Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

علامہ ابن کثیر کی شخصیت اور السیرۃ النبویہ میں ان کا منہج و اسلوب |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060030498_979

Pages

107-120

DOI

10.36476/JIRS.3:1.06.2018.08

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/329/153

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/329

Subjects

Sīrah Fiqh Islamic Jurisprudence Ibn-E-Kathir sīrah fiqh Islamic jurisprudence Ibn-e-Kathir

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

سیرت نگاری کا موضوع ایک ایسا موضوع ہے جس کی ابتداءپہلی صدی ہجری میں ہوئی اور پھر اس وقت سے لے کر آج تک عِلم سیرت پر مختلف عناوین واسالیب کے ساتھ ہزاروں کتب تصنیف ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں ۔علم تاریخ میں حضرت محمد ﷺ کی شخصیت کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت ایسی دکھائی نہیں دیتی جس کی ولاد ت سے وفات تک کے تمام احوال کو ایک تحقیقی اور تصنیفی انداز سے اس طرح پیش یا محفوظ کیا گیا ہو جس طرح سیرت نگاروں نے ہزاروں کتب مختلف زبانوں میں مختلف اسالیب کے ساتھ تصنیف کر کے آپ کی مدح سرائی کرنے کی کوشش کی تاریخ میں کوئی دوسری شخصیت ایسی نہیں جس کی خدمت میں اس طرح کی نوعیت کا خراج عقیدت پیش کیا گیا ہو ۔

انہی سیرت نگاروں میں سے علامہ ابن کثیر(۷۷۴ھ) کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جن کا شمارفن سیرت نگاری کے بالکل درمیانی دور میں ہوتا ہے علامہ ابن کثیر نے اس فن میں "السیرۃ النبویہ"کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل ایک مفصل کتاب مرتب کی چونکہ آپ کے دور میں سیرت کے بڑے بڑے مجموعے مرتب ہو چکے تھے اسی لیے آپ نے اپنی کتاب میں سیرت کے متعلق تمام چیزیں جمع کیں اور ان روایات کو لانے کا اہتمام کیا جن کو معتبر اور قابل قبول سمجھا جاتا ہو اور چونکہ آپ خود ایک بہت بڑے مفسر،محدث اور فقیہ تھے اس لیے آپ نے ان تمام نکات کو بھی اپنی تصنیف میں زیر بحث لایا جو عام سیرت نگاروں سے اوجھل رہ گئے تھے اور اپنی کتاب میں فقہیات سیرت پر بھی کا فی عمدہ بحث کی۔

علامہ ابن کثیرؒ کا سیر ت طیبہ کے موضوع پر یہ انداز تحریر اس میدان میں ہر کام کرنے والے کے لیے ممکنہ حد تک کافی ووافی ہے اور سیرت النبی ﷺ کو علی وجہ البصیرت سمجھنے اور اس کے اہم واقعات کو یاد کرنے میں ممد ومعاون ہے۔

علامہ ابن کثیرؒ کا تعارف

علامہ ابن کثیر کی کنیت ابوالفداء ،لقب عمادالدین،نسبی نسبت قرشی، مذہبی نسبت شافعی ہے ۔پورا نام اس طرح ہے ابوالفداء عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن کثیر بن زرع قرشی شافعی ۔آپ اصل کے اعتبارسے بصرہ کے رہنے والے تھے لیکن ان کی نشوونما اور پرورش دمشق میں ہوئی ۔علامہ ابن کثیرؒ دمشق کی مشرقی جانب بصرہ نامی شہر کی ایک مرکزی بستی میں سن۷۰۰ یا ۷۰۱ ہجری میں پیدا ہوئے[1] ۔اور جب علامہ ابن کثیرؒ نے وفات پائی تو اس وقت نابینا تھے۔آپ نے ۲۴شعبان بروز جمعرات سن ۷۷۴ہجری میں وفات پائی جبکہ آپ کی عمر ۷۴ برس ہوچکی تھی [2]۔

پرورش ونشونما

علامہ ابن کثیرؒ کے والد اپنے علاقہ کے ایک مایہ ناز خطیب تھے ۔ آپ کی پیدائش کے چار سال بعد انہوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔ ان کی پرورش اور تربیت ان کے بھائی شیخ عبدالوہاب نے فرمائی اور آپ نے اپنے اسی بھا ئی شیخ عبدالوہاب سے ابتداء میں بہت سارے علوم کی تعلیم حاصل کی پھر ۷۰۶ھ میں دمشق تشریف لے گئے جب کہ آپ کی عمر پانچ سال تھی[3] ۔

علامہ ابن کثیرؒ کے اساتذہ

علامہ ابن کثیرؒ کی زیادہ تر توجہ فقہ ،حدیث اور علوم سنت کی طرف تھی کیونکہ علامہ ابن کثیرؒ کے دور میں انہی علوم پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی ،اور اس میدان میں آپ کے اساتذہ بہت زیادہ ہیں ، علامہ ابن کثیرؒ نے فقہ کی تعلیم شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن الخزاری (م: ۷۲۹ھ) المعروف ابن فرکاح سے حاصل کی اور دمشق میں آپ نے عیسی بن مطعم ،احمد بن ابی طالب المعمر (م:۷۳۰ھ) المعروف ابن شحنہ،قاسم ابن عساکرؒ ،ابن شیرازی ، اسحق بن آمدی ،محمد بن زراد اور شیخ جمال یوسف بن المزکی المزی(م:۷۴۲ھ) "مصنف تہذیب الکمال" سے حدیث کا سماع کیا۔ علامہ مزیؒ سے آپ نے بہت سارے علوم حاصل کیے، احادیث کی تخریج بھی کی اور آپ کی شادی بھی ان کی صاحبزادی سے ہوئی[4] ۔

اسی طرح علامہ ابن کثیرؒ نے شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہؒ (م:۷۲۸ھ)سے بھی بہت سارے علوم حاصل کیےاوراور ایک طویل زمانہ تک ان کی صحبت بھی اختیار کی ہے ۔علامہ ابن تیمیہؒ آپ کے محبوب ترین اساتذہ میں سے شمار کیے جاتے ہیں اور آپ ان کےتفردات سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ابن العمادؒ اسی پس منظر میں فرماتے ہیں:

"علامہ ابن کثیرؒ کو ابن تیمیہ کے ساتھ خاص مناسبت حاصل تھی اور وہ ان کا بہت زیادہ دفاع بھی کرتے تھے اور تفردات میں علامہ ابن تیمیہ کی ہی پیروی کرتے تھے جیسا کہ مسئلہ طلاق میں علامہ ابن کثیرؒ ابن تیمیہ کی رائے پر فتوی دیتے ہیں، اسی وجہ سے ان کو بہت ساری آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔"[5]

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

"علامہ ابن کثیرؒ نے ابن تیمیہ سے علوم حاصل کیے اور ان کے ساتھ خاص تعلق اور مناسبت کی وجہ سے بہت زیادہ آزمائشوں اور امتحانات میں مبتلا ہو ئے۔"[6]

اسی طرح مشہور تاریخ دان حافظ شمس الدین ذہبی محمد بن احمد بن قائماز (م:۷۴۸ھ) آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں اور مصر میں آپ نے ابو موسی القرافی ،الحسینی ،ابوالفتح الدبوسی ،علی بن عمر الوانی اور یوسی الختنی وغیرہ سے اجازت حدیث حاصل کی۔ اس کے علاوہ اور بہت سارے شیوخ سے بھی اجازت حدیث حاصل کی[7] ۔

علامہ ابن کثیرؒ کا زمانہ

علامہ ابن کثیرؒ کا زمانہ ۸ھ کی ابتداء سے تقریباً اختتام تک کا ہے ۔اس دوران مختلف بادشاہوں کی حکومتیں رہی ہیں جو مصر اور شام تک پھیلی ہوئی تھیں۔ علامہ ابن کثیرؒ کے زمانہ میں عالم اسلام نے بہت اندوہ ناک مصائب وآلام کا سامنا کیا۔ اسی زمانہ میں فتنہ تاتار رونما ہوا جس کی وجہ سے بہت زیادہ وبائیں اور کثیر تعداد میں قحط سالی کے واقعات پیش آئے اور بد قسمتی سے اسی زمانہ میں حکومتیں دن بدن تبدیل ہوتی رہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمان بادشاہ ایک دوسرے پر ہی حملہ اور غارت گری اور حکومتیں گرانے کے منصوبے بناتے رہتے تھے[8]۔

کتب تراجم وتاریخ [9]اس بات پر شاہد ہیں کہ علامہ ابن کثیرؒ کی زندگی کے سالوں میں سے تقریباًکو ئی سال بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں کو ئی الم ناک واقعہ عالم اسلام میں رونما نہ ہوا ہو ،مثلاً قحط سالی اور وبائیں پھیلنے کے واقعات اور افرنگیوں اور تاتار کے حملے اور جنگیں اور مسلمانوں کی آپس کی جھڑپیں ۔اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ کی زندگی کوئی مستقل سیاسی ضابطہ حیات کے تحت نہیں گزری لیکن وہ زمانہ جو علامہ ابن کثیرؒ نے مختلف بادشاہوں کی حکومتوں کے ماتحت بسر کیا ہےاس دورا ن علمی دنیا میں سردار مانے جاتے تھے ۔علامہ ابن کثیرؒ نے مدارس کی تعداد، تعلیمی میدان اور تصنیف وتالیف کے شعبہ کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کے اسباب تاریخ میں بہت زیادہ تعداد میں ذکر کیے جاتے ہیں جن میں سے چند اہم اسباب یہ ہیں :

1۔مسلمان بادشاہ علمائے دین سے بے پناہ رغبت رکھتے تھے ۔

2۔ بہت زیادہ تعداد میں جائیدادیں علمائے دین کے لیے وقف کررکھی تھیں ۔

3۔ تعلیم گاہیں خود سرکار اپنی زیر نگرانی تعمیر کراتی تھی۔

4۔اسلامی ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی روابط اور تعلقات تھے۔

لیکن یہ علمی ترقی ایک محدود دائرے تک تھی کہ جس میں بادشاہ وقت کی بات کی پیروی و تقلید اور اس کے احکامات کو مانناایک لازمی امر تھا لیکن اس کے باوجود اس دور میں حکومت وقت کے علمائے دین کی طرف متوجہ تھی اور علمی دنیا میں علوم شرعیہ کے تحت شمار کیے جانے والے علوم کی بہت زیادہ نشرواشاعت اور وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا ذریعہ بنی ۔علامہ ابن کثیرؒ کی زندگی میں یہ چیز واضح طور پر نظر آتی ہے کیونکہ علامہ ابن کثیرؒ کی توجہ کا مرکز عمومی طور پر علوم سنت ،علوم فقہ اور علوم شرعیہ تھے، آپ کی تصنیفات وتالیفات پر اس دور کے شعبہ تصنیف وتالیف کی مہریں بھی ثبت ہیں ۔ علامہ ابن کثیرؒ اکثر متقدمین کی کتابوں کو مختصر انداز میں پیش کرتے ہیں یا ان کی بعض کتابوں کو بہترین ترتیب میں پیش کرتےہیں یا ان کی تشریحات یاان پر حواشی درج کرتے ہیں۔

ابن کثیرؒ کو ابن تیمیہؒ کے ساتھ خاص تعلق اور مناسبت کی بناء پر ایک خاص عہدہ حاصل تھا جس کی وجہ سے وہ ایک امتیازی درجہ پر فائز تھے ، ابن کثیرؒ اپنے استادابن تیمیہ کی طرح بدعات وخرافات سے بے حد متنفر تھے ،سنت نبویہ ﷺ اور اپنی تحقیق پر پور اپور ااعتماد اور اعتبار کرتے تھے جو قدرتی استعداد اور ملکہ کی بناء پر حاصل کرتےتھے(یعنی اسانید اور اخبار کی پوری پوری تحقیق اور چھان بین)۔ ابن کثیرؒ تفسیر میں بھی ایک مایہ ناز حیثیت کے حامل تھے، مسند تدریس پر فائز رہے، اسرائیلیات اور کمزور روایات سے بے حد متنفر تھےجیسا کہ آپ فلسفہ اور کتاب اللہ کی تفسیر میں بلا سوچے سمجھے رائے زنی کرنے کو بہت قبیح سمجھتے تھے ۔ ابن کثیرؒ قرآن پاک کی تفسیرمیں تفسیر القرآن بالقرآن کو ترجیح دیتے تھےدوسرے نمبر پر تفسیر القرآن بالسنہ کو ترجیح دیتے تھے اور تیسرے نمبر پر تفسیر القرآن بالآثار وباقوال الصحابہ کو ترجیح دیتے تھے [10]۔

ابن کثیرؒ کا مقام ومرتبہ اور علماء کے تعریفی اقوال

ابن کثیرؒ کو فقہ، تفسیر، حدیث اور فتوی میں بہت بڑا مقام ومرتبہ حاصل تھا۔

علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں:

"العلامه الْمُفْتى الْمُحدث البارع، فَقِيه متفنن، ومفسر نقال، وَله تصانيف مفيدة"[11]

"ابن کثیرؒ ایک علامہ اور مفتی اور کامل محدث اور اچھے اسلوب سے مسائل فقہیہ کو بیان کرنے والے ایک مایہ ناز فقہیہ ہیں اور متقدمین علماء تفسیر کی آراء کو احسن انداز میں نقل کرتے ہیں ۔ابن کثیرؒ کی بے حد مفید تصانیف ہیں"

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :

"اشْتغل بِالْحَدِيثِ مطالعة فِي متونه وَرِجَاله، وَكَانَ كثير الاستحضار حسن المفاكهة، سَارَتْ تصانيفه فِي حَيَاته،وانتفع النَّاس بهَا بعد وَفَاته"[12]

"ابن کثیرؒ نے متون حدیث اور رجال حدیث کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا اور ان کی تحقیق اور بحث وتمحیص میں ایک طویل عرصہ بسر کیا ہے ، آپ مستحضر دماغ والے اور خوش طبع تھے ۔ابن کثیرؒ کی تصانیف آپ کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھیں اور وافر مقدار میں علاقوں میں پھیل گئی تھیں اور آپ کی وفات کے بعد تاقیامت لوگ ان سے مستفید ہوتے رہیں گے "

ابن تغری بردی فرماتے ہیں :

"لَازم الِاشْتِغَال ودأب وَحصل وَكتب، وبرع فِي الْفِقْه وَالتَّفْسِير والْحَدِيث، وَجمع وصنف، ودرس وَحدث وَألف، وَكَانَ لَهُ اطلَاع عَظِيم فِي الحَدِيث وَالتَّفْسِير وَ الْفِقْه والعربية، وَغير ذَلِك.وَأفْتى ودرس إِلَى أَن توفى"[13]

"ابن کثیرؒ نے علم حدیث اور فقہ میں ایک طویل زمانہ مشغولیت ومصروفیت اختیار کی ہے اور اس میں ایک ماہر فن کا مقام حاصل کیا ہے ، اس میں بہت سارے مقالات ومضامین بھی صادر فرمائے ہیں ،علم فقہ ،تفسیر اور حدیث میں امتیازی شان ومقام کے حامل ہیں،عربیت میں بھی ماوی اور مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی درس وتدریس اور تعلیم اور افتاء کی مسند کو زینت بخشی ہے "

ابن حجیؒ فرماتے ہیں :

"أحفظ من أدركناه لمتون الاحاديث ورجالها، وأعرفهم بجرحها وصحيحها وسقيمها، وَكَانَ أقرانه وشيوخه يعترفون لَهُ بذلك وَمَا أعرف أَنى اجْتمعت بِهِ على كَثْرَة ترددي إِلَيْهِ إِلَّا واستفدت مِنْهُ"[14]

"میں نے جتنے محدثین اور علمائے جرح وتعدیل اور فن رجال کے ماہرین اپنے دور میں دیکھے ہیں حضرت علامہ ابن کثیرؒ کو میں ا ن سب کا سردار ،ماوی ومرجع سمجھتا ہوں ،متون حدیث اور رجال حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور ان کے احوال سے سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے تھے، احادیث کی جرح وتنقید ،صحیح اورضعیف کے فن امتیاز میں ایک بلند شان رکھتے تھےاور حیران کن بات یہ ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ کے ہم عصر علماء اور محدثین اور علامہ ابن کثیرؒ کے اساتذہ وشیوخ بھی ان کی اس شان علمی کا اعتراف کرتے ہیں علامہ ابن کثیرؒ کے یہی شاگر د رشید فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی بھی علامہ ابن کثیرؒ سے ملا تو ضرور مجھے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہو اا گرچہ میں دن میں ان کے ساتھ بیسیوں دفعہ بھی ملاقات کرتا "

ابن عماد حنبلیؒ فرماتے ہیں :

"كَانَ كثير الاستحضار قَلِيل النسْيَان، جيد الْفَهم يُشَارك فِي الْعَرَبيَّة وينظم نظما وسطا"[15]

"ابن کثیر مستحضر دماغ رکھنے والے تھے ،بہت کم ہی ایسا ہوا کہ آپ کو کبھی کوئی بات بھولی ہو ،عمدہ فہم رکھنے والے اور عربیت میں ایک شان امتیاز کے حامل تھے۔بات کو نظم وشعر کے انداز میں بیان کرنے کی بھی عمدہ صلاحیت رکھتے تھے "

ابن حبیبؒ فرماتے ہیں :

"آپ نے اپنے وقت کے مایہ ناز اور کبار محدثین سے سماع کیا ہے اور حدیث کے جمع کرنے اور احسن انداز میں ترتیب دینے میں اپنے ہم عصر علماءومحدثین پر فوقیت حاصل کر گئے ہیں ،اور علامہ ابن کثیرؒ فتاوی کو ایسے احسن انداز میں بیان کرتے اور تحریر فرماتے ہیں کہ سامع اور قاری اس کی چاشنی سے کبھی سیر ہی نہیں ہوتا ،اور علامہ ابن کثیرؒ علم حدیث پر جب کلام کرتے ہیں تو کوئی بات ان کی ایک جامع فائد ہ سے خالی نہیں ہوتی ،آپ کے فتاوی دور دراز کے ممالک اور شہروں میں بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ شہرت حاصل کر گئے، علامہ ابن کثیرؒ الفاظ کی تصحیح اور ان کی حرکات اور صحیح تلفظ کو بیان کرنے میں اور اسی طرح اپنے ایک بے مثال اور باکمال اندازتحریر میں ہم عصر مقالہ نگار اور مصنفین میں بہت زیادہ شہرت کے حامل ہیں"[16]

حافظ ابن حجرؒ جو کہ علم حدیث کے مایہ ناز علامہ اور فن جرح وتعدیل میں شان اجتہاد کے حامل ہیں اور روایات کے صحت وسقم بیان کرنے میں ان کے اقوال کو سند کی حیثیت حاصل ہے علامہ ابن کثیرؒ کے متعلق ان کے علوم الحدیث پر عبور اور مہارت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"علامہ ابن کثیرؒ عام محدثین کی طرح اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ عالی سند حاصل کریں اور سند عالی اور سند نازل وسافل میں امتیاز کی کوشش کریں اور اسی طرح علم حدیث میں فروعی اور سطحی درجہ کےفنون شمار کیے جاتے ہیں ان میں نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کرتے جیسا کہ یہی سندعالی حاصل کرنا اور علو سند کو علم حدیث میں اپنی مہارت اور کمال کا درجہ سمجھنا بلکہ ابن کثیرؒ تو ایسے مایہ ناز اور باکمال محدثین میں سے ہیں جن کو علوم الحدیث کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی ایک اعلی مقام حاصل ہے"[17]

علامہ سیوطیؒ حافظ ابن حجرؒ کے قول کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ علم حدیث میں اصل فنون اور علوم کی حیثیت رکھنےوالے امور درج ذیل ہیں :

1۔ حدیث صحیح اور حدیث ضعیف کی پہچان حاصل کرنا ۔

2۔ علل حدیث پر مہارت حاصل کرنا ۔

3۔احادیث کے اور روایات کے اختلاف طرق کو جاننااور رجال حدیث پر حسب جرح وتعدیل معرفت تامہ حاصل کرنا ۔

باقی سند عالی اور سند سافل یہ تو علم حدیث کے زوائد شمار کیے جاتے ہیں علم حدیث کے اصول کی حیثیت رکھنے والے فنون میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے[18] ۔

علامہ ابن کثیرؒ کا شعروشاعری کا ذوق

ابن عماد حنبلیؒ فرماتےہیں:

"علامہ ابن کثیرؒ عمدہ شعر کہاکرتے تھےلیکن ان کے نظم اور اشعار میں سے بہت کم حصہ محفوظ ہے ۔ مثلا ًیہ شعر :

تمر بِنَا الايام تترى وَإِنَّمَانساق إِلَى الْآجَال وَالْعين تنظر

فَلَا عَائِد ذَاك الشَّبَاب الذى مضىوَلَا زائل هَذَا المشيب المكدر[19]

"مسلسل دن رات گزرتے جارہے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ہمیں موت کی طرف ہانکا جارہا ہے ، نہ تو گزری ہوئی جوانی کبھی لوٹے گی اور نہ ہی زندگی کو تلخ کردینے والا بڑھاپا کبھی زائل ہو گا"

بہرحال علامہ ابن کثیرؒ شعروشاعری میں شہرت حاصل نہیں کرسکے ۔

علامہ ابن کثیرؒ کا طرزتحریروتصنیف

علامہ ابن کثیرؒ عربیت میں اور عربی ادب اور عربی ثقافت وتہذیب میں اعلی حیثیت ومقام کے حامل ہیں لیکن علامہ ابن کثیرؒ کا اسلوب تحریر وتصنیف اپنے زمانے کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتا ہےمثلا ًمقفیٰ مسجع عبارتوں کو بطور ترجیح ذکر کرنا بنسبت غیر مقفیٰ ومسجع عبارتوں کے اپنے زمانہ کے اس طرزتحریر کا اعتبارکرتے ہوئے بسااوقات ایسی عبارات بھی لے آتے ہیں جو علامہ ابن کثیرؒ کے مقام ومرتبہ اور عظمت شان کے لائق ومناسب نہیں ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ ان ادباء میں سے نہیں ہیں کہ جو مقفیٰ ومسجع عبارات لانے کا ضرورت اور حد سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور اسلوب تحریر اور انداز بیان میں عبارات کے بناؤ سنگھار اور محسنات بدیعیہ کے استعمال میں غلواور مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ کا انداز بیان اور اسلوب تحریر نہایت جاندار اور شاندار ہوتا ہے اور حال و مقام کی مناسبت سے عبارات ذکر کرتے ہیں۔ درحقیقت علامہ ابن کثیرؒ ایک بے مثال اور علوم عربیت اور علوم شرعیہ میں ایک مایہ ناز علامہ کی حیثیت رکھتے ہیں،علم تفسیر میں ایک باکمال مفسر سے کم حیثیت نہیں ہے اورعلم فقہ اور علم تفسیر میں شان اجتہاد کے حامل ہیں۔ ایسےادیب نہیں ہیں کہ جو اپنی ساری قوت اس بات میں صرف کردیتے ہیں کہ ایک ہی بات کو مختلف انداز اور اسلوب میں ڈھالا جائے جیسا کہ عموما ًکم علم اور کم فہم ادباء اور مقالہ نگار اس بات کی حد درجہ کوشش کرتےہیں کہ ان کی عبارات مقفیٰ ومسجع عبارتوں سے بھری ہوئی ہوں اور خوامخواہ ایک ہی بات کو انداز بدل کر صفحات سیاہ کرنے کی کوشش کرنا اور جگہ جگہ علوم بلاغت میں سے فنون غیر مقصودہ کو اور ان کی اصطلاحات کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا غرض یہ کہ ان لوگوں کا مقصد قاری کو کوئی فائدہ پہچانا یا اس کو کسی علمی اور شرعی زیور سے آراستہ کرنے کی بجائے صرف اور صرف اپنی ادبیات کا قاری پر رنگ چڑھانا اور اس پر دھاک بیٹھانا مقصود ہوتا ہے۔[20]

علامہ ابن کثیرؒ کی تصانیف

علامہ ابن کثیرؒ تصنیف وتالیف میں بہت زیادہ مشغول رہے ہیں اور اپنی حیات طیبہ کا ایک طویل زمانہ اس مبارک مشغلہ میں صرف کردیا ہے ، علامہ ابن کثیرؒ کی زیادہ تر تصانیف علم حدیث وفقہ جیسے عالی شان علوم میں لکھی گئی ہیں علامہ ابن کثیرؒ کی چند ایک تصانیف یہ ہیں ۔

تفسیر القرآن الکریم

علامہ جلال الدین سیوطیؒ اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں:

"اس طرز پر کوئی کتاب تصنیف نہیں کی گئی کہ جس کے اندر روایات تفسیریہ پر اس درجہ باعتبار جرح وتعدیل طویل کلام کیا گیاہو عموما مفسرین کرام تفسیری روایات کے بارے میں فیصلہ صادر نہیں فرماتے کہ اس آیت مبارکہ کے بارے میں جو روایات میں نے ذکر کی ہیں ان میں سے کونسی روایت کس درجہ کی ہے یہی وجہ ہے کہ کبار مصنفین کی تفاسیر اسرائیلیات سے بھر ی ہوئی ہیں لیکن علامہ ابن کثیرؒ تفسیری روایات ذکر کرنے کے بعد ان پر اصول جرح وتعدیل کو مدنطر رکھتے ہوئے فیصلہ بھی صادر فرماتے ہیں کہ کونسی روایت کسی درجہ کی ہے"[21]

البدایة والنهایة

یہ کتاب علم تاریخ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس میں سب سے پہلے انبیاء کرام کے قصے اور امم سابقہ کے احوال ذکر کیے گئے ہیں لیکن علامہ ابن کثیرؒ کا باقی مؤرخین سے یہ ایک امتیاز ہے کہ امم سابقہ کے قصوں میں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پوری پوری پیروی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسرائیلیات ،غریب اور منکر روایات ذکر کرنے کے بعد ان کی حیثیت بھی بیان کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر عرب کے احوال اور زمانہ جاہلیت کے احوال وواقعات بیان کیے ہیں پھر حضور ﷺ کی حیات طیبہ ولادت باسعادت سے لے کر وصال تک تمام واقعات کومکمل طور پر بیان کیا ہے ۔اسلامی تاریخ میں نمودار ہونے والے تمام سانحات اور واقعات جوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے لے کر اپنے زمانہ یعنی سن آٹھ ہجری تک رونماہوئے ان کو بھی بیان کیا ہے۔پھر آخر میں علامات قیامت اور قرب قیامت میں ظاہر اور رونماہونےوالے فتنے اور جنگیں اور احوال آخرت پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔علامہ ابن کثیرؒ کی تصنیف کردہ یہ تاریخ مرجع اور ماوی کی حیثیت رکھتی ہے جس پر ہمیشہ اعتماد کیا جائے گا۔[22]

  1. اختصار علوم الحدیث لابن صلاح
  2. مختصر کتاب المدخل الی کتاب السنن
  3. رسالة فی الجهاد
  4. التکمیل فی معرفة الثقات والضعفاء والمجاهیل
  5. الهدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن
  6. مسند الشیخین ابی بکر وعمر (رضی الله عنهما )
  7. السیرة النبویة مطوله ومختصره
  8. طبقات الشافعیة
  9. تخریج احادیث ادلة التنبیه فی فقه الشافعیة
  10. مختصر ابن حاجب کی احادیث کی تخریج
  11. کتاب المقدمات

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ علامہ ابن کثیرؒ نے صحیح بخاری شریف کی شرح لکھنا شروع کی تھی لیکن پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکے ۔

احکام میں ایک بہت بڑی کتاب لکھنا شروع کی لیکن اس کو پورا نہ کرسکے کتاب الحج تک ہی لکھ سکے۔[23]

علامہ ابن کثیرؒ کی حیات مبارکہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ کی زیادہ تر توجہ فن حدیث اور علوم الحدیث کی طرف تھی اکثر وبیشتر وہ اپنے زمانہ کے تقاضو ں کو پیش نظر رکھتے تھے کتب کی شروح اور اختصارات پیش کرنے کی حد درجہ کوشش کرتے تھے۔ علامہ ابن کثیرؒ کا امتیاز اور علوشان ومرتبہ جو ظاہر اور نمایا ں ہوتا ہے وہ ان کی دو کتابوں البدایۃ والنھایۃ اور تفسیر القرآن العظیم سے زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔

علامہ ابن کثیرؒ اپنی تصانیف میں اس دائرہ کار اور طریقہ کار سے بالکل باہر نہیں نکلتے جس کے گر د ان کی پوری زندگی کی درس وتدریس اور علمی محنت ومطالعہ گھومتا ہے جس میں انہوں نے اپنی پوری زندگی کھپا دی۔ وہ عظیم الشان علوم وفنون جس میں علامہ ابن کثیرؒ نے اپنے عمر عزیز کو صرف کیا ہے وہ یہ ہیں :علم حدیث ، علم تفسیر ،فن تاریخ اور علم الاحکام۔[24]

السیرة النبویة ﷺ کا تعارف

علامہ کی کتاب السیرة النبویة ﷺ کے بارے میں خود علامہ ابن کثیرؒ کا ذکر کردہ ایک قول ہے جسے انھوں نے اپنی مایہ ناز تفسیر تفسیر القرآن العظیم میں سورہ احزاب کے ذیل میں غزوہ خندق کی بحث میں ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ اس مقام پر فرماتے ہیں کہ میں نے سیرۃ النبی ﷺ کو ایک مختصر اور طویل انداز میں تحریر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

"غزوہ خندق کے متعلق جتنی تفصیل میں نے یہاں بیان کی ہے یہ دلائل اور احادیث نبویہ ﷺ کے ذریعہ ثابت ہے اور اس کی مکمل تفصیل میں نے اپنی کتاب السیرة النبویة ﷺ میں بیان کردی ہے جس کو مختصر اور تفصیلی انداز میں مستقل کتاب کے طور پر شائع کیا گیاہے اللہ کا شکر اور احسان ہے"[25]

اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ کی کتاب السیرۃ النبویہ ﷺ آپ کی زندگی میں ہی لوگوں کے ہاں مشہور ومعروف اور متداول ہوچکی تھی لیکن قلمی نسخوں اور مخطوطات کی دنیا میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں ملتی کہ علامہ ابن کثیرؒ کی کتاب السیرۃ النبویہ ﷺ کوئی مستقل کتاب ہے لگتا ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ نے جب اپنی ایک معتبر ترین اور ایک بڑی ضخیم کتاب البدایہ والنہایہ تصنیف فرمائی تو اس کتاب السیرۃ النبویہ ﷺ کو اس کا ہی ایک معتدبہ حصہ اورجزء بنا دیا چونکہ یہ کتاب لوگوں میں مشہور ومعروف ہوچکی تھی اور اطراف عالم میں پھیل چکی تھی تو لوگ اس کتاب کو بڑے شوق سے پڑھتے تھے اور اس کو مستقل کوئی کتاب شمار نہیں کیا گیا۔ جب علامہ ابن کثیرؒ کسی جگہ یہ تذکرہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے سیرۃ النبی ﷺ پر ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی ہے تو اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آجاتی ہے کہ سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر علامہ ابن کثیرؒ نے جتنا مواد البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے اگر سیرۃ النبی ﷺ پر وہ کوئی مستقل کتاب تصنیف فرماتے تو اس سے بڑھ کرنہ لکھ پاتے۔[26]

اس کتاب میں علامہ ابن کثیرؒ نے دنیاعرب کے زمانہ جاہلیت کے احوال وواقعات کو تفصیلی انداز میں تحریر فرمایا ہے اور حضورﷺ کی ولادت باسعادت سے لے کر آپ کے وصال پر ملال تک پوری حیات طیبہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔اس بات کو معتبر سمجھا گیا ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں جس السیرۃ النبویہ ﷺ کا حوالہ دیتے ہیں وہ یہی کتاب ہے جو السیرۃ النبویہ ﷺ لابن کثیر کے نام سے موسوم ہے ۔

السیرة النبویة ﷺ کا منہج واسلوب

علامہ ابن کثیرؒ کی تصنیف السیرة النبویة ﷺ کو گہری نظر سے دیکھا جائے اور اس کی خصوصیات میں غور وفکر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیرؒ کے اس کتاب میں انداز اور طرز تحریر سے بحث کی جائے تو درج ذیل امور سامنے آتے ہیں :

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ اپنی اس کتاب السیرۃ النبویہ ﷺ میں روایات کو سند کے ساتھ ذکر کرنے کا حد درجہ اہتمام فرماتے ہیں جیسا کہ ایک علامہ محدث کا یہ طرز اور انداز ہو اکرتا ہے کہ وہ روایت کو کبھی بھی بغیر سند کے ذکر نہیں کرتا اور علامہ ابن کثیرؒ پر بھی علم حدیث کا اور اس کے اصول وضوابط کے اہتمام کرنے کا بہت زیادہ غلبہ ہے اور اکثر روایات علامہ احمد بن حنبل، علامہ بیہقی اور علامہ ابو نعیم رحمہم اللہ کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں ۔

علامہ ابن کثیرؒ کی یہ خصوصیت اظہر من الشمس ہے کہ عام سیر ت نگار اور تاریخ دان مثلا ًابن اسحقؒ [27]اور موسیٰ بن عقبہؒ [28]وغیرہ کی طرح روایات کا انبار اور ڈھیر نہیں لگاتے جاتے بلکہ صرف ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن کو علم حدیث کے ماہرین نے لیا ہے یہ ہی وہ خاص امتیاز اور شان ہے جس کی وجہ سے علامہ ابن کثیرؒ سیر ت نگار اور مؤرخین میں ایک بے مثال اور قابل اعتبار مقام کے حامل ہیں ۔

علامہ ابن کثیرؒ بعض اسناد پر جرح بھی کرتے ہیں جس وقت متن حدیث غریب درجہ کا ہو تاکہ وہ حدیث پر حکم لگا سکیں لیکن اس کے برخلاف بسااوقات صرف حدیث کا درجہ بیان کر دیتے ہیں لیکن سند پر جرح وقدح نہیں کرتے ۔

علامہ ابن کثیرؒ کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی اس کتا ب السیرۃ النبویہ ﷺ میں ان کتابوں سے بھی مواد اور روایات لاتے ہیں جو کہ بالکل نایاب ہیں یا وہ کتابیں گم شدہ ہیں مثلا ً کتاب موسی بن عقبہ اور کتاب الامویہ فی المغازی۔اسی طرح علامہ ابن کثیرؒ السیرۃ النبویہ ﷺ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کی شروح سے بھی روایات و احادیث اور مضامین نقل کرتے ہیں ،مثلاً الروض الانف للسہیلی اورقاضی عیاضؒ کی الشفاء سے۔

علامہ ابن کثیرؒ اشعار سے بھی استدلال کرتے ہیں لیکن علامہ ابن ہشامؒ کی اشعار سے استدلال میں پوری پوری پیروی نہیں کرتے بلکہ کبھی تو اشعار مختصر طور پر تحریر کردیتے ہیں اور کبھی اشعار کو سرے سے چھوڑ ہی دیتے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ علامہ ابن کثیرؒ سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر جو بھی مستند مواد ہے اس کو جمع کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ احادیث واخبار وروایات کا انبار اور ڈھیر ہی لگانا مقصد اصلی ہوبلکہ اس بات کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ جو کچھ نقل کریں اس کا پور اپورا حوالہ نقل کریں اور جہاں پر ترتیب مشکل ہورہی ہو اور اخبار وروایات کو احسن انداز سے ترتیب نہ دیا جاسکتا ہو تو پھر اس موضوع کے متعلقہ ایک لمبی روایت ذکر کر دیتے ہیں پھر اس کے بعد چند روایات ذکر کرتے ہیں جن سے اس لمبی روایت کے کسی نہ کسی حصہ کی تائید ہو جاتی ہے ۔

جب ہم علامہ ابن کثیرؒ کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ روایات اور احادیث کو دوسرے محدثین کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں تو وہاں ایک عجیب اور انوکھی بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہےکہ علامہ ابن کثیرؒ جب بھی کوئی حوالہ نقل کرتے ہیں تو اس کو بعینہ نہیں نقل کرتےمثلاً اگر کسی جگہ پر ابن اسحق کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں تو اکثر وبیشتر وہاں روایت بالمعنی ہی کرتے ہیں چنانچہ علامہ ابن کثیرؒ الفاظ روایت وحدیث میں تقدیم وتاخیر اور زیادت ونقصان بہت زیادہ کرتے ہیں اور تغیر وتبدل بھی بہت زیادہ کرتے ہیں ۔اسی تغیر وتبدل کے نتیجے میں علامہ ابن اسحق کی عبارت میں جو حسن اور خوبی ،جمال وآراستگی ہے وہ علامہ ابن کثیرؒ کی عبارت سے ختم ہوجاتی ہے ۔

علامہ ابن کثیرؒ متداول کتب احادیث سے جو احادیث نقل کرتے ہیں ان کے الفاظ اور عبارات بھی متداول کتب حدیث کی عبارات والفاظ سے مختلف ہوتے ہیں ۔چنانچہ صحیح بخاری کی جو روایات علامہ ابن کثیرؒ وقال البخاری کے لفظ سے نقل کرتے ہیں ان روایات واحادیث کے الفاظ صحیح بخاری کے موجودہ نسخوں کے الفاظ وعبارات سے پوری پوری لفظی وحرفی مطابقت نہیں رکھتے ۔

اسی طرح علامہ ابن کثیرؒ جب صحیح مسلم یا مسند احمد یا علامہ ابونعیم کی دلائل النبوۃ، علامہ بیہقی کی دلائل النبوۃ،قاضی عیاض کی الشفاءاور علامہ سُہیلی کی الروض الانف سے روایات واحادیث نقل کرتے ہیں تو ان کا بھی یہ ہی حال ہوتا ہے کہ ان کے الفاظ وعبارات موجود ومتداول نسخوں کے عبارات والفاظ سے پوری مطابقت نہیں رکھتے ۔

ایسا بہت شاذونادر ہی ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے درجہ میں ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ کوئی روایت یا حدیث متداول کتب کے حوالہ سے نقل کریں اور وہ روایت وحدیث اپنے الفاظ وعبارات میں موجود ومتداول نسخوں سے مطابقت وموافقت رکھیں بلکہ علامہ ابن کثیرؒ کی ذکر کردہ روایت کے الفاظ اور موجود ہ متداول نسخوں کی عبارت والفاظ میں چندلحاظ سے فرق ہوتا ہے یا تو دونوں عبارتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں یا ایک عبارت دوسری عبارت سے کم ہوتی ہے یا زیادہ ہوتی ہے ۔نتیجہ یہ کہ علامہ ابن کثیرؒ روایت بالمعنی ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور جب کبھی بھی روایات ذکر کرتے ہیں متداول کتب کے حوالہ سے تو اس میں بھی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے روایت بالمعنی ہی کا التزام کرتے ہیں ۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں:

  1. علامہ ابن کثیرؒ اپنے حافظے اور اپنی روایت پر اعتماد کرتے ہیں متداول نسخوں سے بعینہ نقل نہیں کرتے بلکہ صرف توثیق وتائید کےلیے متداول کتب کا حوالہ ہی دے دیتے ہیں اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ علامہ ابن کثیرؒ ایک جلیل القدر محدث اور حافظ الحدیث کے مقام پر فائز ہیں۔
  2. متداول کتابوں کے جو نسخے علامہ ابن کثیرؒ کے پاس موجود تھے وہ ان متداول کتابوں کے ان نسخوں سے مختلف ہیں جو ہمارے پاس پہنچے ،یعنی کہ نسخوں کا اختلاف ہے اصل روایات کا اختلاف نہیں ہے ۔

علامہ ابن کثیرؒ کی اس قابل قدرتصنیف السیرۃ النبویہ ﷺ کا مطالعہ کرنے والا شخص صاحب کتاب کو قابل صد تحسین سمجھتا ہے کیوں کہ انہوں نے سیرۃ النبی ﷺ کو ترتیب دینے کا ایک نیا اسلوب امت کو فراہم کیا ہے اور ایک نئےطرز تحقیق سے سیرت نگاروں کو روشناس کروایاہے۔ علامہ ابن کثیرؒ کا جدید اسلوب یہ ہے کہ سیرۃ النبی ﷺ کی اخباروروایات کو احادیث کی روایات سے ملا جلاکر لاتے ہیں ،یہ وہ طرز تحریر ہے جو علامہ ابن کثیرؒ سے پہلے سیرت نگار اور تاریخ دان میں متعارف نہیں ہو ا ۔

علامہ ابن کثیرؒ اس وجہ سے بھی قابل صد تحسین ہیں کہ انہوں نے سیرۃ النبی ؤﷺ کے متعلق کافی اور وافی مقدار میں مواد فراہم کیا ہے جو درس وتدریس اور تحقیق وجستجو میں اہمیت کا حامل ہے ۔علامہ ابن کثیرؒ کے بعد کے زمانہ کے لوگوں نے آپ کی اس بارے میں بہت اعانت اور مدد فرمائی ہے کہ رہی سہی احادیث اور روایات کو بھی اس کتاب میں بالاستیعاب لے لیا گیاہے[29]۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == ۔الدمشقی، شمس الدين أبو المحاسن محمد بن علي بن الحسن بن حمزة ،ذيل تذكرة الحفاظ،دار الكتب العلميہ،۱۴۱۹/۱۹۹۸،۳۸:۱۔ Al Dimishqi, Shamas al Din Muḥammad bin ‘Ali bin al Hasan, Zayl Tadhkirah al Ḥuffaẓ, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1998/1419), 1:38.
  2. ۔العسقلانی، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر (المتوفى: ۸۵۲ه)، الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة،مجلس دائرة المعارف العثمانية،حیدرآباد/ الهند،،۱۹۷۲، ۴۴۶:۱۔ Al ‘Asqalaniy, Aḥmad bin ‘Ali bin Muḥammad bin Aḥmad bin Ḥajar, (Hayderabad: Majlis Da’irah al Ma‘arif al ‘Uthmaniyyah, 1972), 1:446.
  3. ۔ابو الفلاح،عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي،شذرات الذہب فی اخبار من ذہب،دار ابن كثير،دمشق، بيروت، ۱۹۸۶/۱۴۰۶،۳۹۹:۸۔ Al Ḥanbaliy, ‘Abdullah bin Aḥmad bin Muḥammad bin al ‘Ammad, Shadhrat al Dha’b fy Akhbar man Dhahab, (Beurit: Dar Ibn Kathir, 1986/1406), 8:399.
  4. ۔الدررالكامنة في أعيان المائة الثامنة، ۱:۴۴۵۔ Al Durar al Kaminah fy A‘yan al Mia’ah al Thaminah, 1:445.
  5. ۔السید،جمال بن محمد،ابن قيم الجوزية،وجهوده في خدمة السنة النبوية وعلومها،عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية،المدينة المنورة،۲۰۰۴/۱۴۲۴، ۱۹۳:۱۔ Al Sayyid, Jamal bin Muḥammad, Ibn Qayyam al Jawziyyah w Juhuwduhu fy Khidmah al Sunnah al Nabawiyyah w ‘Uluwmiha, (Al Saudiyyah: ‘Imadah al Baḥath al ‘Ilmiyyah bil Jamiah al Islamiyyah Al Madinah Al Munawwarah, 2004/1424), 1:193. شذرات الذهب في أخبار من ذھب، ۸:۳۳۹۔ Shadhrat al Dha’b fy Akhbar man Dhahab, 8:399.
  6. ۔الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة، ۱:۴۴۵۔ Al Durar al Kaminah fy A‘yan al Mia’ah al Thaminah, 1:445.
  7. ۔ذيل تذكرة الحفاظ، ۱:۳۸۔ Zayl Tadhkirah al Ḥuffaẓ, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1998/1419), 1:38.
  8. ۔ابن کثیر ،أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي(المتوفى:۷۷۴ھ)،مقدمہ السيرة النبوية لابن كثير،تحقیق:مصطفى عبد الواحد،دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع بيروت،لبنان،۱۹۷۶/۱۳۹۵، ۱:۷۔ Ibn Kathiyr, Abu al Fida’ Isma‘iyl bin ‘Umar bin Kathiyr al Dimashqiy, Muqaddimah al Siyrah al Nabwiyyah, (Beurit: Dar al Ma‘rifah Li ṭ abah wal Al Dar Al Tiywnasiyyah lil Nashar wal Tawziy‘, 1976/1395), 1:7.
  9. تفصیل کے لئے ابنِ کثیرؒ کی کتاب "البدایۃ والنھایۃ" اورتاریخ ابنِ خلدون کا مطالعہ مفید رہے گا۔
  10. ۔ ابن کثیر،مقدمہ السيرة النبوية، ص:۷۔ Ibid., p:7.
  11. ۔الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة،۲:۴۴۶۔ Al Durar al Kaminah fy A‘yan al Mia’ah al Thaminah, 2:446.
  12. ۔الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة،۱:۴۴۵۔ Al Durar al Kaminah fy A‘yan al Mia’ah al Thaminah, 1:445.
  13. ۔الحنفی،يوسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري ،أبو المحاسن،جمال الدين (المتوفى:۸۷۴ہ)، النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة،وزارة الثقافة والإرشاد القومي،دار الكتب،مصر،۱۱:۱۲۳۔ Al Ḥanafiy, Yuwsuf bin Taghriy bin ‘Abdullah, Abu al Muḥasin, Al Nujuwm al ẓahirah fy Muluwki Miṣar wal Qahirah, (Egypt: Dar al Kutub), 11:123.
  14. ۔العسقلانی،أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر (المتو فی:۸۵۲ہ)إنباء الغمر بأبناء العمر،المجلس الأعلى للشئون الإسلامية ، لجنة إحياء التراث الإسلامي، مصر،۱۹۶۹، ۱:۳۹۔ Al ‘Asqalaniy, Aḥmad bin ‘Aliy bin Muḥammad bin Aḥmad bin Ḥajar, Ai’mba’ al Ghumar b A'bna’ al ‘Umar, (Cairo: Al Majlis Al ‘Ala lil Sha’un Al Islamiyyah, Lujnah I’ḥya’ Al Turath Al Islami, 1969), 1:39.
  15. ۔شذرات الذهب في أخبار من ذھب،۸:۲۰۷۔ Shadhrat al Dha’b fy Akhbar man Dhahab, 8:207. عادل نویہض،معجم المفسرين من صدر الإسلام وحتى العصر الحاضر،مؤسسة نويهض الثقافية للتأليف والترجمة والنشر، بيروت،لبنان،۱۹۹۸، ۱:۹۳ ‘Adil Nawyhaḍ, Mu‘jam al Mufassiriyn min Ṣadr al Islam wa Ḥattay al ‘Aṣr al Ḥaḍir, (Beurit: Muw’assasah Nawyhaḍ al Thaqafiyyah lil Ta’liyf wal Tarjumah wal Nashr, 1988), 1:93.
  16. ۔إنباء الغمر بأبناء العمر، ۱:۳۹۔ Ai’mba’ al Ghumar b A'bna’ al ‘Umar, 1:39.
  17. ۔الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة، ۱:۴۴۵۔ Al Durar al Kaminah fy A‘yan al Mia’ah al Thaminah, 1:445.
  18. ۔السیوطی،عبد الرحمن بن أبي بكر،جلال الدين، طبقات الحفاظ،دار الكتب العلمية،بيروت،۱۴۰۳، ۵۳۴:۱۔ Al Sayuwtiy, ‘Abdur Raḥman bin Abiy Bakar, Tabaqat al Ḥuffaẓ, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1493), 1:534.
  19. ۔إنباء الغمر بأبناء العمر، ۴۰:۱۔ Ai’mba’ al Ghumar b A'bna’ al ‘Umar, 1:40.
  20. ۔مقدمہ السيرة النبوية لابن كثير، ۸:۱۔ Muqaddimah al Siyrah al Nabwiyyah, 1:8.
  21. ۔طبقات الحفاظ، ۵۳۴:۱۔ Tabaqat al Ḥuffaẓ, 1:534.
  22. ۔مقدمہ السيرة النبوية لابن كثير، ۹:۱۔ Muqaddimah al Siyrah al Nabwiyyah, 1:9.
  23. ۔الحنفی،يوسف بن تغري بردي بن عبد الله الظاهري، أبو المحاسن، جمال الدين (المتوفى:۸۷۴ہ) المنهل الصافي والمستوفى بعد الوافي، الهيئة المصرية العامة للكتاب، ۴۱۵:۲۔ Al Ḥanafiy, Yuwsuf bin Taghriy bin ‘Abdullah, Abu al Muḥasin, Al Manhal al Ṣafiy wal Mustawfiy B‘ad al Wafiy, (Al Hy’ah al Miṣriyyah al ‘Ammah lil Kitab), 2:415.
  24. ۔مقدمہ السيرة النبوية لابن كثير، ۹:۱۔ Muqaddimah al Siyrah al Nabwiyyah, 1:9.
  25. ۔ابن کثیر،أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى:۷۷۴ہ)،تفسیر القرآن العظيم (ابن كثير)،دار الكتب العلمية، منشورات محمد علي بيضون،بيروت،۱۴۱۹، ۳۵۷:۶۔ Ibn Kathiyr, Abu al Fida’ Isma‘iyl bin ‘Umar bin Kathiyr al Dimashqiy, Tafsiyr al Qurān al ‘Aziym, (Beurit: Dar al Kutub ‘Ilmiyyah, 1419), 6:357.
  26. ۔غازی،ڈاکٹر،محمود احمد،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران وتاجران کتب،اردو بازار لاہور،ص:۲۲۰۔ Ghazi, Dr. Mahmuwd Aḥmad, Mu ḥaḍrat Siyrat, (Lahore: Al Fayṣal Nashiran wa Tajiran Kutub), p:220.
  27. آپ کا نام محمد بن اسحاق بن یسار ہے اور عرب کے قدیم ترین مؤرخین میں سے ہیں۔ ۱۱۹ھ میں اسکندریہ گئے اور وہاں سے بغداد چلے گئے اور وفات تک وہیں قیام پذیر رہے۔ آپ کی تصانیف میں "السیرۃ النبویۃ"، "کتاب الخلفاء" اور "کتاب المبدأ" شامل ہیں۔ (الزرکلی، خیر الدین بن محمود بن محمود بن علی بن فارس، الاعلام، دارالعلم للملایین، مئی ۲۰۰۲ء، ۶:۲۸) Al Zarkali, Khayr al Din Bin Meḥmuwd bin Meḥmuwd bin ‘Ali, Al A‘lam, (Dar al ‘Ilm Lil Malayiyn, May:2002), 6:28.
  28. آپ کا نام موسیٰ بن عقبہ بن ابی عیاش۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔ ثقہ محدثین میں ہیں، سیرتِ نبویہ ﷺ پر "کتاب المغازی" لکھی جسے امام احمد بن حنبل نے معتبر قرار دیا ہے۔ (الاعلام للزرکلی، ۷:۳۲۵) Al Zarkali, Al A‘lam, 7:325.
  29. ۔مقدمہ السيرة النبوية لابن كثير،ص:۱۷-۱۴۔ Muqaddimah al Siyrah al Nabwiyyah, p:14-17.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...