاہیے کہ اہلیتِ منصب کے ضمن میں تعلیمات و اسوۂ نبوی پر عمل کرتے ہوئے حقوق مصطفی کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچیں۔

 

مسٔولیت وجواب دہی

حضور ﷺ نے مسٔولیت و جواب دہی کا تصور پیش فرمایا۔آپ نے تعلیم دی کہ آدمی اس دنیا میں شتر بے مہار نہیں کہ جو جی میں آئے کرتا پھرے ،کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ۔وہ اس دنیا میں نہ تو خود بخود پید اہو گیا ہے اور نہ ہی غیر ذمہ دار و غیر مسٔول ہے۔اس کو اس کائنات کے خالق و مالک پروردگار نے بھیجا ہے اور ایک خاص کردار ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اسے اپنے رب کے حضور اپنے دنیوی کردار سے متعلق جواب دینا ہے۔خالقِ کائنات اللہ تعالیٰ سمیع و بصیرذات ہے ۔اسلام کے نقطۂ نظر سے انسان کا ہر ہر عمل ہر گھڑی اس کی نگاہ میں ہے،حتی کہ وہ نگاہوں کی خیانت اور دلوں میں چھپی باتوں سے بھی با خبر ہے۔[12] انسان سے بروز ِقیامت اس کے کانوں ،آنکھوں اور دل وغیرہ سب سے متعلق سوال کیا جائے گا۔[13] آپ ﷺکا ارشاد ہے:

 

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا، وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔"[14]

 

"ہر شخص اپنی رعایا سے متعلق جواب دہ ہے۔چنانچہ امام،جو لوگوں کا نگہبان ہے،وہ اپنی رعایا سے متعلق جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور وہ اپنی رعایا سے متعلق جوابدہ ہے۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے اور ان سے متعلق جوابدہ ہے۔ غلام اپنے مالک کے مال پر نگران ہے اوراس سے متعلق جوابدہ ہے۔خبردار!تم میں سے ہر شخص نگہبان ہےاور ہر ایک اپنی رعایا کے بارے میں جوابدہ ہے۔"

 

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

 

"لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ۔"[15]

 

"قیامت کے دن بنی آدم کے قدم آگے نہ بڑھ سکیں گے،یہاں تک کہ پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے،اس کی عمر سے متعلق کہ کن کاموں میں صرف کی اور اس کی جوانی سے متعلق کہ کہاں پرانی کی اور اس کے مال سے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟"

 

مسئولیت و جواب دہی کی اس لاجواب تعلیم کے ساتھ ساتھ آپؐ کی عملی زندگی بھی اس کا کامل مظہر تھی۔آپؐ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ آپؐ ہر کام جوابدہی کے نہایت گہرے احساس کے تحت انجام دے رہے ہیں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض سونپا گیا:

 

"اے اللہ کے رسول !جو کچھ تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے(دوسرے لوگوں تک) پہنچاؤ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کاپیغام نہیں پہنچایا۔"[16]

 

آپؐ نے اپنی اس منصبی ذمہ داری کو انتہائی خوش اسلوبی سے پورا فرمایا۔اس حوالے سے آپؐ کو جن مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑاان کے تصور سے بھی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،مگر آپؐ دعوت ِ حق کی ذمہ داری سے سرِ مو پیچھے ہٹے اور نہ اس ضمن میں کسی کوتاہی اور مداہنت کا مظاہرہ کیا۔ہجومِ بلا اور سخت نا مساعد حالات کے باوصف آپؐ کس تڑپ، لگن ،محنت اوراحساسِ ذمہ داری و مسؤلیت سے کارِ منصبی انجام دیتے تھے اس کا اندازہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے لگایا جا سکتا ہے ، جو اس ضمن میں آپؐ کی حساسیت کے حوالے سے آئے ہیں۔ ان ارشادات کی رو سے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچانے کے حوالے سے اپنے منصب کے بارے میں آپﷺ اتنے حساس تھے کہ آپؐ کو اپنے مخاطبین کے ایمان نہ لانے کا شدید رنج ہوتا تھا۔[17] اور اس رنج و غم کے مارے [18]لگتا تھا کہ آپ ﷺ اپنی جان ہی دے ڈالیں گے۔[19]

 

سیرتِ اطہر سے مسٔولیت وجوابدہی کے گہرے احساس کی اسی قبیل کی ایک اور نمایاں گواہی حضور کے خطبہ حجة الوداع کے ان الفاظ سے ملتی ہے ،جوآپؐ نے اس خطبے کے آخر میں حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرما ئے۔ان میں اپنے مشن کی تکمیل پر لوگوں کو اپنی مساعیِ ابلاغ پر گواہ بنانے میں آپؐ کا یہ منشا نہایت واضح ہےکہ میں پروردگارِعالم کے حضور پیش ہونے والا ہوں،لہذا دیگر شواہد کے ساتھ ساتھ میرے پاس اپنے مخاطبین کی پر زور شہادت بھی ہونی چاہیے۔نیزیہ کہ جب ان سے میرے ابلاغِ پیغامِ خداوندی سے متعلق بروزِقیامت سوال ہو تووہ میرے حق میں جواب دے سکیں۔آپؐ نے ارشادفرمایا:

 

"تم لوگوں سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا۔تم کیا جواب دو گے؟"لوگوں نے جواب دیا:"ہم گواہی دیں گےکہ آپ نے بلاشبہ پیغامِ(حق)پہنچا دیااور(امانت)ادا کردی اور(لوگوں کو)نصیحت کر دی۔"بعد ازاں آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا:"اللهُمَّ اشْهَدْ، اللهُمَّ اشْهَدْ" اے اللہ تو گواہ رہنا! ،اے اللہ تو گواہ رہنا!"[20]

 

خلفائے راشدین حضور ﷺ کے تربیت یافتہ تھےاور اور ان کی شخصیت آپ کے اُسوۂ و تعلیم کی عکاس تھیں۔یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ساتھ ساتھ ان کی سنت کی پیروی کی تاکید فرمائی۔[21] بنا بریں ان کی سیرت وتعلیمات سےرہنمائی بھی دراصل آپ ﷺ ہی کی سیرت و تعلیمات سے رہنمائی ہے۔لہذاموضوع زیرِ بحث کے تناظر میں ان کے رویے اورطرزِ عمل کابھی کچھ تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

 

خلفائے راشدین کواللہ کےحضور جواب دہی کا اس درجہ گہرا احساس تھا کہ وہ تمنا کیا کرتے کہ کاش وہ کوئی ایسی چیز ہوتے جس سےحساب نہ لیا جاتا ہو۔حضرت ابو بکر ؓ باغ میں درخت کے سائے میں بیٹھے ایک جانور پر رشک کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 

"طوبی لك یا طیر، تأکل من الشجر وتستظل بالشجر، وتصیر إلی غیر حساب، یا لیت أبا بکر مثلك"[22]

 

"اے جانورتجھے مبارک ہو!تو درختوں کے پھل کھاتا اور ان کے سائے میں آرام کرتا ہےاور تجھے کوئی حساب نہیں دینا،کاش ابوبکر تجھ سا ہوتا(کہ حشر کے محاسبے سے بچ رہتا)"

 

حضرت عمرؓ زمین سے ایک تنکا اٹھاتے اور فرماتے کہ کاش میں یہ تنکا ہوتا،کاش میں کوئی چیز نہ ہوتا،کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔آپؓ محاسبے کے ڈر سے اتنا روتے تھےکہ چہرۂ مبارک پر دو سیاہ لکیریں پڑ گئی تھیں۔نفس کا عجیب رقت انگیز انداز سے محاسبہ کیا کرتے۔اکیلے میں اپنےنفس کو کوستے اور کہتے :"عمر!اللہ سے ڈر، وہ تجھے عذاب میں مبتلا کرے گا۔" ایک دفعہ لوگوں میں مشک کندھوں پر اٹھا لی ،لوگوں نے سبب پوچھا تو گویا ہوئے:"میرانفس مجھے اچھا لگنے لگا تھا،میں نے چاہااسے ذلیل کروں۔" [23]

 

مسؤلیت وجواب دہی کے اس احساس نے خلفائے راشدین کو احساس ِمسؤلیت و جوابدہی کے حوالے سےدنیا کی عدیم المثال شخصیات بنا دیا۔انہوں نے مال ودولت دنیا کو میل کچیل سمجھا، اورایک ایک درہم اور ایک ایک دینار تک کی ذمہ داری کو پورا کیا۔[24]

 

خلیفۂ اول کے پاس وفات کےوقت ایک اونٹ ،ایک حبشی غلام ،ایک پیالہ اور ایک پرانی چادر ضروری استعمال کی کل کائنات تھی، ان معمولی چیزوں سے متعلق بھی حضرت عائشہؓ کو وصیت کی کہ یہ مسلمانوں کا مال ہےجس سے میرے متولی ہونے کی حیثیت سے ہم فائدہ اٹھاتے تھے،اب یہ چیزیں عمر کے پاس پہنچ جانی چاہیئیں۔[25]

 

خلیفۂدوم انسان تو ایک طرف جانوروں کے حقوق سے متعلق اس قدر حساس تھےکہ اونٹ کےزخم کو اپنے ہاتھ سے دھوتے اور صاف کرتےاور فرماتے: مجھے ڈر ہے کہ تیری اس تکلیف سے متعلق مجھ سے روز ِحشر محاسبہ نہ ہو۔[26]

 

آج کے سرکاری عہدے داروں کو ،سچ یہ ہے کہ، مذکورہ نوعیت کی تعلیمات سے الا ماشاءاللہ ہی مَس ہے۔گویا انھیں نہ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور نہ عوام ہی کو ان سے پرسش کاحق ہے۔ مسؤلیت و جوابدہی کے حوالے سے حقوق مصطفی کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں تعلیمات ِ نبوی اور اسوۂ ہائے رسول و اصحاب ِ رسول سامنے رہیں اور ان پر عمل کا جذبہ بیدار رہے۔اگر یہ صورت پیدا ہو جائے تو یہ ممکن نہیں کہ حضورﷺ اور صحابۂکرامؓ کی محبت کا دم بھرنے والے مسلمان صاحبان ِ مناصب اس نوع کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ،جیسا کہ لمحہ موجود میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔

 

حبِّ جاہ و مال سے احترازاورزہدوبےنفسی

حبِّ جاہ وحشمت، ہوسِ مال ودولتِ دنیا، بلندمعیارِزندگی، پروٹوکول اور دوسروں سے ممتازو منفردنظرآنے کی تمنا وہ چیزیں ہیں، جو کسی سرکاری منصب پر فائز مسلمان کو حقوق مصطفی سے غافل کرکےاپنے منصب اور عہدے کے ذمہ دارانہ استعمال میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ چیزیں نہایت گھناؤنے اخلاقی امراض ہیں اور آدمی کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جائز وناجائز کی پرواہ کئے بغیر جیسے کیسے ممکن ہو زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرے،عالیشان رہائشیں بنائے،قیمتی گاڑیاں رکھے ،زرق برق اور مہنگے لباس پہنے،ماتحتوں اوراپنے سے چھوٹے ملازمین کو کم تر اور حقیر سمجھے،کھانے پینے،اٹھنے بیٹھنے اور میل ملاپ میں شاہانہ طرزوانداز اپنائےاور بے جا اڑائے،سکیورٹی اہل کاروں اور گاڑیوں کے جلو میں چلے،لوگوں سے ناروا اور غیرواجب سلام وسلیوٹ اور احترام و اکرام کی توقع رکھے۔اگر ہم اپنے ہاں کے سرکاری ملازمین پر نگاہ ڈالیں تو وہ "اپنی اپنی حیثیت کے مطابق"بالعموم ان امراض میں بری طرح مبتلا نظر آتےہیں ۔رسول اکرم ﷺ نے اپنی تعلیمات اور اسوۂ کے ذریعے ان تمام امراض کا نہایت شافی علاج مہیا کر دیا ہے۔

 

آپؐ نے تعلیم دی ہے کہ یہ دنیاانتہائی مختصر اور ماندگی کا وقفہ ہے،آدمی کو بہت جلد اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے دنیوی اعمال کا حساب دینا ہے۔وہ شخص انتہائی نادان ہے جواپنے اس نہایت ہی قیمتی اور قلیل وقت کو اخروی ولافانی ذخیرے کی بجائے عارضی اور فانی دنیاوی اندوختے کی نظر کر دے،جو بے انتہا زمانوں کے ناقابلِ تصور عیش و نشاط کی قیمت پر چند برسوں کے معمولی تعیشات خرید لے،جو غیر مختتم آلام ومصائب کے بدلے،لمحاتی خوشیوں کا سودا کر لے،جو دنیا،اس کے مال ودولت اور جاہ و حشمت کی متاع ِقلیل سے دھوکا کھا جائے۔سو نادانی سے بچیں اور ہوش کے ناخن لیجیے۔ان لوگوں کی مانند نہ ہو جائیں جوآخرت سے بےخبر ،دنیا کے ظاہر پر مرے جاتے ہیں۔[27]

 

دوسروں کی دیکھا دیکھی کثرت کی ہوس میں مبتلا نہ ہوں بلکہ ان کے انجامِ بد پر نگاہ رکھ کر اپنے نیک انجام کا سامان کیجئے[28] کہ آخرت پر ایمان،[29]تقوی[30] اور دور اندیشی [31]کا یہی تقاضا ہے۔ایک مسلمان کودنیا سےبے رغبتی اور زہد کا رویہ اپنانا چاہیےاوردنیا سے لو لگا کر نہ بیٹھ جا نا چاہیے۔آپ ﷺنے فرمایا:

 

"كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ"[32]

 

"دنیا میں ایسے رہو جیسے ایک اجنبی یا مسافر۔"

 

"عُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ القُبُور"[33]

 

"خود کو اہلِ قبور میں شمار کرو۔"

 

"وَاللهِ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ… فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ؟"[34]

 

"اللہ کی قسم!دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے …پھر دیکھے کہ کتنا پانی لائی ہے؟"

 

"لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاء"[35]

 

"اگر دنیا (کی قدر)اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو پانی کاایک گھونٹ نہ پلاتا۔"

 

"مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا"[36]

 

"جنت میں کوڑے کے برابر جگہ دنیا ما فیہاسے بہتر ہے۔"

 

"فَوَاللَّهِ مَا الفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا، كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُلْهِيَكُمْ كَمَا أَلْهَتْهُمْ"[37]

 

"واللہ !مجھے تمہارے معاملے میں فقر و تنگ دستی کا ڈر نہیں بلکہ اس بات کا ڈر ہے کہ دنیاتم پر اس طرح فراخ کردی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی۔سو تم بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرنے لگو جیسے پہلے لوگ کرنے لگ گئےتھےاور تمہیں بھی اسی طرح غافل کردے جیسے ان کو کیا تھا۔"

 

آپ ﷺ خودزہد اور دنیا سے بے رغبتی میں اپنی مثال آپ تھے۔آپؐ نےنہایت سادہ اور فقیرانہ زندگی گزاری،اوریہ بات واضح رہے کہ آپؐ کا یہ فقر وزہداس وجہ سے نہ تھا کہ دنیوی جاہ وحشمت اور مال ودولت میسر نہ تھے،بلکہ رضائے الہی کے لیے اپنی خوشی سے اختیار کردہ تھا، آپؐ ذرا سی خواہش کرتے تو یہ سب کچھ آپؐ کے قدموں میں ہوتا۔ اس ضمن میں سیرتِ اطہر کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجیے۔ آپؐ کا فرمان ہے:

 

"عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي لِيَجْعَلَ لِي بَطْحَاءَ مَكَّةَ ذَهَبًا، قُلْتُ: لَا يَا رَبِّ وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا وَأَجُوعُ يَوْمًا فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ، وَإِذَا شَبِعْتُ شَكَرْتُكَ"[38]

 

"میرے اللہ نے مجھے یہ پیشکش فرمائی کہ وہ میرے لیے وادئ مکہ کےتمام سنگریزوں کوسونے کا بنا دیتا ہے۔میں نے عرض کیا: نہیں پروردگار!میں توچاہتا ہوں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن سیر ہوں۔ جب بھوکا ہوں تو تیرے حضور گڑگڑاؤں اور تیرا ذکر کروں اور جب سیر ہوں توتیرا شکر ادا کروں۔"

 

حضرت عبد اللہؓ فرماتے ہیں:

 

"نَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ:مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا"[39]

 

"رسول اللہ ﷺ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر سو رہے تھے۔جب آپؐ اٹھے تو آپؐ کے پہلو پر(چٹائی کے) نشانات تھے۔ہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ!ہم آپؐ کے لیے پلنگ بنا دیتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا:مجھے دنیا سےکیا!میں تو دنیا میں ایک سوار کی طرح ہوں کہ کسی درخت کے سائےمیں ٹھہرتا ہے،پھر کچھ دیر آرام کرتا ہے،پھر اسے چھوڑ کر(اپنی منزل کو)چل دیتا ہے۔"

 

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ بعض صحابہ کے ساتھ حاضر ہوئے اورآپ ﷺ کے جسم پر اس طرح کے نشانات دیکھ کر رو دیئے۔حضور ﷺنے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نےعرض کیا: حضور، کیوں نہ روؤں!قیصر وکسریٰ عیش اڑا رہے ہیں اورآپؐ اس حال میں ہیں۔آپ ﷺنے فرمایا:

 

"یا عمر أما ترضی أن تکون لهم الدنیا ولنا الآخرة"[40]

 

"اے عمر! کیا تمہیں پسند نہیں کہ قیصر وکسری کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت۔"

 

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

 

"لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لاَ تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلاَثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ"[41]

 

"اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابرسوناہو تو مجھے پسند نہ آئے کہ تین دن گزرنے کے بعد اس میں سے کچھ بھی میرے پاس ہو۔الاّ یہ کہ قرض ادا کرنے کی غرض سے کچھ رکھ چھوڑوں۔"

 

آپؐ نے دعا فرمائی:

 

"اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ المَسَاكِينِ يَوْمَ القِيَامَةِ"[42]

 

"اے اللہ!مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور قیامت کے دن طبقۂ مساکین کے ساتھ میر احشر فرما۔"

 

ایک روایت کے مطابق:

 

"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبِيتُ اللَّيَالِي المُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ"[43]

 

"رسول اللہ ﷺ مسلسل کئی راتیں بھوک کی حالت میں گزار دیتےاور آپؐ کے اہل کو رات کا کھانانہ ملتااور ان کی روٹی اکثر جَو کی ہوتی۔"

 

حضورﷺ کے زہد او ربےنفسی کا عالم یہ تھا کہ جو بھی مال ودولت ہاتھ آتا راہِ خدا میں خرچ کر دیتے۔آپؐ سب انسانوں سے زیادہ سخی تھے۔رمضان المباک میں آپؐ کی سخاوت تیزی میں ہو ا کی مانند ہوتی ۔[44]زبانِ مبارک سے کسی سوال کے جواب میں لفظ "نہیں "ادا نہیں ہوا۔[45] اپنے پاس کچھ بچا کر نہ رکھا۔ ترکے میں کوئی درہم چھوڑا نہ دینار،اونٹ چھوڑا نہ بکری۔[46] اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا توبقول عائشہ صدیقہؓ، آپؐ کے کاشانۂ اقدس کا اندوختہ ایک وسق جَو تھے۔[47]

 

آپؐ سرورِ کائنات تھے ،لیکن خود کودوسروں سے بڑا اور ممتاز ظاہر کرنے سے مطلق گریز کیا۔ انتہائی تواضع اور سادگی شعار تھی ۔صحابہ کے ساتھ مل جل کر بالکل انہی کی طرح رہتے۔لوگوں کو اس امر سے روکتے کہ آپؐ کی تشریف آوری پر کھڑے ہوں۔[48] آپؐ کے بیٹھنے کے لیے کوئی الگ جگہ مخصوص نہ تھی ۔باہر سے آنے والا کوئی اجنبی شخص آپؐ کو صحابہ کے درمیان سے الگ شناخت نہ کر سکتا۔صحابہ کے ساتھ مل کر اپنے حصے کا کام کرتے۔مسجدِ قبا اور مسجدِ نبوی کی تعمیر اور غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں مزدوروں کی طرح صحابہ کے ساتھ برابر کام کیا۔اپنے کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے۔جوتے گانٹھ لیتے،کپڑوں کو پیوند لگالیتے،بازار سے سودا سلف خرید لاتے،بکری کا دودھ دوہ لیتے۔[49]اور تو اور غلاموں اور لونڈیوں سے بھی خود کو ممتاز و منفرد نہ رکھتے۔حتی کہ خادموں کے کام خود کر دیتے۔کسی خادم کو کبھی اف تک نہ کہا نہ کسی فقیر کو اس کے فقر وفاقہ کی بنا پر کبھی حقیر سمجھا۔

 

اپنے لیے امتیاز کی نفی کے حوالے سے یہاں یہ مثال پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ سفر میں ایک بکری ذبح کرکے پکانے کا مشورہ ہوا ۔مختلف افراد نے مختلف کام اپنے ذمے لے لیے۔آپؐ نے فرمایا: میں ایندھن اکٹھا کرتا ہوں۔صحابہ نے عرض کیا :حضور! ہم آپؐ کا کام خود انجام دیں گے۔ آپؐ نے فرمایا :مجھے معلوم ہے کہ تم میرا کام انجام دے دو گے،لیکن میں آپ لوگوں سے ممتاز نہیں ہوناچاہتا، اللہ تعالیٰ اس بات کو نا پسند کرتا ہے کہ آدمی خود کو اپنے ساتھیوں سے نمایاں اور منفرد خیال کرے۔[50]

 

آپؐ کی سادگی،تواضع اوربے نفسی اس قدر اعلی درجے کی ہےکہ مخالفین کوبھی اسے تسلیم کرتے اور اس ضمن میں آپؐ کی عظمت کا اقرار کرتے ہی بنی ہے۔جرمن مستشرق گسٹاوویل لکھتا ہے:

 

"آپﷺ اس درجہ منکسرالمزاج تھے کہ صحابہ سے اپنے لیے کسی خصوصی توقیر واحترام کو پسند نہ کرتے، نہ ہی اپنے غلام کو کسی ایسے کام کا حکم دیتے جو آپؐ خود انجام دے سکتے تھے۔آپؐ اکثر بازار میں سودا سلف خریدتے، اپنے کمرے میں اپنے کپڑوں کو پیوند لگاتے، اپنے صحن میں بکری کا دودھ دوہتے نظر آتے۔ آپؐ ہر وقت ہر کسی کی دسترس میں تھے۔"[51]

 

خلفائے راشدین نے تعلیمات و اسوۂ رسول کے عین مطابق حبِّ جاہ و مال سے احتراز،سادگی، تواضع اور زہد وبے نفسی کا رویہ اپنایا۔حضرت معاویہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کا معاملہ یہ رہا کہ انھوں نے دنیا کی خواہش کی اور نہ دنیا نے ان کی،اور عمرؓکی دنیا نے توخواہش کی مگر انھوں نے اس کی مطلق خواہش نہیں کی، جب کہ ہم اس میں بری طرح مبتلا ہیں۔[52]

 

خلیفۂ اول خلیفہ بننےسے پہلے قبیلے کی لڑکیوں کو ان کی بکریوں کا دودھ دوھ دیتے تھے،خلیفہ بننے کے بعد اس خدمت سے دستکش نہ ہوئے۔حضرت عمرؓ اطرافِ مدینہ میں ایک بوڑھی نابینا عورت کی خدمت کے لیے جایا کرتے ،لیکن دیکھتے کہ اس کاکام پہلے ہی کوئی شخص کرگیا ہوتا۔کئی دفعہ کوشش کی کہ اس سے پہلے پہنچ کر خدمت انجام دیں مگراس سے سبقت نہ لے جا سکے۔ایک رات تاک میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں یہ بندۂ خدا کون ہے؟ دیکھا تو کھلا کہ یہ مردِ درویش خلیفۂوقت ابو بکر صدیق ؓ ہیں۔[53]

 

حضرت عمرؓ کی درویشی،تواضع اور زہد و سادگی کا عالم یہ ہے کہ بدن پر بارہ پیوند لگا کُرتہ ہے،سر پرپھٹا پرانا عمامہ ہے،پاؤں میں ٹوٹی ہوئی جوتی ہے،کاندھے پر مشک اٹھائے بیواؤں کے گھروں میں پانی بھر رہے ہیں،تھک گئے ہیں تو مسجد کے ایک گوشے میں فرشِ خاک پر لیٹ رہے ہیں۔مکہ سے مدینہ کا سفر ہے، لیکن خیمہ یا شامیانہ کوئی نہیں،کہیں ٹھہرے ہیں تو کسی درخت پر چادر ڈال کر اس کے سائے میں آرام فرما لیا ہے۔

 

احنف بن قیس رؤسائے عرب کے ہمراہ ملاقات کو آئے ہیں اور خلیفۂ وقت آستیں چڑھائے اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہیں۔احنف کو دیکھ کر کہتے ہیں:بیت المال کا اونٹ بھاگ گیا ہے،اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کیجیے،تمہیں معلوم ہے ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق شامل ہے۔ایک شخص کہتا ہے:آپ اونٹ کی تلاش میں کیوں تکلیف فرما رہے ہیں،کسی غلام سے کہیےڈھونڈ لاتا ہے۔وقت کی عظیم ترین سلطنت کا سربراہ گویا ہوتاہے:"اَیُّ عَبْدٍ اَعْبَدُ مِنِّی؟"مجھ سے بڑھ کر غلام کون ہے؟"[54]

 

اگرسرکاری عہدے دارحقوق مصطفی کا لحاظ رکھتے اور آپﷺ اور آپ ﷺکے خلفاءکی سیرت و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے حبِّ جاہ و دنیا،امتیاز پسندی اورغرورو تکبر ترک کردیں اور تواضع،انکسار،سادگی اورزہد و بے نفسی اپنائیں تو وہ سرکاری عہدوں کے حوالے سے نہایت ہی ذمہ دارانہ رویے کے حامل ہو جائیں۔جو ملازم متواضع،سادہ اور منکسر المزاج ہو گا وہ اپنے منصب کومعاشرتی سٹیٹس کی مزعومہ بلندی کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ماتحتوں کو زرخرید غلام،حقیر اور کمینہ نہیں سمجھے گا۔ان میں گھل مل کر رہے گا۔ان کے مسائل کو سمجھے گا اور انہیں حل کرے گا۔ کام سے جی چرانے،ٹال مٹول،وقت گزاری وغیرہ کے رویے کو خلافِ تہذیب سمجھتے ہوئےاپنے فرائضِ منصبی کو بطریقِ احسن ادا کرے گا۔جس ملازم کی نگاہوں میں دنیا اور اس کا مال ومنال بے حیثیت ہو جائے گا وہ سرکاری ذرائع کے ذریعے دولت جمع نہیں کرے گااوراسے سرکار کی مطلوبہ جگہوں پر استعمال کرنے میں ذرا پس وپیش سے کام نہ لےگا۔

 

عدالت ودیانت

نا انصافی وبد دیانتی بھی سرکاری عہدوں کے ضمن میں حقوق مصطفی کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔سرکاری مناصب اور ذرائع امانت ہوتے اورعدل و امانت کا تقاضا کرتے ہیں۔ایک بد دیانت اور غیر منصف مزاج سرکاری ملازم اپنے فرائض کی صحیح صحیح ادائیگی سے جی چراتا، اپنے دائرہ اختیار میں ظلم کا مرتکب ہوتا اورنتیجتاً بمصداق"ملک کفر سے باقی رہ جاتا ہے ، ظلم سے باقی نہیں رہتا"[55] اپنے ادارے اور ملک و قوم کے زوال و خسران کا باعث بنتا ہے ۔

 

نبی آخرالزمان ﷺنے اپنی سیرت اور تعلیمات کےذریعےاس بات پر بہت زور دیا کہ لوگ عادل ،منصف مزاج اور صاحبِ امانت و دیانت بن جائیں۔کوئی شخص اپنے دائرہ اختیار میں کسی پر ظلم کا مرتکب ہو اور نہ خود کو تفویض کی جانے والی امانت میں خیانت کرے۔آپ نےپیغام دیا کہ جس کو امانت سپرد کی گئی ہو وہ خداخوفی سے کام لیتے ہوئے اسے ادا کرے۔[56] امانتیں اہلِ امانت تک پہنچنی چاہیئیں، جو حَکم ہووہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے۔[57] دشمن سے بھی نا انصافی نہیں ہونی چاہیے۔[58] آپؐ نے عدل کو قیامت کی ہولناک گرمی میں عرش ِالہی کے سائے میں جگہ پانے کا سب سے پہلاوسیلہ بتایا۔[59] دیانتداری پر اس قدر زور دیاکہ اسےمعیار ِایمان قرار دے دیا۔ارشاد فرمایا:

 

"لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ"[60]

 

"جس میں امانت نہیں اس میں (گویا ) ایمان ہی نہیں۔"ٍ

 

آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ عدل و دیانت کا اعلی ترین نمونہ ہے۔آپؐ سب سےبڑھ کر عادل اورسب سے بڑھ کر دیانتدار تھے۔[61] آپؐ کے مثالی عدل ودیانت کی چند مثالیں دیکھیے:

 

خیبر پر مسلمانوں کے قبضے،یہودیوں سے صلح اوروہاں کی زمین مجاہدین میں تقسیم ہو جانے کے بعد عبداللہ بن سہل اور محَیِّصَہ کسی کام سے خیبر گئے۔وہاں وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔اسی دوران کسی نے عبداللہ بن سہل کو قتل کردیا۔محیصہ نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ ان کی لاش ایک گڑھے میں پڑی تھی۔محیصہ اور عبداللہ بن سہل کے دیگر عزیزوں نے حضور کی خدمت میں استغاثہ پیش کیا کہ یہودیوں نے ان کے بھائی کو قتل کر دیا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا :کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ یہ کام یہودیوں ہی کا ہے؟ انھوں نے کہا ہم نے آنکھوں سے نہیں دیکھا، اس لیے قسم تو نہیں کھا سکتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: تو یہود سے قسم لے لو! انھوں نے عرض کیا:حضور!کفار کی قسم کیسے لے لیں؟ آپ ﷺنے بیت المال سے خون بہا ادا کر دیا۔[62]

 

خیبر میں اس وقت یہودی ہی تھے، ظاہر ہےکہ یہ کام ان ہی میں سے کسی کا تھالیکن آپؐ نے عد ل کے تقاضوں کو مکمل طور پر ملحوظ رکھااورعینی شاہد موجود نہ ہونے کی بنا پریہودیوں جیسے مخالفین سے بھی کچھ تعرض نہ کیا۔

 

قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت چوری کی مرتکب ہوئی ۔حضور ﷺنے حدوداللہ کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ لوگوں نےقریش کی عزت ومرتبت کے پیش نظر اسامہ بن زیدؓ،جن سے حضور کو بہت محبت تھی، کے ذریعے اس عورت کو سزا سے بچانے کے لیےسفارش کی تو حضورؐ نےاسے سختی سے مسترد کرتے ہوئے فرمایا:

 

"فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَإِنِّي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا"[63]

 

"تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب کوئی معززشخص چوری کرتا تو اسےچھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد لاگو کرتے،اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔"

 

امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ قبل از بعثت ہی "الامین" کے لقب سے ملقب ہو گئے تھے۔خانہ کعبہ میں حجرِ اسود کو نصب کرنے پر جب قریش میں شدیدجھگڑا کھڑا ہوا اور ایک خوفناک جنگ کے بادل چھانے لگے تو مشورہ ہوا اور سب لوگ اس پر متفق ہوگئے کہ جو آدمی حرم میں پہلے داخل ہو اس کا حَکم مان لیا جائے۔ پہلے حضور ﷺ تشریف لے آئے۔آپؐ کو دیکھا تو پکاراٹھے:

 

"هذا الأمین، رضینا، هذا محمد"

 

"یہ تو امین آ گئے ،ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں،یہ محمد ہیں۔"

 

آپؐ کا فیصلہ عدل و دیانت اورحکمت کا بے مثال نمونہ تھا۔آپؐ نے ایک کپڑامنگوایا۔حجر ِاسود کو اپنے دست مبارک سے اس کپڑے میں رکھا اور فرمایا کہ تمام قبائل اس کے کو نوں کو پکڑ کر اٹھائیں۔ جب حجرِ اسود اپنی جگہ تک بلند ہوا تو آپ ﷺ نے اسے پکڑ کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔[64]

 

کفاراہلِ مکہ آپؐ کو شہید کرنے کی غرض سے آپؐ کے کاشانۂ اقدس کے گرد جمع تھے،ہجرت ِ مدینہ کے لیے اذنِ خداوندی آ چکا تھا، مگر آپؐ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کسی دشمنِ جاں کی امانت بھی ادا ہونے سے رہ جائے۔چنانچہ سفرِ ہجرت سے پہلےحضرت علی کو اپنے بستر پر لیٹنے کو کہا توحکم دیا کہ اہلِ امانت کو ان کی امانتیں لوٹائیں۔[65]

 

حضور ﷺ کے عدل و دیانت کے معیارِ عالی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آپؐ کے دشمن بھی آپؐ کو سب سے بڑھ کر عادل و دیانت دار قرار دیتے،[66] اور اپنے مقدمات فیصلوں کی غرض سے آپ کی خدمت میں لاتے۔[67] عدل ودیانت کے ضمن میں آپؐ کی غیر معمولی عظمت کا اعتراف آپ کے زمانے کے دشمنوں ہی نہیں بلکہ آج کے دور کے دشمنوں نے بھی کیا ہے۔حضورﷺ کا انتہائی متعصب مستشرق سوانح نگار ولیم میور لکھتا ہے:

 

"In all his dealings he was fair and upright and as he grew in years his honorable bearing won for him the title of Al-Ameen the faithful."

 

"آپ ﷺ تمام معاملات میں عادل اور دیانتدار تھے۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپؐ نے اپنی شریف النفسی اورعظمت و صداقت کی بنا پر "الامین" یعنی قابلِ اعتبارواعتماد کا لقب حاصل کر لیا تھا۔"[68]

 

خلفائے راشدین نے بھی عدل ودیانت کی زریں مثالیں رقم کیں۔ انہوں نے ہر صاحبِ حق کو اس کاحق پہنچایا اورقوم کی امانت میں پائی بھر خیانت گوارا نہ کی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے خلافت کامنصب سنبھالتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

"اے لوگو!میں تم پرنگران بنایا گیا ہوں حالانکہ تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اچھے کام کروں تو میری اطاعت کرو،اگرغلطی کروں تو مجھے سیدھا کر دو…تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے یہاں تک کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں اور تم میں سے طاقت ور شخص میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق واپس لے لوں۔"[69]

 

حضرت علیؓ امیر المومنین تھے۔آپ کی زرہ گم ہوگئی۔پتہ چلا کہ ایک یہودی کے پاس ہے۔آپؓ نے قاضی شریح کی عدالت میں دعوی دائر کیا،لیکن گواہ آپؓ کا بیٹا اور غلام تھے ۔قاضی نے قرابت داری کی بنا پربیٹے اور غلام کی گواہی مسترد کردی اور فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔یہودی حضرت علیؓ اور دین اسلام کی عظمت کا قائل ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا۔[70]

 

خلفائے راشدین خلافت کی بھاری ذمہ داریوں کے عوض بیت المال سے صرف اتنا خرچ وصول کرتے جس سے نہایت ہی مشکل سے گزارہ ہوتا۔قوم کے مال میں سے ذرا سی چیز بھی بغیر اجازت لینا منظور نہ کرتے۔حضرت عمرؓ بیمارہو گئے اور شہد کی ضرورت پیش آئی۔بیت المال میں کافی مقدار میں شہد موجود تھا،مگر آپؓ نے قوم کو بتائے بغیر شہد لینا روا نہ سمجھا،لوگوں سے اجازت لی کہ اگر کہیں توتھوڑاشہد لے لیتا ہوں۔لوگوں نے اجازت دی تو آپؓ نے شہد استعمال کیا۔[71] آپؓ اتنا معمولی کھاناکھاتے کہ لوگوں نے آپؓ سے درخواست کی کہ کھانے کے معیار کو بہتر بنائیں۔آپؓ نے فرمایا تم بلاشبہ میری خیر خواہی کے تحت ایسا کہہ رہے ہو مگر میں اپنے پیشرؤں حضور ﷺ اور ابو بکر صدیق کے پاس ان کی راہ سے منحرف ہو کر کیسے پہنچ سکتا ہوں۔ملک میں قحط پڑا تو سال بھر گھی اور گوشت استعمال نہیں کیا۔[72]

 

سرکاری مناصب پر فائز حضرات عدل و دیانت سے متعلق حقوق مصطفی کو پیش ِ نگاہ رکھتے ہوئے مذکورہ بالاتعلیمات واسوۂ رسول وخلفائے رسول پر عمل کریں تو سرکاری عہدوں کے حوالے سے پائی جانے والی بد دیانتی و ناانصافی کا خاتمہ ہو جائے۔سرکاری ملازمین کسی کا حق کھانے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے محفوظ رہیں اور یوں اپنے اداروں اور ملک و قوم کی ترقی و کامرانی کا باعث بنیں۔

 

اقرباءپروری سے گریز

آنحضورﷺ کا امت پر حق ہے کہ وہ آپؐ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے منصب کو اقربانوازی کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں۔ آپؐ کے لائے ہوئے دین میں حق اور میرٹ کے مقابلےمیں عام اقرباء تو ایک طرف اپنے والدین حتی کہ خود اپنی ذات کو بھی خلاف ِقانون وضابطہ فائدہ پہنچانے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ارشاد باری تعالٰی ہے:

 

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوْ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا"[73]

 

"اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والو رہو خواہ یہ تمہارے اپنے ہی خلاف ہو یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف۔وہ آدمی غنی ہو یا فقیر ،اللہ کا ان دونوں سے زیادہ سروکار ہے ۔سو تم خواہشِ نفس کی پیروی مت کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ، اور اگر تم لگی لپٹی کہو یا اعراض برتو، تو اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔"

 

ایک اور جگہ فرمایا:

 

"وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي"[74]

 

"اور جب بات کہو تو عدل سے کام لو خواہ (متکلم فیہ)قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔"

 

حدیث نبوی کے مطابق تعصب وجانبداری کی بنا پر عہدے کی تفویض لعنتِ الٰہی کا موجب ہے۔ارشاد نبوی ہے:

 

"جس کو مسلمانوں کے کسی معاملے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے تعصب وجانبداری کی بنا پر کسی کو ان پر عہدہ دیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے"[75]

 

حضرت عمرؓ مودت و قرابت داری کے باعث عہدہ دینے کواللہ اور رسول کے ساتھ خیانت سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"جسے اہل اسلام کے معاملے کی کوئی ذمہ داری ملی اور اس نے کسی شخص کو ذاتی محبت یا قرابت داری کی بنا پر یہ ذمہ داری سونپ دی تو ایسا شخص اللہ اور رسول سے خیانت کا مرتکب ہوا۔"[76]

 

حاصلِ بحث

بحث کا حاصل یہ ہے کہ عظیم ترین محسن ہونے کے ناطےحضورﷺکے ہم پر جو حقوق ہیں ان میں سب سے بڑھ کرآپ ﷺ سے وہ محبت و عقیدت ہے جو بروئے قرآن و حدیث تمام مخلوقات میں سے کسی اور سے نہ ہو۔ آپ ﷺسے اس محبت کا سب سے اہم تقاضا آپؐ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔آپ ﷺ کی فرمانبرادری کا رویہ اپنانے کے بہت سے اہم اور معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے مفید نتائج میں سے ایک سرکاری مناصب پر فائز حضرات کا اپنے مناصب اور ذمے داریوں کا احساس ہے۔ اس مقالے میں اہلیتِ منصب،مسؤلیت وجوابدہی،حب جاہ ومال سے احتراز اور زہد وبے نفسی ،عدالت ودیانت اور اقربا پروری سے گریز سے متعلق آپ کی فراہم کردہ تعلیمات ، اسوۂ حسنہ اور آپ ﷺ کے تیار کردہ افرادِ معاشرہ و صاحبانِ مناصب کے نمونوں کی روشنی میں بحث کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر صاحبانِ مناصب ان تعلیمات اور زیرِ نظر حوالے سے آپ ﷺکے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھیں تو ان مسائل سے بچا جا سکتا ہے،جو اس طبقے میں عمومی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔

 

نتائجِ بحث

اس بحث سے جو اہم نتائج اخذ ہوئے ہیں ان کو سلسلہ وار یوں بیان کیا جا سکتا ہے:# حضورﷺ کی محبت ایمان کا تقاضا ہے اور یہ محبت آپ ﷺکی تعلیم پر مکمل عمل کی مقتضی ہے۔

  1. جو شخص سرکاری عہدے پر فائز ہو اور حضور اور آپ کے تعلیم فرمودہ طرزِعمل کو سامنے نہ رکھے سیرت طیبہ کی رو سے وہ آپ ﷺ کے حقوق کا غاصب ہے۔
  2. سرکاری عہدوں پر فائز حضرات پر آپ ﷺ کا یہ حق ہے کہ وہ اہلیتِ منصب کا لحاظ کریں ، آخرت پر نگاہ رکھتے ہوئے اور اعلیٰ آدرش کی خاطر مال ودولتِ دنیااورجاہ حشمت کی ہوس سے پاک ہو جائیں،انصاف کو حرزِجاں بنا لیں اور بد دیانتی اور اقربا پروری سے کنارہ کش ہو جائیں۔
  3. اہلِ مناصب کے لیے بطور خاص صحابی رسول، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا وہ طرز عمل قابل ِتقلید ہے جو آپؓ نے خیبر کے یہودیوں کی بدعنوانی اور رشوت کی پیشکش کے جواب میں اختیار کیا تھا۔انھوں نے جب پیداوار کو برابر تقسیم کرکے یہودیوں کو اختیار دیا کہ جو حصہ چاہے رکھ لیں اور انھوں نےکچھ زیورات وغیرہ پیش کرکے اپنا حصہ بڑھانے کو کہا، تو عبداللہ بن رواحہؓ نے جواب دیا:

 

 

 

"خدا کی قسم! میں تمہارے پاس اس ہستی کی طرف سے آیا ہوں جو مجھے مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ہےاور تم مجھے تمہارے بندروں اور خنزیروں سے زیاد مبغوض ہو لیکن تم سے میری نفرت اور میرے نبی سے میری محبت مجھے تم سے نا انصافی پر آمادہ نہیں کر سکتی ۔یہ سن کر یہودیوں نے کہا:اسی (عدل و انصاف ) کی بنا پر یہ آسمان اور زمین قائم ہیں۔"[77]

حوالہ جات

  1. حوالہ جات(References) سورۃ الاحزاب: 6 Surah al Aḥzāb: 6
  2. البخاری، محمد بن اسمعیل،ابو عبداللہ،صحیح البخاری ،ت ۔محمد زہیر بن ناصر الناصر ،دار طوق النجاۃ،1422،حدیث رقم:15 Al Bukhārī, Muḥammad bin Isma‘īl, Ṣaḥīḥ al Bukhārī, (Dār Ṭawq al Najāh, 1422), Ḥadīth # 15
  3. سورۃ آل عمران: 31 Surah Āl Imrān: 13
  4. البخاری، حدیث رقم:7280 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 7280
  5. القشيري، مسلم بن الحجاج، أبو الحسن،صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی، بیروت، حدیث رقم:1733 Al Qushayrī, Muslim bin Ḥajjāj, Ṣaḥīḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī), Ḥadīth # 1733
  6. البخاری،حدیث رقم:6722 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 6722
  7. طلبِ مناصب کی ممانعت درحقیقت عہدوں کو ذاتی اغراض سے آزاد کرانے کی غرض سے ہے ،ورنہ یہ کوئی حرام اور ممنوع امر نہیں۔ ایسے حالات میں جب کہ اہل افراد کے عدم ِطلب سے نااہلوں کے متمکن ہو جانے کا اندیشہ ہو،یا اس کے بغیر اپنا حق حاصل نہ کیا جاسکتا ہو، تو عہدہ طلب کیا جاسکتا ہے،لیکن اولین مقصود خدمتِ دین وملت اور آخرت کی بھلائی ہو۔ روزگار کا مقصودِ نظر ہونا بھی گناہ نہیں لیکن اس کو ثانوی مقصد ہونا چاہیے۔طلبِ مناصب کی ممانعت کےحرص و ہوس کی روک تھام کی علت کے ماتحت ہونے کے شواہد ان روایات سے واضح طور پر ملتے ہیں جن میں آنحضورﷺ نے اسی نوع کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔مثلاً فرمایا: "إنَّا لا نُوَلِّي هذا مَن سأله، ولا مَن حرَص عليه" "ہم یہ(امرِ حکومت)اس کے سپرد نہیں کرتے جو اس کا سوال کرے یااس پر حریص ہو۔"(البخاری،حدیث رقم:7149) Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 7149
  8. مسلم،حدیث رقم:1825 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 1825
  9. الطبرانی،المعجم الکبیر،حدیث رقم:11216، ابن تیمیہ،السیاسۃ الشریعہ فی اصلاح الراعی والرعیۃ،دارعالم الفوائد للنشر والتوزیع،ص :8 Al Ṭabrānī, Al Mo’jam al Kabīr, Ḥadīth # 11216, Ibn Taymiyah, Al Siyāsah al Shar’iyyah fī Iṣlāḥ al Ra’ī wal Ra’īyyah, (Beirut: Dār ‘Ālam al Fawai’d lil Nashr wal Tawzī’), p:8
  10. السیوطی،الجامع الصغیر،حدیث رقم:8414 Al Sayuṭī, Al Jami’ al Ṣaghīr, Ḥadīth # 8414
  11. البخاری،حدیث رقم:59 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 59
  12. سورۃ المؤمن:19 Surah al Mo’min : 19
  13. سورۃ بنی اسرائیل63: Surah Banī Isrā’īl: 63
  14. البخاری، کتاب الاحکام، باب قول اللہ تعالیٰ :واطیعو االلہ واطیعو االرسول…،حدیث رقم:7138 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 7138
  15. الترمذی ، محمد بن عیسی،سنن الترمذی،تحقیق:احمد محمد شاکر،مصطفی البابی الحلبی، 1975م، مصر، ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ،باب فی القیامۃ،حدیث رقم:2416 Al Tirmadhī, Muḥammad bin ‘Esa, Sunan al Tirmadhī, (Egypt: Muṣṭafa al Babī al Ḥalabī, 1975), Ḥadīth # 2416
  16. سورۃ المائدۃ: 67 Surah al Mā‘idah: 67
  17. سورۃ الفاطر:8 Surah al Faṭir: 8
  18. سورۃ الکہف: 6 Surah al Kahaf: 6
  19. سورۃ الشعراء: 3 Surah al Shu’ara: 3
  20. مسلم ، کتاب الحج،باب حجۃ النبی،حدیث رقم:1218 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 1218
  21. ارشاد فرمایا:"سَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ" "تم میرے بعد بہت اختلاف پاؤ گے،سو تم پرمیری اور میرے خلفاے راشدین کی سنت کا اتباع واجب ہے،ان کو مضبوطی سے تھام لو۔"(ابن ماجہ،محمد بن یزید القزوینی،سنن ابن ماجہ،تحقیق:محمد فواد عبد الباقی،دار احیاء الکتب العربیۃ، فیصل عیسی البابی الحلبی، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین،حدیث رقم:42 ، احمد بن محمد بن حنبل، مسند،تحقیق:شعیب الارنؤوط، عادل مرشدوآخرون، المؤسسۃ الرسالۃ، 2001م، احادیث رجال من اصحاب النبی ﷺ،حدیث رقم:23246 Ibn Majah, Muḥammad bin Yazīd, Sunan Ibn Majah, (Beirut: Dār Iḥya’ al Kutub al ‘Arabiyyah), Ḥadīth # 42, Aḥmad bin Ḥambal, Musnad, (Mo’assasah al Risalah, 2001), Ḥadīth # 23246
  22. جلال الدین عبدالرحمان السیوطی،تاریخ الخلفاء،دار ابن حزم، بیروت، 2003ء،ص:86 Al Sayuwṭī, Jalal al Dīn ‘Abdul Reḥmān, Tārīkh al Khulaf ā’, (Dār Ibn Ḥazam, 2003), p:86
  23. ایضاً ، ص: 105،106 Ibid., p:105,106
  24. ایضاً ، ص: 69،159 Ibid., p:69,159
  25. ایضاً، ص: 64،65 Ibid.,p:64,65
  26. ایضاً، ص: 113 Ibid., p:113
  27. يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ(سورۃ الروم:30)
  28. لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِيْلٌ ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمِهادُ (سورۃ آل عمران:196،197)"کافروں کی شہروں شہروں چہل پہل تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔یہ تھوڑا سا فائدہ ہے ،پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔اور وہ نہایت بری جائے رہائش ہے۔"
  29. فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّه فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا(سورۃ الکہف:110)"تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہواسے چاہیے کہ نیک عمل کرے۔"
  30. مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى(سورۃ النساء:77)"دنیا کا فائدہ تھوڑا سا ہے،اور آخرت بہت بہتر ہے،اس شخص کے لیےجو پرہیزگار ہے۔
  31. "وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَااِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهىَ الْحَـيَوَانُ (سورۃ العنکبوت:64)"اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشا ہے،اور (اصل)زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔"
  32. البخاری،کتاب الرقاق،باب مثل الدنیافی الآخرہ،حدیث رقم:6416 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 6416
  33. الترمذی،ابواب الزھدعن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی قصر الامل ،حدیث رقم:2233 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2233
  34. مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، باب فناء الدنیاوبیان الحشریوم القیامۃ، حدیث رقم:2858 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 2858
  35. الترمذی،ابواب الزھد عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاء فی ھوان الدنیاعلی اللہ عز وجل،حدیث رقم:2320 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2320
  36. البخاری،کتاب الرقاق،باب مثل الدنیا فی الاخرۃ، حدیث رقم:6415 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 6415
  37. البخاری،کتاب الرقاق، باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللہ ، حدیث رقم:4625 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 4625
  38. الترمذی،ابواب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جا فی الکفاف والصبرعلیہ، حدیث رقم:2347 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2347
  39. الترمذی، ابواب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاء فی اخذ المال، حدیث رقم:2377 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2377
  40. عماد الدین اسماعیل بن عمربن کثیر القرشی الشّافعی،البدایۃ والنھایۃ،تحقیق:حسان عبدالمنان، بیت الافکار الدولیۃ، لبنان، 2004م،1:886 Ibn Kathīr, Isma’īl bin ‘Umar, Al Bidāyah wal Nihāyah, (Lebonan: Bayt al Afkār al Duwaliyyah, 2004), 1:886
  41. البخاری،کتاب الرقاق ،باب قول النبی ﷺ ما احب لی مثل احد ذھبا، حدیث رقم:6445 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 6445
  42. الترمذی،ابواب الزہد عن رسول اللہ ﷺ، باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیائھم ،حدیث رقم:2352 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2352
  43. الترمذی،ابواب الزہد عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاءفی معیشۃ النبی ﷺ، حدیث رقم:2360 Sunan al Tirmadhī, Ḥadīth # 2360
  44. البخاری،کتاب الصوم،باب اجود ما کان النبی ﷺ یکون فی رمضان، حدیث رقم:1902 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 1902
  45. البخاری،کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء،ومایکرہ من البخل، حدیث رقم:6034 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 6034
  46. ابو داؤد،کتاب الوصایا،باب ما جاءفی ما یؤمر بہ من الوصیۃ،حدیث رقم:2863 Sunn Abū Dāū’d, Ḥadīth # 2863
  47. البخاری،کتاب فرض الخمس،باب نفقۃ نساء النبی ﷺ بعد وفاتہ، حدیث رقم:3097 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 3097
  48. قاضی عیاض، شرح الشفا، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 1:287,288 Qāḍī ‘Ayāḍ, Sharḥ al Shif ā’, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 1:287,288
  49. ولی الدین محمد بن عبداللہ التبریزی،مشکوۃ المصابیح، المکتبۃ الرحیمیۃ، دیوبند، 1:520 Al Tabryzī, Muḥammad bin ‘Abdullāh, Mishkāt al Maṣabīḥ, (Deoband: Al Maktabah al Raḥīmiyyah), 1:520
  50. محب الدین ابو جعفر محمد بن عبداللہ الطبری،خلاصۃ السیر،دلی پرنٹنگ پریس،دہلی،1343ھ،ص:22،شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبیﷺ،آر۔زیڈپیکجز،لاہور،1408ھ، 2:195-20،نعیم صدیقی،محسنِ انسانیت،الفیصل،لاہور،2009ءص:115-120 Al Ṭabarī, Muḥammad bin ‘Abdullāh, Khulāsah al Siyar, (Delhi: Delhi Printing Press, 1343), p:22, Shiblī No’mānī, Syed Sulaymān Nadvī, Sīrah al Nabī, (Lahore: R.Z Packages, 1408), 2:195-201, Na’eem Ṣiddiqī, Muḥsin-e-Insāniyat, (Lahore: Al Faisal, 2009), p:115,120
  51. Gustav Weil, Trans; KhudaBakhsh, History of Islamic peoples (Calcutta :University of Calcuttapress, 1914), p:27
  52. السیوطی،تاریخ الخلفاء، ص:98 Al Sayuwṭī, Tārīkh al Khulaf ā’, p:98
  53. ایضاً، ص: 66 Ibid., p:66
  54. شبلی نعمانی،الفاروق، افضل المطابع، دہلی ،1915ء،2:195 Shiblī No’mānī, Al Fārūq, (Delhi: Afzal al Maṭabi’, 1915), 2:195
  55. یہ حدیثِ رسول ہے یا کسی صحابی وتابعی وغیرہ کا قول؟اس پر اہل ِتحقیق میں بہت بحث ہے۔عموماً اسےحضرت علی کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔راقم نےیہاں اسے امام غزالی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔امام صاحب اسے قولِ رسول کے طور پر پیش کرتے ہیں، محمد بن محمد بن محمدالغزالی،التبر المسبوک فی نصیحۃ الملوک،تحقیق:احمد شمس الدین،دارلکتب العلمیۃ، بیروت، 1988ء،ص:44 Al Ghazālī, Muḥammad bin Muḥammad, Al Tibr al Masbūk fī Naṣīḥ ah al Mulūk, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1988), p:44
  56. فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَه وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه (سورۃ البقرۃ:283)
  57. اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰى اَهلِهاۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ(سورۃ النساء:4) "بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کو لوٹا دیا کرواور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔"
  58. وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰي اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى(سورۃ المائدۃ:8)"اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن چھوڑ دو۔انصاف کیا کرو، یہ تقوی سے قریب تر ہے۔"
  59. حضور نےان سات افراد کا ذکر کرتے ہوئےجنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا ،سب سے پہلےامامِ عادل کا تذکرہ کیا۔ دیکھیے:البخاری، کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوٰۃوفضل المساجد، حدیث رقم:660 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadīth # 660
  60. ابن حبان، محمد بن حبان بن احمد، صحیح ابن حبان،تحقیق:شعیب الارنؤوط،موسسۃ الرسالۃ، بیروت ،1988م، کتاب الایمان،باب فرض الایمان، حدیث رقم :194 Ibn Ḥibbān, Muḥammad bin Ḥibbān, Ṣaḥīḥ Ibn Ḥibbān, (Beirut: Mo’assasah al Risalah, 1988), Ḥadīth # 194
  61. قاضی عیاض، شرح الشفا، 1:295 Qāḍī ‘Ayāḍ, Sharḥ al Shif ā’, 1:295
  62. النسائی، احمد بن شعیب، السنن الصغری،تحقیق:عبد الفتاح ابو غدۃ، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب،1986م، کتاب القسامۃ،باب تبدئۃ اھل الدم فی القسامۃ، حدیث رقم: 4710-4720 Al Nasa’ī, A ḥ mad bin Sho’aib, Al Sunan Al Ṣughra, (Ḥalab: Maktab al Maṭbū‘āt al Islāmiyyah, 1986), Ḥadīth # 4710-4720
  63. مسلم،کتاب الحدود،باب قطع السارق الشریف وغیرہ،والنھی عن الشفاعۃ فی الحدود،حدیث رقم:1688 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 1688
  64. ابن ہشام،السیرۃ النبویۃ،تحقیق:عمر عبد السلام تدمری ،دارالکتاب العربی، بیروت ، 1990م، 1:223,224 Ibn Hishām, Al Sīrah al Nabaviyyah, (Beirut: Dār al Kitāb al ‘Arabī, 1990), 1:223,224
  65. ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ،ت۔ ابی الفدا عبد اللہ القاضی،دارلکتب العلمیۃ، بیروت ،1987م،2:4 Al Jazarī, Ibn al Athīr, Al Kāmil fī al Tārīkh, (Beirut: D ā r al Kutub al ‘Arabī, 1990), 2:4
  66. قاضی عیاض،شرح الشفا،1:297 Qāḍī ‘Ayāḍ, Sharḥ al Shif ā’, 1:297
  67. شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبیﷺ،2:184، منصورپوری، محمد سلیمان سلمان، رحمۃً للعالمین،تحقیق:میاں طاہر، مرکز الحرمین الاسلامی، 2:652 Shiblī No’mānī, Syed Sulaymān Nadvī, Sīrah al Nabī, 2:184, Mansūrpūrī, Muḥammad Sulaymān Salmān, Raḥamah lil ‘Ālamīn, (Beirut: Markaz al Ḥaramayn al Islāmī), 2:652
  68. William Muir, Mahomet and Islam: A Sketch of the Prophet's Life from Original Sources, and a Brief Outline of his Religion, (London: The Religious Tract Society, 1887), p:19.
  69. ابن اسحاق ،السیرۃ النبویہ،تحقیق:احمد فرید المزیدی،دارلکتب العلمیۃ، بیروت، 2004م،ص:718 Ibn Isḥāq, Al Sīrah al Nabaviyyah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2004), p:718
  70. السیوطی،تاریخ الخلفاء، ص: 147،148 Al Sayuwṭī, Tārīkh al Khulaf ā’, p: 147,148
  71. ایضاً ،ص: 113 Ibid., p:113
  72. ایضاً ،ص: 105 Ibid., p:105
  73. سورۃ النساء:4 Surah al Nisā‘, 4:135
  74. سورۃ الانعام:6 Surah al An’ām, 6:152
  75. الھیثمی،مجمع الزوائد،5:235 Al Haythāmī, Majma’ al Zawā‘id, 5:235
  76. ابن تیمیہ،السیاسۃ الشریعہ فی اصلاح الراعی والرعیۃ،دارعالم الفوائد للنشر والتوزیع،ص:8 Ibn Taymiyah, Al Siyāsah al Shar’iyyah fī Iṣlāḥ al Ra’ī wal Ra’īyyah, p:8
  77. ابن قیم ، زادا لمعاد فی ھدی خیر العباد،ت،شعیب الارنؤوط، عبدالقادرالارنؤوط،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ،1998، 2:11 Ibn Qayyim, Zād al Ma’ād fī Hadyi Khair al ‘Ibād, (Beirut: Mo’assasah al Risalah, 1998), 2:11
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...