Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 3 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

قانون ضرورت: اسلامی اور مغربی نظریات کا تعارف اور مقارنہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060030498_1074

Pages

63-84

DOI

10.36476/JIRS.3:1.06.2018.05

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/326/150

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/326

Subjects

Dharoorat Ḥajat Law of Necessity dharoorat ḥajat law of necessity

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

قرآن کریم نے شریعت محمدی کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا۔نبی کریم ﷺ نے اس کو "الحنفیة السمحة" (سیدھا اور آسان مذہب) قرار دیا۔اس کے مکمل اور جامع ہونے کی دوسری وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں انسانیت کی مجبوری کے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے۔انسانی ضروریات کا لحاظ رکھنا شریعت محمدی کے ان امتیازی اوصاف میں سے ہے ،جنہوں نے اس کو ابدیت فراہم کی ہے۔ مغربی قانون میں بھی انسانی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔مختلف عدالتی فیصلوں میں اس کے شواہد موجود ہیں۔اس مقالہ میں انسانی ضروریات کے لحاظ رکھنے میں اسلام اور مغرب کے نقطۂ ہائےنظر کو پیش کیا گیا ہے۔ مغربی قانون میں اس کے لئے "law of necessity" کا لفظ مستعمل ہے۔مقالہ نگار نے اسلام کے تصور ضرورت کے لئے بھی "قانون ضرورت " کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اسلامی تصور ضرورت کی وضاحت کے لئے یہ اصطلاح شاید اس سے قبل استعمال نہیں ہوئی۔فقہی ذخیرے میں اس کے لئے عموماً "قاعدہ" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔عربی زبان میں دکتور وہبہ الزحیلی نے "نظریۃ الضرورۃ الشرعیہ" اور اردو زبان میں ڈاکٹر عبدالمالک عرفانی نے "اسلامی نظریہ ضرورت" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اگرچہ قانون اصطلاحی طورپرلزوم کے لئے ہوتا ہے۔لیکن بعض استثنائی صورتوں کو بھی جدید اصطلاحات کی رو سے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔اسلئے مقالہ نگار نے قانون ضرورت کی اصطلاح کو ترجیح دی ہے۔

فقہاء نے اسلام کے تیسیری مزاج کے پیش نظر مختلف اصول ذکر فرمائے ہیں۔رفع الضرر کے جامع اصول کے تحت ضرورت و حاجت کے مختلف قواعد بیان کئے جاتے ہیں۔رفع الحرج،عموم بلویٰ اور اکراہ کے اصول بھی قانون ضرورت کا حصہ ہیں۔مفہوم کی وسعت کی وجہ سے ضرورت اور حاجت کے اصولوں کو کافی شہرت ملی ہے۔گویا ضرورت اور حاجت اسلام کے یسر و تخفیف اور قلتِ تکلیف کے نمائندہ اصول ہیں۔ اس لئے اس مقالہ میں اسلام کے قانون ضرورت کے تحت ضرورت اور حاجت کے دو اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔

وحی الٰہی سے ماخوذ ہونے کی وجہ سے اسلام کا تصور ضرورت زیادہ جامع ہے۔حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ضرورت یا حاجت کے استثنائی قوانین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔مغربی قانون میں قانون ضرورت کا وجود ہے۔لیکن اسلامی قانون ضرورت کی طرح جامع نہیں ہے۔ اردو زبان میں مغربی قانون ضرورت کی وضاحت پر تسلی بخش کام نہیں ہوا۔"شریعت اسلامی اور وضعی قانون میں ضرورت کا مفہوم اور اس کا دائرہ کار "کے نام سے ڈاکٹر زینب امین کا مقالہ ہزارہ اسلامیکس میں جولائی 2012 ءمیں شائع ہوالیکن وضعی قانون کے حوالے سے اس میں ڈاکٹر عبدالمالک عرفانی کی کتاب "اسلامی نظریہ ضرورت" پر کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ زیر نظرمقالہ میں اسلامی اور مغربی قوانین ضرورت کی تفصیلات بیان کرنے کے ساتھ دونوں کا تقابل کیا گیا ہےتاکہ قاری کے سامنے دونوں تصورات کا فرق واضح ہوجائے۔

اسلام کاقانون ضرورت

اللہ رب العز ت نے انسانوں کو باعتبار قویٰ مختلف پیدا فرمایا ہے۔کمزور وضعفاء پر مشتمل انسانیت کے لئے اسلام ہی واحد راہ نجات ہے ۔دین فطرت ہونے کے ناطے اسلام نے بندوں کے مفادات ومصالح اور ضروریات کی کامل رعایت رکھی ہے۔مزاج شریعت ہے کہ کسی شخص کو طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کیا جا سکتا ،یہ امر بھی طے شدہ ہے کہ انسان فطرتی طور پر کمزور واقع ہوا ہے۔اس کی جملہ ضروریات سے واقف اس کے خالق نے انسان کی اس کمزوری کو بطور خاص مد نظر رکھا ،چنانچہ شریعت اسلامی کا مزاج ہی یُسروالا بنا دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ"[1]

"اورتم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی"

ذیل میں نبی کریم ﷺ کے چند فرامین نقل کئے جاتے ہیں:

1۔دین بہت آسان ہے ۔[2]

2۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ دین ہے جو سچا اور سیدھا ہے [3]۔

3۔ رسول اللہ (ﷺ) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ (ﷺ) ان میں سے آسان کام کو اختیار فرما لیتے اگر وہ گناہ نہ ہوتا۔[4]

شارع علیہ السلام کو احکام میں تخفیف کا کس قدر اہتمام تھا ،اس حدیث سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

4۔ اگر میں اپنی امت کیلئے شاق نہ جانتا، تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔[5]

نبی کریم ﷺ نےحضرت معاذ اور ابو موسیٰ اشعری کو یمن بھیجتے وقت نرمی اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔

5۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوموسیٰ اور معاذ رضی اللہ عنہم کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا نرمی کرنا سختی نہ کرنا۔[6]

اس امتیازی یسر و تخفیف کی حکمت بظاہر یہ لگتی ہے کہ یہ دین ابد تک رہے گااور ہر قسم کے لوگ اس کے مخاطب ہیں۔اگر اس میں ناقابل برداشت مشکلات کا وجود ہوتا تو ممکن ہے کسی کو اس کے ناقابل عمل ہونے کی شکایت کا موقع مل جاتالیکن تخفیف پیدا کرکے گویا اللہ نے فرار کے تمام راستے مسدود فرمادئیےاور اس تخفیف کا دائرہ کارصرف عبادت تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں اس کو بروئے کار لانے کے مواقع پیدا فرمائے۔

قانون ضرورت اسی یسر و تخفیف پر مشتمل ہے۔بعض اوقات انسان کسی ایسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہےجس سے نکلنے کے لئے کوئی غیرشرعی کام کرنا اس کی مجبوری ہوتی ہےاگر اس وقت وہ غیر شرعی کام نہ کرے تو اس کی جان،دین،مال،عقل یا نسل کو خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ایسی صورتحال میں غیر شرعی کام کرنے کی گنجائش دینا قانون ضرورت کہلاتا ہے جس کی اپنی تفصیلات اور شرائط ہیں۔

مختلف حالات میں قانون ضرورت کا سہارا لینے کی گنجائش ہوتی ہے۔ان میں اضطرار،اکراہ،ضرر،مشقت،عموم بلویٰ اور حرج شامل ہیں۔یہ تمام امور قانون ضرورت کے مختلف اجزاء ہیں۔ضرورت اور حاجت اصطلاحی طور پر "قاعدہ رفع الضرر" کےتحت مندرج ہوتے ہیں۔لیکن دور حاضر میں ان دونوں اصطلاحات کو کافی شہرت حاصل ہے۔کسی بھی مشکل حالت میں گرفتار انسان کو انہی دونوں اصطلاحات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔امام غزالی نے مقاصد شریعت کے جو تین مراتب بیان کئے وہ بھی ضروریات ،حاجیات اور تحسینیات پر مشتمل ہیں۔تحسینیات ہماری بحث سے خارج ہیں جبکہ ضروریات اور حاجیات کی مختصر وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے۔

ضرورت کی لغوی تعریف

ازروئے لغت ضرورت کا مادہ "ضر"ہے۔یہ لفظ ضاد کے زبر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے،بعض اہل لغت نے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا،جبکہ بعض کا خیال ہے کہ پیش کے ساتھ اسم ہے اور زبر کے ساتھ مصدر ۔یہ لفظ نفع کی ضد ہے،اور نقصان،تنگی اور سختی کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔اس مادہ سے نکلنے والے تمام الفاظ میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے۔[7]

ضرورت کی اصطلاحی تعریف

ضرورت فقہاء و اصولیین کے ہاں مشقت اور تنگی کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔تاہم مشقت کے درجات کے اعتبار سے تعبیرات مختلف ہیں ۔تتبع عبارات کے نتیجے میں دو طرح کے نقطہ ہائے نظر کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

۱۔حفظ نفس کے راستے میں ایسی رکاوٹ کا پیش آنا ،جس کو ہٹائے بغیر حصول مقصود ممکن نہ ہو ،ضرورت ہے۔

اس تعریف کے مطابق ضرورت سے مراد نفس کو لا حق حرجِ شدیدہے ۔اس کا تعلق صرف حفظِ نفس سے ہے گویا ضرورت سے یہاں مراد وہی کیفیت ہے جس کو قرآن کریم میں"اضطرار"[8] سے تعبیر کیا گیا ہے۔

علامہ ابن ھمام اورامام سیوطی سے یہی تعریفات منقول ہیں ۔[9][10]یہ تعریف انہی الفاظ کے ساتھ امام سیوطی سے بھی منقول ہے،[11]حنابلہ نے بھی ضرورت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ۔[12]مالکیہ میں سے شیخ دردیر نے ضرورت کو جان کی ہلاکت کے ساتھ خاص کیا ہے[13]۔

مذکورہ بالا تمام تعریفیں صرف غذائی ضرورت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نامکمل ہیں اور ضرورت کے کامل مفہوم پر مشتمل نہیں ہیں۔یہ تعریفیں ضرورت کی اس عام بنیاد کا تعین نہیں کرتیں جن کی وجہ سےانسان معمول کی حالت سے ہنگامی حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔

۲۔ضرورت کی دوسری تعریف توسع پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق نظام حیات میں خلل پیدا کرنے والے امور ضرورت میں دا خل ہیں ،نظام حیات سے مراد وہ عناصر ہیں جو زندگی کے سفر میں انسان کو مدد فراہم کرتے ہیں انھی کو"مقاصد شریعۃ" سے تعبیر کیا جاتا ہےجس کا ذکر امام غزالی نے حسب ذیل کیا ہے:

"مخلوق کی بابت پانچ چیزیں شریعت کے ملحوظ خاطر ہیں وہ یہ کہ ان کے دین ،نفس ،عقل،نسل اور مال کی حفاظت ہو،پس ہر وہ چیز جس سے ان پانچوں کی حفاظت ہوسکتی ہو،مصلحت ہے"[14]

مقاصد شریعت کی وضاحت کے بعد امام غزالی "ضرورت "کی تعریف کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وَهَذِهِ الْأُصُولُ الْخَمْسَةُ حِفْظُهَا وَاقِعٌ فِي رُتْبَةِ الضَّرُورَاتِ"[15]

"ان پانچ بنیادی عناصر کا تحفظ ضرورت کے درجہ میں آتا ہے"

اس تعریف میں امام نے حفظ نفس سے تجاوز کرکے مقاصدِ خمسہ کا تحفظ ضرورت قرار دیا۔

ضرورت کی بے غبا ر اور واضح تعریف محقق شاطبی نے فرمائی ہے،ان کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

"ضرورت سے مراد وہ چیز ہے جو دین ودنیاکی مصلحت کے لئے از حد ضروری ہو اس طرح کہ اس کےنہ ہونے سے یا تو حیات ہی جاتی رہے اور یا دینی ودنیاوی امور میں درستگی کی بجائے اضطراب وبگاڑ پیدا ہو اور آخرت میں نجات آرام اور آسائش میسر نہ ہو اور وہ بالکل گھاٹے میں پڑ جائے"[16]

شاطبی نے ضرورت کے مفہوم میں توسع اختیار کیا ہے اور اس کے دائرہ کار میں دینی و دنیاوی مصالح میں آسانی پیدا کرنے والے امور بھی شامل کئے ہیں ۔

اس دوسرے نقطہ نظر کے مطابق انسانی زندگی میں جہاں کہیں ناقابلِ برداشت تنگی در آئے،یہ صورتحال ضرورت کہلائے گی۔اصطلاحی انداز میں یوں کہا جاسکتا ہے،کہ مقاصدِ خمسہ کے تحفظ کی راہ میں پیش آنے والی شدید مشقت ضرورت ہے۔

حاجت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

حاجت کے لغوی معنی

حاجت کا مادہ "حوج "ہے، لغوی طور پر فعل "احتیاج"کا اسم مصدر ہے ،ضرورت کی طرح حاجت کا واضح معنیٰ لغات میں نہیں ملتا،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی مناسب مترادف ان کی نظر میں نہیں آیا۔کتب لغت کے تتبع سے حاجت کے متعدد معانی سامنے آتے ہیں:

۱۔ غرض ،رغبت ،ماربہ[17]

۲۔نفس ضرورت کے لئے،جیسا کہ قاموس المحیط میں ضرورت کو حاجت کا مترادف قرار دیا گیا ہے [18]

۳۔کسی چیز کی طرف احتیاج کا ہونا[19]

حاجت کی اصطلاحی تعریف

اہل لغت کی طرح علمائے اصول کی عبارات بھی حاجت کے باب میں مضطرب ہیں ۔ امام الحرمین نے اس کو لفظ مبہم قرار دیتے ہوئے اس کی واضح ودوٹوک تعریف کو مشکل قرار دیا۔لکھتے ہیں:

"حاجت ایک مبہم لفظ ہے اس میں منضبط بات کرنا مشکل ہے ۔۔۔۔اور یہ ممکن نہیں کہ حاجت کے باب میں ایسی عبارت لائی جائے جس سے ہم اس کو خاص اور ممیز طور پر واضح کریں جس طرح نام اورلقب سے مسمی اور ملقب کو واضح کیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی عبارت لائی جائے جو اس کو فہم کے قریب اور اس کی ترتیب اس طرح واضح کردے کہ مطلب حاصل ہو جائے ۔"[20]

شاطبی نے حاجت کی واضح تعریف کی ہے۔لکھتے ہیں:

"حاجیات سے مراد ہے کہ اکثر اوقات حرج کا باعث بننے والی تنگی اور مقصود سے محرومی کی تکلیف سے نجات کے لئے اس کی حاجت محسوس کی جائے۔اگر اس کی رعایت نہ کی جائے تو مکلفین فی الجملہ حرج ومشقت سے دو چارہو جائیں لیکن مشقت اس درجے کی نہیں ہوتی جو عام طور پر مصالح عامہ میں پائی جاتی ہے"[21]

محقق شاطبی کی تعریف سے حاجت خاصہ کا تصور خاصا واضح ہوجاتا ہےکہ اس کی طرف احتیاج و افتقار بغرضِ وسعت و تیسیر ہوتا ہےنیز اگر بوقتِ حاجت اس ممنوع کا استعمال نہ کیا جائے تو مبتلا بہ تنگی اور دشواری میں پڑ جائے۔

یہی تعریف شیخ ابو زہرہ نے یوں بیان کی ہے:

"(حاجت سے مراد یہ ہے) کہ اس میں شرعی حکم اصول خمسہ کی اصل سے متعلق نہیں ہوتا ،بلکہ ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہےیا ان مقاصد کے تحفظ کے لئے احتیاطی تدابیر کے طور پراختیار کیا جاتا ہے"[22]

شیخ ابوزہرہ نے محقق شاطبی کی بات کو ایک مختلف پیرائے میں بیان کرکے گویا تعریف کو بالکل بے غبار کردیا۔کہ مقاصدِ خمسہ کی راہ میں حائل رکاوٹ حاجت کہلاتی ہے۔گویا نفسِ مقاصد کو پورا کرنا ضرورت اور ان مقاصد کی راہ میں حائل مشقت دور کرنا حاجت کہلاتا ہے۔

ان تعریفات کومدنظر رکھتے ہوئے حاجت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ تنگی و مشقت دور کرنے اور وسعت حاصل کرنے کے لئے کسی ایسے امر کی طرف احتیاج جو شرعاً محظور ہو،حاجت کہلاتا ہے۔

ضرورت اور حاجت کے درمیان فرق

عام طور پر ضرورت و حاجت کے درمیان فرق بیان کرنے کو مشکل سمجھا جاتا ہے،وجوہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ضرورت وحاجت دونوں کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال،جیسا کہ بعض اہل لغت نے کیا ہے کہ ضرورت کی وضاحت حاجت سے کردی۔

فقہاءسے بھی اس طرح کا استعمال ثابت ہے چنانچہ امام سرخسی نےدلالۃ الاقتضاء پر بحث کرتے ہوئے اکثر مقامات پرضرورت و حاجت کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال فرمایا ہے۔[23]

۲:دونوں اصطلاحات کی واضح اور دو ٹوک تعریفات کی عدم دستیابی نے بھی ان کے درمیان تفریق مشکل بنا دی ہے۔

۳:باہمی تقارب کی وجہ سے بھی فرق مشکل ہے ۔چنانچہ زرکشی لکھتے ہیں:

"اور کبھی ان کے تقارب کی وجہ سے کسی چیز کا ضرورت یا حاجت کے ساتھ متعلق ہونے میں شبہ پڑ جاتا ہے"[24]

امام رازی لکھتے ہیں:

"ان مراتب میں سے ہر ایک کے بارے میں کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ اس قسم میں سے ہیں،اور کبھی اس میں سے معلوم نہیں ہوتے،بلکہ گمانوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان میں بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے"[25]

عموماً فقہی ذخیرے میں ضرورت و حاجت کو اکٹھا ذکر کردیا جاتا ہےتاہم ان کے درمیان واضح فرق موجود ہے،علامہ ابنِ تیمیہ کی عبارت ملاحظہ ہو:

"اکثر شرعی احکام میں ضرورت وحاجت کے درمیان فرق واضح ہے"[26]

مشقت کے اعتبار سے دونوں مصطلحات کے درمیان فرق کیا جاسکتا ہے،مشقت ایک اضافی شے ہے،اصولین نے اس کی کئی اقسام بیان کی ہیں۔ایک تو وہ مشقت ہے جو لازمی طور پر احکام شریعہ کے ساتھ پائی جاتی ہے، یہ مشقت بذات خود مقصود ہے اور معمول کی مشقت یا مشقت معتادہ ہے ۔ظاہر ہے کہ بندہ اس مشقت کا مکلف ہے اور یہ احکام میں تخفیف کا باعث نہیں ہے۔دوسری قسم کی مشقت وہ ہے جو احکام شرعیہ کے ساتھ لازمی طور پر نہیں پائی جاتی۔یہ تین قسم کی ہے ایک تو شدید درجے کی مشقت ، جس کو مشقت "عظیمہ قادحہ "کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ایسی مشقت کے احکام میں مؤثر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ،دوسری بالکل معمولی درجہ کی مشقت ہے جس سے کوئی دشواری نہیں ہوتی،اس کا کوئی اعتبار نہیں ،جیسے انگلی میں معمولی سی تکلیف،یا جسم میں ہلکا سا درد۔تیسرے نمبر پر وہ مشقت آتی ہے جو ان دونوں کے درمیان ہو،جیسے ہلکا بخار،یا دانت میں نسبتا کم درجے کا درد۔اس مشقت کا اعتبار کرنے میں اختلاف ہے۔جو اس کو قسم اول کے ساتھ لاحق کرتے ہیں،وہ اس کا اعتبار کرکے اس کی وجہ سے احکام میں تخفیف کے قائل ہیں اور جو قسم ثانی پر اس کو قیاس کرتے ہیں، وہ اس کا اعتبار نہیں کرتے۔[27]

ضرورت وحاجت کا مدار مشقت پر ہے ۔ہر وہ مشقت جس سے ہلاکت نفس کا خدشہ ہو،یا مقاصد خمسہ میں سے کسی ایک کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو ،ضرورت کے درجے میں آئے گی اور ہر وہ مشقت جو مقاصد خمسہ پر عمل درآمد کی راہ میں تنگی پیدا کرے وہ حاجت ہے۔

عزالدین بن عبد السلام رقیق اور قریب کے نفقہ کے بیان میں کہتے ہیں کہ رقیق اگر حالت اضطرار میں ہو تو اس کا نفقہ قریب پر مقدم ہوگا،لکھتے ہیں:

"اوریہ اس وقت ہے جب رقیق مضطر ہو،ہلاکت کا اندیشہ ہو،اور قریب محتاج ہو جس کو ہلاکت کا خوف نہ ہو"[28]

اس عبارت میں ضمنی طور پر یہ بات بھی بیان ہوگئی کہ مضطر وہ ہوتا ہے جس کو جان کا خوف ہو،جبکہ محتاج جان کے خطرے سے محفوظ رہتا ہے۔

مشقت کی درج بالا اقسام کے تناظر میں کہا جاسکتا ہےکہ ضرب ثانی کی نوع اول ضرورت ہے ۔نوع ثانی کو تحسینیات کے درجے میں درج کیا جاسکتا ہےاور ان دونوں کا درمیانی درجہ حاجت ہےگویا کہ حاجت میں ضرورت کے مقابلے میں نسبتاً کم اور تحسینیات کے مقابلے میں زیادہ درجے کی مشقت ہوتی ہے ۔اس کا دارومدار فقہاء پرہے کہ وہ اس کی تعیین کس طرح کرتے ہیں؟

ضرورت وحاجت قرآن کریم و احادیث کی روشنی میں

ضرورت قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم میں لفظ ضرورت بعینہ استعمال نہیں ہوا،اسی مفہوم کے لئے اسی مادے سے قرآن کریم میں لفظ اضطرار استعمال کیا گیا ہے،پانچ مرتبہ قرآن کریم میں لفظ اضطرار استعمال ہوا ہے،ذیل میں وہ آیات درج کی جاتی ہیں:

"فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ"[29]

"ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو(اور ان چیزوں میں سے کچھ کھالے)جب کہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ(ضرورت کی حد)سے آگے بڑھے ،تو اس پر کوئی گناہ نہیں"

یہاں اضطرار سے مراد وہی حالت ہے،جس کو ہم ضرورت کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں،چنانچہ امام رازی اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"لما حرم الله تعالى تلك الأشياء، استثنى عنها حال الضرورة"[30]

"جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام اشیاء کا ذکر فرمایا،تو ضرورت کی حالت کو اس سے مستثنیٰ فرمادیا"

2۔ "فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ"[31]

"ہاں جو شخص شدید بھوک کے عالم میں بالکل مجبور ہو جائے(اور اس مجبوری میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے)۔بشرطیکہ گناہ کی رغبت کی بنا پر ایسا نہ کیا ہو"

3۔ "وقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ"[32]

"حالانکہ اس نے وہ چیز تمھیں تفصیل سے بتادی ہے جو اس نے تمھارے لئے(عام حالات میں)حرام قرار دی ہے"

4۔ "فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ"[33]

"ہاں جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہوجائے جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے"

5۔ "فمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ"[34]

"البتہ جو شخص بھوک سے بالکل بے تاب ہو، لذت حاصل کرنے کے لیے نہ کھائے، اور (ضرورت کی) حد سے آگے نہ بڑھے تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے"

حاجت قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم میں لفظ حاجت تین مرتبہ استعمال ہوا ہے[35]چونکہ مفسرین کا کام آیت کا مفہوم متعین کرنا ہے نہ کہ شرح مفردات،اس لئےاکثر مفسرین نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہاں حاجت سے کیا مراد ہے،البتہ صاحب التحریر و التنویر نے وضاحت فرمائی ہےچنانچہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 68 کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"وَالْحَاجَةُ: الْأَمْرُ الْمَرْغُوبُ فِيهِ. سُمِّيَ حَاجَةً لِأَنَّهُ مُحْتَاجٌ إِلَيْهِ"[36]

"حاجت اس کام کو کہتے ہیں ،جو انسان کو مرغوب ہو،انسان کی اس کی طرف پائی جانے والی احتیاج کی وجہ سے اس کو حاجت کہا جاتا ہے"

"وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً"[37] کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"حاجت اصل میں حوج مصدر سے اسم ہے۔جو احتیاج یعنی کسی چیز کی طرف افتقار کو کہا جاتا ہے"[38]

فقہی طور پر اصطلاحی حاجت کے اعتبار کرنے کا ان آیات میں ذکر نہیں ہے۔قرآن کریم میں تیسیر و تخفیف کی آیات کے عموم سے حاجت کے اعتبار کرنے کا استدلال کیا جاتا ہےکیوں کہ حاجت بھی مشقت ہی کی ایک قسم ہے۔

ضرورت احادیث کی روشنی میں

مقاصد خمسہ کاتحفظ نبی کریم ﷺ کی نگاہ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فقہ اسلامی کی اصطلاحی ضرورت کا اعتبار فرمایا ہے۔یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سرکار دوعالم ﷺ کے مندرجہ ذیل فرامین یا فیصلوں میں ضرورت کا لفظ صراحتاً موجود نہیں۔اصطلاحات تو بعد کی پیداوار ہیں البتہ حالات وہی ہیں جو ہماری اصطلاحی ضرورت کے تحت مندرج ہوتے ہیں۔

1۔حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ حرہ کے ایک گھر والے کافی محتاج اور ضرورت مند تھے،ان کی یا کسی اور کی اونٹنی مر گئی تو نبی کریمﷺ نے ان کو اس کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی۔(راوی نے) کہاکہ اسی (مردہ اونٹنی )نے ان کو بقیہ سردی یا بقیہ سال (مرنے سے) محفوظ رکھا۔[39]

2۔ابو واقد اللیثیؓ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!اگر ہم کسی جگہ بھوک سے دوچار ہوں تو کیا مردار ہمارے لئے حلال ہوگا؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر تمہیں صبح کھانے کو کچھ نہ ملےاور شام کے وقت پینے کو کچھ دستیاب نہ ہواور سبزی بھی نہ ہو،جو تم کھا سکو،(یعنی کھانے کو کچھ بھی نہ ملے) تو پھر(مردار) کھاسکتے ہو۔[40]

مردار کھانا ان محرمات میں سے ہےجن کی حرمت قطعی ہےلیکن مذکورہ احادیث میں لوگوں کی ضرورت کے پیشِ نظر نبی کریم ﷺ نے ان کو مردار کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

حفظ مال مقاصد خمسہ میں سے ہے،اسی طرح دوسرے شخص کی جان کو نقصان پہنچانا حرام ہےلیکن حفظ مال کی خاطر ڈاکو کی جان کی حرمت شریعت نے ختم کی،درج ذیل روایت ملاحظہ ہو:

3۔ حضرت سعید بن زیدؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔[41]

اس فرمان میں نبی کریم ﷺ نے انسانی ضروریات یامقاصد خمسہ میں سے تین یعنی حفظ مال،حفظ نسل،اور حفظ دین کی خاطر انسانی جان کی حرمت کو ختم فرمادیا۔

حاجت احادیث کی روشنی میں

ذیل میں وہ احادیث درج کی جائیں گی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انسانی حاجات کا اعتبار فرمایا ہے:

1۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوفؓ اور زبیر بن العوامؓ نے ایک جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ سے جوئیں پڑنے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو ریشم کی قمیص پہننے کی اجازت دی۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان دونوں کو یہ کرْتے پہنے ہوئے دیکھا ہے۔[42]

2۔حضرت عرفجہ بن اسعدؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کلاب کی جنگ کے موقع پر میری ناک کٹ گئی میں نے چاندی کی ناک بنوائی لیکن اس میں بدبو آنے لگی تو نبی کریم ﷺ نے مجھے سونے کی ناک بنانے کا حکم دیا۔[43]

مرد کے لئے سونے اور ریشم کا استعمال ازروئےشریعت حرام ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے مختلف اشخاص کو ان کی حاجت کی بنا پر اس کی اجازت عنایت فرمائی ۔اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے حاجت کا اعتبار فرمایا ہے۔یہاں اس مشقت کو حاجت سے یہ مقالہ نگار تعبیر کر رہا ہے،وجہ یہ ہے کہ جوئیں پڑجانا یا ناک میں بدبو کا پیدا ہونا مقاصد خمسہ کے ضیاع کا سبب نہیں البتہ مقاصد خمسہ میں سے حفظ جان کے حصول میں مشکل پیدا کرنے کا باعث ہیں اور مقاصد خمسہ کے حصول میں مشکل پیدا کرنے والی حالت کو حاجت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔واللہ اعلم

3۔حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺایک سفر میں تھے آپ ﷺنے ایک آدمی کو دیکھا کہ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہیں اور اس پر سایہ کیا گیا ہے تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس آدمی کو کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیایہ ایک آدمی ہے جس نے روزہ رکھا ہوا ہے تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ نیکی نہیں کہ تم سفر میں روزہ رکھو[44]

روزہ فرض ہےلیکن سفر کی مشقت کا اعتبار کرکے مسافر کو رخصت دی گئی چونکہ یہ مشقت ضرورت سے کم درجے کی ہےکیونکہ اس میں حفظ جان کو خطرہ عام طور پر لاحق نہیں ہوتا اس لئے اس کو حاجت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

4۔ابوالبداح بن عدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے چرواہوں کو ایک دن کنکریاں مارنے اور ایک دن چھوڑنے کی رخصت دی۔[45]

حجاج کے لئے منیٰ میں رات گزارنا امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک سنتِ مؤٔ کدہ ہے اور امام مالک اورامام شافعی کے ہاں واجب ہے۔اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے چرواہوں کو ان کے عذر کی وجہ سے دو مواقع میں رخصت دی،منیٰ میں رات گزارنے کی اور رمی کو وقت ِ مسنون سے مؤخر کرنے کی۔[46]

یہاں چرواہوں کی یہ مشقت ضرورت کے تحت مندرج نہیں کی جاسکتی،اس کو حاجت ہی کہا جاسکتا ہے۔

ضرورت و حاجت کا دائرہ کار

پچھلے عنوانات میں واضح کیا جاچکا ہے کہ شریعت اسلامی کا مدار یسرو تخفیف پرہے۔مشقت وتنگی کے پیش نظر احکام میں تخفیف کی جاتی ہے۔خود قرآن کریم نے اس کی اساس فراہم کی ہے چنانچہ ارشاد ہے:

"فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَیْهِ"[47]

"ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو(اور ان چیزوں میں سے کچھ کھالے)جبکہ اس کا مقصد لذت حاصل کرنا نہ ہو اور نہ وہ (ضرورت کی)حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں"

اضطراری حالت میں حرام چیز سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کی گنجائش اس آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ہماری اصطلاح میں ضرورت اور اضطرار مترادف الفاظ ہیں۔ضرورت اور حاجت میں مشقت کے اعتبار سےتفاوت ہوتا ہے۔اسی طرح ممنوعات میں بھی حرمت کے درجات مختلف ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کس نوعیت کی حرمت کے لئے ضرورت کے درجے کی مشقت کا ہونا ضروری ہےاور حاجت کا وجود کہاں کافی ہے۔[48]اس کے بارے میں تین طرح کی آراء پائی جاتی ہیں:

۱۔ایک رائے یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے محرمات کی اباحت کا حکم لگایا جا سکتا ہےخواہ وہ محرمات کسی بھی قبیل سے ہوں جبکہ حاجت صرف عبادات میں تخفیف کا باعث بن سکتی ہے چنانچہ غمز عیون البصائر میں ہے:

. "ضرورت کا مطلب ہے مشقت کا اس درجے تک پہنچنا ،جہاں ممنوع استعمال نہ کرنے کی صورت میں موت کا خدشہ ہو،یہ درجہ حرام کو جائز کردیتا ہے اور حاجت جیسے کہ اتنی بھوک لگی ہو ،کہ نہ کھانے کی صورت میں صرف تنگی کا اندیشہ ہو ،ہلاکت کا خطرہ نہ ہو ،اس درجے کی مشقت سے حرام حلال نہیں ہوتا ،البتہ روزہ افطار کرنے کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے"[49]

اس عبارت میں حاجت کی وجہ سے روزہ افطار کرنے کی گنجائش کا ذکر کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجت صرف عبادات میں تخفیف کا سبب بن سکتی ہے۔

۲۔دوسری رائے یہ ہے کہ جن امور کی ممانعت منصوص ہو ان کی اباحت ضرورت کی بنیاد پر ہوسکتی ہے البتہ جو امور قیاس کی بنیاد پر ممنوع ہوں یاعمومی شرعی قواعد کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان کو ممنوع قراردیا گیا ہو ،ان کی ممانعت حاجت کی وجہ سے بھی رفع ہوسکتی ہے ۔یہ نقطۂ نظر ڈاکٹر وہبہ زحیلی کا ہے۔[50]

۳۔تیسری رائے یہ ہے کہ ضرورت چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی،محظورات کی اباحت میں کارگر ہوتی ہے جبکہ حاجت کے مؤثر ہونے کے لئے اس کا اجتماعی ہونا ضروری ہے کیونکہ شریعت ہر شخص کے لئے الگ قانون نہیں بنا سکتی۔یہ موقف شیخ مصطفیٰ الزرقا کا ہے۔[51]

حقیقت یہ ہے کہ حاجت کا دائرہ کار صرف عبادات تک ہی نہیں بلکہ معاملات اور جنایات میں بھی حاجت مؤثر ہے ۔ چنانچہ شاطبی لکھتے ہیں:

"وَهِيَ جَارِيَةٌ فِي الْعِبَادَاتِ، وَالْعَادَاتِ، وَالْمُعَامَلَاتِ، وَالْجِنَايَاتِ"[52]

"حاجت کا اجراء عبادات ،عادات،معاملات اور جنایات میں ہوتا ہے "

عادات میں حاجت کے مؤثر ہونے کی مثال شکار کا مباح ہونا ہے ۔معاملات کے باب میں مساقات اور سلم جبکہ جنایات میں قسامہ اور عاقلہ پردیت کے لاگو ہونے کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔اس طرح غیر منصوص احکام کے ساتھ ساتھ حاجت منصوص احکام میں بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے جیسے استقراض بالربح اور علاج کی غرض سے کشف عورت کی اجازت وغیرہ بسبب حاجت دی گئی ہے۔نیز شریعت میں انفرادی حاجت کا اعتبار نصوص سے ثابت ہے جیسے کہ ایک صحابی کی حاجت کی وجہ سے ان کو ریشم کے استعمال کی اجازت دی گئی۔[53] بنابریں ماقبل میں درج شدہ آراء کمزور معلوم ہوتی ہیں۔

معلوم ہوا کہ حاجت عبادات،عادات،معاملات اور جنایات میں مؤثر ثابت ہوتی ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی نیز غیر منصوص کے ساتھ کبھی منصوص احکام میں بھی مؤثر ہوتی ہے۔

۴۔ چوتھا موقف یہ ہے کہ ضروت کی وجہ سے حرام لعینہ اور حاجت کی وجہ سے حرام لغیرہ بھی مباح بن جاتا ہے ۔

استاذابو زہرہ لکھتے ہیں :

"جہاں تک حرام لذاتہ کا تعلق ہے،وہ صرف ضرورت کی وجہ سے مباح ہوتاہےاور حرام لغیرہ کو بجائے ضرورت کے حاجت کی وجہ سے بھی مباح کیا جاسکتا ہے"[54]

ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

"وہ محرمات جن کاکھانا پینا حرام ہے جیسے مردار اور خون،ضرورت کی وجہ سے مباح ہوتے ہیں،اور جن کی پاکیزگی کے باوجود ان کا ارتکاب حرام ہے جیسے سونا اور ریشم،وہ حاجت کی وجہ سے مباح ہوتے ہیں"[55]

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

"جو چیز اپنی ماہیت میں خبث پائے جانے کی وجہ سے حرام ہو ،اس کی حرمت زیادہ سخت ہے بہ نسبت اس کے جس میں تکبر،فخر اور اِترانا پایا جاتا ہوکیونکہ یہ اتنی ہی مقدار کو حرام کرتا ہےجتنا اس کا تقاضا ہوتا ہےاور حاجت کی وجہ سے مباح بھی ہوجاتا ہےجیسے کہ خواتین کے لئے سونے اور ریشم کا استعمال زینت کی طرف ان کی حاجت کی وجہ سے مباح ہے اور مرد کے لئے حرام ہے"[56]

ان دونوں عبارات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حرام لذاتہ اور لغیرہ کے درمیان فرق کررہے ہیں۔خون اور مردار حرام لذاتہ کے زمرے میں آتےہیں اس لئے ان کی اباحت کے لئے حاجت کافی نہیں بلکہ ضرورت ہی ان کے لئے مبیح بن سکتی ہے۔اسی طرح سونا اور ریشم مرد کے لئے حرام ہےلیکن چونکہ اس کی ماہیت میں خبث نہیں پایا جاتا اس لئے بوقت حاجت اس کی اجازت ہوتی ہے جیسے نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو ان کی انفرادی حاجت کی وجہ سے اجازت دی تھی۔ اسی طرح خواتین بھی زیب و زینت کے لئے ان کی محتاج ہوتی ہیں اس لئے ان کے لئے ان دونوں اشیاء کو مباح کیا گیا۔ابن قیم لکھتے ہیں:

"فَإِنَّ مَا حُرِّمَ سَدًّا لِلذَّرِيعَةِ أَخَفُّ مِمَّا حُرمَ تَحْرِيمَ الْمَقَاصِدِ"[57]

"جس چیز کو سدا للذرائع حرام کیا گیا ہو اس کی حرمت اس کے مقابلے میں کم درجے کی ہوتی ہے جس کومقاصد (خمسہ کی حفاظت ) کے لئے حرام کیا گیا ہو"

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

مَا حُرِّمَ سَدًّا لِلذَّرِيعَةِ أُبِيحَ لِلْمَصْلَحَةِ الرَّاجِحَةِ[58]

"جس چیز کو سدا للذرائع حرام کیا گیا ہو وہ مصلحت کی وجہ سے مباح کی جاسکتی ہے"

ماقبل میں ذکر کردہ وجوہات کی بنیاد پر یہ چوتھا موقف زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے،کہ حرام لذاتہ کی حرمت ذاتی ہونے کی وجہ سے شدید نوعیت کی ہوتی ہے اس لئے یہ ضرورت کی وجہ سے ہی مباح بن سکتا ہے البتہ حرام لغیرہ کی حرمت سدا للذرائع ہوتی ہے اس لئے اس کو حاجت کے درجے کی مشقت بھی مباح کرسکتی ہے۔

ضرورت اور حاجت کے اعتبار کی شرائط

فقہاء نے ضرورت اور حاجت کے تحقق کے لئے کچھ شرائط مقرر کی ہیں،جن کی بناء پر مکلف کے لئے مشقت سے آسانی کی طرف منتقل ہونا جائز ہوجاتا ہے،ان میں سے کچھ اہم شرائط درج ذیل ہیں:

1۔ضرورت یا حاجت واقعتا موجود ہو یعنی محض اندیشوں کی بناء پر حرام کا استعمال جائز نہیں جب تک ہلاکت یا نقصان کا قوی خدشہ نہ ہو چنانچہ قرآن کریم نے جہاں کہیں اضطرار کا ذکر کیا ہےتو "فمن اضطر" یعنی فعل ماضی کا استعمال کیا ہے اور فعل ماضی اگر کبھی مستقبل کے معنیٰ میں استعمال ہو تو مستقبل میں اس امر کے وقوع کے یقینی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہےجیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے "اتیٰ امر اللہ"[59] بمعنیٰ "یقینا اللہ کا امر آئے گا"۔

2۔مضطر یا محتاج کے پاس حرام چیز کے استعمال کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہ ہو جس سے ضرر کو دور کرسکے۔یہ ضابطہ قرآن کریم کے الفاظ "غیر باغ" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مضطر شخص اس حرام کو خواہش پوری کرنے اور لذت حاصل کرنے کے لئے نہ کھائے۔[60]

3۔ضرورت یا حاجت کی حد سے تجاوز نہ کرےیعنی جتنی مقدار میں ضرورت یا حاجت پوری ہوتی ہو اتنی مقدار میں حرام کے استعمال کی اجازت ہے۔سیوطی لکھتے ہیں:

"مضطر صرف اتنی مقدار میں مردار کھا سکتا ہے،جس سے اس کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہے"[61]

معروف فقہی اصول ہے:

"مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا"[62]

"جس کو ازروئے ضرورت مباح کیا گیا ہو،وہ بقدر ضرورت ہی حلال ہوگا"

یہ تفصیل اس وقت ہے جب ضرورت انفرادی ہو،لیکن اگر اجتماعی ضرورت درپیش ہویا حاجت اجتماعی ضرورت کے درجہ میں پہنچ چکی ہوتو اس کے بارے میں امام الحرمین کا موقف یہ ہے کہ قدر ضرورت سے زائد بھی کھا سکتا ہے البتہ تعیش کی حد تک جانے کی گنجائش نہیں ہے۔

"حرام اگر پورے زمانے اور اہل زمانہ کو اپنے احاطے میں لے لے،اور لوگوں کے لئے رزق حلال کے دروازے بند ہوں،تو لوگ "حاجت" کے بقدر حرام میں سے لے سکتے ہیں،ایسی صورت میں ہم ضرورت کی شرط نہیں لگائیں گے"[63]

امام غزالی نے بھی احیاء علوم الدین میں اس پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔[64]

5۔کسی حرام کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی دوسرا اتنا بڑا ضرر لازم نہ آتا ہو جتنے بڑے ضرر سے بچنے کے لئے حرام کا ارتکاب کررہا ہے جیسے کسی کو مجبور کیا جائے کہ فلاں شخص کو قتل کروتو اس کے لئے قتل جائز نہیں ہوگا،نہ ہی ایسی حالت میں قانون ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔[65]

مغربی قانون میں نظریہ ضرورت

مغربی قانون میں نظریہ ضرورت کا مفہوم

مغربی قانون میں ضرورت کی اصطلاح انسان کے دفاع سے عبارت ہے۔اس کے لئے "Defence of necessity" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔امریکی عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں ضرورت کا درج ذیل مفہوم بیان کیا ہے:

1۔ضرورت ایک ناگزیر امر ہے،مجبوری ہے اور ایسی چیز ہے جسے چھوڑا نہ جاسکے۔[66]

2۔ضرورت کا صرف یہی مفہوم نہیں کہ وہ ناگزیر ہوتی ہے بلکہ یہ ایک اضافی نوعیت کی حامل ہے۔جو چیز ایک علاقے میں خواہش کا درجہ رکھتی ہے وہ کسی بڑے شہر میں ضرورت بھی بن سکتی ہے۔[67]

مشہور ماہر قانون چتی"Chitty" کا قول ہے کہ ضرورت کسی قانون کو نہیں جانتی۔[68]

جب کوئی شہری اتنا مجبور ہوجائے کہ قانون توڑنا اس کے لئے ناگزیر معاملہ بن جائے ایسی صورتحال کو مغربی قانون "Defence of necessity " کا نام دیتا ہے۔اس میں قانون شکن کو مجبور تصور کرکے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔

مغربی قانونِ ضرورت کی تاریخ

مغربی قانون میں ضرورت کا تصور کافی قدیم ہے۔تیسری صدی عیسوی میں رومی سلطنت کے معروف قانون دان "Domitus Ulpian" سے یہ نظریہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کو بچانے کے لئے کیا جانے والا کوئی بھی کام قابلِ سزا نہیں ہوتا۔[69]"Cannon Law" اہل کلیسا کا بنایا ہوا مغرب کا ایک قدیم قانون ہے۔اس قانون کا اصول ہے کہ ضرورت ناجائز کو بھی جائز کردیتی ہے اور سزا میں کمی کا باعث ہے۔[70]

"Samuel von pufendorf"سترہویں صدی کے معروف جرمن ماہر قانون،فلاسفر اور ماہر معاشیات ہیں۔انھوں نے قانون ضرورت کے متعدد اصول و ضوابط بیان کئے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کرنے والے یہ پہلے جرمن فلاسفر تھے۔[71]

ضرورت کے تصور کا آغاز جدیدمغربی قانون میں انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا۔1884ء میں ایک بحری جہاز کی تباہی کا حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کے متاثرین میں چار جہاز ران بھی شامل تھے۔جنہوں نے اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنے چوتھے ساتھی،جس کی عمر 17 برس تھی،کو قتل کرکے کھا لیا۔عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران آدم خوری کے اس جرم کو قانون ضرورت کا استثناء دینے سے انکار کیا اور مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی جس میں بعد میں تخفیف کردی گئی۔[72]

مغربی دنیا میں قانون ضرورت کی تطبیقات

ضرورت کے اسلامی نقطہ نظر کو قرآن وحدیث کی عبارات سے ثابت کیا گیا ہے۔مغربی قانون مجموعی طور پر وحی الٰہی کی روشنی سے محروم ہے۔ان کے ہاں قانون کا ماخذ عدالتی فیصلے یا قانون ساز اداروں کی قراردادیں ہوا کرتی ہیں۔ضرورت کے مغربی تصور کو ثابت کرنے کے لئے ہم عدالتی فیصلوں کے محتاج ہیں۔ذیل میں مغربی دنیا کی عدالتوں کے چند کیس پیش کئے جاتے ہیں جن کی بنیاد انسانی ضرورت کو قرار دیا گیا۔

1۔لارڈ ڈیننگ کا فیصلہ

لارڈ الفریڈ ڈیننگ معروف مغربی ماہر قانون ہیں۔1971ء میں ان کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔جس میں کچھ بے گھر لوگوں نے مقامی خالی گھروں پر قابض ہونے کی کوشش کی تھی۔عدالت نے نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کی اور مجرموں کے مذکورہ بالا عذر کو ضرورت ماننے سے انکار کردیا۔لارڈ ڈیننگ نے اس موقع پر کہا کہ اگر محض بے گھر ہونے کو ہم مجبوری سمجھ بیٹھیں تو دنیا میں کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا۔یہ اصول جرم کی دنیا کے وہ دروازے کھول دے گا جن کو بند کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔[73]

2۔کینیڈین عدالت کا فیصلہ

1984ء میں کچھ اسمگلرز کولمبیا سے الاسکا کچھ منشیات سمندری راستے سے لے جارہے تھے۔کینیڈا کے ساحل سے گزرتے وقت ان کا سامنا سمندری طوفان سے ہوا۔مجبور ہوکر وہ کینیڈا کے ساحل پر رکے۔کینیڈا کی حدود میں منشیات رکھنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے۔عدالت میں پیشی کے وقت انہوں نے قانون ضرورت کا سہارا لینے کی کوشش کی کہ ہم بامر مجبوری کینیڈا کی حدود میں داخل ہوئے ہیں لیکن عدالت نے ان کو ضرورت کا استثناء دینے سے انکار کیا۔[74]

3۔جسٹس سائمن برون کا فیصلہ

جسٹس سائمن براؤن متحدہ ریاست ہائے برطانیہ کے معروف وکیل تھے۔بعد میں سپریم کورٹ کے جج بھی بنے۔ان کی عدالت میں 1994ء میں ایک کیس پیش ہوا جس میں مدعاعلیہ دو مرتبہ چوری کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔عدالت میں ملزم نے یہ موقف اختیار کیا کہ میں کچھ مالیاتی اداروں کا مقروض ہوں۔وہ مجھے اور میرے بچے کو قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دے رہے تھے اس لئے مجبور ہوکر میں نے یہ چوریاں کی ہیں لہٰذا مجھے قانون ضرورت کا استثناء دیا جائے۔عدالت نے ملزم کی اپیل ماننے سے انکار کیا۔جسٹس سائمن براؤن نے اس موقع پر کہا کہ قرض خواہوں نے ملزم کو چوری کرنے پر مجبور نہیں کیا،اس نے اپنی مرضی سے قرض چکانے کے لئے چوری کی ہے لہٰذا قانون ضرورت کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔[75]

4۔رابرٹ واکر کا فیصلہ

رابرٹ واکر متحدہ ریاست ہائے برطانیہ کی سپریم کورٹ کے جسٹس رہے ہیں۔ان کی عدالت میں 2000ء میں ایک عجیب کیس پیش ہوا۔"JODIE" اور "MARRY" دو جڑواں بہن بھائی تھےجن کے جسم باہم پیوست تھے۔جوڈی کی صحت بہتر تھی اور الگ زندگی بسر کرسکتا تھا۔میری کا جسمانی دارومدار جوڈی پر تھا،اس کے لئے جوڈی کے بغیر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں تھا۔میڈیکل شواہد کہہ رہے تھے کہ اگر یہ دونوں جسمانی طور پر ملے رہیں تو جوڈی پر عضلاتی دباؤ کی زیادتی کی وجہ سے دونوں کی موت چھ ماہ کے اندر واقع ہوجائے گی اور اگر الگ کرنے کے لئے آپریشن کیا گیا تو میری کی موت یقینی ہےجبکہ جوڈی ایک نارمل انسان کی سی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

والدین نے آپریشن پر راضی ہونے سے انکار کیا تو ڈاکٹرز نے عدالتی راستہ اختیار کیا۔عدالت نے قانون ضرورت کے تحت اس آپریشن کی جازت دی کہ اگرچہ آپریشن کے نتیجے میں میری کی جان جائے گی لیکن اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے اور یہ دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی ہے جو ڈاکٹرز کو اختیار کرنا پڑے گی نیز آپریشن کا مقصد میری کی موت نہیں بلکہ دونوں کو الگ کرنا ہے۔[76]

پاکستان میں نظریہ ضرورت کا استعمال

دور حاضر میں قومی سطح پر بھی قانون ضرورت کا استعمال کیا جاتا ہےجس کو "نظریۂ ضرورت " سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وکی پیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

"حالات کو معمول پر لانے کے کے لئے ملکی کرداروں کے بالائے قانون اقدامات کو آئینی اساس فراہم کرنے والا تصور نظریۂ ضرورت کہلاتا ہے"[77]

عموماً ملک کے بالادست ادارے اس نظریہ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔پاکستان میں اس کو متعدد بار استعمال کیا گیا ہے،چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔مولوی تمیز الدین کیس

1954 ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا۔سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف سندھ چیف کورٹ میں دعویٰ دائر کردیا۔کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ کیااور اسمبلی بحال کرنے کے احکامات جاری کئے۔حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا۔چیف جسٹس منیر کی سربراہی میں پانچ ججوں نے کیس کی سماعت کی اور کثرت رائے کے ساتھ گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا۔اس فیصلے میں جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے خلاف آئین اقدام کو نظریۂ ضرورت کی اساس فراہم کی۔[78]

2۔عاصمہ جیلانی کیس

22 دسمبر 1971ء کو ملک غلام جیلانی کو حکومت کی جانب سے حراست میں لیا گیا۔ان کی صاحبزادی عاصمہ جیلانی نے اپنے والد کی غیر قانونی حراست کو پنجاب ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ہائی کورٹ نے ان کی یہ اپیل مسترد کردی ور نظریۂ ضرورت کے تحت حکومت کو ملزم کے حراست میں رکھنے کا جواز فراہم کیا۔[79]

3۔بیگم نصرت بھٹو کیس

17 ستمبر 1977ء کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء کے ضابطے 12 کے تحت ان کی رہائش گاہ "المرتضیٰ" لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا۔مارشل لاءحکومت کے اس اقدام کو بیگم نصرت بھٹو نے عدالت میں چیلنج کیا۔10 نومبر 1977ء کو چیف جسٹس انوارالحق نے فیصلہ مارشل لاء انتظامیہ کے حق میں دیا اور نظریۂ ضرورت کے تحت ضیاء الحق کے اس اقدام کو جائز قرار دیا۔[80]

مغربی اور اسلامی قانون کا ضرورت کے باب میں تقابلی جائزہ

1۔جب کسی شخص کی زندگی کو سخت خطرہ درپیش ہوجس کا تدارک کھانا چوری کرنے سے ہی ہوسکتا ہو تو مغربی قانون ایسی صورت میں چوری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامی قانون میں بھی بوقت ضرورت چوری کرنے کی گنجائش ہے۔حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ وہ قحط والے سال چوری کی حد جاری کرنے کے حق میں نہیں تھے۔[81]

2۔جب انسانی زندگی کسی ایسی مشکل کا شکار ہو کہ اس مشکل کا حل کسی دوسری زندگی کو نقصان پہنچائے بغیر نہ نکلتا ہو اور وہ مشکل سے نکلنے کے لئے کسی دوسری زندگی کا نقصان کربیٹھےتو مغربی قانون ایسے شخص کو قانون ضرورت کا استثناء نہیں دیتا ۔اسلامی قانون بھی اس سلسلے میں یہی ہےکہ حالت اضطرار میں قتل کرنے کی گنجائش نہیں۔ابن قدامہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[82]

3۔لارڈ الفریڈ ڈیننگ کے مطابق قانون ضرورت کا استعمال عمومی طور پر نہیں کیا جاسکتاکیونکہ اگر اس کو عموم فراہم کردیا جائے تو انارکی اور لاقانونیت پھیلنے کا خدشہ ہے لہٰذا مخصوص حالات کے وقت اس قانون کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟1984ء میں کینیڈین عدالت کے ایک فیصلے میں ان کی وضاحت ملاحظہ ہو:

الف۔خوف واضح ہو یعنی محض خطرے کے وہم پر قانون توڑنے کی اجازت نہیں۔

ب۔جس لاقانونی کام کے کرنے پر انسان مجبور ہو اس کا کوئی قانونی متبادل موجود نہ ہو۔

ج۔جس نقصان سے بچنے کے لئے مجبوراً غیر قانونی کام کرنا پڑ رہا ہے وہ نقصان اس غیر قانونی کام کے متناسب ہو،ایسا نہ ہو کہ معمولی نقصان سے بچنے کے لئے کوئی بڑا غیرقانونی کام کرلیا جائے۔

یہ اصول اور اس کی تفصیلات اسلامی قانون سے مطابقت رکھتی ہیں جس کی وضاحت اسلام کے قانون ضرورت کے تحت گزر چکی ہیں۔

اسلامی اور مغربی قانون ضرورت میں فرق

ان مشترکات کے علاوہ مغربی اور اسلامی تصور ضرورت میں کچھ فرق موجود ہیں:

1۔اسلامی قانون ضرورت کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔اللہ رب العزت انسان کا خالق ہے،وہ انسان کی مجبوریوں سے بخوبی واقف ہےجبکہ مغربی قانون ضرورت کا ماخذ انسانی عقل و دانش ہے۔قانون ساز اداروں کی مقتدر قوتیں کسی زیر نظر کیس میں قانون ضرورت کے اطلاق کو جائز یا ناجائز قرار دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انسانی دانش سے ماخوذ قوانین میں یکسانیت اور دوام نہیں ہوتا۔

2۔مغربی قانون ضرورت کی تشریحات کا حق قانون ساز اداروں یا جج صاحبان کو ہوتا ہے۔وہ اپنی عقل و دانش اور گذشتہ فیصلوں کی روشنی میں قانون ضرورت کی تشریح کرتے ہیں گویا قانون کی تشریع اور تشریح کے فرائض کلی طور پر انسانی دماغ سرانجام دیتے ہیں۔ایسی صورتحال میں قانون پر انسانی مفادات کی اثر انگیزی بدیہی ہے۔جبکہ اسلامی قانون ضرورت کی تشریحات قرآن کریم اورنبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ کی تعلیمات کی روشنی میں فقہاء اور ماہرین قانون کرتے ہیں۔اسلامی قوانین کی تشریح کا حق بھی انسانوں کو حاصل ہوتا ہےلیکن یہ حق محدود اور مشروط ہوا کرتاہے۔

3۔اسلامی قانون ضرورت میں کافی وسعت ہے اور اس کے کئی درجات ہیں۔مجبوری کا ادنیٰ درجہ حاجت اور اعلیٰ درجہ ضرورت کہلاتا ہے۔دونوں کے اپنے احکامات ہیں۔مکلف کے لئے ان دونوں درجات کے تناظر میں اپنی صورتحال سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا آسان ہوتا ہےجبکہ اس کے مقابلے میں مغربی قانون ضرورت میں ان درجات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔

4۔اسلام میں قانون کے نفاذ کے لئے ترغیبی و ترہیبی دونوں انداز اختیار کئے جاتے ہیں۔انسانوں کے دل میں تقویٰ پیدا کرنا اسلام کی ہمہ وقتی پالیسی ہے۔دل میں اللہ کا خوف ہو تو قانون ضرورت کے غلط استعمال کے تمام راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔مغرب کا قانونی نظام اس صفت سے محروم ہے۔وہاں دل ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے خوف خدا سے خالی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قانون ضرورت کے غلط استعمال کے امکانات ہوتے ہیں۔

5۔ایسے مواقع بھی انسانی زندگی میں آتے ہیں جب وہ قانونی طور پر مجبور شمار کیا جاتا ہے لیکن عزیمت پر عمل کرنے کا راستہ اس کے سامنے کھلا ہوتا ہے چنانچہ وہ مجبور ہوتے ہوئے بھی قانون ضرورت کا استثناء حاصل نہیں کرتا۔اجر و ثواب کا حصول اس کو عزیمت پر عمل کرنا سکھاتا ہے۔مغربی قانون اخروی ثواب کے تصور سے محروم ہے،یہی وجہ ہے کہ مغربی باشندوں کو رخصت کے ہوتے ہوئے عزیمت پر عمل کرنے کے لئے کوئی محرک نہیں ملتا۔

درج بالا تفصیل سے ثابت ہوا کہ مغربی قانون اپنی کچھ جزئیات میں اسلامی قانون ضرورت و حاجت سے مطابقت رکھتا ہے۔لیکن اسلامی قانون ضرورت و حاجت وحی خداوندی سے ماخوذ ہونے،وسعت اور ہمہ جہت ہونے کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔

خلاصہ بحث

درج بالا تفصیل سے ثابت ہوا کہ مغربی قانون اپنی کچھ جزئیات میں اسلامی قانون ضرورت سے مطابقت رکھتا ہے۔جیسے زندگی کو شدید خطرہ اور مشکل درپیش ہونے کی صورت میں غیرقانونی کام کی اجازت دونوں نظام دیتے ہیں۔بشرطیکہ اس غیر قانونی کام کا تناسب مجبوری سے کم ہو۔نیزاس کا متبادل بھی نہ ہو۔گویا کہ Law of proportionality کسی حد تک موثر ہے۔البتہ مغرب کے برعکس اسلام کا قانون ِضرورت مجبوری کے درجات کو ملحوظ رکھ کر رخصت دیتا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی قانون ضرورت وحی خداوندی سے ماخوذ ہونے،وسعت اور ہمہ جہت ہونے کی وجہ سے مغربی قانون ضرورت پر نمایاں فوقیت رکھتا ہے۔

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == سورۃ الحج،۷۸۔ Surah Al-Ḥajj, 78
  2. بخاری،محمد بن اسماعیل البخاری،الصحیح للبخاری، دمشق،دار ابن کثیر،، طبع اول ۲۰۰۲،کتاب الایمان،باب الدین یسر،رقم الحدیث:۳۹،ص:۲۰۔ Muḥammad bin Isma’il Bukhari, Ṣaḥiḥ Bukhari, (Damascus: Dar Ibn Kathir, 2002), Ḥadith: 39, 1:20.
  3. ایضاً:ص :۲۰۔ Ibid., 1:20
  4. ایضاً: ،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی ﷺ،رقم الحدیث:۳۵۶۰،ص:۸۷۷۔ Ibid., Kitab al Manaqib, Ḥadith:3560.
  5. ایضاً: ،کتاب الجمعہ،باب السواک یوم الجمعۃ،رقم الحدیث:۸۸۷،ص:۲۱۵۔ Ibid., Kitab al Jum’ah, Ḥadith:887, 1:215.
  6. ایضاً: ،کتاب الجہاد والسیر،باب ما یکرہ من التنازع،رقم الحدیث:۳۰۳۸،ص:۷۴۷۔ Ibid., Kitab al Jihad, Ḥadith:3038.
  7. ابن منظور،محمد بن مکرم الرویفعی(م:۷۱۱ھ)لسان العرب، ، بیروت ،دار صادر ،طبع:۱۴۱۴ ھ، باب الراء،فصل الضاد، ۴:۴۸۲،۴۸۳۔ Ibn-e-Manzoor, Muḥammad bin Mukarram, Lisān al ‘Arab, (Beirut: Dar Ṣadir, 1414), 4:482-483.
  8. سورۃ البقرۃ،۱۷۳۔ Surah Al Baqarah, 2:173
  9. سیوطی،جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر (م:۹۱۱ھ) الاشباہ والنظائر، دارالکتب العلمیہ،طبع اولیٰ ،۱۴۱۱ھ ،ص:۸۵۔ Al Sayuwti, ‘Abdur Raḥman, Al Ashbah wa al Naẓair, (Dar al Kutub al ‘lmiyyah, 1414), p: 85.
  10. حموی،ابوالعباس احمد بن محمد مکی،(م:۱۰۹۸ ھ)غمز عیون البصائر شرح الاشباہ و النظائر، دارالکتب العلمیہ ،۱:۲۷۷۔ Al Ḥamwi, Aḥmad bin Muḥammad, Ghamz ‘uyuwn Al Baṣa’ir, (Dar Kutub Al ‘lmiyyah), 1:277.
  11. سیوطی،جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر(م:۹۱۱ھ)الاشباہ والنظائر، دارالکتب العلمیہ،۱:۸۵۔ Sayuwti, ‘Abdur Rahman bin Abi Bakr, ,Al Ashbah w Al Nazair, p: 85.
  12. ابن قدامہ ،أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد (م:۶۲۰ھ)المغنی لابن قدامہ،مکتبہ قاہرہ،۱۹۶۸م،۸:۵۹۵۔ Ibn Qudamah, ‘Abdullah bin Ahmad, Al Mughni, (Maktabah Qahirah, 1968), 8:595.
  13. دسوقی،محمد بن أحمد بن عرفہ (م:۱۲۳۰ھ)،حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر،دارالفکر،۲:۱۱۵۔ Daswuqy, Muhammad binAhmad, Hashyah Al Daswuqy, 2:115.
  14. الغزالی،ابوحامد محمد بن الغزالی الطوسی،(م:۵۰۵ھ) المستصفیٰ،دارالکتب العلمیہ طبع اولیٰ ۱۴۱۲ھ،۱:۱۷۴۔ Al Ghazali, Muhammad bin Al Ghazali, Al Mustasfa,Dar Al Kutub Al ‘lmiyyah
  15. ایضاً،۱:۲۷۴۔ Ibid., 1:274
  16. شاطبی،ابراہیم بن موسیٰ(م :۷۹۰ھ)الموافقات،دارابن عفان،طبع اولیٰ۱۴۱۷ھ،۲:۱۸۔ Shatiby, Ibrahiym bin Muwsa, Al Muwafaqaat, (Dar Ibn-e-‘Affan, 1417), 2:18.
  17. ابن منظور،ابوالفضل محمد بن مکرم(م:۷۱۱ھ)لسان العرب،باب الجیم،فصل الحاء،۲:۲۴۲۔ Ibn-e-Manzoor, Lisān al ‘Arab, 2:242.
  18. فیروزآبادی،مجدالدین ابوطاہر محمد بن یعقوب(م:۸۱۷ھ)القاموس المحیط،فصل الضاد،۱:۴۲۸۔ Feroz Abadi, Muhammad bin Yaquwb, Al Qamuws Al Muhyit, 1:428.
  19. زبیدی،محمد بن محمد (م:۱۲۰۵ھ)تاج العروس،۵:۴۹۵۔ Muḥammad bin ‘Abd al Razzaq, Taj al ‘Uroos min Jawahir al Qamoos, (Dār al hidayah),5:495
  20. الجوینی،عبدالملک بن عبداللہ ،(م:۴۷۸ھ)الغیاثی ، دارالمنہاج،ص:۵۳۲۔ Al Jawayni, ‘Abdul Malik bin ‘Abdulllah, Al Ghayathi, Dar ul Minhaaj, p:532.
  21. شاطبی،إبراهيم بن موسىٰ (م: ۷۹۰ھ) الموافقات،دار ابن عفان،طبع:اولیٰ ۱۴۱۷ھ،۲:۲۱۔ Shatbi, Ibrahim bin Muwsa, Al Muwafaqaat, (1417), 2:21.
  22. ابوزہرہ،محمد ابوزہرہ،(م:۱۹۷۴م)،اصول الفقہ،دارالفکر العربی،ص:۳۷۱۔ Abu zuhrah, Muhammad, Usool Al Fiqh, Dar ul Fikr Al ‘Arabi, p:371.
  23. سرخسی ،شمس الائمہ محمد بن احمد،(م:۴۸۲ھ)،اصول السرخسی، بیروت،داراالمعرفۃ، ۱:۲۴۸۔ Muḥammad bin abi sahal, ʼuṣool al Sarakhsy ,(Beurit:Dar ul M’arifah), 1:248.
  24. زرکشی،بدرالدین محمد بن عبداللہ(م:۷۹۴ھ)البحر المحیط فی اصول الفقہ،دارالکتبیٰ،طبع اولیٰ ۱۴۱۴ھ،۷:۲۶۹۔ Zarkashy, Badr ud Deen Muhammad bin ‘Abdullah, Al Bahr Al Muhyit fi Usool Al Fiqh, (Dar ul Maktaby, 1414), 7:269.
  25. فخرالدین رازی،ابوعبداللہ محمد بن عمر(م:۶۰۶ھ)المحصول،موسسۃ الرسالہ،طبع ثالثہ،۱۴۱۸ھ،۱:۵۱۶۔ Razi, Fakhr ud Deen Muhammad bin Umar, Al Mahsool, Beirut: Mua’ssasat al Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 3rd Edition), 1:516.
  26. ابن تیمیہ،تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاویٰ، المدینۃ المنورہ ، مجمع الملک فہد،۱۴۱۶ھ،۲۱:۵۶۷۔ Aḥmad bin ‘Abd al Ḥalym, Ibn e Tymiyyah, Majmoo‘ al Fatawa, (Majma‘ al Malik Fahad, 1416), 21:567.
  27. عز بن سلام،عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام،قواعد الاحکام فی مصالح الانام،قاہرہ،مکتبۃ الکلیات الازہریہ،ط ۱۴۱۴ھ،۲:۹۔ I’zz bin Salam, Qawa’id Al Ahkam fi Masaleḥ Al Anam, (Cairo: Maktaba Al Kulliyyat Al Azhariyyah, 1414), 2:9.
  28. ایضاً،۱:۶۸۔ Ibid., 1:68.
  29. سورۃ البقرۃ،۱۷۳ Surah Al Baqarah, 2:173.
  30. رازی،فخر الدین ابو عبداللہ محمد بن عمر،مفاتیح الغیب،بیروت،دار احیاء التراث العربی،طبع ثالث۱۴۲۰ھ،۵:۱۹۳۔ Razi, Fakhar ud Din, Muḥammad bin U’mar, Mafayteḥ ul Ghayb, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al turath al ‘Arabi , 1429), 5:193.
  31. سورۃ المائدۃ،۳۔ Surah Al Ma’edah, 5:3.
  32. سورۃ الانعام،۱۱۹۔ Surah Al An’am, 6:119
  33. سورۃ الانعام، ۱۴۵۔ Surah Al An’am, 6:145
  34. سورۃ النحل، ۱۱۵۔ Surah Al Naḥal, 16:115
  35. سورۃ یوسف، ۱۲:۶۸۔ سورۃ غافر، ۴۰:۸۰۔ سورۃ الحشر، ۵۹:۹۔ Surah Yuwsaf, 12:68, Surah Ghafir, 40:80, Surah Al Ḥashar, 59:9
  36. ابن عاشور،محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر(م:۱۳۹۳ھ) التحریر والتنویر،تیونس ،الدار التیونسیہ للنشر،ط ۱۹۸۴ھ،۱۳:۲۵۔ Ibn A’shuwr, Muḥammad Tahir bin Muḥammad, Al Taḥriyr w Al Tanviyr, (Al Dar Al Tiywnasiyyah lil Nashar, 1984), 13:25
  37. سورۃ الحشر،۵۹۔ Surah Al Ḥashar, 59:9
  38. ابن عاشور،محمد طاہر بن محمد (م:۱۳۹۳ھ)، التحریر والتنویر،۲۸:۹۲۔ Ibn A’shuwr, Muḥammad Tahir bin Muḥammad, Al Taḥriyr w Al Tanviyr,28:92
  39. ابن حنبل،أبو عبد الله أحمد بن محمد،مسند، مؤسسۃالرسالہ،ط الأولى، ۲۰۰۱ء، رقم الحدیث:۲۰۸۱۵،۳۴ :۴۱۱۔ Aḥmad bin Ḥanbal, Al Musnad, (Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 2001), 34:411, Ḥadith: 20815
  40. ابن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد،مسند، مؤسسۃ الرسالہ،ط اولیٰ ۱۴۲۱ھ، رقم الحدیث:۲۱۸۹۸، ۳۶:۲۲۷۔ Aḥmad bin Ḥanbal, Al Musnad, (Beirut: Mua’ssasat al Beirut: Mua’ssasat al Risalah, 1421), Ḥadith No: 21898, 36:227.
  41. ابوداؤد،سلیمان بن اشعث السجستانی(م:۲۷۵ھ)، سنن ابی داؤد،رقم:۴۷۷۲،باب فی قتال اللصوص،۴:۲۴۶۔ Abi Dawood , Suluman bin Ash’ath, Sunan abi Dawood, Ḥadith: 4772, 4:246
  42. ترمذی،محمد بن عيسى الترمذي،(م:۲۷۹ھ)سنن الترمذی، ،باب ما جاء فی الرخصۃ فی لبس الحریر،۳:۲۷۰۔ Muḥammad bin I‘ysa, Sunan‘ al Tirmidhi, 3:270
  43. ایضاً، باب ما جاء فی شد الاسنان بالذھب،رقم الحدیث:۱۷۷۰، ۳:۲۹۲۔ Ibid., Ḥadith: 1770, 3:292.
  44. القشیری،مسلم بن حجاج (م:۲۶۱ھ) الصحیح للمسلم،کتاب الصوم،باب جواز الصوم والفطر،رقم الحدیث:۱۱۱۵،ص:۴۹۸۔ Muslim bin Al ḥajjaj, Al Ṣaḥyḥ , Ḥadith: 1115, p:498
  45. ترمذی ،محمد بن عیسیٰ الترمذی (م:۲۷۹ھ) سنن الترمذی،باب ما جاء فی الارخصۃ للرعاء،۲:۲۸۱۔ Muḥammad bin I‘ysa, Sunan‘ al tirmidhy,2:281
  46. بنوری،محمد یوسف (م:۱۳۹۷)،معارف السنن شرح سنن الترمذی،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی،۶:۴۰۹۔ Binawriy, Muḥammad Yusuf, M’arif Al Sunan, (Karachi: H.M Sa’iyd Company, 6:409
  47. سورۃ البقرۃ،۱۷۳۔
  48. Surah Al Baqarah, 2:173
  49. حموی،أحمد بن محمد مكي، (م:۱۰۹۸ھ)،غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر،۱:۲۷۷۔ Al Ḥamwy, Aḥmad bin Muḥammad , Ghamz U’yuwn Al BaṢa’r, (Dar Kutub Al ‘lmiyyah),1:277.
  50. زحیلی،دکتور وھبہ الزحیلی،(م:۲۰۱۵ء)،نظریۃ الضرورۃ الشرعیہ،ص:۲۷۴۔ Zhyly, Dr. Wahbah al Zhyly, Nzryah al Drwrah al Shr'ayyah,p:274
  51. الزرقاء،شیخ مصطفی احمد،(م:۱۴۲۰ھ)،المدخل الفقہی العام،ص:۱۰۰۶،۱۰۰۷۔ Al Zrqa', Shykh Mustfya Aḥmd, Almdkhl Alfqhy Al'am, p:1006-1007
  52. االشاطبی،ابراهيم بن موسى (م:۷۹۰ھ)،الموافقات،۲:۲۱۔ Al Shatby, Abrahym bn Muwsa, Al Mwafqat, 2:21
  53. ترمذی،محمد بن عيسى (م:۲۷۹ھ)،سنن الترمذی،باب ما جاء فی الرخصۃ فی لبس الحریر،۳:۲۷۰۔ Tirmidhy, Muḥammad bn I‘ysa, Sunan‘ al Tirmidhi, 3:270
  54. ابوزہرہ،محمد ابوزہرہ،اصول الفقہ ،دارالفکر العربی،ص:۴۵۔ Abw Zuhrah,Muḥammad abw Zuhrah, AṢuwl Al fiqh ,Dar al Fikr al'Arby, p:45
  55. ابن تیمیہ،تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم (م:۷۲۸ھ)مجموع الفتاویٰ،۳۲:۲۱۰۔ Abn Tymiyyah, Tqy al Din Abw Al 'Abbas Ahmd bn 'Abd al ḥlym, Mjmw'e al Fatawy, 32:210
  56. ایضاً،۲۱:۸۲۔ Ibid., 21:82
  57. ابن قیم الجوزیہ،شمس الدین محمد بن أبي بكر،إعلام الموقعين عن رب العالمين،بیروت،دار الكتب العلمیہ ،ط الأولى ۱۴۱۱ھ،۲:۱۰۷۔ Abn Qayym al Jwziah, Shams al Din Muḥammad bin Abi Bakar, A'lam al Muwaqqi'in’an Rab al ’Alamin, (Beurit: Dar al Kutub al E’lmiyyah, 1411), 2:107
  58. ایضاً،۲:۱۰۸۔ Ibid., 2:108
  59. سورۃ النحل، ۱۶ Surah Al Naḥal, 16:1
  60. ہاشمی،محمد طفیل ہاشمی،اسلامی شریعت مقاصد اور مصالح، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد، ص :۲۹۸۔ Hashmi, Muḥammad Tfyl Hashmi, Islami Shriy’at: Maqaṣid awr Maṣalih, Idarah Thqyqat Islami, Islamabad, p:298
  61. سیوطی،جلال الدین عبدالرحمٰن (م:۹۱۱ھ)الاشباہ و النظائر،ص:۸۴۔ Sywty, Jlal al Din E’bd al Rhmān, al Ashbah w al Nza'er, p:84
  62. حموی،احمد بن محمد مکی(م:۱۰۹۸ھ)،غمز عیون البصائر،۱:۲۷۶۔ Al Hamwy, Aḥmad bin Muḥammad, Ghamz ‘ywn Al Baṣa’er, 1:276.
  63. امام الحرمین الجوینی،ضیاء الدین عبدالملک بن عبداللہ (م:۴۷۸ھ)،الغیاثی،ص:۵۳۱۔ Al Jawayniy, Imam al Ḥaramayn, 'Abdul Malik bin 'Abdullah, Ḍiya' al Din, al Ghyathiy, p:531
  64. غزالی،أبو حامد محمد بن محمد (م:۵۰۵ھ) احیاء علوم الدین،بيروت،دار المعرفہ ،۲:۹۶۔ Ghzali, Abu Ḥamid Muḥammad bin Muḥammad, Iḥya' U’luwm al Din, (Beurit:Dar al Ma'rifah), 2:96
  65. ابن قدامہ المقدسی،موفق الدین عبداللہ بن احمد (م:۶۲۰ھ)، المغنی لابن قدامہ، مکتبۃ القاہرہ،۹:۴۲۰۔ ‘Abdullah bin Aḥmad, Al Mughni, (Cairo: Maktabat al Qahirah),9:420
  66. Words and Phrases, 28:437 بحوالہ اسلامی نظریہ ضرورت از ڈاکٹر عبدالمالک عرفانی،اسلام آباد،شریعہ اکیڈمی،طبع: اول،ص:۲۳۳۔ I’rfany, Dr. 'Abdul Malik, Islamy Nazriyah Ḍarwrat , (Islamabad: Shrey’ah Academy, 1ST Editon ), p:233
  67. ایضاً:۲۳۴۔ Ibid., 234
  68. P L D 1955 F C 43 ۔5 نیز دیکھئے محولہ بالا کتاب، ص:۲۳۵۔
  69. Ghanayim, Khalid Ghanayim, Excused necessity in western legal philosophy, Canadian journal of law and jurisprudence,vol xix,No.1,jaunuary 2006,p:32
  70. ایضاً۔ Ibid.
  71. ایضاً،ص:۳۶۔ Ibid., 36
  72. Trial of Regina v Dudley & Stephens 14 Q B D 273 D C(1884).
  73. W L R 467, (1971), see also: A E R 1752, (1971).
  74. Perka v the Queen, 2 SCR 232 (1984)
  75. R V Cole (1994) Crim.LR 582.
  76. Re A (children ) (Conjoined Twins: Surgical Separation) 4 A E R 961(2000)
  77. Wikipedia, Doctrine of necessity, Seen date: 5th January,2018
  78. Federation of Pakistan v. Maulvi Tamizuddin Khan, PLD 1955 FC 435
  79. ASMA JILANI. Vs. GOVERNMENT OF THE PUNJAB, PLD 1972 SC 139
  80. Begum Nusrat Bhutto, v/s Chief Of Army Staff and Federation of Pakistan, P L D 1977 SC 657, for further details see: Doctrine of necessity application in Pakistan , Nasrullah Virk, international J.SOC.SCI education, 2012,volume 2, issue 2
  81. ابن قدامہ، موفق الدین عبداللہ بن احمد (م:۶۲۰ھ ), المغنی لابن قدامہ،مکتبۃ القاہرہ ،ط ،۱۹۶۸،۹:۱۳۶۔ ‘Abdullah bin Aḥmad, Al Mughni, (Cairo: Maktabah al Qahirah),9:136, Ghanayim, Excused Necessity in western legal philosophy, p:33.
  82. ابن قدامہ المقدسی،موفق الدین عبداللہ بن احمد (م:۶۲۰ھ)، المغنی لابن قدامہ ،مکتبۃ القاہرہ،۹:۴۲۰۔ ‘Abdullah bin Aḥmad, Al Mughni, (Cairo: Maktabah al Qahirah),9:420
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...