Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

فقہ اسلامی اور مغربی قانون کی روشنی میں حقوق دانش کے قوانین کاتحقیقی مطالعہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060030498_1026

Pages

97-105

DOI

10.36476/JIRS.3:2.12.2018.06

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/305/134

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/305

Subjects

Islamic Law Western Law Patent Trade Mark Right of Goods Islamic law Western Law Patent Trade Mark Right of Goods

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی بعثت کا مقصدیہ تھا کہ امت توحید کو تسلیم کرکے پیغمبر علیہ السلام کے معجزات اور کتب ِ سماویہ کو حق اور یقینی جانیں اور اسےاللہ تعالیٰ کا کلام سمجھ کر اللہ کی جانب منسوب کرے یہی ایمان کا مفہوم ہے جب کہ انہی کتبِ الہیہ کو مانتے ہوئے انقیاد کرنا حقِ نسبت کے مراد کی طرف نشاندہی کرتا ہے اور اس کے بعد انبیائے کرام کی انقیاد درحقیقت حقوقِ دانش میں ملے ہوئے حقوق میں "حق عوض" ہی ایک طرح سے مقصود ہے۔

اسلام نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھر پور توجہ دی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث کے نصوص میں اس کے بارے میں خوب تاکید کی گئی ہے، جب کہ حقوق العباد کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دنیا وآخرت میں سخت ترین سزاؤں کی وعید سنائی گئی ہے، اسی طرح اہل ِ کتاب کو قرآن مجید میں بیان فرما کر جس طرح حقوق العباد کے ظاہری پہلو پر روشنی ڈالی گئی ، ایسے ہی حقوق العباد کے مضمر اور پُر اسرار اطراف کے ذکر کو بھی نہیں چھوڑا گیا ، بلکہ سورۂ آ لِ عمران میں حقوقِ دانش کی خلاف ورزی کرنے والوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:

"وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا"

"اور پسندیدہ کام جو کرتے نہیں ان کے لیے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔"[1]

یہودیوں کی یہ بُری خصلت ذکر کی گئی کہ دوسروں کے محمود اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرنے کے عادی تھے، اس صفت کو ذکر کرکے درد ناک عذاب کا حکم لگایا گیا، چنانچہ فرمایا:

"فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"

"ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے اور انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا۔"

جب کہ احادیث مبارکہ میں ان حقوق کی حفاظت کی تاکید بیان فرمائی اور اسے ایجاد کنندہ کا حقِ حقیقی تسلیم کیا گیا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

"من أحيا أرضا ميتةفهي له"

"جس نے غیر آباد زمین کو آباد کیا، تو وہ زمین آباد کرنے والےکی ہے"۔[2]

تعارف:

اسلام میں پیدائشِ دولت اور مال کمانے کے لیے چند قوانین وضع کیے گیے ہیں، جن کی رو سے مال حاصل کرنا جائز ہے، خود نبی کریمﷺ نے اپنے اہل وعیال کے لیے تجارت اور دیگر کاروبار کیے، اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی حلال کمانے میں نبی کریمﷺ کے ارشادات کی رو سے اپنے فارغ اوقات کو کاروبار وغیرہ میں صرف کرکے حلال کمانے اور اہل وعیال، مسلمانوں اور فلاح کے کاموں میں خرچ کرکے امت کو تجارت مال کی کمائی میں محنت کرنے کو زندگی گزارنے کا حصہ قرار دیا، اسی طرح مال میں اضافے کے لیے جائز طریقوں کو تلاش کرنا بھی ناجائز نہیں۔

فکری ترقی میں ایجاد کنندگان کی ذہنی اختراع نے انسانیت کی خدمت کرکے موجدین کو ایک عوض کا مستحق ٹھہرا یا ہے اسی عوض کو "حق ایجاد" کہا جاتا ہے۔

ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حقِ ایجاد کے حقوق کا تحفظ، ملکی مصنوعات میں اضافے اور برآمدات کی شرح میں بڑھوتری کی خاطر حقوقِ دانش کے نام سے اصول مرتب کئے گئے ہیں ان قوانین کے وضع کی ابتداء فرانس سے ہوئی اور یوں رفتہ رفتہ دیگریورپی ممالک نے بھی حقِ ایجاد کے لیے قوانین مرتب کئے ۔[3]

ان قوانین کا مقصد چونکہ حقِ ایجاد کا تحفظ تھا اس لیے ہر قسم کی تصانیف، تالیفات، موسیقی، پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک کو قانونی تحفظ دیا جانے لگا۔

حقوقِ دانش سے متعلق شریعت ِاسلامی اور غیر مسلم قوانین میں بنیادی اختلاف کی علمی وجوہات جاننے کے لیے سب سے پہلے حقوق کی تقسیم کے بارے میں مغربی اور اسلامی نقطہ ہائے نظر کا جائزہ لیا جائے گا۔اس کے بعد حقوقِ دانش قوانین کے تحت آنے والے تصانیف،ایجادات اور ٹریڈ مارک کے بارے میں مغربی اورشرعی نقطۂ نظر سے مال کے ضمن میں داخل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق تفصیلی بحث پیش کی جائے گی۔

مالی حقوق کی مغربی اور اسلامی تقسیم کا دلائل کی روشنی میں جائزہ:

عام طور پر مالی حقوق کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں:

۱۔حقوقِ عینیہ اصلیہ، جیسے حقِ ملکیت، حقِ انتفاع، حق ارتفاق وغیرہ۔

۲۔حقوقِ عینیہ تبعیہ ، جیسے حقِ رہن اور حق امتیاز۔

۳۔ حقوقِ شخصیہ: جیسے مشتری کو سامان کی خریداری کے وقت منتقل ہونے والے حقوق، مستاجر ومؤجر کا کرایہ پر دی ہوئی یا لی ہوئی مکان یا سامان سے متعلقہ حقوق اور قرض خواہ کا حق وغیرہ۔

مالی حقوق کی دوسری قسم جو غیر مادی چیز پر واقع ہوتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: حقوقِ مؤلف جسے قانونی اصطلاح میں ادبی اور فنی ملکیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دوسری قسم: میں ملکیتِ صناعیہ اور ملکیت تجاریہ وغیرہ اقسام داخل ہیں۔

مغربی لاء میں حقوق کی تقسیم:

رومن ماہرین قوانین حق اور محل میں فرق کے قائل نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حق اور شئ دونوں ایک ہی چیز ہے، اس لیے ان کے ہاں حقِ ملکیت ملنے کے بعد مالک کو وسیع اختیارات مل جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں حقوق کی دو قسمیں ہوتی ہے:

۱۔حقوقِ مادیہ،۲۔ حقوقِ غیر مادیہ،

پھر حقوقِ مادیہ میں حقِ ملکیت آتا ہے، جب کہ حقوقِ غیر مادیہ کی پھر دو قسمیں بیان کرتے ہیں:

۱۔حقوقِ عینیہ،۲۔ حقوقِ شخصیہ،[4]

اسلامی فقہ میں حقوق کی تقسیم:

شرعی تناظر میں حقوق کی گذشتہ تمام اقسام میں "حق" ایک حقِ معنوی ہے، جو صرف غیر حسی ہونے کی وجہ سے فکر کے ساتھ واقع ہوتا ہے، اگر چہ حقِ عینی اور حقِ شخصی مادی اور نظر آنے والے امور ہیں، مگر اس کا محل مادی ہے، لیکن یہ حق بالذات "حق ِ غیر مادی ہے۔

لہذا فقہ اسلامی کے روشنی میں حق کی تمام قسمیں چاہے حقِ ملکیت ہے یا حقِ عینی اور حقِ شخصی۔ یہ تمام کے تمام فکر اور ادراک سے معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے شریعت میں یہ حقوق غیر مادی شمار ہوتے ہیں۔

حقوق کے بارے میں مغربی لاء کا جائزہ:

حقوق تمام کے تمام غیر مادی ہوتے ہیں اگر چہ مادی اشیاء پر واقع ہوجائے، یا پھر غیر مادی اشیاء پر واقع ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نظر نہ آنے والا غیر مادی"شئی" درحقیقت حس کے ذریعے محسوس نہیں ہوتا، بلکہ فکر اور سوچ کے ذریعے اس کا ادراک ہوتا ہے، جب کہ بہت سی غیر مادی اشیاء ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں، اس وجہ سے اسے حقوقِ دانش یعنی فکری حقوق اور حقوقِ ذہنیہ یعنی ذہن کی ایجاد سے بغیر کسی سابقہ وجود کے منظرِ عام پر آنے والے کہلاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی لاء میں حقوق کی تقسیم مادی اور غیر مادی کی طرف درست نہیں، کیونکہ حق ایک معنوی چیز کا نام ہے، مگر غلطی کا مدار یہ ہوا کہ انہوں نے "حق اور شئی " میں فرق نہیں کیا ، بلکہ دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے حق پر شئی کا اطلاق کرکے "شئی یعنی مادی چیز" کے فطری اور طبعی احکامات "حق " پر لاگو کیے گئے اور رومن لاء میں حقوق کو مادی اور غیر مادی کی طرف تقسیم کیا گیا۔حالانکہ حقوق کی تمام اقسام غیر مادی کے تحت آتے ہیں ۔[5]

مذکورہ بالا تحقیق کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ اسلامی فقہ کی روشنی میں حقوق ِ دانش غیر مادی حقوق ہیں، جوقائم بالذات نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایجاد کے محل کے تابع ہوتے ہیں، اس وجہ سے یہ حقوق ملکیت کےتحت تو داخل ہوتے ہیں، لیکن حقیقتا حقِ ملکیت کی طرح ہمیشہ کے لیے حقِ مؤبد کے حامل نہیں ہوتے، بلکہ حقوق دانش میں ملنے والا حق مؤقت ہوتا ہے، اس وجہ سے حقوقِ دانش کو ہم محدود مدت تک رہنے والے حقوق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

حقوق دانش کی مالیت کے بارے میں مغربی اور اسلامی افکار کا جائزہ:

گذشتہ تحقیق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ مغربی اور اسلامی فقہ کے درمیان حقوقِ دانش کی اصلیت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغرب کے نزدیک حقوقِ دانش مستقل طور پر حقِ مادی ہوتا ہے، جب کہ اسلامی فقہ میں حقوقِ دانش حق غیر مادی ہوتا ہے۔

اسی طرح حقوقِ دانش کی مالیت کے بارے میں بھی مغربی اور اسلامی دونوں نقطہائے نظر مختلف نوعیت کے حامل ہیں، چنانچہ پہلے مغرب کے نزدیک ذاتی ملکیت اور شخصی املاک کا تصور پیش کرکے حقوقِ دانش کے تناظر میں اس کا جائزہ لیں گے، اس کے بعد اسلامی فقہ میں مال کا تعارف ذکر کرکے مغربی اور اسلامی حقوقِ دانش کا تصور پیش کریں گے۔

حقوقِ دانش کی مالیت کے بارے میں مغربی فلسفۂ ملکیت کا نظریہ:

مغرب میں ذاتی ملکیت اور شخصی املاک کے بارے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں: پہلا نظریہ: اللہ تعالیٰ نے زمین اوراس کے علاوہ تمام کائنات کے جملہ وسائل تمام لوگوں میں مشترکہ پیدا فرمائے ہیں، لیکن ذاتی ملکیت انسانوں کی شخصی محنت اور فردی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے، یعنی جن جن اشیاء مادیہ یا غیر مادیہ کے بارے میں کسی انسان کا ذہن تحقیق یا محنت کرکے سبقت کرتا ہے، تو وہیں شئ انسانی شخصی ملکیت میں چلی جاتی ہے، جیسے مخصوص افراد کی شجر کاری کرنے کے بعد یہ درخت ان افراد کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں، اسی نظریے پر مغربی نظریہ "اصولِ فطرت" مبنی ہیں۔[6]

دوسرا نظریہ: انسانوں میں ذاتی ملکیت اور شخصی حقوق کا محرک اور انہیں جمع کرنے کا ہیجان فطری طور پر پایا جاتا ہے، یہ خواہش انسانوں میں فطری طور پر ازل سے موجود ہے، جس کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو اسی چاہت کے بل بوتے پر بنیادی حقوق ملیں۔[7]

پورپی ممالک کی مذکورہ " اصولِ فطرت" اور"ذاتی ملکیت " سے متعلق نظریات کی روشنی میں ہر قسم کے مال کی کمائی مغرب میں جائز متصور ہوتی ہے۔انہی نظریات کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر بنے ہوئے حقوقِ دانش کے قوانین میں ہر ایجاد مال کے زمرے میں آتی ہے، اس وجہ سے ان ممالک میں ہر قسم کے ایجادات کی رجسٹریشن درست قانونی اعتبار سے درست ہے۔

حقوقِ دانش کی مالیت کے بارے میں مغربی نظریہ کا شرعی تناظر میں تحقیقی جائزہ:

مال کا مفہوم ظاہر، اس کی حقیقت مشہور، اس کی ماہیت محتاجِ تعارف نہیں اور نہ ہی اس کی وضاحت آنکھوں سے مخفی ہے، بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں عام طور پر مرغوب، فائدہ اٹھانے کی صلاحیت والی، متعارف چیز کو مال کہا جاتا ہے، تاہم اس کا معنی مکان، عرف اور زمانے کے بدلنے سے بدل جاتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہی ہو کہ وقت کے گزرنے سے لوگوں کے اذہان ان کی رائے اور ان کی ترجیحات مختلف ہوتی رہتی ہیں، مختلف علاقوں کے مختلف طبائع کی وجہ سے بعض مقامات پر ایک چیز کا فائدہ زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمتی، مگر دوسرے مقام پر اس کا فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہی چیز دوسری جگہ میں بے فائدہ اور گری پڑی ہوئی چیز شمار ہوتی ہے۔[8]

مال کی پہلی تعریف: مال سے مراد انسانی مصالح کے لیے پیدا شدہ وہ عین ہے، جس میں صفتِ تمو ل اور احراز پایا جاتا ہو، تمول سے مراد شئی کی حفاظت جب کہ "احراز " یہ ہے کہ بوقتِ ضرورت اس کی ذخیرہ اندوزی بھی ممکن ہو۔[9]

مال کی دوسری تعریف: مشائخ نے متقدمین کی یہ تعریف کی ہے کہ"غیر انسانی چیز جو انسانوں کے کام آسکے اور جس میں اپنی مرضی سے تصرف کرکے اس کی حفاظت ممکن ہو، تو اسے مال کہا جاتا ہے"[10][11]

متاخرین محققین حضراتِ حنفیہؒ کی تعریف کی تشریح:

۱۔"عام عادت میں انتفاع لینے والی چیز کو مال کہا جاتا ہے"اس تعریف میں عادت سے مراد تمام لوگوں کی عادت نہیں، بلکہ اگر بعض علاقہ والے ایک چیز کی مالیت پر اتفاق کر لیں، تو وہ ان کا مال ہو جائے گی۔

۲۔عام طور پر انتفاع لینے سے معتاد نفع لینا مقصود ہے اگر غیر معتاد طریقہ سے خاص لوگ کسی چیز کی مالیت پر اتفاق کر لیں، مثلاً مردار کے کھانے پر، یا سانپ بچھو اور دیگر زہریلے جانوروں کے کھانے یا خرید وفروخت پر یا ایک قحط کے زمانے میں ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ جو کی خرید وفروخت پر، تو اس صورت میں یہ تمام اشیاء مال نہیں کہلائیں گی، اگر چہ خریدوفروخت ہو رہی ہے یا انتفاع لیا جارہا ہو، مگر یہاں انتفاع سے مراد "مشروع انتفاع" اور "حالتِ ضرورت کے علاوہ انتفاع" ہے۔[12]

۳۔انتفاع سے مراد تمام لوگوں کی انتفاع مقصود نہیں، بلکہ بعض لوگوں کے تعامل سے بھی یہ حکم ثابت ہوجاتا ہے اور ایک چیز کی مالیت ایک مرتبہ جب ثابت ہوجائے، تو پھر وہ بعض لوگوں کے چھوڑنے سے یا اکثر لوگوں کے چھوڑنے سے ختم نہیں ہوتی، جب تک کہ اس میں انتفاع، احراز وغیرہ ممکن ہو، جیسے پرانے زمانے کے کپڑے وغیرہ کہ اس کو بعض لوگ استعمال کرتے ہیں اور بعض لوگ استعمال نہیں کرتے۔[13]

فقہائے حنفیہؒ کی تعریفات کا حاصل کلام:

۱۔فقہائے حنفیہؒ کے کلام سے معلوم ہوا کہ مال کی مادی چیز کا ہونا ضروری ہے، جس کی حفاظت اور احراز ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو حاجت کے وقت کے لیے عام عادت کے مطابق ذخیرہ کیا جانا ممکن ہو، لہذا حق شفعہ، حق مسیل، حق شرب، حق تعلی اس تعریف سے خارج ہوں گے۔[14]

۲۔اسی طرح سورج کی چمک اور روشنی اور چاند کی دھمک اور اس کی چاندی معنوی امور ہونے کی وجہ سے مادیت سے خارج ہوکر اس تعریف سے نکل جائیں گے۔[15]

۳۔اسی طرح علم وفضیلت، صحت وشرافت، ذکاوت وعباوت، فکر وسوچ وغیرہ بھی غیر مادی ہونے کی وجہ سے اس تعریف میں داخل نہیں ہوں گے۔[16]

۴۔اسی طرح شکار پانی یا ہوا میں بالفعل موجود نہ ہونے کی وجہ سے بھی مال میں داخل ہوں گے، کیونکہ اس میں احراز ممکن ہے۔[17]

فقہائے اسلام کے نزدیک مال کا تعارف اور اس سے متعلقہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ بین الاقوامی سطح پر بالعموم اور مغربی نقطۂ نظر سے "IP" کا دائرہ اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے بہت زیادہ وسعت رکھتا ہے، جب کہ اسلامی شریعت میں حقوق دانش کا تصور احکاماتِ دینیہ کی وجہ سے محدود ہے، جس کی وجہ سے اسلامی قوانین میں "حقوق دانش" کو نہ تو بالکلیہ تسلیم کیا اور نہ ہی ان قوانین کا سراسر رد کرکے انکار کردیا۔

حقوقِ دانش کے بارے میں مغربی لاء کے تصور کا جائزہ:

حقوقِ دانش کے بارے میں اسلامی اور مغربی نقطہائے نظر کی روشنی میں دو مختلف نظریات سامنے آتے ہیں:

مغربی ممالک میں حقوق دانش کے لیے وضع کردہ قوانین میں محض مال کی جمع اور اس کی چوری کے خلاف قانون سازی پر بنیادی طور پر زور دیا گیا ہے، چاہے حلال اشیاء بنائے جائے یا حرام، شریعت کے موافق امور کو کاپی رائٹ کیا جائے یا مخالف کو، ایسے ہی جائز کاموں کے لیے آلات ایجاد کیے جائےیا ناجائز کاموں کے لیے، اسی طرح مال کے جمع کرنے کے لیے تصویر سازی، مجسمہ سازی، موسیقی،رقص وسرور، شعائر اللہ کے موافق علاماتِ تجارت مقرر کیے جائے یا ان سے متصادم سب کچھ جائز ہے۔

اسلام میں یہ سب کچھ محدود ضوابط حیات کی روشنی میں طے کرنے کا نام ہےاور اس کے ساتھ ساتھ اسلام مال کے جمع کرنے کے علاوہ مال کے خرچ کے لیے بھی مخصوص قوانین شرعی دائرہ میں رکھتا ہے، جس کی وجہ سے غیر شرعی امور ان سے خارج ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کاپی رائٹ ایکٹ ہر قسم کے کتب تصنیف کرنے، ہر قسم کے فنی اور تصویری ایجادات کے لیے رائلٹی مل سکتی ہے ایسے ہی موسیقی وغیرہ کے بارے میں عدم جواز کی کوئی علت نہیں ہے۔

اسی طرح سائنسی ایجادات کے متعلق مغرب کا نظریہ ہر نئی دریافت اور ہر بہتر ایجاد کو پیٹنٹ کرانے کو اہمیت دیتے ہوئے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کی رائے میں ہر تکنیکی اعتبار سے درست ایجاد جس سے اصلاح یا فساد کا فائدہ پہنچتا ہوں، تو وہ ایجاد درست ہے۔[18]

چاہے جنیاتی شناخت سے متعلق فطری قوانین کے خلاف انسانی پیدائش میں تغییر ہو، مثلاً ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور ناجائز پلاسٹک سرجری کے آلات، جوا کھیلنے کے آلات، اور مہلک ہتھیار وغیرہ سب جائزہے۔[19] کیونکہ مغربی ممالک کی نظر میں یہ سب کچھ مال کے ذیل میں مندرج ہوتے ہیں۔ اسی طرح حرام اشیاء کی تجارت اور فحش وعریاں تصاویر کو علامت بنانے کے بارے میں مغرب کا نظریہ جواز کا ہے۔[20]

یہی وجہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں پیٹنٹ کا نظریہ مغربی نظریہ سے یکسر جدا ہیں، مثلا خلیجی ممالک میں پیٹنٹ سسٹم میں یہ شرط ہے کہ پیٹنٹ اسلامی اصولوں کے خلاف نہ ہو، تو پھر ان ایجادات کی متعلقہ دیگر شرائط مکمل ہوں، تو پیٹنٹ کرنا جائز ہے۔[21]

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی شریعت اور حقوق دانش میں تضادات اتنی زیادہ نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ اسلام میں حقوق دانش محدود جب کہ مغربی لاء میں یہ اختیارات لا محدود ہیں، جہاں تک حقوقِ دانش کے بنیادی تحفظ کا تعلق ہے، تو اس میں اسلام مغربی قانونِ حقوق دانش کو کچھ ترمیمات کے ساتھ قبول کرتا ہے۔[22]

اس سے معلوم ہوا کہ مغربی حقوقِ دانش کے ناجائز امور کی اسلام میں کوئی جواز نہیں، تاہم اسلامی مصادرِ قوانین میں اس بات کی کوئی تصریح نہیں کہ اسلام ذہنی محنت اور فکری کاوشوں کو منع کرتا ہے۔[23]

خلاصہ:

حقوقِ دانش کے تحفظ کے لیے مغرب اور اسلام دونوں نظاموں میں قوانین موجود ہیں، تاہم اسلامی اور مغربی نقطۂ نظر سے حقوق اور ان کے محل میں اختلاف ہے، مغربی ماہرینِ قانون کے نزدیک حق اور محل میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کے ہاں حق اور محل دونوں ایک ہی چیز ہے، اس وجہ سے مغربی قوانین میں حقوقِ دانش حاصل ہونے کے بعد مالکِ حقوق کو وسیع اختیارات مل جاتے ہیں،جب کہ شرعی نقطۂ نظر سےحق اور محل ِ حق دونوں مختلف اشیاء ہیں،یعنی حق ایک معنوی اور غیر حسی چیز ہے، اور محل ِ حق مادی اور نظر آنے والی چیز ہے۔اسی اختلاف کی وجہ سے حقوقِ دانش کی مالیت شرعی نقطۂ نظر میں ضرورت کی وجہ سے محل کا تابع ہوکر اگر چہ مادی چیز ہے،جس کی وجہ سے اس کی خرید وفروخت جائز ہے، جیسا کہ مغربی ماہرین ِ قوانین کی رائے ہے، مگر اسلامی قوانین میں مال ہونے کے لیے کسی چیز کا شریعت کی روشنی میں جائز ہونا ضروری ہے، اس وجہ سے اسلامی قوانین میں ناجائز ، حرام اور ایسے ہی حرام کی طرف لے جانے والی ایجادات کا جس طرح استعمال نا جائز ہے اسی طرح اس کا بنانا اور کاپی رائٹ، پیٹنٹ یا ٹریڈ مارک قوانین بنا کر اس کے تحت رجسٹرڈ کرنا بھی ناجائز ہے۔جب کہ مغربی ماہرینِ قانون کے نزدیک انسانی ضرورت کو پورا کرنے والی ہر چیز مال ہے، لہذا ان کے نزدیک ہر وہ چیز مال کے تحت داخل ہے، جو انسانی ضرورت کوپورا کرے، اس وجہ سے ہر انسانی خواہش اور ضرورت کو پورا کرنے والی چیز کا استعمال درست ہے، لہذا اس کا بنانا بھی جائز ہے اور اس طرح اسکی کاپی رائٹ، پیٹنٹ یا ٹریڈ مارک قوانین بنا کر اس کے تحت رجسٹرڈ کرنا بھی جائز ہے۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

حوالہ جات

  1. حوالہ جات(References) سورۃ آل عمران: 188 Surah Al- Iman, 188
  2. بخاری ، محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری، کتاب المزارعۃ، باب من احیا أرضا مواتا ،دارطوق النجاۃ ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ2002م، حدیث: 2335 Muḥammad bin Isma’il Bukhari, Ṣaḥiḥ Bukhari,(Beirut: Dār Towq al Najat, 1st Edition, 2002), Ḥadith
    1. 2335
  3. السنہوری ، عبدالرزاق احمد ،الوسیط فی فقہ القانون المدنی الجدید، نشورات الحلبی الحقوقیۃ بیروت، لبنان الطبعۃ الأصلیۃ الجدیدۃ: 2000م،8:289-290 Al-Sinhawri, Abdur Razaq Aḥmād, Al Wasīt fī Fiqh al Qanuwn al Madni al Jadeed, (Beirut: Nushurāt Al Ḥalbi Al Ḥuquwqiyyah, 1st Edition ,2000), 8:289-290
  4. السنہوری، الوسیط فی شرح القانون المدنی الجدید:8:275 Al Sinhawrī, Al Wasīt fi Fiqh al Qanuwn al Madni al Jadeed, 8: 289-290
  5. ایضاً، 8:278 Ibid., 8: 278
  6. http://www.constitution.org/jl/2ndtreat.htm
  7. GWF Hegel, Philosophy of Right, (London : G Bell,1st Edition,1896), 41
  8. ابو سنۃ ، احمد فہمی،العرف والعادۃ فی رأی الفقہاء، بیروت: دارالفکر العربی، بدون طبع وتاریخ،ص:137 Abu Sunnah, Aḥmād Fahmī, Al ‘Urf wal ‘Adah fi Ra’i al Fuqaha’, (Beirut: Dār al Fikr Al ‘Arabī), 137
  9. سرخسی،محمد بن احمد ،المبسوط ،بیروت: دارالمعرفۃ،بدون طبع وتاریخ،11:79 Sarakhsi, Muḥammad bin Aḥmād, Al Mubsuwṭ, (Beirut: Dār Ul Ma’rifah),11: 79
  10. ابن نجیم ، زین الدین بن ابراہیم ، البحر الرائق شرح کنزالدقائق ومنحۃ الخالق وتکملۃ الطوری، دارالکتاب الاسلامی ،طبع دوم،5:431 Ibn Nujaym, Zain al Dīn bin Ibrahīm, Al Baḥar al Rai’q Sharah Kanz al Daqa’iq, (Dār al Kitāb al Islamī,v2nd EditioJn), 5: 431
  11. ابوزہرہ، محمد، الملکیۃ والنظریۃ العقد فی الشریعۃ الاسلامیۃ ،قاھرہ: دارالفکر العربی ،بدون طبع وتاریخ،ص:48 Abu Zuhra, Muḥammad, JAl Malakiyyah wal Naẓriyyah al ‘Aqd fil Shari’ah al Islamiyyah, (Cairo: Dār al Fikr al ‘Arabī), 48
  12. الزرقاء، مصطفیٰ احمد، المدخل الفقہی العام، دمشق: دارالقلم ،طبع اولیٰ،1998ء، ص:126 Al Zarqa, Muṣtafa Aḥmād, al Madkhal al Fiqhī al ‘Aām,(Damascus: Dār Al Qalam, 1st Edition, 1998), 126
  13. الصدۃ،عبدالمنعم، حق الملکیۃ،مصر: مصطفیٰ الحلبی، طبعۃ ثانیہ، 1967ء،1:175 Al Ṣaddah, ‘Abdul Mun’im, Ḥaq al Malakiyyah, (Egypt: Muṣtafa al Ḥalbī, 2nd Edition, 1967), 1:175
  14. عثمانی،محمد تقی، بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرۃ،کراچی: مکتبۃ دارالعلوم،طبع اول، 2000ء،1:30 Muḥammad Taqī ‘Uthmanī, Buḥuws fi Qaḍaya Fiqhiyyah Mu’āṣirah, (Karachi: Maktabah Dārul ‘Uluwm, 1st Edition, 2000), 1: 30
  15. البحر الرائق،5:431 Al Baḥar al Rai’q, 5:431
  16. الخفیف، علی،الملکیۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ،(مصر:دارالفکر العربیۃ ، بدون طبع وتاریخ)،ص: 17 Al Khafīf, ‘Ali, Al Malakiyyah fi Al Shari’ah Al Islamiyyah, (Egypt: Dār al Fikr al ‘Arabiyyah), 17
  17. موسیٰ، محمد یوسف،الأموال ونظریۃ العقد فی الفقہ الاسلامی ، مصر:دارالفکر العربی ، القاہرۃ، الطبعۃ الاولیٰ،1987ء، ص:150 Muwsa, Muḥammad Yuwsuf, Al Amwal wa Naẓariyyah al ‘Aqd fī Al Fiqh al Islamī, (Egypt: Dār al Fikr al ‘Arabī, Cairo, 1st Edition, 1987), 150
  18. Al Mahjuwb, ‘Azz al Dīn Muṣtafa, Intellectual Property: Islamic and Libya Laws, (Faculty of Law, Queens Land University of Technology, 2014), 70
  19. library.gcc-sg.org/arabic/books/arabic
  20. Al Mahjuwb, ‘Azz al Din Muṣtafa, Intellectual Property: Islamic and Libya Laws, 70
  21. www.stplegal.com/laws/saudiarabia-p-laws.pdf, 4 October 2011, Intellectual Property Rights in the Kingdom of Saudi Arabia In Light of Sharia and the TRIPS Agreement, Abdul Raḥman Abdul Karim, page114, http://elibrary.law.psu.edu/sjd/3
  22. ڈاکٹر یوسف القرضاوی، مدخل لدراسۃ الشریعۃ الاسلامیہ، بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ ، الطبعۃ الثانیۃ: بدون التاریخ، ص:29 Al Qardawi, Dr. Yuwsuf, Madkhal li Dirasah al Shari’ah al Islamiyyah, (Beirut: Mu’assasah al Rishalah, 2nd Edition), 29
  23. Al Mahjuwb, ‘Azz al Din Muṣtafa, Intellectual Property: Islamic and lebia laws, 120
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...