Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

سیرت نبوی کی روشنی میں بغاوت (خروج) سے متعلق احکامات کا تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

4

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060030498_868

Pages

31-48

DOI

10.36476/JIRS.4:1.06.2019.08

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/65/41

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/65

Subjects

Khurūj Armed Struggle Rebellion Sīrah khurūj armed struggle rebellion sīrah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

قرآن وحدیث سے واضح ہو تا ہے کہ حکومت ثابت ہونے کے بعد حکمران کی اطاعت واجب اور اس کے خلاف خروج ممنوع ہے۔ آپ ﷺکی پیشنگوئی کے مطابق ایسے افراد کا ظہور ہوناہے جو امت مسلمہ کے اتحاد کو سپوتاژکرکے اسلامی ریاست اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد جب تک آپﷺ بقید حیات رہے، مسلمان آپ کے زیرسایہ قائم ہونے والی حکومت میں متحد رہ کر جہاد کے ذریعےفتنہ وفساد دباتے رہے۔

 

آپﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار مسیلمہ بن حبیب نے نبوت کا دعوی کرکے بغاوت کی ابتداء کی۔ آپﷺ اس بغاوت کو کچلنے سے قبل ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ ﷺکی وفات کے بعد اسلامی ریاست کے خلاف بغاوتو ں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دور صدیقی میں مدینہ منورہ کے گردونواح کےقبائل میں سے عبس ،ذیبان بنو کنانہ،غطفان،اور بنوفزارہ[1]کےانکار کی صورت میں اٹھا جس کی سرکوبی کےلیےحضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت سنان الضمریؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بناکربنفس نفیس ان کے مقابلے کے لیے روا نہ ہوئے[2] اور انتہائی استقامت کے ساتھ بغاوتوں کے کچلنے کےلیے اقدامات کرتے رہے۔

 

خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ کا دور حکومت فتوحات کا دورکہلاتا ہےجس میں اسلامی ریاست کو خوب وسعت ملی۔ حالات پرامن رہےجس کی وجہ سےباغیوں کے لیے سر اٹھانا مشکل ہوگیا لیکن یہ لاوا اندر ہی اندر سلگتا رہا اور خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ایک بار پھر بلوائیوں نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کرکے آپ ؓ کو شہید کر دیا اور حضرت علیؓ کو بیعت لینے پر مجبور کیا لیکن واقعہ تحکیم کی وجہ سے ناراض ہوکر الگ ہو گئے اور حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت شروع کردی اور خوارج کے نام مشہور ہوئے۔ حضرت علیؓ زندگی کے آخری ایام تک ان کے خلاف نبرد آزما رہے۔

 

آپؓ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند حضرت حسنؓ بھی انہی کی بغاوت کے کچلنے میں مصروف عمل رہے غرض اسلامی سلطنت ہر طرف سے فتنوں اور بغاوتوں کے گرداب میں ڈوبی ہوئی تھی کہ آپﷺ کی پیشنگوئی کے عین مطابق جناب حسنؓ حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے۔

 

حضرت معاویہؓ زمام حکومت سنبھا لتے ہی بغاوتوں کے کچلنے میں مصروف ہوگئے چنانچہ مقام نخیلہ میں عبداللہ بن ابی الحوساء کی قیادت میں اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے خالد بن عرفطہ عذری کو،حوثرہ بن ذراع کی بغاوت کو کچلنے کے لیے عبداللہ بن عوف بن احمر کو ،کوفہ میں فروہ بن نوفل اشجعی کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے شبیث بن ربعی یا معقل بن قیس کو، بصرہ کے قریب سہم بن غالب ہجیمی اور حطیم باہلی کی قیادت میں اٹھنے والی بغاوت کو دبانے کے لیے عبداللہ بن عامرؓ کو روانہ کیا۔[3] اسی طرح ہرات ،بلخ،بوشنج،بادغیس کے علاقوں میں اٹھنے والی بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے قیس بن ہیثم اور ان کے معاون عطاءبن سائب کو اور عبداللہ بن عامر اور ان کےمعاون عبدالرحمن بن سمرۃ کو سجستان روانہ کیا[4]جنہوں نے ان مفتوحہ علاقوں پر از سر نو اسلامی سلطنت کو مستحکم کیا۔

 

ذیل میں اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کے احکامات، جنگ کا طریقہ کار،باغی قیدیوں اور ان کے مال کی شرعی حیثیت اور باغیوں کے اہل وعیال اور رشتہ داروں کی گرفتاری کے جوازوعدم جواز کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیا گیاہے۔

 

حاکم کے خلاف خروج کرنے والوں کی اقسام

ہر ایسا شخص جو مسلمان حاکم کے خلاف خروج کرتا ہے، فقہاءکی اصطلاح میں باغی کہلاتا ہے۔ مسلمان حاکم کے خلاف خروج (نکلنے) کرنے والوں کی چار اقسام ہیں:# خوارج: خوارج وہ طبقہ ہے جو واقعہ تحکیم کی وجہ سے حضرت علیؓ کے مخالف ہوئے۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ کے کفر کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر سمجھتے ہیں۔

  1. محارب (ڈاکو): محارب وہ طبقہ ہے جو اسلحے کے زور پر عوام الناس سے مال چھینتا ہو اور لوگوں کا راستہ روکتا ہو۔
  1. باغی: باغی وہ طبقہ ہے جو حاکم وقت کے خلاف خروج کرے لیکن تاویل کے ساتھ۔
  1. اہل حق: اہل حق وہ گروہ ہے جو ظالم حکمران کے ظلم کو روکنے کے لیے میدان میں آتے ہیں۔

 

 

 

حکمرانوں کی اقسام

جن کے خلاف خروج کیا جاتا ہے وہ حکمران ہوتا ہے اور ہر حاکم کے حالات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لئے ہر ایک کا حکم جدا ہے۔ احوال کے اعتبار سے حکمرانوں کی تین اقسام ہیں: # عادل ومنصف حکمران

  1. کافر اور مجرم حکمران
  1. فاسق اور ظالم حکمران

 

 

 

عادل ومنصف حکمران کے خلاف خروج کا حکم:

عادل حکمران کی اطاعت واجب اوران کی نافرمانی اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"[5]

 

"اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اطاعت کرو ان کی جو تم میں صاحب اختیار ہیں ۔"

 

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں۔ "اولوا الامر" کا مصداق کیاہے، اس

 

میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صاحب تفسیر الخازن فرماتے ہیں:

 

"واختلف العلماء فی أولو الأمر ألذین أوجب اللّٰه طاعتهم قال ابن عباس وجابر رضی الله عنهم ألفقهاء والعلماء ألذین یعلمون الناس معالم دینهم وهو قول الحسن ومجاهد وقال ابوهریرة الأمراء والولاة وهي روایة عن ابن عباس أیضاً "[6]

 

جبکہ صاحب نظم الدرر فرماتے ہیں:

 

"وأولی الأمر منکم، أي الحکام والعلماء من أولی الأمر ایضاً" [7]

 

نبی کریم ﷺ نے عادل حکمران کی تابعداری کو اپنی تابعداری اور اس کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

 

"من أطاعني فقد أطاع اللّٰه ومن یعصني فقد عصی اللّٰه ومن یطع الأمیر فقد أطاعني ومن یعص الأمیر فقد عصاني"[8]

 

"جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نےاللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر (حاکم) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر (حاکم ) کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔"

 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عادل حاکم کے خلاف خرو ج حرام ہے اور اس کی اطاعت فرض ہے۔

 

کافر اور مجرم حکمران کے خلاف خروج کا حکم

کافر اور مجرم حکمران کوکفر ا ورجرم سے روکنا عین ایمان ہے۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

 

"أنصر أخاک ظالماً أو مظلوماً قال یارسول اللّٰه ﷺ هذا ننصره مظلوماً فکيف ننصره ظالماً قال تأخذه فوق یدیه"[9]

 

" تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ مظلوم کی مدد تو ہم کریں گے لیکن ظالم کی مدد ہم کس طرح کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ظالم کے ہاتھ کو ظلم سے روک دو۔"

 

ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج کا حکم

حکمران کے خلاف خروج کوفتنہ و فساد قتل وغارت گری کا ذریعہ ہونےکی بنا پرممنوع قرار دیا گیا ہے اور حتی الوسع صبر کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی احتیاط کے پیش نظر ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج کے متعلق سلف سے دو اقوال منقول ہیں۔

 

پہلا قول یہ ہے کہ حکمران جب تک کفر بواح کا مرتکب نہ ہواس کے خلاف خروج جائزنہیں اور یہ رائے ان صحابہ کرامؓ کی ہے جو فتنہ کے دور (یعنی حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے جنگ کے دوران) میں گوشہ نشین رہے مثلاً حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، عبداللہ ابن عمرؓ، اسامہ بن زیدؓ، محمد بن مسلمہ۔ اسی طرح حضرت حسن بصریؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور اکثر اہل سنت والجماعت کا ہے۔ ان کے دلائل وہ احادیث ہیں جس میں آپﷺ نے ظالم حکمران کے ظلم کو برداشت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ابن عباسؓ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:

 

"من رأی من أمیره شیئا یکرهه فلیصبر فانه من فارق الجماعة شبراً فمات فمیتة جاهلیة"[10]

 

" جو شخص اپنے حاکم سے کوئی ایسا کام دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اس لیے کہ جو بھی جمعیت سے الگ ہوا تو جاہلیت کی موت مرا۔"

 

اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ حکمران کے خلاف خروج مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہذاحکمرانوں کی زیادتیوں پر صبر کر لینا چاہیے یہاں تک کہ ظالم حکمران کے ظلم سے اللہ تعالیٰ نجات دلا دے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ؐنے ایسے شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں کے درمیان افتراق کا ذریعہ بنتا ہو، چنانچہ حضرت عرفجہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

 

"من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل یرید أن یشق عصاکم أو یفرق جماعتکم فاقتلوه"[11]

 

"جو شخص تمہارے پاس اس حالت میں آئے کہ تمہار اختیار ایک فرد کے پاس ہو اور وہ تم میں پھوٹ ڈالنا چاہے یا تمہارے اتحاد کو ختم کرنا چاہے تو ایسے شخص کو قتل کر دو۔"

 

چونکہ مسلمانوں کی کامیابی اتحاد میں ہے، اس لئےخروج کو ممنوع قرار دیا گیا ہے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو یہاں تک ذکر ہے کہ اس دین کو ترقی فاسق، فاجر اور گنہگار انسان کے ذریعے حاصل ہو گی۔ آپؐ نے فرمایا:

 

"إن اللّٰه لیؤید هذا الدین بالرجل الفاجر"[12]

 

"اللہ تعالیٰ اس دین کو ایک فاجر انسان کے ذریعے ترقی دے گا۔"

 

یہی رائے الموسوعۃ الفقہیۃ میں نقل کی گئی ہے۔[13] ان دلائل کے پیش نظر اکثر اہل سنت و الجماعت حکمران کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے۔

 

دوسرا قول یہ ہے کہ فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز ہے اور یہ مسلک صحابہ کرامؓ میں سے حضرت علیؓ ، حضرت امیر معاویہؓ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، اشاعرہ، معتزلہ، خوارج اور بعض اہلسنت و الجماعت کا ہے۔ ان کے دلائل وہ مشہور احادیث ہیں جن میں آپ ﷺنے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم صادر فرمایا ہے اور انہی احادیث کے پیش نظر یہ حضرات حاکم کے خلاف خروج کونہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں ۔[14]

 

باغی کی لغوی تعریف:

باغی کا مادہ "بغی" ہے جس کا معنی "طلب"ہے۔قرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

"مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا"[15]

 

" جس کی ہم تلاش میں تھے پھر وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے واپس لوٹ آئے۔"

 

بعد میں یہ لفظ تجاوز ، ظلم اور تعدی کے معنی میں استعمال ہونے لگا، جس کی جمع "بغاة" بضم الباءاور الف کے بعد تائے مدورہ کے ساتھ ہے اور یہ وزن معتل اللام (یعنی ناقص) کے ہر باب سے اسم فاعل کے وزن پر آتا ہے، مثلاً قضاة، رُماة، غزاة وغیرہ۔

 

باغی کی اصطلاحی تعریف:

تمام فقہاءاس پر متفق ہیں کہ باغی اُس کو کہا جاتا ہے جو کسی عادل حکمران کے خلاف تاویل کے ساتھ افرادی قوت اور اسلحہ سے لیس ہو کر مقابلہ کے لیے نکلے، چنانچہ علامہ ابن عابدینؒ باغی کی تعریف یوں ذکر کرتے ہیں:

 

"هم الخارجون عن الإمام الحق بغیر حق"[16]

 

فتاویٰ عالمگیری میں بھی اسی سے ملتی جلتی تعریف کی گئی ہے مگر قدر تفصیل ہے، فرماتے ہیں:

 

"أهل البغی کل فرقة لهم منعة یتغلبون یجتمعون ویقاتلون أهل العدل بتاویل ویقولون الحق هذا ویدعون الولایة "[17]

 

یہی تعریف فقہ مالکی اور دیگر فقہاءنے بھی کی ہے، فرماتے ہیں:

 

"هو الإمتناع عن طاعة تثبت إمامته في غیر معصیة بمغالبة ولو تأولاً"[18]

 

"تاویل کے ذریعے عوام کو حکمران کی اطاعت سے روکنا جس کی امامت ثابت ہو چکی ہو ۔"

 

باغیوں کی اقسام

باغیوں کی دو اقسام ہیں:# معاند: معاند وہ باغی ہے جو بغیرکسی تاویل کے حاکم وقت کے خلاف خروج کرے ، اس کا حکم چور کے حکم کی طرح ہے یعنی جو نقصان ان سے سرزد ہو گا وہ اس کے ضامن ہوں گے۔

  1. غیر معاند:غیر معاند وہ باغی ہے جو حاکم وقت کے خلاف تاویل کے ساتھ خروج کرے ، اس کا حکم یہ ہے کہ دورانِ جنگ اہل عدل کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ضمان ان سے نہیں لیا جائے گا اور وہ ہدر ہو گا کیونکہ جب صحابہ کرامؓ باہمی مختلف ہوئے تو جنگ کے اختتام پر فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ دونوں اطراف سے جو نقصان ہوا ہے فریقین پر اس کا کچھ ضمان نہیں ہو گا۔

 

 

 

اثباتِ امامت کے طرق:

امامت کے ثابت ہونے کے چارطریقے ہیں:# پہلا طریقہ یہ ہے کہ خلیفہ خود نئے حکمران کا انتخاب کرے جس طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمرفاروقؓ کا انتخاب فرمایا تھا۔

  1. دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں پر غلبہ حاصل کر لینے سے یعنی لوگ اس کی کہی ہوئی بات کو تسلیم کرتے ہوں چاہے وہ اس منصب کا اہل ہو یا نہیں۔
  1. تیسرا طریقہ یہ ہےکہ شوریٰ کے ذریعےحکمران کاانتخاب کیا جائےجس طرح حضرت عمرؓنے نئےخلیفہ کےانتخاب کی ذمہ داری شوریٰ پرچھوڑدی اورانہوں نے حضرت عثمان ؓ کا انتخاب کیا۔
  1. چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ارباب حل و عقد[19] حکمران کا انتخاب کریں۔[20]

 

 

 

بغاوت کے متحقق ہونے کی شرائط

بغاوت کے متحقق ہونے کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:# خروج مسلمانوں نے کیا ہو اور تاویل کے ساتھ کیا ہو۔ یہاں دو چیزوں کی وضاحت ضروری ہےایک خروج کرنے والے مسلمان ہوں کیونکہ اگر خروج ذمیوں کی طرف سے ہو تو پھر وہ حربی کہلائیں گے اور ان کے احکامات جدا ہوں گے۔دوسرایہ خروج تاویل کے ساتھ ہو اگرچہ تاویل فاسد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ کہ اگر خروج بغیر تاویل کے ہو تو پھر یہ چور ، ڈاکو کہلائیں گے اور ان کی سزا وہی ہو گی جو ایک چور یا ڈاکو کی ہوتی ہے۔

  1. لوگ ایک حکمران پر متفق ہوں اور اس کے زیر تسلط علاقہ پرامن ہو۔ اگر لوگ کسی ایک حکمران پر متفق نہ ہوں اور علاقہ بھی پرامن نہ ہو بلکہ ہر طرف ظلم و تشدد و بربریت کا راج ہو تو مسلمانوں کا ایسے حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا واجب ہے۔
  1. یہ خروج قوت اور طاقت کے ساتھ ہو اس لیے کہ اگر قوت و طاقت اور غلبہ نہ پایا جائے تو پھر یہ لوگ باغی نہیں کہلائیں گے۔

 

 

 

بغاوت کا حکم

بغاوت مسلمانوں کی اجتماعیت کو ختم کرنےاوراسلامی ریاست کو کھوکھلا کرنے کا ایک ذریعہ ہونےکی وجہ سے حرام ہے ۔

 

باغیوں کے احکامات کے ثبوت کے بنیادی مأخذ، قرآن مجید

باغیوں کے احکامات کے ثبوت کے تین مأخذہیں، قرآن،خوارج اور اجماع صحابہؓ۔ بغاوت کے متعلق آپؐ سے براہ راست کوئی حکم منقول نہیں بلکہ اس کی بنیاد سورة الحجرات کی آیت نمبر۹ ہے جس میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو باہمی دست و گریبان ہونے سے منع کرنے اور مظلوم کی داد رسی کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

 

"وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینهما فإن بغت إحداهما علی الأخری فقاتلوا التي تبغي حتی تفیٔ إلی أمر الله فإن فاءت فأصلحوا بینهما بالعدل وأقسطوا إن الله یحب المقسطین"[21]

 

"اور اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو پھر اگر ان میں ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو تم اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں پھر اگر وہ رجوع کر لیں تو دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرا دو اور انصاف کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کوپسند فرماتا ہے۔"

 

اس آیت کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان کوئی تنازعہ پیش آئے تو ذی شعور طبقہ (ارباب حل وعقد) پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کرے اور اخوت و بھائی چارے کا باہمی رشتہ جو مغلوب ہو گیا ہے اسے ازسرنو زندہ کیا جائے اور اگر باوجود سمجھانے کے وہ صلح پر آمادہ نہ ہوں تو پھر ظالم کے ظلم کو ختم کرنے کے لیے مظلوم کا ساتھ دیا جائے۔

 

آیت کریمہ کا شانِ نزول

اس آیت کریمہ کے شان نزول میں مفسرین سے دو قول مروی ہیں:# پہلا قول یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اوس و خزرج کے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ آپؐ کے زمانے میں کسی وجہ سے ان کے درمیان لڑائی ہو گئی اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ یہ قول مفسرین میں سے امام مجاہدؒ اور سعید بن جبیرؒ کا ہے۔[22]

  1. دوسرا قول یہ ہےکہ آپﷺ کے سامنےعبداللہ بن ابی کو آپ کی مجلس میں لانے کا اظہار کیاگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :چلو اس کے پاس چلیں، کچھ انصار بھی آپ ﷺکے ساتھ روانہ ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ سواری پر سوار تھے۔قریب پہنچےتوسواری نے پیشاب کر دیا، اس پر ابن ابی نے ناراضگی کا اظہار کیا اور آپ ؐسے کہنے لگا : آپ کی سواری کے پیشاب کی وجہ سے ہمیں بہت تکلیف ملی۔ اس پر انصار میں سے عبداللہ بن رواحہؓ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم! آپؐ کے گدھے کا پیشاب تمہاری خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ اس پر ابن ابی کے ساتھی طیش میں آ گئے تو دونوں طرف سے ایک دوسرے پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیئے۔ اس موقع پر اللہ رب العزت نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔[23]یہ آیت کریمہ ہر اس جنگ کو شامل ہے جو مسلمانوں کی آپس میں ہو یا حاکم وقت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

 

 

 

باغیوں کے احکامات کے ثبوت کا دوسرا مأخذ:خوارج

ان احکامات کے ثبوت کا دوسرا مأخذ وہ احکامات ہیں جو حضرت علیؓ نے خوارج کے خلاف جنگ کے دوران صادر فرمائے تھے کیونکہ خوارج بھی مسلمان تھے لیکن انہوں نے تاویل سے حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ حضرت علی ؓ خود فرماتے ہیں:

 

"إن إخواننا بغوا علینا"[24]

 

یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے باغیوں کے خلاف جو احکامات دیئے، وہ بنیاد و اساس کادرجہ رکھتے ہیں۔

 

آپؐ نے خوارج کے ظاہر ہونے کی پیشنگوئی فرمائی اور ان سے لڑنے کا حکم بھی دیا ۔ حضرت علیؓ نبی کریم ﷺ کی ایک طویل حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا :

 

"سیخرج قوم في اٰخر الزمان حداث الأسنان سفهاء الأحلام یقولون من خیر قول البریة لا یجاوز إیمانهم حناجرهم یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیة فأینما لقیتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم اجراً لمن قتلهم یوم القیٰمة"[25]

 

" عنقریب آخری زمانے میں کچھ لوگ آئیں گےجو نو عمر ،کم عقل ہوں گے اور بات وہ کہیں گے جو سب سے اچھی ہو گی لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے پس تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کردو جو بھی انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن انہیں اس کا ثواب ملے گا۔ "

 

باغیوں کے احکامات کا تیسرا مأخذ: اجماع

باغیوں کے احکامات کےثبوت کاتیسراماخذاجماع ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب خلافت سنبھالی تو آپؓ کو دو قسم کے فتنوں کا مقابلہ کرنا پڑا:

 

۱۔منکرین زکوٰة

 

۲۔فتنہ مرتدین/ ارتداد

 

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بعض قبائل ایسے تھے جنہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور یہ تاویل کرنے لگے کہ زکوٰة دینے کا حکم آپؐ کی حیات تک تھا آپ ؐکے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد یہ حکم ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح اطراف کے لوگ جو مسلمان ہوئے تھے آپ ؐکی وفات کے بعد اسلام سے پھرنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ دونوں محاذ پر کامیاب رہے (الحمد للہ)۔ آپؓ کے بعد حضرت علیؓ باغیوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمائی۔اس لیے باغیوں کے خلاف لڑنا،اور ان کی جمعیت کو ختم کرنا یہ عادل حکمران کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔

 

لشکر کشی کا حکم

باغیوں کے خلاف لشکر کشی کا حکم یہ ہے، دیکھا جائے گا کہ ان کی تعداد کتنی ہے، زیادہ ہے یا کم، اگر باغیوں کی تعدادزیادہ ہو اور لشکر کشی کے بغیر ان پر قابو پاناناممکن ہو تو پھر لشکر کشی کی جائے گی اور اگر لشکر کشی کے بغیر ان پر قابو پاناممکن ہو تو پھر ان کی دو قسمیں ہیں:

 

۱۔وہ باغی جو اہل عدل کی صفوں میں داخل ہو چکے ہوں مثلاً عبدالرحمٰن بن ملجم جیسے لوگ، ایسےلوگ جو نقصان بھی کریں گے ان سے اس کا ضمان لیا جائے گا۔

 

۲۔وہ باغی جو عادل اور مطیع لوگوں سے جدا ہوں اورحاکم وقت کی بیعت کا انکار نہ کرتے ہوں تو ایسے لوگوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگر بیعت سے انکار کرتے ہوں تو جنگ کے ختم ہونےتک ان کو قید کیا جائے گا ، تاکہ یہ لڑنے والوں کی قوت کا سبب نہ بن سکیں اور یہی مذہب علامہ حبیب الماوردی نےذکرکیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

 

"وإن امتنعوا من بیعة الإمام علی طاعته حبسوا إلی جلاء الحرب"[26]

 

اور ان کو قید کرنے کی دو وجوہات ہیں:

 

۱۔عادل حاکم کی بیعت کرنا واجب ہے اور واجب کے انکار کی وجہ سے انہیں قید کیاجائے گا۔

 

۲۔ان کی قید سے غرض باغیوں کی طاقت کو کم کرنا ہے یعنی انہیں قید کرکے ان کی قوت اور طاقت کو منتشر کیا جاسکے۔

 

باغی اور کفار کے خلاف لڑائی میں فرق

کافر، مشرک اور باغیوں کے خلاف جنگ میں متعدد وجوہ سے فرق پایا جاتا ہے:# باغیوں سے قتال کا مقصد ان کی قوت کو منتشر کرنا ہوتا ہے۔جبکہ کفار اور مشرکوں سے قتال کا مقصد انہیں ختم کرنا ہوتا ہے۔

  1. باغیوں میں سے جو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جائیں ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا جبکہ کافروں کا تعاقب کیا جاتا ہے۔
  1. باغیوں کے زخمیوں پر چڑھائی نہیں کی جائے گی جبکہ کافروں کے زخمیوں پر چڑھائی کی جائے گی۔
  1. باغیوں کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔اور کافروں کے قیدیوں کو قتل کرنا جائز ہے۔
  1. باغیوں کے مال کو غنیمت سمجھ کر تقسیم نہیں کیا جائے گا اور کافروں کے مال کو تقسیم کرنا جائز ہے۔
  1. باغیوں کی اولاد کو قیدی بنانا درست نہیں ہو گاجبکہ کفار کی اولاد کو غلام بنایا جائے گا۔
  1. مشرک یا کافر سے باغیوں کی سرکوبی کے لیے مدد طلب نہیں کی جائے گی۔
  1. باغیوں سے مال پر مصالحت نہیں کی جائے گی۔
  1. باغیوں پر منجنیق (توپ، ٹینک) وغیرہ عمومی طور پر استعمال نہیں کیے جائیں۔ یعنی ایسا ذریعہ استعمال نہیں کیا جائے گا جس سے ان کی نسل ہی ختم ہو جائے۔جبکہ کافروں کے خلاف جنگ میں ان کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے گا۔[27]
  1. باغیوں کے گھروں کو جلانا ، ان کے باغات اور درختوں کو کاٹنا جائز نہیں ہو گا۔[28]جبکہ باغیوں کے علاو ہ کفار کی قوت ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔

 

 

 

احکامات

یہ تو واضح ہے کہ باغی کو اسلامی ریاست کی حدود میں داخل ہونے سے روکا جائے گا لیکن حاکم کے لیے ضروری ہے کہ لشکر کشی سے پہلےباغیوں کو سمجھائے، اگر ان کے کوئی معقول اعتراضات ہیں تو ان کے ازالے کے لیے مناسب احکامات صادرکرے کیونکہ حضرت علیؓ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص اُٹھا اور اُس نے آواز لگائی "إن الحکم إلا للّٰه"[29] حضرت علیؓ نے فرمایا یہ جو کہہ رہا ہے، ٹھیک ہے لیکن اس کا جو مقصد لے رہا ہے وہ غلط ہے۔

 

اس کے باوجود بھی اگر وہ مطمئن نہیں ہوئے یا مطمئن نہ ہونا چاہتے ہوں تو حاکم ان کی بغاوت کو روکنے کے لیے باغیوں کو قید کرنے کا حکم دے لیکن اسی کو گرفتار کیا جائے گا جو مجرم ہو قوم قبیلے سے تعلق کی بناءپر گرفتار کرنا شریعت میں محل نظر ہے کیونکہ سزا کا حقدار مجرم ہے اور مجرم کے علاوہ کسی اورکو سزا دینا ظلم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

"وَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ اُخریٰ"[30]

 

"اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔"

 

اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سزا کا مستحق مجرم ہو گا اور رَد ہے شرائع من قبلنا میں سے اُن پرجن میں مجرم کے بدلے میں دوسرے کو پکڑا جاتا تھا یا انہیں سزا دی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی نبوت سے پہلے یہ قانون تھا کہ جرم کی سزا مجرم کے رشتہ دار، والدین یا کسی کو بھی دینا جائز تھی لیکن آپؑ کی شریعت کے بعد یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔ علامہ قرطبیؒ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"کانوا قبل إبراهیم علیه السلام یأخذون الرجل بذنب غیره ویأخذون الولي بالولي في القتل والجراحة فیقتل الرجل بأبیه وإبنه وأخیه وأمه و خاله وإبن عمه وقریبه وزوجته وزجتها وعبده فبلغهم إبراهیم علیه السلام عن اللّٰه تعالٰی ولا تزر وازرة وزر أخری"[31]

 

روح المعانی میں بھی اس آیت کا یہی مطلب لیا گیاہے، چنانچہ علامہ آلوسی ؒاسی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:

 

"أن لا تزر، والمعنی أنه لا یؤاخذ أحد بذنب غیره لیتخلص الثاني عن عقابه"[32]

 

مفسرین کے اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سزا اسے دی جائے گی جس نے جرم کیا ہے، جو مجرم نہیں ہے وہ سزا کا بھی مستحق نہیں ہوگا۔ یہ قانون امتِ محمدیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ شرائع من قبلنامیں سے حضرت یعقوبؑ کی شریعت میں بھی یہی قانون تھا کہ سزا کا مستحق مجرم ہی ہو گا ۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روکنے کا جو منصوبہ بنایا تھا، اس منصوبے کے تحت پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھوایا اور پھر حضرت یوسفؑ نے قافلے والوں سے پوچھا:

 

"فَمَا جَزَآؤُه إن کُنتُم کَاذِبِینَ"[33]

 

" اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو پھر اس کی کیا سزا ہو گی۔"

 

تو قافلے والوں نے جواب دیا کہ جس کے پاس پیالہ نکلا وہی اس کا بدلہ ہوگا کیونکہ ان کی شریعت میں بھی سزا کا مستحق مجرم ہی تھا۔ اللہ تعالی اسی کاذکر کرتے ہوئےفرماتےہیں :

 

"مَن وُجِدَ فِي رَحلِهِ فَهُوَ جَزَاُهُ"[34]

 

" جس کے سامان سے پیمانہ برآمد ہو، وہی اس کی سزا میں غلام بنے۔"

 

پیالہ جب بنیامین کے سازو سامان سے برآمد ہوا تو سوتیلے بھائیوں نے پریشانی کے عالم میں اپنے میں سے کسی ایک کو روکنے کی درخواست کی۔ حضرت یوسفعلیہ السلام نے ان کی اس خواہش کورد کرتے ہوئے فرمایا:

 

"مَعَاذَ اللهِ أن نَّأخُذَ إلاَّ مَن وَجَدنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ اِنَّا اِذاً لَّظَالِمُون"[35]

 

"اللہ کی پناہ! کہ ہم اس کے علاوہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی، کسی دوسرے کو گرفتار کریں، پھر تو یقیناً ہم ظالم ٹھہریں گے۔"

 

علامہ آلوسیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

"إذاً أي أخذنا غیر من وجدنا متاعنا عنده ولو برضاه یظلمون فی مذهبکم وشرعکم"[36]

 

معلوم ہوا کہ اگر رضامندی سے بھی کوئی اپنے آپ کو پیش کرے تواس کو پکڑنا بھی ظلم ہے۔

 

رشتہ داروں کو گرفتار کرنے کا حکم

باغیوں کے رشتہ داروں کو گرفتار کرنے کے جواز اور عدم جواز میں فقہاءکی دو رائے ہیں:# جمہور فقہاءکی رائے یہ ہے کہ ایسے افراد کے وہ رشتہ دارجو بغاوت کا حصہ نہیں انہیں گرفتار کرنا یاقتل کرناجائز نہیں۔ البتہ اپنی جان کے بچانے کے لیے قتل جائز ہے۔ چنانچہ صاحب بحر الزخار فرماتے ہیں:

 

 

 

"ولا یقتل ذو رحم محرم إلا مدافعة عن نفسه"[37]

 

جبکہ علامہ ماوردی الاحکام السلطانیہ میں فرماتے ہیں:

 

"ولا یسبیٰ ذراریهم"[38]

 

صاحب کنز کا مذہب بھی یہی ہے کہ باغیوں کے رشتہ داروں کو قید نہیں کیا جائے گا، وہ فرماتے ہیں:

 

"ولم یسب ذریتهم"[39]# بعض فقہاءکی رائے یہ ہے کہ باغیوں کے ان رشتہ داروں کو جو بغاوت میں ملوث نہیں باغیوں کی حوصلہ شکنی کے لیےقید کرنا جائز ہے تاکہ وہ بغاوت سے باز آجائیں۔ اسی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قفال شاشی فرماتے ہیں:

 

 

 

"لأن فی حبسه کسراً قلوبهم"[40]

 

یہی قول امام الحرمین نے نہایۃ المطا لب میں اور یحیی بن اشرف الدمشقی نے روضۃ الطالبین میں ذکر کیا ہے کہ جنگ ختم ہونےتک قیدمیں رکھا جائے گا اور جنگ ختم ہو جانے کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔[41] علامہ حموی الشافعی سے بھی یہی قول منقول ہے،[42] البتہ باغیوں کے رشتہ داروں خواہ قریبی ہوں یا دور کے، کوقتل کرنا جائز نہیں۔ جب جہاد میں حربی کافرکےرشتہ داروں کو قتل نہ کرنے کا حکم ہے باغی تو پھر بھی مسلمان ہوتے ہیں ان کے رشتہ داروں کو قتل کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اور ان دونوں کے خلاف جنگ کاطریقہ کار بھی مختلف ہےکہ کافر کو تو صفحہ ہستی سے مٹانا مقصود ہوتا ہے جبکہ باغی کے خلاف جنگ کا مقصد ان کی قوت کا خاتمہ ہوتا ہے جب وہاں جائز نہیں تو یہاں کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا۔ امام الحرمین فرماتے ہیں:

 

"فحق علی الإنسان أن یجتنب قتل ذوا الأرحام ما وجد إلیه سبیلاً ولا فرق بین أن یکونوا من المحارم، أولا یکونوا منهم ونحن نکره ذلك فی الکفار"[43]

 

درج بالا تفصیل سےباغیوں کے رشتہ داروں گرفتاری کے متعلق فقہاءکی دو آراءحاصل ہوئیں:# باغیوں کے رشتہ داروں کو ان کی حوصلہ شکنی کے لیے گرفتارکرنا جائزہے۔

  1. باغیوں کےرشتہ داروں کو گرفتار کرنا جائز نہیں۔

 

 

 

البتہ باغیوں کے رشتہ داروں کے قتل کا فقہاء میں سے کوئی بھی قائل نہیں بشرطیکہ جنگ کا حصہ نہ ہوں اور اگر جنگ کا حصہ ہو ں تو ان کا حکم باغیوں کے حکم کی طرح ہے۔

 

باغیوں کے مال کا حکم

باغیوں کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی دو صورتیں ہیں۔# منقولی مال جیسے سازو سامان ، سواریاں وغیرہ۔

  1. غیر منقولی مال جیسے زمین اور تعمیر شدہ گھر وغیرہ۔

 

 

 

مال کی ان دونوں قسموں کے احکامات جداجدا ہیں البتہ اس پر تمام فقہاءمتفق ہیں کہ دوران جنگ حاصل ہونے والے مال کومحفوظ رکھا جائے گا مال غنیمت کی طرح اسےتقسیم نہیں کیا جا ئے گا کیونکہ جنگ جمل میں حضرت علیؓ نے جو مال پکڑا تھا اسے تقسیم کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ اگر اسے غنیمت سمجھ کر تقسیم کیا جاتا تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مطالبہ کون کرتا اس لیے آپ ؓنے تقسیم سے منع کرتے ہوئےفرمایا:

 

"لا تقسم بیننا ما آفاء اللّٰه علینا فمن یأخذ منکم عائشة"[44]

 

ان کے اموال کو ضبط کرنا درست نہیں ہے ۔ علامہ قفال فرماتے ہیں:

 

"ویحبس الإمام فلا یردها ولا یقسمها حتی یتولوا فیردها علیهم"[45]

 

جب وہ حاکم وقت کی اطاعت پر رضامند ہو جائیں تو ان کو مال لوٹا دیا جائے گا اور یہی قول الاختیار تعلیل المختار میں ذکر کیا گیاہے:

 

"ولا یغتنم لهم مال و یحبسها حتی یتولوا فیردها علیهم"[46]

 

المبسوط میں علامہ سرخسی کا بھی یہی قول ہے کہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ان کا مال ان کو لوٹا دیا جائے گا، فرماتے ہیں:

 

"فإذا وضعت الحرب أوزارها رد جمیع ذلک علیهم لزوال الحاجة وکذالك ما أصیب أموالهم یرد إلیهم"[47]

 

"جس ضرورت (ان کی قوت و طاقت کو منتشر کرنے)کی بناءپر ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے وہ پوری ہو چکی اس لیے ان کے اموال لوٹا دیئے جائیں گے۔"

 

وہ منقولی مال جس کی حفا ظت مشکل ہواس کو بیچ کر اس کی قیمت کو محفوظ کیا جائے گا اور جنگ ختم ہونے کے بعد وہ قیمت لوٹائی جائے گی۔اور اسی قیمت سے باغی قید ی پر دوران قید ہونے والے اخراجات پورے کیے جائیں گے کیونکہ بیت المال سے ان پر خرچ کرنا جائز نہیں اور اگرحاکم نے بیت المال سے خرچ کیاہو تو حاکم وقت سے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ چنانچہ علامہ سرخسی مبسوط میں فرماتے ہیں:

 

"أما الکراع فیباع و یحبس الثمن لأنه یحتاج النفقة فلا ینفق علیه الإمام من بیت المال لما فیه من الإحسان إلی الباغي"

 

مال کے استعمال کرنے کاحکم اس وقت ہے جب فوج کو مال کی ضرورت نہ ہو اگر ضرورت ہو توپھر اسے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اس لیے ایسے مال کو بیچ کر ان کی قیمت سے قیدیوں کے اخراجات پورے کرکے باقی ماندہ رقم جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد اس کے مالک کے سپرد کی جائے گی لیکن باغیوں کے اسلحے کو محفوظ رکھا جائے گا اور جنگ ختم ہونے کے بعد، ا ن کامال ان کے حوالے کیا جائے گا۔چنانچہ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے :

 

"وإن کانوا لا یحتاجون إلی کراعهم وسلاحهم، ألسلاح یوضع في موضعه کسائر الأموال والکراع یباع ویحبس ثمنه لأنه یحتاج إلی النفقة ولا ینفق علیه الإمام من بیت المال لما فیه من الإحسان إلی الباغي ولو أنفق علیه کان دیناً علی الباغي"[48]

 

یہی حکم امام محمدنے "الاصل" میں ذکرکیا ہے۔[49]

 

تنائجِ بحث:

مندرجہ بالا تفصیل سے درج ذیل امور معلوم ہوتے ہیں:# باغیوں کی چار اقسام ہیں جن میں سے ہر ایک کا حکم مختلف ہے۔

  1. خروج کے احکام حکمران کے عادل و غیر عادل ہونے کے اعتبار سے مختلف ہیں۔
  2. عادل حکمران کے خلاف بغاوت سیرتِ طیبہ اور فقہاءِ کرام کی متفقہ آراء کی روشنی میں جائز نہیں ہے۔
  3. جمہور اہلِ سنت والجماعت سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ظالم و جابر حکمران کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دیگر ائمہ کرام کڑی شرائط کے بعد اس کی اجازت دیتے ہیں۔
  4. حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والے کو قید کیا جائے گا اور جنگ جاری رہنےتک قید میں رکھا جائے گا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد باغیوں کی قوت ختم ہوئی ہو گی یا نہیں؟ اگر باغیوں کی قوت ختم ہو چکی ہو تو باغی حاکم کی بیعت پر رضامند ہو ں گے یا نہیں؟ دونوں صورتوں میں (بیعت پر رضامند ہو ں یا نہ ہوں) قیدیوںکو رہا کردیا جائے گا کیونکہ ایسی حالت میں ان سے نقصان کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔
  5. اگرباغیوں کی قوت تاحال باقی ہو تو پھر انہیں قید میں ہی رکھا جائے گا کیونکہ ایسی حالت میں ان سے نقصان کی توقع کی جا سکتی ہے اور مقصود بھی تا حال حاصل نہیں ہوا۔[50] لیکن یہ قید جنگ جاری رہنے تک ہوگی ۔
  6. ایسے لوگوں کی جائیدادکوخاص مدت تک ضبط کیا جا سکتا ہے اور ضبط شدہ مال کی حفاظت بھی ضروری ہے۔اور جس مال کی حفاظت ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو ایسے مال کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو محفوظ کیا جائے گا اور اُسی سے قیدی پر خرچ کیا جائے گا البتہ بحق سرکار ضبط کرکے اسے نیلام کرنا جائز نہیں ہے۔

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات(References) == ہیکل، محمد حسین ،حضرت ابوبکر ، ،مکتبہ لائبریری لاہور، طبع اولیٰ، 1986،ص:148 Haykal, Muḥammad Ḥusayn, Haḍrat Abu Bakar, (Lahore: Maktabah Library, 1st Edition, 1986), p:148
  2. الشیبانی،خلیفہ بن خیاط ابوعمر ،تاریخ خلیفہ بن خیاط،دارالقلم ،بیروت ،طبع ثانی،1397ھ،1:101 Al Shaybānī, Khalifah bin Khayyaṭ, Tarīkh e Khalifah, (Beirut: Dār al Beirut: Dār al Qalam, 2nd Edition, 1397), 1:101
  3. تاریخ خلیفہ بن خیاط،1:204 Tarīkh e Khalifah, 1:204
  4. محمد نافع ،سیرت سیدنا امیر معاویہ،دارالکتاب یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ لاہور، ص:243 Muḥammad, Nafi’, Seerat Sayyidinā Amīr Mu’āwiyah, (Lahore: Dār ul Kitāb), p:243
  5. سورة النساء:59 Surah al Nisa’: 59
  6. البغدادی، علی بن محمد بن ابراہیم المعروف بالخازن، لباب التاویل فی معانی التنزیل، حافظ کتب خانہ مسجد روڈ کوئٹہ، 1:396 Al Khazin, ‘Alī bin Muḥammad bin Ibrahīm, Al Baghdādī, Lubāb al Ta’wīl fī M’ānī al Ta’wīl, (Quetta: Hafiz Kutub Khana, Masjid Road), 1:396
  7. البقاعی، ابراهيم بن عمر بن حسن، نظم الدر فی تناسب الایات والسور، دارلکتب العلمیہ، بیروت، طبع اولیٰ، 1995ء، 2:271 Al Buqa’ī, Ibrahīm bin ‘Umar bin Ḥasan, Naẓm al Durar fī Tanasub al Aayat wal Suwar, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1995), 2:271
  8. صحیح مسلم، کتاب الامارة ، باب وجوب طاعة الامیر فی غیر معصیہ وتحریمھا فی المعصیة،صحیح علی شرط الشیخین،3:1853 Ṣaḥīḥ Muslim, 3:1853
  9. البخاری،محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری، ابواب الظالم والقصاص،باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما، رقم الحديث: 2443 Al Bukhārī , Muḥammad bin Isma’īl, Ṣaḥīḥ Bukhārī , Ḥadith # 2443
  10. صحیح مسلم، کتاب الإمارة، باب الأمر بلزوم الجماعة وتحذیر الدعاة إلی الکفر،صحیح علی شرط الشخین،1849:3 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadith # 1849
  11. صحیح مسلم، کتاب الإمارة،باب حکم من فرق أمر المسلمین وھو مجتمع، صحیح علی شرط الشخین،1853:3 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadith # 1853
  12. البخاری،محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری، باب إن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر، حدیث نمبر:3062 ۔صحیح لغیرہ ہے۔ Ṣaḥīḥ Bukhārī, Ḥadith # 3062
  13. التویجری محمد ابراہیم بن عبداللہ،الموسوعتہ الفقہیہ ،بیت الافکار الدولیہ،طبع اولیٰ،2009،5:327 Al Tawayjarī, Muḥammad Ibrahīm bin ‘Abdullāh, Al Mauwsuw’ah al Fiqhiyyah, (Bayt al Afkār al Duwaliyyah, 1st Edition, 2009), 5:327
  14. الدمیجی عبداللہ بن عمر ،الالمارۃالعظمی عند اہل السنہ،مکتبہ دار طیبہ ،طبع اولٰی،1987،ص:518 Al Damayjī, ‘Abdullāh bin ‘Umar, Al Imāratul ‘Uẓma ‘Inda Ahal al Sunnah, (MAktabah Dār Tayyibah, 1st Edition, 1987), p:518
  15. سورة الکہف:64 Surah al Kahaf: 64
  16. ابن عابدین محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عامدین الدمشقی، ردالمحتار علی درالمختار،دار الفکر بیروت، طبع ثانی، 1992ء،4:261 Ibn ‘Abidīn, Muḥammad bin ‘Umar bin ‘Abdul ‘Azīz, Radd al Muḥtār ‘Ala al Durr al Mukhtār, (Beirut: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1992), 4:261
  17. البلخی،نظام الدین، فتاوی عالمگیری (ہندیہ)، دارالفکر بیروت، طبع ثانی،1310ھ، کتاب السیر،2:283 Al Balakhī, Niẓam ud Dīn, Fatawa ‘Alamgīrī, (Beirut: Dār al Beirut: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1310), 2:283
  18. الدسوقی ،المالکی، محمد بن احمد عرفة،حاشیة الدسوقی،دارالکتب العلمیہ بیروت ، طبع ثانی، 2003 ء، 6:276 Al Dasuwqī, Ḥashiyah al Dasuwqī, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2nd Edition, 2003), 6:276
  19. ارباب حل عقد وہ افراد ہیں جن میں پانچ شرائط آزاد ہونا، عادل ہونا، ذہین ہونا، اصحاب الرائے سے ہونا، قریشی ہونا پائی جاتی ہوں۔ اگرچہ آخری شرط میں اختلاف ہے کہ حکمران کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے کہ نہیں؟ اس میں فقہاءکی دورائے ہیں۔ بعض کے نزدیک حکمران بننے کے لیے قریشی ہونا ضروری ہےجبکہ بعض اسے ضروری نہیں سمجھتے۔
  20. عودۃ عبدالقادر،التشریع الجنائی الاسلامی مقارنا بالقانون الوضعی، دارالکتاب العربی بیروت،2:667‘Awdah, ‘Abdul Qādir, Al Tashrī‘ al Jina’ī al Islamī Muqarinan bil Qanuwn al Waḍī, (Beirut: Dār al Kitāb al ‘Arabī), 2:667
  21. سورۃالحجرات:9 Surah al Ḥujarāt: 9
  22. الاندلسی،محمد بن یوسف، البحرالمحیط،مکتبہ دار الفکر بیروت، 1992ء،9:515،ومفتی ،محمد شفیع، احکام القرآن، ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ، 1429ھ،4:285Al Andulasī, Muḥammad bin Yuwsuf, Abu ‘Abdullāh, Al Baḥr al Muḥīṭ, (Beirut: Maktabah Dār al Fikr, 1992), 9:515; Muḥammad Shafī‘,Muftī, Aḥkām al Qurān, (Idarah tul Qur’ān wal ‘Uluwm al Islamiyyah, 1429), 4:285
  23. الطبری، ابی جعفر محمد بن جریر،جامع البیان فی تفسیر القرآن، دار الفکر بیروت، 1995ء،31:165Al Ṭabrī, Muḥammad bin Jarīr, Jami’ al Bayān fī Tafsīr al Qur’ān, (Beirut: Dār al Fikr, 1995), 31:165
  24. الموصلی، الحنفی،عبداللہ بن محمود بن مودود، الاختیار فی تعلیل المختار، دار المعرفۃ، بیروت، 2:151 Al Muwṣalī, ‘Abdullāh bin Maḥmuwd bin Mawduwd, Al Ikhtiyār li Ta’līl al Mukhtār, (Beirut: Dār al Ma’rifah), 2:151
  25. صحیح بخاری، کتاب استتبابة المعاندین والمرتدین، باب قتال الخوارج والملحدین بعد اقامة الحجة علیھم، رقم الحدیث: 6930 Ṣaḥīḥ Bukhārī, Ḥadith # 6930
  26. الماوردی، علی بن محمد بن حبیب، الحاوی الکبیر ،دارالفکر بیروت، 1994ء،61:378 Al Mawadrī, ‘Alī bin Muḥammad bin Ḥabīb, Al Ḥawī al Kabīr, (Beirut: Dār al Fikr, 1994), 61:378
  27. ابوالنجیب، عبد الرحمن بن نصر بن عبداللہ الشافعی،المنہج المسلوک فی سیاستہ الملوک ،مکتبۃ المنارالزرقا ،1:668Abu al Najīb, ‘Abdul Raḥmān bin Naṣr bin ‘Abdullāh, Al Manhaj al Masluwk fī Siyasah al Muluwk, (Maktabah al Manār al Zarqā), 1:668
  28. الکلبی، محمدبن احمدبن محمدبن عبداللہ بن جزی ،القوانین الفقہیۃ،باب البغی،ص:293Al Kalbī, Muḥammad bin Aḥmad bin Muḥammad bin ‘Abdullāh, Al Qawanīn al Fiqhiyyah,p:293
  29. سورۃالنجم:28، سورۃ الانعام:164 Surah al Najam: 28; Surah al An’ām: 164
  30. سورۃ بنی اسرائیل:15،سورۃالانعام:164،سورۃالفاطر:18 Surah Banī Isrā‘īl: 15, Surah al An’ām: 164, Surah al Faṭir: 18
  31. القرطبی،9:74 Al Qurṭabī, 9:74
  32. آلوسی ،علامہ ابی الفضل شہاب الدین السید محمود روح المعانی،دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ، طبع ثانی،2005ء،9:65 Ālūsī, Sayyid Maḥmuwd, Shahāb al Dīn, Rūḥ al Ma’ānī, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2nd Edition, 2005), 9:65
  33. سورۃ یوسف:74 Surah Yuwsuf: 74
  34. سورۃ یوسف:75 Surah Yuwsuf: 75
  35. سورۃیوسف:78،79 Surah Yuwsuf: 78,79
  36. روح المعانی،7:33 Rūḥ al Ma’ānī, 7:33
  37. المرتضیٰ، احمد بن یحی،البحر الزخار ، مؤسسة الرسالة، بیروت،1947ء، 6:418 Al Murtaḍa, Aḥmad bin Yaḥya, Al Baḥr al Zakhār, (Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 1947), 6:418
  38. الماوردی،ابی الحسن علی بن محمد بن حبیب،الاحکام السلطانیہ ولولایات الدینیہ، مؤسسة الکتب، ص :126 Al Mawadrī, ‘Alī bin Muḥammad bin Ḥabīb, Al Aḥkām al Sulṭaniyyah, (Mua’ssasat al Kutub), p:126
  39. النسفی، ابوالبرکات، عبداللہ بن احمد بن محمود حافظ الدین ،کنز الدقائق، باب البغاة، مکتبہ علمیہ کوئٹہ،ص:216 Al Nasafī, ‘Abdullāh bin Aḥmad bin Maḥmuwd, Kanz al Daqai’q, (Quetta: Maktabah ‘Ilmiyyah), p:216
  40. الشاشی، القفال،سیف الدین ابی بکر محمد بن احمد، حلیة العلماءفی معرفة الفقہاء، مکتبہ الرسالة الحدیثہ، 1988ء،7:617 Al Shashī, Muḥammad bin Aḥmad, Ḥilyatul ‘Ulamā‘ fī Ma’rifah al Fuqahā’, (Maktabah al Risalah al Ḥadithah, 1988), 7:617
  41. النووی، ابوزکریا، محی الدین یحیٰ بن شرف ،روضة الطالبین،المکتبۃ الاسلامی بیروت ،طبع ثالث، 1991،7:278 Al Nawawī, Yaḥya bin Sharf, Rawḍah tul Ṭalibīn, (Beirut: al Maktabah al Islamī, 3rd Edition, 1991), 7:278
  42. الحموی، ابو عبداللہ، محمد بن ابراہیم بن سعداللہ ،تحریرالاحکام فی تدبیرالاسلام ،ناشر دارالثقافۃ قطر ،طبع ثالث، 1988،1:244 Al Ḥamwī, Muḥammad bin Ibrahīm, Tahrīr al Aḥkām fī Tadbīr al Islām, (Qatar: Dār al Thaqafah, 3rd Edition, 1988), 1:244
  43. الجوینی، عبدالملک بن عبداللہ بن یوسف، نھایة المطلب فی درایة المذھب، دارالمنھاج، طبع اولیٰ، 2007ء، 17:185 Al Jawaynī, Imām al Ḥaramayn, 'Abdul Malik bin 'Abdullāh, Nihayatul Maṭlib fī Dirayah al Madhab, (Dār al Minhāj, 1st Edition, 2007), 17:185
  44. السرخسی، شمس الدین،کتاب المبسوط، دارالکتب العلمیہ، باب الخوارج، 5:127 Al Sarakhsī, Muḥammad bin Aḥmād bin Abi Sahl, Al Mabsūt, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah), 5:127
  45. حلیۃ العلماءفی معرفة مذہب الفقہاء، (باب قتال اھل البغی)، 7:618 Ḥilyatul ‘Ulamā‘ fī Ma’rifah al Fuqahā’, 7:618
  46. الموصلی، الحنفی،عبداللہ بن محمود بن مودود، الاختیار فی تعلیل المختار، دارالمعرفة بیروت ، 2:152 Al Muwṣalī, ‘Abdullāh bin Maḥmuwd bin Mawduwd, Al Ikhtiyār li Ta’līl al Mukhtār, (Beirut: Dār al Ma’rifah) 2:152
  47. المبسوط، باب الخوارج، 5:166,167 Al Mabsūt, 5:166,167
  48. الانصاری، فرید الدین، الدھلوی ،الفتاوی التاتارخانیہ، دار احیاءالتراث العربی، طبع اولیٰ، 2004ء ،5:246 Al Anṣarī, Farīd Uddīn, Al Dehlavī, Al Fatawa al Tatār Khaniyyah, (Dār Iḥyā al Turāth al ‘Arabī, 1st Edition, 2004), 5:246
  49. الشیبانی، محمد بن حسن ،الاصل ،مکتبہ الاحرارنیواڈہ مردان، طبع اولیٰ، 2012،7:513 Al Shaybanī, Muḥammad bin Ḥasan, al Aṣal, (Mardan: Maktabah al Aḥrār, 1st Edition, 2012), 7:513
  50. نھایة المطلب فی درایة المذھب،فصل فی اسرالبغاۃ، 71:146Nihayatul Maṭlib fī Dirayah al Madha, 71:146
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...