Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

ماحولیاتی آلودگی اور اس کا سدباب: سیرت نبویﷺکی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ صاف ستھراماحول بھی مہیا کیا ہے۔لیکن مرورِ وقت کے ساتھ انسا ن کی بے احتیاطی نے اس ماحول کو آلودہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں سارا نقصان انسان ہی کواٹھانا پڑا۔اسلام نے ماحول کو صاف رکھنےکی ترغیب دی ہے اور ماحول کی حفاظت اور اس کو آلودگی سے بچانے میں مؤثر کردار ادا کرنے والے اساسی عناصرکو صاف رکھنے کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ وہ بنیادی اور اساسی ارکان تین ہیں: زمین، پانی اور ہوا۔ افسوس کہ انسان نے ان تعلیمات کو بھلا دیا ہےجس کی وجہ سے آج پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی جیسے خطرناک مسئلے سے دو چار ہے۔جگہ جگہ پڑے ہوئے گندگی کے ڈھیر،عام راستوں اورگزرگاہوں میں کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک تھیلوں کی بھر مار، تمباکو نوشی اورمشینوں کے بے دریغ استعمال سے دھوئیں کی کثرت، گاڑیوں،رکشوں،موٹر سائیکلوں، فیکٹریوں اور ہوائی جہازوں کے شور وشغف سے ہمارا ماحول آلودہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں قسم قسم کی بیماریاں اور موسمی تغیرات سمیت کئی مسائل آج کے جدید دور کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لئے نبی کریم ﷺ کی ہدایات پر تحقیق کرکے اُن پر عمل پیرا ہونااس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل میں سیرتِ طیبہ اور تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں اُن ہدایات پر تحقیق کی گئی ہےجو ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور ایک صاف ستھرے ماحول کے ضامن ہیں۔

ماحول کاتعارف

لغوی مفہوم :لغوی اعتبار سےعربی زبان میں ماحول کے لئے"البيئة"کا لفظ استعمال ہوتا ہے،جس کا مادہ"بوأ" ہے۔ لغتِ عربی میں"بوأ" کا مادہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ یہ لفظ گناہ کے اعتراف اور اقرارکے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیساکہ کہا جاتا ہے: باء له بذنبه، أي: اعترف له بذنبه، وباء بدم فلان، أي : أقرّ به[1]۔ تصویب اور درستگی کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ اہل زبان کہتے ہیں: بوأ الرمح نحوه، أي: صوّبه وسدده[2].مشہور معنی نزول اور اقامت ہے، جیساکہ عربی محاورے میں کہا جاتا ہے: تبوأت منزلاً " میں گھر اترا"۔ اسی طرح لفظ "الباءة" نکاح، جماع اور گھر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور لفظ"البيئة" کا معنی ہے گھر اور ماحول۔ قرآنِ کریم میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"والذين تبوأوا الدار"[3]

"اور وہ لوگ جو اپنے گھروں میں مقیم ہیں۔"

اصطلاحی مفہوم:ماہرین نے ماحول کی کئی تعریفیں کی ہیں،جن کااس مختصر مقالے میں ذکر تطویل کا باعث ہے اس وجہ سے صرف ایک ہی تعریف پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ محمد عبدالقادرماحول کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الوسط أو المجال المكاني الذي يعيش فيه الإنسان، بما يضم من ظواهر طبيعية وبشرية يتأثر بها ويؤثر فيها"[4]

"وہ مرکز یا جگہ جہاں انسان زندگی بسر کرتا ہے، بشمول ان طبعی اور بشری مظاہر کے جن سے انسان متاثر ہوتا ہےاور ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔"

1972ء میں انسانی ماحول کے حوالے سے جو بین الاقوامی کانفرس سٹاک ہولم "Stockholm" ہوئی اس میں ماحول کامفہوم نہایت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا۔

"كل شئ يحيط بالإنسان"[5]

"انسان کے اردگرد جو کچھ بھی ہےوہ ماحول میں شامل ہے۔"

ماحول صرف گھر کے احاطے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے متجاوز ہے یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کے لئے لفظِ "البيئة"استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اس کے لئے ارض کا لفظ استعمال کیا ہے کہ جو زمین، پہاڑوں، میدانوں اور ان میں موجود پودوں، حیوانوں اور پانی وغیرہ کو شامل ہے۔[6]

آلودگی کا تعارف

لغوی مفہوم :عربی زبان میں آلودگی کے لئے "تلوث" کا لفظ استعمال ہوتا ہے، تلوث، لوث سے ماخوذ ہے جس کے معانی خراب ہونا اور گدلاکردینا ہے[7]۔جیسے عربی محاورے میں کہا جاتا ہے: لوث الماء كدَّره "پانی کو گدلا کردیا" ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے: لوَّث ثيابه بالطين، أي لطخها[8]یعنی کپڑوں کو کیچڑ سے آلودہ کیا۔

اصطلاحی مفہوم: آلودگی کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے اہل علم نے کئی تعریفیں کی ہیں،خوفِ طوالت سے بچنے کے لئے صرف ایک تعریف ذکر کی جاتی ہےدکتور عبد الکریم سلامہ آلودگی کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"هو إدخال الإنسان مباشرة أو بطريق غير مباشر لمواد أو لطاقة في البيئة والذي يستتبع نتائج ضارة، علي نحو يعرض الصحة الإنسانية للخطر ويضر بالمواد الحيوية وبالنظم البيئية وينال من قيم التمتع بالبيئة، أو يعوق الاستخدامات الأخرى المشروعة للوسط"[9]

"انسان کا براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ماحول میں کوئی مواد یا توانائی ڈالنا جو نقصان دہ نتائج کا حامل ہواور جس سے انسانی صحت خطرے سے دوچار ہوجائےاور جو زندگی کے وسائل اور ماحولیاتی نظاموں کو نقصان پہنچائےیا ماحول سے متعلق دوسرے جائز استعمالات سے مانع ہو۔"

قرآنِ کریم اور ماحولیاتی آلودگی

ماحولیاتی آلودگی اس وقت دنیا کا اہم مسئلہ ہے،اس کا احساس اب جدید دنیا کو ہورہا ہےاور اس کے سدباب کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ اسلام نے آج سے سینکڑوں سال پہلے اس اہم مسئلے کے سدباب کے لئے اہم ہدایات پیش کرنے کاامتیاز حاصل کیا ہے۔اس کے سدباب کے لئے قرآنِ کریم اور سیرت طیبہ نے بنیادی سبب گندگی کوقرار دیا ہے اور ہر قسم کی نجاسات سے صفائی کی تعلیم دی ہےاور صفائی کرنے والوں کی اس قدر حوصلہ افزائی کی ہے کہ ان کو محبوب اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ"[10]

"اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسندکرتا ہے۔"

قرآنِ کریم نے ماحولیاتی آلودگی کے لئے فساد کا لفظ استعمال کیا ہے، جو اس معنی میں زیادہ دلالت کرنے والا اور اسی مفہوم کو زیادہ واضح کرنے والا ہے۔قرآنِ کریم کی اس آیت مبارکہ سے ماحولیاتی آلودگی اس کے اسباب اور نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے[11]، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ"[12]

"خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا،تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔"

فساد سے مراد ہر وہ مادی یا معنوی فساد ہے ، جس کا اثر انسانی صحت یا معاشرتی ماحول پر پڑے۔اس اعتبار سے آلودگی اورفساد کے معنی بہت ہی قریب ہیں۔ قرآن نے یہ وضاحت کی کہ یہ انسان کے کسبِ عمل کا نتیجہ ہے،فیکٹریاں، ہوائی،بری اوربحری ذرائع آمدرفت اور زراعت کے نت نئے طریقے آلودگی کا سبب ہیں۔[13]

سیرتِ طیبہ اور ماحولیاتی آلودگی

نبی کریمﷺ نےمعاشرے کے ہرپہلو کے حوالے سے تعلیمات پیش کی ہیں۔اسی طرح آلودگی سے متعلق بھی آپﷺ کی تعلیمات اس اہم عالمی مسئلے کا حل ہے۔ آپﷺ نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لئے اہم اقدامات پیش کیے ہیں، جیساکہ قرآن کریم نے اس مسئلے سے نجات پانے کے لئے صفائی کی ترغیب دی ہے اسی طرح آپ ﷺ نے بھی آحادیث میں صفائی کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کو نصف ایمان قرار دیا ہے آپﷺ کا ارشاد ہے:

"الطهور شطر الإيمان"[14]

"پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔"

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات نے انسانی جسم سے لے کر معاشرے کے کونے کونے تک ہر چیز کو پاک اور صاف رکھنے کی تاکید کی ہے، انسانی جسم کو صاف رکھنے کے لئے وضواور غسل کا حکم دیا گیا ہے،صرف جسم ہی نہیں بلکہ جسم کے ہر ہر عضوکی صفائی کا حکم دیا ہے ،مثلاًانسان کے منہ سے بدبو دیگر لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے تو نبی کریمﷺ نے دانتوں کو صاف رکھنے کے لئے مسواک کا حکم دیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"السواك مطهرة للفم مرضاة للرب"[15]

"مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔"

ماحولیاتی آلودگی عالمی سطح پر ایک خطرناک مسئلہ بنتا جارہا ہے، سیرت طیبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاشرے کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے سدِ باب کے لئے کاوشوں کو تمام افرادِمعاشرے کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی تو معاشرے کے لئے بڑی نقصان دہ ہے اس لئے اس سے بچنے کے لئے بھی مشترکہ کوششیں امت کی ذمہ داری ہے۔ آپﷺ نے ایسے اجتماعی نقصانات کی تلافی اور روک تھام کی مشترکہ جدوجہد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

"مثل القائم على حدود الله والواقع فيها كمثل قوم استهموا على سفينة فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها فكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا خرقاً ولم نؤذ من فوقنا فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعاً وإن أخذوا على أيديهم نجوا ونجوا جميعاً"[16]

"اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم رہنے والے (اطاعت گزار) اور اس میں مبتلا ہوجانے والے ( یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام سے منحرف ہوجانے والے) کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے (باہم مشترک) ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ اندازی کی۔ قرعہ اندازی کے نتیجے میں قوم کے بعض افراد کو کشتی کے اوپر کا حصہ ملا اور بعض کو نیچے کا ۔ جو لوگ نیچے تھے، انھیں (دریا سے ) پانی لینے کے لئے اوپر گزرنا پڑتا۔ انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصے میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم سے کوئی اذیت نہ پہنچے اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں ( کہ وہ اپنے نیچے والے حصہ میں سوراخ کرلیں) تو تمام کشتی والے ہلاک ہو جائیں اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی اور ساری کشتی بچ جائے۔"

خلاصہ کلام یہ کہ سیرت طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے معاشرے کو ہرقسم کی آلودگی سے بچانے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پرسرانجام دینے والی کاوشوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اس خطرناک مسئلے سے بچنے کے لئے راہنما اصولوں کی نشاندہی کی ہے۔ آپﷺ نے زمینی آلودگی کے سدباب کے لئے کھیتی باڑی اور شجرکاری کی ترغیب دی ہے۔ آبی آلودگی سے بچنے کے لئے پانی کو صاف رکھنےاور اس میں گندگی نہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ ہوائی آلودگی کے روک تھام کے لئے ہوا کو بدبو اور گندگی سے پاک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئےیہ نبی کریمﷺ کی ایک بھر پور کوشش اور مؤثر حکمتِ عملی تھی، جو آج کے دور میں بھی ہمارے لئے راہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کے جدید دور میں بھی اِن ہدایات پر عمل کئے بغیر ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام مشکل ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کے مصادر

سب سے پہلے آلودگی کے مصادر اور اسباب معلوم کرنے کی ضرورت ہےتاکہ اس بنیاد پر اس کی روک تھام کے لئے تدابیر اختیار کی جائیں۔ ماہرین کے نزدیک ماحولیاتی آلودگی کے دو بنیادی اسباب اور مصادر ہیں،جس کی وجہ سے آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ ایک طبعی اور دوسرا مصنوعی، دونوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1۔ طبعی آلودگی

اس سے مراد آلودگی کی وہ قسم ہےجس کے وقوع میں انسان کا کوئی عمل دخل نہ ہوبلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر وارادے کے زیرِ اثر پیداہوئی ہو،جیسے لاوؤں،زلزلوں اور سیلابوں سے جنم لینے والی آلودگی۔ اس قسم کی آلودگی کے مسببات کو نہ کوئی روک سکتا ہےاور نہ ہی تلافی کی کوئی صورت ہے اور نہ اس پر کوئی پکڑ ہے۔[17]

2۔انسانی آلودگی

اس سے مراد وہ آلودگی ہےجو مختلف انسانی افعال کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے جیسے ایٹمی دھماکے،گاڑیوں کے دھویں، کیمیائی مواد اور اس کے علاوہ فیکٹریوں،گھروں، کھیتوں اور انسانی سرگرمیوں سے جنم لینے والے ہر قسم کے فاسد مادوں سے پیدا ہونے والی آلودگی۔ اس قسم کی آلودگی کا ذمہ دار انسان ہے اور اس کو دنیا وآخرت میں اس کی سزا بُھگتنی ہو گی۔[18]

ماحولیاتی آلودگی کی قسمیں

محققین نے ماحولیاتی آلودگی کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ (1) زمینی آلودگی (2) آبی آلودگی (3) فضائی آلودگی (4) صوتی آلودگی۔ ذیل میں آلودگی کے ان چار قسموں کےسدباب کے لئے احتیاطی تدابیر پر سیرت طیبہ اور تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں بحث کی جائے گی۔

1۔ زمینی آلودگی

زمینی آلودگی کو مٹی کی آلودگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گندی نالیوں سے خارج ہونے والے کیمیائی مواد اور گندگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دکانوں اور گھروں کے سامنے گندگی کے ڈھیر، راستوں اورگزرگاہوں میں کوڑا کرکٹ ، پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلیں،کیمیائی مادےاور کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ مٹی کو آلودہ کرتا ہے۔ مٹی کی آلودگی کی وجہ سے زمین کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہےاور جو فصلیں اور سبزیاں ایسی زمینوں میں اُگائی جاتی ہیں، ان میں زہریلے مادے اور جراثیم سرایت کرجاتے ہیں۔ جن کا استعمال انسانی صحت کے لئے مضر ہے[19]۔ نبی کریمﷺ نے ماحول کو صاف رکھنے اور زمینی آلودگی سے بچنے کی ترغیب دی ہےاور اس کا اہتمام کیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"فضلنا على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة، وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا، وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء"[20]

"ہمیں سابقہ امتوں پر تین چیزوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہمارے لئے تمام روئے زمین مسجد بنا دی گئی ہےاور پانی نہ ملنے کی صورت میں اس کی مٹی ہمارے لئے پاک کرنے والی بنادی گئی۔"

ابن رجب حنبلیؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"فخص الطهور بتربة الأرض بعد أن ذكر أن الأرض كلها مسجد، وهذا يدل على اختصاص الطهورية بتربة الأرض خاصة؛ فإنه لو كانت الطهورية عامة كعموم المساجد لم يحتج إلى ذلك.وهذا يدل علىاختصاص الطهورية بالأرض الطيبة، والطيبة: هي الأرض القابلة للإنبات[21]، كما في قوله تعالى: "وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ"[22]"

"تمام روئے زمین کو مسجد قرار دینے کے بعد زمین کی مٹی کو طہارت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زمین کے اجزاء میں سے صرف مٹی پاک کرنے والی ہے۔ ورنہ اگر زمین کی طہوریت عام ہوتی جیسا کہ مسجد ہونے کے لئے زمین عام ہے تو مٹی کی تخصیص کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اور یہ پاک زمین کی طہارت کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے۔پاک مٹی وہ ہے جو زراعت کے قابل ہو۔ جیساکہ باری تعالیٰ کا قول ہےکہ" پاک شہر وہ ہے جو پودوں کو اپنے رب کے حکم سے اگاتا ہے۔ "

زمینی آلودگی کے سدباب کے لئےنبی کریم ﷺ کی تدابیر

نبی کریم ﷺ نے زمینی آلودگی کے سدباب کے لئے ہدایات بیان فرمائی ہیں، جن پر عمل کئے بغیر آلودگی کی روک تھام نہ صرف مشکل ہےبلکہ ناممکن ہے۔ اس لئے عام شہریوں اور حکومت و ذمہ دار لوگوں کا ان اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، تاکہ معاشرہ اس مشکل سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ زمینی آلودگی کے حوالے سےاصول اور ہدایات حسبِ ذیل ہیں:

(الف)۔ گندگی پھیلانے کی قباحت سے آگہی

معاشرے میں گندگی پھیلانے کی روک تھام کےحوالے سے اسلامی تعلیمات کی آگہی ازحد ضروری ہے، نبی کریمﷺ نے جو وعیدات بیان فرمائی ہیں،اُن سے لوگوں کو باخبر رکھنا چاہئے ۔اس میدان میں صاحبانِ ممبر ومحراب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کو سمجھائیں کہ معاشرے میں گندگی پھیلانا گناہ کا عمل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زمینی آلودگی سے بچنے کے لئے پہلا ہدف یہ قرار دیا ہے کہ لوگوں کی گزرگاہوں اور بیٹھنے کی جگہ میں گندگی نہ پھیلائی جائے، چنانچہ آپﷺ نے اس شخص کو ملعون قرار دیا ہے جو راستوں اور لوگوں کی بیٹھنے کی جگہ میں گندگی ڈالتا ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:

"« اتَّقُوا اللاَّعِنَيْنِ » قَالُوا : وَمَا اللاَّعِنَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ :« الَّذِى يَتَخَلَّى فِى طَرِيقِ النَّاسِ وَظِلِّهِمْ"[23]

"لعنت کا سبب بننےوالی دو باتوں سے بچو، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ: وہ دو باتیں کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک یہ کہ آدمی لوگوں کی گزرگاہوں اور راستوں پر قضائے حاجت کرے اور دوسرا عمل یہ ہے (آدمی لوگوں کی نشست وبرخاست کی جگہ) سایہ کی جگہ میں پیشاب وغیرہ کرکے گندگی پھیلائے۔"

(ب)۔ تکلیف دہ چیز کو اٹھانے کی ترغیب دینا

زمینی آلودگی سے بچاؤ کے لئے دوسری تدبیر یہ ہے کہ تکلیف دہ چیز کو اٹھا کر دور ایسے مقام پر پھینکا جائے جہاں کسی کی تکلیف کا سبب نہ ہو۔آلودگی سے زیادہ مضر اور نقصان دہ چیز اور کیا ہوگی؟ آلودہ اور تکلیف دہ ماحول کو ختم کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستے سے تکلیف دہ چیز اُٹھانے کو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"الإيمان بضع وسبعون شعبة أعلاها شهادة أن لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق"[24]

"ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں، اعلیٰ شعبہ لا إله إلا الله ہے اور ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے۔"

ان تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان آج اگر ہم اپنے گرد وپیش ماحول کو دیکھ لیں تو ہمارے راستوں میں کس قدر زیادہ گندگی ہوا کرتی ہے،کبھی پلاسٹک تھیلوں کی شکل میں تو کبھی گھریلو کوڑا کرکٹ کی صورت میں۔ ہمارا یہ مزاج بن گیا ہے کہ ہر آدمی گھر سے کوڑا کرکٹ نکال کر باہر پھینکتا ہے یہ نہیں دیکھتا ہے کہ کہا ں پھینک رہا ہے۔ فروٹ کے چھلکوں کو کوڑادان کے بجائے عام راستے میں ڈالنا تو لوگوں کا عام معمول ہے، جس میں گندگی کے علاوہ بعض چھلکوں(مثلاًکیلے کے چھلکوں) پر بعض اوقات پھسل کر لوگ بڑے نقصان سے دو چار ہوتے ہیں۔ہماری یہ سوچ بن گئی ہے کہ ہر کام حکومت کی ذمہ داری ہے حالانکہ ہر کام تو حکومت کےبس میں نہیں ہے جب تک عام شہری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیں تب تک وہ کام صحیح طریقے سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بھی حکوت کے ساتھ ساتھ عام شہری اپنا فریضہ سمجھ کر اس کام میں بھرپور کردار ادا کریں تاکہ اس اہم مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

(ج)۔ صاف ماحول کی فراہمی کے لئے اقدمات

ماحول کو گندگی سے صاف کرنا چاہیئے۔ نبی کریمﷺ نے صفائی کا حکم دیا ہے کہ جہاں گندگی ہو اُس کو صاف کیاجائےیہاں تک کہ مسجد میں تھوک صاف کرنے کا بھی آپﷺ نے حکم دیا ہے، ارشاد ہے:

"إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَلْيُغَيِّبْ نُخَامَتَهُ، أَنْ يُصِيبَ جِلْدَ مُؤْمِنٍ أَوْ ثَوْبِهِ فَيُؤْذِيَهُ"[25]

اگر کسی نے غلطی سے معاشرے میں گندگی پھیلائی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس گندگی کو صاف کرلے، جیساکہ مسجد میں تھوک کے عمل کا کفارہ نبی کریمﷺ نےاس کی صفائی کو قرار دیا۔ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ گندگی پھیلانے کی سزا اسی گندگی کی صفائی ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"الْبُزَاقُ فِي الْمَسْجِدِ خَطِيئَةٌ، وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا"[26]

"مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس کو دفن کرنا ہے۔"

اس حدیث کی شرح میں محمد بن محمد البکری لکھتے ہیں:

"والأمر بتنزيه المسجد عن الأقذاروجوباً عن القذر النجس أو المقذر للمكان كنحو ماء غسل، وأكل طعام يتلوث منه المكان، وندبا فيما ليس كذلك"[27]

اس دورمیں ہمارے گردوپیش صاف ماحول کی فراہمی کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے جن جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کی نشاندہی کرنا اور جن امور سے اجتناب کی ضرورت ہے ،ان کو ہائی لائٹ کرنامیڈیا کے فرائض میں شامل ہے۔ مختلف چینلز کو چاہئے کہ وہ اس موضوع پر اہل علم حضرات کے لیکچرز چلائیں اور اس موضوع پر مباحثوں اور مکالموں کا اہتمام کر یں تاکہ لوگوں میں اس اہم مسئلے کے بارے میں آگہی پیدا ہوجائے۔

2۔ آبی الودگی

پانی میں نقصان دہ مواد کے شامل ہونے کی وجہ سے گندا اور ناقابلِ استعمال ہونے کو آبی آلودگی کہتے ہیں۔ آبی آلودگی کی اہم وجہ صنعتی فاضل مادے ہیں جو کہ نہروں،جھیلوں اور دریاؤں میں خارج کیے جاتے ہیں اسی طرح کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات بھی پانی کو آلودہ کرتی ہیں۔ پانی چونکہ امت کی مشترکہ ملکیت ہےاور کسی کو اس سلسلے میں کسی پر فوقیت نہیں ہے،اس لئے اس کی حفاظت بھی تمام لوگوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

"المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والاكلاء والنار وثمنه حرام"

"تین چیزوں میں لوگ شریک ہیں، پانی میں، گھاس میں اور آگ میں اور اس پر پیسے لینا حرام ہے۔"

آبی آلودگی کے سدباب میں نبی کریم ﷺ کی حکمتِ عملی

آلودگی سے بچنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر کئی کانفرسیں ہوئیں، جن میں آبی آلودگی کے سدباب کے لئے کئی تجاویز دی گئیں، نت نئے طریقوں سے اس کے حل پر غور وخوض کیا گیا،لیکن اس حوالے سے سیرت طیبہ کی تعلیمات انتہائی مؤثر ہیں، اس لئے آبی آلودگی کے روک تھام کی ان تعلیمات پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، آبی آلودگی سے بچاؤ کے لئے سیرت طیبہ کی روشنی میں چند اصول حسب ذیل ہیں:

(الف) ۔ پانی کو گندگی سے بچانے کی ترغیب

نبی کریمﷺ نے پانی کو صاف رکھنے کی تاکید کی ہے اور اس میں گندگی ڈالنے سے منع فرمایا ہے،تاکہ لوگ آبی آلودگی کےمضر اثرات سے بچ سکیں۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ولا يغتسل فيه من الجنابة"[28]

"تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی جنابت کی حالت میں غسل کرے۔"

نبی کریمﷺ کا کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل جنابت سےمنع فرمانا پانی کوآلودگی سے محفوظ رکھنےکا ایک عمومی قاعدہ ہے جوپانی کے کھڑے رہنے کی وجہ سےپیدا ہونے والی خطرناک آلودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ پانی کو صاف رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے، آج جگہ جگہ نالیاں اور گٹرز ہیں۔ بہت سی بیماریاں نالیوں کی گندگی اورگٹروں کے تعفن سے پھیلتی ہیں، نبی کریم ﷺ نے گھروں اور محلے کے راستوں کو صاف رکھنے کا حکم دے کر ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کے اہم اصول دئیے ہیں۔آج کنووں کے پانی میں جب گٹر کا پانی سرایت کرجاتا ہے تو بیماری کا سبب بنتا ہے۔حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ شہروں میں نکاسیٔ آب کا بندوبست کرے۔شہروں میں اکثر پانی کی نکاسی کا کوئی خاص نظام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہر طرف بد بو اور تعفن کے ساتھ صاف پانی کے گندہ ہونے اور اس کو گندگی کے اثرات پہنچنے کا خطرہ موجود رہتاہے۔

(ب)۔ ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال سے گریز

پانی کا زیادہ استعمال بھی آبی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے آبی آلودگی سے بچنے کے لئے پانی کے زیادہ استعمال کو اسراف قرار دیا ہے،یہاں تک کہ وضواور طہارت میں بھی زیادہ پانی استعمال کرنے سےمنع فرمایا ہے۔آپﷺکا حضرت سعدؓ کے پاس سے گزر ہواجب کہ وہ وضو کررہے تھےتو فرمایا:

"«مَا هَذَا السَّرَفُ» فَقَالَ: أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ، قَالَ: «نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ»"[29]

"یہ کیسا اسراف ہے، توحضرت سعدؓکہنے لگے: کیا وضوکے پانی میں بھی اسراف ہے؟ توآپﷺ نے فرمایا: ہاں اگرچہ بہتادریا ہی کیوں نہیں ہو۔"

ماحولیاتی آلودگی سمیت کئی مسائل کا حل اس وجہ سے بھی نہیں نکلتا ہے کہ ہم ایک کانفرنس اور ایک تقریب وپالیسی کی حد تک اس پر بات کرتے ہیں لیکن عملاً یا تو کسی قسم کی دلچسپی نہیں لیتے یا اگر دلچسپی لیتے بھی ہیں تو معمولی حد تک، جس سے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہوتا ہے۔ سیرت طیبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ جو بات بیان فرماتے خود اس کا عملی نمونہ تھے، چنانچہ آپﷺ نے جہاں پانی کے زیادہ استعمال سے منع فرمایا تو خود بھی اس معاملے میں احتیاط فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل بالصاع ويتوضأ بالمد"[30]

"رسول اللہﷺ ایک مد[31]پانی سے وضو اور ایک صاع[32]پانی سےغسل فرماتے تھے۔"

اس بات کی ضرورت ہے، ہم جو لوگوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ پانی کا استعمال کم کریں تو ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیئےاور اپنےآپ اور اپنے گھر سے شروع کرکے پانی کے استعمال میں کمی لانی ہے۔ یہ آبی آلودگی کی روک تھام میں ایک مؤثر حکمتِ عملی ہے۔ ہر جگہ پانی کا استعمال بہت زیادہ ہے، چاہے وہ گھر ہو یا ہجرہ، مسجد ہو یا مدرسہ، لیکن ہر کام کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کے کھاتے میں ڈالنا بھی انصاف کا تقاضا نہیں۔ معاشرے کی اصلاح میں حکومت سے زیادہ ذمہ داری افرادِ معاشرہ پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح پانی کے زیادہ استعمال کو کم کرنے میں معاشرے کے عام افراد اور اہل علم لوگ حکومت سے زیادہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس لئے اہل اور اہل قلم لوگوں کو چاہیئےکہ وہ اپنے مواعظ ونصائح اور اپنے قلم سے لوگوں میں یہ شعور اور آگہی پیدا کریں۔

(ج)۔پانی کےپائپوں اور ٹینکوں کو صاف رکھنے کی تاکید

نبی کریمﷺ نے نہ صرف پانی کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانےکے لئے پانی کے زیادہ استعمال سے منع ہونے کی تاکید کی ہے بلکہ اُن برتنوں کو بھی صاف اور بند رکھنے کا حکم دیا ہے جن میں پانی رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے:

"غطوا الإناء وأوكوا السقاء فإن في السنة ليلة ينزل فيها وباء لا يمر بإناء ليس عليه غطاء أو سقاء ليس عليه وكاء إلا نزل فيه من ذلك الوباء"[33]

پانی کو صاف رکھنے کے لئے اس حد تک کوشش کی گئی ہے کہ پانی کے برتنوں اور ٹینکوںں کومحفوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آج کل پانی جن پائپوں میں آتا ہے وہ زنگ آلودہ پائپ ہوا کرتے ہیں اور جن ٹینکوں میں پانی رکھا جاتا ہے وہ اکثر گندےہوا کرتے ہیں،جس کی وجہ سے لوگ قسم قسم کےموذی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

(د)۔ پانی صاف رکھنے میں ہرقسم کی احتیاطی تدابیرکا استعمال

سیرت طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آبی آلودگی کی روک تھام کے لئے سنت مطہرہ میں انتہائی اہتمام کیاگیا ہے۔آپﷺ نے پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے پانی کے برتن میں سانس لینے یا پھونکنے سے بھی منع کردیا ہے۔ چنانچہ آپﷺکا ارشاد ہے:

"إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الاناء"[34]

"جب تم میں سےکوئی پانی پیئے تو برتن کے اندر سانس نہ لے۔"

اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آبی آلودگی سے بچنے کے لئے برتن میں بھی سانس لینے سے منع فرمایا تو جو لوگ پانی میں مختلف قسم کے کیمکلز اور مضر اشیاء ڈالتے ہیں، اور وہ لوگ یہ محسوس بھی نہیں کرتے کہ یہ ہم نے گناہ کا کام کیا اور معاشرے کو ایک مصیبت میں ڈال دیا ۔تو ان کو لوگوں سمجھانا اور اس قبیح فعل سے منع کرنے میں کردار ادا کرنا وقت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

3۔ ہوائی الودگی

ہوا میں آلودگی عموماً گاڑیوں یا کارخانوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ گاڑیوں اور مختلف قسم کی مشینوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہیں۔اسی طرح گرد وغبار اور راکھ ودھواں بھی ہوا میں شامل ہوکر اس کو آلودہ بنا دیتا ہے۔جدید تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی ہےکہ گھروں میں کھانا پکانے کے عمل کے دوران اٹھنے والے دھوئیں سےبھی خواتین اور بچےبہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر صرف کھانا پکانے کے لیے محفوظ چولہے ہی فراہم کر دیئے جائیں تو دنیا میں لاکھوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔[35]

ہوائی آلودگی کی روک تھام کے لئے احتیاطی تدابیراور سیرت طیبہ

ہوائی آلودگی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے، اس وجہ سے اسلام نے اس کی روک تھام اور سدباب کے لئے واضح پیغامات دیئے ہیں۔ہوائی آلودگی کی روک تھام میں جنگلات اور پودے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ،اس لئے نبی کریم ﷺ نے شجرکاری کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، اور اس کی کٹائی سے سختی سے منع فرمایا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:

"إِنَّ صَيْدَ وَجٍّ وَعِضَاهَهُ حَرَامٌ مُحَرَّمٌ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"

"وادی وج میں شکار کرنا اور اس کے درخت کاٹناحرام ہے۔"

"العِضَاهَ "ہر وہ درخت ہے جس کے بڑے کانٹے ہو ں،اس کا واحد" عضة "ہے۔[36]اس حدیث کی تشریح میں شارحینِ حدیث وہ وجوہات لکھی ہیں کہ جن کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے "وادی وج" کے درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا۔ چنانچہ امام ابویوسفؒ لکھتے ہیں:

"وقد قَالَ بعض العلماء: إن تفسير هذا إنما هو لاستبقاء العضاه، أي المحافظة على الشجر"[37]

"بعض علماء نے کہا کہ اس کا مطلب درختوں کی بقاء ہے یعنی درختوں کی حفاظت کرنا۔"

نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور عملی زندگی سے فضائی آلودگی کے حوالے سے جو راہنمائی ملتی ہے وہ اس دورمیں ہوائی آلودگی کے سدباب میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں، اس سلسلے کے چند اہم تدابیر حسب ذیل ہیں:

(الف)۔ دھوئیں اور دیگر مضر عناصر کی روک تھام

فقہائے اسلام نے دھوئیں کو آلودگی کا مصدر قرار دیتے ہوئے اس کی تمام اقسام کو مضر اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔قرآن کریم نے عذاب اليم سے اس کا وصف بیان فرمایاہے[38] ،جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

"فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ"[39]

"تو اس دن کا انتظار کروکہ جب آسمان سے صاف دھواں نکلے گا۔"

قرآن کریم اورسنت نبویﷺ نے آج سے صدیوں پہلے دھویں کو مضراور نقصان دہ قرار دیا ہے آج کے جدید دور نے اس کی تصدیق کی اور دھوئیں کو نہ صرف یہ کہ نقصان دہ قرار دیا بلکہ اس حوالے سے مختلف ہلاکتوں کی بھی نشاندہی کی۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے نشریاتی ادارے بی بی سیBBC)) کو رپورٹ دیتے ہوئے کہا:

"43 لاکھ اموات گھروں کے اندر کی فضا کی آلودگی خصوصاً ایشیا میں لکڑیاں جلا کر یا کوئلوں پر کھانا پکانے کے دوران اٹھنے والے دھویں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ بیرونی فضا ءمیں آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے لگ بھگ رہی جن میں سے 90 فیصد کے قریب ترقی پذیر ممالک میں تھیں۔"[40]

گھریلو ضروریات کے علاوہ آج کل پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر اشیاءکے ساتھ استعمال ہونے والے پلاسٹک کے لفافوں کا بہت زیادہ استعمال ہوگیاہےجس کو لوگ جلاکر ماحول کو آلودہ کرتےہیں۔ اسی طرح تمباکو نوشی اورمشینوں کے بے دریغ استعمال سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے اس کی روک تھام کے لئے منصوبہ بندی ہونا چاہیئے۔ ہمارے ملک میں جن گاڑیوں،رکشوں،موٹر سائیکلوں، فیکٹریوں کا استعمال ہوتا ہے وہ حقیقت میں دھویں کی ایسی مشینیں ہوا کرتے ہیں جن کا استعمال ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہوسکتا ہے۔ اس قسم کی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیئے تاکہ ہوائی آلودگی کو کنٹرول کیا جائے۔

(ب)۔ بد بو پھیلانے والی اشیاء پر پابندی لگانا

آلودگی کے حوالے سے عمومی اسلامی تعلیمات آئی ہیں جب کہ ہوائی یا فضائی آلودگی کے خطرے سے آگہی کے لئے اس قسم کی آلودگی کے حوالے سے خصوصی تعلیمات آئی ہیں۔ اس بابت میں نبی کریمﷺ نے مسجد جاتے وقت لہسن اور دیگر بدبودار اشیاءکھانے سے منع فرمایا ہےتاکہ دیگر نمازیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔آپﷺ کا ارشاد ہے:

"مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِه"[41]

"جس نے لہسن یا پیاز کھایا وہ ہم سے جدا ہوجائے، یا اس طرح فرمایا: وہ ہماری مسجد سے علیحدہ ہوجائے اور اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھ جائے۔"

سیرت طیبہ کی روشنی میں جب لہسن کی بدبو کو ختم کرنے کے بارے میں تاکید آئی ہے تو اس دور میں کارخانوں کے کیمکلز کی بدبو اور زہریلا گیس کا جواز کہا ں سے ملتا ہے؟ اس سلسلے میں ان کارخانوں کو بند کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو زہریلی گیس پید اکرتی ہیں، جس سے بدبو بھی آتی ہے اور مضر صحت بھی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی تو ہوئی ہے لیکن حقیقتاً اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل کیا جائےتاکہ ہوائی آلودگی کے مضر اثرات پر قابو پایا جاسکے۔

(ج)۔ شجر کاری کی ترغیب اورکٹائی کی روک تھام

نبی کریم ﷺ نے ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لئے درخت لگانے کی ترغیب دی ہے اور اس عمل کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے شجر کاری میں بذات خود حصہ لیا اور صحابہ کرامؓ سے مل کر سینکڑوں پودے لگائے۔ درخت آکسیجن پید ا کرنے کی وجہ سےآٓلودگی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لئے نبی کریمﷺ نے شجرکاری کی ترغیب دی۔آپﷺ نے شجر کاری کی فضیلت اور اہمیت کی وضاحت کرتےہوئے فرمایا:

"ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا، فيأكل منه إنسان أو طير أو دابة إلا كان له صدقة"[42]

"جومسلمان شخص بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھاتا ہے تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے۔"

اس حوالے سے شجرکاری کی مہم تو تقریباً زور وشور سے جاری ہے لیکن اس کے مقابلے میں درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اس سے کہیں زیادہ ہے،جس کی وجہ سے آکسیجن دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔یہ ایک المناک حقیقت ہےکہ روزانہ کے حساب سے نباتات وحیوانات کی تقریباً دس قسمیں ختم ہوتی جارہی ہیں اور بارشیں برسانے والے جنگلات کے پندرہ ایکڑ سالانہ تباہ کئے جارہے ہیں اور دنیا میں موت کے گھاٹ اترنے والی چیزوں کا پچھتر فیصد حصہ ماحولیاتی آلودگی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔[43]

اس لئے حکومت کا یہ اہم فریضہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے جو قانون سازئی ہوئی ہے اس کو عملی جامہ پہنایا جائےتاکہ جنگلات کی وجہ سے آلودگی کو کم کیا جاسکے۔

4۔ صوتی آلودگی

وہ آواز جو انسان کی سماعت پر برا اثر ڈال دیتی ہے شور کہلاتا ہے۔ شور کی وجہ سے ماحول میں صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔شور گاڑیوں، لاوڈسپیکروں اور مشینوں کی آوازوں سے پیدا ہوتاہے۔شور وغل سےانسانی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہےاورانسان اعصابی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہےاسی لئے قرآن کریم میں عام بول چال کے سلسلے میں آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِك"[44]

"اور اپنی آواز کو پست رکھو۔"

صوتی آلودگی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر

صوتی آلودگی سے بچنے کے لئے سب سے پہلے آوازوں کو پست کرناچاہیئے چاہےوہ اپنی آواز ہو یا لاؤڈ سپیکر کی آواز، مشین کی آواز ہویا گاڑی کی آواز، ہر اُس آواز کو پست کرنا ہے جو انسانی سماعت پر اثرانداز ہوتی ہو۔ صوتی آلودگی کی روک تھام کے لئے چند تدابیر حسب ذیل ہیں:

1۔ شوروغل کی روک تھام کے لئے عملی حکمتِ عملی

شوروغل کے روک تھام کے لئے موثرعملی حکمتِ عملی ہونی چاہیئے، اس حوالے سے لاوڈ سپیکر کے استعمال اور کارخانوں کی بھاری مشینریوں کے شور وغل کو کم کرنے کے لئے تدابیر کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بلند آواز سے منع فرمایا ہے، ارشاد ہے:

"وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِير"[45]

"اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا، اور بولتے وقت ذرا آواز نیچی رکھناکیونکہ نا پسندیدہ ترین آواز تو گدھے کی آواز ہے۔"

چونکہ آلودگی کی تمام قسمیں بشمولِ صوتی آلودگی انسان کے لئے مضر ہیں اور نبی کریم ﷺ نے نقصان اور ضرر سے بچنے کے لئے ایسا ارشاد فرمایا ہے جو آلودگی سمیت دیگر مقامات پر ضرر کی صورت ایک عمومی قاعدے کی حیثیت رکھتا ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

"لا ضرر ولا ضرار"[46]

"نہ کسی کو نقصان پہنچانے میں پہل کرو اور نہ ہی نقصان کے بدلے نقصان پہنچاؤ۔"

2۔ آواز میں اعتدال سے کام لینا

اسلام نے جہاں تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے،وہاں آواز کے بارے میں بھی میانہ روی کا درس دیا ہےاور افراط وتفریط سے بچنے کی تلقین کی ہے ، جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا"[47]

"اور نماز نہ بلند آ واز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔"

نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپﷺ نے اس باب میں باقاعدہ صحابہ کرامؓ کی عملی تربیت فرمائی، اور ان کو آواز میں افراط وتفریط سے بچنے اور اس میں میانہ روی کی تعلیم دینے کے لئے عملی اقدامات فرمائے۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے:

"أَنَّ النَّبِيَّ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ يُصَلِّي يَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ، وَمَرَّ بِعُمَرَ وَهُوَ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ. قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: «يَا أَبَا بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ مِنْ صَوْتِكَ؟» فَقَالَ: قَدْ أَسَمِعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ فَقَالَ: «مَرَرْتُ بِكَ يَا عُمَرُ وَأَنْتَ تَرْفَعُ صَوْتَكَ؟» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْتِسَبُ بِهِ أُوقِظُ الْوَسْنَانَ، قَالَ: فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: «ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا» . وَقَالَ لِعُمَرَ: «اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ»"[48]

"رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور پست آواز میں تلاوت کر رہے تھے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے جو بلند آواز سے قراءت کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب وہ دونوں آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا آپ آہستہ آواز سے کیوں نماز پڑھ رہے تھے ؟انہوں نے کہا کہ میں جس سے سرگوشی کر رہا تھا وہ میری آواز سن رہا تھا اور حضرت عمر سے پوچھا کہ آپ کیوں بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں اونگھنے والوں کو جگانا چاہ رہا تھا۔ اس پر آپﷺ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا اپنی آواز کو کچھ بلند کر دو اور حضرت عمر سے فرمایا کہ اپنی آواز کو کچھ پست کر لو۔"

3۔ صوتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی

جولوگ صوتی آلودگی پھیلاتے ہیں اُن کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیئے تاکہ آئندہ کے لئے لوگ اس قبیح فعل سے باز آجائیں۔نبی کریمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سمجھایا جس کی وجہ سے صحابہ کرامؓ اس حوالے سے محتاط رہتے تھے، لیکن آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے مساجد میں شور وغل کو ایک جرم قرار دیا،جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مسجد نبویﷺ میں طائف کے دو آدمی بلند آواز سے باتیں کررہے تھے، حضرت عمرؓ نےاُن کا یہ عمل دیکھ اُن کو بلایا اور فرمایا:

"لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما، ترفعان أصواتكما في مسجد رسول الله؟!"

"اگرآپ شہر والوں میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ کیاتم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو۔"

اس حدیث کی تشریح میں دکتور احمد عبدالکریم تحریرفرماتے ہیں:

"يدل الحديث على كراهة رفع الصوت عموماً واستقباح فعله ، لما في ذلك من ذهاب بالسكون والهدوء وإضرار بحاسة السمع"[49]

"یہ حدیث بلند آواز کی کراہت اور اس فعل کی قباحت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں آرام وسکون متاثر ہو جاتا ہے اور سننے کی حس کو نقصان پہنچتا ہے۔"

نتائجِ بحث

ماحولیاتی آلودگی اوراس کا سدباب :سیرتِ طیبہ کی روشنی میں کے عنوان سے کی جانے والی اس ریسرچ سے جو نتائج اخذ ہوئے وہ درج ذیل ہیں:

  1. ماحولیاتی آلودگی عالمی سطح پر ایک خطرناک مسئلہ بنتا جارہا ہے، سیرت طیبہ کی رو سے اس کے سدِ باب کے لئے کاوشیں تمام افرادِمعاشرے کی ذمہ داری ہیں اس لئے مل کر اس کے خلاف جدوجہد کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔
  2. زمینی آلودگی کا ممکنہ حل صفائی ہے اورمٹی کو گندگی سے پاک وصاف رکھنا ہے، نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی تعلیمات سے اس بات کی ترغیب دی ہے جو اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔
  3. آبی آلودگی کی روک تھام کے لئے نبی کریمﷺ کی کاوشیں قابل تقلید نمونہ ہیں۔پانی کو صاف رکھنا اور گندگی سے بچانا، اسی طرح پانی کے برتنوں کو صاف رکھنا اور پانی کے اسراف سے بچنا آبی آلودگی سے بچنے کے لئے راہنما اصول اور مؤثر احتیاطی تدابیرہیں۔
  4. ہوائی آلودگی کے بنیادی عناصر مثلاً زہریلی گیسوں اور دھوئیں کی روک تھام کے لئے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مؤثر حکمتِ عملی تجویز کی گئی ہے۔اس قسم کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لئے شجرکاری کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور جنگلات کی کٹائی سے منع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
  5. صوتی آلودگی کی روک تھام کے لئے بھی سیرت طیبہ نے ایسے اصول پیش کئے ہیں جن پر عمل کرنے سے صوتی آلودگی میں کمی ہوسکتی ہے۔

سفارشات

  1. ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے لوگوں کی اگہی اہل علم کی ذمہ داری ہے، اس میدان میں صاحبانِ ممبر ومحراب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ عوام کو سمجھائیں کہ وہ ان اعمال وافعال کا حصہ نہ بنیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب ہوں۔
  2. ما حولیاتی آلودگی پر منعقدکردہ کانفرنسوں میں پیش کئے گئے مقالہ جات کو اربابِ مدارس اور صاحبانِ ممبر ومحراب تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس موضوع پر ان اسلامی تعلیمات کو پڑھ کر عوام الناس تک یہ اہم پیغام پہنچائیں۔
  3. اس موضوع پر لکھے گئے مقالہ جات کو اخبارات اور دیگر رسائل وجرائد میں شائع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے آگہی پیدا ہوجائے۔
  4. اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اس حوالے سے بھرپور کردار ادا کرے اور عوام میں یہ شعور بیدار کرے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہ بنیں، تو اس سے اس خطرناک عالمی مسئلے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
  5. حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرکے مختلف کانفرسوں کا انعقاد کرے اور ماہرین کی آراء کی روشنی میں قانون سازی کرے ، پھر اس کو عملی جامہ پہنائےتاکہ اس مسئلے کا تدارک ہوسکے۔


This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == زین الدین الرازی ،مختار الصحاح،مكتبة لبنان، بيروت، ۱۹۹۵ء، ۱:۲۸ Al Rāzī, Zain al Dīn, Mukhtār al Ṣiḥāḥ, (Beirut: Maktabah Lebonan, 1995), 1:28
  2. محمد بن مکرم بن منظور،لسان العرب، دار صادر، بيروت، ۱:۳۸ Ibn Manẓūr, Muḥammad bin Mukarram, Lisān al ‘Arab, (Beurit: Dār Ṣadir), 1:38
  3. سورۃ الحشر: ۹ Sūrah al Ḥashar, 9
  4. محمد عبدالقادر الفقی،البيئة ، مشاكلها وقضاياها وحمايتها من التلوث، مكتبة ابن سينا، ۱۹۹۹ء، ص:۱۴ Al Fiqqī, Muḥammad ‘Abd al Qādir, Al Bī‘ah: Mashākiluhā wa Qazāyāhā wa Ḥimayatuhā min al Talawwuth, (Maktabah Ibn Sīnā, 1999), p:14
  5. امام الٔاستاذ الدکتور عبد القادر،البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامی، دولة الإمارات العربية المتحدة، ص:۵ Dr. ‘Abd al Qādir, Al Bī‘ah wal Ḥifāẓ ‘Alayhā min Manẓūr Islāmī, (U.A.E), p:5
  6. ایضاً، ص:۶ Ibid., p:6
  7. محمد بن مکرم بن منظور،لسان العرب ، مادة ( لوث )، ۲:۱۸۷ Ibn Manẓuwr, Lisān al ‘Arab, 2:187
  8. مختار الصحاح للرازي، ۱:۲۵۳ Al Rāzī, Mukhtār al Ṣiḥāḥ, 1:253
  9. قانون حماية البيئة الإسلامي مقارناً بالقوانين الوضعية، د.احمد عبد الكريم سلامة ، دارِ ابن حزم ، بیروت، ص: ۲۸ Dr. Aḥmad ‘Abd al Karīm Salāmah, Qānūn Ḥimāyat al Bī‘ah al Islāmī Muqārinan bil Qawānīn al Waḍ‘īyyah, (Beirut: Dār Ibn Ḥazm), p:28
  10. سورۃ التوبة:۱۰۸ Sūrah al Tawbah, 108
  11. البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامي، ص: ۵۹ Al Bī‘ah wal Ḥifāẓ ‘Alayhā min Manẓūr Islāmī, p:59
  12. سورۃ الروم: ۴۱ Sūrah al Rūm, 41
  13. موقف القرآن من العبث البشري بالبيئة، محمد محمود كالو،دارالکتاب بیروت، ص: ۳ Muḥammad Maḥmūd Kālū, Mawqif al Qur’ān min al Ba’ath al Basharī bil Bī‘ah, (Beirut: Dār al Kitāb), p:3
  14. مسند احمد ، باب حديث ابي مالك الأشعري، رقم: ۲۲۹۰۲ Aḥmad, Musnad, Ḥadīth
    1. 22902
  15. مسند احمد، مسند ابي بكر الصديق رضي الله عنه، رقم: ۷ Aḥmad, Musnad, Ḥadīth
    1. 7
  16. صحيح البخاري، باب: هل يقرع في القسمة والاستهام فيه، رقم: ۲۴۹۳ Ṣaḥīḥ Al Bukhārī, Ḥadīth
    1. 2493
  17. ڈاکٹر احمد بن یوسف الدرویش،ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ فقہ اسلامی کی روشنی میں، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد،ص: ۲۲ Dr. Aḥmad bin Yūsuf al Darwaish, Māḥawliyātī ‘Ālūdgī sy Taḥaffuẓ Fiqh e Islāmī ki Roshnī me, (Islamabad: Shari’ah Academy), p:22
  18. الإسلام وحماية البيئة ، الدكتور شوقي احمد، دارالعلم لنشر والتوزیع، قاهره، ص: ۱۳ Dr. Shawqī Aḥmad, Al Islām wa Ḥimayah al Bī‘ah, (Cairo: Dār al ‘Ilm lil Nash wal Tawzī), p:13
  19. موقف القرآن من العبث البشري بالبيئة، ص:۵ Mawqif al Qur’ān min al Ba’ath al Basharī bil Bī‘ah, p:5
  20. صحيح مسلم، باب جعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، رقم: ۵۲۱ Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth
    1. 521
  21. عبد الرحمٰن بن احمد بن رجب الحنبلی،فتح الباري، مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة النبوية، ۱۹۹۶ء، ۲:۲۰۹ Ibn Rajab, ‘Abd al Raḥmān bin Aḥmad, Fatḥ al Bārī, (Madīna: Maktabah al Ghurabā‘ al Athariyyah, 1996), 2:209
  22. سورۃ الأعراف:۵۸ Sūrah al A’rāf, 58
  23. احمد بن الحسین البیہقی،السنن الكبرى،مجلس دائرة المعارف النظاميةحيدر آباد، ۱۳۴۴ھ، ۱:۹۷ Al Bayhaqī, Aḥmad bin al Ḥusain, Al Sunan al Kubra, (Hyderabad: Dā‘irah al Ma’ārif al Niẓāmiyyah, 1344), 1:97
  24. صحيح ابن حبان، الإيمان بضع وسبعون شعبة ، رقم: ۱۹۱ Ṣaḥīḥ Ibn Ḥibbān, Ḥadīth
    1. 191
  25. صحيح ابن خزيمة،باب ذكر العلة التي لها أمر بدفن النخامة في المسجد، رقم: ۱۳۱۱ Ṣaḥīḥ Ibn Khuzaymah, Ḥadīth
    1. 1311
  26. صحيح ابن حبان، ذكر الاخبار عن كفارة الخطيئة التي تكتب لمن بصق في المسجد، رقم:۱۶۳۷ Ṣaḥīḥ Ibn Ḥibbān, Ḥadīth
    1. 1637
  27. محمد علی البکری،دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين،دار المعرفة للطباعة والنشربيروت، ۲۰۰۴ء،۸:۵۱۷ Al Bikrī, Muḥammad ‘Alī, Dalīl al Fāliḥīn li Ṭuruq Riyādh al Ṣāliḥīn, (Beirut: Dār al Ma’rifah lil Ṭaba’ah wal Nashr, 2004), 8:517
  28. سنن ابي داود، باب في بئر بضاعة، رقم: ۷۰ Sunan Abī Dāwūd, Ḥadīth
    1. 70
  29. سنن ابن ماجه، بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقَصْدِ فِي الْوُضُوءِ وَكَرَاهِيَةِ التَّعَدِّي فِيهِ، رقم: ۴۲۵ Sunan Ibn Majah, Ḥadīth
    1. 425
  30. مسند الطيالسي، صفية بنت شيبة عن عائشة، رقم: ۱۶۶۸ Musnad al Ṭiyālasī, Ḥadīth
    1. 1668
  31. مد عربی پیمانہ ہےجس ایک پورے رطل اور ایک ایک تہائی رطل کا برابر ہے۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ابن عابدين، محمد امين، دار الفكر،بيروت ،طبع دوم، ۱۹۹۲ء، ۱:۱۵۸ Ibn ‘Ābidīn, Muḥammad Amīn, Al Durr al Mukhtār wa Ḥāshiyah Ibn ‘Ābidīn, (Beirut: Dār al Fikr, 2nd Edition, 1992), 1:158
  32. صاع ایک پیمانہ ہےجس میں چار مد آتے ہیں۔( الموسوعة الفقهية الكويتية، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الكويت، طبع دوم، دارالسلاسل، الكويت، ۳۸:۲۹۶ Ministry of Awqāf and Islamic Affairs Kuwait, Al Mawsū‘ah al Fiqhiyyah al Kuwaytiyyah, (Kuwait: Dār al Salāsil, 2nd Edition), 38:296
  33. مستخرج ابى عوانة,بىان الأخبار الموجبة تغطيةالاناءوايكاء،رقم: ۸۶۰۸ Mustakhraj Abī ‘Awānah, Ḥadīth
    1. 8608
  34. مصنف ابن ابي شيبة، كتاب الاشربة، رقم: ۳۴ Ibn Abī Shaybah, Al Muṣannaf, Ḥadīth
    1. 34
  35. http://www.bbc.com/urdu/science/2014/03/140325_air_pollution_danger_zs
  36. السنن الصغير ، بَابُ كَرَاهِيَةِ قَتْلِ الصَّيْدِ وَقَطْعِ الشَّجَرِ بِوَجٍّ مِنَ الطَّائِفِ، رقم: ۱۶۰۰ Al Sunan Al Ṣaghīr, Ḥadīth
    1. 1600
  37. ابی یوسف، يعقوب بن إبراهيم الخراج ، ،المطبعةالسلفية ومكتبتها، القاهرة، ۱۳۸۲ھ، ص: ۱۰۴ Abū Yūsuf, Ya’qūb bin Ibrāhīm, Al Khirāj, (Cairo: Al Maṭba’ah al Salafiyyah, 1382), p:104
  38. البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامي، ص: ۷۵ Al Bī‘ah wal Ḥifāẓ ‘Alayhā min Manẓūr Islāmī, p:75
  39. سورۃ الدخان :۱۰،۱۱ Sūrah al Dukhān, 10,11
  40. http://www.bbc.com/urdu/science/2014/03/140325_air_pollution_danger_zs
  41. صحيح ابن خزيمة، بَابُ النَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِ الْمَسَاجِدِ لِآكِلِ الثُّومِ، رقم: ۱۶۶۴ Ṣaḥīḥ Ibn Khuzaymah, Ḥadīth
    1. 1664
  42. مستخرج ابي عوانة، باب ذكر الأخبار المبيحة مؤاجرة الأرض، رقم: ۵۱۹۳ Mustakhraj Abī ‘Awānah, Ḥadīth
    1. 5193
  43. الإسلام والبيئة ، للدكتور محمد الزيادي، ص: ۲۶ Dr. Muḥammad al Ziyādī, Al Islām wal Bī‘ah, p:26
  44. سورۃ لقمان: ۱۹ Sūrah Luqmān, 19
  45. سورۃ لقمان: ۱۹ Sūrah Luqmān, 19
  46. موطأ مالك ، باب القضاء في المرفق، رقم: ۳۱ Mu’aṭṭa Imām Mālik, Ḥadīth
    1. 31
  47. سورۃ الإسراء: ۱۱۰ Sūrah al Isrā‘, 110
  48. المستدرك على الصحيحين للحاكم ، مِنْ كِتَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، رقم: ۱۱۶۸ Al Ḥākim, Al Mustadrak ‘Ala al Ṣaḥīḥayn, Ḥadīth
    1. 1168
  49. قانون حماية البيئة الإسلامي مقارناً بالقوانين الوضعية، ص: ۳۳۹-۳۴۱ Qānūn Ḥimāyat al Bī‘ah al Islāmī Muqārinan bil Qawānīn al Waḍ‘īyyah, p:339-341
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...