Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

سیرت طیبہ کے تناظر میں پختون خواتین کی موجودہ معاشرت کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060030498_867

Pages

85-108

DOI

10.36476/JIRS.4:1.06.2019.11

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/67/43

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/67

Subjects

Women Society Sīrah Pakhtūn Domestic Issues women society sīrah pakhtūn domestic issues

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

دین ِاسلام عقائد،عبادات اورمعاملات کے متعلق احکامات کامجموعہ ہے جن کاتعلق انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ہے اوراللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

 

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً"[1]

 

"اے ايمان والو!دینِ اسلام میں پورے کے پورے داخل جاؤ۔"

 

اس آيت کاتقاضایہ ہے کہ مسلمانوں کی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات بدرجہ اتم موجودہوں چونکہ پختون قوم ایک مسلمان قوم ہے اس لئے مناسب یہ ہےکہ ان کی عملی زندگی میں بھی اسلامی احکامات، دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ موجودہوں چاہے وہ احکامات کسی بھی طبقے ،مردوعورت کے ساتھ متعلق ہوں۔ اس تحقیق میں پختون معاشرے میں خواتین کودرپیش مسائل کاذکرکیاگیاہے اورنبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ان کاحل پیش کیاگیاہے۔

 

بنیادی تحقیقی سوالات:

اس تحقیق میں درج ذیل سوالات کا تحقیقی جواب دیاگیاہے:# پختون معاشرے میں عورت کی زیادہ اہمیت اورقابِل قدرکردارکے باوجود،اس کے ساتھ کیساسلوک روارکھاجاتاہےاوروہ سلوک سیرتِ طیبہ کی تعلیمات کے مطابق ہے یانہیں؟

  1. پختون خواتین کی زندگی کے مختلف پہلوکیاہیں؟ اورشرعی تعلیمات کی روشنی میں ان کی کیاحیثیت ہے؟
  1. بچی کی پیدائش ،مبارکبادی ،عقیقہ ،نام رکھنے،ان کی تعلیم وتربیت،نکاح ، میراث،سسرالی معاشرہ اورگھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ جڑے مسائل کون کون سے ہیں اوروہ مسائل شرعی طورپرکیسے حل ہوسکتے ہیں؟
  1. ان کے متعلق سیرتِ طیبہ کی تعلیمات کیاہیں ؟اوران تعلیمات کوکس طرح معاشرے میں قابلِ عمل بناکرخواتین کے معاشرتی مسائل پرقابوپایاجاسکتاہے؟

 

 

 

سابقہ تحقیقات کاجائزہ:

موجودہ دورجس کوالیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاکادورکہاجاسکتاہے ،جہاں پر خواتین کے حقوق کی بات کھل کر کی جاتی ہے اورخواتین کےنکاح اورطلاق وخلع جیسے مسائل کومیڈیاکی زینت بنایاجاتاہے۔ اس کوریج کی وجہ سے مسائل توسامنے آجاتے ہیں اوربسااوقات عدالت کے ذریعے ان کاحل بھی نکالاجاتاہے لیکن وہ حل زیادہ پائیدار نہیں ہوتا۔مسائل کے حل کے لئے آواز تواٹھائی جاتی ہے لیکن مسائل پیداہونے کے سبب وعلت کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ دراصل ان مسائل کے پیداہونے کا اصل سبب خواتین کے حقوق کے متعلق دینِ اسلام اورنبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی تعلیمات سے عدم آگہی ہے۔ اگرلوگوں میں یہ علم وآگہی آجائے تو امیدہے کہ ایسے مسائل پیداہی نہ ہوں۔اس سلسلے میں پختون خواتین کے نکاحوں کے متعلق کئی مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں جن میں "پختون معاشرے میں رائج نکاحوں کاشرعی جائزہ"[2]، "جبری نکاحوں کے نفسیاتی اثرات اورشرعی حکم "[3] شامل ہیں۔ ان کےعلاوہ مختلف رسائل میں کسی خاص موضوع پر مضامین تولکھے جاتے ہیں لیکن یکجاطورپرنہ توتمام مسائل کاذکر کیاجاتاہے اورنہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ان مسائل کاحل پیش کیاجاتاہے۔

 

منہج تحقیق:

مقالہ کامنہج تحقیق بیانیہ یعنی(Descriptive Method )ہوگاجس میں پختون معاشرے کی خواتین کے مختلف مسائل کاسیرت ِ طیبہ کی روشنی میں ایک تقابلی جائزہ (Comparative study) پیش کیاجائے گا۔

 

۱:بچی کی پیدائش پرخوشی کرنا:

اولاداللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک نعمت ہے چاہے مذکرکی صورت میں ہو یامؤنث کی صورت میں،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اولاد کو"ہبہ" یعنی تحفہ کے الفاظ کے ساتھ ذکرفرمایاہے۔ ارشادباری تعالٰی ہے :

 

"لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِير"[4]

 

"اللہ تعالیٰ کے لئےآسمانوں اورزمین کی ملکیت ہے، وہ جوچاہے پیداکرتاہے،جس کوچاہے صرف بیٹیاں عطاکرتا ہے اورجس کوچاہے صرف بیٹے عطاکرتاہے یادونوں (بیٹا اور بیٹی) عطاکرتاہے اورجس کوچاہے بے اولاد بنا دیتا ہے۔ بے شک وہ جاننے والااورقادرہے۔"

 

دین ِ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکی کی پیدائش پرانتہائی بُرامناتے تھے اورا س کواپنے لئے عار اورشرم محسوس کرتے تھے۔ ان کی اس کیفیت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

 

"وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ"[5]

 

"اورجب ان کوبیٹی پیداہونے کی خبردی جائے توان کاچہرہ بےرونق ہوجاتاہے اوردل ہی دل میں گھٹتارہتاہےاور بیٹی کی پیدائش کی بری خبر کی وجہ سے اپنےقوم کے لوگوں سے چھپ کرپھرتاہے کہ اس عارپرصبرکرلے یااس کوزمین میں گاڑدےخبرداربہت برافیصلہ کرتے ہیں۔"

 

بیٹی کی پیدائش پر اس کوقتل کرتے تھے یازندہ دفناتے تھے اس کی مذمت اورشنیعت اللہ تعالیٰ نےیُوں بیان فرمائی :

 

"قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ"[6]

 

"تحقیق نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کوبغیرعلم کے نادانی میں قتل کیا۔"

 

ان حالات میں اللہ تعالی ٰنے نبی کریم ﷺ کونبی بناکرمبعوث فرمایا۔ آپ ﷺنے دینِ اسلام کی تعلیمات کے ذریعے بہت سی دیگر غلط رسومات کے ساتھ اس رسم کی بھی حوصلہ شکنی کی اوربیٹیوں کوبیٹوں کی طرح زندگی کاحق بخشا۔ اس ذہن کوتبدیل کرنے کے لئے اللہ تعالی ٰ نے اولاد کی نعمت میں سب سے پہلے بچیوں کاتذکرہ فرمایاتاکہ اس غلط سوچ کی اصلاح ہوسکے۔ اس بات کی وضاحت امام ماتریدیؒ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:

 

"يخبر تعالى أن الأولاد جميعًا من الذكور والإناث مواهب اللَّه تعالى وهداياه، فيجب أن يقبلوها منه قبول الهدايا والهبات على الشكر له والمنة، ثم بدأ بذكر الإناث ثم بالذكور؛ لأن من الناس من إذا ولد له الإناث يعدها مصيبة، ويثقل ذلك عليه، وعلى ذلك ما أخبر عن الكفرة أنهم إذا بشروا بالأنثى ظلت وجوههم مسودة بقوله تعالى: (وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ)، يخبر عن ثقل ذلك عليهم، وغيظهم على ذلك فبدأ بذكر ذلك؛ لئلا يعد أهل الإسلام الأولاد الإناث مصيبة وبلاء على ما عدها الكفرة، واللَّه أعلم"[7]

 

"اللہ تعالیٰ نے خبردارکیاہے کہ تمام اولادمذکراورمؤنث اللہ تعالیٰ کا ہبہ اورہدیہ ہیں لہٰذا اس کے ہدیہ کواس کےشکراوراحسان کے ساتھ قبول کرناواجب ہے۔ پھراللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بیٹیوں کاتذکرہ فرمایااس کےبعدبیٹوں کا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان لوگوں کے ہاں بیٹی پیداہوجاتی تو اس کوایک مصیبت اوربوجھ شمارکرتے تھے اوراسی پرکفارکی حالات کی خبردی گئی کہ"جب ان کوبیٹی پیداہونے کی خبردی جائے توان کاچہرہ بےرونق ہوجاتاہے اوردل ہی دل میں گھٹتارہتاہے "۔ اللہ تعالیٰ ان پر اس امر کی گرانی اور ناپسندیدگی کو بیان کرتے ہوئے نعمتوں میں پہلےبیٹیوں کا تذکرہ ہے تاکہ اہل اسلام اپنی زنانہ اولادکوکفارکی طرح مصیبت اورعذاب نہ سمجھیں ۔"

 

۲:بچی کی پیدائش پرمبارک باد:

بچی کی پیدائش پر ناراضگی اورپریشانی کا آ جانا چونکہ جاہلیت کے افعال میں سے ایک فعل ہے لہٰذادین ِ اسلام نے بچے کی پیدائش کی طرح بچی کی پیدائش پر بھی مبارک باد دینے کومسنون قراردیاہے۔ فقہ کی مشہورکتاب "الفقہ المنہجی" میں ہے:

 

"ويستحبّ أن يهنئ الرجال الوالد، والنساء الوالدة بالمولود، يقولون له: بارك الله لك في الموهوب لك، وشكرت الواهب، وبلغ أشُدَّه، ورُزقت بِرَّه. ويستحب للوالد أن يجيبهم بقوله: بارك الله لكم، وبارك عليكم، وأجزل ثوابكم. وكذلك يقال للمرأة الوالدة، وتقول هي لهنّ، ما يقول الرجل للرجال. والله تعالى أعلم" [8]

 

"مستحب یہ ہے کہ مرد،والدکو اورعورتیں، والدہ کو بچہ یابچی کی پیدائش پریہ کہتے ہوئے مبارک باددیں کہ اللہ تمہارے لئے اس عطاءکوبابرکت بنائے، تم دینے والے کے شکرگزاربنو، اور یہ جوانی کوپہنچے اورنیکوکار بنے اور والدکے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ ان کوکہے اللہ تمہیں برکت دے اوراس کا اچھا بدلہ دے۔ یہی بات ماں بھی خواتین کو کہے۔"

 

دین اسلام نے نہ صرف بچی کی پیدائش پر ان جہلاءکی ناراضگی اور انہیں زندہ درگورکرنے کی مذمت فرمائی ہے بلکہ ان لوگوں کی ذہنی اصلاح کرکے ان کوانسانیت کادرس دیا اوران کے بہت سے حقوق بھی بیان فرمائے۔

 

علامہ ابن قیم جوزی ؒ نے بچیوں کے متعلق زمانہ جاہلیت کے افعالِ شنیعہ اوراسلام میں ان کے حقوق کے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے سورۃ الشوریٰ کی اِن دوآیات کی روشنی میں فرمایاہےکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹوں پربیٹیوں کاتذکرہ مقدم کیاجن کوزمانہ جاہلیت میں پیچھے کیاجاتاتھا یہاں تک کہ ان کوزندہ دفن کرتےتھے۔ مطلب یہ کہ جوجنس یعنی بیٹیاں تمہارے ہاں مؤخر ہے وہ اللہ کے ہاں ذکرمیں مقدم ہے۔یہاں پربیٹیوں کے ساتھ اہلِ جاہلیت کے اخلاق ِسیئہ پرغصہ کااظہاربھی مقصود ہےجس کی مذمت اللہ تعالیٰ نےسورت النحل:آیت 58 میں یوں فرمائی ہے:

 

"وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأْنْثَى ظَل وَجْهُهُ مُسَوَّدًا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ"

 

"جب ان کوبیٹی پیداہونے کی خبردی جائے تو ان کا چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے اور بیٹی کی پیدائش کی بری خبر کی وجہ سے اپنے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس عار پرصبرکر لے یا اس کو زمین میں گاڑ دے، خبرداربہت برافیصلہ کرتے ہیں۔"

 

حضرت قتادہ، ؒ امام طبری ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نےاُن کے بُرے کام کی خبر دی ہے، پس ایمان والے کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر راضی ہو جائے اور اللہ کا اُس کے حق میں فیصلہ اُس کے اپنے فیصلے سے بہترہوتاہے اورقسم ہے کہ اُس کوکیاپتہ کہ خیرکس میں ہے۔ بسااوقات ایک لڑکی اپنے خاندان کے لئے ایک لڑکے سے بہتر ہوتی ہے۔ اللہ نے تمہیں ان کی خبر اس لئے دی ہے کہ تم اس کام سے اپنے آپ کو بچا لو اور اس سے رک جاؤ اور وہ لوگ اپنے کتُے کو تو کھاناکھلاتے تھے لیکن اپنی بیٹی کوزندہ دفن کر دیتے تھے ۔

 

دین ِ اسلام مسلمانوں کوصرف اپنی بیٹیوں کوزندہ دفن کرنے سے منع کرنے پراکتفا نہیں کرتا بلکہ ان کوانسانیت کے اعلیٰ درجے پرلے جاتاہے، لہٰذا نہ صرف بیٹیوں کی پیدائش پر برا منانے، ترش رو اورناراض ہونے سے منع فرمایا بلکہ اس کو رضامندی اورخوشی کے ساتھ قبول کرنے کادرس بھی دیا ہے۔ صالح بن امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ جب امام احمد کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو فرماتے کہ انبیاء بیٹیوں کے باپ ہواکرتے تھے۔[9]

 

۳:بیٹیوں کاعقیقہ کرنا:

بیٹیوں کوبیٹوں کی طرح اپنی اولاداورانسان تسلیم کروانے کے بعدفقہ اسلامی نے ان کی پیدائش پر عقیقہ کرنے کوسنت قراردے دیاہےجس کامقصد بچی کی پیدائش پر اپنی خوشی اوررضامندی کااظہار ہوتاہے ۔

 

عقیقہ کالغوی معنی ٰپیدائشی بالوں کے ہیں [10]اوراصطلاح میں عقیقہ کی تعریف یوں کی جاتی ہے :

 

"مَا يُذْبَحُ عَنِ الْمَوْلُودِ شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى"[11]

 

"وہ ذبیحہ جوبچے کی پیدائش پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیاجائے اس کوعقیقہ کہتے ہیں ۔"

 

القاموس الفقہی نے عقيقہ كي تعريف يوں لكھی ہے :

 

"الذبيحة التي تذبح عن المولود يوم سبوعه عند حلق شعره"[12]

 

"وہ ذبیحہ جوبچے کی پیدائش کے ساتویں دن اس کے بال کاٹتے وقت کیا جاتا ہے ۔"

 

بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا ایک سنت عمل ہے۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے :

 

"لِمَا رَوَتْهُ عَائِشَةُ أَنَّ رَسُول اللَّهِ ﷺ أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلاَمِ: شَاتَانِ مُتَكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"[13]

 

"عائشہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لڑکے کی طرف سے دوبرابربکریاں اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنے کاحکم فرمایاہے۔ "

 

یہی تفصیل المغنی میں امام ابن قدامہ نے بھی فرمائی ہے، چنانچہ لکھاہے :

 

"الْعَقِيقَةُ عَنِ الْمَوْلُودِ سُنَّةٌ، وَيَسْتَوِي فِي السُّنَّةِ الذَّكَرُ وَالأْنْثَى، فَكَمَا يَعُقُّ الْوَلِيُّ عَنِ الذَّكَرِ يَوْمَ السَّابِعِ يَعُقُّ عَنِ الأْنْثَى أَيْضًا، وَلَكِنْ يَعُقُّ عَنِ الأْنْثَى شَاةٌ، وَعَنِ الذَّكَرِ شَاتَانِ" [14]

 

"نومولود کی طرف سے عقیقہ کرناسنت ہے اوراس میں لڑکا، لڑکی دونوں برابر ہیں یعنی جس طرح ولی لڑکے کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کرتاہے، اسی طرح لڑکی کی طرف سے کرنا بھی سنت ہے البتہ لڑکے کی طرف سے دوبکرے اورلڑکی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کیاجائے گا۔"

 

پختون معاشرے میں بچی کی پیدائش،مبارک باد، عقیقہ اوران کی عملی صورتیں:

نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اوراسلامی تعلیمات کی وضاحت کے بعداب معاشرے میں اس کی عملی صورتوں کا عمومی مشاہدہ ہے کہ لڑکے کی پیدائش پرخوشی منائی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، ایک دوسرے کومبارک باد دی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر ہوائی فائرنگ بھی کی جاتی ہے اور خوشی خوشی عقیقہ بھی کیاجاتاہے جب کہ اس کے برعکس لڑکی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی۔ خوشی اورمٹھائیاں تودرکنار، بعض علاقوں میں تو زبانی مبارک باد تک نہیں دی جاتی۔ اس گھرانے کی عورتیں،خصوصاً نوزائیدہ بچی کی ماں، کئی روزتک روتی رہتی ہیں جیسے ان کے ہاں کوئی بڑاحادثہ پیش آ چکا ہو۔ پختون معاشرے کی یہ رسم اور امتیازی برتاؤ نہ صرف جاہلیت کی باقیات میں سے ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی نہ ہونے کی عکاسی بھی کرتاہے ۔ لہٰذا معاشرے میں اس حقیقت کواجاگرکرنے کی انتہائی ضرورت ہے کہ بیٹی کی پیدائش پرناراضگی ایک جاہلانہ اقدام ہے یہ نہ صرف انسانی رواداری کےخلاف ہے بلکہ سیرتِ طیبہ کی تعلیمات کی خلاف ورزی اوراللہ تعالیٰ کے فیصلوں پرناراضگی بھی ہے۔ اگرچہ موجودہ معاشرت ،تعلیم اوردعوت وتبلیغ کے اثرات کی وجہ سے اس رویے میں خاصی کمی آئی ہے تاہم اس ناجائزرویے کے وجودسے انکارممکن نہیں۔

 

۴: بچیوں کے نام رکھنا:

اولادکے شرعی حقوق میں والدین کے ذمہ یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ان کے نام اچھے رکھیں[15] یہ ذمہ داری بیٹے اوربیٹی دونوں کے بارے میں یکساں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جس طرح مردوں کے برے ناموں کوتبدیل کیاہے، اسی طرح خواتین کے برے نام بھی تبدیل فرمائے ہیں۔ ابن عمرؓ فرماتے ہیں :

 

"أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرِ كَانَ يُقَال لَهَا عَاصِيَةٌ فَسَمَّاهَا النَّبِيُّ ﷺ جَمِيلَةٌ"[16]

 

"عمرؓ کی ایک بیٹی کوعاصیہ کہتے تھے، نبی کریم ﷺنے اس کانام تبدیل کرکے جمیلہ رکھا۔"

 

اچھے نام کے ساتھ اچھی کنیت رکھناجس طرح مردوں کے لئے شرعی طور پرجائز ہے، اسی طرح خواتین کےلئے بھی جائز ہے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ اس سلسلے میں امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں :

 

"عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُول اللَّهِ كُل صَوَاحِبِي لَهُنَّ كُنًى، قَال: فَاكْتَنِّي بِابْنِكِ عَبْدِاللَّهِ قَال الرَّاوِي يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَهُوَ ابْنُ أُخْتِهَا أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تُكَنَّى أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ" [17]

 

"حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میری تمام سہیلیوں کی کنیت ہے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ام عبداللہ کنیت رکھ لویعنی عبداللہ بن زبیرؓ کے نام سے جو ان کی بہن اسماءبنت ابی بکرؓکے بیٹے تھےاس طرح عائشہ ؓ کی کنیت ام عبداللہ ہوگئی ۔"

 

پختون معاشرے میں عام مشاہدہ یہ ہے کہ بعض اوقات بچیوں کے نام اچھے نہیں رکھے جاتے اورخصوصاً پہاڑی اور دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہ مسئلہ زیادہ ہوتاہے۔ گھر کی خواتین بچی کےلئے ایسے نام رکھتے ہیں جوعجیب وغریب ہوتے ہیں اوربسااوقات درست بھی نہیں ہوتے مثلاً "بلہ نہ" ، "بلہ نیشتہ"، "خاتمہ" وغیرہ۔ ان ناموں میں یہ بات پیش نظر ہوتی ہے اورمعنوی طورپر یہ پیغام دیاجاتاہے کہ اس کے بعددوسری لڑکی پیدا نہ ہو جیسے ان ناموں کااردوترجمہ بھی یہی کیاجاتاہے کہ "بلہ نہ" یعنی اگلی نہیں ، "بلہ نیشتہ" یعنی دوسری لڑکی نہیں ہے اور"خاتمہ" یعنی آخری ۔

 

بچیوں کے ساتھ ایسی ناانصافی ان کی لاعلمی اورجہالت کی ایک دلیل ہے کہ شریعتِ اسلامی نے ان کو آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے جوحقوق دیئے تھے آج تک انہیں وہ نہیں ملے بلکہ وہی جہالت کے رسومات آج بھی کہیں نہ کہیں زندہ ہیں لہٰذا ان مسائل کوحل کرنے کے لئے ہمارے معاشرے کے علماء اورسکالرز کواپناکرداراداکردیناچاہیئے تاکہ معاشرے میں خواتین کے مسائل بھی حل ہوسکیں۔ سیرتِ طیبہ کی تعلیمات کے مطابق ان کی تعلیم وتربیت ، پیار ومحبت کاسلوک،عطیہ میں برابری اوران کے اچھے ناموں کاخیال رکھناضروری ہے۔

 

۵:بچیوں کی تعلیم وتربیت :

پختون معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کے متعلق چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔

 

پہلی قسم کے لوگوں کاخیال یہ ہے کہ تعلیم بچیوں کا بنیادی حق ہے لیکن وہ شرعی وعصری، ضروری، واجب، مستحب اورمباح تعلیم کے درجات میں فرق کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ تعلیم دینے اوردلوانے میں کچھ حدودوقیود اورشرائط کابھی خیال ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورمیں بچیوں کی تعلیمی درسگاہوں میں کافی اضافہ ہوچکاہے۔ بنات کے مدارس وجامعات اوروویمن کالجزاوریونیورسٹیز کی تعدادمیں پہلے کی نسبت قابلِ قدراضافہ نظر آ رہا ہے۔

 

دوسری قسم کے لوگ بھی اسی بات کے قائل ہیں البتہ وہ تعلیم کے حصول میں کسی بھی قسم کی قیودات و شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کاخیال ہے کہ تعلیم بچیوں کے بنیادی حقوق میں سے ہے، اس لئے چاہے کچھ بھی ہوجائے تعلیم پرکسی قسم کاسمجھوتہ نہیں ہوناچاہیئے۔

 

تیسری قسم کے لوگ لاپرواہی کامظاہرہ کرکے بچیوں کی تعلیم میں کوتاہی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن لڑکیوں کو عملاً تعلیم دینے کا انتظام بھی نہیں کرتے۔ ان کے مطابق بچیوں کی تعلیم وتربیت کی کوئی قدروقیمت نہیں،تعلیم مل جائے تواچھی بات اورنہ ملے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

 

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو بچیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں، نہ خود تعلیم کا بندوبست کرتےہیں اور نہ ہی اس کوجائز سمجھتے ہیں چاہے وہ تعلیم دینی وشرعی ہو یادنیوی وعصری۔ یہ لوگ تعلیم کو صرف نوکری کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کاخیال یہ ہے کہ چونکہ خواتین کے لئے نوکری اورملازمت کرناجائز نہیں ہے اس لئے ان کی تعلیم بلا فائدہ ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی تعدادکافی کم ہے۔ ان پڑھ اوربلا تعلیم ہونے کی وجہ سے انہیں تعلیم کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

 

بچیوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق نبوی تعلیمات:

نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں تعلیم کی ترویج کے لئےجتنی بھی تعلیمات بیان فرمائی گئی ہیں ان میں بیٹے اوربیٹی کےدرمیان کوئی فرق نہیں بتایاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ فرائض واحکامات کی پابندی جس طرح مردوں سے مطلوب ہے، اسی طرح عورتوں سے بھی مطلوب ہواکرتی ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کاارشادِگرامی ہے:

 

"طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُل مُسْلِمٍ" [18]

 

"علم حاصل کرناہرمسلمان پرٖفرض ہے۔"

 

اس حدیث کے الفاظ میں اگرچہ مذکرکاصیغہ استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنی ٰ مذکراورمؤنث دونوں کوشامل ہیں [19]یعنی علم حاصل کرنامردوں کے ساتھ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بچیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

"مَنْ كَانَتْ لَهُ بِنْتٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَن أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، وَأَسْبَغَ عَلَيْهَا مِنْ نِعَمِ اللَّهِ الَّتِي أَسْبَغَ عَلَيْهِ كَانَتْ لَهُ سِتْرًا أَوْ حِجَابًا مِنَ النَّارِ"[20]

 

"جس کی ایک بیٹی ہو اوراس نے اچھی طرح سے اس کی تربیت کی اوراس کواچھی تعلیم دلوائی اوراس پر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی فراوانی کی تو یہ اس کے لیے جہنم کے آگ سے حجاب ہوگی۔"

 

اس حدیث سے بچیوں کی تعلیم وتربیت کی فضیلت اوراہمیت نمایاں ہے۔

 

تعلیم نسواں کاسلسلہ نبی کریم ﷺ کے زمانے سے چلا آ رہاہے۔ اس سلسلے میں خواتین صحابیات ؓ نے نبی کریم ﷺ سے تعلیم وتربیت حاصل کی غرض سے وقت دینے کی درخواست کی تھی جونبی کریم ﷺ نے قبول فرمائی تھی۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں:

 

"قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ ﷺ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَال فَاجْعَل لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَاعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ"[21]

 

"عورتوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مرد آپ پرہم سے زیادہ غالب آ گئے، ہمارے لئے بھی ایک دن اپنی طرف سے مقرر فرما دیجیئے تونبی کریم ﷺ ان کو ایک دن عطا فرمایا جس میں ان کووعظ ونصیحت فرماتے تھے ۔"

 

تعلیم وتربیت کے حصول پر حضرت عائشہ ؓ انصاری صحابیات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

 

"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأْنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ"[22]

 

"انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں علم ِدین کے حصول میں حیاان کے لئے رکاوٹ نہیں ۔"

 

تربیت ہی کی غرض سے نبی کریم ﷺ نے سات سال کی عمرکے بچوں کو نمازپڑھنے کاحکم دینے کے بارے میں فرمایا ہے اور دس سال کی عمرمیں ان کونمازنہ پڑھنے پر ہلکی پھلکی مارپیٹ کاحکم دیاہے اوران کے بستروں کوالگ کرنے کے بارے میں بھی فرمایاہے۔[23]

 

امام نوویؒ کے مطابق یہ حدیث بیٹے اوربیٹی دونوں کو شامل ہے، چنانچہ فرمایاہے :

 

"وَالْحَدِيثُ يَتَنَاوَل بِمَنْطُوقِهِ الصَّبِيَّ وَالصَّبِيَّةَ، وَأَنَّهُ لاَ فَرْقَ بَيْنَهُمَا بِلاَ خِلاَفٍ"[24]

 

"یہ حدیث بچہ اوربچی دونوں کوشامل ہے اوربالاتفاق ان میں کوئی فرق نہیں۔ "

 

ایک تعلیم یافتہ خاتون اپنے ساتھ پورے ایک خاندان کوتعلیم یافتہ بناسکتی ہے لہٰذامعاشرتی طور پرشرح خواندگی بڑھانے کے لئے تعلیم نسواں کی اشدضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم و تربیت بھی انتہائی لازمی ہے۔ امام نووی ؒ، امام شافعیؒ کے حوالے سےفرماتے ہیں :

 

"قَال الشَّافِعِيُّ وَالأْصْحَابُ رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى: عَلَى الآْبَاءِ وَالأْمَّهَاتِ تَعْلِيمُ أَوْلاَدِهِمُ الصِّغَارِ الطَّهَارَةَ وَالصَّلاَةَ وَالصَّوْمَ وَنَحْوَهَا، وَتَعْلِيمُهُمْ تَحْرِيمَ الزِّنَى وَاللِّوَاطِ وَالسَّرِقَةِ، وَشُرْبِ الْمُسْكِرِ وَالْكَذِبِ وَالْغِيبَةِ وَشِبْهِهَا، وَأَنَّهُمْ بِالْبُلُوغِ يَدْخُلُونَ فِي التَّكْلِيفِ، وَهَذَا التَّعْلِيمُ وَاجِبٌ عَلَى الصَّحِيحِ، وَأُجْرَةُ التَّعْلِيمِ تَكُونُ فِي مَال الصَّبِيِّ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ فَعَلَى مَنْ تَلْزَمُهُ نَفَقَتُهُ، وَقَدْ جَعَل الشَّافِعِيُّ وَالأْصْحَابُ لِلأْمِّ مَدْخَلاً فِي وُجُوبِ التَّعْلِيمِ؛ لِكَوْنِهِ مِنَ التَّرْبِيَةِ وَهِيَ وَاجِبَةٌ عَلَيْهَا كَالنَّفَقَةِ"[25]

 

"امام شافعیؒ اوران کے ساتھی فرماتے ہیں: والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے چھوٹے بچوں کوطہارت،نماز اورروزہ وغیرہ کے مسائل سکھائیں ، اسی طرح زنا، لواطت، چوری، نشہ آور اشیاء کے پینے، جھوٹ اور غیبت وغیرہ کی حرمت بیان کرنا اوریہ کہ بلوغت کے بعد وہ مکلف ہوں گے ، یہ سکھاناواجب ہے ۔ اس تعلیم کی اجرت بچے کے مال سے لی جائے گی، اگراس کامال نہ ہوتوجس پر اس کانفقہ لازم ہو امام شافعی ؒ اوران کے اصحاب نے بچے کی تعلیم کی ذمہ داری ماں پرواجب کی ہے اس لئے کہ نفقہ کی طرح تربیت کرنابھی اس کی ذمہ داری ہے۔"

 

فقہی طورپر دینی تعلیم وتربیت والدین اورسرپرستوں پر جس طرح نرینہ اولادکے لئے لازمی ہے اسی طرح بچیوں کے لئے بھی لازمی ہے البتہ دنیوی وعصری تعلیم کے لئے ضرورت کودیکھاجاتاہے مثلاً خواتین کی پوشیدہ بیماریوں کے علاج کے لئے خواتین ڈاکٹروں کی موجودگی شرعاًبھی ضروری ہے اگرچہ خواتین ڈاکٹر کی عدم دستیابی کی صورت میں مردڈاکٹربھی حدودکے اندرخواتین کاعلاج کرسکتاہے تاہم حدودوشرائط کی رعایت رکھتے ہوئےخواتین کو دنیوی تعلیم دینے کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ [26]

 

۶: بیٹیوں کے ساتھ پیارومحبت کرنا:

بچوں کی تعلیم وتربیت میں اخلاقی اورشرعی طورپرضروری ہے کہ بیٹے کوبیٹی پرترجیح نہ دی جائے کہ بیٹے کا بچپن اچھا گزرے، ہرکوئی اس کاخیال رکھے، اس سے پیارکرے، اس کوکھانے پینے کی اشیاء، کھلونے وغیرہ ملتے رہیں اور اس کے برعکس بیٹی کا خیال اس قدر نہ کیاجائے۔ بچیوں کی تعلیم وتربیت کی ترغیب دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ان پر لڑکوں کو ترجیح نہ دینے پر زور دیا ہے۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کاارشادگرامی ہے :

 

"مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا وَلَمْ يُهِنْهَا وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ (يَعْنِي الذُّكُورَ) عَلَيْهَا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ"[27]

 

"جس کی بیٹی ہو، وہ اس کوتکلیف نہ دے اور اس کی اہانت نہ کرے اور نرینہ اولادکو اس پر ترجیح نہ دے، اللہ اس کوجنت میں داخل کرے گا۔"

 

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کے ساتھ کم پیار کرنے کو ناپسند فرمایا ہے اور اس کو نا انصافی قراردیاہے۔ حضرت انس ؓ فرماتےہیں :

 

"أَنَّ رَجُلاً كَانَ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَ ابْنٌ لَهُ فَقَبَّلَهُ وَأَجْلَسَهُ فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ جَاءَتْ بِنْتُهُ فَأَخَذَهَا فَأَجْلَسَهَا إِلَى جَنْبِهِ فَقَال النَّبِيُّ ﷺ: فَمَا عَدَلْتَ بَيْنَهُمَا"[28]

 

"ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا تھا، اس شخص کا بیٹا آ گیا، اس نے اپنے بیٹے کا بوسہ لیا اور اس کو اپنی گود میں بٹھایا۔ اس کے بعد اس کی بیٹی آئی تو اس نے اس کو لیا اور اپنے ایک طرف بٹھا دیا تونبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔"

 

پختون معاشرے میں بچیوں کی تعلیم وتربیت اوروالدین کابچیوں کے ساتھ پیارومحبت:

جیسا کہ پہلےبتایاگیاہے کہ پختون معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کے متعلق چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، اس میں چوتھی قسم کے لوگ جوبچیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں، وہ شرعی طورپرناجائز اورحرام کام کررہے ہیں اس لئے کہ یہ صریح نصوص کی مخالفت ہے۔ تیسری قسم کے لوگ جوبچیوں کی تعلیم میں غفلت اور کوتاہی کر رہے ہیں، گناہگار ہیں ،بچیوں کے حقوق ادانہیں کررہے ہیں۔

 

دوسری قسم کے لوگ جو ہر حال میں ہرقسم کی تعلیم کے بلاشرط حامی ہیں وہ کچھ غلطی کررہے ہیں کیونکہ حدود و قیود کا خیال رکھنا ضروری ہے جیسا کہ پہلی قسم کے لوگوں کاخیال ہے ۔تیسری اور چوتھی قسم کے لوگ پختون معاشرے میں پہلے زیادہ تھے، اب ان کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔ سروے کے مطابق پختون معاشرے کے۵۳ فیصد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکولوں میں داخل ہو رہے ہیں جن میں لڑکوں کے مقابلے میں بچیوں کاتناسب کم ہے [29]جو اس بات پر دال ہے کہ پختون معاشرے میں بچیوں کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ، دینی اورشرعی لازمی تعلیم کے اہتمام کی اشد ضرورت ہے۔ اس کمی کوپوراکرنے میں دینی مدارس وجامعات اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں اور ملک کے طول وعرض میں بنات کے مدارس اور جامعات وجودمیں آ رہے ہیں جس سےتعلیم ِ نسواں کی ترویج میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہاہے جس کا اچھا نتیجہ مستقبل قریب میں سامنے آ جائے گا۔

 

اسی طرح پختون معاشرے میں اولاد کے ساتھ بچپن میں پیارومحبت کے برتاؤ میں ناانصافی کی جاتی ہے۔ بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کے ساتھ اتناپیار نہیں کیا جاتا۔ بعض علاقوں خصوصاً دیہات اورپہاڑی علاقوں میں باپ کے لئے اپنی بیٹی کوگود میں اٹھاکرباہرگھومنامعیوب سمجھاجاتاہے ۔ بعض دیہاتوں میں تو یہ مشاہدہ ہے کہ باپ لوگوں کے سامنے اپنی بچی کو گود میں نہیں اٹھاتا کہ لوگ اس کو زن مرید کہیں گے۔

 

۷: بچیوں کوہدیہ اورمیراث دینا :

تعلیماتِ نبوی ﷺ میں والدین کویہ تلقین کی گئی ہے کہ زندگی میں اپنے بچوں کے مابین ہدایاء کی تقسیم میں برابری اورمساوات سے کام لینا چاہیئے۔ اس میں مردوں کوخواتین پرترجیح نہیں دینی چاہیئے کیوں کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

 

"لاَ يَجُوزُ تَفْضِيل الذَّكَرِ عَلَى الأْنْثَى فِي الْعَطِيَّةِ"[30]

 

"عطیہ میں نرینہ اولاد کو زنانہ اولاد پر ترجیح دینا ناجائزہے ۔"

 

مزیدبرآں حضرات مالکیہؒ نے ایسے وقف کوباطل اورناجائز قراردیاہے جس میں خواتین کومحروم رکھاجائے اورصرف نرینہ اولاد کے لئے وقف کیاجائے اور اس کو زمانہ جاہلیت کے افعال میں سے شمار کیاہے ۔[31]

 

ہمارے معاشرے میں یہ دیکھاجاتاہے کہ والدین اپنی زندگی میں بیٹیوں کی نسبت بیٹوں کوبہت عطاکرتے ہیں۔ بیٹیوں کو یا تو بالکل نہیں دیتے یا صرف جہیز میں کچھ دے کر جان چھڑائی جاتی ہے۔ ہدیہ، تحفہ تودرکنار، میراث جو ان کا بنیادی شرعی حق ہے، وہ بھی اکثرنہیں دیا جاتا۔ نبی کریم ﷺ سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ان کومیراث میں سے حصہ نہیں ملتا تھا، تفسیر طبری میں ہے :

 

"جَعَل اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلأْنْثَى نَصِيبًا فِي الْمِيرَاثِ كَمَا لِلذَّكَرِ نَصِيبٌ، وَقَدْ كَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ لاَ يُوَرِّثُونَ الإْنَاثَ. قَال سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَقَتَادَةَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَجْعَلُونَ الْمَال لِلرِّجَال الْكِبَارِ وَلاَ يُوَرِّثُونَ النِّسَاءَ وَلاَ الأْطْفَال شَيْئًا، فَأَنْزَل اللَّهُ تَعَالَى: {لِلرِّجَال نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأْقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأْقْرَبُونَ مِمَّا قَل مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا}[32].أَيِ الْجَمِيعُ فِيهِ سَوَاءٌ فِي حُكْمِ اللَّهِ تَعَالَى يَسْتَوُونَ فِي أَصْل الْوِرَاثَةِ وَإِنْ تَفَاوَتُوا بِحَسَبِ مَا فَرَضَ اللَّهُ لِكُلٍّ مِنْهُمْ"[33]

 

"اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کے لئے بھی مردوں کی طرح حصہ مقرر کیا ہے حال یہ کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کومیراث نہیں دیتے تھے ۔ سعیدبن جبیر اورقتادہ فرماتے ہیں کہ مشرکین میراث صرف بڑے مردوں کودیتے تھے، عورتوں اور بچوں کو حصہ نہیں دیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی :"والدین اوررشتہ دار جوترکہ چھوڑدیں اس میں مردوں کابھی حصہ ہے اوراس میں عورتوں کابھی حصہ ہے ۔کمی اورزیادتی کے ساتھ حصے مقررکئے گئے ہیں۔" یعنی اصل وراثت میں سارے برابر ہیں اگر چہ ہر ایک کے مقررہ حصوں میں تفاوت ہے۔"

 

امام ماوردی ؒنےقرآن میں آیاتِ میراث کا سببِ نزول یہی بیان فرمایاہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو میراث میں حصہ نہیں ملتا تھا تو قرآن نے ان کوحصہ داربنایاہے، فرماتے ہیں:

 

"سَبَبُ نُزُول هَذِهِ الآْيَةِ أَنَّ أَهْل الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُوَرِّثُونَ الذُّكُورَ دُونَ الإْنَاثِ، فَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عِكْرِمَةَ قَال: نَزَلقَوْل اللَّهِ تَعَالَى: {لِلرِّجَال نَصِيبٌ}الآْيَةَ فِي أُمِّ كَجَّةَ وَبَنَاتِهَا وَثَعْلَبَةَ وَأَوْسِ بْنِ سُوَيْدٌ وَهُمْ مِنَ الأْنْصَارِ، وَكَانَ أَحَدُهُمَا زَوْجَهَا وَالآْخَرُ عَمَّ وَلَدِهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُول اللَّهِ تُوُفِّيَ زَوْجِي وَتَرَكَنِي وَابْنَتَهُ وَلَمْ نُوَرَّثْ، فَقَال عَمُّ وَلَدِهَا: يَا رَسُول اللَّهِ، وَلَدُهَا لاَ يَرْكَبُ فَرَسًا وَلاَ يَحْمِل كَلًّا، وَلاَ يَنْكَأُ عَدُوًّا يَكْسِبُ عَلَيْهَا وَلاَ تَكْسِبُ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآْيَةُ"[34]

 

"اس آیت (للرجال نصیب۔۔۔۔۔ الخ ) کاسبب نزول یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صرف مردوں کوحصہ دیتےتھے اورعورتوں کوحصہ نہیں دیتے تھے۔ ابن جریج، حضرت عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت ام کجہ، اس کی بیٹیوں، ثعلبہ اوراوس بن سویدکے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ تمام انصاری صحابہ تھے ان دومردوں میں سے ایک ام کجہ کا شوہر اور دوسرا اس کا دیور تھا۔ ام کجہ نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ!میرا شوہر وفات پا گیا، مجھے اورمیری بیٹیوں کو چھوڑ دیا اور ہمیں میراث میں حصہ نہیں دیا گیا تو اس کے دیور(بچیوں کے چچا) بولے: یا رسول اللہ ﷺ! اس کی بچیاں گھوڑے پرسواری نہیں کرسکتیں، بوجھ نہیں اٹھاسکتیں، نہ دشمن کوقتل کرکے کچھ کماسکتی ہیں اور نہ ایسے کچھ کما سکتی ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔"

 

اسی طرح سورۃ النساء کی آیت نمبر(۱۱) کے سبب نزول کاواقعہ بھی کچھ اسی طرح ہے کہ عورتوں کومیراث میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ ابن کثیر ؒلکھتے ہیں:

 

"سَبَبُ نُزُول قَوْله تَعَالَى: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْل حَظِّ الأْنْثَيَيْنِ}مَا رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ قَال: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ إِلَى رَسُول اللَّهِ فَقَالَتْ: يَا رَسُول اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِل أَبُوهُمَا مَعَكَ فِي يَوْمِ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالاً، وَلاَ يُنْكَحَانِ إِلاَّ وَلَهُمَا مَالٌ فَقَال: يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَأَرْسَل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا فَقَال: أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ"[35]

 

"{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْل حَظِّ الأْنْثَيَيْنِ}آیت کاسبب نزول یہ ہے کہ سعدبن ربیع کی بیوی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں ان کے والد آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے اور ان کے چچا ان کا مال لے گئے، ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور مال کے بغیرتوکوئی ان کے ساتھ نکاح نہیں کرتا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ اس میں تمہارا فیصلہ فرمائے گا، تو میراث کی یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے چچا کے پاس پیغام بھیجا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو دو تہائی، ان کی ماں کوآٹھواں حصہ دے دو اور باقی تمہارا۔"

 

اس ساری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی سیرتِ طیبہ میں مالی مسائل کو عموماً جب کہ میراث کے مسائل کوخصوصاً بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔قرآن کریم میں زیادہ تر احکامات کا تذکرہ اُصولی طور پر کیاگیا ہے جب کہ میراث کی جزئیات بیان کرکے ہر ایک وارث کاحصہ بیان کیا گیا ہے۔جن میں عورتوں کی مد میں ماں، بیوی، بیٹی کووراث بنایا ہے، جب کہ بہن، دادی، پوتی وغیرہ کو مخصوص حالات کے تحت حصہ دار بنا یاگیا ہے۔ ارشادربانی ہے:

 

"لِلذَّكَرِ مِثْل حَظِّ الأْنْثَيَيْنِ"[36]

 

"مردکوعورت کے حصے کا دگناملے گا۔"

 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں کا حصہ عورتوں کے حصص کو بنیاد بنا کر بیان کیا گیا ہے گویا کہ عورت کا حصہ پہلے سے متعین ہے۔ جن ورثاء کا حصہ مقرر ہے، ان میں سے دو تہائی ورثاء (جن کوذوی ا لفروض کہاجاتا ہے) کاتعلق مؤ نثات سے ہے۔ ذوی الفروض بارہ ہیں،جن میں آٹھ عورتیں (ماں،بیوی،بیٹی،پوتی ،حقیقی بہن،باپ شریک بہن ،ماں شریک بہن، دادی، نانی) اورچار مرد (باپ،دادا،شوہر، ماں شریک بھائی) ہیں۔ لہٰذا شریعت کے مقرر کردہ حصہ سے کسی وارث کو محروم رکھنے والے ورثاء غاصب شمار ہوں گے کیوں کہ کسی مسلمان کی اجازت کے بغیر اُس کے مال کو استعمال کرنا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے۔ [37]

 

علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:

 

"أَيْ هَذِهِ الْفَرَائِضُ وَالْمَقَادِيرُ الَّتِي جَعَلَهَا اللَّهُ لِلْوَرَثَةِ بِحَسَبِ قُرْبِهِمْ مِنَ الْمَيِّتِ وَاحْتِيَاجِهِمْ إِلَيْهِ وَفَقْدِهِمْ لَهُ عِنْدَ عَدَمِه، هِيَ حُدُودُ اللَّهِ، فَلَا تَعْتَدُوهَا وَلَا تُجَاوِزُوهَا۔۔۔الخ" [38]

 

" یہ مقرر ہ حصےّ اور مقداریں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ورثاء کے لئے بیان کیا ہے جو ان کی میت کے ساتھ رشتہ داری، میت کی طرف احتیاج اور اُس کی عدم موجودگی کی مناسبت سے ہے، یہی اللہ کی حدود ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔"

 

گویا عورتوں کومیراث میں حصہ ملنا نبی کریم ﷺ کی نبوت کےصدقے ہے۔

 

۸: نکاح میں خواتین کی اجازت :

زمانہ جاہلیت میں عورت کوکسی قسم کاحق نہیں دیتے تھےحتیٰ کہ باپ کے مرجانے کے بعد اس کی بیوی(اپني سوتیلی ماں) کو بھی مال کی طرح میراث کا حصہ بنا کر تقسیم کرلیتے تھے۔ علامہ ابن کثیر ؒفرماتے ہیں:

 

"كان الرجل إذا توفي، كان ابنه أحق بامرأته ينكحها إن شاء إذا لم يكن ابنها أو ينكحها من شاء أخاه أو ابن أخيه."[39]

 

"(اہل جاہلیت میں) جب کوئی شخص وفات پا جاتا تو اس کا (سوتیلا) بیٹا باپ کی منکوحہ پر نکاح کا سب سے زیادہ حق دار ہوتا، بیٹے کی عدم موجودگی کی صورت میں شوہر کا بھائی یابھتیجا اس کا نکاح کرواتاتھا۔"

 

امام بخاری عورتوں کے ساتھ اس زیادتی کے متعلق فرماتے ہیں:

 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا}[40] الآيَةَ. قَالَ: " كَانُوا إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ كَانَ أَوْلِيَاؤُهُ أَحَقَّ بِامْرَأَتِهِ: إِنْ شَاءَ بَعْضُهُمْ تَزَوَّجَهَا، وَإِنْ شَاءُوا زَوَّجَهَا، وَإِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجْهَا، فَهُمْ أَحَقُّ بِهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي ذَلِكَ"[41]

 

"ابن عباس ؓ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا} کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب ان میں کوئی شخص وفات پا جاتا تو اس کی بیوی پر اس کے اولیاء زیادہ حق دار ہوتے اگر کوئی اس سے نکاح کرنا چاہتا تو خودنکاح کرلیتا یاکسی اور سے نکاح کروا دیتے یاکسی کے ساتھ نکاح نہ کرنے دیتے، تویہ آیت نازل ہوئی۔"

 

بعض اوقات شوہر کے مر جانے کے بعد اس کے ورثاء اس بیوہ عورت کےساتھ نہ نکاح کرتے تھے اور نہ ہی کہیں نکاح کرنے دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ مرجاتی اور اس کا مال بھی ان کو مل جاتا تھا، تفسیر ابن کثیر میں ہے :

 

"قَال زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ كَانَ أَهْل يَثْرِب إِذَا مَاتَ الرَّجُل مِنْهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَرِثَ امْرَأَتَهُ مَنْ يَرِثُ مَالَهُ، وَكَانَ يَعْضُلُهَا حَتَّى يَرِثَهَا أَو يُزَوِّجَهَا مَنْ أَرَادَ"[42]

 

"زیدبن اسلم ؓ فرماتے ہیں کہ یثرب والوں میں زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد وفات پا جاتا تو مال کے ورثاءاس کی بیوی کے بھی وارث ہو جاتے، وہ اس عورت کو اس کے مال کا وارث بننے تک نکاح نہ کرنے دیتے یا اپنی مرضی کے مطابق اس کانکاح کرواتے۔"

 

انہی حالات کے پیشِ نظر قرآن کریم میں باپ کی منکوحہ کے ساتھ نکاح کرنے کی ممانعت نازل ہوئی اورفرمایاگیا:

 

"وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا"[43]

 

"اپنے باپ کی منکوحہ کے ساتھ نکاح مت کرو، ہاں جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا، یہ فحش کام، اللہ کی ناراضگی کا سبب اور بُرا راستہ ہے۔ "

 

خلاصہ کلام یہ کہ زمانہ جاہلیت میں خواتین کوکسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے نہ ان کومیراث میں کوئی حصہ ملتاتھا نہ ان کو اپنی مرضی کے مطابق اپنےنکاح کے متعلق فیصلے کاکوئی اختیارحاصل تھا۔

 

نبی کریم ﷺ کی نبوت کے صدقے خواتین کو وہ سارے حقوق مل چکے ہیں جن کابراہ راست تعلق ان کی زندگی کے ساتھ ہو، چنانچہ ان کے مالی تصرفات کے ساتھ ساتھ ان کی ولایت،یہاں تک کہ ان کے قاضی اورجج بننے کوبھی جائز قراردیاہے۔[44] اسی طرح ان کو میراث کاحق بھی دیا گیاہے، نکاح کرنے اورکروانے کی ولایت بھی بخش دی گئی ہے اورقرآن کریم نے اعلان فرمایا:

 

"فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوف"[45]

 

"ان کواپنے نکاح کرنے سے مت روکو، اگر وہ راضی ہوں۔"

 

اسی طرح خواتین کو نکاح کا اختیار دینے کے لئے مؤنث کا صیغہ استعمال فرمایاہے، ارشادباری تعالیٰ ہے:

 

"فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه"[46]

 

"اگرمرد(تیسری دفعہ) عورت کوطلاق دے تویہ اس شوہر کے لئے اس وقت تک جائزنہیں جب تک یہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔"

 

مؤنث کے صیغوں سے واضح طورپرمعلوم ہوتاہے کہ خواتین کو اپنا نکاح خودکروانے کی اجازت ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے نکاح کے لئے عورتوں سے اجازت لینے کا حکم دیا ہے ، ارشاد فرمایا:

 

"عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:«لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»"[47]

 

"حضرت ابوسلمہ ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرمایا:بے نکاح عورت (بیوہ) سے مشورہ کرکے نکاح کرناچاہیئے، غیرشادی شدہ خاتون کے ساتھ بھی نکاح کرتے وقت اس سےاجازت لینی چاہیئے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ فرمایا: جب وہ خاموش ہوجائے۔"

 

حضرت عثمان بن عفان ؓ کے متعلق روایات میں آتاہے کہ وہ اپنی بیٹی کانکاح کرتے ہوئے ان سے پوچھاکرتے تھے۔[48] فقہ حنفی نے عاقل بالغ خاتون کو خود اپنا نکاح کروانے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ نکاح کفومیں ہو اور مہرمثل سے کم پر نہ ہو۔

 

"وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى بكرا كانت أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف "رحمهما الله" في ظاهر الرواية"[49]

 

"امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے ہاں ظاہر الروایۃ میں آزاد، عاقل اور بالغ عورت کانکاح، اس کی رضامندی کے ساتھ اس کے ولی کے بغیر منعقد ہوجاتاہے چاہے وہ باکرہ ہو یاثیبہ۔"

 

پختون معاشرے میں خواتین کانکاح :

آج کے معاشرے میں عورت کی حالت اگرديكھی جائے اوراس کا دورِجاہلیت کی عورت کے ساتھ تقابل کیاجائے تونتیجہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ یہاں پربھی بسااوقات، گھرکاسربراہ نکاح کے لئے اپنی بچیوں سے پوچھنے کی زحمت گوارانہیں کرتا اور اپنی مرضی کے مطابق اس کانکاح کرواتا ہے۔ اگرچہ سیرتِ طیبہ نے باپ اور دادا کو اپنی بچیوں کے نکاح کا اختیار دیا ہوا ہے لیکن اپنی بچی کی رائے کوبالکل نظراندازکرنا قابل غور ہے ۔نبی کریم ﷺ سے زیادہ ،کون اپنے بچوں کے لئے شفیق اور مہربان ہو گا؟ ان جیسی ہستی بھی اپنی بیٹیوں کے نکاح کے وقت ان سے ان کی مرضی دریافت فرماتے تھے۔ حضرت مہاجر بن عکرمہ ؓ فرماتے ہیں :

 

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستأمر بناته إذا أنكحهن قال: يجلس عند خدر المخطوبة، فيقول: «إن فلانا يذكر فلانة»، فإن حركت الخدر لم يزوجها، وإن سكتت زوجها"[50]

 

"نبی کریم ﷺ جب اپنی بیٹیوں کانکاح فرماتے تھے توان سے اجازت طلب کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ وہ ان کے خلوت خانے کے قریب بیٹھ کر دریافت فرماتے کہ فلاں شخص فلاں عورت کا تذکرہ کر رہا تھا، اگر وہ خلوت خانہ حرکت کرتا تو نکاح نہ فرماتے اور اگر خاموشی ہوتی تب اس کا نکاح فرماتے۔"

 

بچیوں کے نکاح میں ان کی رضامندی کا خیال رکھنے کے متعلق حضرت عائشہ ؓ، نبی کریم ﷺ سے یہ ارشاد نقل کرتی ہیں:

 

"سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْجَارِيَةِ يُنْكِحُهَا أَهْلُهَا، أَتُسْتَأْمَرُ أَمْ لَا؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ: «نَعَمْ، تُسْتَأْمَرُ»، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: فَإِنَّهَا تَسْتَحِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:«فَذَلِكَ إِذْنُهَا، إِذَا هِيَ سَكَتَتْ»"[51]

 

"میں نے نبی کریم ﷺ سے ایسی لڑکی کے بارے میں پوچھا جس کے گھر والے اس کا نکاح کروا رہے ہوں تو کیا وہ اس سے پوچھیں گے یانہیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس سے پوچھیں گے۔عائشہ ؓفرماتی ہیں میں نے پوچھا کہ ایسی بچی تو شرماتی ہے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب وہ خاموش ہو جائے تویہ اس کی رضامندی ہے۔ "

 

اسی طرح باکرہ اورثیبہ کی اجازت میں فرق بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایاہے :

 

"الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا، وَرُبَّمَا قَالَ: وَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا"[52]

 

"ثیبہ خاتون اپنے آپ کی زیادہ حقدارہے اپنے ولی سے، اورباکرہ سے اس کا والد اس کی ذات کے بارے میں اجازت لے گا اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے اورکبھی فرمایا کہ اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے۔"

 

سیرتِ طیبہ کی ان تعلیمات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ باپ کواگرچہ ولایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بچی سے پوچھ کراس کانکاح کرناچاہیئے۔ اسی ولایت اوربچی کے اختیار کومدنظررکھ کر فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ عاقل بالغ لڑکی کا ازخودنکاح کرانادرست ہے بشرطیکہ کفومیں ہویعنی شوہرمیں کفوکی تمام شرائط موجودہوں۔

 

اسی طرح عاقلہ بالغہ ثیبہ عورت کانکاح، اگراس کی رضامندی کے بغیرکیاجائے اوروہ ایسے نکاح کی اجازت نہ دے تو شرعاً ایسا نکاح نافذنہیں رہے گا اگرچہ باپ نے یہ نکاح کیوں نہ کیاہو،جیسے کہ ایک انصاری عورت خنساءبنت خزام ؓکا واقعہ امام بخاریؒ نے یوں نقل کیاہے :

 

"عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الْأَنْصَارِيَّةِ،:أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ، فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَرَدَّ نِكَاحَهَا"[53]

 

"حضرت خنساءبنت خزام ؓ سے روایت ہے کہ اس کے باپ نے اس کانکاح کیا، جب کہ وہ ثیبہ تھی اوراس کووہاں نکاح کرنا پسندنہیں تھا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اورنبی کریم ﷺ نے اس کا نکاح رد کردیا۔"

 

دوسری روایت میں یہ واقعہ نقل کرکے فرمایاگیاہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس عورت کواپنے نکاح کا اختیار دے دیا تھا اور اس نے اختیار ملنے کے بعد یہ کہاتھا کہ جب اختیار مجھے مل گیاہے تو میں اپنے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو قبول کرتی ہوں لیکن صرف یہ بات عورتوں کوبتلانے کے لئے کی تھی کہ ان کو کچھ اختیار حاصل ہے یانہیں ۔ ابن ابی شیبہ ؒ نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں نقل فرمایاہے :

 

"عن ابن بريدة، قال:جاءت فتاة إلى عائشة فقالت: إن أبي زوجني ابن أخيه لرفع خسيسته، وإني كرهت ذلك، فقالت لها عائشة: انتظري حتىي أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسل إلى أبيها، فجعل الأمر إليها، فقالت:أما إذا كان الأمر إلي فقد أجزت ما صنع أبي، إنما أردت أن أعلم هل للنساء من الأمر شيء أم لا"[54]

 

"ابن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان عورت حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی اورکہا کہ میرے باپ نے میرانکاح اپنے بھتیجےکے ساتھ اس کی رزالت کوختم کرنے کے لئے کیاہے اورمجھے یہ نکاح پسند نہیں ہے توعائشہ ؓ نے اس سے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے آنے تک تھوڑا انتظار کرلے، جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اس کے باپ کو پیغام بھیجا اوراس عورت کو خود اپنا اختیار دے دیا تو اس نے کہا کہ جب اختیارمجھے ملا تو میں اپنے باپ کے فیصلے کو نافذ رکھتی ہوں پس میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کوبھی کچھ اختیار حاصل ہے یانہیں ۔"

 

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ باپ کواپنی بیٹی کے نکاح کا اختیار، بیٹی کی رضامندی کا خیال رکھتے ہوئے حاصل ہے۔جبراََ اس کی ناراضگی کے باوجود، بیٹی پرنکاح کا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتا۔ ابن ابی شیبہ ؒ فرماتے ہیں:

 

"عن ابن طاوس، عن أبيه، قال:لا يكره الرجل ابنته الثيب على نكاح هي تكرهه"[55]

 

"باپ اپنی بالغ بیٹی پر نکاح کے معاملے میں زبردستی نہیں کر سکتا جب اس کی رضامندی نہ ہو۔"

 

اسی طرح "الاختيارفی تعلیل المختار" میں ہے کہ حضرت علی ؓ کے زمانے میں ایک عورت نے اپنی بیٹی کانکاح اس کی رضامندی کے ساتھ کیا تھا اور اس کے رشتہ داروں کو اس پر اعتراض تھا چنانچہ حضرت علی ؓ نے اس نکاح کونافذقراردیاتھا۔

 

"وَرُوِيَ أَنَّ امْرَأَةً زَوَّجَتْ بِنْتَهَا بِرِضَاهَا فَجَاءَ الأْوْلِيَاءُ وَخَاصَمُوهَا إِلَى عَلِيٍّ فَأَجَازَ النِّكَاحَ. هَذَا دَلِيل الاِنْعِقَادِ بِعِبَارَةِ النِّسَاءِ، وَأَنَّهُ أَجَازَ النِّكَاحَ بِغَيْرِ وَلِيٍّ؛ لأِنَّهُمْ كَانُوا غَائِبِينَ؛ لأِنَّهَا تَصَرَّفَتْ فِي خَالِصِ حَقِّهَا، وَلاَ ضَرَرَ فِيه لِغَيْرِهَا فَيَنْفُذُ، كَتَصَرُّفِهَا فِي مَالِهَا" [56]

 

"روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنی بیٹی کانکاح اس کی رضامندی کے ساتھ کروایا تھا، اس کے اولیاء اس کے خلاف حضرت علی ؓ کے پاس آئے تو حضرت علی ؓ نے اس کانکاح نافذ قرار دیا۔ یہ خواتین کے الفاظ کے ساتھ نکاح کےانعقاد اور بغیرولی کے نکاح کے جائز ہونے پر دلیل ہے اس لئے کہ وہ اس وقت موجودنہیں تھے۔ وجہ یہ کہ اس نے صرف اپنے حق میں تصرف کیا تھا اور اس میں کسی کا کوئی ضررنہیں تھا لہٰذا یہ نکاح نافذ تھا جیسے کہ مال میں تصرف کرنا۔"

 

اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ عورت اپنا نکاح خودکروا سکتی ہے۔ شریعت نے باپ کواپنی بیٹی کے نکاح کا جو اختیار دیا ہے، اس کے لئے کئی ایک شرائط رکھی ہیں؛ مثلاًباپ،بیٹی کے درمیان ظاہری طورپرکسی قسم کی دشمنی نہ ہو،باپ اپنی بیٹی کا نکاح اس کے کفو میں کرے اور مہرمثل سے کم پر نہ کرے، ایسے مرد کے ساتھ اپنی بیٹی کانکاح نہ کرے جس کے ساتھ زندگی گزارنا متعذر ہو جیسے بہت بوڑھا ہو یا اندھا ہو۔[57]

 

خلاصہ یہ کہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں عورت کو اپنے نکاح کے بارے اظہاررائے کاحق حاصل ہے لہٰذاہمارے معاشرے میں بھی اس کی آگاہی ہونی چاہیئے اورکسی باپ کوبیٹی کے نکاح کے بارے میں، بیٹی سے خود یا والدہ اور گھر کی خواتین کے ذریعے پوچھتے ہوئے شرم اورعار محسوس نہیں کرنی چاہیئے کہ یہی عین سنت نبوی ہے لہٰذا اپنی غیرت کے تقاضوں کوسنت کے ماتحت رکھناچاہیئے۔ خواتین کے نکاحوں میں ان کی مرضی کا خیال رکھنا شریعت کا ایک ضروری امر ہے جس کے نتائج یقیناََ خوشگوار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس آج کل نکاحوں میں بچوں کی مرضی کا خیال نہ رکھنے کے بُرے نتائج سامنے آ رہے ہیں کہ ان کی آپس میں نہیں بنتی اور مقاصدِ نکاح حاصل نہیں ہوپاتے۔ نتیجہ کے طورپرطلاق،خلع،خُودکشی ،قتل وغارت گری اور غیرت کے نام پرقتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں نبوی تعلیمات کو فروغ دے کر بچیوں کی زندگیوں اور حقوق کی حفاظت کی جائے۔

 

۹: سسرالی معاشرہ میں خواتین کی گزربسر:

پختون معاشرہ میں خواتین کی بڑی حدتک عزت کی جاتی ہے۔ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں پرساس بہوبھی آرام سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ تناسب انتہائی کم ہے۔ ساس، بہو کا معاملہ جس طرح دوسرے معاشروں میں مشہور ہے، اسی طرح پختون معاشرے میں بھی ہے ۔عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ ہر ماں اپنی بیٹی کواپنے دامادکے ساتھ خوش دیکھنا چاہتی ہے لیکن اپنے بیٹے اور بہو کے لئے اس کے یہ جذبات زیادہ نظرنہیں آتے ۔خواتین، بہن اوربیٹی کی صورت میں کافی حدتک خوش رہتی ہیں والدین اوربہن بھائی اس کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد جس سسرال کے لئے وہ اپنے خاندان کوچھوڑ کر آتی ہے، وہاں زیادہ تر ان کواتنی خوشی اورمحبت نہیں ملتی جتنی ان کی امیدیں ہوتی ہیں البتہ اس کے برعکس بہوسے خدمت کی بڑی اُمیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔

 

پختون معاشرے میں عمومی طورپرشوہرکے علاوہ سسر،ساس اورسسرال کے بعض دوسرے افرادکی خدمت کرنا، بہو کے فرائض میں شمارکیا جاتا ہے۔ ان کے لئے کھانا، چائے وغیرہ تیارکرنا،سردی،گرمی، رمضان اورغیررمضان میں تندور پر روٹی پکانا، ان کے کپڑے دھونا، استری کرنا، بروقت چائے اورکھانا بغیرکسی نقص کے پیش کرنا، برتن دھونا، مہمانوں کے لئے وقت بے وقت انتظامات کرنا،گھرکوصاف رکھنے کے لئے جھاڑو پوچہ لگانا، الغرض گھر کے تمام کام اس کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں سسرال والے کسی بھی غلطی یا کوتاہی کوبرداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ بعض جہلاء کے ہاں تو کھانے میں نمک کی کمی، زیادتی پر اس کی مارپیٹ تک کی جاتی ہے۔

 

اس کے علاوہ شوہر کی تمام ضروریات اورخواہشات کوپوراکرنااوراس کے بچوں کی رضاعت اورحضانت کرنا، اس کی معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔اس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو اس کی ضروریات کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا جتنا اس کا حق بنتا ہے۔ اس کی صحت، علاج و معالجہ اوراس کے خاندان میں غمی، خوشی کواتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی خدمات کے باوجود ایسی بہوکی تعریف نہیں کی جاتی بلکہ ساس اپنی بہوکے بارے میں شکایتیں ہی کرتی ہے۔ ایسے سسرال کو ظالمانہ سسرال کے علاوہ اورکیاکہاجاسکتاہے ۔

 

نبی رحمت ﷺ نے اپنی سیرتِ طیبہ میں میاں بیوی کے لئے حقوق کے وجوب میں مساوات کومدِنظر رکھاہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

 

"وَلَهُنَّ مِثْل الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ"[58]

 

"اوران عورتوں کے بھی شوہروں پرویسے ہی حقوق ہیں جس طرح ان کے فرائض ہیں۔"

 

زندگی گزارنے میں اللہ تعالی اوررسول اللہ ﷺ نے حسن معاشرت کاحکم دیاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے :

 

"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"[59]

 

"عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو۔"

 

اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں :

 

"أَيْ طَيِّبُوا أَقْوَالَكُمْ لَهُنَّ، وَحَسِّنُوا أَفْعَالَكُمْ وَهَيْئَاتِكُمْ بِحَسَبِ قُدْرَتِكُمْ، كَمَا تُحِبُّ ذَلِكَ مِنْهَا فَافْعَل أَنْتَ بِهَا مِثْلَهُ"[60]

 

"یعنی ان کے ساتھ بات اچھے طریقے سے کیاکرو، ان کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اخلاق رکھو جس طرح کہ تم مرداس سے یہ پسندکرتے ہو لہٰذاتم بھی ان سے اچھاسلوک کرتے رہنا۔"

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

 

"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأِهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأِهْلِي"[61]

 

"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لئے بہتر ہو اور میں تم سب میں سے اپنے گھروالوں کے بہترہوں ۔"

 

سیرتِ طیبہ سے یہی بات ثابت ہورہی ہے کہ نبی کریم ﷺنے اپنے گھروالوں کے ساتھ ہمیشہ اچھی معاشرت رکھی، ان کے ساتھ گھرمیں کام کیاہے ،باوجودنبی ہونے کے ان کے ساتھ کھیلاہے، دوڑلگائی ہے، ان کی دل لگی کے لئے ان کو صحابہ کے کھیل دکھائے ہیں، ان کو خوش رکھنے کے لئے نرمی کےساتھ دل لگی اورہنسی خوشی کی باتیں کی ہیں ، رات کو ان کوقصے سنائے ہیں، ان کوخرچہ دینے میں وسعت سے کام لیاہے ۔[62]

 

اس طرح سیرتِ نبوی کی تعلیمات یہ ہیں کہ ان کی غلطیوں پرچشم پوشی اورصبرکیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پربھی خواتین کے حقوق کے بارے میں تاکید فرمائی تھی کہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی ٰ سے ڈرتے رہو۔[63] ان کی ضروریات کاخیال رکھنا، ان کے کھانے پینے ، رہن سہن اورلباس، پوشاک کاخیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہےاور اگروہ سسرال سے الگ گھر کا مطالبہ کرے تویہ اس کاحق ہےجيسا كہ امام کاسانی نے ذکرکیاہے ۔[64]

 

پختون معاشرے میں اس شعور کی بیداری کے لئے بہت کام اورمحنت کی ضرورت ہے۔ عام لوگ خواتین کے ان حقوق سے بے خبرہیں۔ سسرال والے بہوکی خدمت کو اپنا شرعی حق سمجھتے ہیں حالانکہ بیوی پرشوہر کے والدین کی خدمت کرنا کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ حسن ِ معاشرت کی خاطر بیوی کویہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ شوہرکے والدین کی خدمت کرے لیکن اگر وہ انکار کرے توشوہراس کومجبورنہیں کرسکتا۔[65] لہٰذا ان کوسمجھاناتعلیم یافتہ طبقہ اورعلماءکرام کی ذمہ داری ہے تاکہ معاشرہ میں امن وخوشحالی قائم ہوسکے اور حقدار کو اس کا حق مل سکے ۔

 

۱۰: گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ معاشی ذمہ داریاں :

پختون معاشرے میں خواتین گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ کچھ معاشی ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہیں جومختلف علاقوں میں کم وزیادہ ہوتی ہیں، مثلاً پختون خواتین کی معاشی سرگرمیاں کم ہوتی ہیں اس لئے کہ پختون مرد عورت کی کمائی کھانے کو اپنی کم ہمتی سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی دفتری یا سرکاری ذمہ داریاں بہت کم ہیں تاہم اس کے باوجودوہ کچھ نہ کچھ معاش کرتی رہتی ہیں جیسے گھریلو دستکاری کرنا، سینا، پروناوغیرہ ۔

 

دیہاتی اور پہاڑی علاقوں میں اس کے علاوہ خواتین کی مصروفیات میں مویشی پالنا، ان کے لئے چارہ پانی کاانتظام کرنا، ان کے اصطبل کی صفائی کرنا، ان کے دودھ دوہنا، کھیتوں میں کام کرنا، جنگل سے آگ کی لکڑیاں لانا اور چشموں سے پانی لانا بھی شامل ہے۔ بعض غریب گھرانوں میں تو صرف ایک بھینس پال کر وہ پورے گھر کاخرچہ چلاتی ہیں۔ یہ کام کر کے وہ مشقت تو زیادہ اٹھاتی ہیں لیکن گھریلو خرچہ میں اپنے شوہر اور بچوں کا بہت تعاون کرتی ہیں۔ شرعی طورپر اگرچہ ان کے لئے یہ کام کرنا کئی ایک شرائط کے ساتھ جائزہے لیکن کمانے کی ذمہ داری ان کی نہیں کیوں کہ ان کا خرچہ ان کے شوہروں پر لازم ہے اور ان کو گھریلو ذمہ داری سونپی گئی ہے بلکہ ان کے گھریلو کاموں کومیدان ِجنگ کے مجاہدین کے کام کے برابر جانا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:

 

"جِئْنَ النِّسَاءُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فقلن: يارسول اللَّهِ ذَهَبَ الرِّجَالُ بِالْفَضْلِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَا لَنَا عَمَلٌ نُدْرِكُ بِهِ عَمَلَ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ قَعَدَ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا- مِنْكُنَّ فِي بَيْتِهَا فَإِنَّهَا تُدْرِكُ عَمَلَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"[66]

 

"نبی کریم ﷺ کے پاس خواتین نے آکرعرض کیا: یارسول اللہ! مرد تو جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے فضیلت لے گئے ہم کیاعمل کریں کہ ہم بھی مجاہدین جیسا ثواب پائیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جوعورت اپنے گھر میں بیٹھی رہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح اجرپائے گی ۔"

 

نتائج البحث:

اس تحقیق کے چندنتائج سامنے آرہے ہیں جن کوذیل میں پیش کیاجاتاہے : * پختون معاشرے میں خواتین کومعاشرتی طورپرکئی ایک مسائل کاسامناہے ان کوان کے شرعی حقوق پورے طورپر نہیں ملتے۔

  • پیدائش کی مبارک باد سے لے کران کی تعلیم وتربیت، ماں باپ اورگھروالوں کے پیارومحبت میں لڑکوں کی نسبت ان کےساتھ امتیازی سلوک روارکھاجاتاہے ۔
  • ہدیہ اورمیراث میں بھی ان کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا جو تعلیماتِ سیرت کے خلاف ہے ۔
  • تعلیماتِ سیرت کے برعکس ان کی زندگی کے فیصلوں میں ان کی رائے کوزیادہ ترجیح نہیں دی جاتی۔
  • سسرال میں ان کووہ حقوق نہیں ملتے جونبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے ہمیں ملتے ہیں۔
  • گھریلو کاموں کے ساتھ خواتین معاشی ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہیں جواکثراوقات ان کے لئے پریشانی کاباعث ہوتی ہیں۔

 

 

تجاویز:

اس تحقیق کی روشنی میں جندتجاویز سامنے آرہی ہیں جن کوذیل میں پیش کیاجاتاہے :* نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں خواتین کو پیش آنے والے مسائل کوحل کیاجائے ۔

  • معاشرتی امن کی خاطر، خواتین کی فطرت کودیکھ کراوران کے حقوق کوپہچان کر ، اداکرنے کی کوشش کی جائے۔
  • خودکشی، غیرت کے نام پرقتل، والدین کی رضامندی کی بغیرکورٹ میرج جیسے مسائل سے بچنے کے لئے ان کی شرعی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے فیصلوں میں ان کی رائے ضرورلی جائے، جوشرعاًبھی ضروری ہے ۔
  • اکثرلوگ خواتین کے حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں اس لئے ان کوآگاہی کی اشدضرورت ہے ۔
  • اس جہالت اورکم علمی کودورکرنے کے لئے اورمعاشرے میں خواتین کوان کی شرعی حیثیت دینے کے لئے اہل علم حضرات، سکالرز بالخصوص علماءکرام کواپناکرداراداکرناچاہیئے۔
  • خواتین کے شرعی حقوق خصوصاً میراث کی ادائیگی کے لئے خصوصی آگاہی سیمینارز کا اہتمام ہوناچاہیئے۔

 

حوالہ جات

  1. 1 سورۃ البقرۃ:208 Surah Al Baqrah,208
  2. 2 ششماہی تحقیق مجلہ ایکٹااسلامیکا،شہیدبےنظیربھٹویونیورسٹی ،شرینگل ،دیر،شمارہ جنوری تاجون2017،ص،148،149 Bi-annual Research Journal Acta Islamica, Shaheed Benazir Bhutto University Shirangal, Dir, Jan-June 2017, p: 149-168
  3. 3 ششماہی تحقیق مجلہ ایکٹااسلامیکا،شہیدبےنظیربھٹویونیورسٹی ،شرینگل ،دیر،شمارہ جولائی تادسمبر2013،ص: 13-18 Bi-annual Research Journal Acta Islamica, Shaheed Benazir Bhutto University Shirangal, Dir, July-Dec 2013, p:13-18
  4. 4 سورۃ الشوریٰ:49,50 Surah Al Shūra, 49,50
  5. 5 سورۃ النحل: 58-60 Surah Al Naḥal, 58-60
  6. 6 سورۃ الانعام: 140 Surah Al ‘An’ām, 140
  7. 7 الماتريدی، ابو منصور، محمد بن محمد بن محمود، تفسير الماتريدی (تاويلات اهل السنۃ)، دار الكتب العلمیۃ ، بيروت،طبع اول،2005ء،9:140 Al Māturīdī, Muḥammad bin Maḥmuwd, Abū Mansūr, Tafsīr al Māturīdī, (Tā’wīlāt ahl al Sunnah), (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 9:140
  8. 8 مصطفى سعيد الخن و مصطفى البغا علي الشربجي، الفقه المنهجي على مذهب الامام الشافعي، دار القلم للطباعۃ ، دمشق،طبع چہارم، 1992ء،3:65 ‘Alī Al Shurayḥī, Muṣṭafā Alkhin, Doctor, Al Fiqh al Manhajī ‘ala Madhab al Imām al Shaf’ī, (Beirut: Dār al Qalam, 4th Edition, 1992), 3:65
  9. 9 الجوزی، ابن قيم ،محمد بن ابی بكر بن ايوب ، تحفۃالمودود باحكام المولود، مكتبہ دار البيان ، دمشق ،طبع اول،1971ء، ص:11 Al Jowzī, Ibn al Qayyim, Muḥammad bin Abū Bakr bin Ayūb, Tuḥfah al Mawdūd Bi Aḥkām al Mawlūd, (Damascuss: Maktabah Dār Al Bayān, 1st Edition,1971), p:11
  10. 10 الجوہری ،ابو نصر، اسماعيل بن حماد،الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیہ ، دار العلم للملايين، بيروت،طبع چہارم ،1987 ء ، 4:1527 Al Jawharī, Abū Naṣr Isma’īl bin Ḥammād, Al Ṣiḥāḥ Tāj al Lughāt wa Ṣiḥāḥ al ‘Arabiyyah, (Beirut: Dār al ‘Ilm lil Malyīn, 4th Edition, 1987), 4:1527
  11. 11ایضا Ibid.
  12. 12 ابو حبيب، ڈاکٹر سعد،القاموس الفقہی لغۃ واصطلاحا ، دار الفكر، دمشق، طبع دوم،1988 ء،1:258 Abū Ḥabīb, Sa’ad, Doctor, Al Qāmūs al Fiqhī Lughatan wa Iṣṭilāhan, (Damascuss: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1988), 1:258
  13. 13 جامع للترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِي العَقِيقَةِ، حدیث رقم :1513 Al Jāmi’ lil Tirmadhī, Ḥādīth # 1513
  14. 14 ابن قدامہ المقدسی، ابو محمد موفق الدين عبد الله بن احمد،المغني، مكتبۃالقاہرہ، بدون طبع ،9:458 Ibn Qudāmah, ‘Abdullāh bin Aḥmad, Al Mughnī, (Maktabah al Qahirah), 9:458
  15. 15الموسوعۃالفقہيہ الكويتيہ، وزارة الاوقاف والشئون الاسلاميہ، كويت،طبع دوم، سن 1427ھ ،7:73 Al Mawsūa’h al Fiqhiyyah al Kuwaitiyyah, (Kuwait: Ministry of Awqaf and Islamic Affairs,, 2nd Edition, 1427), 7:273
  16. 16امام مسلم ،الجامع الصحیح، بَابُ اسْتِحْبَابِ تَغْيِيرِ الِاسْمِ الْقَبِيحِ الَى حَسَنٍ، وَتَغْيِيرِ اسْمِ بَرَّةَ الَى زَيْنَبَ وَجُوَيْرِيَةَ وَنَحْوِهِمَا،حدیث رقم:2139 Imām Muslim, Ṣaḥīḥ lil Muslim, Ḥādith # 2139
  17. 17 سنن ابی داؤد،باب في المراة تكنى،حدیث رقم:4970 Sunan Abī Daw’ud, Ḥādith # 4970
  18. 18 ابن ماجہ ،ا لقزوينی ،ابو عبد الله ،محمد بن يزيد ،سنن ابن ماجه،باب فضل العلماء والحث على طلب العلم،حدیث رقم :224 Ibn e Majah, al Qazwīnī, Abū ‘Abdullāh, Muḥammad bin Yazīd, Sunan, Ḥādith # 224
  19. 19 ملا القاری ، علی بن (سلطان) محمد ،شرح مسند ابی حنيفۃ ، دار الكتب العلمیۃ، بيروت ، لبنان، طبع اول،سن 1985ء،76:1 Mullah al Qārī, ‘Alī bin (Sultān) Muḥammad, Sharh Musnad Abī Ḥanīfah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1985), 1:76
  20. 20 الاصفہانی ،ابو نعيم، احمد بن عبد الله ،حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، دار الكتاب العربی ، بيروت، 1974ء ، 5:57 Al Aṣphāhānī, Aḥmad bin ‘Abdullāh, Ḥilyah al Awliyā’ wa Ṭabqāt al Aṣfiyā’, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Arabī, 1974), 5:57
  21. 21 النسائی، احمد بن شعيب،السنن الكبرىٰ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، طبع اول،۲۰۰۱ ء، حدیث رقم :5865 Al Nasaī’, Aḥmad bin Shoa’ib, Al Sunan al Kubra, (Beirut: Mo’ssasah al Risalah, 1st Edition, 2001), Ḥādith # 5865
  22. 22 الصحيح للامام مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ اسْتِعْمَالِ الْمُغْتَسِلَةِ مِنَ الْحَيْضِ فِرْصَةً مِنْ مِسْكٍ فِي مَوْضِعِ الدَّم، حدیث رقم :232 Imām Muslim, Ṣaḥīḥ lil Muslim, Ḥādith # 232
  23. 23 سنن ابی داؤد، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، حدیث رقم :495 Sunan Abī Daw’ud, Ḥādith # 495
  24. 24 النووی ،ابو زكريا ،محی الدين يحيى بن شرف ،المجموع شرح المہذب ،دار الفكر، 3:11
  25. Al Nawawī, Yaḥya bin Sharf, Al Majmu’ Sharh al Muhadhab, (Beirut: Dār al Beirut: Dār al Fikr), 3:11 25 ایضا، 3:26 Ibid., 3:26
  26. 26 لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی،الفتاوى الہندیہ، دارلفکر، بیروت،طبع دوم ،1310ھ، 5:330 Lujnah ‘Ulamā’ Bi Ri’āsah Niẓām al Dīn al Balakhī, Al Fatawa al Hindiyyah, (Beirut: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1310), 5:330
  27. 27 سنن ابي داود،باب في فضل من عال يتيما،حدیث رقم:5146 Sunan Abī Daw’ud, Ḥādith # 5146
  28. 28 البيہقی ، ابو بكر ،احمد بن الحسين الخراسانی،شعب الايمان: باب حقوق الاولادوالاھلین ،حدیث رقم :8327 Al Bayhaqī, Abū Bakr, Aḥmad bin al Ḥusain, Sho’ab al I’mān, Ḥadith # 8327
  29. 29 http://ilm.com.pk/pakistan/pakistan-information/pakistan-literacy-rate dated 18-02-2018
  30. 30 الفتاوى الہنديہ، 4:391 Al Fatawa al Hindiyyah, 4:391
  31. 31 الخرشی المالكی ،محمد بن عبد الله ،شرح مختصر خليل ، دار الفكر للطباعۃ، بيروت ، بدون طبع ،و تاريخ ، 7:82 Al Khirshī, al Mālikī, Muḥammad bin ‘Abdullāh, Sharh Mukhtaṣar Khalīl, (Beirut: Dār al Fikr), 7:82
  32. سورة النساء:7 Surah al Nisa’, 7
  33. 32 الطبری ابو جعفر،محمد بن جرير ،جامع البيان في تاويل القران، مؤسسة الرسالة، بيروت ،طبع اول،2000ء ، 3:262 Al Ṭabarī, Muḥammad bin Jarīr, Jami’ al Bayān fī Ta’wīl al Qur’ān, (Beirut: Mo’assasah al Risalah, 1st Edition, 2000), 3:262
  34. 33 الماوردی ،ابو الحسن، علی بن محمد البصری البغدادی،تفسير الماوردی، دار الكتب العلمیہ ، بيروت ،طبع و سن ندارد، 1:366 Al Māwardī, ‘Alī bin Muḥammad, Abū al Ḥasan, Tafsīr al Māwardī, Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 1:366
  35. 34 ابن کثیر،اسماعیل بن عمر،تفسير ابن كثير، دار الطیبہ للنشر والتوزیع ، بيروت ،طبع دوم ، سن ۱۹۹۹ء ، 1:362 Ibn Kathīr, Isma’īl bin ‘Umar, Tafsīr Ibn Kathīr, (Beirut: Dār al Tayyibah lil Nashr wa al Tawzī’, 2nd Edition, 1999), 1:362
  36. 35سورۃ النساء :11 Surah al Nisa’, 11
  37. 36 سورۃ النساء:29
  38. Surah al Nisa’, 29 37تفسیر ابن کثیر، 2:203 Tafsīr Ibn Kathīr, 2:203
  39. 38ایضا،2:240 Ibid., 2:240
  40. سورۃ النساء: 19 Surah al Nisa’, 19
  41. 39 الصحیح للبخاری:بَابٌ مِنَ الاكْرَاهِ، حدیث رقم: 6948 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadith # 6948
  42. 40 تفسیر ابن کثیر: 2:240 Tafsīr Ibn Kathīr, 2:240
  43. 41 سورۃ النساء:22 Surah al Nisa’, 22
  44. 42 الكاسانی ، علاء الدين، ابو بكر بن مسعود بن احمد ،بدائع الصنائع، دار الكتب العلميہ، بيروت ، طبع دوم،1986ء، 7:3
  45. Al Kāsānī, ‘Ala’ al Dīn, Abū Bakr bin Mas’ūd bin Aḥmad, Al Badāi’ al Ṣanāi’, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2nd Edition,1986), 7:3 43 سورۃ البقرۃ:232 Surah al Baqarah, 232
  46. 44 سورۃ البقرۃ:230 Surah al Baqarah, 230
  47. 45 الصحیح للبخاری: بَابُ لا يُنْكِحُ الابُ وَغَيْرُهُ البِكْرَ وَالثَّيِّبَ الَّا بِرِضَاهَا،حدیث رقم :5136 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadith # 5136
  48. 46 ابن ابی شيبہ، ابو بكر، المصنف فی الاحاديث والاثار: باب الرجل يزوج ابنته، من قال: يستامرها:حدیث رقم :15979
  49. Ibn Abī Shaībah, Abū Bakr, Al Muṣannaf fil Aḥādīth wal A’thār, Ḥādith # 15979 47 المرغينانی، ابو الحسن ،برهان الدين ، علی بن ابی بكر ، الہدايہ، دار احياء التراث العربی ، بيروت ،لبنان، 1:191
  50. Al Marghīnānī, ‘Alī bin Abī Bakr, Burhān al Dīn, al Hidayah, (Beirut: Dār Iḥyā al Turāth al ‘Arabī, 1:191 48 ا الصنعانی،ابو بكر عبد الرزاق بن همام ،المصنف: باب استئمار النساء في ابضاعهن،حدیث رقم :10277
  51. Al Ṣan’ānī, ‘Abdul Razzāq, Al Muṣannaf, Ḥādith #: 10277 49 البيہقی، ابو بكر، احمد بن الحسين ،السنن الصغير: بَابُ تَزْوِيجِ الْابِ ابْنَتَهُ الْبِكْرَ صَغِيرَةً كَانَتْ اوْ كَبِيرَةً، حدیث رقم :1420 Al Bayhaqī, Aḥmad bin al Ḥusain, al Sunan al Saghīr, Ḥādith # 1420
  52. 50الصحیح لمسلم:بَابُ اسْتِئْذَانِ الثَّيِّبِ فِي النِّكَاحِ بِالنُّطْقِ، وَالْبِكْرِ بِالسُّكُوتِ،حدیث رقم:3542 Imām Muslim, Ṣaḥīḥ lil Muslim, Ḥādith # 3542
  53. 51الصحیح للبخاری:بَابُ اذَا زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِيَ كَارِهَةٌ فَنِكَاحُهُ مَرْدُودٌ،حدیث رقم:5138 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadith # 5138
  54. 52المصنف لابن ابی شیبہ،باب الرجل يزوج ابنته من قال يستامرها، حدیث رقم:15981 Al Muṣannaf li Ibn Abī Shaybah, Ḥādith # 15981
  55. 53ایضا:15975 Ibid, 15975
  56. 54 الموصلی، عبد الله بن محمودبن مودود،الاختيارلتعلیل المختار، دار الكتب العلميہ، بيروت، طبع دوم،1937ء، 3:90 Al Mawṣalī, ‘Abdullāh bin Maḥūwd bin Mawdūd, Al Ikhtiyār li Ta’līl al Ikhtiyār, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2nd Edition,1937), 3:90
  57. 55 الموسوعہ الفقہیہ الكويتيہ ،وزارة الاوقاف والشئون الاسلامیہ، الكويت ، 41:263 Al Mawsūa’h al Fiqhiyyah al Kuwaitiyyah, 41:263
  58. 56 سورة البقرة :228 Surah Al Baqarah, 228
  59. 57 سورة النساء:19 Surah al Nisa’, 19
  60. 58تفسیر ابن کثیر، 2:242، سورة النساء:19 Tafsīr Ibn Kathīr, 2:242, Surah Al Nisa’, 19
  61. 59سنن ابن ماجہ:باب حسن معاشرۃ النساء، حدیث رقم :1977 Sunan Ibn Majah, Ḥādith # 1977
  62. 60 الصحيح للبخاري:باب حسن المعاشرۃ مع الاهل، حدیث رقم:5189،5190،سنن ابي داؤد ،باب فی السبقۃ علی الرجل،حدیث رقم:2578 Ṣaḥīḥ al Bukhārī, Ḥadith # 5189,90, Sunan Abī Dāwūd, Ḥādith # 2578
  63. 61الصحيح للمسلم:باب برالوالدین،حدیث رقم :2548، وباب الوصیۃ بالنساء،حدیث رقم :1469 Imām Muslim, Ṣaḥīḥ lil Muslim, Ḥādith # 2548, 1469
  64. 62 بدائع الصنائع ، 4:23 Badai’ al Ṣanai’, 4:23
  65. 63 ا لدرويش،احمد بن عبد الرزاق، فتاوى اللجنة الدائمہ، الادارة العامۃ للطبع ، رياض،باب خدمۃ الزوجۃ لوالدی الزوج، 19:265 Al Darwaish, Aḥmad bin ‘Abdul Razzāq, Fatawa al Lujnah al Dā’imah, (Riyadh: Al Idārah al ‘Ammah lil Ṭab’), 19:265
  66. 64 البزار ، احمد بن عمرو،مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، مكتبہ العلوم والحكم ، مدينہ منورہ، طبع اول ،2009ء،حدیث رقم :6962 Al Bazzār, Aḥmad bin ‘Amar, Musnad al Bazzār, (Madinah: Maktabah al ‘Ulūwm wal Ḥikam, 1st Edition, 2009), Ḥādith # 6962
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...