Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 1 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

شاگرد کے خلاف تادیبی کاروائی کا دائرہ کار سنت نبوی اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060030498_891

Pages

53-60

DOI

10.36476/JIRS.1:1.06.2016.05

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/87/24

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/87

Subjects

Education Students Punnishment Education Students Punnishment

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

تعلیم کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا نہیں،بلکہ تعلیم کے ذریعے انسانوں کو صحیح معنوں میں انسان بنایا جاتا ہے،ایک استاد معلم ہونے کے ساتھ مربی بھی ہوتا ہے،استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ شاگردوں کو اچھے خصلتوں کا خوگر بنادے، اور بُرے عادات سے انہیں منع کرے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:

شیخ ِمکتب ہے اک عمارت گر

اس کی صنعت ہے روحِ انسانی

لہذا ایک استاد کی ذمہ داری سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ غلطی پر تنبیہ کرنا بھی ہے،لیکن تربیت اور غلطی پر تنبیہ کے سلسلے میں استاد اور شاگرد دونوں اِفراط اور تفریط کا شکارہوتے ہیں،چنانچہ بعض اساتذہ کی طرف سے کبھی تو شاگردوں سے کوئی باز پُرس ہی نہیں ہوتی اور کبھی حد سے زیادہ اتنی سزا دی جاتی ہے کہ ہاتھ پاؤں زخمی ہوجاتےہیں،بعض کے ہاں سزا صرف مار پیٹ ہی ہوتی ہے،جبکہ بعض ہر قسم کی غلطی پر شاگرد کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں۔اس کے مقابلے میں بعض شاگرد سزا کے بعد استاد سے انتقام لینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں،اربابِ تعلیم کی جانب سے "مار نہیں پیار"کے نعرے سےعدمِ برداشت میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

ان حالات میں معاشرے کی رائے بھی ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہے،چنانچہ بعض استاد کو مربی کا درجہ دینے کے بجائے جلاد کا مرتبہ دینے کے درپے نظر آتے ہیں،اور سزا کو ہر غلطی کے اصلاح کے لیے کافی سمجھتے ہیں،اور بعض شاگرد کو ہر قسم کی سزا سے مستثنٰی قرار دے کر شُتر بے مہار،اور استاد کو صرف پیغام رساں ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہیں،حالانکہ حق ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے

ایسی صورتِ حال میں ایک مربی ، شفیق اور مخلص استاد کے سامنے سب سے بڑا ہدف یہ ہوتا ہے،کہ وہ غلطی سے اپنے شاگرد کو کیسے بچاتا ہے؟اور غلطی کرنے کے بعد شاگرد کے مناسب کونسا طریقہ تربیت اختیار کرتا ہے؟یہ جاننا بھی انتہائی ضروری ہےکہ طلبہ غلطی کیوں کرتے ہیں؟اورمارنے کے علاوہ اصلاح کے دوسرے طریقے کون سے ہیں؟اس بات سے واقف ہونا بھی استاد کے فرائض میں شامل ہے کہ ہر غلطی پر سزا نہیں دی جا سکتی ہے،اور اگر کبھی سزا کی نوبت آجائے توکن امور کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

اور چونکہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کی غلطیوں کی اصلاح بہترین طریقے سے کرتے تھے،اس لیے غلطیوں کی اصلاح کے بارے رسول اللہﷺ کا طرز عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے،لہذااس تحقیقی مضمون کا اصل ہدف مذکورہ بالا چیزوں کا احادیثِ نبوی اور فقہ اسلامی کی رو سے جائزہ لیناہے

غلطی کرنے کے اسباب:

چونکہ ہر قسم کی غلطی پر تنبیہ اور تربیت کی الگ الگ طریقے ہوتے ہیں،اس لیے ان اسباب کا پہچاننا انتہائی ضروری ہیں، جن کی وجہ سے طالب علم عام طور پر غلطی کرتے ہیں ۔

طالب علم مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے غلطی کرسکتے ہیں :

(۱)کبھی طلبہ کوکسی چیز کی صحیح سمجھ نہیں ہوتی،لہذا وہ اس کام کو کرتے ہوئے غلطی کر جاتے ہیں،اس قسم کو فکری غلطی کہتے ہیں،لہذا ایسی صورتِ حال میں مربی کو چاہیے کہ وہ مطلوبہ چیز کی صحیح تفسیر اور وضاحت کرے،جب طالب علم کو معلوم ہوجائےگا تو وہ پھر غلطی نہیں کرے گا،اس لیے کہ جب بنیادی تصورات درست ہو جاتے ہیں تو غلطیاں ختم یا کم ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ:

" أما أنا فتمرغت في التراب، فأتينا النبي صلى الله عليه وسلم فضحك فقال: إن كان الصعيد لكافيك، وضرب بكفيه إلى الأرض، ثم نفخ فيهما، ثم مسح وجهه وبعض ذراعيه "[1]

مجھے جنابت لاحق ہوگئی،تو پانی نہ ہونے کی وجہ میں نے تیمم کا ارادہ کیا،اور چونکہ مجھے تیمم کا صحیح طریقہ معلوم نہیں تھا ،لہذا میں نے پورے بدن پر مٹی مل لی،جب ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ ﷺ کو قصہ سنایا تو رسول اللہﷺ ہنسنے لگے،پھر مجھے تیمم کا صحیح طریقہ سکھایا۔

اِس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ جب رسول اللہﷺ نے غلطی کرنے پر حضرت عمار بن یاسر کوصحیح طریقہ سمجھایا تو پھر نے انہوں نے وہی غلطی دوبارہ نہیں دہرائی۔

(۲)کبھی کسی چیز کا صحیح مفہوم تو ذہن میں ہوتا ہے لیکن عمل کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے،اس لیے کہ پہلے وہی عمل کیا نہیں ہوتا،ایسی صورت میں بھی غلطی پر محاسبہ نہیں ہونا چاہیے،اس لیے کہ پہلی مرتبہ کئے ہوئے عمل میں غلطی کرنافطری بات ہے۔

رسول اللہﷺ ایک لڑکے کے پاس سے گزر رہے تھے،وہ لڑکا بکری سے کھال اُتار رہا تھا،آپ ﷺ نے اُسے فرمایا:

" تنح حتى أريك، فإني لا أراك تحسن تسلخ". قال: فأدخل رسول الله، صلى الله عليه وسلم، يده بين الجلد واللحم، فدحس بها حتى توارت إلى الإبط، ثم قال صلى الله عليه وسلم: "هكذا يا غلام فاسلخ "[2]

ہٹ جاؤ، تاکہ میں تمہیں بکری سے کھال اتارنا سکھاؤ"۔ پھر کھال اتار کر اسے فرمانے لگے:"اس طرح کھال اتارا کرو۔"

(۳)کبھی طالب علم جانتا ہے کہ میں غلطی کررہا ہوں،لیکن پھر بھی غلطی پراصرار کر رہا ہو،ایسی صورتِ حال میں مربی اور استاد پر تادیبی کاروائی لازم ہوجاتی ہے،تاکہ وہ بُرے عادات سے رُک جائے اور اس کی اصلاح ہوجائے۔

چنانچہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

"مروا صبيانكم بالصلاة،إذا بلغوا سبعا واضربوهم عليها، إذا بلغوا عشرا، وفرقوا بينهم في المضاجع "[3]

اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑنے کاحکم دیا کرو،اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑنے پر اسے مار بھی سکتے ہوں۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مارنے سے پہلے سمجھانا ضروری ہے،اور نہ سمجھنے پر مار بھی سکتے ہو،اس لیے کہ بعض بچوں کے بارے میں صرف سمجھانا مفید نہیں ہوتا۔[4]

جب تربیت کے تمام طریقے کارآمد نہ ہو تو ایسی صورتِ حال میں شریعت نے مارنے کی اجازت دی ہے،چنانچہصحابہ کرام بھی اپنے بچوں کو غلطی کرنے پر مارتے تھے، حضرت نافعؒ نقل کرتے ہیں:

" كان ابن عمر يضرب ولده على اللحن "[5]

عبد اللہ بن عمرؓ اپنے بیٹے کو غلطی کرنے پر مارتے تھے۔

مارنے سے پہلے سمجھانے اور تربیت کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں جن کو صحیح انداز میں استعمال کرنے سے مارنے کی نوبت نہیں آتی۔

سمجھانے کے مختلف طریقے

(۱)جس کام کی ترغیب دی جا رہی ہو،اس کے کرنے کے فوائداور نہ کرنے کے نقصانات بیان کی جائے، یہ طریقہ اسالیبِ تربیت میں سب سے عمدہ اور نفع بخش طریقہ ہے ،پھر فوائد بیان کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں،کبھی تو کامیاب شخصیات کے قصے اور حکایات سنائی جائیں،اورکبھی تمام طالب علموں کے سامنےنمایاں حیثیت والے طلبہ کی مناسب تعریف کی جائیں،انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ دوسروں کی تعریف سن کر خود بھی قابلِ تعریف بننا پسند کرتا ہے، اسی طرح غلطی کے نقصانات بیان کی جائے،تاکہ پتہ چلے کہ اُسے کیوں روکا جارہاہے۔

چنانچہ حضرت حسن ؒنے جب صدقہ کے کھجوروں سے ایک کھجور اٹھائی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

" كخ كخ ليطرحها، ثم قال:أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة "[6]

اسے پھینکو،کیا تمھیں پتہ نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے!

علامہ عینی ؒفرماتے ہیں:

" وفيه:أن الأطفال إذا نهوا عن الشيء يجب أن يعرفوا لأي شيء نهوا عنه ليكونوا على علم إذا جاءهم أوان التكليف "[7]

اِس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی، کہ اگر بچوں کوکسی کام سے روکنا ہوں، تو انہیں بتایا جائے کہ انہیں کیوں روکا جا رہا ہیں، تاکہ بڑا بننے کے بعدانہیں معلوم ہوں۔

(۲)غلطی کرنے کے بعدنصیحت اور غلطی سے بچنے کی طرف رہنمائی انتہائی مفید ہوسکتی ہے،رسول اللہﷺ اس اسلوب کو انتہائی حکمت سے استعمال کرتے تھے،عمر بن ابی سلمہؓ نقل فرماتے ہیں:

" كنت غلاما في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت يدي تطيش في الصحفة، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا غلام، سم الله، وكل بيمينك، وكل مما يليك فما زالت تلك طعمتي بعد "[8]

میں رسول اللہﷺ کی پرورش میں تھا،میرا ہاتھ (کھانے کے دوران)برتن میں گھوم رہا تھا،تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:"اے بچے،اللہ تعالےٰکا نام لے کر اپنے سامنے سے دائیں ہاتھ سے کھاؤ،"چنانچہ پھر میں ہمیشہ ایسا ہی کھاتا تھا۔

(۳)مارنے کے علاوہ سزا کے دوسرے طریقے اختیار کیے جائے،مثلا:کبھی ماتھے پر شکن لائے،کبھی چہرے پر غصے کے آثارنمایاں ہوجائے،بعض طلبہ کے لیے اتنی سزا بھی کافی ہوتی ہے۔

امام نسائیؒ نے حضرت انسؓ سے ایک روایت نقل کی ہیں:

"رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم نخامة في قبلة المسجد، فغضب حتى احمر وجهه، فقامت امرأة من الأنصار فحكتها وجعلت مكانها خلوقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أحسن هذا "[9]

رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ مسجد میں قبلہ کی دیوار پر تھوک کے نشانات دیکھ لیے،تو چہرہ انور غصے کی وجہ سے سرخ ہوگیا،(یہ دیکھ کر )ایک انصاری صحابیہ اٹھ کھڑی ہوئی ، اور اسے صاف کر کے اُس جگہ خوشبو لگایا،رسول اللہﷺ نے فرمایا: "یہ بہت اچھا کیا"۔

(۴)کبھی صرف ڈانٹنے سے بھی طلبہ کی اصلاح ہوسکتی ہے،اس لیے کے بات کی اثر براہِ راست دل پر ہوتی ہے،عربی کا ایک شعر ہے:

"جراحات السنان لها التيام

ولا يلتام ما جرح اللسان "

نیزوں کے زخم ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن باتوں کی اثر ختم نہیں ہوتی۔

ابو مسعود انصاری ؓ فرماتے ہیں :

" قال رجل يا رسول الله، لا أكاد أدرك الصلاة مما يطول بنا فلان، فما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في موعظة أشد غضبا من يومئذ، فقال: أيها الناس، إنكم منفرون، فمن صلى بالناس فليخفف، فإن فيهم المريض، والضعيف، وذا الحاجة "[10]

ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے اپنے امام کی شکایت کی،کہ وہ ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، تو رسول االلہﷺ انتہائی غصہ ہوگئے،پھر(لوگوں کوڈانٹتے ہوئے )فرمایا:"اے لوگوں تم لوگوں کو متنفر کر رہے ہوں،جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو ہلکی نماز پڑھایا کرو، اس لیے کہ اُن میں بیمار،کمزور اور حاجت والے ہوتے ہیں"۔

کبھی بار بار ڈانٹنے سے غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی کا زیادہ احساس ہوجاتا ہے،اور وہ نادم ہو کر ہمیشہ کے لیے دوبارہ غلطی کرنے سے باز آجاتا ہے، چنانچہ اسامہ بن زید نے جب ایک آدمی کو کلمہ توحید پڑنے کے بعد بھی قتل کردیا،تو رسول اللہﷺ اسے مسلسل ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے:

"کیا تم نے اس کے دل کو چیرا تھا؟" تاکہ تمہیں پتہ چلتا کہ اس کے دل میں ایمان ہے کہ نہیں۔

حضرت اسامہؓ فرماتے ہیں:

"فما زال يكررها علي أقال: لا إله إلا الله ثم قتلته، حتى وددت أني لم أكن أسلمت إلا يومئذ "[11]

اللہ کے رسول ﷺ مجھے مسلسل یہ جملہ ارشاد فرمارہے تھے،میرے دل پر اس کا ایسا اثر ہوا،کہ شرمندگی کی وجہ سے میں چاہتا تھا " کاش میں آج مسلمان ہوتا ۔"

لیکن ڈانٹنے کے دوران گالی ،نا شائستہ کلمات اور دھمکی سے احترازکرنی چاہیے،اس لیے کہ اس سے استاد اور شاگرد دونوں کی شخصیت پر بُرا اثر پڑتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

"ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذيء "[12]

مؤمن طعن کرنے والا،لعنت بھیجنے والا،فحش کفتگو کرنے والااور بیہودہ باتیں کرنے والا نہیں ہوتا۔

(۵)ان تمام مراحل کے بعد آخری مرحلہ مارنے کا ہے،لہذا اگر سمجھانے کاکوئی بھی طریقہ کارآمد ہوسکتاہوں، تو مارنے کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہی اسلوب اور ترتیب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بارے میں بھی بیان کیا ہے،چنانچہ ارشاد باری ہے:

"وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ "۔[13]

اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہوتو پہلے انہیں سمجھاؤ،اور اگر اس سے کام نہ چلے تو انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو،اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو انہیں مار بھی سکتے ہو۔

گویا تربیت کے سلسلے میں مار آخری حربہ اور دوائی ہے،اور یہ کھانے میں نمک کی طرح ہے،جب کھانے میں زیادہ مقدار میں ڈالی جاتی ہے تو سارا مزا خراب کردیتا ہے،اور اگر نہ ڈالی جائے تو بھی مزا جاتا رہتا ہے،لہذا مناسب انداز سے تھوڑی بہت سزا دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے،اور چونکہ شریعت سے ثابت بھی ہے لہذا استاد سے بلاوجہ سزا دینے کے بارے میں بازپرس کرنا ،یا شاگردوں کی طرف سےانتقامی کاروائی کرنا، استاد اور شاگرد کے رشتے سے لاعلمی کی دلیل ہے۔

فقہاء کرام نے وضاحت کی ہیں کہ ہر آدمی کے لیے مارنے کی سزا مناسب نہیں ہے۔

علامہ کاسانی ؒفرماتے ہیں:

"فتعزير أشراف الأشراف بالإعلام المجرد، وهو أن يبعث القاضي أمينه إليه فيقول له: بلغني أنك تفعل كذا وكذا، وتعزير الأشراف بالإعلام والجر إلى باب القاضي والخطاب بالمواجهة، وتعزير الأوساط بالإعلام والجر والحبس، وتعزير السفلة بالإعلام والجر والضرب والحبس؛ لأن المقصود من التعزير هو الزجر، وأحوال الناس في الانزجار على هذه المراتب "[14]

چنانچہ اخص الخواص کو اگر صرف قاضی یہ خبر دے کہ تم نے ایسا ایسا کیا ہے تو اس کے لیے اتنی سزا بھی کافی ہے،خاص لوگوں کو خبر دینے کے ساتھ عدالت میں حاضرکرنا ہی کافی ہوتا ہے،اور بعض کو حاضری کے بعد قید کرنا پڑتا ہے،جبکہ بعض کو قید کے ساتھ مارنا بھی ضروری ہوتا ہے، اس لیے کہ سزا سے مقصود غلطی سے روکنا ہوتا ہے،اور غلطی سے رُکنے میں لوگوں کی حالتیں مختلف ہوتی ہیں۔

لہذا اگر مجبورا مارنے کی سزا دی جارہی ہو، تو چند شرائط ملحوظ نظر رکھنی چاہیے۔

شرائط:

  1. ایسی مار نہ ہو جو زیادہ تکلیف دہ ہو،یا بیمار کردے،اس لیے کہ یہ تادیبی کاروائی ہے سزا نہیں۔[15]
  2. کوئی عضو متاثر نہ ہو،اورنہ ایسی جگہ پر ہو جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہو،مثلا:چہرہ وغیرہ،[16]اس لیے کہ چہرہ پر مارنے سے طالب علم کے دل میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوگا۔
  3. ادب سکھانے کے لیے ہو انتقامی کاروائی نہ ہو،اور نہ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہو۔
  4. جس مقصد کے لیے مارنے کی سزا دی جارہی ہو،اس کے حاصل ہونے کی غالب گمان ہو، اس لیے مقصد کے بغیروسائل خود بخود ختم ہوجاتے ہیں،مشہور قاعدہ ہے"الامور بمقاصدها"[17]
  5. سزا جرم کے بقدر ہو،اور اتنی مقدار میں ہو جس سے طالب علم کوتنبیہ ہو سکے،اس لیے کہ کم سے مقصود حاصل نہیں ہوتا،اور زیادہ کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔[18]
  6. اگر پہلے سے یہ اندازہ ہوجائے کہ مارنے سے بھی شاگرد کی اصلاح نہیں ہوسکتی،تو مارنا نہیں چاہیے۔
  7. مارنے سے پہلے سمجھانے کے دوسرے طریقے استعمال کر چکا ہو،اس لیے کہ بچوں کو سمجھانے کے لیے مار آخری حربہ ہے،جب تک ادب سکھانے کے باقی طریقے کار آمد اور مفید ہو ،تو سختی اور مار کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ بذاتِ خود مار کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اور مقصود بھی اس کے بغیر حاصل ہو رہی ہے۔[19]

ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب سزا دینے میں بظاہرکوئی قباحت نہیں ہے۔

سزا کی مقدار:

سزا کی کم از کم مقدار کے بارے میں محققین علماءِ تربیت کی رائے یہ ہے،کہ کوئی متعین مقدار سزا کی مقرر نہیں ہے، اس لیے کہ سزا بذاتِ خود کوئی مقصودی چیز نہیں ہے،اور اس لیے بھی کہ انسانوں کی مزاج مختلف ہوتی ہے،لہذا اگر استاد ایک تھپڑ یا ڈنڈا مناسب سمجھتا ہو،تو بھی صحیح ہے۔[20]البتہ زیادہ مقدار کے بارے میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے، کہ دس ڈنڈوں سے زیادہ نہ ہو، اس لیے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

"لا يجلد فوق عشر جلدات إلا في حد من حدود الله"[21]

"حدود اللہ کے سوا کسی سزا میں دس دروں سے زیادہ نہ مارا جائے"

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

اس حدیث کو بعض علماء نے صحابہ کے اجماع کی وجہ سے منسوخ قرار دیا ہے،[22]لیکن تادیبی کاروائی میں دس ڈنڈوں سے تجاوز مناسب نہیں ہے۔[23]

نتائج و گزارشات

استاد قوم کا وہ محافظ ہےجس کے ہاتھ میں آئندہ نسلوں کا مستقبل ہے،اس کی ذرا سی لاپرواہی معاشرے میں منفی رجحانات کا سبب بن سکتی ہے،قوم کے بچوں کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے،اس لگام کو زیادہ ڈہیلا چھوڑنےسے تربیت کمزور پڑجاتی ہے،اورزیادہ مضبوطی کے ساتھ تھامنے سے شاگردوں سے رابطہ اور تعلق کٹ جاتا ہے،لہذا نہ تو استاد سزا میں حد سے تجاوز کرے،اور نہ ہر قسم کی سزا پر استاد کو موردِ الزام ٹہرانا مناسب ہے،لہذا اسلامی شریعت میں اس اعتدال کی بہترین عملی نمونہ موجود ہے۔

اس بحث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:

  1. مارنا ہر غلطی کا علاج نہیں،بلکہ بعض غلطیوں کی اصلاح دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے،مثلا: فکری اور عملی غلطی میں سمجھانے سے طلباء دوبارہ وہی غلطی نہیں کرتے۔
  2. غلطی کرنے کے بعدنصیحت اور غلطی سے بچنے کی طرف رہنمائی انتہائی مفید ہوسکتی ہے۔
  3. بعض طلباء غلطی کرنے کے بعد صرف ڈانٹنے سے بھی سُدھر جاتے ہیں۔
  4. بار بار قصدا غلطی کرنے پر سزا دی جا سکتی ہے،بشرطیکہ مارنےسے پہلےسمجھانے کے سارے طریقے استعمال کرچکا ہو۔
  5. جس مقصد کے لیے مارنے کی سزا دی جارہی ہو،اس کے حاصل ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے مقصد کے بغیروسائل خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔
  6. سزا کے دوران کوئی عضو متاثر نہ ہو،اورنہ ایسی جگہ پر ہو جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہو،مثلا:چہرہ وغیرہ، اس لیے کہ چہرہ پر مارنے سے طالب علم کے دل میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوگا۔
  7. مارنے کے دوران طالب علم کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ موجود ہو۔
  8. اگر پہلے سے یہ اندازہ ہوجائے کہ مارنے سے بھی شاگرد کی اصلاح نہیں ہوسکتی،تو مارنا نہیں چاہیے۔
  9. سزا نہ تو بذاتِ خود کوئی مقصودی چیز ہے،اور نہ اتنا ناجائز ہے کہ اس کو جرم قرار دیا جائے۔

 

حوالہ جات

  1. مصادر و مراجع(Refrences) النسائی،ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب،سنن النسائی،باب الاختلاف فی کیفیۃ التیمم، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، رقم:۳۱۶،ج۱ص۱۶۸
  2. ابن حبان،ابوحاتم محمد الدارمی،صحیح ابن حبان،باب ذکر البیان بان مسح المرء النیئ لایوجب علیہ وضوءا، موسسۃ الرسالۃ،بیروت رقم:۱۱۶۳،ج۳ص۴۳۸
  3. امام احمد بن حنبل،ابو عبد اللہ احمد بن محمد،مسند احمد،مسند عبد اللہ بن عمرو بن عاص، موسسۃ الرسالۃ،بیروت، رقم:۶۶۸۹،ج۱۱ص۲۸۴
  4. العثیمین،محمد بن صالح،شرح ریاض الصالحین، دار الوطن للنشر،الریاض، ج۳ص۱۷۴
  5. البخاری،محمد بن اسماعیل، الادب المفرد،باب الضرب علی اللحن ، دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت، رقم:۸۸۰،ج۱ص۳۰۴
  6. البخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،باب ما یذکر فی الصدقۃ للنبیﷺ، دار طوق النجاۃ رقم:۱۴۹۱،ج۲ص۱۲۷
  7. عینی،ابو محمد محمود بن احمد،عمدۃ القاری، دار احیاء التراث العربی،بیروت،ج۹ص۸۱
  8. صحیح البخاری،باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین،رقم:۵۳۷۶،ج۷ص۶۸
  9. سنن نسائی،باب تخلیق المساجد،رقم:۷۲۸،ج۲ص۵۲
  10. صحیح البخاری،باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رأی ما یکرہ،رقم:۹۰،ج۱ص۳۰
  11. النسائی،ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب،السنن الکبری،باب قول المشرک لا الہ الا اللہ، موسسۃ الرسالۃ،بیروت، رقم:۸۵۴۰،ج۸ص۱۳
  12. الترمذی،محمد بن عیسی،سنن الترمذی،باب ما جاء فی اللعنۃ، مکتبہ مصطفی البانی الحلبی،مصر، رقم:۱۹۷۷،ج۴ص۳۵۰
  13. سورۃالنساء:۳۴
  14. الکاسانی،علاءالدین ابوبکر بن مسعود،بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، دار الکتب العلمیۃ،بیروت، ج۷ص۶۴
  15. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،ج۷ص۶۴
  16. ابو داود،سلیمان بن اشعث السجستانی،سنن ابی داود،باب فی ضرب الوجہ فی الحد، المکتبۃ العصریۃ،بیروت، رقم:۴۴۹۳،ج۴ص۱۶۷
  17. السبکی،تاج الدین عبد الوہاب بن تقی الدین،الاشباہ والنظائر، دار الکتب العلمیۃ،بیروت، القاعدۃ الخامسۃ،ج۱ص۵۴
  18. الموسوعۃ الفقهيۃ الکویتیۃ، دار السلاسل،الکویت، ج۴ص۱۹۴
  19. عز الدین،عبد العزیز بن عبد السلام،القواعد الکبری، دار القلم،دمشق، ج۲ص۱۵۷
  20. ابن نجیم،زین الدین بن ابراہیم،البحر الرائق، دار الکتاب الاسلامی، ج۵ص۵۲
  21. صحیح البخاری،باب کم التعزیر والادب،رقم۶۸۴۸،ج۸ص۱۷۴
  22. ابن حجر،احمد بن علی،فتح الباری، دار المعرفۃ،بیروت، ج۱۲ص۱۷۸
  23. ابن رجب،زین الدین عبد الرحمٰن بن احمد،جامع العلوم والحکم، موسسۃ الرسالۃ ،بیروت، ج۲ص۱۶۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...