Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

علامہ ابن جوزی کی تفسیر |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060030498_978

Pages

103-114

DOI

10.36476/JIRS.2:1.06.2017.09

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/209/10.12816%2F0037066

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/209

Subjects

Zad Al-Masir Fi ‘Ilm Al-Tafsi Ibn Al-Jawzī Tafsir Qur’an Zad al-masir fi ‘ilm al-tafsi Ibn al-Jawzī tafsir Qur’an

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

علامہ ابن الجوزیؒؒ کا تعارف

ابن جوزیؒ ؒکا پورا نام ابو الفرج عبد الرحمٰن بن ابو الحسن علی بن محمد بن علی بن عبید اللہ قرشی ہے۔ آپؒ 509ھجری میں پیدا ہوئے۔ آپؒ فقہ حنبلی سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؒ کے اساتذہ کی تعداد اسی( 80) سے زائد ہے جن میں ابو القاسم بن حصین، علی بن عبد الواحد الدینوری، محمد بن حسن الماوردی اور ابن زاغونی وغیرہ شامل ہیں۔ آپؒ کے شاگردوں میں محی الدین یوسف، علی الناسخ اور ابن قدامہ مشہور ہیں۔ آپؒ کی تصانیف کی تعداد اڑھائی سو (250) سے زائد ہے۔ جن میں سے المغنی کبیر، زادالمیسر،تلبیس ابلیس، جامع المسانید اور اخبار الاخیار مشہور ہیں۔ آپؒ 597ھجری میں وفات پائی۔[1]

"زاد المسیرفی علم التفسیر" کے مصادر و مراجع

اس مقالہ کی تحقیق کے لیے "زادالمیسر فی علم التفسیر" کا دار الکتاب العربی، بیروت کا نسخہ زیر نظر رہا ہے، جو چار جلدوں میں عبدالرزاق المھدی کی تحقیق سے ۲۰۰۲ءمیں شائع ہوا۔

زادالمسیر فی علم التفسیر میں ابن جوزیؒ﷫نے ایسی کتب فن سے استفادہ کیاہے جو اپنےفن میں اپنی مثال آپ اوربنیادی ماخذ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابن جوزیؒ ﷫کے علاوہ باقی مفسرین نے بھی ان کتب سے اپنی اپنی تفاسیر میں حوالے دیئے ہیں۔لیکن ابن جوزیؒ﷫نے ان تفاسیر کے نام ذکر کئے بغیر ان کے مولفین کے نام دے کر حوالے نقل کئے ہیں۔ ابن جوزیؒ﷫ نے جن کتابوں سے استفادہ کیاہے یہاں مختصراًان کتب کا تعارف پیش کیاجائے گا۔

کتب تفاسیر

ابن جوزیؒ﷫نے ابن جریر﷫، طبری﷫،ثعلبی﷫اورماوردی ﷫وغیرہ کی کتب تفاسیر سے زیادہ استفادہ کیاہے ان کا تعارف درج ذیل ہیں:

  1. جامع البیان عن تاویل آی القرآن:

ابن جریر﷫کی یہ تفسیرقرآن پاک پر لکھی جانے والی کتب کا بنیادی ماخذ ہے جو پہلی مکمل اورجامع تفسیر میں شمار ہوتاہے۔ابن جوزیؒ﷫نے اکثر مقامات پر ابن جریر ﷫کے اقوال نقل کئے ہیں۔مثلاًقرآن پاک کی آیت(الحج اشهر معلومت)[2] کی تفسیر میں ابن جوزیؒ﷫نے ابن جریرطبری﷫ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:[3]

” قال ابن جرير الطبري: إنما أراد هؤلاء أن هذه الأشهر ليست أشهر العمرة، إنما هي للحج، وإن كان عمل الحج قد انقضى بانقضاء أيام منى، وقد كانوا يستحبون أن يفعلوا العمرة في غيرها“[4]

ابن جریر طبری﷫ کا قول ہے کہ درحقیقت ان مہینوں سے مراد عمرہ کے مہینے نہیں ہیں اس سے مراد حج کے مہینے ہیں منی میں حج کی ادائیگی حج کی تکمیل کے بعد پوری ہوتی ہے اوراس زمانے کے لوگ یہ پسند کرتے تھے۔کہ وہ علاوہ اس کے مہینوں میں عمرہ ادا کریں۔

  1. الکشف والبیان عن تفسیر القرآن

یہ "تفسیر ثعلبی" کے لقب سے مشہورہے اور احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی﷫کی تصنیف ہے۔ابن جوزیؒ﷫نے ثعلبی ﷫کی تفسیر سے اپنی تفسیرمیں نہ صرف لغوی مباحث نقل کی ہے بلکہ بعض مقامات پر روایات کے حوالےبھی ثعلبی ﷫سے نقل کرتے ہیں، جیسے:

”وقد ذكر الثعلبي حديث ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلّم في الكفل: «أنه كان رجلاً لا ينزع عن ذنب، وأنه خلا بامرأة ليفجر بها، فبكت، وقالت: ما فعلتُ هذا قطّ، فقام عنها تائباً، ومات من ليلته، فأصبح مكتوباً على بابه: قد غفر الله للكفل» “[5]

  1. النکت والعیون

یہ تفسیر علی بن محمد بن حبیب الماوریؒ (المتوفی:450ھ)کا ہے جو تقریبا زادالمسیر سے ملتاجلتا ہے ماوردی ﷫نے بھی آیات کی تفسیر میں بلاغی مباحث،لغوی تحقیق کے ساتھ ساتھ مختلف قراءات کو نقل کرنے کا اہتمام کیاہے۔اور ضرورت کے مقدار میں فقہی مسائل کا تذکر ہ بھی کیا ہے۔

ابن جوزیؒ نے زادالمسیر فی علم التفسیر میں ماوردی ؒ کے حوالے بہت کثرت سے نقل کئے ہیں جیسے فرماتے ہیں:

قرآن پاک کی آیت (وکذلک نولی بعض الظالمين[6])کی تفسیر میں ابن جوزیؒ نے چاراقوال میں چوتھا قول نقل کرتے ہوئے ماوردیؒ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: [7]

”والرابع: نکل بعضهم الی بعض ولا نعينهم ،ذکر الماوردی[8]

زادالمسیر فی علم التفسیر میں اکثر مقامات پر ماوردی﷫کے حوالے ملتے ہیں ۔[9]

کتب احادیث

ابن جوزیؒ نے کتب احادیث میں صحیح البخاری،صحیح المسلم،سنن ترمذی،اورمسند احمد وغیرہ پر اعتماد کیا ہے اور کئی مقامات پر حوالے دیکر احادیث نقل کئے ہیں۔بعض مقامات پر انہیں الفاظ کے ساتھ اور بعض مقامات پر مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کیاہے اور سند کا اہتما م نہیں کیاگیاہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی تفسیرمیں فقہاء کے اقوال کی وضاحت میں روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” ما روي في الصحيحين من حديث عبادة بن الصامت عن النبی ﷺ أنه قال لا صلاة لمن لم يقرء بفاتحة الکتاب“[10]

صحیح البخاری[11] اور صحیح المسلم[12] میں یہ روایت پوری سند کے ساتھ موجود ہے ۔

کتب لغات،غریب القرآن ومعانی القرآن

  1. غریب القرآن

یہ یحییٰ بن زیاد فراء (المتوفی:207ھ)کی کتاب اورلغت کے موضوع پر بنیادی ماخذ ہے ابن جوزیؒ نے زادالمسیر میں اس کتاب پر اعتماد کیاہے۔ اور لغوی وضاحت میں اس کے اقوال نقل کئے ہیں۔ جیسے قرآن کی آیت :(وکيف تاخذونه وقد افضی بعضکم الی بعض)[13] کے ذیل لفظ( افضی )کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

”في الإفضاء قولان: أحدهما أنه الجماع، والثاني الخلوة بها و إن لم يغشها قاله الفراء“[14]

  1. مجاز القرآن

یہ ابوعبیدہ ﷫کی تالیف ہے ابن جوزیؒ ﷫نے علوم القرآن اور تفسیر پر لکھنے والے اپنی کتابوں میں اس کتاب پر اعتماد کیاہے۔اورابن جوزیؒ ﷫نے ابوعبیدہ﷫کا حوالہ دیکر ان کے اقوال نقل کئے ہیں۔جیسے آیت :”وإنا أو إياکم لعلی هدى أو في ضلال مبين“[15]کے تحت ابوعبیدہ ﷫کا قول نقل کرکے لکھتےہیں:

”قال ابوعبيدة: معنی الکلام وإنا لعلی هدى وإنکم لفي ضلال مبين“[16]

  1. معانی القرآن

یہ اخفش اوسط﷫ (المتوفی:215ھ)کی لغت پر لکھی ہوئی کتاب ہے اورزادالمسیر میں ابن جوزیؒ﷫نے کئی مقامات پر اخفش کے حوالے دیئے ہیں۔جیسے آیت "وتودون أن غير ذات الشوكة"کی وضاحت میں لکھتے ہیں: [17]

”وقال الأخفش: إنما أُنِّثَ ذات الشوكة لأنه يعني الطائفة“[18]

  1. تفسیر غریب القرآن

یہ ابن قتیبہؒ (المتوفی:276ھ)کی غریب القرآن پر لکھی گئی کتاب ہے ابن جوزیؒ نے زادالمسیرمیں اکثر مقامات پر ابن قتیبہؒ کے حوالے دیئے ہیں۔ جیسے آیت"ويمدهم فی طغيٰنهم يعهون"کی وضاحت میں ابن قتیبہؒ کا قول نقل کرکے لکھتے ہیں:[19]

”إنه عتوهم وتکبرهم، قاله ابن قتيبة“[20]

  1. معانی القرآن واعرابہ

یہ زجاجؒ (المتوفی:311ھ)کی کتاب ہے ابن جوزیؒ نے اس کتاب سے زیادہ مواد نقل کرکے اپنی تفسیر کی زینت بنا رکھی ہیں۔ جیسے آیت ”ولتکن منکم امة“[21]کے تحت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: [22]

”قال الزجاج:معنی الکلام ولتکونوا کلکم أمة تدعون إلی الخير وتأمرون بالمعروف ولکن "من" هاهنا تدخل لتخص المخاطبين من سائر الاجناس“[23]

  1. مقاییس اللغۃ

فن لغت میں احمد بن فارس لغوی﷫ کی کتاب ہے ابن جوزیؒ ﷫نے الفاظ کی لغوی تحقیق میں ابن فارس﷫کے اقوال نقل کئے ہیں جیسے آیت”يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ“[24] میں ”حسرات “کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”قال ابن فارس: والحسرة: التلهف على الشيء الفائت“[25]

ابن جوزیؒ کے زادالمسیر کے یہ بنیادی ماخذ تھے ابن جوزیؒ﷫نے ان کتابوں سے بہت استفادہ کیا اور یہ ساری کتب اپنے اپنے فن میں واقعی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ زادالمسیر فی علم التفسیر بھی ایک ممتاز تفسیر ہے اورمابعد مفسرین کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ابن جوزیؒ کا منہج تفسیر

زادالمسیر فی علم التفسیر میں ابن جوزیؒ نے تفسیر کے دوران کسی بحث کو نہ زیادہ طول اور نہ زیادہ اختصارسےبیان کیاہےجس سے معانی مقصود میں دقت ہو اس کی وضاحت وہ خود اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقد حذرت من إعادة تفسير كلمة متقدمة إلا على وجه الإشارة، ولم أغادر من الأقوال التي أحطت بها إلا ما تبعد صحته مع الاختصار البالغ “[26]

زادالمسیر فی علم التفسیر میں ابن جوزیؒ﷫ نے جہاں اختصار اپنایا ہےلیکن تفسیر آیات کے دوران تما م اہم علوم کے ہر پہلو کو بیان کیاہے جیسے وہ خود اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”لما رأيت جمهور كتب المفسّرين لا يكاد الكتاب منها يفي بالمقصود كشفه حتى ينظر للآية الواحدة في كتب، فربّ تفسير أخلّ فيه بعلم النّاسخ والمنسوخ، أو ببعضه، فإن وجد فيه لم يوجد أسباب النزول، أو أكثرها، فإن وجد لم يوجد بيان المكيّ من المدنيّ، وإن وجد ذلك لم توجد الإشارة إلى حكم الآية، فإن وجد لم يوجد جواب إشكال يقع في الآية، إلى غير ذلك من الفنون المطلوبة.“[27]

کتب تفاسیر میں اکثردیکھا گیاہے کہ جب ایک علم کا ذکر ہے تو دوسرے علم کا ذکرنہیں جیسےکسی تفسیر میں ناسخ ومنسوخ کو بیان کیاگیاہے،کسی تفسیر میں اسباب نزول کا اہتمام ہے کسی میں مکی ومدنی[28] کا بیان توہے لیکن آیت کے حکم کا بیان نہیں مگر ابن جوزیؒ﷫نے زادالمسیر میں مذکورہ وغیر مذکورہ تمام علوم کو جمع کیا جو ایک تفسیر قرآن کے لئے بہت ضروری اور اہم ہیں۔

زادالمسیر فی علم کی ابتدا میں ایک مقدمہ ہے ابن جوزیؒ ﷫ نے اس میں مختصرًاچند معلومات دی ہے جیسے علم تفسیر کی فضیلت واہمیت ،تفسیر وتاویل ،مدت نزول، سب سے اول اورسب سے آخر میں نازل ہونے والی آیات ،جو تقریبا دو صفحات پر مشتمل ہے۔ابن جوزیؒ﷫نے جو عموما انداز اپنایا ہے اس ضمن میں سورۃ فاتحہ کی مثال پیش کرتے ہیں :

  1. سب سے پہلے سورہ فاتحہ کی ساری آیات لکھی گئی ہیں اس کے بعد فاتحہ کی فضیلت میں وارد حدیثوں کو نقل کیاگیاہے۔
  2. پھر روایت کے بعد سورہ کے اسماء اور ان کی وجہ تسمیہ مدلل بیان کی ہے۔
  3. سورۃ کے مکی ومدنی ہونے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں۔
  4. مکی ومدنی ہونے سے متعلق معلومات کے لئے ایک فصل قائم کیا گیاہے اورفاتحہ کی تفسیر میں الحمد سے ابتدا کیاہے۔ پھر ہر آیت کی وضاحت کی ہے۔
  5. کہیں کہیں الفاظ کے لغوی معنی کی وضاحت میں اشعار سے استشہاد بھی کیاگیاہے۔
  6. زادالمسیر فی علم التفسیر میں ابن جوزیؒ﷫نے آیات کی وضاحت میں قراءات کا خصوصی اہتما م کیا ہے۔
  7. بقدر ضرورت آیات کی تشریح میں احادیث وآثار بھی لائے ہیں۔
  8. آپ نے فقہی مسائل کو بقدر ضرورت بیان کی ہے۔

قرآن پاک کی بقیہ سورتوں کی تفسیر کے لئے بھی اکثر اورتقریبا اس انداز کو اختیار کیاگیاہے تاہم ہرجگہ ترتیب یکساں نہیں ہے ۔اس کے علاوہ تفسیر قرآن میں ابن جوزیؒ﷫نے اسباب نزول ،ناسخ ومنسوخ اور آیات میں جن قصص کی طرف اشارہ پایا جاتاہے ان کو بہت تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔

مفسرین کے ہاں تفسیرکا قابل اعتماد طریقہ تفسیر بالماثور ہے، یعنی قرآن کی تفسیر قرآن ،سنت رسول ﷺ،اقوال صحابہ کرام﷡اوراقوال تابعین کی روشنی میں کیاجائے۔

تفسیر القرآن بالقرآن

سب سے بہترین تفسیر قرآنی آیت کی تفسیر قرآنی آیت سے کی جائے۔ابن جوزیؒ﷫ نے اس منہج کو بہت سے مقامات پر اپنایاہےجیسےآیت: ”فتلقی ادم من ربه کلمٰت“[29]کی تفسیر میں ابن جوزیؒ﷫ نے لکھا ہے:

”وفي الكلمات أقوال:أحدها: أنها قوله تعالى: رَبَّنا ظَلَمْنا أَنْفُسَنا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنا وَتَرْحَمْنا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخاسِرِينَ “[30]

تفسیر القران بالسنۃ

قرآن پاک کی تفسیر کا دوسرا ماخذ سنت ہے ابن جوزیؒ﷫نے زادالمسیر میں جہاں کسی آیت کے بارے میں رسول اللہﷺسے روایت منقول ہے اسی جگہ پر حدیث کو نقل کیاہے جیسے سورۃ الفاتحہ کی آیت:” غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ“ [31]کی وضاحت میں ابن جوزیؒ﷫ لکھتے ہیں:

” فأما «المغضوب عليهم» فهم اليهود و «الضالون» : النصارى. رواه عدي بن حاتم عن النبيّ صلّى الله عليه وسلّم “[32]

ابن جوزیؒ﷫نے کئی مقامات پر روایات کو نقل کرنے میں ان کی صحت اور عدم صحت کی نشاندہی بھی کی۔اوربعض مقامات پر احادیث کی تخریج کا اہتمام بھی کیاہے۔ جیسے تخلیق آدم﷣کی وضاحت میں روایات نقل کرکے لکھتے ہیں:

”خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الأرض، فجاء بنو آدم على قدر الأرض، منهم الأحمر والأبيض والأسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، وبين ذلك، والخبيث والطيب» ، قال الترمذي: هذا حديث صحيح“[33]”وقد أخرج البخاري[34] ومسلم[35] في «الصحيحين» من حديث أبي هريرة عن النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، أنه قال:«خلق الله تعالى آدم طوله ستون ذراعاً» “[36]

تفسیر القرآن باقوال الصحابہ﷡

اگر قرآن پاک کی تفسیر جب قرآن اورسنت سے نہ ہوسکے تو اقوال صحابہ کرام﷡پر اعتماد کیاجاتاہے۔ ابن جوزیؒ﷫نے زادالمسیر فی علم التفسیر میں اکثر مقامات پر مختلف صحابہ کرام﷡خاص کر عبداللہ بن عباس﷛ کے اقوال نقل کرتے ہیں۔جیسے”قل من کان عدوا لجبريل“[37]کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس﷛کا قول نقل کرکے لکھتے ہیں:

”قال ابن عباس:أقبلت اليهود إلى النبي صلّى الله عليه وسلّم “[38]

زادالمسیر فی علم التفسیر کے بہت سے کم مقامات پر اسرائیلیات کو بیان کیاگیاہے جہاں اسرائیلیات بیان ہوچکے ہیں وہاں ابن جوزیؒ﷫ نے اس کی عدم صحت کو بھی بیان کیاہے۔ جیسے”لَوْلا أَنْ رَأى بُرْهانَ رَبِّهِ“[39] میں برہان کے تحت چھ اقوال بیان کرتے ہوئے پانچ اقوال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کا کوئی اصل نہیں۔ابن جوزیؒ﷫ لکھتےہیں:

”أنّ الله تعالى بعث إِليه ملكاً، فكتب في وجه المرأة بالدّم: وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَساءَ سَبِيلًا [40]، قاله الضحاك عن ابن عباس “[41]

ابن جوزیؒ﷫نے ان روایات کے فاسد ہونے کی طرف اشارہ کیاہے کہ یہ سب امور قبیح ہے اور اللہ کے ایک محترم نبی﷣کےبارے میں یہ گمان نہیں کیاجاسکتااس لیے اس قول کا کوئی حقیقت اوراصل نہیں اور آخر میں صحیح قول کی نشاندہی بھی کی ہے جیسے لکھتے ہیں:

”أن البرهان أنه علِم ما أحل الله مما حرّم الله، فرأى تحريم الزنا، روي عن محمد بن كعب القرظي. قال ابن قتيبة: رأى حجة الله عليه، وهي البرهان، وهذا هو القول الصحيح “[42]

تفسیر القرآن باقوال التابعین

جب قرآن کی تفسیر قرآن،سنت اوراقوال صحابہ کرام﷡سے نہ ہوسکے تو اقوال تابعین ﷭کی طرف رجوع کیاجائےگا۔آیات کی تفسیر میں ابن جوزیؒ﷫ نے کثرت کے ساتھ تابعین ﷭کے اقوال نقل کئے ہیں۔

جیسے”أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ“[43]کے تحت لکھتے ہیں:

”أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ. قال سعيد بن جبير: الصلوات من الله: المغفرة، وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ بالاسترجاع “[44]

تفسیربالرائے

زادالمسیر فی علم التفسیر میں تین مباحث کے تحت تفسیر بالرائے کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔لغوی مباحث،بلاغی مباحث،فقہی مباحث۔

لغوی مباحث

ابن جوزیؒ﷫ نے زادالمسیر فی علم التفسیر میں لغوی مباحث کا خصوصی اہتمام کیاہے۔ اور سلف کے اقوال پر زیادہ اعتماد کیاہےجیسےفراء﷫ ،ابوعبیدہ﷫،ابن قتیبہ﷫اورزجاج﷫وغیرہ ان حضرات کو فن نحو میں امامت کا درجہ حاصل ہیں۔ زادالمسیر فی علم التفسیرمیں ابن جوزیؒ﷫ نے لغوی مباحث کے ساتھ ساتھ صرف واشتقاقات اورنحو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے اورکسی لفظ کی وضاحت میں بعض جگہ اشعار کو استشہاد کے طور پر پیش کئے ہیں۔جیسے”قُلْ مَنْ كانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ“[45]میں لفظ ”جبرائيل “کی وضاحت میں گیارہ لغات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وفي جبريل إحدى عشرة لغة: إحداها: جبريل، بكسر الجيم والراء من غير همز، وهي لغة أهل الحجاز، وبها قرأ ابن عامر، وأبو عمرو. قال ورقة بن نوفل:وجبريل يأتيه وميكال معْهما ... من الله وحي يشرح الصدر منزل“[46]

بلاغی مباحث

زادالمسیر فی علم التفسیر میں ابن جوزیؒ﷫ نے دوران تفسیر مختلف مقامات پر بلاغی نکات کو بھی بیان کئے ہیں۔ بلاغت کی چند مثالیں زیر نظر ہیں:

  1. تقدیم وتاخیر

تقدیم وتاخیر بلاغت کی ایک قسم ہے ابن جوزیؒ﷫زادالمسیر میں آیت:”وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ“[47]کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:

” وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ فيه تقديم وتأخير، تقديره: ولقد أُوحِيَ إِليكَ لئن أشركتَ لَيَحْبَطَنَّ عملُكَ، وكذلك أُوحيَ إِلى الذين مِنْ قَبْلِكَ “[48]

  1. حذف

کسی قرینہ کی بناء پر ما فی الضمیر پر دلالت کرنے والے الفاظ کے چھوڑنے کو حذف کہتے ہیں[49]۔ حذف کے بہت سے اقسام ہیں ابن جوزیؒ﷫نے زادالمسیر میں حذف مضاف کے مثال”واشربوا فی قلوب هم العجل“[50]کے تحت ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ، أي: سقوا حب العجل، فحذف المضاف، وهو الحب، وأقام المضاف إليه مقامه “[51]

  1. کنایہ

جس لفظ سے اس کے معنی کا لازم مراد لیاجائے اس کو کنایہ کہتے ہیں[52]۔ابن جوزیؒ﷫ نے ”نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ “[53]میں حرث کے بارے میں لکھتے ہیں:

”والحرث: المزدرع، وكنى به هاهنا عن الجماع، فسماهن حرثاً، لأنهن مزدرع الأولاد، كالأرض للزرع “[54]

  1. تعریض

بغیر کسی صراحت کے اس کلام سے سننے والا مراد جان لینے والے لفظ کو تعریض کہتے ہیں[55]۔ابن جوزیؒ﷫نے ”قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ “[56]کے تفسیر میں ابن قتیبہ ﷫کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقال ابن قتيبة: هذا من المعاريض، ومعناه: إِن كانوا ينطقون، فقد فعله كبيرهم “[57]

ابن جوزیؒ﷫نے زادالمسیر میں بلاغت کی بہت سے دوسرے اقسام کو بھی بیان کیاہے لیکن میں نے اس پہلو سے جائزہ لینے کے لیےصرف چارانواع کے انتخاب پر اکتفا کیا۔

فقہی مباحث

ابن جوزیؒ﷫نے آیات کی تفسیر کے موقع پر بقدر ضرورت فقہی مسائل کی وضاحت کی ہے اورمسائل بیان کرنے میں ائمہ اربعہ کی آراء بیان کیں ہیں اما م احمد بن حنبل﷫ کی رائے کوخاص عقیدت کی وجہ سے پہلے بیان کیا ہےکیونکہ آپ خود مسلک حنبلی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے شدت سے کام نہیں لیاہے۔

آیت:”فَمَنْ كانَ مِنْكُمْ مَرِيضاً أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ“[58]کی تفسیر میں مختلف آئمہ کے آرابیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وليس المرض والسفر على الإطلاق، فان المريض إذا لم يضر به الصوم لم يجز له الإفطار، وإنما الرخصة موقوفة على زيادة المرض بالصوم. واتفق العلماء أن السفر مقدر، واختلفوا في تقديره، فقال أحمد، ومالك، والشافعي: أقله مسيرة ستة عشر فرسخاً: يومان، وقال أبو حنيفة وأصحابه: أقله مسيرة ثلاثة أيام، مسيرة أربعة وعشرين فرسخاً. وقال الأوزاعي: أقله مرحلة يوم، مسيرة ثمانية فراسخ “[59]

یہاں ہر قسم کا سفراور مرض مراد نہیں ہے بلکہ اتنا مرض ہو روزہ رکھنے تکلیف پہنچے اگر روزہ مرض میں زیادتی کا باعث ہو تو رخصت ہے۔ سفر کی مقدار میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے امام احمد﷫ ،امام مالک﷫ اور امام شافعی﷫کے نزد کم از کم مسافت16فرسخ ہے۔یعنی دودن اورامام ابوحنیفہ﷫ اوران کے اصحاب کے نزد کم ازکم مسافت تین دن ہے۔ جو24 فرسخ کی مسافت بنتی ہے۔ اور امام اوزاعی﷫ کے نزد ایک دن یعنی 8 فرسخ کی مسافت ہے۔ ابن جوزیؒ﷫ زادالمسیر میں ائمہ کا موقف بیان کرتے ہے اور ان کے اختلافی اقوال ذکر نہیں کرتے یہ اسلوب تقریباًساری تفسیر میں ہے۔

زادلمسیر فی علم التفسیر کی خصوصیات اور امتیازات

زاد المسیر میں بہت سے ایسی خصوصیات پائی جاتی ہے جن کی وجہ سے کتب تفاسیر میں اسے نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہے یہاں تین نمایاں خصوصیات کا جائزہ لیا جائے گا۔

  1. تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کا ایک خوبصورت امتزاج اور طریقہ کار
  2. علوم القرآن کے مباحث کا ایک بہترین استعمال
  3. ایک جامع تفسیر اور اختصار کے ساتھ
  4. تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کا خوبصورت امتزاج

قرآن پاک کی تفسیر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے اگرایسا نہ ہو تو سنت رسول ﷺسے ہوسکے اگر ایسا نہ ہو تو اقوال صحابہ کرام ﷡سے ہوسکے اگر ایسا نہ ہوتو اقوال تابعین ﷭سےہوسکے اور منقولات پراعتماد رکھ کر غور وفکر اور تدبر کرکے معانی اخذواستنباط کئے جائیں ۔ زادالمسیر فی علم تفسیر کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ اسی منہج اور طریقے پر لکھی گئی ایک بہترین تفسیر ہے روایات کو نقل کرنے میں مجموعی طور پرمحتاط رویہ اختیار کیاگیاہے۔ تفسیر زادالمسیر میں روایات اور سلف کے اقوال پر بہت زیادہ اعتماد کیاگیا ہے اس وجہ سے زادالمسیر کو تفسیر بالماثور میں شمار کیاجاتاہے۔

  1. علوم القرآن کے مباحث کا بہترین استعمال

زادالمسیر کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں علوم القرآن کےصرف ایک بحث نہیں بلکہ علوم القرآن کے اہم مباحث کا احاطہ کیا گیاہے ۔جیسے علم تفسیر کی فضیلت،تفسیر وتاویل میں فرق،نزول قرآن ،مکی ومدنی سورتوں میں فرق ،اسباب نزول ،ناسخ ومنسوخ وغیرہ۔

تفسیر قرآن کے دوران مختلف مقامات پر الفاظ قرآن میں قراءات متواترہ[60]دونوں کے بیان کرنے میں اہتمام کیا ہے۔ جیسے آیت:”مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ“کی تفسیر میں قرءاء ت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”قرأ عاصم والكسائيّ، وخلق ويعقوب: «مالك» بألف. وقرأ ابن السميفع، وابن أبي عبلة كذلك، إِلا أنهما نصبا الكاف. وقرأ أبو هريرة، وعاصم الجحدري: «ملْكِ» باسكان اللام من غير الألف مع كسر الكاف، وقرأ أبو عثمان النهدي، والشعبي «مَلِكَ» بكسر اللام ونصب الكاف من غير ألف. وقرأ سعد بن أبي وقاص، وعائشة، ومورَّق العجلي:«مَلِكُ» مثل ذلك إلا أنهم رفعوا الكاف. وقرأ أبيّ بن كعب، وأبو رجاء العطاردي «مليك» بياء بعد اللام مكسورة الكاف من غير ألف. وقرأ عمرو بن العاص كذلك، إلا أنه ضمَّ الكاف. وقرأَ أبو حنيفة، وأبو حياة «مَلكَ» على الفعل الماضي“[61]

  1. اختصاراور جامعیت

زادالمسیر میں اختصار کے ساتھ ساتھ جامعیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس تفسیر میں آپ نے احادیث ،صحابہ اور تابعین کے اقوال پر زیادہ اعتماد کیاہے لیکن آپ نے پوری اسناد کو ذکر نہیں کیا اور اختصار کو ملحوظ رکھا اور اپنے زمانے کے ماہر علماء کے اقوال نقل کیے۔لغوی ،بلاغی مباحث کا خصوصاًاہتمام کیا۔ اور بقدر ضرورت فقہی مسائل کو بھی بیان کیا ۔

ابن جوزیؒ﷫ نے جب ایک بار کسی آیت کی تفسیر کی اور دوسری بار کہیں موقع آیا وہاں سابقہ سورۃ یا آیات کی طرف اشارہ کیا اور بعض مقامات پر نشاندہی بھی کی۔

نتائج البحث

  1. زاد المسیر میں علوم القرآن اور لغوی مباحث جیسے سورتوں اور آیات کا علم،مکی مدنی سورتوں کا علم،قرءاءات متواترہ اور شاذہ،اسباب نزول،اور ناسخ ومنسوخ وغیرہ کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔
  2. فقہی مسائل کو بھی بقدر ضرورت بیان کیاگیاجن میں آپ نے امام احمد بن حنبل﷫کی رائے کو ترجیح دی ہے کیونکہ آپ ﷫حنبلی مسلک تھے۔
  3. مکمل تفسیر میں ابن جوزیؒ﷫نے سلف کے اقوال اور روایات پر بہت اعتماد کیاہے۔
  4. بنیادی مصادراورمراجع میں کتب تفاسیر میں سے الکشف والبیان عن تفسیر القرآن ،جامع البیان عن تاویل ای القرآن، النکت والعیون۔
  5. کتب احادیث میں سے صحیح بخاری،صحیح مسلم،سنن ترمذی اور مسند احمد شامل ہے ۔
  6. کتب لغات میں غریب القرآن ،معانی القرآن، فراء ﷫کی معانی القرآن،ابوعبیدہ ﷫کی مجاز القرآن،اخفش﷫ کی معانی القرآن ،ابن قتیبہ ﷫کی تفسیر غریب القرآن اور تاویل مشکل القرآن،زجاج﷫ کی معانی القرآن اعرابہ ،ابن فارس﷫ کی مقائیس اللغہ، اورجوالیقی﷫ کی المعرب وغیرہ شامل ہیں۔
  7. زادالمسیر فی علم التفسیر میں بعض ایسی خصوصیات پائی جاتی ہے جن کی وجہ سے اس کو کتب تفسیر میں ایک خاص مقام حاصل ہیں۔ پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تفسیر بالماثوراورتفسیر بالرائے کا ایک حسین امتزاج موجود ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علوم القرآن کے اہم مباحث مکمل طورپر بیان ہوچکے ہیں ۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس تفسیر میں جامعیت اور اختصار پائی جاتی ہے۔

حوالہ جات

  1. حواشی و مصادر الذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، مؤسۃ الرسالہ، ط3، 1405ھ، ج21، ص365-378۔
  2. البقرۃ 2: 197
  3. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، دار الکتاب العربی، بیروت، 2002ء، ط1، ج:1،ص:164
  4. دیکھئے ابن جریر الطبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، دار ھجر، بیروت، 2001ء، ط۱، ج:3، ص:451۔
  5. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:3،ص:208
  6. الانعام4: 129
  7. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:2،ص:78
  8. الماوردي ، علي بن محمد بن محمد،(المتوفى: 450ھ)، النكت والعيون، بيروت / لبنان،دار الكتب العلميۃ ، ج:2،ص:169
  9. تفصیل کے لئے دیکھےزادالمسیر فی علم التفسیر،ج:1،ص136، ج:1،ص:144وغیرہ
  10. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:23
  11. البخاري، محمد بن إسماعيل ،صحيح البخاري، بیروت، دار طوق النجاۃ ، 1422ھ، حدیث:756
  12. النيسابوري ،مسلم بن الحجاج (المتوفى: 261ھ)،الصحیح المسلم، بيروت، دار إحياء التراث العربي ، حدیث:394
  13. النساء 4: 21
  14. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:387
  15. سباء34: 24
  16. الجوزي ،أبو الفرج، عبد الرحمن بن علي بن محمد (المتوفى: 597ھ)،زاد المسير في علم التفسير، ج:3،ص:499
  17. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:2،ص:190
  18. الاخفش، معانی القرآن، مکتبۃ الخانجی، قاہرہ، 1990ء، ج:1، ص:346
  19. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:35
  20. ابن قتیبہ، غریب القرآن، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1978ء، ص:41
  21. آل عمران 3: 104
  22. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:312
  23. الزجاج، معانی القرآن واعرابہ، عالم الکتب، بیروت، 1988ء، ط1، ج:1، ص:452
  24. البقرۃ 2: 167
  25. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:131
  26. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:14
  27. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:14
  28. (لوگوں میں اس کے تین اصطلاح موجودہے۔1:جومکہ میں نازل ہو ۔اسکو مکی کہتے ہے۔اورجومدینہ میں نازل ہو اسکو مدنی کہتےہے۔2:جو ہجرت سے پہلے نازل ہو اسکو مکی ۔اورجوہجرت کے بعد ہواسکو مدنی کہتے ہے یہ زیادہ مشہورہے۔3:جس آیت میں مکہ والوں کےلئے خطاب ہو اس کومکی اورجس میں مدینہ والوں کے لئے خطاب ہو اس کومدنی کہتے ہیں۔اس میں مکی دور ۱۲ سال ۵ ماہ اور۱۳ دن ہے۔ مدنی دور ۹ سال ۹ ماہ اور ۹ دن ہے ۔)زرکشی، محمد بن عبد الله،البرھان فی علوم القرآن، بيروت، دار المعرفۃ، 1376 ھ، ج:1،ص:187
  29. البقرہ2: 37
  30. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:57
  31. الفاتحہ 1: 7
  32. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:  22
  33. الترمذي، محمد بن عيسى بن (المتوفى: 279ھ)،سنن الترمذي، مصر، مكتبۃ مصطفى البابي الحلبی، 1975م،حدیث:2955
  34. البخاري، محمد بن إسماعيل ،صحيح البخاري، حدیث:3326
  35. النيسابوري ،مسلم بن الحجاج (المتوفى: 261ھ)،حدیث:2834
  36. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:  51
  37. البقرہ2: 97
  38. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص: 90
  39. یوسف12: 24
  40. سورۃ الإسراء17: 32
  41. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:2،ص:431 
  42. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:2،ص:431 
  43. البقرۃ2: 157
  44. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص: 125
  45. البقرہ2: 97
  46. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:  90
  47. سورۃ الزمر39: 67
  48. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:4،ص:  25
  49. الهاشمي، أحمد بن إبراهيم (المتوفى: 1362ھ)،جواهر البلاغۃ في المعاني والبيان والبديع، بيروت،المكتبۃ العصريۃ، ص:139
  50. البقرہ2: 93
  51. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص: 88
  52. السيوطي ،جلال الدين (المتوفى: 911ھ)، الإتقان في علوم القرآن،ص:330
  53. البقرۃ2: 223
  54. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:  192
  55. الجرجاني ،علي بن محمد بن علي(المتوفى: 816ھ)،كتاب التعريفات، بيروت،لبنان، دار الكتب العلميۃ 1983م،ص:55
  56. الانبیاء21: 63
  57. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:3،ص:  196
  58. البقرہ2: 184
  59. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص:  141
  60. (جس کی سند صحیح ،لغت عرب کے مطابق اور مصحف عثمانی کے موافق ہو)اور شاذ (اگرمتواترہ کے تین شرائط میں سے ایک شرط بھی نہ ہو تو شاذ کہلاتاہے )کافیجی،محمد بن سلیمان ،التیسیر فی قواعد علم التفسیر،ص: 184
  61. ابن الجوزی،زاد المسير في علم التفسير، ج:1،ص: 19
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...